ریل گاڑی میں سفر کرنے کا کچھ الگ ہی مزہ ہوتا ہے اور ہر سفر میں کوئی نہ کوئی دلچسپ تجربہ ضرور ہوتا ہے ۔ میں نے جب جب ریل گاڑی سے سفر کیا کوئی نہ کوئی دلچسپ واقعہ ضرور پیش آیا۔
آج سے دو سال قبل میں تھری اے۔ سی۔ میں سفر کر رہا تھا۔ میرے کیبن میں ایک پریوار بھی تھا۔ اس پریوار میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا جس کی عمر تقریباً دس سال تھی۔ لیکن دیکھنے میں پانچ سال کا ہی لگ رہا تھا۔ وہ بالکل پتلا دبلا اور کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی ماں اپنے بیٹے کے لیے مختلف قسم کے لذیذ کھانے تیار کرکے لائی تھی۔ مگر بیٹا تھا کہ کچھ کھانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ابھی ٹرین تھوڑی دور ہی چلی تھی کہ ایک صاحب کیبن میں آکر بیٹھ گئے۔ کسی نے کچھ پوچھا نہیں اور انہیں بیٹھنے کے لیے جگہ دے دی۔ میری اوپر والی سیٹ تھی۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس شخص کا یوں آکر بیٹھ جانا کچھ عجیب سا لگا۔ میں نے پوچھا، ''بھئی! آپ کا کون سا ہے؟'' اس نے بڑی نرمی سے کہا، ''دراصل مجھے ایک دو اسٹیشن ہی جانا ہے۔ اگر اعتراض نہ ہو تو میں تھوڑی دیر کے لیے زحمت دوں گا۔ بھلا مجھے کیا اعتراض ہوتا جس کے برتھ پر وہ صاحب براجمان تھے اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس دوران اس شخص نے بچے سے دوستی کر لی اور اس کے والدین سے بلا تکلف باتیں کرنے لگا۔ ٹرین اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی اور اسی رفتار سے ماں اپنے بیٹے کو کچھ نا کچھ کھلانے کے لیے خوشامدیں کر رہی تھی۔ لیکن بیٹے کو سوائے چپس کے کچھ اور کھانا گوارہ ہی نہیں تھا۔ جب بچے نے انواع اقسام کے کھانوں سے انکار کر دیا تو ماں نے گاجر کا حلوہ نکالا۔ کیا حلوہ تھا جناب! اس کی خوشبو سے میرے منہ میں بھی پانی آگیا۔ لیکن بچے پر اس خوشبو کا بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ ماں نے جھنجھلاتے ہوئے کہا، ''جلدی سے حلوہ کھا لو ورنہ سامنے والے انکل کو دے دوں گی۔ ’’بچے نے اس دھمکی کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس نے صرف ایک بار نظریں گھما کر حلوے کی طرف دیکھا اور پھر حسب معمول چپس کھانے میں مصروف ہو گیا۔ ماں نے پانچویں بار پھر کوشش کی اور بڑے پیار سے بولی، ’’میرا پیارا بیٹا حلوہ کھائے گا۔ میرا منہ دیکھو میں آخری بار کہہ رہی ہوں، اگر اس بار تم نے حلوہ نہیں کھایا تو میں واقعی سارا کا سارا اس انکل کو دے دوں گی!‘‘ وہ صاحب بہت پہلے سے حلوے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ان کا بس چلتا تو کب کا چٹ کر جاتے۔ اب ان سے رہا نہ گیا۔ وہ بڑے مؤدبانہ انداز میں بچے کی ماں سے مخاطب ہوئے اور بولے،’’بہن جی، ذرا جلدی فیصلہ کر لیں۔ مجھے دو اسٹیشن پہلے ہی اترنا تھا مگر اس حلوے کی امید میں دو اسٹیشن آگے آ گیا ہوں،۔‘‘
یہ سنتے ہی میں بے ساختہ ہنس پڑا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.