خوشبو کا دھواں
یاسمین وہاں کھڑی تھی جہاں اس نے آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے تاج بی بی کو ہلاک کیا تھا، اور آ ج تاج بی بی یاسمین کو اس لئے ہلاک کر کے آئی تھی کہ زمانے کی چمک دمک نے اس کے لاثانی حسن کو گہنا دیا تھا۔ جس چھرے سے اس کا دل چیرا گیا تھا، وہ سونے کا تھا۔
یاسمین نے جب معراج بی بی کے مکان پر کار کھڑی کی تو ٹھٹک کر رہ گئی۔ جگہ وہی تھی، وہی گرد و پیش اور وہی ماحول تھا لیکن مکان اپنی جگہ پر نہ تھا۔ وہ پرانا مکان جو اس علاقے کے خوشنما گھروں میں بد صورتی اور بوسیدگی کا نمائندہ تھا، اب انہی جیسا ہو گیا۔ سامنے اونچی دیوار کھنچ گئی تھی۔ آہنی پھاٹک لگ گیا تھا۔ عمارت کی شکل و صورت ہی اور ہو گئی تھی۔ ٹاٹ کا پیوند مخمل سے مڑھ گیا تھا۔
وہ کار میں بیٹھی بیٹھی حیران کن سوچ میں پڑ گئی۔ دو روپ بدلے تھے۔ ایک مکان کا اور ایک لڑکی کا۔ کبھی مکان کو دیکھتی اور کبھی اپنے آپ کو، اس کے دل میں سوال اٹھا۔ دل ہی دل میں اس نے کہا، ’’کیا میں وہ نہیں جو میں نظر آتی ہوں اور وہ بھی نہیں جو میں تھی؟‘‘ اور پھر وہ عمارت کو دیکھ کر بولی، ’’کیا یہ بھی وہ نہیں جو یہ نظر آتی ہے اور وہ بھی نہیں جو یہ ہے؟‘‘ سوالوں کا سلسلہ تمام نہ ہوا تھا۔ اس نے بیٹھے بیٹھے اپنے بدن پر نظر دوڑائی اور پھر دل ہی دل میں کہا، ’’کیا میں صرف وقت کی لے پر مچلتی ہوئی راگنی ہوں جو کبھی وقت کی راگنی ہوتی ہے اور کبھی بے وقت کی؟‘‘
ہر سوال کا جواب اسے حاصل تھا لیکن اسے قبول کرنے میں تامل تھا۔
نیچے اتری اور کار بند کر کے آگے بڑھی۔ کوٹھی کی لوح پر لکھا تھا، ’’دل آرام۔‘‘
پھاٹک بھڑا ہوا تھا۔ کھول کر اندر گئی۔ بر آمدے میں ایک عورت نے اس کا خیر مقدم کیا جو عمر کے اس مقام پر تھی جہاں دلفریبی اور رعنائی کا سنگم بنتا ہے۔ جہاں خوبصورت دائرے بنتے ہیں، دیدہ زیب پیچ وخم بنتے ہیں۔ پھر وہ ابھی ابھی غسل کر کے آئی تھی اور بر آمدے میں کھڑی تولیے سے لانبے بال جھٹک رہی تھی۔ ناف سے اوپر ترشی ہوئی بانہوں والا جمپر پہنے منی غرارہ تھا جس سے پنڈلیاں تو کیا گھٹنے بھی نہ چھپے۔
ہنس کر بولی، ’’ہیلو!‘‘
’’ہیلو! میں تاج بی بی ہوں۔ ’’اس نے ازراہ تعارف کہا۔
’’اوہ، آئی سی۔ تاج بی بی! تمہارا تو گھر میں اکثر ذکر چلتا ہے۔ دل آرام کی بھانجی ہونا؟‘‘
’’نہیں میری خالہ کا نام معراج بی بی ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی لیکن۔۔۔ تمہیں خبر نہیں اور ہوتی بھی کیسے؟ تم یہاں رہیں کب تھیں؟ تب تو یہاں پرانا مکان تھا۔ وہ مکان ڈھے گیا اور معراج بی بی اس کے ملبے تلے دب گئی۔ اس کی جگہ دل آرام نے جنم لیا ہے جو مرحومہ سے کہیں زیادہ چست، چالاک اور حسین ہے۔۔۔ اور۔۔۔ سیانی بھی۔۔۔‘‘
یاسمین سوچ میں پڑ گئی۔ تو گویا معراج بی بی بھی اس طرح نام بدل کر جہنم جانے والی راہ پر چل پڑی تھی۔
وہ عورت پھر بولی، ’’دل آرام تمہیں رات دن یاد کرتی ہیں۔‘‘
’’اپنی یاد کی جگہ میں خود چلی آئی ہوں۔‘‘
’’ویری گڈ، ویری گڈ! دل آرام تمہارے لئے فرسٹ کلاس پروگرام بنائیں گی۔‘‘
’’کیسا پروگرام!‘‘
’’جی بہلانے کا، پیسہ کمانے کا، تمہاری خالہ تمہارے بھلے کی نہ سوچیں گی تو اور کون سوچے گا؟‘‘
’’ہوں! لیکن خالہ ہے کہاں؟‘‘
’’یہ تو وہی آکر بتائیں گی۔ مجھے تو بس اتنی خبر ہے کہ وہ سات دن کے لیے اسلام آباد گئیں ہیں۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
وہ سوٹ کیس لے کر اندر چلی گئی اور اس نے خالہ کے پرانے کمرے میں ڈیرے ڈال لئے جہاں کبھی موٹی مونج کا نیم شکستہ پلنگ بچھا رہتا تھا۔ معمولی قسم کا تھوڑا سافر نیچر تھا اور گھر سمیت ہر شے پر بوسیدگی کی مہر لگی تھی لیکن اب شاندار فرنیچر تھا۔ ڈبل بیڈ تھا۔ موٹے موٹے گدے رکھے تھے، پھولدال ریشمیں چادریں رکھی تھیں۔ کپڑوں کی بہت بڑی الماری دھری تھی، جس پر قد آدم آئینہ جڑا تھا۔ ایک جانب بہت بڑا سنگار میز دھرا تھا جس پر خوشبوؤں کا ہجوم تھا۔ تیل اور عطر کی بیسیوں شیشیاں رکھی تھیں۔ درجنوں کے حساب سے لپ اسٹک، نیل پالش اور بورڈ کے ڈبے پڑے تھے۔ میک اپ کا نفیس ترین سامان بہ افراط موجود تھا۔
وہ اس وقت خوشبوؤں کے بھنور میں تھی۔ لیکن اسے اس بھنور سے نفرت تھی۔ اسی بھنور سے نکل کر تو وہ یہاں آئی تھی۔ اس بو کی اسے جستجو تھی جسے وہ پانچ سال پہلے بطور امانت یہاں چھوڑ گئی تھی لیکن اس میں خیانت ہو گئی۔
اور تو اور، دل آرام نے معراج بی بی میں خیانت کی تھی۔
یہیں کمرے میں رات دن گھر ر گھر ر سلائی مشین چلتی اور معراج بی بی دیدہ ریزی کرتی۔ جاڑوں میں وہ چالیس واٹ کی روشنی میں رات گئے تک کپڑے سیتی۔ آس پاس کی کوٹھی والیاں ترس کھا کر تھوڑا بہت کام دے دیتیں۔ یہ کم از کم اس معراج بی بی کا کمرہ نہیں تھا، جو اس کی خالہ تھی اور جس کے رویے سے مایوس ہو کر وہ یہاں سے بھاگ گئی تھی۔ کمرے کے نئے پن سے جو حقیقت عیاں ہو رہی تھی، اس کا دل اسے قبول کرنا چاہتا تھا۔
اس نے آخری بار ہلکا ہلکا میک اپ کیا تو اس کا قدرتی حسن نکھر آیا۔ چہرے پر گلابی پن کے ساتھ ساتھ نئی تازگی تو اس وقت بھی تھی، جب پانچ سال پہلے وہ یہاں سے چور کی طرح بھاگ کر گئی تھی تاہم اب اس پر ایک نئی تاب نکھر گئی تھی۔ بے داغ اور ملائم جلد پھول تھی۔ ریشم کی تلوار تھی، جس کی کاٹ فولاد سے زیادہ تیکھی تھی کیونکہ یہ دلوں کو تڑپاتی اور بے قراری کے سوا کچھ نہ دیتی۔ اس سے ملنا بے کلی سے وصل کرنا تھا۔ سودا سرا سر خسارے کا تھا پھر بھی پروانے اس شمع پر مرتے تھے لیکن وہ تو شمع بجھا کر، دکان بڑھا کر آئی تھی۔
انگارے بیچتے بیچتے آنچ اس کے عین قریب آئی اور اس کی روح کو جھلسا نے لگی۔ ماضی جسے ہلاک کر کے وہ کراچی گئی، پھر زندہ ہو کر اس کے شعور میں نیا جادو جگانے لگا۔ اس ماضی میں معصومیت تھی، پیار تھا۔ ریا کاری اور تصنع کا نام نہ تھا۔ اس عورت نے جنم لے لیا، ہلکا ہلکامیک اپ کر کے وہ عورت کے طور پر جینا چاہتی تھی اور اسی لئے ایک عورت سے ملنے آئی تھی، جو اس کی خالہ تھی، لیکن اسے سخت مایوسی ہوئی۔ وہ عورت ملبہ ہوئی اور اپنے ہی ملبے تلے دب گئی، عورت بھی عورت نہ رہی۔
سجیلے بھڑ کیلے کمرے کے حوالے سے اس نے دل آرام کو پا لیا۔ سنگار میز کی درازوں میں دل آرام کی کچھ تصویریں اور پلز ملیں، جن سے سارا بھید کھل گیا۔ دیواروں پر دل آرام کی بڑی بڑی نیم عریاں تصویرں آویزاں تھی۔ ہر تصویر کا نیا پوز تھا۔ نیا موڈ تھا۔ باغیچے کے پھول کو ٹھے پر چڑھ کر مسکرا رہے تھے۔ وہ بھی بے اختیار مسکرائی اور قد آدم آئینے کے رو برو آگئی۔ وہ لڑکی، جسے وہ سفر سے قبل ایک ہوٹل میں ہلاک کر آئی تھی، دل آرام کی تصویر یں دیکھ کر جی اٹھی۔ اس کے ہونٹ کا نپے اور چہرہ تمتمایا، جوانی ایستا دہ ہو گئی۔ انگ انگ جاگ اٹھا۔ پیچھے کمر پر ہاتھ لے جا کر انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور بڑی تمکنت سے ٹہلنے لگی۔
یوں کبھی انارکلی نے شیش محل میں جہانگیر کا دل رجھایا ہوگا۔ جسم گداز تھا۔ کمر پتلی تھی۔ چکنی پنڈلیاں اور ریشمیں بانہیں اس کے حسن کی شہ سرخیاں تھیں۔ دراصل وہ زندگی میں بہت بھاگی تھی اور بھاگ بھاگ کرپنڈلیاں گداز ہوئیں اور کمر پتلی ہوئی۔ اس وقت انگ انگ بول رہا تھا اور نہایت دلکش آوازیں دل پر دستک دے رہی تھیں۔ اپنا ہی سرور تھا اور اپنے ہی بدن کی مستی تھی۔ پلنگ پر چت لیٹ کر اس نے ایک پاؤں کی جوتی دوسرے پاؤں کی مدد سے نیچے پھینکی اور اور یوں ٹانگیں گھمانے لگی جیسے سائیکل چلا رہی ہو، پہیے چلتے رہتے کہ اچانک ٹیلیفون کی گھنٹی نے مستی کے تانے بانے بکھیر دیے۔
پل دو پل کے لئے یاسمین بنی تھی کہ پھر تاج بی بی بن گئی۔
پلنگ پر لیٹے لیٹے سر کی اور اس نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
’’ہیلو! دل آرام!‘‘
’’نہیں، میں تاج بی بی ہوں۔‘‘
’’ تاج! ارے تم کہاں سے آٹپکی؟‘‘
’’ارے تم جہاں آرا ہو؟‘‘
’’ہاں، ہاں! کہاں غائب تھی؟‘‘
’’یہاں آؤ، بتاؤں، ٹیلیفون پر کیا بتاؤں؟ تم لوگوں نے تو مجھے پریشان کر دیاہے۔ ہر شے بدل گئی ہے۔ نام تک بدل گئے ہیں۔‘‘
’’زمانہ بدلا تو سب کچھ بدلا، ملاقات ہو گی، تو باتیں ہوں گی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
اس نے بڑی بے دلی سے ریسیور رکھا اور ٹیلیفون بند کیا۔ وہ پلنگ پر اندھے منہ لیٹ گئی۔ جیسے وہ کسی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد پھر ٹیلیفون کی گھنٹی بجی، اسے جستجو تھی سب کچھ جاننے کی، ایک نئے انکشاف کی خاطر اس نے ٹیلیفون کی جانب ہاتھ بڑھایا اور ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔
’’ہیلو!‘‘ اس نے منجھی ہوئی شیریں آواز میں کہا۔
مردانہ آواز تھی۔ وہ بولا، ’’ہیلو! دل آرام!‘‘
’’معاف کیجیئے! میں تاج ہوں۔ دل آرام گھر پر نہیں۔‘‘
’’پھر تمہیں آجاؤ ہنی!‘‘
’’نان سنس!‘‘
سامنے ہوتا تو وہ اسے طمانچہ مار دیتی تاہم اس نے شدید غصے کے عالم میں زور سے ٹیلیفون پر ریسیور رکھنا چاہا کہ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یہ نجمہ تھی، جس نے نام نہیں بتایا تھا اور گھر لوٹ آنے پر تاج کا خیر مقدم کیا تھا۔ نجمہ نے ریسیور کان سے لگا کر کہا، ’’ہیلو آپ کون؟‘‘
’’مائی ڈیر نجمہ میں کے بی ہوں۔‘‘
’’او ہو آپ؟ کہئے کیا حکم ہے سیٹھ صاحب!‘‘
’’وسکی پارٹی کی ہے دوستوں کی۔ ایک لڑکی کم پڑ گئی۔ پلیز! تم آجاؤ!‘‘
’’ٹھیک!‘‘
’’فٹافٹ آؤ۔‘‘
’’بس پہنچی۔‘‘
’’تھینکس۔‘‘
تاج سمجھ گئی۔ نجمہ کال گرل تھی اور اونچے اونچے گھروں سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ گھر بلاشبہ قحبہ خانہ بن گیا تھا۔
’’میں رات کو نہیں آؤں گی یاسمین! گھبرانا نہیں، چو کیدار اور مالی باہر آنگن میں رہیں گے۔‘‘
’’اچھا’’
’’حالات کا دھارا سب کو بہائے لے جا رہا ہے۔ کون روکے گا اس منہ زور دھارے کو؟‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا۔
نجمہ بڑی بھولی بھالی دکھتی تھی۔ معصوم چہرہ تھا، قد لانبا اور بدن میں بلا کی جاذبیت تھی۔ اسے تو جیسے دنیا کی خبر نہ تھی اور اب بے خبر ی کی دنیا سے نکل کر خبر کی دنیا میں آگئی۔ پہلے صفحے کی خبر بن گئی۔ نام بدلا تو گم نامی جاتی رہی۔ کتنی ہی تاج بیبیاں، معراج بیبیاں، اور نجمائیں نام بدل کرنام ور ہوئیں۔
نجمہ تیزی سے تیاری کرنے لگی، ساتھ ساتھ گنگنا نے لگی۔ آواز سریلی تھی۔ اس کمرے کی تاثیر ہی ایسی تھی۔ پانچ سال پہلے جب یہاں رہتی تھی تو اکیلے میں گایا کرتی تھی۔ یوں گانے گاتے نیم بوسیدہ کمرے میں سے نکل گئی اور سوئے دوزخ روانہ ہوئی۔ ویسے اپنی دانست میں وہ سوئے جنت روانہ ہوئی۔
وہ اچھے ماحول میں نہ پلی تھی۔ اس کا باپ مکینک تھا۔ رات دن کام کرتا، بہت کم آرام کرتا، تاج کی ماں خوبصورت مگر نمائش پسند اور خرچیلی تھی۔ اس کا باپ اپنی بساط سے بڑھ کر محنت مشقت کرتا۔ میاں بیوی میں پہلے دن ہی سے اختلافات چلے آرہے تھے۔ لیکن یہ دبی دبی زبان میں بیان ہوتے۔ جب آس پاس کے ہر ایرا غیر انتھو خیرانے بڑھنا پھیلنا شروع کیا اور کنگال راتوں رات لکھ پتی ہونے لگے تو تاج کی ماں اس کے باپ کی نالائقی پر برہم ہونے لگی۔ وہ اب مفلسی کی زندگی اختیار کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس کی ماں نے بہت ہی تنگ کیا تو اس کے باپ نے مغلوب الغضب ہو کر کہہ ہی دیا، ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں نے خدا پر بھروسہ کیا تھا؟ خدا نے دھوکہ دیا تو اب کیا کروں؟ میں خدا کو چھوڑ کر شیطان کے پیچھے تو نہیں لگ سکتا؟ ایک عمر گزار دی حلال کی روزی کمانے میں، اب حرام کیسے کماؤں؟‘‘
بات آگے تو نہ بڑھی لیکن اس کی ماں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مایوس ہو گئی۔ جانتی تھی کہ دیانتداری ایسے ناقص اور کند آلے سے مفلسی کا پتہ نہیں کٹ سکتا۔ وہ باغی ہو گئی اور مشکلات دور کرنے کے لئے میدان عمل میں نکل آئی۔ ایسی نکلی کہ گھر سے ہی نکل گئی اور پھر اس کی خبر نہ ائی۔ باپ کو اس کی ماں سے بڑی محبت تھی۔ وہ گئی تو اس کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کے فرااق میں باؤلا ہو گیا۔ کام پر جاتا لیکن کچھ کئے بغیر لوٹ آتا۔ اس سے کام نہ ہوتا۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا اور بالآخر وہ بھی گھر سے نکل گیا۔
تاج کے ذہن میں چنداں خوشگوار اثرات مرتب نہ ہوئے۔ وہ اس دنیا میں بے سہارا اور تنہا رہ گئی۔ مایوسیوں نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔ محلے میں لوگ اس کی ماں کے قصے سنانے لگے۔ پھر ایک دن اچانک اس کی ماں گھر لوٹ آئی۔ اس کے پاس ڈھیر سارا روپیہ تھا لیکن وہ بیمار تھی۔ اسے خاوند کے پاگل پن کی خبر ملی تو بہت غمزدہ ہوئی۔ پھر جب ہمسائے بھی اظہار نفرت کرنے لگے اور اس کے چال چلن کی نسبت چہ میگوئیاں کرنے لگے تو وہ بے حوصلہ ہو گئی۔ بیماری بڑھتی گئی اور آخر تاج کو بہن کے حوالے کر کے مٹی کے ڈھیر تلے پہنچ گئی۔
ایک عورت اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ لیکن اپنی کہانیاں لوگوں کے ہونٹوں پر مچلنے کو چھوڑ گئی۔ تاج نے اونے پونے مکان بیچا اور خالہ معراج بی بی کے یہاں اٹھ آئی۔
خالہ معراج معمولی سی بستی میں رہتی تھی۔ گھر پر بچوں کو پڑھاتی اور گزارہ کر لیتی۔ پھر دیکھتے دیکھتے بستی کے گھر وندے اور بستی کی زمین بکنے لگی۔ پیسے کاریلا آیا تو صدیوں پرانی بستی کے وارث یہاں سے چلے گئے۔ جن کے بدن میں مٹی کی باس تھی، نہ مٹی سے ان کا کوئی رشتہ تھا۔
نئے لوگ جو ٹھاٹ باٹ اور زندہ دلی میں اپنے پیش روؤں سے بڑھ چڑھ کر تھے، ان میں سے ہر ایک کے پاس الہ دین کا چراغ تھا۔ چراغ کے جن نے دیکھتے دیکھتے عالیشان محلات کی قطاریں لگادیں۔ مرحوم بستی میں بسنے والے عمر بھر جان ہلکان کرنے پر بھی اتنا روپیہ نہ کماتے جتنا یہ نئے لوگ چند گھنٹوں کی گھر دوڑ میں ہار جارتے۔
حسین اور پر شکوہ مکانات کے ہجوم میں معراج بی بی کا گھروندا مخمل میں ٹاٹ کا پیوند بن گیا۔ دردرکی ٹھوکریں کھانے کی بجائے اس نے اپنا گھر اپنے قبضے میں رکھا اور اسے نہ بیچا۔ کاروں اور کوٹھیوں نے اس کا گھیراؤ کر لیا لیکن وہ بے خبررہی۔ بچوں کو پڑھاتی اور سلائی مشین چلاتی۔ اسے بڑھتی پھیلتی اور اچھلتی دنیا سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اس نے تو اپنے ساتھ تاج کو بھی جوت لیا۔ کچھ عرصہ تو وہ خول میں رہی لیکن پھر پر پرزے نکالنے لگی۔ ایک روز کوٹھے پر چڑھ کر اس نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ اس نے جگہ جگہ رنگین کپڑوں والی تتریاں لہراتی بل کھاتی دیکھیں، جگہ جگہ قہقہوں کے بگولے اچٹتے دیکھے۔ اسے ایسی زندگی کی ایک بھی جھلک اپنے خول میں دکھائی نہ دی۔ وہ دن میں کئی کئی بار کوٹھے پر آتی اور آزاد لوگوں کی سر گرمیاں دیکھتی اور مچل اٹھتی۔ وہ بیزار ہو گئی۔ روز روز بیزار تر ہوتی گئی اور یوں گھر سے اس کی دلچسپی صفر تک پہنچ گئی۔
اس نے آنکھیں کھولیں تو خول بھی کھل گیا اور باہر کی کشادہ اور پر رونق راہیں دکھائی دینے لگیں۔ جب بدن گھر میں ہوتا تو اس کے خیالات گرد و پیش کی کوٹھیوں میں گھومتے۔ ایک دن وہ چپکے سے قریب والی کوٹھی میں چلی گئی۔ یہاں شیریں رہتی تھی جو خالہ معراج کو کپڑے سینے کے لیے دیتی رہتی تھی۔ وہ کئی بار اسے کوٹھے پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر تانک جھانک کرتے بھی دیکھ چکی تھی۔ سمجھی شکار اپنے آپ جھولی میں آن گرا۔ اسے دیکھتے ہی بولی،
’’بڑی بانکی لڑکی ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’تاج، تاج بی بی۔‘‘
’’اف، کیا بیکار نام ہے۔ صورت غضب کی اور نام اتنا تھرڈ کلاس۔‘‘
’’پھر فرسٹ کلاس نام کیا ہو؟‘‘
’’نام؟ نام؟ میرے۔۔۔ میرے خیال میں یاسمین ہونا چاہیئے۔‘‘
’’لیکن اس نام سے مجھے کون بلائے گا؟‘‘
’’تمہارے چاہنے والے۔‘‘
اور پھر اس نے تاج کو گلے لگا لیا اور صوفے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
’’معراج بی بی تمہاری کیا لگتی ہے؟‘‘
’’خالہ۔‘‘
’’بڑی وقیانوسی عورت ہے، بے وقوف ہے، لیکن تم بھی کم بے وقوف نہیں۔ ایسا پیارا بدن ایسی پیاری جوانی! مار ڈالنے والی یہ صورت! مائی گاڈ! تم سب کچھ ضائع کر رہی ہو۔‘‘
تاج ہنس پڑی جیسے اس کی بات سمجھ گئی ہو۔
’’آپ ہی اپنے تیئں برباد کر رہی ہو اور تمہیں افسوس بھی نہیں ہوتا۔‘‘
’’لیکن کوئی راہ سمجھاوے تو!‘‘
’’کون سہارا دیتا کون راہ سجھاتا؟ تم پر تو معراج بی بی کا سایہ ہے۔ ویسے معراج بی بی میرے کپڑے سیتی ہے۔ اچھی عورت ہے مگر اپنی جوانی کی بیرن ہے۔ دیکھ لینا جلدی ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔‘‘
اور پھر اس کا غسل ذہنی کرنے لگی۔ بولی، ’’جانے تم کس دنیا میں رہتی ہو، آج کی لڑکیاں تو ایسی نہیں ہوتیں جیسی تم ہو۔ باہر ذرا گھوم پھر کر تو دیکھو، تم سے کہیں کم خوبصورت ہوں گی لیکن تم سے کہیں زیادہ خوبصورت لگیں گی۔ لڑکیاں بن ٹھن کر ہی رہیں تو اچھی لگتی ہیں۔ عورت کا یہ کام ہے کہ حسین سے حسین تر بننے کی کوشش کرے۔ اپنے حسن اور اپنی جوانی سے مردوں کو چت کرے۔‘‘
شیریں کی باتوں اور اس کے رہن سہن اور شان و شوکت نے اسے بے قرار کر دیا۔ یہاں تو نقشہ ہی اور تھا۔ ایک ملازمہ تھی جو ساتھ ساتھ رہتی اور اس کے اشارہ ابرو پر چلتی۔ باورچی خانے میں خانساماں اس کی فرمائشیں پوری کرنے میں منہمک رہتا۔ یہ گھر نہیں ہوٹل تھا۔ لیکن تاج گھر اور ہوٹل کے فرق سے واقف تھی، البتہ یہاں جو اس نے نئی فضا دیکھی، وہ اسے لبھا گئی۔ وہ گھٹن جو اس کی خالہ کے گھر کا خاصہ تھی یہاں ناپید تھی۔ ہر شے صاف ستھری تھی، ہر شے چمکیلی تھی۔ یہاں کسی کو چپ کے تالے نہ لگے تھے۔ شیریں بے خوف، ہنس ہنس کر بولتی، کسی سے نہ ڈرتی، بے با کی تھی، قہقہے تھے، کھلی کھلی باتیں تھیں۔
تاج کی ماں بھی ایسی ہی عورت تھی لیکن اس نے تو جیسے دل میں کوئی روگ پالا اور زندگی کو گھن لگا یا تھا۔ اسے تو جیسے حالات نے زیر کر لیا تھا اور پھر حالات اسے کھا ہی گئے۔ لیکن شیریں اسے بڑی زبردست عورت نظر آتی تھی، جسے کوئی روگ نہ لگا تھا اور جو حالات کو زیر کئے ہوئے تھی۔ اس کے خیال میں وہ ایک بھر پور عورت تھی۔
تین دن کے لئے سہیلی کے یہاں جانے کا بہانہ بنا کر اس نے خالہ سے رخصت طلب کی۔ پر کٹی چھوٹتے ہی بولی، ’’شریف لڑکیاں گھر میں رہتی ہیں، کسی کے یہاں نہیں جاتیں۔‘‘
’’خالہ! میں بچی تو نہیں۔ شرافت کا مطلب جانتی ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ایک شریف لڑکی کو صرف شریف لڑکیوں سے ہی ملنا چاہیے۔‘‘
’’اس عمر میں کسی سے بھی نہیں ملنا چاہیے۔‘‘
تاج میں بغاوت کا جذبہ تو پیدا ہوا لیکن وہ سنبھل گئی۔ اس نے جذبات کے حربے سے کام لیتے ہوئے کہا، ’’ آج میری ماں ہوتی تو مجھے میری اتنی اچھی سہیلی کے یہاں جانے سے نہ روکتی۔ جہاں آرا لڑکی نہیں، فرشتہ ہے۔‘‘
یہ حربہ ریشم کی تلوار بن گیا اور کام کر گیا۔
بہن کا نام سن کر معراج بی بی کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے اور دل میں ہلچل مچا گئے۔ اس نے تاج کو فرشتے کے یہاں جانے کی اجازت دے دی اور وہ شیطان کے یہاں چلی گئی، جس کا نام شیریں تھا۔ دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ وہیں رک گئی۔ شیریں ٹیلیفون پر جلال میں آکر کہہ رہی تھی، ’’سب کچھ میرے پرس میں نہیں آتا، کتنے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے۔ رات بھر کسی کا جی بہلانا آسان تو نہیں۔ اتنا بڑا سوداگر اور میرے مال کے اتنے تھوڑے دام! لاکھوں کماتا ہے اور اپنی خوشی کے لئے سینکڑوں بھی خرچ نہیں کرنا چاہتا، اپنی معمولی سی چیز بھی مہنگے داموں بیچتا ہے تو میں اپنا ہیرے سا بدن کیوں سستے داموں بیچوں، پانسو سے کوڑی کم نہ لوں گی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے زور سے ریسیور رکھا اور’’ہیلو تاج! نہیں نہیں یاسمین!‘‘ کہہ کر بالوں میں کنگھی پھیرنے لگی۔ قدرے رک کر مسکرائی اور تاج کی طرف توجہ دیتے ہوئے بولی، ’’میں اپنی قیمت آپ لگاتی ہوں۔ گاہک کو کبھی اپنی قیمت لگانے کا حق نہیں دیا میں نے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
’’تین سو روپے دیتا ہے۔ کیا خیال ہے؟ جاؤ گی اس کے یہاں؟‘‘
تاج کے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ حیرت، خوف، خوشی کے جذبات نے اسے بے کل کر دیا۔ اسے کسی نے دس روپے نہیں دیے تھے۔ اور ییہاں قدر افزائی کا یہ حال کہ تین سو روپے مل رہے تھے۔ اتنی بڑی رقم تو اسے اپنی اوقات سے کہیں زیادہ بلکہ اپنے تصور سے ماورا نظر آئی۔ پھر اس خیال سے تو وہ کانپ اٹھی کہ ایک اجنبی سے رابطہ قائم ہوگا۔ وہ ڈر سہم گئی اور اس نے سر جھکا لیا۔
’’ٹوٹے پھوٹے مکان میں رہنے والی لڑکی! میری مانے گی تو شیش محل میں پہنچ جائے گی اور الٹرا ماڈرن کاریں تیرا طواف کرتی پھریں گی۔ تین سو تو کیا، کم از کم دو ہزار روپیہ لے کر دوں گی تجھے۔‘‘
نئی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے اسے جو گھبراہٹ ہوئی وہ قدرتی تھی۔ حقیقت سے زیادہ حقیقت کا خطرہ زیادہ ڈرؤنا تھا۔ اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ بولی ہی نہیں، اس کی ٹانگوں میں سے جان نکل گئی اور وہ لڑکھڑا گئی۔ اگر جھٹ سے دیوار کا سہارا لے کر صوفے پر نہ آ بیٹھتی تو فرش پر گر پڑتی۔
شیریں نے تاج کو ڈگمگاتے دیکھا تو چمک کر بولی، ’’مجھے وہ لڑکی بری لگتی ہے جو ڈرپوک ہو، جو شرمائے، گھبرائے، بدن چرائے۔ اگر تمہیں اچھی کار، اچھے لباس، اچھے مکان اور اچھے رہن سہن سے نفرت ہے تو یہاں سے چلی جاؤ۔ میرے پاس اس وقت آؤ جب تمہارے دماغ کا خلل دور ہو جائے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے خادمہ کو آنکھ ماری اور بڑی بے نیازی سے غسل خانے میں چلی گئی اور شاور باتھ لینے لگ گئی۔
یاسمین نے تاج کو جھنجھوڑ دیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے میں مصروف ہو گئی۔ خادمہ ٹرالی لے کر آگئی، جس پر پھلوں کا انبار لگا تھا جو تاج نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا۔ موسم بے موسم، سبھی پھل تھے اور بیچوں بیچ وسکی کی بوتل دھری تھی۔ ساتھ پلیٹ میں نمکو اور بھنی ہوئی مونگ پھلی کے مغز بھی تھے۔ تاج نے ناشپا تی کا ٹکڑا کانٹے میں اڑایا اور منہ میں رکھ لیا۔ ابھی بھی ڈری سہمی تھی اور دھیرے دھیرے پھل کھا رہی تھی۔ چاروں طرف اندھیرے پھیلے تھے، جن میں انگارے بکھرے پڑے تھے۔ وہ چاہتی تھی کہ زور سے چیخے، کپڑے پھاڑے اور باہر نکل جائے۔ شیریں باہر نکل آئی اور وہ اس کی شخصیت تلے دب کر رہ گئی۔ وہ تو جیسے اس کے حکم کے بغیر حرکت بھی نہ کر سکتی تھی۔
تاج پھل کھاتی اور وسکی کی بوتل دیکھتی رہی۔
اس نے سر جھکا رکھا تھا۔ شیریں قریب آئی۔ اس نے تاج کی ٹھوڑی کو انگلی کی اڑیس دے کر اونچا کیا اور پھر پاس بیٹھ گئی۔ وسکی کی بوتل کھولی۔ دو بلوریں گلاسوں میں سنہری رنگ کی وسکی انڈیلی۔ ایک میں کم، ایک میں زیادہ۔ گلاس خالی کیا اور نمکین دال کھانے لگی۔ اس نے بدن پر بڑا تولیہ رکھا تھا۔ اس نے بڑے اعتماد اور جلال آفرین انداز سے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’تمہیں خبر نہیں یاسمین! دنیا کتنی بے رحم، سنگدل اور ذلیل ہے۔ شرافت کی زندگی میں دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں ملتی۔ کوئی شرافت کی قدر نہیں کرتا اور نہ کسی کی غریبی پر ترس کھاتا ہے۔ شرافت کی بدولت کھوٹا سکہ بن کر رہ جاؤ گی۔ شرافت کا دم بھرنے اور شرافت کے چر چے کرنے والے تو بہتر ہیں لیکن ایک غریب لڑکی کے لئے ان کے پاس سے کچھ نہ ملے گا، جرات سے کام لو۔ زبردست سے سب ڈرتے ہیں تاج! وہ جو بڑے بڑے پارسا، شرافت کے بڑے بڑے ٹھیکیدار ہیں، تمہاری جوتیاں صاف کریں گے۔ ذلت، فاقہ، بیماری اور موت کے سوا شرافت میں کچھ نہیں رکھا۔‘‘
اس تقریر کا اثر ہوا۔ تاج نے سنبھالا لیا اور ہوش میں آنے لگی۔
شیریں اس کا سہارا بن گئی۔ شیریں کی بڑی بڑی آنکھوں میں بڑا جلال تھا۔ ان کا اشارہ ملا تو تاج نے وسکی کا گلاس اٹھایا اور منہ سے لگا لیا۔ اپنے آپ کو دریافت کرنے کی سمت یہ پہلا تھا اور شرافت اس کی پہلی کا ژولٹی تھی۔ وسکی کی سنہری بوتل سامنے رکھی تھی اور شرافت اوندھے منہ پڑی تھی۔
پیالے نے مشکل آسان کی اور ایک زبردست عورت کی شہ پر اس نے وہ خول توڑ دیا، جو معراج بی بی نے اس کی ذات پر چڑھایا تھا۔
’’بات ساری ہمت اور حوصلے کی ہے اور بس۔‘‘
شیریں نے گلاس میں وسکی انڈیلی اور سیب کی قاشیں کانٹے میں الجھائیں۔ بولی، ’’عورت اپنی طاقت سے خبردار ہو جائے تو جس مرد کو چاہے غلام بنالے۔‘‘
وہ شام اپنی ہستی کی دریافت میں کٹی۔ تاج کا غسل ذہنی ہوا اور وہ یاسمین بنی۔ اس نے شاور باتھ لیا اور نئے کپڑے پہنے۔
رات کو ایک نہایت شاندار کار بنگلے کے باہر آکر رکی۔ شیریں اسے ساتھ لے کر چل دی۔ شاندار کار ایک ہوٹل کے کمپاؤنڈ میں آکر رکی۔ شیریں ہنسی اور پھر بولی یہ ہوٹل ہے، شہر کا سب سے بڑا ہوٹل لیکن در اصل یہ ہوٹل نہیں چکلہ ہے، اونچے درجے کا چکلہ۔ خاصی حد تک محفوظ ہے۔ یہاں لہو کی لکیریں کھینچتی ہیں۔ پھول اور ہیرے بکتے ہیں۔ روپیہ کھنکتا ہے، بدن چھنکتے ہیں۔ یہاں ملتے ہیں پورے دام۔‘‘
’’دنیا کتنی بڑی ہے! کتنی شاندار ہے! کتنی مختلف ہے!‘‘ تاج نے جی ہی جی میں کہا۔ دونوں کار سے اتر کر نیچے آئیں۔ ہوٹل کے دروازے پر ایک تندرست و توانا دراز قامت اور رعب دار مونچھوں والے ایک شخص نے سلام کیا اور دروازہ کھولا۔ دونوں اندر چلی گئیں۔
ایک لڑکی جس کے بدن پر گز بھر کپڑے کا پہناوا تھا، مٹک مٹک کر چل رہی اور ہر آنے جانے والے کو معنی خیز آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ ایک نو جوان نے لپک کر اسے تھام لیا اور کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک میز پر لے بیٹھا، تاج نے یہ سب کچھ بڑے اشتیاق سے دیکھا۔
عورتوں کی بے باکی نے بطور خاص اس کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔ اسے یوں لگا جیسے سب عورتیں اچھی کاروں، اچھے لباسوں، اچھے مکانوں اور رہن سہن کی آرزو دل میں بسائے گھوم پھر رہی تھیں۔
شیریں ایک طرف صوفے پر جا بیٹھی۔ اس نے تاج کو پہلو میں بیٹھا لیا۔ میک اپ ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’چپ رہنا، بولنا نہیں! آج تمہاری قسمت جاگے گی، اسے ٹھکرانا نہیں۔ ورنہ یاد رکھو! جس نے قسمت کو ایک بار ٹھکرایا، قسمت اسے تمام عمر ٹھکراتی ہے۔‘‘
تاج نے بات سنی اور سر اونچا کر لیاتا کہ مورال قائم رہے۔
ناٹے قد کا ایک آدمی لپک کر اس کی جانب آیا۔ یہ سیکوریٹی آفیسر تھا اور ہوٹل کو بدکار عورتوں سے پاک رکھنا اس کا کام تھا۔ فرشی سلام کر کے پاس بیٹھ گیا۔
’’ہے کوئی آسامی؟‘‘ شیریں نے پوچھا۔
’’ہے، بالکل ہے۔ وہی سیٹھ جو دو سو سے آگے نہیں بڑھتا تھا، میں نے اسے چھ سو پر چٹخار لیا ہے۔‘‘
’’گڈ گڈ! کہاں ہے؟‘‘
’’ویٹ پلیز ویٹ! ابھی آجائے گا۔‘‘
’’اچھا ایک گاہک اور چاہنے لیکن ذرا ملائم ہو۔ نیا مال ہے۔ دیکھ لو! کس قدر نرم نازک اور سجرا ہے۔ پنڈا ایسا جیسے شبنم سے نہایا ہوا ہو۔ ہوا لگے تو میلا ہو جائے۔‘‘
’’مبارک ہو، مبارک! ٹھیک چیز لائی ہو۔ گاہک لاؤں گا اور اے ون لاؤں گا۔‘‘
’’اتنا یاد رکھنا، لڑکی کی نتھ نہیں کھلی ہے۔ دو ہزار سے کم نہیں لوں گی۔‘‘
’’رقم کچھ زیادہ ہے۔‘‘
’’لعنت ہے تم پر جو اتنا بڑا ہوٹل چلاتے ہو اور دو ہزار کی آسامی پیدا نہیں کر سکتے۔ کیا اب اس ہوٹل کی اتنی ساکھ گر گئی ہے اور یہاں اتنے ٹٹ پونجئے آنے لگے ہیں کہ نتھ کھلوائی بھی نہیں دے سکتے؟‘‘
’’نہیں نہیں یہ بات نہیں۔ یہاں گاہکوں کی کمی نہیں، گاہکوں کی تعداد تمہاری دعا سے روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن لڑکی اناڑی ہے۔‘‘
’’اناڑی نہیں، کنواری ہے۔‘‘
’’لوگ کھلاڑی لڑکیاں مانگتے ہیں، اس کا کیا کریں؟‘‘
’’اچھا تو میں سامنے والے ہوٹل میں ٹرائی کرتی ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں شیریں بائی! اس کی کیا ضرورت۔ ہم تو آپ کے خادم ہیں۔ اچھا گاہک مل جائے گا۔‘‘
ناٹے قد والا اٹھ کر چلا گیا۔ آرکیسٹر ا کی دھنیں تیز ہو گئیں۔ جذبات بھڑک اٹھے اور زندگی کی لے تیز ہو گئی۔ باہر تالاب پر قہقہے برس رہے تھے۔ ننگے پنڈتوں کا میلا لگا تھا۔ مرد اور عورتیں تیرنے میں منہمک تھیں۔
ناٹے قد والے نے ایک بیرے کے کان میں کچھ کہا۔ بیرا بھاگ کر لفٹ پر گیا اور دس منٹ میں ایک ادھیڑ عمر کے بانکے کو ہمراہ لے آیا جس نے ٹیڈی لونڈوں جیسا چست ٹیڈی لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے آتے ہی سلام کیا اور کرسی تاج کے قریب کر کے بیٹھ گیا۔ تاج گھبرائی لیکن جب شیریں اسے دیکھ کر مسکرائی تو وہ بھی مسکرادی اور اٹھ کر بانکے کے ساتھ چل دی۔
ناٹے قد والے نے دو ہزار کی رقم شیریں کو تھما ئی اور پھر اس کے آگے ہاتھ پھیلا دیا۔ شیریں نے انیس نوٹ پرس میں ڈال لئے اور ایک نوٹ ناٹے قد والے کو دے دیا۔ دونوں نے مل کر وسکی پی۔
تاج کی نئی زندگی میں پہلی بار جو شخص داخل ہوا، وہ بہت بڑا زمیندار تھا اور کھلاڑی بھی۔ عورتیں اس کا کھلونا تھیں۔ زمین کی کوکھ جو سونا اگلتی وہ اسے اپنی ہوس کی بھاڑ میں جھونک دیتا۔ کتنے ہی کسانوں کا لہو پسینہ ٹپک ٹپک کر مٹی میں جان ڈالتا، مٹی کی باس مچل کر فضا میں پھیل جاتی اور پیاسی روح کو پیار کے سندیسے دیتی، لیکن یہ بڑا زمیندار مٹی کی خوشبوئیں لوٹ لیتا۔ دھرتی کے اس لٹیرے کے لئے تو عورت بھی لوٹ مار کی چیز تھی۔ اسی نے اسے بکاؤ بنا یا تھا۔
تاج کے لئے ہوٹل کا کمرہ بھول بھلیاں سے کم نہ تھا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ زمیندار نے جب قہقہہ مارا تو اس کے جواب میں اس کے ہونٹوں پر مریل سی ہنسی نمودار ہوئی، جس سے مسرت کا کوئی پہلو نہ نکلتا تھا۔ پیشہ ور عورت کی طرح اس نے ہنسنا سیکھا ہی کب تھا۔ گھر میں بیٹھ کر ہنسنا تو اسے آتا تھا لیکن گھر سے باہر، چکلے میں ہنسنا، نیا ذہن اور نئی عادت کا طالب تھا۔ وہ زمیندار کے رحم و کرم پر تھی جس نے قہقہہ لگانے کے بعد اسے اس زور سے بھینچا کہ اس کی چیخ نکل گئی اور پھر ’’بدتمیز’’ کہہ کر الگ ہو گئی۔ زمیندار نے پروا بھی نہ کی کیونکہ وہ نشے کی حالت میں تھا۔ اسے تو رات بھر بدتمیزی کرنی تھی۔ اس نے تاج کو زور سے دھکا دے کر پلنگ پر پٹخا۔ ڈری سہمی ہوئی تاج سے کہنے لگا، ’’یاسمین! ڈر خوف دل سے نکال دو! میں تمہیں کھا نہیں جاؤں گا۔ تم میں بھی جان ہے مجھ سے لڑو! مجھ پر پل پڑو۔‘‘
تاج جلال میں آئی اور خونخوار بلی کی طرح اس پر جھپٹ پڑی۔ اس نے زمیندار کا منہ نوچ لیا۔ اس کے کپڑے نوچ لئے اور اسے خوب پیٹا۔ لیکن اس کمبخت نے ذرا برا نہ مانا بلکہ وہ بہت وہ بہت خوش ہوا۔ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ آخر کار تاج کا سانس پھول گیا اور تھک ہار گئی۔ بے سدھ پلنگ پر گری۔
اس پہلے تجربے کے بعد زندگی کے لئے نئی راہیں کھلیں جو اس جہنم کی سمت جاتی تھیں، جہاں لوگ آگ کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اب رویے کی جھنکار سے اس کا بدن کھنکنے لگتا اور بڑے بڑے نوٹ اس کی آنکھوں میں نگینہ بن کر چمکنے لگے۔
اب ہر صبح سورج کی کرن لہو کی لکیربن کر اس کے چہرے پر کھینچ جاتی۔ لہو کے چند قطرے، جس سے کبھی اس نے اپنی پیشانی سجائی تھی اور آبرو سنواری تھی، اب اس کے لئے قابل فخر نہ رہے۔ اب وہ عورت نہ رہی، بے آبرو بدن کے سوا اب وہ کچھ نہ تھی۔۔۔ اور اونچے معاشرے میں یہ بے آبرو بدن بڑی قدر و منزلت رکھتا۔ دولت کے شہزادے اسے احترام کی نظر سے دیکھتے۔ جب وہ عظمت کے جذبے سے سرشار اور اپنی ’’ مانا’’ سے آگاہ ہو کر سر عام جلوہ افروز ہوتی۔ گردن تان کر پر غرور انداز سے چلتی تو لوگ فرشی سلام کرتے، جنہیں وہ بڑی بے نیازی سے قبول کرتی۔ چاروں طرف سے نگاہیں اس کی جانب امڈ آتیں اور اس حسن کے اس رواں دواں نقطے کا گھیراؤ کر لیتیں۔ وہ انتخاب کرتی اور اپنے ریشمیں بدن پر وہی نگاہ جھیلتی جو رو پہلی اور سنہری آب و تاب سے اسے چت کر لیتی۔ وہ دل کی بجائے جیبوں میں جھانکتی اور آدمی کا قد کار اور بنگلے سے ناپتی۔
بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی۔ خود ہی براہ راست ٹیلیفون پر بات کر لیتی۔ اس کی خالہ اس کے واپس نہ آنے پریشان تو ہوئی لیکن بھانجی کی ماں کا چلن تو اسے یاد تھا۔ تاہم جس قوس و قزح پر اس کی بھانجی جھول رہی تھی، اس کی اسے خبر نہ تھی۔
یاسمین ہر روز اپنا بدن ترازو میں تولتی۔ ایک پلڑے میں اپنا بدن رکھتی اور دوسرے میں نوٹ۔ ہر روز اپنی قیمت بڑھاتی اور ایک دن ایسا آیا کہ بستی اسے چھوٹی نظر آنے لگی۔ وہ چند کلیوں پر قناعت کرنے کو تیار نہ تھی اور پھر اپنی سہیلیوں سے مڈبھیر بھی تو ہو جاتی۔ ایک تو شرافت کی پتلیوں سے آنکھیں چار کرنے کی تاب نہ رہی تھی اور دوسرے وہ علاج تنگی داماں کیا چاہتی تھی۔ وہ کراچی کی ایک بڑی بستی میں چلی گئی جہاں زیادہ شاندار کاریں، زیادہ تابدار کوٹھیاں اور زیادہ شاندار ہوٹل تھے۔ یہاں کی فضاؤں میں سانس لیا تو اسے محسوس ہوا کہ عورت نے وہ آزادی پالی ہے جس کے لئے وہ صدیوں کو شاں رہی ہے۔
اس نے ایک بڑے سے ہوٹل میں کمرہ لیا اور اس سے بڑے ہوٹل کے چکر کاٹنے لگی۔ شیریں نے ہوٹل کے منیجر کو اس کی آمد سے مطلع کر دیا تھا، اس لئے کسی قسم کی رکاوٹ نہ پڑی۔ وہ چلتا پھرتا اشتہار تھی۔ نیا چہرہ، دلفریب بدن، نازو ادا اور نئی تمکنت دیکھ کر سب اس کی طرف متوجہ ہوتے اور وہ حسب معمول اسی کی طرف متوجہ ہوتی، جس کی جیب سب سے زیادہ نوٹ اگلتی۔ یہاں دولت کی فراوانی تھی۔ اس کے تصور سے کہیں زیادہ فروانی تھی۔ ہر شخص اپنی جگہ سونے کی کان تھا۔
ہوٹل کی انتظامیہ سے اس کا رابطہ قائم تھا۔ یہ بنیادی اور انتہائی ضروری اقدام تھا۔ ہوٹل کی انتظامیہ کے تعاون کے بغیر بات نہ بن سکتی تھی۔ گاہکوں کے ذوق، پسند اور عادتوں کے بارے میں انھی سے ضروری کوائف معلوم ہوتے۔
یاسمین کا دھندا نفع آور بنیادوں پر چلنا شروع ہوا۔ دن دو گنی اور رات چو گنی والا معاشی سائیکل چل نکلا۔
ہوٹل آنے والوں میں ایک داؤد بھی تھا جو ہر لڑکی کو منہ نہ لگاتا۔ ذہین اور حسین لڑکیاں اس کی کمزوری تھیں۔ بے حد نفاست پسند اور جذباتی تھا۔ عام طور پر لمبی مدت کے لیے لڑکیوں کو داشتہ کے طور پر قبول کرتا۔ اس نے ہوٹل منیجر سے یاسمین میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
ہوٹل منیجر نے ایک دن تاج کو بلایا اور صوفے پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بولا، ’’داؤد بڑا بھلا آدمی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے ہوٹل آ رہا ہے۔ بیوی کے مرنے کے بعد اس نے آج تک شادی نہیں کی البتہ کوئی لڑکی پسند آجائے تو اسے داشتہ بنا لیتا ہے۔ ایک لڑکی پر وہ مرتا تھا لیکن وہ دغا باز نکلی۔ ہپی لڑکوں سے جا ملی ہے اور انہی جیسی ہو چکی ہے۔‘‘
’’تم کیا تم مجھے اس کی داشتہ بننے کا مشورہ دیتے ہو؟‘‘
’’ہاں، یاسمین! تم گھاٹے میں نہ رہو گی۔ ہوٹل کا سارا خرچ اس کے ذمے ہوگا۔ کم از کم پانچ ہزار روپے ماہوار تمہیں باقاعدگی سے دے گا اور ہفتے میں ایک دو بار شاپنگ کے لئے بھی لے جائے گا۔ اب تمہیں مستقل طور پر اسی ہوٹل میں رہنا ہوگا۔‘‘
تاج نے سگرٹ کا لمبا کش لیا اور سوچ میں پڑ گئی۔
’’اگر تم نے اس کا دل جیت لیا تو وہ تمہاری ہر بات مانے گا۔‘‘
’’ہوں’’
’’اس کی سابقہ داشتہ کے پاس کچھ نہیں تو پچیس تیس ہزار کے ملبوسات اور زیورات تھے۔ بڑی کار تھی۔ وہ تو بڑے ٹھاٹ سے رہتی تھی۔‘‘
تاج نے پھر’’ہوں ’’ کی اور سگرٹ کا لمبا کش لیا۔
’’عورتوں کے معاملے میں داؤد بالکل گائے۔ ذرا چالاک نہیں۔ بہت ہی بھلا اور بہت شرمیلا، اچھی لڑکی کا قدردان ہے۔، عاشق مزاج اور جذباتی ہے۔ لڑکی کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا اور ہر لڑکی اسے قبول بھی نہیں۔‘‘
تاج دستی آئینہ نکال کر میک اپ درست کرنے لگی بولی، ’’منیجر! تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جذبات کسی کی کمزوری ہو تو ہو، میری کمزوری نہیں۔ مجھے مال ملنا چاہئے خواہ کالے چور سے ملے۔‘‘
’’فکر مت کرو یاسمین! وہ بہت بڑا سیٹھ ہے۔ بخیل نہیں۔ عقلمندی سے کام لوگی تو تمہیں اتنی دولت دے گا کہ تم نے آج تک نہ دیکھی ہو۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے اور وہ اسے کچھ نہیں کہتے۔‘‘
’’ہوں ’’
’’جوان اور صحت مند ہے۔ دولت اور بے فکری ہے۔ ۳۵ سال کی عمر ہے اس کی اور لگتا ہے پچیس سال کا لونڈا۔‘‘
’’بزنس اس کا اپنا ہے یا اس کے ماں باپ کا؟‘‘
’’اس کا اپنا بزنس ہے۔ ماں باپ کا بزنس الگ ہے۔ خاندانی ریئس ہے۔ ہے تو تاجر، لیکن نوابی ٹھاٹ ہیں، اس سے پیسوں کا مطالبہ نہ کرنا۔ وہ تمہارے وہم و گمان سے کہیں زیادہ رقم تمہارے پرس میں ڈال جایا کرے گا۔‘‘
’’یہ لوگ بڑے سیانے ہیں۔ داشتہ کو منافع کا سودا سمجھ کر پسند کرتے ہیں۔‘‘
’’کچھ بھی جانو، داؤد گرینڈ ہے۔‘‘
’’داؤد گرینڈ ہے تو میں بھی گرینڈ ہوں۔ جس قدر وہ فراخ دل ہے اسی قدر میرے مطالبات فرا خد لانہ ہوں گے۔‘‘
’’گڈ، ویری گڈ! اب تم بیرے کو لے کر کمرے میں چلی جاؤ۔ میں داؤد کو ٹیلیفون کئے دیتا ہوں۔‘‘
تاج چلی گئی۔
ہوٹل میں ادھر ادھر دیسی اور بدیسی ہپی گھوم رہے تھے۔ ان کی موجودگی کے باعث ماحول میں ڈراؤنا پن آ گیا تھا۔ یہ جانگلی، جنگل کے قانون کے پیروکار لگتے تھے۔
بیرا اسے نہایت نفیس اور آراستہ کمرے میں لے گیا۔ چھت سے بڑا قیمتی فانوس آویزاں تھا۔ موتیوں اور پھولوں کی جھالریں جگہ جگہ لٹک رہی تھیں۔ فرش پر نہایت ہی قیمتی اور خوشنما قالین بچھا تھا۔ اس میں ایڑیوں تک پاؤں دھنس جاتے۔ کچھ فرنیچر نقرئی تھا، کچھ آبنوسی پردے گلابی ریشم کے تھے۔
سیدھی غسل خانے میں گئی۔
ادھر منیجر نے داؤد کو ٹیلیفون کیا۔ تاج کی صفات اور خوبصورتی کا تذکرہ کچھ ایسے دلکش پیرائے میں کیا کہ وہ بے قرار ہوا۔ داؤد سے کہا گیا تھا کہ لڑکی تھکی ہاری ہے، آرام کرے گی۔ وہ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد آئے لیکن وہ پل بھر انتظار نہ کر سکا، اسی آن آ گیا۔
منیجر داد طلب نظروں سے دیکھتا ہی رہ گیا اور داؤد کمرہ نمبر پوچھ کر بجلی کی تیزی سے چلا گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی باتھ روم سے شاور کی آواز آ رہی تھی۔ وہ اپنے آپ میں آنے، دل کی دھڑکن معمول پر لانے اور اعتماد بحال کرنے کے لئے آئینے کے رو برو کھڑا ہو کر نائی کی ناٹ درست کرنے لگا۔ دبلا پتلا، دراز قامت صحت مند آدمی تھا، جس کے چہرے پر شفق کی لالی تھی۔
تاج کو زیادہ کپڑے کبھی اچھے نہ لگے۔ اس نے ترشے ہوئے بازوؤں کی منی شرٹ پہنی اور چست پا جامہ پہنا، ہیرے کی دو انگوٹھیاں اور نیکلس بھی زیب تن کیا۔
’’ہیلو یاسمین! ہاؤ ڈو یو ڈو؟‘‘
’’ہاؤ ڈو یو ڈو؟‘‘
تاج کی نظریں خالی پیالوں پر پڑیں جن کے ساتھ ہی وسکی کی بوتل رکھی تھی اور کھانے کی چیزیں دھری تھی۔
’’نہاؤ تو بھوک چمک اٹھتی ہے۔‘‘
’’اور پھر کھانے کا وقت بھی تو ہو چکا ہے۔‘‘
’’ہوں ’’ کہہ کر اس نے پیالوں میں شراب انڈیلی اور وہ شغل شروع کیا جس سے جوں جوں بدن سرور و مستی سے لبریز ہوتا ہے توں توں آدمی لڑکھڑانے لگتا اور شیطان رہا ہونے لگتا ہے۔
داؤد کی عادت تھی کہ جس لڑکی سے ملتا، اس کا ماضی کرید تا اور پھر اس کی شخصیت کا امیج بناتا۔ اب کے بھی اس نے یونہی کیا تو تاج نے بلا تامل اپنا کچا چٹھا کھول دیا۔ پہلے پیگ پر بولی، ’’میں آوارہ ماں کی آوارہ لڑکی ہوں۔ تم ایک کال گرل سے کیا توقع رکھتے ہو؟ اس کا ماضی ہوتا نہ مستقبل، وہ صرف حال پر گز ر اوقات کرتی ہے وہ تو بس اس لمحے پر جان دیتی ہے جو اس کے بس میں ہو۔ وہ لمحے جو اس کی گرفت سے نکل گئے یا اس کی گرفت میں آئیں گے ان سے انہیں کیا واسطہ؟ زندگی غم کھانے روگ لگانے کے لئے نہیں۔ جینے کے لئے ہے۔‘‘
دوسرے پیگ پر بولی، ’’میں اپنے ماضی کو بہت دور ایک مفلس عورت کے گھر چھوڑ آئی ہوں کیونکہ وہ دیانت داری سے کمتر کوئی شے پسند نہیں کرتی۔‘‘
تیسرے پیگ پر بولی، ’’اس گھر میں دیانت داری تھی اور گھٹن بھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا عورت گھٹن میں کیسے رہ سکتی ہے۔ میرا تو اس گھر میں دم گھٹتا تھا۔ وہ مجھے نیک بنانے پر تلی تھی۔ اگر عورت کو یوں گھٹ گھٹ کر نیکی کے خول میں چھپ چھپ کر رہنا تھا تو اس میں آزادی کی لہر کیوں بے قرار ہوتی ہے؟ کیوں جی چاہتا ہے کہ ہر بندھن توڑ ا جائے، کھل کر جیا جائے، بھر پور زندگی بسر کی جائے۔ چار دیواریاں توڑ کر، باہر نکل کر طرح طرح کے رنگ دیکھنے کی خواہش کیوں ملی ہے اسے؟
اب تو وہ بہت کھل گئی اور اس نے قہقہوں کی بوچھار بھی کر دی۔
داؤد کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے اب تک صرف دو پیگ پئے تھے لیکن وسکی سے زیادہ اسے سامنے بیٹھی ہوئی اس عورت کے دیدار کا سرور آ رہا تھا جو ہنس ہنس کر اپنے آپ کو ننگا کر رہی تھی اور بڑی بے تکلفی سے شراب پی رہی تھی۔ وہ اس کے حسن کو شراب کے نشے میں گھول گھول کر پئے جا رہا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں ۴۵ منٹ کی مسافت طے کر چکی تھیں۔ تاج خود ہی شراب انڈیلتی اور خود ہی پیالہ خالی کرتے ہی اس میں شراب انڈیل لیتی۔
چوتھے پیگ پر بولی، ’’مجھے نفرت ہے اس عورت سے جو عورت سے کمتر ہو۔ مجھے نفرت ہے ماضی سے جو گزر نے پر بھی ہم پر سوار رہنا چاہتا ہے۔ کیوں؟ یہ کم بخت پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا؟ بھیانک یادوں سے ہمارا حال کیوں برباد کرتا ہے؟‘‘
پانچویں پیگ پر بولی، ’’میں ایک شریف لڑکی تھی لیکن میں نے اسے ماضی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا اور نئے افق کا چمک دار سورج بن کے نکلی، میں کیا کرتی؟ وہ شریف لڑکی افلاس اور شرافت کی زنجیریں پہنے ہوئے تھی۔ کھنڈر میں رہتی تھی بلکہ وہ تو آپ ہی ایک کھنڈر تھی۔ نیکی کے پھٹے پرانے لباس اوڑھنے، زندگی سے کوسوں دور، حرکت و حرارت سے نا آشنا، ڈری سہمی رہتی تھی۔ مجھے اس پر ترس آتا تھا اور جس پر کسی کو ترس آئے، جسے دیکھ کر کسی کے دو آنسو ٹپکیں، مجھے اس سے نفرت ہے۔ میں نے اس معصوم، مجبور اور بیکس لڑکی کا گلا گھونٹ دیا اور اس کی بیکار لاش پر کھڑے ہو کر زور کا قہقہہ لگایا، وہ جی کر کیا کرتی؟ جسے میں نے ہلاک کیا وہ نامکمل اور ادھوری لڑکی تھی۔ میں مکمل اور بھر پور لڑکی ہوں کیونکہ میں کال گرل ہوں۔‘‘
’’اوہ یاسمین! یوں مت کہو! تم تو ماضی سے لمبے لمبے سلسلے جوڑ نے لگیں۔ میری جان! اتنی لمبی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ آج سے تم کال گرل نہیں بلکہ میری جان ہو، محبوبہ ہو، میری سب کچھ ہو۔‘‘
پھر چھٹے پیگ پر داؤد نے اسے کچھ نہ کہنے دیا۔ بلکہ کمر میں ہاتھ ڈال کر کمر ے سے باہر لے گیا۔
ہوٹل کے وسیع کمپاؤنڈ میں کاروں کا ہجوم تھا۔ داؤد اس ہجوم میں سے کار نکال لایا۔
’’یہ کار تو اب تمہاری ہوئی۔‘‘
تاج بہت مرعوب ہوئی۔ اتنی مہنگی، نئی نکور کار ایک ہی ملاقات میں اسے مل گئی۔ وہ تاڑ گئی کہ آدمی بے وقوف ہے اور وہ اس کی خواہشوں کو مہنگے داموں خریدے گا۔‘‘
تھینکس کہہ کر اسٹیئرنگ پر جا بیٹھی، داؤد سرک کر برابر کی نشست پر چلا گیا۔ جب کار اس کی ہوئی تو پھر چلانے کا حق بھی اسی کا ہوا۔ دونوں ساحل پر چلے گئے اور انہوں نے ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر اپنے جذبات انڈیل دیے۔ باتیں ہوتی رہیں، پیار ہوتا رہا۔
داؤد کو وہ بھا گئی تھی۔ وہ اسے اتنا روپیہ دینے لگا کہ وہ روپے سے بے نیاز ہو گئی۔ تاہم وہ جانتا تھا کہ روپیہ کافی نہیں۔ عورت روپے کی بھوکی ضرور ہوتی ہے لیکن اسے روپے کے انبار میں بھی دبا دو تو یہ آزاد ہونا، دوڑنا بھاگنا اور رہا ہونا چاہتی ہے۔ صرف ایک پیار کا حصار ہے جو اسے قید میں رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اسے بڑی شدت سے پیار کرنے لگا۔ وہ اس کی خواہشوں اور مرضی کے سامنے رکاوٹ نہیں بنا۔ وہ اسے پوجنے لگا۔ جب تک سامنے رہتا اسے دیکھتا رہتا، اس سے چمٹا رہتا۔
وہ بھی عادی ہو گئی۔ دونوں مل بیٹھتے تو خوشبو کے بھنور میں تیرتے۔ وہ اس کے ہاتھوں اور بدن کے لمس سے اپنے اندر ملائم ملائم اور میٹھی میٹھی آنچ محسوس کرتی۔ وہ دیر تک اس کی آغوش میں پڑی رہتی اور وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہتا، باتیں کرتا رہتا اور شراب کی مستی میں اسے خوابوں کی اس دنیا میں لے جاتا جہاں وہ حسن و عشق کی دیوی۔۔۔۔ افرودائتی بن جاتی اور اس کے خیالوں میں کلیاں بکھر جاتیں۔ وہ اپنے جذبات کی تپش سے اسے پگھلا دیتا۔ وہ خود کو ایسی لڑکی کے روپ میں دیکھتی جو قابل قدر ہو، پیار اور پرستش کے لائق ہو۔ اس کی انا کو تسکین ملی اور کمسنی ہی میں اس نے توقع سے بڑھ چڑھ کر کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی پر وہ نازاں تھی۔
اس نے ہمیشہ خود کو کال گرل کے طور پر پیش کیا اور گاہکوں نے اسے کال گرل کے طور پر قبول کیا۔ وہ ہر بار بکاؤ شے بن کر سامنے آئی۔ گاہکوں نے اس کے بدن کی مہک خریدی، اس کا بدن نوچا اور چلے گئے۔ اب ایک ایسا آدمی اس کی زندگی میں داخل ہوا جس نے اسے بکاؤ مال کی بجائے انمول دیوی مانا، اس کے بدن کی مہک کو اپنے خلوص، اپنے پیار اور اپنے جذبات کی لو دی۔ اس میں اپنی مہک شامل کی اور یوں دو زندگیوں کو دوہرا نکھار دیا، بات بدن کی آگ کی نہیں تھی، جسے جانور بھی بجھا لیتے ہیں۔ یہاں تو دل کی بات تھی۔
جب سے وہ کال گرل بنی تھی، اس کے دل کی جوالا مکھی ٹھنڈی پڑی تھی۔ کسی نے اسے جلایا بھڑکایا ہی نہیں۔ یہ کام تو صرف داؤد نے کیا۔ ظالم نے اسے اس کی جوالا مکھی میں دھکیل دیا اور خود بھی اسی میں کود گیا۔ دونوں جلنے لگے۔ ایک دوسرے کی آگ میں۔
تاج نے اپنے اندر چھپی ہوئی نئی ہستی دریافت کی اور یہ ہستی داؤد سے جا ملی۔ کال گرل تو صرف کیسری رنگ کی موٹر، کیسری رنگ کی منی شرٹ، کیسری رنگ کے جڑاؤ پرس اور کیسری رنگ کی جڑاؤ جوتی کا نام تھا۔ روپوں اور بکاؤ گوشت کا۔ داؤد سے مل کر وہ نئی شے ہو گئی اور اس کا دل ہر دم جذبات سے لبریز رہنے لگا۔ یہ تجربہ اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
اس کے بدن کو نوچنے والوں میں کچھ چیلیں نکلیں، کچھ کتے، کچھ گدھے اور کچھ گدھ نکلے۔ یہ سب زندہ لاشوں پر منڈلاتے، انہیں نوچتے اور بھوک مٹا کر اپنی راہ لیتے۔ وہ ہر بار اکیلی رہ جاتی اور پھر ہجوم اور ہنگاموں کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی خود کو تنہا پاتی۔ کچھ لمحے رہ رہ کر ایسے آتے جو اس کے دل میں چبھ چبھ جاتے۔ پھر ان کی چبھن دور کرنے کے لئے وہ وسکی کی بوتل کھول لیتی۔ دل کی ساری چبھن پیالے میں ڈبونے کی سعی کرتی لیکن چبھن وہیں کی وہیں رہتی۔ زندگی اسے ڈسنے لگی۔ زندگی ناگن بن گئی۔
اب یہ بات نہ تھی۔ کبھی گھبراتی تو اسٹور پر چلی جاتی، وہاں کی گہما گہمی میں کھو کر عجیب مسرت حاصل کرتی۔ اسٹور سینکڑوں قسم کی چیزوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہر مال بکتا اور خوب بکتا لیکن بیوٹی کا رنر پر تو ہجوم سنبھالا نہ جاتا۔ نمائشی و زیبائشی اشیا کے ساتھ ساتھ لوگ پلز اور چمڑے کے خول دھڑا دھڑ خریدتے۔ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی یہ مرغوب اشیائے صرف تھیں۔ وہ آنے جانے والوں کی صورتیں بھی دیکھتی اور ان کی باتیں بھی سنتی۔
لڑکیاں اور لڑکے بہت چھوٹی عمر میں ہی پلز کا شعور رکھتے۔ اسٹور میں تہذیبی ترقی کا یہ پہلو نمایاں تھا اور تاج کو حیران کرتا۔
اسٹور ہو، ہوٹل یا سمندر کا ساحل۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں پوری طرح داخل ہوئے۔
ایک رات دونوں جشن رقص میں شریک تھے۔ روشنیوں کے فواروں میں کھڑے چمک رہے تھے۔ تیتریاں اپنے اپنے مردوں کو لئے مستی کے مظاہرے کر رہی تھیں۔ آنکھیں شراب کے کٹورے تھیں اور بدن بے قراروں کے مظہر تھے۔ گمراہ کن خود فراموشی اور جنوں انگیز سرور میں لڑ کھڑاتے ہوئے قدم۔ زندگی انہی لڑکھڑاتے ہوئے قدموں تلے روندی جا رہی تھی اور یہاں زندگی روندی جانے ہی کے لئے تھی۔
داؤد اور تاج بھی زندگی کو اپنے قدموں کی گردش میں الجھائے ہوئے تھے کہ ایک ہپی عورت نے تاج کو جھٹکا دے کر الگ کر دیا اور بال پکڑ کر اسے لات رسید کی۔ تاج نشے میں ضرور تھی لیکن اس قدر نہیں کہ چپ چاپ پٹائی کر والے۔ اس نے جھٹ ہپی عورت کے بال پکڑ لئے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے لگی۔ دونوں گتھم گتھا ہو ئیں۔
سب شرابی تماشا دیکھنے لگے۔ تھرکتے ہوئے بدن وہیں تھم گئے۔ گردش میں آتے ہوئے پیمانے ٹھہر گئے۔ ناچتے ہوئے قدم رک گئے۔ آنکھیں ایک رخ ہو گئیں۔ داؤد آگے بڑھنے لگا تو دو ہپی اس کے راستے میں آگئے۔
’’مسٹر انہیں لڑنے دو! آپ ہی تھک ہار کر الگ ہو جائیں گی۔‘‘
’’یہ بدتمیزی ہے۔‘‘
’’تمیز کا بھی کوئی خاص خرید ار نہیں منڈی میں۔‘‘
داؤد سے نہ رہا گیا۔ وہ زبردستی آگے بڑھا تو ایک ہپی نے اسے گھونسہ جڑ دیا۔ دوسرے نے لات رسید کی۔
کسی نے پولیس کو خبر کر دی لیکن ہپی پولیس کی آمد سے قبل ہی فرار ہو گئے۔ ہوٹل والے ان سے ڈرتے اور ان کی طرفداری کرتے کیونکہ یہ بڑے ہاتھ چھوٹ تھے۔ شہر میں قتل و غارت کی وارداتیں کرتے۔ اپنی خیریت اور کاروباری مصلحتوں کے باعث منیجر ان سے ملا ہوا تھا۔ شہر کے کتنے ہی غنڈوں اور بدمعاشوں کو اس نے یار بنا رکھا تھا۔ غنڈوں کی تنظیم’’ لال جھنڈی’’ تک سے اس کے تعلقات استوار تھے۔ انہیں دیکھ کر ہوٹل کی سیکورٹی کا عملہ عمداً ادھر ادھر کھسک جاتا۔
یہ درست ہے کہ منیجر کو اس واردات کا قلق تھا۔ وہ اتنے اچھے گاہکوں کی رسوائی نہ چاہتا تھا لیکن غنڈوں کو بھی تو ناراض نہ کر سکتا تھا۔
داؤد ہپی عورت کو پہلے ہی جان چکا تھا۔ یہ وہی تو تھی جو تاج سے پہلے اس کی داشتہ تھی۔ اور اسے چھوڑ آوارہ ہپی لونڈوں کی جماعت سے جا ملی تھی۔ وہ پولیس کو اس کا اتا پتہ نہ دیتا چاہتا تھا۔ اس کے نزدیک اس واقعے کو اہمیت دینا اور اسے اچھا لنا اس کے حق میں اچھا نہ تھا کیونکہ یوں بات کے طول کھینچنے کا اندیشہ تھا۔ ایک وقتی بات تھی، جسے اس نے ماضی میں دھکیل دیا۔ لیکن تاج ایسا نہ کر سکی۔ گو اس نے ماضی سے سارے ناطے توڑ لیے تھے اور ماضی پرستی اس کا شیوہ نہ تھا، تاہم وہ اس واقعے کو ماضی میں نہ دھکیل سکی۔ داؤد نے بڑی کوشش کی کہ اس کے ساتھ وہ بھی راہ فرار حاصل کرے لیکن بات نہ بنی۔
جب کبھی اس واقعے کاتذکرہ ہوتا، تلخیاں ابھر آتیں۔ تلخ شراب تو وہ پی لیتی لیکن ان تلخیوں کو کیسے پیتی جو ہر دم اسے ڈسنے کو دوڑتیں۔ اسے دیکھ کر داؤد کامن بھی ڈول گیا۔ اب ان آنکھوں میں کانٹے جھولتے ہی رہے۔ داؤد کو بالا آخر ماننا پڑا کہ زندگی غیر معتبر ہو کر رہ گئی ہے۔ غنڈہ گردی بہت بڑی وبا ہے اور اب تو غنڈوں نے بین الا قوامی تنظیمیں بھی بنا لیں ہیں اور پورے معاشرے کا امن خطرے میں ہے۔ پہلے صرف مذہب خطرے میں تھا، اب سب کچھ خطرے میں ہے۔
دن گزرتے گئے۔ درد مدھم ہوتا گیا۔ بادل پگھلتے گئے اور مطلع صاف ہوتا گیا۔ وہ ہپی، جو اس کی پرور دہ تھی، اس کی داشتہ تھی، آج اس کی محبوبہ کی بے عزتی کر گئی لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک خراش، ایک شکن وقت کے ماتھے پردائمی نشان ڈال دیتا ہے، پھر بھی انہوں نے بہت کچھ فراموش کر دیا۔ ماضی بھولنا ضروری تھا۔ وہ کب تک ماضی میں رہتے اور خود کو زندگی کی مسرتوں سے محروم رکھتے۔
کئی مہینے گزر گئے۔ کوئی نا خوشگوار واقعہ رونما نہ ہوا۔
ایک شب وہ دونوں پلنگ پر لیٹے تھے کہ دھما ہوا۔ بڑے زور سے دروازہ کھلا اور و ہی ہپی لڑکی طوفان کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ چلا کر بولی، ’’اس چڑیل کو نکال دو! دس ہزار روپے لے کرٹلوں گی یہاں سے۔‘‘
’’حرا مزا دی چلی جا یہاں سے۔‘‘ داؤد نے چلا کر کہا۔
’’یہ حرامزادی دس ہزار روپے لے کر یہاں سے چلے جائے گی۔‘‘ ہپی لڑکی کے ہپی ساتھی نے کہا۔
’’اور دس ہزار روپے بڑی معمولی سی رقم ہے تمہارے لئے۔‘‘ ہپی لڑکی کے دوسرے ہپی ساتھی نے کہا۔
وہ لپک کر پستول نکالنے چلا کہ ہپی لڑکی کے دونوں ہپی ساتھیوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا، اسے پیٹنے لگے۔ انہوں نے اس کے پیٹ میں خوب گھونسے مارے۔ ایک ہپی نے اپنی ٹانگ سے بندھا چھوٹا ڈنڈا کھینچا اور لگا بے دھڑک داؤد پر چلانے، اسے شدید ظاہری اور مخفی چوٹیں آئیں۔
’’ہم تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ دس ہزار وصول کر کے رہیں گے۔ آخر روزی کی لڑکی کا کیا بنے گا؟ وہ تمہاری بھی تو لڑکی ہے۔‘‘ ہپی نے کہا۔
’’میری کوئی لڑکی نہیں۔‘‘
’’اگر تم اب بھی راہ راست پر آ جاؤ اور دس ہزار روپے ہمارے حوالے کرو تو ہم تمہارا پیچھا چھوڑ دیں گے۔‘‘
’’میں تمہیں ایک دھیلہ بھی نہیں دوں گا۔‘‘
’’باہر سے کچھ آوازیں آنے لگیں۔ ہپی چمپت ہو گئے اور پولیس اب کے بھی دیر سے پہنچی تاہم داؤد نے ہمت کر کے روزی اور اس کے ساتھیوں کا حال سنا دیا۔ چوٹیں تو داؤد کو لگی تھیں لیکن نڈھال تاج ہوئی۔
داؤد ہسپتال میں داخل ہوا اور تاج نے ہوٹل بدل لیا۔
وہ بیشتر وقت ہسپتال میں گزارتی۔ داؤد کو پیٹ میں جو ضربات آئیں وہ خطرناک تھیں۔ اس کی حالت بگڑتی گئی۔ نازک سے نازک تر ہوتی گئی۔ اسی کے ساتھ اس کی حالت بھی بگڑ گئی اور ایک دن وہ اتنی نڈھال ہوئی کہ غش ہی کھا گئی۔ نرسیں اسے ہوش میں لائیں۔ داؤد کی وجہ سے سخت پریشان تھی۔
داؤد کی حالت اتنی خراب ہوئی کہ ڈاکٹر کے سوا سبھی مایوس ہوئے۔ آخر وہ گھڑی بھی آئی جس نے ڈاکٹر کو بھی مایوس کر دیا۔ داؤد مر گیا۔
تاج اس شدت سے روئی جیسے ماضی کی ساری تلخیاں فقط ایک لفظ، نقطے پر سمٹ آئی ہوں اور مستقبل کے بارے میں سارے خواب کھنڈر ہو گئے ہوں۔
وہ شکستہ دلی سے نئے ہوٹل میں آئی۔ پرس کھول کر کنجی نکالی تو پتہ چلا کہ کمرہ کھلا ہے۔ جلدی میں کمرہ مقفل کرنا ہی بھول گئی تھی۔ سنگار میز پر وہی ہپی بیٹھی میک اپ کر رہی تھی، جس نے اسے پرانے ہوٹل میں رسوا کیا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی گھبرائی اور اس کے قدم جہاں تھے وہیں تھم گئے۔ یوں لگا جیسے زمین میں سیخ گڑ گئی ہو۔
ہپی لڑکی اکیلی تھی۔ قاہر انہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی، ’’مس! داؤد کی لڑکی کے لئے دس ہزار روپے چاہئیں۔ کوڑی کم نہیں۔ اگر داؤد رقم نہیں دیتا تو تم اس سے لے کر دو!‘‘
’’داؤد اب اس دنیا میں نہیں۔‘‘ نمناک آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بولی۔
’’داؤد مر گیا؟‘‘
’’ہاں تمہارے آدمیوں نے اسے پیٹ میں گھونسے اور ڈنڈے جو مارے تھے۔‘‘
یہ سنتے ہی ہپی لڑکی گھبرائی اور اس کا رنگ فق ہو گیا۔ باہر جانے کے لئے تیزی سے دروازے کی جانب آئی۔ پلک جھپکتے ہی تاج کے تن بدن میں غصے اور نفرت کی قیامت خیز لہر دوڑ گئی۔ اس نے پوری قوت سے اسے دھکا دیا۔ وہ کمرے کے اندر جا گری۔ تاج نے اسی آن باہر سے کمرہ مقفل کر دیا۔
تاج نے بآواز بلند کہا، ’’یہ داؤد کی قاتلہ ہے۔‘‘
’’اس نے مروا دیا ہے اسے لوگو!‘‘
مقفل کمرے کے باہر ہجوم ہو گیا۔ لوگ کمروں سے باہر نکل آئے اور ہوٹل کے ملازم بھی آکر جمع ہو گئے۔
پولیس کو خبر کی گئی۔ پولیس آگئی اور ہپی لڑکی کو پکڑ کر لے گئی۔
تاج اب پٹری سے اکھڑ چکی تھی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پٹری اکھڑ چکی تھی۔ اس نے یاس و حسرت سے کمرے پر نظر دوڑائی۔ جہاں سے اسے یادوں کی بکھری ہوئی خوشبو آئی۔ داؤد کی دی ہوئی ایک ایک نشانی کو چوما اور سنبھال کر رکھا۔ سامان باندھا اور کمرہ مقفل کر کے باہر نکلی۔ کار کے قریب پہنچ کر نڈھال ہو گئی۔ کار میں بیٹھی اور قبرستان گئی۔ داؤد کی قبر کے تازہ کتبے سے چمٹ گئی۔
دیر تک وہاں بیٹھی رہی۔ اس کے دماغ میں خیالوں کے بھنور گھومتے رہے۔ وہ سوچتی رہی اور اپنے ماضی کی فلم کو دیکھتی رہی۔ سوچ کا دھارا بہتا رہا۔ بالآخرر وہ اٹھی۔ کتبے کو آخر ی بوسہ دے کر چلی گئی۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنی مہلک زندگی کو ترک کر دے گی۔ اپنی آزاد زندگی کو ایک بار پھر اسی حصار کو سونپ دے گی جسے وہ پانچ سال پہلے توڑ آئی تھی۔ کیونکہ وہاں امن تھا، سکون تھا، سلامتی تھی، وہ خالہ کے پاس چلی جائے گی، شاندار زنانہ اسٹور کھولے گی اور خالہ کے ساتھ مل کر اسے چلائے گی۔ کوئی کام کرے گی۔‘‘
لاہور آئی تو نقشہ بدلا تھا۔ گرد و پیش اس کے لیے حیرت کدہ تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.