اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ مر گیا ہے یا ابھی نہیں مرا۔ تھوڑا بہت مر کر تو اس نے اپنی زندگی میں کئی بار دیکھا تھا کیا پتہ آج وہ بہت زیادہ مر گیا ہو مگر کیوں اور کیسے۔؟
اسے کوئی بات یاد نہیں آ رہی تھی۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت کس حالت میں اور کہاں اور کس قسم کی سواری پر کہاں جا رہا ہے۔ یا لے جایا جا رہا ہے اور پتہ نہیں اس کا جسم بھی اس کے ساتھ ہے یا اب صرف روح باقی رہ گئی ہے جو ہوا میں اڑتی پھرتی ہے۔
اس نے ہاتھ پاؤں ہلانے جلانے کی کوشش کی مگر پتہ نہیں وہ تھے بھی یا نہیں اور اگر تھے تو ہلتے جلتے کیوں نہیں تھے اور اگر نہیں تھے تو کہاں گئے تھے۔
اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا سارا جسم لوہے چون کا ایک ڈھیر ہے اور کسی بڑے سارے مقناطیس کی طرف دانہ دانہ کر کے اڑتا جا رہا ہے۔ یا پھر اس کا وجود اب صرف دو آنکھیں ہیں جو بڑ بڑ آسمان کی طرف تک رہی ہے۔ مگر نہیں آنکھوں سے زیادہ بھی کوئی شے ضرور تھی ورنہ وہ سوچ کیسے سکتا اور آسمان پر چمکتے ستاروں اور کھمبوں پر جلتے بلبوں میں کیسے تمیز کر سکتا ضرور اس کی کھوپڑی بھی ساتھ ہو گی۔ تاہم اگر کھوپڑی تھی بھی تو اس میں چھید ضرور ہو گیا تھا اور ایسا ہی لگتا تھا جیسے کھوپڑی کے پیالے سے اس کی یادداشت بوند بوند کر کے ٹپک رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی بوند کھرنڈ بن کر چھید کے منہ پر آ کر رک جاتی تو یاد داشت کا نیا پھول کھلتا۔
پہلے اسے خیال آیا کہ وہ کسی کشتی میں چت لیٹا ہوا ہے اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہیں اور کشتی کسی نہر میں اس طرف کو بہتی چلی جا رہی ہے جدھر پانی بہتا ہے۔ مگر نہر کے کنارے شیشموں اور عمودی کناروں کی بجائے اونچے اونچے کھموے اور کئی کئی منزلہ عمارتیں دیکھ کر اسے یقین ہو گیا کہ وہ نہر میں نہیں۔۔۔ اور کشتی کی بجائے کسی اور طرح کی سواری پر سوار ہے کسی اور طرح کی سواری کا خیال کر کے وہ لرز گیا۔ اگر اس کے دل پر تالا نہ پڑا ہوتا تو اس کا دل اس خیال سے بیٹھ جاتا۔۔۔ اور طرح کی سواری جنازے کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔
مگر ابھی وہ بالکل تو نہیں مرا تھا۔ پھر انہیں اسے دفنانے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ ممکن ہے وہ ان کے خیال میں مر گیا ہو مگر دراصل ابھی نہ مرا ہو۔ یا بظاہر مرا ہوا نظر آتا ہو مگر اندر سے ابھی زندہ ہو۔
اسے اس بات کی سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی کہ زندہ آدمی کا حساب کتاب کیسے ہوگا منکر نکیر کا خیال کر کے اسے ہول آنے لگا۔ اس کا جی چاہا وہ انہیں بتائے کہ وہ ابھی مرا نہیں مگر کوئی آواز اس کے حلق سے نہ نکل سکی۔ پتہ نہیں اس کا حلق تھا بھی یا نہیں ؟ اس نے ہاتھ ہلانے جلانے کی پھر کوشش کی مگر وہ شائد اب صرف گواہی دینے کے لئے رہ گئے تھے۔ جسم کے سارے اعضا باغی اور نا فرمان ہو گئے تھے مگر آنکھیں ؟
ہاں آنکھیں دیکھ سکتی تھیں۔ مگر ایک ہی سمت میں۔۔۔۔ بلندی کی جانب۔ آنکھوں کے کونوں میں دونوں جانب کی بلند عمارتوں کی پھکی پھیکی تصویر آ رہی تھی۔ عمارتوں کی وسعت سے اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ یہ سڑک اس کی جانی پہچانی ہے۔ پھر اس نے خود ہی اندازہ لگا لیا کہ وہ اسے کون سے قبرستان میں دفنائیں گے۔ سے امید کی ایک کرن نظر آئی وہ اسے قبر میں اتارنے سے پہلے جب آخری بار اس کا منہ دیکھنے لگیں گے تو اس کی روشن آنکھیں دیکھ کر انہیں خود ہی پتہ چل جائےگا کہ وہ ابھی نہیں مرا۔ قبرستان سے لوٹ آنے کا خیال سے یاد داشت کے ننھے ننھے پھول اس کی آنکھوں کے سامنے کھلنے لگے۔ پھر کسی کار کا ہارن سنائی دیا۔۔۔ یہ پہلی آواز تھی جو اس نے سنی اور اس آواز کے ساتھ ہی اس کے کانوں میں بھری ہوئی ریت کرنے لگی۔
پھر اس نے دیکھا اس کا جنازہ ایک سینما بلڈنگ کے قریب آ گیا ہے اسے ایک عورت کی بڑی ساری تصویر نظر آئی۔ اس کا پیٹ ننگا تھا۔ پھول ایسی ناف نے اسے آنکھ ماری تو اس کے دل پر لگے خاموش قفل میں چابی سی گھوم گئی۔ تصویر پیچھے رہ گئی مگر پھول ایسی ناف آنکھ بن کے ہمراہ چلتی رہی اس نے سوچا چلو شکر ہے اس آخری وقت میں دیکھنے کے لئے کچھ تو ساتھ ہے۔
مگر پھر یہ سوچ کر کہ جب شہر میں اس سے بڑھ کر چیزیں دیکھنے اور دکھانے کا رواج ہو گا وہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ وہ رو پڑا اور پتہ نہیں وہ کب تک روتا رہتا اگر اسے اپنے جسم سے برادہ سا گرنے کا احساس نہ ہوتا۔ اسے لگا جیسے اس کے جسم میں کیڑا لگ گیا ہے اور جگہ جگہ سوراخ ہو گئے ہیں۔ یاد داشت کا ایک پھول کھلا اور وہ ہنس پڑا۔ سامنے فرنیچر کی وہ دکان تھی جہاں سے خریدا ہوا مال واپس نہیں ہوتا تھا۔ اسے یاد آیا اس نے ایک بار بڑی قیمتی میز خریدی تھی۔ جس کو دیمک لگی ہوئی تھی۔ دیمک میز کو چاٹتی رہی اور برادے کے ڈھیر لگاتی رہی جب میز ختم ہو گئی تو دیمک اس کی کھوپڑی میں گھس گئی۔ کیا پتہ اسی نے اسے اس حالت میں پہنچایا ہو۔ میز کے ساتھ ہی اسے گھر اور بیوی بچے یاد آ گئے۔
بڑا کتاب پڑھتا اور چھوٹا چوسنی نظر آیا۔ اس کی بیوی غسل خانے سے نہا کر ننگے پاؤں ٹائیلوں کے فرش سے گزری تو ٹائیلوں کے بیل بوٹوں سے خوشبو آنے لگی۔
جنازہ اور آگے بڑھا تو اسے سرخ رنگ کی ایک عمارت نظر آئی اسے نظر تو نہ آیا مگر اس حوالے سے اس کے ذہن میں بس سٹاپ ابھر آیا جہاں ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی پورے سات سال بعد اسے اچانک دیکھ کر وہ موٹر سائیکل سے گرتے گرتے بچا تھا۔ پھر موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے وہ اس کے قریب آیا اور بولا۔
’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے تم لوٹ آئی ہو چچا خان کی آنکھیں رو رو کر۔‘‘
لڑکی نے اس کی بات کاٹ دی اور ناک سیکٹر کر بولی۔
’’کون ہو تم۔۔۔۔ دفع دور‘‘
اس کا جی چاہا وہ س دنیا سے ہمیشہ کے لئے دفع ہو جائیا ور کہیں دور جا کر مر جائے مگر وہ مر نہ سکا تاہم اس کے اندر کوئی چیز مر گئی عجیب کھیل ہے اس نے سوچا جب آدمی مرنا چاہتا ہے مر نہیں چاہتا وہ دفنانے کے لئے لے بھاگتے ہیں۔
چوک میں کسی بھکاری نے صدا دی۔
’’دے جا سخیا! راہ خدا تیرا اللہ بوٹا لائےگا۔‘‘
وہ تقطیع کرنے لگ گیا۔ مگر کھوپڑی کے پیالے سے بوند بوند یاد داشتیں ٹپکنے لگیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
بڑی سے چھوٹی سڑک کی طرف مڑتے ہوئے پھر روشنی ہو گئی اور عبد الکریم کا مکان نظر آیا۔ کئی سال پہلے جب اس کی جیب کٹ گئی تھی اور داخلے کے فارم کے ساتھ امتحان کی فیس کے پیسوں سے بھی وہ ہاتھ دھو بیٹھا تھا تو عبدالکریم نے اس کے آنسو پونچھے تھے۔
عبدالکریم کو لوگ برا کہتے تھے مگر وہ اسے اچھا لگتا تھا کیا پتہ وہ بھی اندر سے اچھا ہو مگر باہر سے برا معلوم ہوتا ہو وہ عبدالکریم کے بارے میں بہت کچھ سوچنا چاہتا تھا مگر یاد داشت کی کھڑکی خود بخود بند ہو گئی۔
پھر جب کھڑکی کھلی تو اسے اپنا گھر یاد آیا۔
اسے یاد آیا۔
اس نے ان کے سامنے تین بار کلمہ پڑھا تھا۔ اس کی بیوی نے بھی پڑھا تھا۔ بڑے نے بھی پڑھا تھا صرف چھوٹا چوسنی چوستا رہا تھا۔
پھر اسے وہ یاد آئے ایک نور علی دودھ والا تھا۔ ایک عبدالحمید تھا جس نے مسجد سے کلاک چرایا تھا۔ ایک اللہ دتہ تھا جس کے گھرکے سامنے رات کو کاروں کی قطار لگتی تھی، ایک خادم حسین تھا۔ ایک علی محمد تھا۔
اسے کتنے ہی نام یاد آئے مگر اپنا نام یاد نہ آیا۔ اسے اتنا یاد آیا کہ وہ اپنا نام بتاتا تھا مگر کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔ وہ قسمیں کھاتا تھا مگر اس کی قسموں پر کوئی ایمان نہ لاتا تھا۔
وہ اپنا نام یاد کرنے لگا۔۔۔۔ نور الدین۔۔۔ رحیم بخش۔۔۔ لطیف خان سب اجنبی نام تھے۔۔۔ سب ناموں پر دوسروں نے قبضہ کر لیا تھا۔ کیا پتہ اس کے نام پر بھی قبضہ ہو چکا ہو اور وہ بے نام ہو گیا ہو۔
اسے ایسا لگا جیسے سوچ سوچ کر اس کی کھوپڑی کا سوراخ زیادہ چوڑا ہو گیا اور جھکے ہوئے تھے اور اسے ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہے تھے۔
شائد اسے قبر میں اتارنے لگے تھے۔ اس نے کہا
’’عقل کے اندھو۔۔۔۔ میری آنکھیں دیکھو۔۔۔۔ میں زندہ ہوں۔۔۔۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا میں نے تو ابھی پھول کی آنکھ ایسی ناف والی نئی فلم بھی نہیں دیکھی۔‘‘
مگر اس کی بات کسی نے نہیں سنی۔ ایک کہنے لگا۔
’’تم لوگوں نے بڑی دیر کر دی ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا:
’’ہم نے دیر نہیں کی۔۔۔۔ پہلے بڑے ہسپتال میں لے گئے انہوں نے کہا۔ یہ پولیس کیس ہے چھوٹے ہسپتال میں لے جاؤ۔۔۔۔ ہم یہاں لے آئے‘‘
شکر ہے اس نے سوچا کہ یہ ہسپتال ہے قبرستان نہیں۔ امید کا چراغ اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں کے سامنے لمحہ بھر کے لئے جھلملایا پھر دھوئیں میں تبدیل ہو گیا۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا
’’آپ لوگ تھوڑی دیر پہلے پہنچ جاتے تو شائد یہ بچ جاتا۔ اب اس کا سارا خون نچڑ گیا ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
کچھ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
وہ کانپ گیا۔ پھر اسے ان سب پر۔۔۔ اور بڑے ہسپتال والوں پر بےحد غصہ آیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اس نے جلدی جلدی کلمہ پڑھنا چاہا مگر اس کے منہ سے کچھ اور ہی نکل گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.