کھودو بابا کا مقبرہ
کہانی کی کہانی
’’یہ کہانی بڑے شہروں میں عام آدمی کی بے قدری اور مشکل بھری داستان کو بیان کرتی ہے۔ اس جھگی بستی میں کھودو بابا پتہ نہیں کہاں سے چلے آئے تھے۔ ٹھیکیدار نے انہیں قبرستان کی زمین ہتھیانے کی نیت سے ایک پکا چبوترہ دے دیا تھا۔ اس چبوترے پر بیٹھ کر کھودو بابا ایک کتے کے معرفت اپنی بیتی زندگی کی کہانی سناتے ہیں اور لوگوں کے دکھ درد کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
کھودو بابا اور شام اس جھونپڑ پٹی میں آگے پیچھے داخل ہوئے۔ شام تو آپ ہی آپ سایہ سایہ آگے بڑھ گئی اور کھودو بابا کو دیکھ کر ایک پلا ہوا کتا گویا یہ کہنے کے لیے بھونکا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ اور اس کے آگے آگے ہولیا اور چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں کے بیچوں بیچ کئی تنگ راستوں سے گزر کر اسے ایک نمایاں جھونپڑے کے دروازے پر لاکھڑا کیا۔ بابا نے شاید اپنے آپ سے کچھ کہنے یا جھونپڑے والے کو بلانے کے لیے صدالگائی، حق! جس پر خفا ہوکر کتا بھونکنے لگا۔ واہوں! واہوں۔۔۔ چوہدری کو بلانا، نہ بلانامیرا کام ہے بابا۔ وہوں!
’’سن لیا ہے، بندھوں، سن لیا ہے۔‘‘ رکھا چوہدری اپنی شلوار اونچی کرتے ہوئے جھونپڑے سے باہر نکلا اور ان کی طرف آتے آتے شلوار کے ازاربند میں ڈھیل محسوس کرکے اسے کسنے کے لیے رک گیا۔ ’’کسے پکڑ لائے ہوں؟‘‘ اس کی ناک میں شاید چند فالتو سوراخ تھے، جن سے اس کی آواز لیک ہو ہو کر جابجا نون میں بھر جاتی تھی۔ ہر کسی کو ماں باپ بناں کے لے آتے ہوں۔ میں کنس کنس کوں گھردوں۔۔۔؟ بولوں!‘‘
بندھوکتا بدک کر ذرا پیچھے ہٹ گیا اور کھودو بابا کی طرف سر اٹھاکے غرایا ، ’’بولو!‘‘ مگر بابا خاموش کھڑا رکھے چوہدری کو گھورتا رہا۔
’’ایسے گھور کے کیوں دیکھ رہےہوں، باباں؟‘‘ چوہدری گھور کر مونچھوں کا تاؤ دینے لگا، ’’میں کوئی اور نہیں میں ہی ہوں۔‘‘
’’نہیں، کھودو۔‘‘ کھودو بابا نے اپنی گھنی داڑھی میں سے منہ کھولا، ’’کھودو کو کیا معلوم، کھودو کون ہے؟‘‘
چوہدری کو غصہ آنے لگا، ’’میراں نام کھودو نہیں باباں۔‘‘
چوہدری ابھی اپنا غصہ اتار بھی نہ پایا تھا کہ بابا نے پھر اچانک صدا لگائی ’’حق!‘‘ اور ایک پتھر اٹھاکر اس کے پیروں کی طرف دے مارا۔
’’ار۔رے!‘‘ چوہدری پیچھے اچھل گیا اور پھر اپنے سامنے ایک کچلے ہوئے بچھو پر نظر پڑنے پر کھڑا رہ گیا۔
’’باپ رے!‘‘ جسے وہ کوئی گدا گر سمجھ رہا تھا وہی اب اسے کوئی ولی دکھنے لگا۔ ’’جھگی چاہیے باباں؟ ضرور دوں گا۔ اوروں سے سنگل جھگی کی زمین کے پورے پنج اوپر پنج سینکڑے، پر تم پنج اوپر دون سینکڑے بھی دے دوں تو چلے گاں۔‘‘
’’میرے ہاتھوں ناحق ایک خون ہوگیا کھودو۔‘‘ بابا کو اطمینان بھی تھا کہ چوہدری کا بچاؤ ہوگیا ہے۔ اور افسوس بھی کہ بچھو کچلا گیا ہے۔
’’میراں نام،‘‘ چوہدری نے بابا کو بتانا چاہا کہ اس کا نام کھودو نہیں ہے مگر اس نے خود کو روک لیا۔ ’’بچھوں کوں مارنے کا دکھ کاہے کاں، باباں؟ جو کاٹتا ہے اسے مارنا ہی اچھا ہے۔‘‘
’’بچھو بھی کہتے ہیں، جو مارتا ہے اسے کاٹنا ہی اچھا ہے۔‘‘
اسی اثنا میں بندھو کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ بابا کے پیروں پر لوٹنے لگا۔
’’ارے بھاگوں کتے کی اولاد،‘‘ رکھا چوہدری ایک ہاتھ اوپر کرکے اس کی طرف بڑھا۔ ’’جاؤں اپنی چونکیداری کروں۔‘‘
مگر کھودو بابا نے جھک کر پیار سے کتے کی پیٹھ تھپتھپائی، اور اپنا سر اوپر اٹھانے سے پہلے زمین سے مٹی کی مٹھی بھر کر اپنے سر میں ڈال لی۔
رکھا چوہدری پہلے تو اسے استعجاب سے دیکھتا رہا اور پھر یہ خیال آنےپر اس نے عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے کہ یہ تو واقعی کوئی کرامتی بابا ہے۔ ’’باباں تم، کہاں پنج اوپر دون سینکڑوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہوں گے؟ پر کوئی بات نہیں۔‘‘ وہ پھر اپنا ازاربند کسنے لگا۔ ’’اندر آؤں اور مجھ سے یہ سارے پیسے وصول کرکے میرے ہی ہاتھ میں تھماں دوں۔‘‘ وہ کھی کھی ہنس رہا تھا۔ ’’بانت یہ ہے کہ چوہدری مفت میں جان دے دے توں دے دے، پر جھگی نہیں دیتاں۔۔۔ آؤں۔۔۔ باباں اندر آں کے براجوں۔‘‘
چوہدری بدستور بندھے ہاتھوں اپنے دروازے کی طرف مڑ کر بندھو کے مانند دم نکالے کھودو بابا کے آگے آگے ہولیا اور کھودو بابا اس کے پیچھے پیچھے۔ اور ان کی پشت پر بندھو اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہوکر اگلی کو اپنے مالک کے مانند سینے پر باندھنے کا جتن کر رہاتھا اور اپنی کوشش میں ناکام ہونے پر گلے سے کچھ ایسی یک حرفی بھونک پیدا کرتا تھا جیسے حق کی صدا لگا رہا ہو۔
جھونپڑے کے اندر پہنچ کر رکھے چوہدری نے اپنے ہاتھوں کشیدکی ہوئی شراب سےبابا کی تواضع کرنا چاہی۔ اس نے سوچا کہ پہنچا ہوا فریق ہے۔ چوتھے یا پانچویں آسمان کا باسی تو ہو گا ہی۔ آنکھیں اور اوپر چڑھ جائیں گی تو آپ ہی آپ ساتویں آسمان میں جاپہنچے گا۔ اور مجھ سے پوچھے گا۔ حق! مانگوں کھودوں، کیا مانگتے ہوں؟ وہ جی ہی جی میں کھودو بابا سے مانگنے لگا۔ اور کیا مانگنے کا ہے بابا؟ رام چرن کی جوروں روز میری جلیبیاں کھاکے بھی ہتھے نہیں چڑھ رہی۔ بس وہ رام ہوجائیں تو اپنا بول بالا! مگر جب اس نے شراب کا گلاس کھودو بابا کے سامنے رکھا تو بابا نے ’حق‘ کا نعرہ بلند کرکے اسے فرش پر پٹخ دیا اور ایسا کرتے ہوئے اس کا ہاتھ زخمی ہوگیا اور پھر ہتھیلی کے خون کو داڑھی سے صاف کرتے ہوئے وہ وہاں سے اٹھنے لگا تھا کہ چوہدری اس کے قدموں پر گر پڑا اور دل ہی دل میں رام چرن کی جورو کو کوسنے لگا کہ وہ سیدھے سیدھے بس میں آجائے تو اسےاس جوکھم میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
بابا کے قدموں پر گرا پڑا چوہدری، ٹوٹے ہوئے گلاس کی کرچیاں اکٹھی کرنے لگا۔
’’جو معاف نہیں کرتا کھودو۔‘‘ کھودو بابا پھر آرام سے بیٹھ چکا تھا۔ ’’وہ بھی اسی گناہ کا سزاوار ہوتا ہے۔ جسے وہ معاف نہیں کرتا۔‘‘
چوہدری خوش ہوکر الماری سے جلیبیوں کالفافہ نکال لایا جسے اس نے رام چرن کی جورو کے لیے رکھا ہوا تھا۔ ’’جلیبیاں کھاؤں باباں،‘‘ وہ سوچ رہا تھا۔ ’’وہ آپ تو سالی کوئی اچھا کام کرتی نہیں، میں ہی اس کے لیے تھوڑاں ثواب کمالوں۔‘‘
کھودو بابا نے جلیبیوں کالفافہ ہاتھ سے ایک طرف کردیا، ’’نہیں، میٹھا کھانے والا خوابِ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔‘‘
’’خوابیں غفلت! کیا خونب۔۔۔‘‘ چوہدری اپنی انگلیاں چومتے ہوئے گویا کھودو بابا کے الفاظ چوم رہا ہو۔
’’اگر ہوسکے، کھودوں، تو اللہ کے نام پر خشک روٹی کھلادو۔۔۔‘‘
چوہدری کے پاس بندھو کتے کے لیے دو تین روٹیاں رکھی تھیں، وہ اپنے آپ کو بتانے لگا۔ ایک دن میں نہیں دوں گا تو بندھو کہیں اور سے مار لائے گا۔ وہ کپڑے میں لپٹی ہوئی روٹیاں نکال لایا اور انہیں بابا کے آگے رکھ کر پانی کا گلاس لانے کو اٹھا۔
’’صرف ایک،‘‘ بابا نے ایک روٹی نکال کر ہاتھ میں لے لی۔ ’’کیا میں تمہارے بندھو کا حق تو نہیں مار رہا؟‘‘
’’تم تو جانی جان ہو باباں۔ تھورا رک جاؤ تو میں گھڑی بھر میں تازہ روٹیاں بنائے دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں، تازہ بندھو کے لیے بنالینا، کھودو۔‘‘ کھودو بابا خدا کا شکر ادا کرکے منہ میں پہلا لقمہ ڈالنے لگا۔
’’روٹی پر ذرا سا نمک ہی ڈال لوں، بابا۔‘‘
’’ہاں، کھودو، تھوڑا نمک ضرور دو،‘‘ بابا پہلی بار ہنسا تو چوہدری کو لگا کہ اس کے جھونپڑی میں اجالا ہوگیا ہے، ’’تاکہ نمک حرامی کے خوف سے تمہارا احسان سدا یاد رہے۔‘‘
’’ناں، باباں، ایسا مت کہو،‘‘ بابا کے سامنے نمک کی ڈبیا رکھتے ہوئے چوہدری کو اپنی شرمساری پر پیار آنے لگا تھا۔
بابا نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس کی طرف اس طرح گھور کر دیکھا جیسے وہ اپنے پیچھے بھی بیٹھا ہو۔ چوہدری نے گھبراکر اپنے اطمینان کے لیے سر موڑلیا۔
’’کسے دیکھ رہے ہو، کھودو؟‘‘
’’جسے تم دیکھ رہے ہوں باباں،مگر میں تو یہاں ہوں۔‘‘
’’یہاں بھی کہاں ہوں، کھودو؟ بابا شاید سرل نظر آنے کے لیے اپنی روٹی پر نمک چھڑکنے لگا۔‘‘
’’باباں کی باباں ہی جانے۔‘‘ خود کو سمجھاکر چوہدری بابا سے پوچھنے لگا، ’’باباں، ایک بات بتاؤگے؟ تم مجھے کھودو کیوں بولتے ہوں؟‘‘
’’کیونکہ میں بھی کھودوں ہوں،‘‘ اپنا لقمہ حلق سے اتار کر بابا نےجواب دیا۔ ’’اپنے نام کے سوا میرے پاس ہے ہی کیا، جو کسی کو دوں؟ سوجو ہے، سبھوں کو وہی دے دیتا ہوں، یہی ایک اپنا آپ۔‘‘
چوہدری کاجی چاہا کہ بابا کو کھانے سے روک کر پہلے اس کی انگلیاں چوم لے۔ ’’باباں ادھر کئیں جھگیاں خالی ہیں جس پر بھی انگلی رکھ دوں وہ تمہاری۔ ایک کی چھت تو بہت اونچی ہے، بہت ہواں دار ہے۔‘‘
’’نہیں، مجھے سب سے اونچی چھت چاہیے، آسمان کی چھت، کھودوں،‘‘ بابا نے روٹی ختم کرکے ہاتھ داڑھی سے پونچھ لیے۔ ’’مجھے کوئی جھگی وھگی نہیں چاہیے، تھوڑی سی خالی جگہ دے سکتے ہو تو ٹک جاؤں گا۔‘‘
چوہدری نے ٹھان لی کہ جھگیوں سے تھوڑے فاصلے پر بابا کو وہ چبوترا دے دوں گا جہاں سے قبرستان شروع ہوتا ہے۔ اس کی نیک نیتی میں خود اس سے بھی چوری چوری ایک کائیاں سی مسکراہٹ گھس آئی۔ اس طرح قبرستان کی زمین پر ہاتھ صاف کرنا بھی آسان ہوجائیں گا۔
’’حق! تھوڑی دیر میں تھکے ماندے بابا کی آنکھیں مندنے لگیں تو اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے لیٹ جانا چاہا۔
’’ٹھہرو، باباں میں چدر بچھائے دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں موت گھڑی بھر کی ہو، یا سداکی، کچی مٹی پر ہی ہونی چاہیے۔ حق!‘‘
کھودو بابا لیٹتے ہی خراٹے بھرنے لگا اور چوہدری اپنی جیب سے دن بھر کی کمائی نکال کر گننے لگا تاکہ اسے ٹھکانے لگا کے سوئے۔ حق۔۔۔ نامعلوم بابا کے مانند صدا لگاکر اس نے اپنے آپ سے کیا کہنا چاہا۔
رکھے چوہدری نے اپنی جھونپڑپٹی کے لوگوں کو نامعلوم کیا کیا کہانیاں گھڑ کر سنائیں کہ عقیدت مندوں کاہجوم دوسرے ہی روز شام کو کھودو بابا کے چبوترے پر جمع ہوگیا۔ بابا اپنے چبوترے پر اینٹوں کے تکیے پر پیٹھ ٹکائے نیم دراز پڑا تھا، اور ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مردہ قبر کی گھٹن کی تاب نہ لاکر باہر کھلے میدان میں آگیا ہو اور اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے حیرت زدہ لوگ اسے پرچھائیوں کے مانند دکھ رہے ہوں۔ اس نے اچانک حق کا نعرہ لگایا جسے سن کر بہتوں نے اپنے سر آسمان کی طرف اٹھالیے، مانو بابا کی آواز وہیں کہیں سے اتری ہو۔ بعضوں نے اس کے پہلو میں اپنے نذرانے رکھ دیے تھے جن پر اچٹتی نگاہ دوڑاتے ہوئے اسے اخباری کاغذ سے سرنکالتی ہوئی ایک سوکھی روٹی دکھائی دی۔ اس نے آگے جھک کر روٹی اٹھالی اور اسی دم کھانا شروع کردیا، اور جتنی دیر میں ایک شخص دوڑ کر پانی کا جگ بھرلایا، اسی دوران اس نے روٹی پیٹ میں اتارلی۔
’’حق!‘‘ بابا کا منہ ابھی پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی آواز کے ساتھ ہی گویا کدال کی چوٹ پڑنے پر جنگلی جھاڑیوں کے عقب سے قدرتی چشمے کی ایک تیز دھار پھوٹ آئی۔
بابا کی ڈاڑھی مونچھوں میں جل تھل ہوگئی تو عقیدت مندوں کی آنکھیں اپنے پائنچے اٹھاکر باہر نکل آئیں اور بابا پھر قبرستان کی طرف پشت کرکے دوسرے نذرانوں پر جھک گیا اور پگڑی اٹھاکر ایک ننگے سر والے کو دے دی، لو، کھودو۔ اور گوران شہد سے بھری ہوئی شیشی، ایک پھیکی شکل والی کو، اور جوتے۔۔۔ اس نے ایک پھٹے پیروں والے بوڑھے کو بلایا۔۔۔ آؤ کھودو، یہ لو!
اس پر بدھوا چمار اٹھ کھڑا ہوا، ’’پرہمار تو تمہار کھاتر سگھڑادن کھرچ کر دیا۔ ایسا جادو کا جوتا بنے ہے کی ہر سائز کو پھٹ پڑے۔‘‘
بڈھے نے جلدی سے جوتے پہن لیے کہ بدھوا کے کہنے پر کہیں بابا کی نیت نہ بدل جائے اور خوشی سے کانپنے لگا، ’’بابا میری بہو ہمیساں کہے تھی، پھکر کا کو کرتے ہو باپو؟ مرجاؤگے تو جوتے پہنا کے ہی بھیجوں گی۔‘‘ معلوم ہوتا تھا جیسے بڈھا دیوانہ وار ناچنا چاہ رہا ہے۔
حالانکہ مطلع بالکل صاف تھا پھر بھی آسمان سے دوچار بوندیں ان کے گالوں پر آگریں اور انہیں بڑی فرحت محسوس ہوئی۔بڈھے کے بعد بابا نے چوہدری کو بلایا، ’’یہ لو۔‘‘ اس نے اپنے چبوترے کی مٹھی بھر مٹی رکھے چوہدری کو دی، جو اس نے ویسے ہی اپنے سر میں ڈال لی جیسے بابا نے ڈالی تھی۔
بابا کو ایک لفافہ اور نظرآگیا۔ جس میں لڈو رکھے تھے۔ وہ شاید سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا کرے کہ مانو اپنی پشت سے اسے کسی کی آواز سنائی دی، ’’ارے ہاں۔‘‘ وہ پہلے کی طرح آگے پیچھے کو دایا ں بایاں بناکے بیٹھ گیا۔ ’’یہ لو لڈو تم سب بانٹ کر کھالو۔‘‘ اس نے لفافہ اپنی بائیں طرف چبوترے سے گرادیا۔
’’ادھر توں کوئی نہیں بابا،‘‘ چوہدری نے اس طرف جھانک کر کہا۔
’’تم تو عقل کے اندھے ہو، کھودو۔ مٹی کو سر پر اچھی طرح مل کر دیکھو۔ وہ ایک بوڑھیا۔ دو جوان اور تین بچے کون بیٹھے ہیں؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’اور ملو۔ جوقبروں سے نکل کر آتے ہیں وہ آنکھوں سے نہیں، سر سے دکھتے ہیں۔‘‘
شاید سبھوں کو اپنے سروں سے چھیوں مردے قبرستان کے کنارے بیٹھے دکھنے لگے تھے۔ چند تو ڈر گئے مگر کھودو بابا کے ہوتے ڈر کیسا؟ اس لیے وہ ڈرے ڈرے بھی بیٹھے رہے۔
بابا نے انہیں بتایا، ’’تم سب بھی تو اتنے ہی زندہ ہو جتنے اپنے گمان میں۔ بولو صحیح ہے یا غلط؟‘‘
’’پوراں صحیح بابا، پوراں صحیح۔‘‘
’’مردوں سے پیار کریں، کھودو، تو ان میں جان پڑجاتی ہے۔‘‘
’’ہاں، بابا،‘‘ وہ پھیکی شکل والی عورت بولی جسے گوران شہد کی شیشی ملی تھی۔ ’’انہوں تاجی حکیم موجھے بولے تھے مدھو چاٹو گی، بھلی لوک، تیں جی پڑوگی۔‘‘
ادھر سے دوچار جوان ہمت کرکے ادھر قبرستان کی جانب جا بیٹھے۔
’’شاباش ہمیشہ اسی طرح مل کر رہو! اور بانٹ کر کھاؤ!‘‘
جب اندھیرا ہونے لگا تو چوہدری نے ایک آدمی کو ڈرانا چاہا کہ لالٹین جلاکر لے آئے۔
’’نہیں‘‘ بابا نے اسے ٹوک دیا۔ ’’انسان کے سوا کسی او رکو بھی بتی جلاتے دیکھا ہے، کھودو؟‘‘ بابا نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ’’اوپر دیکھو، بتیاں ہی بتیاں روشن ہو رہی ہیں۔ اب تم جاؤ،‘‘ اس نے سبھوں سے مخاطب ہوکر کہا، ’’حق! حق!‘‘ اس نے اپنے آپ کو ’حوالے‘ کرنے کے لیے لیٹنے سے پہلے ہی آنکھیں موند لیں۔
رکھا چوہدری بھی سب کے پیچھے اپنے جھونپڑے کی جانب ہولیا۔ ہولے ہولے چلتے ہوئے اس نے بینڈ ماسٹر اور اس کی بیوی کی طرف دیکھا جو اس کے آگے تھوڑے فاصلے پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے تھے۔ وہ سوچنے لگا۔ اسی لئی تو سالاں باجہ بجاتا ہے تو آواز آسمان تک جاں پہنچتی ہے۔ اسے پھر اپنی چرن داس کی جورو کا خیال آنے لگا۔۔۔ باباں نے ٹھیک کہا ہے، بانٹ کر کھاؤ۔ پر چرن داس کی جوروں کوئی کھانے پینے کی شے تو ہے نہیں اور ہوں بھی، تو وہ تو قابوں میں ہی آنے میں نہیں آں رہی۔ چرن داس کو کھماؤں۔۔۔؟ وہ اپنے آپ کو سمجھانے لگا کہ وہ اسے اپنے دل سے ہی نکال دے۔ پرسالی پہلے دل میں قدم رکھنے پر راضی ہوں تو نکالوں بھی۔ اس کی آنکھوں میں بے بے بشیراں کی بیوہ بیٹی کا چہرہ گھومنے لگا۔ کتنی سیدھی اور دیندار عورت ہے! میں کیوں ناں بے بے سے اسی کاں ہاتھ مانگ لوں؟ دیکھا دیکھی میں بھی روزے نماز کی عادت ڈال کر سدھر جاؤں گا۔ چالیس کی ہے تو کیاں؟ میں بھی تو پورے پچاس کوں پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔۔۔ وہ بڑی سنجیدگی سے سوچ رہا تھا۔۔۔ پر ایک بانت ہے جھوٹ موٹ ہی سہی۔ بیوہ نے میراں دل جیتناں ہے تو وہ بھی چرن داس کی جوروں کی طرح بس ناں ناں کرتی رہے۔۔۔ حق۔۔۔ اس نے خوش ہوکر بے اختیار بول دیا۔
اگلے روز پھر کئی لوگ کھودو بابا کے چبوترے پر چلے آئے۔
’’ری شیداں‘‘ ہرنی سے اپنی پڑوسن کو آگے جاتے ہوئے دیکھ کر اسے تیزی سے جالیا۔ ’’تو بھی ادھل بابا کے مکبلے پر آئی تھی۔۔۔ کیا۔۔۔؟ تو موجھے بھی اپنے ساتھ لے لیا ہوتا۔‘‘
’’منہ میں کھاک! مکبرا کیوں؟ بابے کا چبوترا کہو،‘‘ وہ ذرا رک کر چبوترے کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’دکھنے میں تو کوئی مکبرا ہی لگے ہے۔‘‘
’’میں تو کہوں، شیداں جے جو پھکیل ہوتے ہیں ناں۔ کیا؟ بڑے پہنچے ہوئے لوک ہوتے ہیں۔ ہرنی کا آدمی کہا کرتا، میری اورت باتیں کیا کرتی ہے۔ کلکاریاں مار مار کر دل موہ لیتی ہے۔ مر کر بھی کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اور مرنے کو جی چاہے تو جدھر بھی من آجائے ادھر ہی لیٹ جاتے ہیں اورآکھری سانس بھرنے لگتے ہیں۔ کیا۔۔۔؟‘‘
کھودو بابا کے قریب پہنچ کر یہ لوگ چوکنے ہوکر ٹھہر گئے۔
ان گنت بھڑوں کی ایک اڑتی چھت بابا کے سر پر چلی آرہی تھی۔ ’’گھبراؤ نہیں، کھودو، کاٹتی نہیں۔‘‘ وہ بڑے چین سے مسکرارہا تھا۔ ’’ہماری تمہاری طرح بھنبھناکر خو ش ہوتی ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر میں بھڑوں کی بھنبھناتی چھت بابا کے سر سے بہت آگے اڑ گئی اور لوگ چبوترے کی ڈھلان کے نیچے براجمان ہوگئے، چند ادھر ہی اور چند چبوترے کی دوسری جانب قبرستان کے کنارے، جہاں کھودو بابا نے بعض مردوں کو بھی پہچان لیا، ’’ارے تم سب ادھر ہی کیوں گھسڑ بیٹھے ہو، کچھ ادھر ان لوگوں کے ساتھ جگہ بنالو۔‘‘
بابا اور چوہدری کی آنکھیں بھی چار ہوگئیں۔ ’’کیوں چوہدری، مزے میں ہو؟‘‘ پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ بولا، ’’مزے میں کیا خاک ہوگے، جو اتنی بڑی چھت کے نیچے اکیلے بسر کرتا ہے، اسے اور چاہ ہی کیا ہے؟ قبر میں کروٹیں لے لے کر جسم کو گھماتا پھراتا رہتا ہے۔‘‘
’’ہم تو اپنی قبروں میں ایسے سوئے ہوتے ہیں کہ ہمیں دنیا جہان کی خبر نہیں رہتی۔‘‘
کوئی بولا ہی ہوگا جو بابا نے اس کی طرف تاکا، ’’میں چوہدری کا کہہ رہا ہوں، تمہارے تو کروٹ بدلنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔‘‘
’’میں نے فیصلہ کرلیا ہے بابا۔‘‘ چوہدری کہنے لگا، ’’اگلے ماہ ہی اپنی شادی بنالوں گا۔‘‘
’’تم سے تو وہی شادی کرے گی چوہدری،‘‘ آج بے بے بشیراں بھی آئی ہوئی تھی۔ ’’جس نے تمہاری ناک کی دھنوں میں ڈوب مرنا ہو۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔
چوہدری کا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں یہاں بھی چراغ گل نہ ملے۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ کل دن نکلتے ہی بشیراں بے بے کی جھگی میں گرم گرم جلیبیاں لے کر پہنچ جائے گا۔ دوچار میٹھی باتوں میں ہی ڈھیلی پڑ جائے گی۔ باقی رہ گئی اس کی بیوہ بیٹی ستارہ، تو وہ بے چاری تو گئو کی گئو ہے۔ اسے اس سے کیا کہ کوئی ناک سے بولتا ہے یا دائیں یا بائیں کان سے؟ شادی کے بعد وہ بے بے بشیراں کو بھی اپنے پاس ہی اٹھالائے گا۔ بڑھیا اکیلی اپنی جھگی میں کیا کرے گی؟ یہاں گھر کا کام کاج بھی سنبھال لے گی اور اس کی جھگی۔۔۔ اس نے سوچا، بڑے موقع کی جھگی ہے۔ سامان سمیت بیچ دے گا۔ جھگی کی قیمت کااندازہ لگاکر وہ بے بے بشیراں کی بیوہ بیٹی کو بھول گیا۔ پنج اوپر پورے تیس سینکڑے۔۔۔ یا پھر پنج اوپر اٹھاراں بیس سینکڑے تو کدھر گئے ہی نہیں۔۔۔ اس کی آنکھیں اچانک کھودو بابا کی آنکھوں سے ٹکرا گئیں اور اسے لگا کہ بابا نے اس کے من کو ٹٹول لیا ہے اور اس نے فوراً ٹھان لی کہ بے بے بشیراں کی جھگی سے جو رقم وصول ہوگی، اس کی پائی پائی خرچ کرکے وہ اسی چبوترے پر بابا کی فسٹ کلاس قبر بنادے گا۔ بابا کی قبر کے سرہانے وہ سنگ مرمر لگوائے گا جس پر بابا کے نام اپنے شاعر دوست سورج نرائن زخمی سے پھڑکتےہوئے شعر لکھوا کے کھدوالے گا۔۔۔ دل ہی دل میں ساری سکیم تیار کرکے وہ مسکرانے لگا، اور اسے بدستور دیکھتے ہوئے بابا بھی،مانوں انہوں نے بیک وقت ایک ہی سوچ وچی ہو۔
کھودو بابا کے درشنوں کے لیے آج پنڈت مرلی دھر بھی آیا ہوا تھا۔ پنڈت نے تین جھگیوں پر قبضہ جمارکھا تھا، دو کو ایک بناکے وہ اس میں اپدیش دینے کا کاروبار کرتا تھا اور تیسری میں اس نے رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ اس کے پہلو میں سفید مونچھوں والا ایک گنجا شخص بیٹھا تھا جسے اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ ہنس کر اس سے پوچھنے لگا، کیوں، بڑے بھائی، تم ادہر ہماری جھگیوں میں سے ہو، یا۔۔۔ اس نے قبرستان کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ ادھر سے۔۔۔؟ سفید مونچھوں والے کے گلے میں کچھ ایسی عجیب و غریب خنداں آوازیں پیدا ہوئیں کہ پنڈت چونک کر اس سے پرے ہٹ گیا۔ کھودو بابا نے پنڈت کا سوال سن لیا تھا اور اس کی گھبراہٹ بھانپ لی تھی۔ اس نے پنڈت کی چوٹی اور تلک کی نسبت سے اسے پہچان کر مخاطب کیا، ’’پنڈت کھودو، گیان مارگ ہمیں دوسروں سے دور کردے تو ہمیں اندھ وشواس کے مارگ پر ہولینا چاہیے۔۔۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں، بابا‘‘ بابا کاجلال پنڈت کے دل و دماغ میں سرایت کرنے لگا تھا۔ اس نے بابا پر ایمان لے آنے کے اعلان کی خاطر اپنی کس کر بندھی اتنی بڑی چوٹی ڈھیلی کرلی اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا، ’’تمہاری بات سن کر میرا جی خوش ہوگیا ہے۔‘‘
’’حق!‘‘ کھودو بابا تن کر بیٹھ گیا۔ مجھے کوئی مسخرہ سمجھتے ہو، کھودو؟ میں تمہارا جی خوش کرنے کے لیے نہیں بول رہا۔ مجھے سمجھو اور محسوس کرو۔‘‘
’’جوڑے ہوئے ہاتھ کھول دو، پنڈت کھودو۔ اچھا بتاؤ۔‘‘ وہ پوچھنے لگا، ’’تمہاری سیدھی سادی ماں بڑی ہے جس نے تمہیں جنم دیا، یا اتنی بڑی چوٹی والے تم؟‘‘
’’میری ماں، دیالو۔‘‘
’’اسی طرح تمہاری پنڈتائی کا سارا بھرم بھی تمہاری سیدھی سادی بات سے ہے۔۔۔ لو، تمہیں ایک بڑی سرل کہانی سناتا ہوں، صرف یہ بتانے کے لیے کہ اتھلی باتیں کتنی گہری ہوتی ہیں۔‘‘
’’واہوں!۔۔۔ وہوں!۔۔۔‘‘ چوہدری کا چوکیدار کتا تیز تیز دوڑتے ہوئے ادھر ہی آرہا تھا۔ ’’ٹھہرو بابا، میں بھی بیٹھ جاؤں، پھر اپنی کہانی شروع کرنا۔‘‘
’’ہاں آؤ، کھودو بیٹھ جاؤ اور دھیان سے سنو۔ تمہارے ہی ذات کی کہانی ہے۔‘‘ ان سب کی طرف نگاہ دوڑا کر بابا اپنی کہانی اکٹھی کرنے کے لیے ذرا رک گیا، ’’حق!۔۔۔ حق!۔۔۔ سنو۔ ایک بہت بڑے شہر میں ایک چھوٹا سا کتا تھا جو شہر کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔‘‘
’’واہوں!‘‘ بندھو بھونکنے لگا۔ ’’میری یہ کہانی تمہیں کس نےسنائی، بابا؟‘‘
’’ارے چپ!‘‘ پنڈت کو غصہ آنے لگا تو اس کے ہاتھ بے اختیار اپنی چوٹی کی گانٹھ کو کسنے کے لیے اٹھ گئے، ’’سننا ہے توآرام سے سن!‘‘
’’حق!‘‘ کھودو بابا نے اپنی کہانی کو تھمتے پاکر آگے دھکا دیا۔ ’’بے چارہ بازاری کتا تھا، پالتو ہوتا تو مالک کی پھینکی ہوئی گیند ہی کو پکڑ پکڑ کر مکھن، ڈبل روٹی اور گوشت کھاتا۔ یہی نہیں۔ جب کبھی مالک اور مالکن کا جھگڑا ہوجاتا تو مالکن سے چوما چاٹی کے لیے اسے اس کے بستر میں جگہ بھی ملتی۔‘‘
’’واہوں۔‘‘ بندھو سے پھر نہ رہا گیا۔ ’’تم بالکل درست کہہ رہے ہو بابا۔‘‘
’’ارے پھر؟‘‘ پنڈت نے اب کے اپنی چوٹی کو اتنے زور سے کسا کہ بندھو کی چیخ نکل گئی۔
’’جان پیاری ہے، بندھو، تو ٹوکو مت۔‘‘ بے بے بشیراں بندھو پر ترس کھاکر بولی، ’’پنڈت کی چوٹی سے تو ہمارے مولوی بھی بدکتے ہیں۔‘‘
’’حق! آگے سنو۔۔۔ جس کا کوئی نام نہ ہو اس کے کئی نام ہوتے ہیں یا پھر ایک یہی، کھودو۔ سو اس بازاری کتے کو جس نے جہاں جو بھی نام دے دیا۔ قصابوں کے بازار میں کھودو کو دلا کہتے تھے۔ یہاں وہ کبھی اس دکان کے سامنے اور کبھی اس کے سامنے کوؤں، چیلوں پر نگاہ رکھتا اور اس اختیاری کام کے عوض قصاب دکان بڑھانے سے پہلے اس کے آگے چند ہڈیاں اور فالتو چیتھڑے پھینک دیتے، مگر ایک دفعہ اسے محسوس ہوا کہ قصاب آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی گردن ناپ کر مسکرانے لگتے ہیں، تاکہ اس کا گوشت بھی بھیڑ کے گوشت میں ملاکر گاہکوں کو تھمادیں۔ بس پھر کیا تھا، اس نے خوف کے مارے ادھر جانا ہی چھوڑ دیا۔۔۔ حق!۔۔۔‘‘ آگے کی کہانی جوڑنے سے پہلے کھودو بابا لحظہ بھر ٹھہر گیا۔ ’’پھر۔۔۔؟ پھر یہ ہوا کہ کوٹھیوں کے ایک علاقے میں اس کا معاملہ ایک پالتو کتیا سے عین بیٹھ گیا۔‘‘
شیداں اور ہرنی اپنی حیرت و مسرت سے بےقابو ہوکر کانسی کی گھنٹیوں کے مانند بج اٹھیں۔
’’یہ کتیا ہمارے کھودو کو بڑے پیار اور نخرے سے واہوں نام سے بلاتی تھی۔‘‘
’’واہوں!‘‘ بندھو نے پھر ٹوکا، ’’یہ بھی کوئی نام ہوا؟‘‘
’’بھائی میرے،‘‘ کھودو بابا نے اسے جواب دیا۔’’کتیا کو انگریزی تھوڑا ہی آتی تھی جو اسے ٹامی یا ٹائیگر کہہ کر بلاتی۔ وہ اسے سیدھے سیدھے اپنی اصل زبان میں ہی مخاطب کرتی تھی۔ کپڑے کے ایک دھارمک بیوپاری کی پالتو کتیا تھی اور اپنے مالک کی طرح صرف روٹی اور سبزی اور پھل کھاتی تھی اور سادہ اور صاف پانی پیتی تھی اور کوٹھی والوں کے ساتھ ہری کیرتن میں بھی شامل ہوجاتی تھی۔‘‘
’’یہ سچ مچ بڑی انوکھی بات ہے بابا،‘‘ پنڈت نے پرسن ہوکر کہا۔
’’آگے سنو۔ یہاں کھودو واہوں کے وارے نیارے تھے۔ شام گہری ہوتے ہی وہ سب کی نظریں بچاکر کوٹھی کی دیوار پھاندتا اور دبے پاؤں اپنی محبوبہ کے پاس آپہنچتا۔ پھر نامعلوم انہیں کس کی نظر لگ گئی کہ کتیا بے سبب چل بسی۔‘‘
’’وہو!‘‘ بندھو اب کتیا کے بارے میں گہرائی سے سوچنے لگا تھا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کوئی سبب تو ہوگا ہی۔‘‘
’’سبب تو ہوگا، بہرحال مجھے اس کی خبر نہیں۔ کھودو اپنی محبوبہ کا دیا ہوا نام بھی کھوکر مہانگر کی سڑکیں ناپتا رہا۔ کچھ مل گیا تو کھاپی لیا، ورنہ اللہ اللہ کرکے جہاں پڑگئے، وہیں پڑے رہے۔‘‘
اسی اثناء میں بندھو کو قبرستان میں ایک کتیا نظرآئی اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کی جانب اچھل گیا۔ سبھوں کی نظریں بھی اس کے پیچھے پیچھے بھاگنے لگیں، مگر ابھی وہ اس کتیا کے قریب پہنچا ہی تھا کہ بھونک بھونک کر الٹےپاؤں دوڑ آیا۔
’’واہوں!‘‘ یہ تو اپنی چھبیلی ہے۔ وہ حواس مجتمع کرکے بولا، ’’وہی جسے مرے تین ماہ سے بھی اوپر ہولیے ہیں۔‘‘
’’اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟‘‘ بابا ہنسنے لگا۔ ’’کوئی ٹھکانہ نہ ملا ہوگا، اس لیے بے چاری واپس آگئی۔‘‘
بندھو نے پھر قبرستان کی طرف نظر اٹھائی اور پہلے جھجک جھجک کر اور پھر تیز تیز دوبارہ اسی طرف ہولیا۔
’’تمہاری کہانی، بابا؟‘‘
’’کہانی تو چل ہی رہی ہے۔۔۔ کھودو نے تین چار مہینے تو جیسے تیسے گزارلیے، مگر کھائے پیے بغیر چار ٹانگوں کو کیسے کھڑا رکھتا؟ سارے شہر میں اسے ایک نظر دیکھنے کی بھی کسی کے پاس فرصت نہ تھی۔ وہ بھی منہ چھپا چھپاکے پھرتا تھا، کیونکہ بڑے شہروں میں آوارہ کتوں کو گولی سے اڑادیاجاتا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر وہی ہوا جو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ ایک دن واہوں۔۔۔‘‘
’’مگر اب تو کھودو کا کوئی نام نہ تھا۔‘‘
’’ہاں، اب وہ بس کھودو کا کھودو رہ گیا تھا، سو جب ایک دن وہ بازار میں گر کر ڈھیر ہوگیا تو کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ کون ڈھیر ہوگیا ہے، یا کوئی ڈھیر بھی ہوا ہے یا نہیں۔ جس بھرے بازار میں وہ پڑا تھا وہاں دنوں پڑا رہا اور کسی کو نظر ہی نہ آیا۔ وہ کوئی ہوتا تو کسی کو نظر آتا۔‘‘
’’مگر بابا۔‘‘ بندھو اور چھبیلی، بس اتنی سی دیر میں ہی ایک دوسرے سے مانوس ہوچکے تھے اور سب سے ہٹ کر برلبِ قبرستان ٹانگوں میں ٹانگیں ڈالے بیٹھے تھے۔ ’’کتے بے چارے کیا انسان نہیں ہوتے؟‘‘
’’ہاں، بندھو، کوئی سمجھے تو ضرور ہوتے ہیں،‘‘ بابا کی بجائے پنڈت نے اسے جواب دیا۔
’’مگر کوئی سمجھے، تب نا۔‘‘ وہی سفید مونچھوں والا پنڈت کے پڑوس سےگویا ہوا۔ ’’ہم انسان ہیں مگر ترستے رہتے ہیں کہ کوئی کتا سمجھ کر ہی پچکارلے۔‘‘
اتنے میں ہی بابا پر نہ جانے کیا قلبی واردات بیتنے لگی کہ وہ یکبارگی سب سے غافل ہوکر آنکھیں بند کیے دھیمے دھیمے ’حق‘ کا ورد کرنے لگا۔ حاضرین تھوڑی دیر تو اسے چپ چاپ دیکھتے رہے پھر سب جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
بندھو کو چھبیلی کےساتھ ویسے ہی جڑا پاکر چوہدری نے اسے گالی بک کے کہا، ’’ارے انٹھ، یہ تمہارے عشق کاں ٹائم ہے یا چونکیداری کاں؟‘‘
آج شام کو بھی عین اسی وقت بہت سے لوگ کھودو بابا کے چبوترے پر جمع ہوگئے۔
’’تمہاری کل کی کہانی تو ادھوری رہ گئی بابا۔‘‘ پنڈت آج بھی آیا ہوا تھا۔
’’کہانیاں ہوتی ہی ادھوری ہیں،‘‘ کھودو بابا نے کہا۔ ’’کیونکہ وہ ان لوگوں کی ہوتی ہیں جو یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں، ابھی آتے ہیں، مگر وہ کبھی نہیں آتے۔ ہم ایک انہی کے انتظار میں ہوتے ہیں مگر کوئی اور ہی چلے آتے ہیں۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا، بابا!‘‘ سوال کرنے والا سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا اور طبیعت کا کڑوا تھا، اس لیے کریلے کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
’’میری سبزی ایک دن پڑی رہ جائے تو بو چھورنے لگتی ہے۔ تمہارے واہوں کی لاش اتنے بھرے بازار میں پڑی رہی اور کسی کو بوتک نہ آئی؟‘‘
’’بھرے بازار میں سینکڑوں بوئیں گھل مل رہی ہوتی ہیں کھودو، اس لیے کسے خبر، کون سی بو کہاں سےآرہی ہے؟‘‘ بابا نے اپنی بات پوری کرتے ہوئے اچانک بندھو کو دیکھ لیا، جو سب سے الگ تھلگ قبرستان کی طرف منہ اٹھائے اداس بیٹھا تھا، ’’آج مرحومہ نہیں آئی؟‘‘
’’ہاں، بابا، پتہ نہیں، کیوں؟‘‘
’’کیا معلوم طبیعت بگڑ گئی ہو۔‘‘
’’بڑی عجیب باتیں کرتے ہو، بابا۔ مرنے کے بعد سب روگ ووگ چھٹ جاتے ہیں۔‘‘
’’مرنے کے بعد کوئی جی سکتا ہے تو بیمار بھی کیوں نہیں ہوسکتا؟‘‘ سب پر نظریں گھماتے ہوئے بابا کی آنکھوں میں ایک بڑی خوبصورت گندی سی لڑکی بھر آئی۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا مگر لڑکی کو لگا کہ وہ اس کی بکری کو دیکھ رہا ہے، جو اس کی پشت پر اپنا خالی منہ ہلائے جارہی تھی۔ یہ میری بکری بالو ہے بابا۔۔۔ بابا اسے کوئی جواب دینا چاہتا تھا مگر ایک پوپلی بڑھیا اس کے سامنے آکھڑی ہوئی، جس کا خشک و خاکی چہرہ بے شمار جھریوں سے اٹا ہوا تھا، مانو عمر رسیدہ زمین کا کوئی ٹکرا قحط کے مارے جابجا لکیروں میں پھٹ گیا ہو۔
’’موجھے سدا کا بکھار رہتا ہے۔‘‘
’’کون سا بخار؟‘‘ بابا نے بوڑھیا سے پوچھا اور پھرآپ ہی اپنے آپ کو بتانے لگا، ’’اچھا سدا کا بخار۔‘‘
بوڑھیا اپنے پلو کی ایک گانٹھ کھول رہی تھی۔ ’’کھیراتی دوا کھانے سے یہ گولیاں تو مل گئی ہیں پر ڈاکڈار بولتا ہے، اچھی کھوراک بھی کھاؤں۔‘‘ پلو کی گانٹھ کھل گئی تو اس نے وہاں سے ایک پڑیا نکال کر اسے گولیاں دکھائیں۔
کنویں کا پانی گویا بابا کی آنکھوں میں انڈل انڈل کر قحط زدہ زمین کو سیراب کرنے لگا۔ ’’تمہارا کوئی ہے ماں؟‘‘ پنڈت نے بابا کو بتایا کہ بے چاری کا ایک اپنا آپ ہی اس کااپنا ہے۔
’’وہ بھی کہاں اس کا اپنا ہے کھودو۔‘‘
بابا نے بکری والی چھوکری کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ اور اس کے پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی دوڑ کر آگئی۔
’’میری ایک بات مانو گی، کھودو؟‘‘
’’ہاں کھودو بابا، جو بھی کہیو، مانو گی، بس ایک یہ نہ کہیو، بیاہ کرلیو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ بابا نےدلچسپی لے کر پوچھا۔
’’کیوں کیا؟‘‘ وہ مردوا مجھے بھی مجھے سے چھین لیو ،اور میری بکری کو بھی۔‘‘
’’نہیں، تم ہماری اس کھودو ماں کو ہر روز اپنی بکری کا دودھ پلایا کرو، پھر ہمارا خدا تمہارے لیے ایک خاص نواب دولہا بھیجے گا۔‘‘
’’تو پھر اپنے کھدا سے کہیو بابا، ایک ناہیں، دو نباب بھیج دیوے۔ ایک کھراب نکلا تو دو جاتو ہوگا۔۔۔ آؤ میا، ہر روج آکر ا یک پائیا کچا دودھ لے جایا کرو۔‘‘
وہ پرے ہوئیں تو پنڈت بابا سے کہنے لگا، ’’بابا، تو پھر تمہارا وہ واہوں وہیں شہر کی پٹری پر پڑا رہ گیا؟‘‘
’’ہاں، مگر ایک دن اپنی بوکی تاب نہ لاکر مرے مرے اٹھ کھڑا ہوا اور شہر کے باہر کا رخ اختیار کیا، تاکہ کہیں کچی زمین مل جائے تو گڑھا کھود کر اپنے اوپر مٹی ڈال کے وہیں پڑ جائے۔‘‘
بندھو کچھ یاد آنے پر کھڑا ہوگیا، ’’بابا، چوہدری کے پچھواڑے پر تم ہی نے گڑھا کھودا تھا؟‘‘
’’ہاں، کھودو، کیوں؟ اس رات جب میں وہیں سویا تھا، میری آنکھ بہت سویرے کھل گئی۔ باہر آکے میری نظر جو پھاوڑے پر پڑی تو میں اپنی خواہش پر قابو نہ پا سکا۔ ایک آدمی اس میں بڑے آرم سے لیٹ سکتا تھا۔‘‘
’’مگر کون آدمی بابا؟‘‘
’’کیوں، کوئی بھی تمہارا کھودو چوہدری ہی۔ میں نے سوچا، وقت آنے پر خواہ مخواہ بھٹکتا پھرے گا۔ اس نے مجھ پر اتنی مہربانی کی ہے، میں بھی کچھ کردوں۔‘‘
رکھا چوہدری گھبراکر قہقہانے لگا۔
’’کیا پھر واہوں شہر سے باہرنکلنے میں سپھل ہوگیا؟‘‘ پنڈت نے بابا سے سوال کیا۔
’’پہلے تو یہ ہوا کہ شہر سےباہر نکلنے کی کوشش میں وہ شہر کے اور اندر گھستا چلا گیا اور پھر ایک دن کہیں اندر ہی اندر سے برآمد ہوکر اس نے اپنے آپ کو اچانک شہر کے باہر پایا۔ مگر کیا فائدہ؟ وہ جہاں بھی پنجے رگڑ رگڑ کر زمین کی کھدائی شروع کرتا تھا، وہیں زمین کا مالک اس پر لاٹھی لے کر چڑھ دوڑتا تھا۔‘‘ بابا نے ذرا سا ٹھہر کر اپنے بیان کو جاری رکھا، ’’ساری زمین تو لوگوں نے اپنے نام بندھوالی ہے۔ کوئی ایک فٹ ٹکڑا بھی تو نہیں، جو خدا کے نام پر بچارہ گیا ہو۔‘‘
’’خدا پر ایسی کون سی بپتا آن پڑی جو اس نے ساری زمین ان بے رحموں کو بیچ دی؟‘‘
’’پتہ نہیں، کیا؟ پر کوئی ایسی ہی بپتا ہوگی، ورنہ آدھی نہیں تو ایک چوتھائی ہی اپنے نام پڑی رہنے دیتا۔‘‘ پتہ نہیں بابا کے دل میں یکبارگی کیا آئی، اس نے ہاتھوں کو کتے کی اگلی ٹانگوں کے مانند زمین پر ٹکاکر گھٹنوں کے بل چبوترے کا ایک چکر لگایا۔
’’میں۔ ں۔ں۔‘‘
’’چپ!‘‘ اس خوب صورت چھوکری نے اپنی بکری کے منہ پر ہاتھ مار کر کہا، ’’اسی لیے تمہیں ساتھ نہیں لاتی تھی۔‘‘
’’واہوں! واہوں!‘‘ بندھو نے بابا کو مخاطب کرکے کہا، ’’کیا ناٹک کر رہے ہو بابا؟ اپنی کہانی پوری کرو۔‘‘
’’آگے کی کہانی یہ ہے۔‘‘ بابا انہیں بتانے لگا، ’’کہ وہ سگ زادہ بھاگ بھاگ کر کسی نئی بستی میں آپہنچا اور پھر وہاں سے بھی پٹ کر ایک اور بستی میں، اور پھر اپنی ماہ و سال کی بھاگا بھاگ میں اسے یاد ہی نہ رہا کہ وہ مرچکا ہے اور بھولے بھولے ہی زندہ ہے۔‘‘ بابا کی آواز اس کے باطن کے سیلاب میں ماند پڑنے لگی تھی، ’’مگر بھٹکتے بھٹکتے جہاں کہیں اسے کچی مٹی پر چین سے بیٹھنا میسر آجاتا، اس کی باچھیں کھل جاتیں اور وہ اپنے پنجوں سے بے اختیار زمین چھیلنے لگتا۔ لاعلم سا، کہ وہ ایسا کیوں کرتاہے۔‘‘ بابا نے اپنا ایک ہاتھ چھوٹے سے گڑھے میں ٹکالیا اور چبوترے پر کئی چھوٹے چھوٹے گڑھوں پر آنکھیں گاڑلیں جو شاید اسی نےاپنے ناخنوں سے مٹی چھیل چھیل کر بنالیے تھے۔
’’ارے بابا، میں بتاؤں؟‘‘ ایک آوارہ نوجوان اپنا منہ بند نہ رکھ سکا، ’’وہ سگ زادے تم ہی ہو۔‘‘
’’بابا تنیں کوسگ جادہ دکھتا ہے کا؟‘‘
’’دکھوں کا پہاڑ سامنے ہو تو سگ زادہ بھی آدمی دکھنے لگتا ہے۔‘‘
’’واہوں! واہوں!‘‘
’’میں۔ یں۔ ں۔ ں۔‘‘
’’حق۔ حق۔ حق۔ حق۔‘‘
آج صبح کے وقت کو راں تائی نے چبوترے پر کھودو بابا کے لیے روٹی لانا تھی۔ وہ پو پھٹتے ہی دسوں گھروں کی جھاڑ پھونک کے لیے اپنی جھگی سے نکل پڑتی تھی اور وہیں کسی گھر میں گالیاں اور روٹیاں پھوڑ پھوڑ کر پیٹ بھر لیتی اور اپنا سارا کام ختم کرکے شام کو جھگی میں لوٹتی اور مٹی کا دیا جلاکر اس طرح کھاٹ پر پڑجاتی جیسے اپنا انتم سنسکار کرکے لمبی تان رہی ہو۔
وہ کل بابا سے کہہ گئی تھی، ’’میں کام پرنکلنے سے پہلوں روٹی دے جاؤں گی، جبھی بھوکھ لگے چھکھ لینا۔‘‘
کھودو بابا سوچ رہا تھا کہ تائی کے آنےمیں اتنی دیر کیوں ہولی ہے۔ کیا وہ آپ ہی اس کی جھگی میں جاکر پتہ کرے؟ اسی اثنا میں اسے بندھو دوڑ دوڑ کر چبوترے کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیا۔ وہ اپنے منہ میں اخبار کے کاغذ میں لپٹی ایک روٹی دابے ہوئے تھا جسے اس نے بابا کے سامنے ڈال دیا اور سانس لے کر بولا، ’’تائی کو خون کی الٹی آئی ہے۔ میں یونہی اس کی جھگی میں جانکلا تو کہنے لگی، ’’بابا کے لیے روٹی تو میں نے پکالی ہے مگر مجھے میں چلنے کی ہمت نہیں۔ تم ہی جاکے دےآؤ اور اللہ کے نیک بندے کو میری رام رام بھی کہہ آؤ۔‘‘
’’واہوں! بڑی اچھی عورت ہے بابا،اور بڑی دکھی۔‘‘ بندھو کو خواہش ہوئی کہ وہ زور زور سے بھونکتا چلا جائے۔ ’’اگر تم اس کے دکھ دور نہیں کرسکتے بابا، تو تمہارے اتنا بڑا فقیر ہونے کا کیا فائدہ؟‘‘
’’فائدہ صرف سیدھے اور عام لوگوں سے پہنچتا ہے،‘‘ کھودو بابا نے روٹی گول کرکے دانتوں سے لقمہ بھر کاٹی اور کھانے لگا۔ ’’فقیر کمینے کو تو اپنی فکر لگی رہتی ہے، مورکھ کھودو۔‘‘
’’واہوں! دیکھو، یا تو صرف مورکھ کہو یا صرف کھودو۔‘‘
’’دونوں کا مطلب ایک ہی ہے مورکھ۔‘‘ بابا ہنس دیا۔ ’’کھودو تائی کا خیال رکھا کرو۔‘‘
’’میں تو سب کا خیال رکھتا ہوں، پر کس کس کا رکھوں؟ ہر ایک کی جان ٹنگی ہوئی ہے،‘‘ بندھو بابا کو جھونپڑپٹی کے دیگر افراد کے بارے میں بتانےلگا۔
’’وہ بڈھا جسے تم نے بدھو چمار کا جوتا دیا تھا، کل رات سے آخری ہچکیاں بھر رہاتھا اور جوتا ڈال کے لیٹا ہوا ہے اور اپنے بیٹے سے بار بار کہہ رہا ہے، مجھے جوتوں سمیت وداع کرنا، ورنہ بھوت بن کے لوٹ آؤں گا۔۔۔‘‘ بندھو نے شاید پہلے ہی سے بابا سے یہ سوال پوچھنے کاارادہ کر رکھا تھا، ’’کیا تمہیں رات کے وقت اکیلے اس سنسان قبرستان میں ڈرنہیں لگتا؟‘‘
’’کس کا ڈر؟‘‘
’’بھوتوں کا، بابا اور کس کا؟‘‘
’’بھوتوں سے تو تم بھی نہیں ڈرتے کھودو۔‘‘
’’نہیں، بابا میں تو بہت ڈرتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر۔‘‘
بندھو نے بابا کی آنکھوں میں دیکھا اور اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کے باوجود بھونکنے لگا، ’’تم مورکھ کے مورکھ ہو، کھودو۔‘‘
’’نہیں، بابا، تم بھوت نہیں ہو، اور اگر ہو بھی تو تم سے ڈر کیسا، تم تو اپنے بابا ہو،جاتنےہو، کیا، بابا؟‘‘ اچانک یاد آنے پر وہ بابا کو بتانے لگا، ’’کل اچت سیٹھ۔۔۔ وہ سب سے غریب ہے، اس لیے عبدل چچا اسے مذاق میں اچت سیٹھ کہا کرتا ہے۔ اس نے اپنی جھگی عبدل چچا سے ہی کرائے پر لے رکھی ہے اور کبھی کرایہ ادا نہیں کرتا۔۔۔ اچت سیٹھ بھی کل شام کو تمہاری باتیں سننے کے لیے آیا ہوا تھا۔ یہاں سے لوٹ کر اس نے اپنی جھگی کے دروازے پر دیسی شراب کا پورا ادھا غٹ غٹ خالی کر دیا اور مجھے زبردستی اپنے ساتھ بٹھالیا اور بتانے لگا، سنو، کھودو بابا جس سگ زادے کی کہانی سنا رہاتھا، جاتنے ہو، وہ کون ہے۔۔۔؟ میں۔۔۔ میں ہی وہ سگ زادہ ہوں۔ دیکھو میری طرف۔ ’’بابا، اس نے بھی تمہاری طرح اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹکالیے اور اتنا اچھا بھونکنے لگا کہ اس کی آواز میں آواز ملانے پر مجھے صرف وہی سنائی دیا۔ وہ بھی کوئی کتا ہوتا ہے بابا، جو سنائی نہ دے۔‘‘ بندھو شاید اپنی شرمندگی دور کرنے کے لیے زور زور سے بھونکنے لگا، جس پر بابا نے اسے متنبہ کیا کہ آہستہ بولے۔
’’اچھا، لو، آہستہ بولتا ہوں۔ اچت سیٹھ کا کہنا ہے کہ ہم سبھی اپنے اپنے بھوت ہیں، جو موت کے بعد اپنی بوکی تاب نہ لاکر چار ٹانگوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تم یقین نہیں کروگے بابا،اس نے تو ذہن پر زور ڈال ڈال کر مجھے اپنی موت کی تاریخ بھی بتادی۔ بڑا دکھی آدمی ہے۔ اپنادکھ بھولنے کے لیے شراب پیتا رہتا ہے مگر پی کر اسے اپنے دکھ اور یاد آنے لگتے ہیں۔‘‘ کتے کی واہوں واہوں غم و غصہ سے پھر اونچی ہونے لگی۔ ’’پچھلے سال اس کی بیوی ۔۔۔ اس بیماری کو کیا کہتے ہیں آتشک سوزاک سے مر گئی تھی۔ کل شراب کےنشے میں دھت ہوکر وہ مجھے بتارہا تھا، میں اپنی بیوی کو کیسےروؤں؟ میں تو اس سے بھی چار سال پہلے اسی دن مر گیا تھا جب ایک ٹورسٹ نے مجھے ایک خوب ٹھسے والی عورت لانے کو کہا تھا اور میں سمجھا بجھاکر اپنی بیوی کو ہی بناسنوار کر لے گیا تھا۔ گھر میں پیسے ہوں گے تو اور کیا چاہیے۔۔۔؟ وہ رونے لگا بابا، اور پوچھنے لگا، کیا میں تمہیں اپنا بھوت معلوم نہیں ہوتا؟ میں نے اس کی طرف آنکھیں جھپکا جھپکاکر دیکھا۔ کبھی وہ سارے کا سارا صاف نظر آجاتا تھا، اور کبھی اس کے سارے چہرے پر صرف ناک، یا صرف منہ، یا صرف آنکھیں۔ میں تو وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔‘‘ اپنی بدحواسی پر حاوی ہونے کے لیے بندھو دوچار بار تیز تیز بے مطلب بھونکا۔
’’ارے! تم نے روٹی کھانے سے ہاتھ کیوں روک رکھا ہے؟‘‘ وہ بابا سے پوچھنے لگا۔ ’’ایک تو تم پیٹ بھر کر کھاتے نہیں، دوسرے جتنا کھاتے ہو، وہ بھی اتنا سا، جتنی میں دکھاوے کی چوکیداری کرتا ہوں۔ میں تمہیں سچ مچ بتاؤں؟ رکھے چوہدری کی دو روٹیوں سے میرا پیٹ نہیں بھرتا۔میں ہر جھگی سے کچھ نہ کچھ چراکر کھانے کی تاک میں لگا رہتا ہوں اور اب تو مجھے چھبیلی کے لیے بھی ہاتھ پیر مارنے پڑیں گے۔۔۔ یہ چھبیلی دو دن سے کہاں غائب ہے بابا؟ میرا تو خیال ہے اس کے مرنے ورنے کی خبر جھوٹی تھی۔ وہ اپنے کسی یار کے ساتھ رفوچکر ہوگئی ہوگی۔ اس سے لڑجھگڑ کر آئی ہوگی اور اب غصہ ٹھنڈا پڑنے پر واپس اسی کے پاس چلی گئی ہے۔ مجھے تو وہ اپنی عزت آبرو کے پردے کے لیے برتتی ہے، اور بس۔ اس سے تو اچھا ہے کہ اگر مر بھی گئی تھی تو مری پڑی رہتی۔۔۔ ہہ ہا۔۔۔ واہوں۔‘‘ اپنے غصےکااظہار کرتے ہوئے بندھو ایکا ایکی ہنسنے لگا۔
’’اس میں ہنسنےکا کیا مقام ہے کھودو؟‘‘
’’ہے، بابا، ہے! مجھے رام چرن کی جورو کاخیال آگیا ہے۔‘‘ بندھو اور کھل کر ہنسنے کے لیے ذرا رک گیا۔ ’’کل رات رام چرن کی جورو دودھ والے جانگلو کے ساتھ چمپت ہوگئی۔ رکھے چوہدری کی اس پر نظر تھی بابا۔ آج صبح میں چوہدری کے یہاں گیا تو بے وجہ مجھ پر گالیاں اور پتھر برسانےلگا۔ مجھے بھی تاؤ آگیا اورمیں نے بھی جی کھول کر سنائیں۔ پھر وہ ٹھنڈا ہوکے مجھ سے معافی مانگنے لگااور پوچھنے لگا،کیا میں جانگلو سے بھی گیا گزرا ہوں، بندھو؟ سچ مچ بتاؤ۔ اب میں اسے کیا بتاتا؟ آج وہ نئے کپڑے پہن کے اور جلیبیوں کی ٹوکری بھرواکے بے بے بشیراں کے پاس گیا ہے۔‘‘
’’ہہ ہہ ہاہہ! کھودو بابا بھی کھلکھلاکر ہنس پڑا۔‘‘
’’ہمیشہ اسی طرح خوب ہنسا کرو بابا۔‘‘ بندھو شادمانی میں تیز تیز دم ہلانے لگا۔ ’’اس طرح مجھے بہت اچھے لگ رہے ہو۔‘‘
بندھو نے دیکھا کہ ان کی سیدھ میں ہی کیکر کےنیچے ایک کالا ناگ بھی بابا کو دیکھ دیکھ کر آدھا اپنے بل کے اندر اور آدھا باہر خوشی سے بے اختیار ہل اور پھنکار رہاہے۔
’’اسے دیکھ کر تمہارا دم کیوں خشک ہوگیا ہے؟ وہ بھی اپنا یارِ غار ہے کھودو۔‘‘ روٹی کاآخری لقمہ منہ میں ٹھونس کر بابا کھڑا ہوگیا۔ ’’آؤ تائی کو دیکھ آتے ہیں، وہیں پانی بھی پی لیں گے۔‘‘
خوفزدہ بندھو بابا کو کوئی جواب دیے بغیرفوراً مڑ گیا اور بابا کے آگے آگے دوڑنےلگا۔
’’آہستہ، کھودو!‘‘ بابا اس کی سرزنش کرنےلگا۔ ’’میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’تمہارے اس یارِ غار کو دیکھ کر واقعی میرا دم نکل گیا۔‘‘
’’اس کے باوجود چل پھر رہے ہو۔ حق!‘‘
بندھو نے سرموڑ کر کیکر کے درخت سے فاصلے کا جائزہ لیا اور کچھ یاد آنے پر کھڑا ہوگیا۔ ’’ہماری جھونپڑپٹی میں ایک بڑی نیک کرسٹانی عورت ہے بابا، روزی مدر۔ شام کو اس کے دھندے کاٹائم ہوتاہے، اس لیے وہ کل دن میں کسی وقت تم سے ملنے آئے گی۔‘‘
’’کیا دھنداکرتی ہے؟‘‘
’’جسم بیچنے کا دھندا کرتی ہے؟‘‘
آگے آگے دوڑنے کی نیت سے بندھو نے سر موڑا تو بابا نے اسے پھر تنبیہ کی، ’’آہستہ!‘‘
’’مجھ سے آہستہ نہیں چلا جاتا، بابا،‘‘ بندھو نے دوڑ لگانے سے پہلے اسے جواب دیا۔ ’’تم آہستہ آہستہ آؤ۔ میں جاکر تائی کو بتاتا ہوں۔‘‘
دوسرے روز روزی مدر بابا کے چبوترے پر آئی تو آتے ہی اس نے اپنے تھیلے سے دو سیب نکال کر بابا کو پیش کیے جنہیں ہاتھوں میں لے کر بابا نے لوٹا دیا، ’’یہاں سے جاتے جاتے یہ سیب کھودو تائی کو دے دینا۔‘‘
’’کھودو تائی کون؟‘‘ مدر نےہنس کر پوچھا۔ ’’اچا، اچا! اپنا تائی کوراں۔ کوئی لفڑانہیں، ہم دے دیتا،‘‘ پھر اس نےتھیلے سے ولایتی شراب کی ایک بوتل نکالی۔ یہ تو تائی کو راں نہیں لے گا۔‘‘
’’حق!‘‘ بابا کا چہرہ غصے سے جلالی ہونے لگا۔
مدرنےجلدی سے شراب کی بوتل کو واپس تھیلے میں ڈال لیا اور ڈرجانے کے باوجود آواز میں خفگی بھرکے بولی، ’’کیا تم سمجھتا ہے بابا، ہم کو اپنے الٹے سیدھے دھندے اچا لگتا ہے؟ پر ہم یہ دھندے نہ کرے تو اور کیا کرے؟ تم کھدا کا آدمی ہے بابا، تم سے کیا پردہ؟‘‘ وہ بے جھجک بولنے لگی تھی، ’’تم سوچو میری امر میں جسم گراہک کو سونپا جاتا ہے یا گاڈ آل مائٹی کو؟ بولو، بابا! کبھی کوئی کڑک جوان گراہک پھنس جاتا ہے تو میں اس کے باجوؤں میں اپنا بیٹا یاد کرکے رونے لگتا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں ملتجیانہ اصرارتھا۔ ’’جب میں کھد آپ ہی اپنے آپ سے نپھرت کرتا ہے تو تم کا ہے کو کرتاہے بابا؟‘‘
مدر کے بے تامل اعتراف سے بابا ڈھیلا پڑچکا تھا۔ ’’بولو، مجھ سے تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
’’اور کیا چاہیے؟ ہم نے پتہ چلا ہے تمہارے بلانے پر مرے ہوئے لوگ واپس چلا آتا ہے،‘‘ مدر کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔
’’ہم کا وکی بیٹا شراب پی پی کر کھدا کا پیارا ہوگیا تھا۔ ہمیں ہمارا وکی سے ایک بار ملادو۔‘‘ کھودو بابا کو محسوس ہوا کہ اس کے سینے میں بھی مدر کا دل ہی دھڑکنے لگا ہے۔ ’’ملادوں گا۔۔۔ حق! ضرور ملادوں گا۔‘‘
مدر ڈانواں ڈول ہونے لگی کہ باباانہیں کیوں کر ملائے گا۔ ’’ہمارے وکی کامرے پورا ایک برس بیت گیا ہے بابا۔‘‘
’’تو کیا ہوا، مدر؟ غریب آدمی کے مرنےسے ان کی جان تھوڑا ہی چھوٹ جاتی ہے۔‘‘
آج شام کو تو جھونپڑپٹی کے تقریباً سبھی لوگ بابا کے چبوترے پر امنڈ آئے تھے اور نہ صرف قبرستان کی اس جانب بلکہ اس جانب بھی قبرستان کا سارا کنارہ گھیر کر بیٹھ گئے تھے۔ کیا معلوم، قبرستان کے مردے بیچارے کہاں اپنی جگہ بناکر بیٹھے تھے۔
کھودو بابا پہلے روز کے مانند چبوترے کے سرہانے جوڑی ہوئی اینٹوں پر اپنی پیٹھ ٹکائے نیم دراز ہوکے بے جنبش پڑا تھا اور اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں کو آکاش میں کھبائے ایسے لگ رہا تھا جیسے اپنی قبر سے نکل کر وہیں اپنی مٹی پر ڈھیر ہوکے اپنی تلاش میں آسمان میں پہنچا ہواہے۔
سبھی لوگ بابا کے گن گا رہے تھے اور ان کے کان کھڑے تھے کہ اور گھڑی دوگھڑی میں جونہی اس کی صدائے حق سنائی دے گی وہ اسی وقت ہمہ تن گوش اس کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔
پنڈت مرلی دھر نے تو اسے اس طرح ڈوبے ہوئے پاکر عقیدت مندی سے اپنی چوٹی کی ساری گانٹھیں کھول لیں۔ ’’میں نے بڑے بڑے فقیر اور مہاتما دیکھے ہیں چوہدری،‘‘ وہ رکھے چوہدری کی بغل میں بیٹھاتھا۔ ’’پر اپنا بابا کھودو تو دور بہت دور تک پہنچا ہوا ہے۔‘‘
’’تبھی اسے واپسی میں دیر ہوں رہی ہے۔‘‘ رکھے چوہدری کوالجھن ہو رہی تھی کہ کھودو بابا اب آکاش سے پلٹ کیوں نہیں آتا۔
’’سنو،‘‘ پنڈت نے چوہدری کو ٹہوکا دیا۔ ’’کوئی ہنسا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہواں پنڈت؟ ہنسنےوالا کیاں تم سے پاٹھ پوجاں کرائے بغیر نہیں ہنس سکتاں؟‘‘
’’نہیں، چوہدری،‘‘ پنڈت نے اپنی بات پر زور دینے کے لیے آواز کو دباکر کہا۔ ’’میرا مطلب ادھر والوں سےنہیں۔۔۔ سنو، پھر کوئی ہنسا ہے۔ ادھر والوں سے!‘‘ اس نے قبرستان کی طرف اشارہ کیا۔
’’تو کیاں ہواں؟‘‘ چوہدری نے بابا کا لہجہ اختیار کرکے کہا، ’’کوئی ادھر کاں ہوں یا ادھر کاں، خدا کی ساری مخلوق برابر ہے۔‘‘
’’لو، بابا نےہلناتو شروع کردیا۔‘‘
چوہدری نے فوراً بابا کی طرف دیکھا،وہ تو مکھی ہے جوں بابا کے منہ پر ہل رہی ہے۔‘‘ وہ مکھی اڑانے کے لیےاپنی جگہ سے اٹھ کر بابا کے پاس چلاآیا، ’’اوں مورکھوں‘‘ سب چونک کر اس کی طرف دیکھنےلگے، باباں یہاں کہاں ہے؟‘‘
’’ہمارےسامنےکون پڑا ہے؟‘‘ پنڈت نے پوچھا۔
’’باباں توں کوچ کر چکاں ہے۔‘‘
’’واہوں! وہوں،‘‘ بندھو بھی بھونک بھونک کر چوہدری کے پاس آکھرا ہوا، ’’وہوں!‘‘
’’گھبراؤ نہیں،‘‘ سب سراسیمہ ہوکر اٹھنےلگے تو پنڈت انہیں سمجھانے لگا۔ ’’جہاں بھی گیا ہے، وہاں سےاور تھوڑی دیر میں لوٹ آئے گا۔‘‘ اسے پھر لگاجیسے کئی مردوں نے مل کر قہقہہ لگایا ہے اور وہ بوکھلاکر بول اٹھا۔
’’دھیان سے دیکھو، چوہدری، بابا کہیں چل تو نہیں بسا؟‘‘
’’ہاں، شیداں،‘‘ ہرنی اپنی پڑوسن کو بتارہی تھی۔ ’’پیر پھکیل ادھل نہیں ہوتے جھدل ہوتے ہیں۔۔۔کیا؟ کیا پتہ، کھدا کے بندے بدن سےنکل کر کدھل پہنچے ہوتے ہیں،‘‘ اوروں کوبھی اپنی طرف متوجہ پاکر وہ اپنی بات میں بہتی چلی گئی۔ ’’میں اپنا مکابلہ بابا سے نہیں کل لئی۔ کہاں بابا اور کہاں میں مہا مولکھ۔۔۔ کیا؟ میں نے کئی بال ماسوس کیا ہے، میلی جان تو ادھر چوہدلی کی جھونپڑپٹی میں اٹکی ہوتی ہے، اول میں اپنی ماں کےآنگن میں اڈی ٹپا کھیل لئی ہوتی ہوں۔ کیا؟ اب بتاؤ، میں ہوتی کدھل ہوں؟ مجھے اپنی تلب ہونےلگے تو کھد کو کہاں ڈھونڈوں؟‘‘
’’وہوں!‘‘ بندھو سب کی طرف منہ لٹکاکر بھونک رہاتھا، ’’آرام سے بیٹھے رہو۔ واہوں!‘‘
’’میں تو کہوں ہرنی،‘‘ شیداں بول رہی تھی۔ ’’بابا جب گھومتے پھرتے ادھر آن نکلاتھا، اس وکھت کیا پتہ وہ اسی تراں کدھر پڑاہوگا؟‘‘
’’واہوں۔‘‘ بندھوان سب کو مخاطب کرنے کے لیے کھودو بابا کے پہلو میں چبوترے پر آکھڑا ہواتھا۔ ’’پہلے تو بابا اپنے ٹھکانے کی کھوج میں گھومتا پھرتا تھا۔ واہوں۔ اب اسے کہاں جانا ہے۔ وہوں۔ وہ اب سداکے لیے یہیں بس گیا ہے۔ واہوں! واہوں۔‘‘
’’حق!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.