Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خیالی دنیا

محمد علیم اسماعیل

خیالی دنیا

محمد علیم اسماعیل

MORE BYمحمد علیم اسماعیل

    وہ ایک ذہین و محنتی لڑکا تھا اور بڑے ہی اچھے اخلاق کا مالک تھا۔ فیس بک پر اس کے دوستوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، اتنے ہی فالورز ٹویٹر پر تھے اور واٹس اپ کانٹیک بھی کچھ کم نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ آن لائن رہتا، ہر کسی کی فرینڈ رکوسٹ قبول کرتا، کبھی کسی کو بلاک نہیں کرتا،کسی کا دل دکھے ایسا کوئی کمینٹ نہیں کرتا، وہ بہت سے گروپس کا ایک سرگرم رکن تھا۔ وہ ہراچھی پوسٹ کو دل کھول کر لائک و شیئر کرتا اوراپنی پوسٹ سبھی دوستوں کو ٹیگ کرتا، اس کی پوسٹ آتے ہی لائک اور کمینٹ کی بوچھار ہو جاتی، سبھی دوست اسے بہت پسند کرتے، وہ روزانہ اپنے اسٹیٹس کو موثر خیالات سے اور ڈیسک ٹاپ فوٹوں دلکش تصویر سے تبدیل کر دیتا اور اپنے دوستوں کے تبدیل کیے گئے اسٹیٹس بھی روز پڑھتا تھا۔ ایک دن اس کو اپنے ایک جگری دوست سہیل کا اسٹیٹس اور ڈیسک ٹاپ فوٹوں خالی (Blank) نظر آیا تب اس نے اپنے دوست کو فوراً یہ مسیج بھیجا۔

    ’’جہاں ڈیسک ٹاپ فوٹوں ہر روز تبدیل ہو تی ہو اور اسٹیٹس بھی برابر بدل جاتا ہو جس سے طبعیت کی خوش مزاجی، خوش حالی، رنگینی اور بیباکی کا پتہ چلے وہاں آج اتنی خاموشی، بےرنگی، اداسی اور مایوسی کیوں چھائی ہے۔‘‘

    ایک روز کی بات ہے وہ فیس بک پر آن لائن تھا تب ہی اس کے موبائل پر ایک مسیج آیا کہ ’’آپ کا انٹر نیٹ ڈاٹا کم ہے۔‘‘ اس نے سوچا کے پورا ڈاٹا ختم ہونے سے پہلے ہی نیٹ کا ریچارج کر لیتا ہوں۔ یہ سوچ کے وہ اٹھا اپنی گاڑی نکالی اور تیزی سے چل پڑا۔ موبائل اس کی جنس (پتلون) کی جیب میں تھاتب ہی واٹس ایپ کے مسیج آنے کی رنگ ٹون بجی اور وہ یہ سمجھ گیا کہ واٹس ایپ پر کسی کا مسیج آیا ہے تب اس نے ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے موبائل اپنی جیب سے نکالا اور مسیج دیکھنے لگا۔ اسی وقت سامنے تیز رفتار سے آنے والی ایک کار اسے دکھائی نہیں دی اور وہ ٹکرا گیا۔ کار والا موقع واردات سے بھاگ گیا تھا اور وہ اوندھے منہ زخمی حالت میں خون میں لت پت پڑا ہوا تھا۔ وہ بہت دیر تک ایسے ہی پڑا رہا اس کے آس پاس خون کے بڑے بڑے دھبے جم گئے تھے۔ پھر کچھ لوگوں نے اسے دواخانے پہنچایا۔ اس کے موبائل سے اس کے گھر کا نمبر نکالا گیا جو ہوم’’HOME‘‘ نام سے محفوظ تھا۔ گھر والے فون پر خبر سنتے ہی دوڑے دوڑے اسپتال میں چلے آئے۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اسے آئی۔ سی۔ یو۔ (ICU) روم میں لے گئی۔ آئی۔ سی۔ یو۔ روم کے باہر کھڑے ماں، باپ، بھائی اور بہن درد بھری نگاہوں اور خوف زدہ چہروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اور ہر بار ان کے دل سے اس کی سلامتی کی دعا نکلتی جاتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جب آئی۔ سی۔ یو۔ روم سے باہر آئے تب گھر کے سبھی افراد نے انھیں گھیر لیا اور حسرت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ’’خون بہت بہہ چکا ہے ہم کوشش کر رہے ہیں باقی اللہ مالک ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی ماں کی آنکھوں سے بےاختیار آنسوں جاری ہو گئے۔ بہن ماں کو سمجھا رہی تھی لیکن چھپ چھپ کر بہن بھی روتی جاتی تھی۔ باپ اور بھائی دونوں کے آنسوں سوکھ گئے تھے پر دل رو رہا تھا، دونوں پیسوں کا انتظام کرنے نکل گئے۔ دو دن تک گھر کے سبھی افراد کی پریشانی کا عالم دیکھا نہ گیا اور دو دن سے کسی کے پیٹ میں ایک دانہ نہ گیا۔آج جب دو دن بعد وہ ہوش میں آیا تو اس کے سامنے ماں، باپ، بھائی اور بہن اپنی پریشان فکروں کو لیے کھڑے تھے اور اس کی صحت یابی کی دعا کر رہے تھے۔ جب اس نے دیکھا کہ آج وہی لوگ اس کے لیے پریشان تھے جن کے لیے کبھی بھی اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ تو اس کی آنکھوں سے بھی بےاختیار آنسوں جاری ہو گئے۔ ماں، باپ، بھائی اور بہن اسے دیکھ دیکھ خو ش ہو تے جاتے تھے اور وہ بھی انھیں دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کیونکہ آج وہ خیالی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آ گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے