Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھلا پنجرہ

شہناز پروین

کھلا پنجرہ

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    بہت دنوں کے بعد ذرا فرصت ملی تو خیال آیا بکھری ہوئی یادوں کوسمیٹ کر ایک البم کی صورت دے ڈالوں۔ بےشمار تصویریں تھیں جو الگ الگ لفافوں میں ڈال رکھی تھیں، ہر تصویر کے ساتھ یاد کا ایک لمحہ بندھا تھا، گھنٹوں گزر گئے۔ تصویروں سے کردار نکل کر سامنے آتے، کبھی پلکیں نم ہو جاتیں اور کبھی ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کرنے لگتی، سمیٹوں تو کہاں سے، یکجا کروں تو کیسے؟ ایک لفافہ میرے ہاتھ سے پھسلا اور ایک تصویر دور جاگری، میں دیر تک اس تصویر کو دیکھتی رہی۔ اس تصویر میں گھر کا کوئی فرد نہیں تھا، کوئی شناسا بھی نہیں تھا، وہ ایک بڑے سے خالی پنجرے کی تصویر تھی، پنجرہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا اور یکایک سارا پنجرہ رنگ برنگی خوب صورت چڑیوں، طوطوں اور میناؤں سے بھر گیا، ان کی چہچہاہٹ اور بولیاں کانوں میں رس گھولنے لگیں اور پھرآئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی، مجھے یاد آیا مومل بڑی خاموشی سے دبے پاؤں چھت پر جاتی، اس کے جاتے ہی کوؤں کے شور سے پتا چل جاتا کہ وہ کہاں ہے، میں اس کے پیچھے جاتی تو مجھے روک دیتی۔ ’’نا، باجی اوپر چھت پر بہت دھوپ ہے۔‘‘

    ’’دھوپ ہے تو کیا ہوا تم بھی تو جا رہی ہو۔‘‘

    ’’میری بات اور ہے، مجھے تو صفائی کے لیے اوپر جانا ہی ہے۔‘‘

    میں نے مومل کو اکثر اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ الگ بچا کر رکھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ’’مومل، امی کہتی ہیں پلیٹ میں اتنا ہی کھانا لو جتنا کھا سکو، رزق برباد کرنے سے گناہ ہوتا ہے۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے باجی، میں یہ تھوڑا سا کھانا اڑتے ہوئے پرندوں کو دیتی ہوں، میری ماں کہتی ہے اڑتے ہوئے پرندوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔‘‘

    ایک بار وہ گاؤں گئی تو کھاتے وقت مجھے خیال آیا۔ آج چیل کوے اور دوسرے پرندے دیر تک انتظار کرکے واپس چلے گئے ہوں گے میں نے اپنے ناشتے سے دونوں ٹوسٹ اٹھاکر رکھ لیے، چھت پر گئی تو ایک میلہ سا لگ گیا، مجھے احساس ہوا پرندے بہت زیادہ ہیں اور ٹوسٹ صرف دو، میں نیچے آئی اور فرج سے رات کا بچا ہوا گوشت اور مختلف مرتبانوں اور ڈبوں سے کھانے کی چیزیں نکال کر دبے پاؤں پھر چھت پر گئی، اب مجھ پر مومل کا چوری چوری چھت پر جانے کا راز بھی کھل گیا تھا۔ دوسرے دن چیل اور کوؤں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے پرواز کر رہی تھی، چیلیں گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھ کر ماہر ہواباز کی طرح نیچے آکر اپنے پنجوں میں بوٹیاں پھنسا کر لے جاتیں جب تک چیلیں نیچی پرواز رکھتیں کووں میں سے کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ آس پاس پھٹکیں وہ بڑے صبر کے ساتھ انتظار کرتے ان کے جاتے ہی کووں کی کائیں کائیں شروع ہو جاتی، میناؤں اور طوطوں کے بعد چھوٹی چھوٹی چڑیاں بھی چھت پر آ جاتیں، کبوتریں محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ کر دھیرے دھیرے شاہانہ انداز سے اکڑ اکڑ کر چہل قدمی کرتی ہوئی اپنا رزق ڈھونڈ نکالتیں۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا ان میں سے کس کو کون سی اور کیسی غذا مرغوب ہے۔ کوے تو ہر چیز پر جھپٹ پڑتے، روٹیوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اپنی چونچ میں پھنسا کر اڑ جا تے، ننھی چڑیاں اور مینائیں کیک بسکٹ اور ڈبل روٹی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے پسند کرتیں۔

    مومل گاؤں سے واپس آئی تو اسے بہت خوشی ہوئی کہ اب میں بھی اس کے ساتھ ہوں، اب وہ چوری چھپے اوپر نہیں جاتی بلکہ میرے قریب آکر کہتی:

    ’’باجی جلدی چلو ،سب ہمار اانتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

    پہلے پہل تو پرندے ہم دونوں کو ساتھ دیکھ کر مشکوک ہوئے تھے، لیکن جب انھیں یقین ہو گیا کہ ہم ان کے خیر خواہ ہیں اور ہمارے وجود سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچ سکتا، وہ بےتکلف ہوتے چلے گئے، چند چڑیاں تو اس حد تک کہ میرے کمرے کی کھڑکی میں دائرے کی صورت میں لگی ہوئی گرل پر بیٹھ کر شیشے پر ٹھونگیں مارتیں اور اپنی طرح دار تیز آوازوں سے جاگنے پر مجبور کر دیتیں، گویا کہہ رہی ہوں:

    ’’بس بہت سوچکیں اب اوپر آؤ‘‘

    کوے بھی زور زور سے کائیں کائیں کرکے کھانے کی فرمائشیں کرتے، چھت پر جانے کے بعد وہ بےخوف اور نڈر ہو کر ہمارے بہت قریب آ جاتے اور اپنا حصہ طلب کرتے، کبوتروں نے فاصلے کی حد برقرار رکھی تھی، وہ اس وقت تک سامنے نہیں آتیں جب تک انھیں کسی انسانی وجود کے قریب نہ ہونے کایقین نہ ہو جاتا۔

    وہ بھی کیا فارغ البالی کے دن تھے، کھانا گھر کے افراد سے زیادہ پکتا تھا مبادا کوئی مہمان آئے اور اس کی ضیافت نہ ہو سکے، یا کوئی سائل صدا دے اور بھوکا لوٹ جائے۔ گوشت خریدتے وقت بلیوں کے لیے چھیچھڑے الگ سے خریدے جاتے، گھر کے بزرگوں کا خیال تھا اللہ کی مخلوق کو کھلانے سے رزق میں برکت ہوتی ہے اور بلائیں دور رہتی ہیں۔

    میں نے آنکھیں بند کیں اور چشمِ تصور میں بہت ساری صورتیں متحرک ہو گئیں،

    میری سال گرہ تھی، صبح ہی صبح امی اور ابو نے گلے سے لگایا اور ڈھیروں دعائیں دیں، ابو نے پوچھا۔

    ’’اس بار ہماری بیٹی کو کون سا تحفہ چاہیے؟‘‘

    ’’ابو جی ایک بڑا سا پنجرہ، بہت بڑا جس میں بہت سارے پرندے ایک ساتھ آرام سے رہ سکیں اور انھیں دانہ پانی کے لیے جگہ جگہ اڑنا نہ پڑے۔‘‘

    ’’بس اتنی چھوٹی سی فرمائش۔‘‘ ابو مسکرادیے اور امی نے ہنس کر کہا۔ ’’بٹیا پرندے آزاد فضا میں اڑنا ہی پسند کرتے ہیں، قید قید ہی ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی کشادہ جگہ کیوں نہ ہو۔‘‘

    ’’میری پیاری امی جانی میں انھیں اتنا آرام اور اتنا پیار دوں گی کہ وہ اس پنجرے کو جنت سمجھیں گے۔‘‘ میں نے مارے خوشی کے امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔

    اپنی سال گرہ پر ملنے والے تحفے کے اس تصور سے مومل اور میری آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہو گیا تھا۔

    اب مہینے بھر کے سودا سلف میں باجرہ اور چڑیوں کا خاص دانہ بھی آنے لگا تھا۔ گھر کی بنی ہوئی روٹیاں، کیک، بسکٹ اور ایسی بہت سی دوسری چیزیں بھی ان کا من پسند کھاجا تھیں۔ آزاد اُڑنے والے پرندے ان کے عیش دیکھ کر جل جاتے، بند پرندے آزاد فضا میں اڑنے کے لیے پر پھڑپھڑاتے۔ ہماری توجہ کا مرکز یہ پنجرہ اور اس میں رہنے والے پرندے ضرور تھے لیکن ہمیں اپنے پرانے ساتھیوں کا بھی خیال تھا، کوے اسی طرح ہماری آمدپر شور مچا کر اپنے دوسرے ساتھیوں کو بلاتے۔

    کئی دوسری کہانیاں سامنے آئیں، کچھ خواب، کچھ دھندلکے اور ان دونوں کے بین بین جلتے بجھتے چہرے، سارامنظر نامہ بدل گیا تھا، شہر میں کرفیو کا سا سماں تھا،

    کھانے پینے کی چیزوں کو آگ لگ گئی تھی، قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ اس روز ابو پہلی بار خالی ہاتھ گھر آئے تھے، ورنہ ان کامعمول تھا گھر میں داخل ہونے سے پہلے گھنٹی بجا کر ملازم کو باہر بلاتے تاکہ وہ سودا سلف کے ساتھ ڈھیر سارے پھل اور دیگر اشیائے خورونوش اٹھا کر لائے۔

    ’’آج بازار سے آٹا غائب ہے، بہت سی دکانوں پر دیکھا کسی قیمت پر دستیاب نہیں۔۔۔‘‘ امی نے ہماری طرف گھور کر دیکھا، میرے ساتھ مومل نے بھی نظریں جھکا لیں۔ ’’پہلے جو آٹا آٹھ دنوں میں ختم ہوتاتھا، اب ان کی مہربانیوں سے چار دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ بار بار تاکید کی تھی کہ روٹیاں زیادہ نہ ڈالا کرو۔‘‘اب ہمارے گھر میں روٹیاں گن کر ڈالی جاتیں، گوشت بھی کم کم پکنے لگا تھا اور اتنا ہی پکتا کہ دو چار بوٹیاں بھی نکال لی جاتیں تو پتا چل جاتا۔چھت پر گوشت نہ ملنے کی وجہ سے چیلوں نے نیچی پرواز یں ترک کر دی تھیں۔ کووں کے غول اسی طرح آتے مگر چند نڈر اور بے باک کوے آگے بڑھ کر تھوڑی سی چیزوں پر جھپٹ پڑتے اور دوسرے مایوس لوٹ جاتے۔

    گھر میں کوئی نئی چیز بنتی تو پہلے کی طرح محلے پڑوس میں نہیں بھیجی جاتی ورنہ شعبان، رمضان، عید، بقرعید اور محرم میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کے تبادلے ہوا کرتے تھے، آہستہ آہستہ یہ تمام رسم و رواج ختم ہوتے جا رہے تھے، ہر جمعرات کو دس مسکینوں کے لیے گھر سے کھانا پکاکر مسجد بھیجا جاتا تھا، پھر دس سے پانچ ہوئے اور پھر پانچ سے ایک اور اس کے بعد گھر سے کھانا بھیجنے کا رواج بھی ختم ہو گیا، کسی ہوٹل والے یا فلاحی ادارے والے کو فی کس پچیس روپے کے حساب سے پیسے تھما دیئے جاتے اور قطاروں میں بیٹھے ہوئے بےشمار غرباء کھانا تقسیم کرنے والے کی نظر کرم کے منتظر ہوتے کہ کب ان کے ہاتھوں میں پرچیاں آئیں اور وہ باری باری اپنی پرچیاں دکھاکر کھانا لے سکیں۔ ایسا لگتا تھا مہنگائی ایک عفریت ہے جس نے قدروں کو بھی نگلنا شروع کر دیا ہے۔

    ابو نے ایک روز بڑے پیار سے میرے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا:

    ’’بیٹا، مومل کی ماں اگلے مہینے اسے گاؤں لے جانا چاہتی ہے، ہمیشہ کے لیے، تم اکیلے ان پرندوں کو نہیں سنبھال سکتیں، انھیں آزاد کر دو، آزاد ہو کر وہ تمہیں دل سے دعائیں دیں گی۔‘‘ میں کم عمر ضرور تھی مگر ناسمجھ نہیں تھی، میں نے جان لیا تھا کہ اب باجرے اور پرندوں کی مخصوص غذا ابو کی قوت خرید سے باہر ہے۔ رات کو جب مومل کہتی:

    ’’آج چار روٹیاں زیادہ ڈال کر رکھ دیتی ہوں، امی سے چھپاکر، صبح صبح کووں کو ملیں گی تو وہ کتنا خوش ہو جائیں گے۔‘‘ یا کبھی یہ کہ ’’آج گوشت بچ گیا ہے، کل چیلوں کو بھی کھانا مل جائےگا۔‘‘ تو میرے منھ پر تالا سا لگ جاتا۔ بند پنجرے میں خوب صورت پرندوں کو دیکھ کر میں نے مومل سے کہا:

    ’’امی ٹھیک کہتی ہیں، پرندے قید پسند نہیں کرتے، دیکھو تو آزاد پرندوں کو اڑتے دیکھ کر یہ سلاخوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے پر بھی بڑھ گئے ہیں۔ پنجرہ کھول نہ دیں؟ مومل کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر میں نے اس وقت اپنا ارادہ ملتوی کر دیا۔‘‘

    جمعرات کا دن تھا امی نے پچیس روپے فی کس کے حساب سے دے کر کہا تھا۔’’واپسی پر ہوٹل والے کو دے کر تاکید کردینا کہ آج ہی دس مسکینوں کو کھانا کھلائے۔‘‘

    واپسی پر بڑی مشکلوں سے مجھے ہوٹل سے بہت دور پارکنگ کی جگہ ملی، ہوٹل سے باہر بہت دور تک دو رویہ سڑک کی آخری حد تک قطاروں میں لگے ہوئے لوگوں کی وجہ سے گاڑی چلانا مشکل ہو رہا تھا، بار بار ہارن دے کر انھیں منتشر کرنا پڑتا پھر بھی یہ خطرہ لاحق رہتا کہ کسی کو کچھ ہو گیا تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ ان میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ بار بار اپنی قطاروں سے نکل کر ہوٹل والے کے کان پھوڑتے۔

    ’’اتنی دیر ہو گئی ہے کھانا کب ملےگا۔‘‘

    ہوٹل والا انہیں بری طرح دھتکار رہا تھا۔

    ’’بھیا بچے بھوکے ہیں انھیں اس طرح کیوں جھڑک رہے ہوں؟‘‘ میں خاموش نہ رہ سکی،

    ’’باجی انھوں نے جینا حرام کر دیا ہے، ایک وقت تھا جب بہت سے لوگ ان کے کھانے کے پیسے دیتے، ان کا بھی پیٹ بھر جاتا تھا اور ہمارا کاروبار بھی خوب چلتا تھا، یہ ہیں کہ اب بھی منہ اٹھاکر ادھر ہی چلے آتے ہیں، اب کیا بتائیں کہ ہم مالک کے حکم پر چلتے ہیں، وہ کہتا ہے جب تک بہت سے پیسے اکھٹا نہ ہو جائیں کھانا دینا شروع مت کرو، اب ہم اپنے پاس سے تو نہیں کھلا سکتے۔‘‘

    میں نے امی کے دیے ہوئے پیسے اس کے حوالے کیے۔ ’’اچھا چلو ان میں سے دس کو تو کھلا دو۔‘‘ نہ بی بی آج تو بچے بوڑھے سب بے قابو ہو رہے ہیں، ان میں سے دس کو کھلا دیا تو یہ دس کے دس پھر پیچھے والی لائن میں جا کر بیٹھ جائیں گے، اب تھوڑی دیر میں کرکٹ میچ ختم ہو جائےگا اور اللہ کرے پاکستان جیت جائے تو ان کی عید ہو جائےگی، آپ بھی دس تھیلیاں لے کر چپ چاپ نکل لیں اور آگے جاکر دور کھڑے ہوئے فقیروں میں سے کسی دس کو تھیلیاں پکڑا دیں۔

    اس نے دو دو نان اورتھوڑی سی ماش کی دال ڈال کر الگ الگ دس تھیلیاں بنائیں اور پتا نہیں کیوں دس پرچیاں بھی میرے ہاتھوں میں تھما دیں۔ ’’بی بی احتیاط سے جانا، ورنہ یہ پرس پر جھپٹ پڑیں گے۔‘‘

    میں تیزی سے آگے بڑھی اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے سب سے پچھلی قطار میں لگے دس ننھے ننھے ہاتھوں میں پرچیاں تقسیم کردیں کہ دور کھڑ ی گاڑی تک بھاگ کر آ جائیں۔ گاڑی میں بیٹھی ہی تھی کہ بیس بائیس مزید بچو ں نے تیزی کے ساتھ آکر گاڑی کو گھیر لیا۔

    ’’باجی ہم کو بھی بہت بھوک لگی ہے کھانا دو۔‘‘

    پرچیوں والے بچے بار بار سامنے آتے اور وہ انھیں مار بھگاتے، پھر ایک سرخ انگارہ جیسی دہکتی ہوئی آنکھوں والے بچے نے ساری پرچیاں پھاڑ ڈالیں اور گاڑی کے بہت قریب آکر کہنے لگا:

    ’’کھانا دو نہیں تو گاڑی توڑ دوں گا۔‘‘

    میں نے گاڑی کے ایکسی لیٹر (Accelerator) پر زور سے پاؤں رکھا اور کھانے کی تھیلیاں اٹھا کر دور پھینکنا شروع کر دیں بالکل ویسے ہی جیسے چیلوں کے لیے ایک ایک بوٹی پھینکتی تھی بچے تھیلیوں کی طرف بھاگے اور جان بچا کر واپس آئی۔

    گھر آکر مومل کا زخمی ہاتھ دیکھا تومیں اپنی روداد بھول گئی۔ ’’کیا ہوا مومل۔ یہ کیسے ہوا؟‘‘ میں روہانسی ہو گئی۔

    ’’باجی امی نے صدقے کا گوشت دیا تھا، تھوڑا ہی ساتھا، میں ساتھ میں روٹیوں کے ٹکڑے بھی لے گئی تھی، چیلیں بہت نیچے آ گئی تھیں، ساری بوٹیاں ختم ہو گئیں اور وہ اوپر چلی گئیں تو میں نے سوچا، وہ روٹیاں تو کھاتی نہیں، اب لوٹ کر نہیں آئیں گی، لیکن پتا نہیں ان کو کیا ہو گیا تھا جیسے ہی ایک کوے نے روٹی کا ٹکڑا اٹھایا ایک چیل تیزی سے نیچے آئی اور کوے کی چونچ سے وہ ٹکڑا چھین کر لے گئی کوا بے چارہ زخمی ہو کر گر پڑا میں نے کوے کو بچانے کی کوشش کی تو کسی چیل نے میرے ہاتھ میں بچے ہوئے ٹکڑے پر جھپٹ کر مجھے بھی زخمی کر دیا۔‘‘

    اگلے دن بہت سوچ کر باہم مشاورت کے بعدہم نے آنکھیں بند کرکے پنجرے کا دروازہ کھول دیا، دو تین دنوں تک ہم دونوں کی چھت پر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔خالی پنجرے کے تصور سے ہماری آنکھیں نم ہو جاتیں، چڑیاں ہمیں بہت یاد آتیں۔

    چوتھے دن چھت پر جانے کے بعد حیرت اور خوشی سے ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے، پنجرے کے کھلے دروازے سے ہمارے پرندے واپس آکر مٹی کے کوزے میں پڑے ہوئے پانی سے پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے