Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوف

MORE BYریاض توحیدی

    اس کے وجود پر خوف کا بھیانک سایہ چھایا ہوا تھا۔ کپکپی طاری ہوتے ہی وہ لاشعوری کے عالم میں تھرتھراتے ہاتھ سے اپنا گال تھام لیتا۔ اس کی نفسیات پر اس خوف ناک زہریلے جنگلی سانپ کی دہشت اثر انداز ہوچکی تھی۔ خوف نے اس کی سوچ پر ایک حُلیہ نقش کیا تھا اور جب بھی اس حلیہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرا جاتی تو خوف کا یہ زہر یلا جنگلی سانپ اس کے انگ انگ کو ڈسنا شروع کر دیتا۔

    کلا س روم میں ایک مرتبہ ٹیچر نے پانچویں جماعت کے طلاب سے کہا کہ حروف تہجی کے مطابق ہر طالب علم بورڈ پر حرف کے ساتھ تصویر بھی بنائے تو اس نے حرف ’’خ‘‘ سے ’’خوف‘‘ لکھا اور سامنے حلیہ بنا ڈالا۔ ماسٹرجی یہ دیکھ کر ہنس پڑے اور اسے سمجھاتے ہوئے بولے:

    ’’بیٹا تم نے ’’خ‘‘ کے سامنے پولیس والے کی تصویر بنائی وہاں پر’’ح‘‘ حفاظت کرنے والا لکھو، کیونکہ پولیس والا قانون کا محافظ ہوتا ہے۔ وہ ہماری حفاظت کرتا ہے۔ پولیس کے بغیر سارا امن وامان بگڑ جائےگا اور ہرجگہ قاتلوں اور ڈاکوؤں کا خوف پھیلےگا۔‘‘

    خوف کے زہریلے جنگلی سانپ نے اس کے وجود کو ڈسنا شروع کر دیا۔ تھرتھراتا ہاتھ اس کے گال کی طرف بڑھنے لگا اور وہ ’’حفاظت‘‘ نہیں، ’’حفاظت‘‘ نہیں، ’’خوف ‘‘ خوف چلاتا ہوا کلا س روم سے بھاگ گیا۔ ماسٹر جی اس کی یہ عجیب حالت دیکھ کر حیران ہوا۔

    خوف کے اس زہریلے سانپ نے اس کے ذہن پر اس وقت پھن مارا تھا جب کالی رات کے گہرے سایوں کے درمیان بےلگام بندوق کی شعلے برساتی گولیوں نے اس کے والد کی روح کے ساتھ ساتھ قانون کی روح کو بھی ختم کر ڈالا تھا اور اس معصوم نے کالا نقاب اوڑھے بندق بردار کی ٹانگ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روتے روتے پوچھا تھا کہ تم نے میرے ابوجان کو کیوں گولی ماری۔ جواب میں نقاب پوش نے غصے میں آکر اس کی گال پر ایک ایسا زور دار تھپڑ مارا تھا کہ اس کے دانت ہل اٹھے تھے۔

    سہیل کا والد محمد انور ایک حق پرست اور خوددار انسان تھا۔ ایک میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ اپنے مریضوں کو جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ ایمان داری، حق پرستی اور خودداری کے روحانی علاج سے بھی نواز تا رہتا۔ حکیم الامّت علامہ اقبالؔ کا درجہ ذیل شعر ہمیشہ اس کی زبان پر ہوتا تھا؂

    آئین جواں مرداں حق گوئی و بےباکی

    اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

    بستی کے لوگ ڈاکٹر محمد انور کی بڑی قدر کیا کرتے تھے اور اس کی ایمان داری اور خودداری کی مثال دیا کرتے تھے۔ ایک دن پولیس حراست کے دوران بستی کے ایک معصوم نوجوان کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس نے لاش کو سرکاری اسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے داخل کرایا۔ ڈاکٹر محمد انور نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا کہ مذکورہ نوجوان کی موت حراستی ٹارچر کے دوراں ہوئی ہے۔ لوگوں کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے مسئلہ زور پکڑتا رہا۔ جب اوپر سے پولیس پر دباؤ بڑھ گیا تو انہوں نے ڈاکٹر انور کو پوسٹ مارٹم رپورٹ بدلنے پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ کئی دنوں تک جب پولیس کا دھونس دباؤ ڈاکٹر محمد انور کی ایمان دار ی اور خود داری کے سامنے دم توڑ بیٹھا تو قانون کے محافظ آخرکار اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے رات کے اندھیرے میں اس کے گھر میں گھس گئے۔ انہوں نے جب تلاشی کے بہانے گھر کے زیورات پر ہاتھ ڈالا تو ڈاکٹر محمد انور نے ڈاکوؤں جیسی اس حرکت پر احتجاج کرنا شروع کیا۔ بندوق کے دہانے شعلے برسانے لگے اور دوسروں کی جان بچانے والا ڈاکٹر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ہیڈ کوارٹر کو مسیج دی گئی کہ ملی ٹنٹوں اور پولیس کے درمیان انکاونٹر کے دوران ڈاکٹر محمد انور مارا گیا۔

    سہیل جب بڑا ہوا تو خوف کا یہ زہر یلا جنگلی سانپ نفرت کا خوفناک اجگر بن چکا تھا۔ گریجویشن کرنے کے بعد پولیس کی ایک خصوصی بھرتی مہم میں سہیل بھی وائر لیس آپریٹر سلیکٹ ہو گیا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے ساتھ ہی اسے ایس۔ ایس۔ پی۔ کے ہمراہ وائر لیس آپریٹر کی حیثیت سے رکھا گیا۔ وہ اپنا فرض بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتا رہا۔ اس کی شخصیت اگرچہ خودداری کے جو ہر سے آراستہ تھی تاہم خوف کے زہریلے جنگلی سانپ نے اس کی سادہ فطرت کو زہر آلودہ بنا کے رکھ چھوڑا تھا۔ مظلوم والد نے اسے ایک ایماندار ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا لیکن خوف کے کالے ہاتھوں نے انسانیت کا قتل کرتے ہوئے سہیل کے بہتر مستقبل کو بھی قتل کر ڈالا تھا۔ وہ سوچتار ہتا کہ قانون اصل میں اندھا نہیں ہوتا ہے بلکہ روشن قانون کے کالے پاسبانوں کے کالے کر تو ت ہی اسے اندھے قانون کا درجہ دلواتے ہیں اور ان کے فریب شدہ دعوے ہی ایک تعمیری ذہن کو تخریبی سوچ میں بدل دیتے ہیں۔ سہیل کے ذہن پر کالے پاسبانوں کا سیاہ سایہ اس طرح سے چھایا ہوا تھا کہ اس کی سوچ میں پولیس اور خوف ہم شکل وجود بن گئے تھے۔

    خوشگوار فضا ئیں بدامنی کے منحوس بادلوں کی زد پر تھیں۔ پرامن ذہن خوف کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ ہر نئے حادثے کے ساتھ ساتھ سیاسی کرگس میڈ یا کے ذریعے لوگوں کو امن وامان قائم رکھنے کی روایتی اپیلیں کرتے اور حادثہ کے ذمہ دار افراد کو سزا دلوانے کے سیاسی وعد ے کرتے رہتے۔ عام شہری سیاسی کرگسوں کے ان کھوکھلے وعدوں کی اصلیت جان چکے تھے اور وہ ان وعدوں کو کسی ناکام کمپنی کے پروڈکٹ ایڈورٹائیزینگ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ایس۔ ایس۔ پی۔ کو شہر میں امن وامان بحال کرنے کے سلسلے میں قومی ایوارڈ سے نوازنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ سارا گھر خوشی سے جھوم رہا تھا۔ایس۔ ایس۔ پی۔ مبارک بادی کی ہر کال پر بڑے کروفر کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہوے دل ہی دل میں اپنے کارناموں پرفخر کر رہا تھا۔ ایس ۔ایس۔ پی۔ کا لڑکا لیپ ٹاپ پر گیم کھیلنے میں مست تھا۔ ماں نے دودھ کا گلاس دیتے ہوئے اسے سمجھانے لگی کہ گیم کھیلنے کے بدلے پڑھائی کی طرف دھیان دیاکر تاکہ توبھی اپنے ڈیڈی کی طرح ایک بڑا عزت دار پولیس افسر بن سکے۔بیٹے نے میاں بیوی کو یہ کہتے ہوئے ہنسا دیا کہ ممی زندگی بھی تو اصل میں ایک گیم ہی ہے کبھی گول اس طرف تو کبھی گول اس طرف اور مجھے صرف ڈاکٹر بننا ہے پولیس افسر نہیں۔ ڈاکٹر کا لفظ سنتے ہی سہیل کی آنکھیں نم ہو گیں۔ اسے اپنے معصوم و مقتول والد کی بات یاد آ گئی کہ ’’سہیل میں تجھے ڈاکٹر بناونگا۔‘‘ ایس۔ ایس۔ پی۔ صبح سویرے سرکاری ایوارڈ پانے کے لئے فیملی سمت گیٹ پر کھڑی اپنی شاندار گاڑی میں سوار ہوا۔ گاڑی اسٹاٹ ہوتے ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ سہیل کا ایک ہاتھ تھر تھرا تے ہوئے اس کے گال کی طرف بڑھنے لگا اور دوسرے ہاتھ سے وہ وائر لیس پر پولیس کنڑول روم کو مسیج دینے لگا:

    ’’ملی ٹنٹوں کے ایک خوفناک دھماکے میں ایس۔ ایس ۔پی صاحب فیملی سمیت شہید ہوگئے۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے