Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھویا ہوا آدمی

اخلاق احمد

کھویا ہوا آدمی

اخلاق احمد

MORE BYاخلاق احمد

    باہر سیاٹل کی رات تھی۔

    یخ ہوا ہر چیز کے آرپار گزر جاتی تھی۔ اوورکوٹ، دستانے، ونڈبریکر جیکٹس، چربی، ہڈیاں، سب کے درمیان سے گزر جاتی تھی۔ انگلیوں کی پوریں اور ناک جیسے بے حس، بےجان ہونے لگتی تھیں۔

    صرف تین منٹ تک انور اس خوفناک سردی کو برداشت کر پایا۔ سگریٹ کے کش تیزی سے لیے جائیں تو بس، ڈھائی تین منٹ کاہی کھیل ہوتا ہے۔ بدن کی گرمی بھی بس اتنی ہی دیر امریکی ویسٹ کوسٹ کی ان سرد ہواؤں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔

    اپنے اپارٹمنٹس کا مرکزی دروازہ دھکیل کروہ اندر داخل ہوا تو خوشگوار گرمی نے اس کا استقبال کیا۔

    پرانی وضع کی لفٹ کا دروازہ کھلا۔ سیاہ فر کے کوٹ میں لپٹی ایک بوڑھی عورت باہر نکلی اور اس کے پیچھے پیچھے ایک چھوٹا سا کتا، جس کے بدن پر میلی روئی جیسے بال ہی بال تھے۔ وہ سرجھکا کر خالی لفٹ میں داخل ہو گیا۔

    اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر اس نے جیکٹ اتار پھینکی اور لکھنے والی میز پر جا بیٹھا۔

    وہ پہلا جملہ، رائٹنگ پیڈ پر اسی طرح تنہا بیٹھا تھا۔۔۔!

    ’’ماریانہ۔۔۔ شاید یہ تمہارے نام میرا آخری خط ہوگا۔‘‘

    ایک گھنٹے سے انور اس پہلے جملے کو دیکھ رہا تھا۔

    یہ جملہ نہیں تھا، کوئی انکشاف تھا جو قلم کی نوک سے نکلا تھا اور اب آنکھوں کے راستے پورے بدن میں سنسنی بن کر دوڑتا تھا۔ کوئی خبر تھی، جس نے اسے ایک گہری نیند سے بیدار کر دیا تھا۔

    انور کو اپنی بےخبری پر حیرت ہوئی۔ اتنی سیدھی سی بات۔ وہ جملے کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔ زندگی کے پانچ برس اس بے خبری کی نذر ہو گئے اور پتا بھی نہ چلا۔ اسے ماریا نہ کا خیال آیا۔ شاید وہ بھی ایسی ہی کسی بے خبری میں تھی۔ یا شاید نہیں تھی۔

    اس نے اٹھ کر کافی بنانے کی تیاریاں شروع کیں۔ ریفریجریٹر سے کریم نکالتے ہوئے انور کی نظر پھر اس چٹ پر پڑی جو ماریانہ نے وہاں چپکا رکھی تھی۔ ’’ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ جا رہی ہوں۔ انتظار مت کرنا۔‘‘

    گرم کافی کا پہلا گھونٹ لے کر وہ مسکرایا۔ کون کسی کا انتظار کرتا ہے۔ اس نے خود سے کہا۔ محبتیں، ڈالرز، نوکریاں، مواقع۔ کوئی انتظار نہیں کرتا۔ ایک بھگدڑ مچی ہوئی ہے میری جان، جسے سب نظام کہنے لگے ہیں۔ ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں لوگ ہانپتے کانپتے، گرتے سنبھلتے، ٹکراتے لڑکھڑاتے، آگے کی جانب، اور آگے کی جانب بھاگتے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آگے کیا ہے۔ شاید دولت ہوگی۔ بے اندازہ دولت۔ یا شاید سکون ہوگا۔ بےحدوحساب سکون۔ یا شاید کامیابی ہوگی۔ یا شاید کچھ اور ہوگا جو زندگی میں آسانی سے نہیں ملتا۔ بھاگتے جاؤ۔ ہانپتے جاؤ اور بھاگتے جاؤ۔

    کافی ختم کرکے وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کرسی پر بیٹھا اور اس نے اندھا دھند لکھنا شروع کر دیا۔

    ’’بات یہ ہے ماریانہ۔ کہ کھیل ختم ہو چکا۔ شاید میں یہ بات بہت بدتہذیبی سے لکھ رہا ہوں۔ کسی شائستگی کے بغیر۔ مگر بہت دیر تک مناسب لفظ تلاش کرنے اور اس میں ناکام ہونے کے بعد میں نے سوچا ہے کہ بات کسی بھی طرح تم تک پہنچا دوں۔ کسی منافقانہ ہیر پھیر کے بغیر۔ سو میں تمہیں مطلع کر رہا ہوں کہ ہمارے لیے ایک دوسرے سے الگ ہونے اور اپنی اپنی راہوں پر، اپنی اپنی زندگی کی مسافتوں پر روانہ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘

    اس نے رک کر، خط کے ابتدائی جملوں کو دوبارہ پڑھا اور تلخی سے مسکرایا۔ پروفیسر متین ہوتے تو سرپیٹ کر رہ جاتے۔ یہ کیا لکھتے رہتے ہو برخوردار، کیا افسانے تراشتے رہتے ہو۔ خبر اس طرح نہیں بنائی جاتی۔ سب سے اہم بات، سب سے پہلے آئےگی۔ انورٹڈ پرامڈ سمجھایا تھا نا تمہیں؟۔ مخروط معکوس۔ مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بےاثر۔

    دورصوفے پر پڑے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

    نہیں۔ اس نے خود کو اٹھنے سے روک لیا۔

    گھنٹی بجتی رہی۔ دو۔ چار۔ سات۔ آٹھ۔ بالآخر خاموشی چھا گئی۔

    انور نے پھر جھک کر لکھنا شروع کیا۔ ’’میں نہیں جانتا کہ تم یہ خط کب پڑھوگی۔ کل ۔ یا پرسوں۔ یا اگلے ہفتے۔ لیکن جس وقت میں یہ خط لکھ رہا ہوں، گھر میں مکمل خاموشی ہے۔ خاموشی اور تنہائی۔ ریفریجریٹر کے دروازے پر تمہارا روایتی ویک اینڈ نوٹس چسپاں ہے۔ اور میں اس تنہائی کی بدولت، اطمینان سے یہ سب کچھ لکھ سکتا ہوں۔

    بات یہ ہے ماریانہ، کہ وہ دن آ گیا ہے جو ایک نہ ایک روز آنا ہی تھا۔ یہ مجھے بھی معلوم تھا اور تم بھی اچھی طرح جانتی تھیں۔ ہمارا رشتہ تو ایک کاروباری سودا تھا۔ باہمی مجبوریوں کا سودا۔ پانچ برس پہلے تم ایک پارٹ ٹائم ویٹریس تھیں اور تمہارے لیے ایک سال تک ہر ماہ ایک ہزار ڈالرز، ایک پُرکشش پیشکش تھی۔ اور میں چھ ماہ کے ویزے پر آنے والا غیر ملکی، جسے یہاں ٹھہرنے اور مستقبل بنانے کے لیے ایک کاغذی بیوی کی ضرورت تھی۔

    تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو اس سودے میں کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ کسی فریق نے کوئی بے ایمانی نہیں کی۔ تمہیں بر وقت پیسے ملتے رہے۔ مجھے قانونی تحفظ دستیاب رہا۔ تم نے مجھے باہر والے کمرے میں رہنے کے لیے جگہ فراہم کر دی۔ میں نے تمہارے اور گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کر دینے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ تم نے مجھے بوئنگ کمپنی کو اسپیئرپارٹس فراہم کرنے والی کمپنی کے اس ٹھیکیدار سے ملوادیا۔ میں نے اس انڈین ریسٹورنٹ میں تمہارے لیے ایک بہتر ملازمت کی بات طے کرا دی۔ میں جانتا ہوں، تم یہ سب پڑھتے وقت کیا سوچ رہی ہوگی۔ کیسی بےمقصد باتیں کرتا ہے یہ این ور۔ فضول اور بےمقصد اور وقت ضائع کرنے والی باتیں۔ مگر ماریانہ۔ ایک آخری خط میں اس قسم کی باتیں ہی تو ہوتی ہیں۔

    کہنا میں یہ چاہتا تھا ماریانہ، کہ ہمارا حساب برابر ہے۔ کسی کا کسی پر کچھ ادھار نہیں۔ شاید میرے چلے جانے کے بعد تم یہ سوچو (اگرچہ مجھے پورا یقین ہے کہ تم اس طرح نہیں سوچ سکتیں) کہ میں نے سب حساب برابر نہیں کئے۔ سب باتوں کا ذکر کیا اور ایک بات بھول گیا۔ میں چشم تصور سے تمہاری آنکھوں میں ابھرنے والی حیرت کو دیکھ سکتا ہوں۔ تمہارے ماتھے کی شکنوں پر لکھا نظر آ رہا ہے۔ یہ این ورکس معاملے کا ذکر کر رہا ہے؟۔ میں دراصل اپنی اور تمہاری نجی زندگی کی بات کررہا ہوں ماریانہ۔ میرے اور تمہارے کاروباری معاہدے میں یہ کبھی طے نہیں ہوا تھا کہ ہم کاغذی شادی کی حدود کو پار کرنے کی کوشش کریں گے۔ چار ماہ بعد تم نے خود یہ حد عبور کی۔ لیکن ماریانہ، ایمان داری سے دیکھو تو یہ بھی برابر کا سودا تھا۔ مجھے اپنے محدود وسائل میں عورت نہیں مل سکتی تھی اور تمہیں چھتیس برس کی عمر میں اٹھائیس سال کا وفادار نوجوان نہیں مل سکتا تھا۔ مجبوریاں، ضرورتیں، فوری تقاضے۔۔۔ کچھ بھی کہہ لو اس کو۔ کوئی بھی لیبل لگا دو۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم دونوں نے اپنی اپنی سہولت کو پیش نظر رکھا۔

    میرا ذاتی خیال یہ ہے ماریانہ اور میں جانتا ہوں کہ تم اسے حسبِ روایت نہایت احمقانہ خیال سمجھوگی، کہ ساری گڑبڑ اسی رات شروع ہوئی۔ تمہیں تو شاید وہ رات بھی اب یاد نہیں ہوگی۔ مجھے بہر طور اچھی طرح یا دہے۔ اسے اپنی خراب یادداشت کاشاخسانہ مت سمجھنا۔ یہ بس یوں ہی ہے۔ یوں ہی ہوتا ہے۔ میں اور تم دو بالکل مختلف قسم کے لوگ ہیں۔ روایتی رومان پسند مرد۔ اور روایتی عملی عورت۔ لہٰذا مجھے پورا یقین ہے، تمہیں بالکل یاد نہیں ہوگا کہ اس رات تم نے سرخ ٹاپ اور سیاہ اسکرٹ پہن رکھا تھا اور تمہارے کانوں میں وہ سرخ آویزے تھے جو تمہاری ہنسی کے ساتھ لرزتے تھے اور تمہاری آنکھوں میں چمک تھی جسے میں نے اس وقت محبت میں دھیرے دھیرے مبتلا ہونے کا اشارہ سمجھا تھا۔ اگلی صبح، ماریانہ، جب میں بیدار ہوا تھا تو کھڑکی سے صبح کی روشنی اندر آ رہی تھی اور تمہارے نصف چہرے پر، تمہاری بند آنکھوں پر اور ادھ کھلے ہونٹوں پر رقص کر رہی تھی اور میں نے اس صبح کو دیکھ کر پہلی بار یہ سوچا تھا کہ زندگی کا ایک نیا، دل کش اور سنسنی خیزدور شروع ہوتا ہے ۔تمہارے چہرے پر بکھرے بالوں کو احتیاط سے ہٹاتے ہو ئے مجھے یقین تھا کہ ماضی جا چکا۔ رخصت ہو چکا۔ گم ہو جانے والی چیزوں کی طرح کھوچکا۔ اب صرف حال ہے اور اس سے آگے مستقبل، جس میں تم ہوگی اور میں اور محبت ۔۔۔آدمی تنہائی میں کیسے کیسے گمان کرتا ہے۔ کیسی کیسی عمارتیں بناتا ہے اور کیسے کیسے مجسمے تراشتا ہے۔ خال وخدسے محروم مجسمے۔۔۔ دیوارودرسے محروم عمارتیں۔۔۔‘‘

    انور نے قلم رکھ دیا۔

    بدن جیسے پھر نکوٹین طلب کر رہا تھا۔ اس نے پھر جیکٹ پہنی اور چابیوں کے ساتھ اپنا سیل فون جیب میں ٹھو نستا ہوا باہر نکل آیا۔ وہی پرانی، بدوضع لفٹ۔ انور کو اس کی سست رفتاری سے نفرت تھی۔

    اپارٹمنٹس کے باہر وہی خوفناک سردی تھی۔ اس نے سگریٹ سلگا ئی اور ایک گہراکش لے کر سگنل کی جانب دیکھا۔ سڑکوں پر بہت کم گاڑیاں تھیں۔ سگنل کے اس پار سے اسٹاربکس کانیون سائن آنکھیں مار کر اپنی جانب بلا رہا تھا، ہاٹ چاکلیٹ کی دعوت دے رہا تھا۔ انور نے بمشکل خود پر قابو پایا اور دوسری جانب دیکھنے لگا۔ ایک بےحد موٹی سیاہ فام عورت اپنے نوعمر دبلے پتلے بیٹے کا ہاتھ تھامے تیزی سے آ رہی تھی۔

    انور فٹ پاتھ پر ایک قدم پیچھے ہو گیا۔

    وہ دونوں اس کے سامنے سے گزر رہے تھے جب انور نے عورت کی آواز سنی۔ ’’تمہیں تہذیب یافتہ بنناہے۔ جنٹل مین بننا ہے۔۔۔سمجھ رہے ہو؟۔ یہ آوارہ لڑکے تمہیں کچھ نہیں بننے دیں گے۔۔۔‘‘ عورت کی آواز مدھم ہو تی گئی۔

    انور نیم اندھیرے میں مسکرایا۔ جنٹل مین۔ اس نے سردی کو رفتہ رفتہ بدن کے اندر اترتے محسوس کیا اور سوچا۔ کیا ہوتا ہے جنٹل مین بننے کے بعد۔؟ آدمی سیاٹل کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتا ہے اور سخت سردی میں کپکپاتے ہاتھوں سے ایک اندھیری سڑک پرسگریٹ پیتا ہے اور تنہائی اور بیزاری سے ہم آغوش رہتا ہے۔ مت پڑنا جنٹل مین بننے کے چکر میں نوجوان۔ اس نے ختم ہو جانے والی سگریٹ کو جوتوں تلے کچلا اور واپس چل پڑا۔

    اپارٹمنٹ میں فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

    اس نے ٹیلیفون پر ایک نفرت بھری نگاہ ڈالی اور جیکٹ اتارکر صوفے پر ڈال دی۔

    فون کی تیز، کرخت گھنٹی بالاخر بند ہو گئی ۔ اپارٹمنٹ میں سناٹا چھا گیا۔

    انور نے پھر لکھنا شروع کیا۔ ’’میں بہت دن تک محبت میں مبتلا رہا ماریانہ۔ شایدکئی ماہ تک۔ آدمی محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو دیکھنے کی، سمجھنے کی، حالات پر نظر ڈالنے کی، معاملات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ میں بھی ان دنوں میں، ان مہینوں میں ایساہی آدمی تھا۔ مجھے بالکل نظر نہیں آتا تھا کہ میں دن کے چوبیس گھنٹے تمہاری محبت میں گرفتار رہتا ہوں اور تم کبھی بیس منٹ۔۔۔کبھی آدھا گھنٹہ ۔۔۔کبھی چالیس منٹ تک ایک والہا نہ جذبے سے سرشار نظر آتی ہو۔ یہ سیدھا ساعدم توازن تھا ماریانہ۔جذبوں کی شدت کا عدم توازن۔ میں ایک بار پھر تمہارے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ سکتا ہوں۔ شایدتم افسوس سے سربھی ہلا رہی ہو۔ میں اور تم، بالکل الگ مٹی سے بنے لوگ ہیں ماریانہ۔ لہٰذا میں تمہیں اس عد م توازن کے بارے میں اور اس سے پھوٹنے والے دکھ کے بارے میں کچھ نہیں سمجھا سکتا۔ تمہیں شاید یاد بھی نہ ہو، جب اس پہلی رات کے بعد۔۔۔ شاید دو دن بعد ہم وڈلینڈ پارک گئے تھے۔ وہ خزاں کا موسم تھا اور قدموں تلے چرچراتے خشک پتوں کی آواز سن کر لگتا تھا، ہم نازک کانچ کی سطح پر چل رہے ہیں جو چٹختا، ٹو ٹتا جا رہا ہے۔ اس وقت وہ سہ پہر مجھے اپنی زندگی کی سب سے حسین سہ پہر لگی تھی۔ ادھر، ہمارے ملک میں، سہ پہر بہت ویران، بہت بیزار کن ہوتی تھی۔ کم ازکم مجھے ایسی ہی لگتی تھی۔ تیز، چبھتی دھوپ سے بھری، ہولناک حبس میں لتھڑی۔ ٹھنڈے ملکوں کی سہ پہریں مختلف ہوتی ہیں۔ خیر، یہ اضافی باتیں ہیں۔ میں جس سہ پہر کا ذکر کر رہا ہوں، وہ بہت جادو بھری تھی۔ وہاں میرے ساتھ تم تھیں اور قطار در قطار نارنجی پتوں والے وہ درخت تھے جن سے نرم، سنہری دھوپ چھن کر آتی تھی تو یوں لگتا تھا، ہر جانب ایک دھیمی دھیمی آگ سلگ رہی ہے۔ یس۔ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ سب تصور کی شعبدہ گری ہوتی ہے۔ دل خوشی سے لبریز ہو تو فینٹسی ایسے ہی نظارے دکھاتی ہے۔ میں محبت میں تھا لہٰذا بہت سی چیز یں صرف میں دیکھ سکتا تھا۔ تمہاری آنکھوں میں مسرت کی چمک تھی اور کسی شوخ یاد سے جنم لینے والی مدھم مسکراہٹ اور ایک معصوم، بےساختہ بےفکری۔ تم اس حسین فضامیں گم تھیں اور میں تمہارا نظارہ کر رہا تھا اور یہ سوچنے کی فرصت کس کے پاس تھی کہ ہمارا محور، ہماری نظر کا مرکز جدا جدا کیوں ہے۔

    میں خوب جانتا ہوں کہ میں لکھتے لکھتے بہک رہا ہوں۔ مگر خود بتاؤ ماریانہ، آدمی اپنی زندگی کو کسی مشین کی سی یکسوئی کے ساتھ کیسے بیان کر سکتا ہے۔ ہر آدمی ایک کہانی ہوتا ہے۔ مگر محض ایک کہانی نہیں۔ کہانی درکہانی۔ کہانی درکہانی درکہانی۔ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کہانیاں۔ ایک دوسرے سے یکسر اجنبی کہانیاں۔

    میں بہت دن اس گمان میں رہا کہ میری اور تمہاری کہانی اب ایک ہی ہے۔ ایک دوسرے سے ہمیشہ کیلئے منسلک ۔جیسے ساتھ ساتھ ایستا دہ دوگھنے درختوں کی شاخیں ہمیشہ ہم آغوش رہتی ہیں۔ ہاں۔ تمہار ے دل میں آنے والا خیال بالکل درست ہے۔ میر ی اپروچ، میرا نکتہ نظر بےحد رومانی ہے۔ تم ان باتوں کو حماقت سمجھتی ہو تو یہ بھی کچھ غلط نہیں ہے۔ تمہیں ایسے ہی سوچنا چاہئے۔ بہرطور، میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں بہت مہینوں، بہت سالوں تک ایک خمار میں رہا۔ ایک مسلسل نشہ، جس میں مجھے یہ بھی نظر نہیں آ سکا کہ قربت کے لمحوں میں تمہاری وہ تڑپ، وہ والہانہ پن، وہ جوش رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے فلموں میں کوئی منظر دھیرے دھیرے فیڈ آؤٹ ہوتا جاتا ہے۔ کردار کھڑے رہ جاتے ہیں، منظر دھندلانے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ باقی نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح محبت فیڈ آؤٹ ہونے لگی۔ میں اور تم کھڑے رہ گئے اور ہمارا تعلق دھند لاتا گیا۔۔۔

    ہمارا آخری ایک سال جیسا گزرا ہے، وہ تم بھی جانتی ہو۔ میں تم سے کہیں زیادہ جانتا ہوں۔ گزشتہ گیارہ بارہ مہینوں میں ہمارا محبت کا رشتہ، بیزاری کے رشتے میں ڈھل کر ایک تکلیف دہ، خوفناک تعلق بن گیا ہے۔ جانتی ہو، رویوں کی سائنس کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں، ہر شادی چند برس بعد بیزاری اور اکتا ہٹ میں ڈھل جاتی ہے۔ مگر ماریانہ، یہ تو شادی سے بھی کہیں زیادہ اذیت ناک معاملہ تھا۔ کوئی سماجی بندھن نہیں۔ کوئی اخلاقی پابندی نہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ اس آخری ایک سال میں میری دفتری مصروفیات میں یونہی اضافہ نہیں ہوا۔ میں نے خود زیادہ کام کرنا، زیادہ دیرتک دفتر میں رکنا شروع کیا۔ کیونکہ میں اس گھر میں سرشام نہیں جانا چاہتا تھا جہاں محبت مرجھا چکی تھی۔ اس بستر پر نہیں جانا چاہتا تھا جس پر ایک اجنبی عورت سو رہی ہوتی تھی۔ اس چاردیواری میں وقت نہیں گزارنا چاہتا تھا جہاں ہر جانب لاتعلقی حکمراں ہوتی تھی۔۔۔‘‘

    اس کے سیل فون کی گھنٹی پھر بجنے لگی۔

    دو۔ تین۔ چار۔ چھ بار۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

    انور نے دیوار گیر گھڑی پر نظر ڈالی۔ تین بج کر بیس منٹ۔ وہا ں شام ہو رہی ہوگی۔ اس نے سوچا۔ ہزاروں میل دور، ان جانی پہچانی گلیوں میں دھوپ ڈھل رہی ہوگی اور سائے بڑھتے جا رہے ہوں گے۔

    اس نے سرجھکا کر لکھنا شروع کیا۔ ’’کچھ باتیں میں نے تمہیں کبھی نہیں بتائیں ماریانہ۔ آدمی سب باتیں شاید کبھی نہیں بتاتا۔ کچھ نہ کچھ ضرور چھپا لیتا ہے۔ بہت سے دکھ، بہت سے پچھتاوے، بہت سی حسرتیں۔ وہ باتیں جو شرمندگی کا سبب بنتی ہوں اور وہ باتیں جو آدمی کا قد کم کرتی ہوں۔ کوئی خالی کمرہ ہوتا ہے آدمی کے اندر، جہاں کبھی نہ کھلنے والے راز اور کبھی نہ کہی جانے والی باتیں اور کبھی نہ سامنے آنے والے خوف، یاد کی دیمک زدہ الماریوں میں قطار درقطار رکھے ہوتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں شاید میں نے تمہیں بہت کچھ بتایا تھا اور کیونکہ تمہارے دل پر بھی محبت سایہ فگن تھی لہٰذا تم نے بھی پوری توجہ سے میری ہر بات سنی تھی۔ میرے بوڑھے ماں باپ، جن کے لیے میرے بھیجے ہوئے پانچ سو ڈالرز سکون سے زندگی گزارنے کے لیے کافی ہوتے ہیں اور میرے بھائی بہن، جن کے لیے میرا یہاں آ جانا ہی فخر کا سبب ہے اور میرے دوست، جو مجھے مسلسل یاد کرتے ہیں۔ میں نے تمہیں بہت سے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔

    مگر میں نے تمہیں بتول کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔

    اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بتول کے بارے میں، میں نے کسی کو بھی کچھ نہیں بتایا۔ وہ یونیورسٹی کے زمانے میں میرے ساتھ تھی۔ اس کے چہرے پر کسی استانی جیسی سختی تھی اور لگتا تھا کہ وہ اپنی نظر کی زد میں آنے والے کو ڈانٹنے ہی والی ہے۔ مگر ایک شوخ جملہ، ایک شرارتی بات۔۔۔ اور اس کے چہرے پر چھائی سختی کی نازک، شیشے جیسی دیوار ایک چھنا کے سے ریزہ ریزہ ہو جاتی تھی۔ میں نے کبھی کسی چہرے کو صرف مسکراہٹ کے ذریعے یوں حسین ہوتے نہیں دیکھا۔ میں نے کبھی۔۔۔ خیر، چھوڑو۔۔۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ بتول مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ آج یہاں اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی، تمہارے ساتھ زندگی کے پانچ سالوں پر محیط سفر کے باوجود میں بتول کی یاد سے پیچھا نہیں چھڑا سکا ہوں۔ ان پانچ برسوں میں، میں نے اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ اپنی زندگی کے کس مرحلے میں ہوگی۔ میرے بارے میں کیا سوچتی ہوگی۔ وہ سختی اس کے چہرے سے اس کے دل میں اتر آئی ہوگی یا نہیں۔ نفرت بن گئی ہوگی یا نہیں۔ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر ہاں، میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ بہت ضدی تھی۔ ضدی اور سرکش اور کبھی ہار نہ ماننے والی۔

    تم شاید سمجھ نہ پاؤ ماریانہ، مگر میں جو یہ بےترتیب، بظاہر بے تعلق باتیں لکھ رہا ہوں، یہ دراصل میری اپنی زندگی کا حساب کتاب ہے۔ کبھی نہ کبھی تو آدمی کو حساب کتاب کرنا پڑتا ہے۔ سو میں بھی پلٹ کر دیکھتا ہوں اور گزر جانے والے ماہ وسال کا حساب کرتا ہوں اور اپنے دامن کو خالی پاتا ہوں۔ میں نے سب کچھ کھو دیا ماریانہ۔ میں نے یہاں رہنے کا اجازت نامہ پا لیا اور اپنے ماں باپ کو کھو دیا۔ میں نے ساڑھے بائیس ڈالر فی گھنٹہ کا شاندار ریٹ حاصل کر لیا اور ایک ہنستی، مسکراتی زندگی کو کھو دیا۔ میں نے طیاروں کے اسپیئر پارٹس کی ہینڈلنگ میں کمال حاصل کر لیا اور اپنی صحافت کی ڈگری کو کھو دیا۔ میں نے اپنے بدن کو فروخت کر دیا اور بتول کو کھو دیا۔ خسارہ ہی خسارہ، ماریانہ۔ نقصان ہی نقصان۔ لہٰذا میں نے ۔۔۔‘‘

    انور لکھتے لکھتے رک گیا۔

    کوئی آہٹ سی ہوئی تھی۔

    جیسے دروازے میں چابی گھومنے کی آواز۔

    انور نے پلک جھپکتے میں کاغذات دراز میں ڈالے اور اٹھ کھڑا ہوا۔

    دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ماریانہ اندر داخل ہوئی۔

    ’’تم جاگ رہے ہو۔؟‘‘ اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ ’’میں پاگلوں کی طرح تمہیں فون کر رہی تھی۔ فون کیوں نہیں اٹھار ہے تھے تم۔؟‘‘

    انور اس آواز کی لرزش کو خوب پہچانتا تھا۔ عام حالات میں ماریانہ کا لہجہ ٹھہرا ہوا ہوتا تھا۔ اس لہجے میں اگر لرزش آتی تھی تو صرف نشے کی وجہ سے۔ تیسرے پیگ کی حد عبور کرنے کے بعد۔

    ’’جانتے ہو کتنے فون کئے ہیں میں نے ۔۔۔؟‘‘ ماریانہ نے صوفے کا سہارا لے کر سوچتے ہوئے کہا۔ ’’دس۔۔۔ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔۔۔‘‘

    انور اس کیفیت سے بھی خوب آشنا تھا۔ جو اب سننے سے زیادہ صرف سوال کرنے کی کیفیت ۔ کسی کا حال جاننے کے بجائے اپنا حال بیان کرنے کی کیفیت۔

    مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ماریانہ کا ذہن بیدار رہتا تھا۔ نشے کے باوجود اس کے حواس کام کرتے رہتے تھے۔

    ’’میں خود باہر گیا ہوا تھا۔ابھی ابھی آیا ہوں۔‘‘ انور نے کہا ۔ وہ جا نتا تھا کہ اس وقت ماریانہ جھوٹ پکڑنے کی صلاحیت سے محروم تھی۔

    ماریانہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں سے بکھرے بالوں کو سنوارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ انور چوکنا ہو گیا۔ ہاتھوں کا کپکپانا اشارہ تھا کسی اور بات کا۔۔۔ غصے کا۔۔۔ یا شدید دکھ کا۔۔۔ اتنے برسوں میں انور ایسے اشارے خوب سمجھنے لگا تھا۔

    ’’مسلسل فون کر رہی تھی میں۔‘‘ ماریانہ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ ’’مدد کے لئے پکار رہی تھی تمہیں۔۔۔گاڑی چلا نا مشکل تھا میرے لئے۔۔۔ویک اینڈ پر اتنی چیکنگ ہوتی ہے ڈی یو آئی کی۔۔۔‘‘

    انور دل ہی دل میں مسکرایا ۔ ڈی یو آئی کی چیکنگ۔ ڈرائیونگ انڈر انفلوئنس۔ نشے میں گاڑی چلانا۔ نشہ کرنے کی فکر کسی کو نہیں، نشے میں گاڑی چلاتے ہو ئے پکڑے جانے کی فکر سب کو ہے۔

    ’’تم نے فون کیوں نہیں اٹھایا؟۔۔۔ اتنی پریشان تھی میں۔۔۔‘‘ماریانہ سنبھل سنبھل کر آگے بڑھی اور صوفے پر بیٹھ گئی۔

    وہ اپنا سوال باربار دہرا رہی تھی۔ جواب حاصل کرنے کی آرزو کے بغیر۔ شاید اس وقت کوئی اور بات کرنا، کوئی نیا موضوع چھیڑنا ہی مناسب تھا۔

    انور نے کہا۔ ’’مگر تم تو اپنے دوستوں کے ساتھ تھیں۔‘‘

    ’’دوست!’’ماریانہ نے تلخی سے کہا۔ ’’وہ دوست نہیں ہیں این ور۔۔۔بلائیں ہیں۔۔۔لمبے لمبے ناخنوں والی بلائیں۔ خون چوسنے والی ویمپائرز۔۔۔ وکٹوریا کو جانتے ہونا۔؟ ۔۔۔ پندرہ سال کی دوستی ہے اس سے، مگر وہ ایک کتیا ہے۔ ایک خبیث، بےضمیر کتیا۔۔۔پتانہیں کون تھے وہ دو نوجوان۔۔۔دو گھنٹے ساتھ رہے ہمارے۔۔۔ڈانس کرتے رہے۔۔۔اور وکٹوریا ڈانس ختم کرکے جب بھی آتی تھی، ان کی گود میں بیٹھنے کی کوشش کرتی تھی۔۔۔مجھے لگا جیسے وہ مجھے نظرانداز کر رہے ہیں۔۔۔کوئی بن بلا یا مہمان ہوں میں۔۔۔پھر جانتے ہو کیا ہوا۔؟۔۔۔وہ لمبے بالوں والا وکٹوریا کے کان کے پاس اپنا منہ لا کر بولا، اس بوڑھی گائے سے کیسے پیچھا چھڑائیں۔۔۔اس نے بہت دھیمی آواز میں کہا تھا۔۔۔مگر میں نے سن لیا۔۔۔اور میں منہ موڑکر فلور کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔جیسے میں نے سنا ہی نہ ہو ۔۔۔اور وہ کتیا۔۔۔وہ ہنسی۔۔۔ اور بولی، کتنی بری بات ہے۔۔۔ یوں جیسے کہہ رہی ہو، کتنی اچھی بات ہے۔۔۔کچھ اور بھی کہا انہوں نے، جو میں سن نہیں سکی۔۔۔بوڑھی گائے۔۔۔ انہوں نے مجھے بوڑھی گائے کہا این ور۔۔۔میں کچھ دیر بعد ہجوم میں گم ہو گئی۔۔۔تاکہ وہ غائب ہو جائیں، چلے جائیں۔۔۔کتنی دیر تک میں وہاں کاؤنٹر کے ساتھ اسٹول پر تنہا بیٹھی رہی۔۔۔لوگوں سے بھرا ہوا تھا وہ ہال۔۔۔مگر کسی کے پاس ایک اداس عورت کے لئے وقت نہیں تھا جو اپنا پیگ تھا مے اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرہی تھی۔۔۔ایک مسترد شدہ عورت۔۔۔‘‘

    انور خاموش کھڑا ان آنسوؤں کو دیکھتا رہا جو ماریانہ کی سرخ آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔

    ماریانہ نے اپنی نظریں چھت پرجما رکھی تھیں۔ ’’مجھ سے دو سال بڑی ہے وکٹوریہ۔۔۔مگر وہ مجھے بوڑھی گائے کہہ رہے تھے۔۔۔جانتے ہو کیوں؟۔۔۔ کیو نکہ وکٹوریہ نے آٹھ ہزار ڈالر خرچ کئے ہیں سرجری پر۔۔۔پرکشش بننے کے لئے۔۔۔ورنہ وہ مجھ سے زیادہ بوڑھی گائے ہے۔‘‘

    انور نے کہا۔ ’’تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ چلو ،میں تمہیں لٹادیتا ہوں۔‘‘

    ’’کہاں۔؟‘‘ ماریانہ حیرت سے اسے دیکھا۔ اس کے اعصاب کشیدہ تھے اور وہ سیدھی سی بات بھی سمجھنے سے قاصرتھی۔

    ’’تمہارے بیڈ پر۔‘‘ انو ر نے اسے سہارا دے کر اٹھایا۔’’سو جاؤ گی تو سب ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ماریانہ نے اپنا بازو اس کی گردن میں حمائل کر کے لڑکھڑاتے قدموں سے بیڈروم کی طرف جا تے ہو ئے کہا۔ ’’شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔بوڑھی گائے ٹھیک ہو جائےگی۔۔۔‘‘

    بیڈروم کے دروازے پر پہنچ کر وہ رک گئی۔ لمحہ بھر کو اس کے بدن کا سارا بوجھ انور پر آ گیا۔ مگر پھر وہ سنبھل کر سیدھی ہو گئی۔

    ’’این ور۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’تم ناراض ہونا مجھ سے۔؟‘‘

    وہ بالکل روبرو تھی۔ انور نے وہیں دہلیز پر کھڑے کھڑے اس کا چہرہ دیکھا۔ آنسوؤں نے اس چہرے کی آرائش کو بے ترتیب کر دیا تھا اور اس کی ستواں ناک سرخ ہو رہی تھی۔ کتنے مہینوں بعد انور نے اسے قریب سے دیکھا تھا۔ شاید پورا سال گزر چکا تھا۔

    ماریانہ انتظار کر رہی تھی۔ اپنے سوال کے جواب کا انتظار۔

    انور نے نرمی سے کہا۔ ’’اندر چلو۔۔۔ اور اچھی بچی کی طرح سو جاؤ۔‘‘

    ماریانہ نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر پھر چپ ہو گئی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے انور کے سہارے دھیرے دھیرے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔

    انو ر نے اسے لٹاکر اس کے اونچی ہیل والے جو تے اتارے اور کمبل کھول کراسے ڈھانپ دیا۔

    ’’کیا تم بھی میری طرح کادکھ محسو س کرتے ہو این ور۔؟‘‘ ماریانہ نے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے کمبل ہٹا دیا۔ ’’جیسے۔۔۔جیسے بن بلا یا مہمان۔۔۔جیسے مسترد شدہ آدمی۔۔۔ہے نا۔؟۔۔۔میں نے بھی یہی کیا ہے نا تمہارے ساتھ۔؟‘‘ وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گئی۔

    ’’لیٹ جاؤ ماریانہ۔‘‘ انورنے کہا۔ ’’سوجاؤ۔‘‘

    وہ بستر پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ بیڈروم کی مدھم روشنی میں اس کا بگڑا ہوا میک اپ مضحکہ خیز لگ رہا تھا۔ ’’تم بھی مجھ سے نفرت کرتے ہوگے۔۔۔ خاموشی سے۔۔۔ میں نے بھی وہی کیا ہے نا جو ۔۔۔ جو وکٹوریا نے کیا تھا۔۔۔ میں تمہیں راستے میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ کسی اور زندگی کی جانب۔۔۔‘‘ اس نے اپنے چہرے پر گرنے والے سنہری بالوں کو ہٹایا اور غور سے انور کو دیکھا۔ یوں جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ ’’تم اسی لئے جھوٹ بولتے ہونا۔؟۔۔۔مجھ سے کہتے ہو کہ تم باہر گئے ہوئے تھے اور میرا فون نہیں اٹھاتے ہو۔۔۔ بوڑھی گائے کا فون۔۔۔وہ بار بار فون کرتی ہے۔۔۔بار بار۔۔۔‘‘

    ’’تم ہوش میں نہیں ہو ماریانہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ ماریانہ کی آواز کانپ رہی تھی۔’’میں ہوش میں ہوں این ور۔۔۔میں دیکھ سکتی ہوں۔۔۔تم مجھے چھوڑ رہے ہو۔۔۔ چھوڑکر جا رہے ہو۔۔۔چہرے پر لکھا ہوا ہے تمہارے۔۔۔تمہاری بدن بولی بتا رہی ہے۔۔۔اوہ گاڈ۔۔۔‘‘ وہ رونے لگی۔ بلند آواز سے یوں رونے لگی جیسے کسی موت پر بین کر رہی ہو۔

    انور کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ پھر اس نے آگے بڑھ کرماریانہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’کیا کر رہی ہو تم۔؟‘‘

    ماریانہ نے اپنا تمتماتا چہرہ اٹھایا اور انور کو دیکھا۔

    پھر ایک جھٹکے سے اس نے انور کو اپنی جانب گھسیٹ لیا۔ اس کے انداز میں وحشت تھی اور بازوؤں میں ایسی طاقت، جس کا تجربہ انور کو کبھی نہیں ہوا تھا۔ انور نے خود کو اس کی بانہوں کے حلقے میں پایا۔ وہ رو رہی تھی اور اس کا بدن جھٹکے لے رہا تھا۔ ’’مجھے مت چھوڑو این ور۔۔۔سب مجھے مسترد کر رہے ہیں۔۔۔ اکتا لیس سال کی بوڑھی گائے کو۔۔۔مجھے بچالو این ور۔۔۔ میں سب غلطیوں کی تلافی کردوں گی۔۔۔مجھے واپس اپنے پاس آنے کا موقع دو این ور۔۔۔صرف ایک موقع ۔۔۔میں بھیک مانگتی ہوں تم سے۔۔۔‘‘ وہ اسے دیوانہ وار چوم رہی تھی۔

    لمحہ بھر کو۔۔۔بس، لمحہ بھر کو یوں لگا جیسے اس طوفان کے سامنے سنبھلنے کی، کھڑے رہنے کی ہر کوشش ناکام ہو جائےگی جو اسے ایک تنکے کی طرح اڑائے لیے چلا جا رہا تھا۔ ماریانہ کی دیوانگی ایک سرکش لہر تھی۔ ہراِرادے کو روند ڈالنے والی، ہر مزاحمت کو کچل دینے والی، ہر فیصلے کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہالے جانے والی۔

    اگر وہ خیال کسی کانٹے کی طرح دل میں نہ چبھتا، کسی تیز دھار والے خنجر کی طرح بدن کے اندر اترتا محسوس نہ ہوتا تو شاید انور اس طوفان کے سامنے کھڑا نہ رہ پاتا۔ مگر وہ خیال اذیت ناک تھا۔ جسم کے اندر اتر جانے والی کوئی سوئی تھی جو ایک زہر کی تلخی کو خون میں شامل کرتی جاتی تھی۔ وہ اجنبی نوجوان، بیئر پینے والے اور ویک اینڈ پر خوش وقتی تلاش کرنے والے وہ نامعلوم بےفکرے اگر ماریانہ کو بوڑھی گائے نہ کہتے۔۔۔ اگر اسے مسترد کرنے کے بجائے قبول کر لیتے تو۔۔۔ تو یہ سب نہ ہوتا۔۔۔ یہ سارا تماشا، یہ تمام وحشت، یہ لطف کا وعدہ اور یہ التجا بھری آمادگی۔۔۔ باریک سوئی کے ذریعے بدن میں داخل ہونے والا زہر رگوں میں پھیلتا جاتا تھا۔

    انور نے تڑپ کر خود کو اس کی بانہوں کے حلقے سے یوں آزاد کرایا جیسے ڈوبنے والا پوری طاقت سے سطح آب پر ابھرتا ہے۔ بدن کی اور اعصاب کی پوری قوت کے ساتھ۔

    ایک جھٹکے سے بستر پر گرنے والی ماریانہ کی آنکھوں میں حیرت تھی اور صدمہ تھا اور بری طرح ہانپتے ہوئے بھی ایک گہرا دکھ تھا۔ ایسا دکھ جس کے سامنے انور کو اپنے بدن میں دوڑتے، زبان پر ایک تلخ ذائقہ بکھیرتے زہر کو ایک گھاؤ لگاتے جملے کی صورت میں کہہ ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔

    ’’ابھی نہیں ماریانہ۔۔۔‘‘ انور نے کہا۔ ’’ابھی سو جاؤ۔‘‘

    وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔ اس کا گریہ بیڈ روم کی سپاٹ، بے داغ دیواروں سے ٹکراتا تھا اور نیم تاریک کمرے میں کسی بت کی طرح ایستادہ انور کے گرد گھومتا تھا۔

    رفتہ رفتہ اس کی آواز مدھم ہونے لگی۔

    کچھ دیر بعد اس کا رونا، خاموش ہچکیوں میں بدل گیا اور بالآخر وہ ایک گہری نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

    انور دبے پاؤں بیڈروم سے باہر نکل آیا۔

    میز پر سیاہ پین کھلا پڑا تھا اور ادھ کھلی دراز میں وہ خط۔

    وہ کچھ دیر تذبذب کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر اس نے جیکٹ پہنی، سیل فون کے ساتھ چابیاں اٹھائیں اور اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ باہر ہوا کچھ اور یخ ہو گئی تھی۔

    ایک ستون کی آڑ میں کھڑے ہوکر انور نے سگریٹ سلگائی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے دو تین گہرے کش لیے اور اپنے کشیدہ اعصاب کو پرسکون ہوتے محسوس کیا۔ ایک تھکن سی تھی جو رفتہ رفتہ پورے بدن پر اترتی محسوس ہورہی تھی۔ جیسے بہت سا بوجھ بہت دیر تک اٹھائے رکھا ہو۔

    سگریٹ ختم کرکے وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ بدن کی اپنی گرمی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ یخ ہوا چہرے پر برف کی پھوار کی طرح برستی، بدن کو کاٹتی محسوس ہو رہی تھی۔ سگنل کے اس پار اسٹار بکس کے جگمگاتے نیون سائن تک پہنچنا مشکل کام تھا مگر وہ کسی نہ کسی طرح وہاں تک پہنچ گیا۔

    کافی شاپ خالی پڑی تھی۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک معمر گارڈ اونگھ رہا تھا۔ ایک نو عمر ویٹریس اپنی نیل پالش کو غور سے دیکھ رہی تھی۔

    انور اپنی ہاٹ چاکلیٹ لےکر اس کونے میں جا بیٹھا جہاں تمباکو نوشی کی اجازت تھی۔

    اسے ماریانہ کا خیال آیا اور اس وحشت خیز طوفان کا، جس سے وہ بمشکل گزر کر آیا تھا۔ زندگی اپنے اصل رنگ روپ میں اس کے سامنے کھلتی جا رہی تھی۔ جیسے کوئی پردہ اٹھتا جا رہا ہو۔ جیسے کوئی خواب دھندلاتا جا رہا ہو اور آنکھیں گردوپیش کے منظر کو پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں۔

    کتنی جلد ختم ہو گیا تھا ماریانہ کا باب۔ اس نے سوچا۔ اور ایک ماریانہ پر ہی کیا منحصر تھا۔ پوری زندگی کتنی تیز رفتاری سے گزر گئی تھی۔ تینتیس برس کی عمر میں ایک داستان ختم بھی ہو گئی۔ وہاں، ہزاروں میل دور، بھلا یہ کب ہو سکتا تھا۔ انور نے حیرت سے اردگرد نگاہ کی۔ ایک اجنبی دنیا تھی جو ہر جانب تھی۔ وہ اونگھتا ہوا گارڈ اور سڑکوں پر آوارہ پھرتی برفیلی ہوا اور اندھیری عمارتوں میں ایک دوسرے سے لاتعلق ہو کر سوتے ہوئے لاکھوں، کروڑوں لوگ۔ یہ تم کہاں آ گئے ہو پیارے۔ اس نے خود سے کہا۔ رات کے اس پہر میں کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ یہاں کچھ حاصل نہیں ہو پاتا اور وہ پرانے، مہرباں گلی کوچے بھی کھو چکے۔ وہ بیت جانے والے دن اور بچھڑ جانے والے لوگ اور گزر جانے والی محبتیں۔۔۔سب ماضی ہی تو ہیں۔ محض ماضی۔۔۔ایک سنسان شاہراہ، جس پر لوگ سفر کرکے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جا چکے۔ اب وہاں یادوں کی دھول اڑتی ہے اور بس۔۔۔

    انور نے سیل فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔

    دور، بہت دور گھنٹی بجنے لگی۔ دوبار، چار بار۔

    پھر کسی نے فون اٹھا کرکہا۔ ’’ہیلو۔‘‘

    ’’انور بول رہا ہوں اباجی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’کیسے ہیں آپ۔؟‘‘

    اباجی کی آواز میں حیرت تھی اور خوشی۔ ’’میں ٹھیک ہوں بیٹا۔ خیریت تو ہے نا۔؟ وہاں تو رات ہو رہی ہوگی۔‘‘

    ’’آج ویک اینڈ تھا اباجی۔ امی کیسی ہیں۔؟‘‘

    ’’کیا بتاؤں بیٹا۔‘‘ اباجی نے کہا۔ ’’بوڑھی ہوگئی ہے تمہاری ماں اور بحث بہت کرنے لگی ہے۔‘‘

    انور کے قہقہے سے اونگھتا ہوا گارڈ اچھل کر، سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ’’اباجی۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ امی گھر پر نہیں ہیں۔‘‘

    اباجی کی مسکراتی آواز نے کہا۔ ’’محض اتفاق ہے بیٹا۔ اچھا، یہ بتاؤ، تمہارا کام کیسا چل رہا ہے۔؟ فرصت نکال کر چکر لگاؤ بیٹا۔ اب تو چھٹا سال شروع ہو گیا ہے۔‘‘

    انور نے وہ نہیں کہا جو اس کے دل میں تھا۔ وہ سب کیسے کہا جا سکتا تھا۔ وہ سارا درد، ساری تڑپ، سارا دکھ لفظوں میں کیسے بیان کیا جا سکتا تھا اور پھر اباجی سے!

    انور نے کہا۔ ’’پلاننگ کر رہا ہوں اباجی دو تین مہینے میں چکر لگانے کی۔ لیکن امی کو مت بتائیےگا۔ بلکہ کسی کو بھی نہیں بتائیےگا۔‘‘

    اباجی نہ جانے کیا کیا پوچھتے رہے۔ وہ نہ جانے کیا کہتا رہا۔ گول مول جواب۔ آدھی ادھوری تسلیاں۔ چھوٹے چھوٹے جھوٹ۔

    گفتگو ختم ہو گئی تب بھی وہ وہیں بیٹھا رہا۔ ایک بے سمت مسافر کی طرح۔ ایک ہار جانے والے کی طرح۔ ایک بے حوصلہ شخص کی طرح جس کے بدن میں اٹھنے اور باہر نکلنے اور ایک ناتمام خط کو مکمل کرنے کی طاقت بھی باقی نہیں رہی تھی۔

    شیشوں کے اس پار یخ ہوا کا زور ٹوٹ گیا تھا اور برف کے سفید گالے فضا میں دھیرے دھیرے تیرتے، نیچے اترتے جاتے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے