خوشبودار عورتیں
شوہر کی وفات کے بعد وہ سمٹ سکڑ کر رہ گئی۔ وہ لچی لفنگی تو نہیں تھی، اس میں آوارا پن کی عادت بھی نہیں تھی لیکن شوہر سے بڑی بہاریں تھیں۔ سلامتی کے ساتھ ساتھ آزادی کا تصور قائم تھا۔ سر پر ہر دم ایسی چھاؤں رہتی جس میں فرحت اور مسرت، تسکین اور تفریح کا سامان موجود تھا۔
مہکتی چہکتی ہوئی ایک پھلواری تھی، جس میں آزادی سے گھومتی پھرتی، ہنستی کھیلتی اور قہقہے لگاتی۔ سہاگن تھی تو کھل کر زندگی بسر کرتی۔ دوسری عورتوں کی طرح لپ ا سٹک لگاتی۔ سرخی پوڈر اور کریم استعمال کرتی۔ ریشم سا بدن تھا، تو کپڑے بھی ریشمی ہی پہنتی۔ شریف نے کبھی اسے کھردرا کپڑا نہ پہننے دیا۔ وہ ہمیشہ اسے سجا سنوار کر رکھتا۔ وہ چاہتا کہ نجم النہار ہر وقت پہلے دن کی دلہن بنی رہے۔ باسی پھول اور باسی بدن اسے اچھے نہ لگتے۔
محلے کی کئی عورتیں نجم النہار کی اس ادا سے جلتیں۔ منہ جوڑ کر بیٹھتیں اور اس کے بارے میں بات چیت کرتیں۔ چولہوں پر چڑھی ہوئی ہانڈیاں جل جاتیں لیکن ان کی باتیں بند ہونے میں نہ آتیں۔
بن سنور کر گھر سے باہر نکلتی تو اڑوس پڑوس کی بولنے والی مشینیں چالو ہو جاتیں۔ ایک دن وہ گلابی ساڑی پہن کر نکلی تو اس کی پھبن دیکھ کر راجاں اور فیروزاں کے دل میں چنگاریاں اچٹنے لگیں۔
’’حرام کی کمائی ہے گھر والے کی، روز نئی پوشاک پہن کر نکلتی ہے۔‘‘ راجاں نے کہا۔
’’جس مرد کی تنخواہ کل دو سو روپے ہو، اس کی گھر والی اتنے بھاری بھاری جوڑے کیسے بنا سکتی ہے۔‘‘ فیروزاں بولی۔
’’ابھی پچھلی اتوار کو ہوا لگانے کو رسی پر کپڑے پھیلائے تھے تو میں انہیں ٹھیک سے گن بھی نہ سکی۔‘‘
’’اس کا تو بس ایک ہی کام ہے۔ گھر والا جاتا ہے تو یہ بازار کا رخ کرتی ہے۔ لوٹتی ہے تو ہاتھ میں کپڑوں کے لفافے اور جوتیوں کے ڈبے ہوتے ہیں۔‘‘
’’مہترانی کو اس کے یہاں سے اتنی اترن مل جاتی ہے کہ کسی دوسرے گھر سے کچھ لینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔‘‘
’’ہمارے نئے کپڑوں سے تو اس کی اترن ہی اچھی ہوتی ہے۔‘‘
’’میں پوچھتی ہوں، اتنا ڈھیر سارا پیسہ اس کے پاس آتا کہاں سے ہے۔‘‘
’’ارے کہاں سے آئے گا، لوگ دیتے ہیں اس کے گھر والے کو۔ اور کوئی آسمان سے تھوڑی ٹپکتا ہے۔‘‘
’’کتنا کتنا روپیہ لوگو ں کے پاس ہے جو اسے ڈھیر سارا دے دیتے ہیں۔‘‘
’’دیکھ لے ایک یہ ہے کہ اس کے پاس روپے کی ٹوٹ نہیں اور ایک ہم ہیں کہ پائی پائی کو ترس رہے ہیں۔‘‘
’’میں نے تو راجاں! داتا کی چوکی بھی بھر دیکھی۔ منت مانگی۔ مزار پر پھول چڑھائے، دیے جلائے، ننگے پاؤں چکر لگائے لیکن وہی حال رہا اپنا۔‘‘
’’داتا کی چوکی تو میں بھی بھرتی رہتی ہوں۔ اکیس اکیس دن اور چالیس چالیس دن کی حاضری بھی بھری ہے میں نے لیکن بات نہیں بنی۔‘‘
راجاں اور فیروزاں صرف باتیں کرتی رہیں اور بانو بازار میں دکان گھومتی پھرتی رہی، چیزیں دیکھتی رہی اور پھر ڈھیر سارا سامان لے کر واپس آئی۔
شریف پی ڈبلیو ڈی میں سپروائزر تھا۔ ٹھیکیداروں کے کام کا نگراں تھا لیکن ٹھیکیدار اسے نگرانی سے بے نیاز کر دیتے۔ وہ اسے اتنا پیسہ دے دیتے کہ وہ اسی کے ہیر پھیر میں لگا رہتا۔ پیسے سے ہٹ کر کام کی طرف اس کا دھیان بھول کر نہ جاتا اور پھر اس نے دیکھا کہ کام کے بغیر تنخواہ بھی ملتی ہے اور ٹھیکیدار کا پیسہ بھی۔
در اصل بات یوں ہوئی کہ شروع شروع میں شریف کام پر گیا تو اس نے بڑی عمدگی سے نگرانی کا کام کیا۔ نیا نیا آدمی تھا، ٹھیکیدار نے ڈھیل دی اور لحاظ کیا لیکن جب دیکھا کہ اس کی نگرانی میں سنجیدگی کا عنصر بڑھتا چلا جا رہا ہے تو وہ شریف کے دفتر میں آیا۔ کمرہ بند کر کے اس نے میز پر دس ہزار کے نوٹ رکھ دیے۔ شریف نوٹ دیکھ کر بھڑک اٹھا اور اس نے تیکھے لہجے میں کہا، ’’ٹھیکیدار صاحب، میں بکاؤ شے نہیں۔ سرکاری ملازم ہوں۔ معقول تنخواہ پاتا ہوں۔‘‘
ٹھیکیدار ہنس پڑا اور بڑے پر اعتماد لہجے میں بولا، ’’شریف میاں! آپ نئے آدمی ہیں اور ناتجربہ کار ہیں۔ ابھی آپ نے کچھ نہیں دیکھا۔ جس سرکار کا آپ نام لیتے ہیں وہ ہم لوگوں کی جیب میں ہے۔ آپ کو ہر حال میں ہم سے تعاون کرنا ہوگا اور ہمیں آ پ سے کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر دھندا نہیں چل سکتا۔‘‘
اس کے بعد اس نے یہ بھی سمجھا دیا کہ جو افسر اس سے تعاون نہیں کرتا، وہ اسے سیٹ پر نہیں رہنے دیتا۔ جھو ٹے مقدمے میں الجھا دیتا ہے، برطرف کروا دیتا ہے۔ وہ نیچے سے او پر تک کسی افسر کو اپنی منشا کے خلاف کچھ نہیں کرنے دیتا۔
’’شریف میاں! تمہارے سب سے بڑے افسر کی تین لڑکیوں کا جہیز میں نے دیا تھا۔ میرے کہنے پر چلیں۔ میرے تجربے اور میرے رسوخ سے فائدہ اٹھائیں۔ اس میں بہتری ہے ہم دونوں کی۔‘‘
اپنے ہم کاروں اور افسران بالا کے حالات جان کر اسے افسوس ہوا لیکن پھر خوش ہوا کہ جس حمام میں سبھی ننگے ہوں، اس میں وہ بھی ننگا ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ اس نے فورا ہی ننگا ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ٹھیکیدار نے اچھی طرح غسل صحت کر دیا تھا۔
شریف نے نوٹ اٹھا کر جیب میں ڈال لئے اور ٹھیکیدار کا شکریہ ادا کیا۔
شریف نے نجم النہار کو رانی بنا دیا اور اسے سونے چاندی سے لاد دیا۔ وہ ٹھیکیدار کے روپے سے بیوی کو سنوار تا نہارتا رہا۔
شروع شروع میں میاں بیوی کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے۔ اس پورے علاقے میں کرائے کے چھوٹے چھوٹے مکان تھے لیکن پھر یہ مکان بکنے لگے۔ شریف نے ایک مکان خرید لیا اور اسے گرا کر نیا عالیشان مکان بنا لیا۔ محلے میں کئی بوسیدہ مکان گرے اور نئے عالیشان مکان تعمیر ہوئے۔ پرانی بستی نے نئی بستی کو جگہ دے دی۔ اس میں سرکار کے نوکر وں کی او پر والی کمائی کے علاوہ سمندر پار جانے والے شہزادوں کا بھی ہاتھ تھا۔ راجاں اور فیروزاں کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ بھی نیا مکان بنا لیتیں۔ نیا تو در کنار، وہ پرانے مکان کی مرمت بھی نہ کروا سکیں۔
راجاں اور فیروزاں دونوں پڑوسنیں تھیں۔ فیروزاں بیوہ ہو چکی تھی اور راجاں کے پڑوس میں رہتی تھی۔ رحیم بخش کرائے کا گھوڑا تانگہ چلاتا۔ سات روپے مالک کو دیتا۔ چار پانچ بچ رہتے۔ ان میں سے ایک دو دن پھر آپ کھا لیتا۔ کچھ گھوڑے کو کھلاتا، باقی راجاں کے حوالے کر دیتا اور راجاں اس تھوڑی سی رقم سے بس اتنا سامان کرتی جس سے آدمی زندہ رہ سکے۔ اچھا پہناوا اور اچھا کھانا اس کے نصیب میں نہ تھا۔ اس لئے وہ نجم النہار کو دیکھ کر جلتیں اور یہی سوچتیں کہ کس طرح ان کے بھی دن بدلیں اور وہ بھی ڈھیر ڈھیر سارے روپے کی شکل دیکھیں۔
ایک دن مائی مٹھاں آئی تو راجاں نے اسے حلوہ بنا کر کھلا یا۔ مائی مٹھاں بڑی سیانی اور جہاں دیدہ عورت تھی۔ گھر گھر آنا جانا تھا، ہر گھر کا بھید جانتی تھی۔ راجاں نے سوچا کہ مائی مٹھاں کو بٹھاؤ اور اس سے صلاح مشورہ کرو، شاید کوئی کار آمد بات بتا دے۔ تازہ حقہ بھر کے اس نے مائی مٹھاں کے سامنے رکھ دیا۔ اب جو مائی مٹھاں مزے میں آئی تو آپ ہی بولی، ’’تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔‘‘
راجاں تاڑ گئی کہ مائی مٹھاں آپ ہی اس کے راستے پر چل پڑی ہے۔ استادی لڑاتے ہوئے بولی، ’’ٹھیک تو ہے ہمارا حال اماں۔‘‘
’’کیا ٹھیک ہے۔ دیسی گھی نصیب نہیں تمہیں۔ ڈالڈا میں حلوہ بنا کر دیا ہے۔‘‘
’’ہاں یوں کہو۔ اماں! یہ بھی بہت ہے ورنہ غریبوں کے گھر میں گھی نہیں تیل چلتا ہے۔‘‘
’’ہونہہ! تیل چلتا ہے۔ تیل سے تو بدن کی مالش کرتے ہیں۔ کھانے میں تو گھی ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’اماں! تم تو بڑے لوگوں کی بات کرتی ہو۔‘‘
آج کل ہر کوئی بڑا بن رہا ہے۔ دیکھا نہیں بشیراں تمہارے سامنے اس محلے میں آئی تھی۔ تیلیوں والا مکان کرائے پر لیا تھا اور اب اتنا بڑا مکان بنا لیا ہے۔ شہزادیوں کی طرح رہتی ہے۔ کرنے والے کیا کچھ نہیں کر لیتے۔‘‘
’’کر تو لیتے ہیں لیکن ساری بات تو مرد کی ہوتی ہے۔ اس کا مرد کمایئوں والا ہے۔ جانے کتنے کتنے کام کرتا ہے اکیلا، لیکن ہمارا مرد تو نکھٹو ہے۔ گھوڑا جوتتا ہے اور بس۔‘‘
’’وہ نکھٹو کیوں ہے؟ اچھا خاصا گھوڑا تانگہ چلاتا ہے۔‘‘
’’چلاتا ہے تو کون سے سو سینکڑے لے کر شام کو گھر لوٹتا ہے۔ اس کے پان سات روپے سے کیا بنتا ہے۔‘‘
’’تانگے والا چاہے تو سو سینکڑے بھی کمالے۔ بات پھر وہی آتی ہے۔ کرنے والا ہو تو سب کچھ کر لیتا ہے۔‘‘
’’ہمارا مرد تو یہی کچھ کر سکتا ہے۔ زیادہ کی اس سے امید نہیں۔‘‘
مائی مٹھاں دیر تک حقہ گڑ گڑاتی اور راجاں سے باتیں کرتی رہی۔ راجاں کرید کرید کر پوچھتی رہی۔ مائی مٹھاں طریقے طریقے سے سب کچھ بتاتی رہی۔ آخر جاتے جاتے اس نے کہا،
’’راجاں! عورت بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔ وہ مرد کو اچھے برے راستے پر لگاتی ہے۔ وہی مرد سے سارے کام لیتی ہے۔ وہی مرد کو اٹھاتی ہے۔ اگر عورت گھر چھوڑ میکے جا بیٹھے تو مرد کی آنکھیں کھل جائیں۔ مرد کو تو یہی بتانا چائیے کہ وہ ڈھیر ساری کمائی نہیں کرے گا تو عورت کو رکھ نہیں سکے گا۔ مرد کو فکر ڈالتی رہے عورت تو وہ ٹھیک رہتا ہے۔‘‘
راجاں کو یہ آخری نسخہ بہت پسند آیا۔ مٹھاں چلی گئی تو وہ اور فیروزاں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور سو چنے لگیں کہ رحیم بخش کو کیسے گرما یا اور بڑی کمائی پر لگا یا جائے۔ سوچ سوچ کر انہوں نے ایک پلان تیار کیا۔ اس پر عمل شروع کیا۔
راجاں گھر سے نکلی اور نجم النہار کے یہاں پہنچی۔ نجم النہار اس غیر متوقع آمد پر حیران ہوئی۔ آج تک راجاں اس کے یہاں نہ آئی تھی اور زبان پر کبھی اس کے کلمہ خیر نہ لائی تھی۔ مائی مٹھاں کے ذریعہ اسے محلے کی ڈائری پہنچتی رہتی اور پتہ چلتا رہتا کہ اس کے بارے میں کون کیا کہتی اور کیا خیال رکھتی ہے۔ وہ راجاں سے بد ظن تھی تاہم اس کی آمد سے نا خوش نہیں تھی۔
’’کیسے آنا ہوا راجاں۔‘‘
راجاں جو نجم الناہر کے سجیلے مکان کی بناوٹ اور آرائشی سامان دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہی تھی، چونک کر بولی، ’’ایک ضرورت سے آئی ہوں بہن۔‘‘
’’کس ضرورت سے آئی ہو، میں تمہارے کس کام آ سکتی ہوں۔‘‘
’’مجھے بیس روپے چاہئیں۔ اگلے جمعہ کو لوٹا دوں گی۔‘‘
’’یہ کون سی ایسی بات ہے۔ ابھی لو۔‘‘
نجم النہار اندر والے کمرے میں چلی گئی اور راجاں مرعوب ہو کر رہ گئی۔ نجم النہار نے گھر میں ایسے کپڑے پہن رکھے تھے کہ راجاں کو اپنی شادی کے دن بھی نصیب نہ ہوئے۔ اسے تو کپڑوں کے بس دو چار ہی پرانے نام آتے جو اس کے ہوش سے بھی پہلے سے بازار میں چل رہے تھے۔ وہی دل کی پیاس، آنکھ کا نشہ، تیری مرضی، مایا مچھندر۔ یہ نام تھیٹر میں چلنے والے کھیلوں کے تھے اور اب فلموں کے نام پر کپڑے بننے لگے تھے۔ جب کبھی وہ بازار جاتی تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔ ایسے ایسے نفیس اور آنکھوں میں چکا چوند لانے والے کپڑے دیکھنے میں آتے، جن سے وہ حسین تر خواب دیکھ سکتی اور تصور کی دنیا سجا سکتی۔ چھوٹی سے چھوٹی دکان بھی ون سونے کپڑوں سے بھری رہتی۔ وہاں سے واپسی پر وہ اپنی بے کسی اور مفلسی کا ہولناک احساس لے کر لوٹتی۔
نجم النہار کا مکان کیا تھا، جادو گھر تھا۔ اونچی اونچی دیواریں روغن سے چمک رہی تھیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر ریشم کے پردے آویزاں تھے۔ جگہ جگہ بڑی بڑی تصویریں لٹک رہی تھی۔ اس کی اور اس کے میاں کی قد آدم تصویر سب سے نمایاں جگہ لگی تھی۔ فرش پر قالین بچھا تھا۔ سنگھار میز تھی۔ شیشوں والی الماری تھی۔ ہر چیز اجلی اور خوشنما تھی۔ اسے دیکھ کر اسے اپنے او پر ترس آگیا۔ اس کا رونی صورت والا مکان کیا حیثیت رکھتا تھا اور نجم النہار کے مقابل خود وہ کیا حیثیت رکھتی تھی؟
نجم النہار بیس کے بجائے پچاس کا نوٹ لائی اور اس نے راجاں کو تھما تے ہوئے کہا، ’’میرے پاس ٹوٹے نوٹ نہیں نکلے۔ پچاس کا نوٹ ہے، سو یہی لے جاؤ۔‘‘
’’نا اڑیئے! پچاس میں نہیں لیتی۔ مجھ سے یہ رقم نہ لوٹائی جائے گی۔‘‘
’’تمہیں لوٹانے کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘
’’وہ کیوں۔‘‘
’’کیوں کی بات نہیں، تمہیں ضرورت ہے، میں نے ضرورت پوری کر دی۔ انسان انسان کے کام آتا ہے۔‘‘
’’لوگ تو پائی پائی، پیسے پیسے پر دم دیتے ہیں اور رتمہاری نظر میں پچاس روپے کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔‘‘
’’راجاں! اللہ کا فضل ہے، روپے کی میرے یہاں کوئی کمی نہیں۔‘‘
اور وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ کیسا اللہ کا فضل ہے کہ ایک کے یہاں ہے اور دوسرے کے یہاں نہیں ہے؟ وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ بات اللہ کے فضل کی نہیں، مرد کی تھی۔ اس کا مرد زیادہ کماتا تھا اور راجاں کا مرد کم کماتا تھا۔ مرد اچھا ہو، ٹھیک سے کمائی کرے توعورت راج کر سکتی ہے۔ اس نے نجم النہار اور اس کے مکان سے توجہ ہٹائی اور رحیم بخش پر مرکوز کی، جو اصل خرابی کی جڑ تھا اور جسے سیدھی راہ پر لانے کی ضرورت تھی۔
گھر جا کر اس نے مرغ کٹوایا، بنوایا، ہمسائی کو بلوایا۔ اس سے مرغ قورمہ اور پلاؤ پکوایا کیوں کہ اس کا ہاتھ صرف دال روٹی پر صاف تھا، مرغ اور پلاؤ پر نہ تھا۔ شام کو جب رحیم بخش گھر آیا تو اس نے نقشہ ہی کچھ اور پایا۔ گھر کا کونہ کونہ صاف تھا۔ کچی زمین پر وہی میلی کچیلی چٹائی پڑی تھی لیکن اس کے او پر چادر بھی بچھی ہوئی تھی۔ رحیم بخش ہاتھ منہ دھو کر حسب معمول بورے پر آبیٹھا، جس پر چادر پڑی تھی۔ راجاں نے جھٹ پٹ مرغ قورمہ، پلاؤ اور فیرنی کی ٹھوٹھیاں چن دیں۔ رحیم بخش کی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس نے تو کسی کی شادی پر بھی یہ نعمتیں نہ کھائی تھیں۔ جس روز دو چار روپے فالتو کما لیتا، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر زردہ پلاؤ کھا لیتا لیکن یہاں تو مرغ پلاؤ، قورمہ اور فیرنی سامنے رکھی تھی۔
رحیم بخش ہنسا اور مرغ کی ٹانگ کھینچتے ہوئے بولا، ’’یہ سب کچھ کیا ہے۔‘‘
’’پہلے کھانا کھا لے پھر تجھے بتاؤں گی۔‘‘ راجاں نے کہا۔ رحیم بخش بھوکا ضرور تھا لیکن کھانا بھوک سے کہیں زیادہ کھایا۔ دو پیالے قورمے، دو پلیٹ پلاؤ اور چار ٹھوٹی فیرنی سے اس کی نیت بھر گئی۔
’’لے پھر اب بتا، کیا قصہ ہے۔‘‘
’’قصہ وسہ کچھ نہیں۔ دال روٹی کھا کھا کے تیری تندرستی بھی بگڑ گئی ہے اور میری بھی۔ اچھا کھانا ملتا نہیں، تندرستی رہتی نہیں۔‘‘
’’بات تو تیری ٹھیک ہے لیکن یہ تو سب قسمت کے سودے ہیں۔ کسی کے لیکھ میں دال روٹی ہے اور کسی کے لیکھ میں مرغ پلاؤ۔‘‘
’’بات لیکھ کی نہیں۔ بات ہمت کی ہے، عقل کی ہے، نیت کی ہے۔ تو اگر آج نیت کر لے کہ بیس روپے سے کم گھر نہیں لائے گا تو تجھے بیس روپے ضرور ملیں گے۔ یہ میرا ایمان ہے۔‘‘
’’بھلیے لو کے بیس روپے تو کیا، پچاس روپے بھی آ سکتے ہیں لیکن ایمان بیچ کر۔‘‘
’’رحیم بخش! بے شک ایمان بیچ دے۔ مجھ سے اب اتنی تکلیف نہیں جھیلی جاتی اور نہ تجھے اس حال میں دیکھا جاتا ہے۔ اتنی عمر گزار دی تونے۔ تیرے تن کو اجلا کپڑا تک نصیب نہ ہوا، حلیہ دیکھ ذرا اپنا! '
اور رحیم بخش نے اپنا حلیہ دیکھا۔ کپڑے میلے ہی نہیں بلکہ ادھڑے ہوئے تھے۔ قمیض اور کفوں کے بٹن ٹوٹے تو ان کی جگہ نئے بٹن نہ لگے۔ داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ سر کے بال خشک ہو رہے تھے۔ جوتی ٹوٹ رہی تھی۔ یہ حالت کسی طور قابل رشک نہ تھی اور پھر اس لائق نہ تھی کہ وہ مرغ پلاؤ کھا سکتا۔ اپنے کھنڈر کا جائزہ لینے کے بعد وہ زور سے ہنسا۔
اس پر راجاں ہنسی اور بولی، ’’بات ہنسی میں گنوا نے والی نہیں۔ کمائی کر کمائی۔ ساری دنیا عیش کر رہی اور ہم ہی رہ گئے ہیں برے حال کے لئے۔ بیس روپے روز لایا کر، نہیں تو میں چلی جاؤں گی میکے اپنے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
رحیم بخش کو دیکھتے ہی دولے نے کہا، ’’آیا ر، کیا حال ہے تیرا۔‘‘
’’حال تیرے سامنے ہے، پوچھتا کیا ہے۔‘‘
جامو نے تھری کیسل کا سگریٹ نکالا اور رحیم بخش کے آگے کرتے ہوئے کہا، ’’آج ایک ٹیڈی کڑی اپنا بیگ ہی بھول گئی تانگے میں۔ کھولا تو تھری کیسل کے دو پیکٹ ملے اس میں سے۔‘‘
’’اور کیا تھا اس میں ماں کے یار۔‘‘
’’تین نوٹ پچاس پچاس کے، سرخی پوڈر لپ اسٹک، چمڑوں والی ڈبیہ اور وسکی کا ایک پوا۔‘‘
’’ترے تو مزے ہو گئے۔ واہ رے جامو۔‘‘
’’رحم بشکا! یہ کام تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک دن گلبرگ سے ایک سواری اٹھائی میں نے۔ ادھیڑعمر کی عورت تھی۔ شکل صورت کی چنگی تھی۔ ایک ایک سنیما کا چکر لگوا یا اس نے میکلوڈ روڈ ساری پھرائی۔ کام نہیں بنا تو بڑی نا امید ہوئی۔ مجھے دل کا بھید بھی نہیں بتاتی تھی۔ اخیر میں نے آپ ہی پوچھ لیا۔ سرکاراں! کیسا مال چاہئے، آپ جناب کو! آنکھیں پھاڑ کر اس نے میری طرف دیکھا اور پھر ہنس دی۔ بولی، مال تو تو بھی ٹھیک ہے لیکن ایک اور گل منڈا مل جائے تو بات بنے۔ میں نے ذرا سوچا، جھٹ یاد آگیا پھوپھی کریم بخش کا ذیرہ۔ اس کے پاس ایک سے ایک بڑھ کے گل منڈا ہوتا ہے۔ میں نے وہاں سے بڑا بانکا سا کھسرا لیا اور اس کے ساتھ واپس بیگم صاحب کی کوٹھی پر گیا۔
’’کھسرا بھی کیسی نعمت ہے۔ دہرے دہرے کاج سنوارتا ہے۔‘‘
’’کیا کہنے کھسرے کے۔ رنڈی اور عورت کے بعد اسی کا راج ہے۔‘‘
بس پھر رحیم بشکا! کیا بتاؤں تجھے۔ ہم اس کے یہاں گئے، کوٹھی کیا تھی شاہی محل تھا۔ المار یوں میں ولیتی وسکیوں کی بوتلیں تھیں۔ ولیتی سگریٹ تھے۔ عطر تھے۔ دنیا جہان کا پھل تھا۔ بس جی! ہم نے کبڈی کھیلی۔ خدا کی قسم! وہ کوئی عورت تھی۔ ہائے، کیا جسم پایا تھا اس نے، وہ ہمارے ٹیٹے نہیں چڑھتی تھی۔ چھلانگیں مارتی تھی۔ دوڑیں لگاتی تھی۔ لڑتی کھیلتی تھی اور پھر گالیاں ایسی بکتی تھی کہ میری تیری عورت بک نہ سکیں۔ ہمیں تو اس نے ہفا ہی دیا۔
’’بات ساری جان کی ہے۔‘‘
’’جان سی جان تھی اس میں۔ ہم دو بڑے جوان تھے، پر اس کے سامنے کسی کھیت کی مولی تھے۔ بڑی منہ زور عورت تھی۔ رحیم بشکا! اس نے بتایا کہ اپنی کوٹھی کے تالاب میں صبح شام دو دو گھنٹے تیرتی ہے۔‘‘
’’جامو یار! وہ عورت تو دیکھنے کے لائق ہے۔‘‘
’’دیکھنے کے لائق تو ہے پر تو اس کے لائق نہیں۔ اسے دیکھنا ہے تو پہلے اپنے آپ کو اس لائق بنا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ کہہ کر وہ چپ ہو رہا اور مرغ پلاؤ اور فیرنی سے لدا پھندا دستر خوان اس کی آنکھوں کے سامنے سے پھر گیا۔ اس کے بغیر اس میں کیسے جان میں جان آ سکتی تھی؟ پچاس پچاس کے تین نوٹ، سرخی پوڈر والی ڈبیہ، وسکی کا پوا اور خوبصورت کسے تنے ہوئے بدن والی ایک لڑکی تیزی سے اس کے خیالوں میں گزر گئی۔ دو لے اور جامو کی حالت بہت ہی اچھی تھی۔ وہ ہمیشہ بڑھیا کپڑے پہنتے، بڑھیا سگریٹ پیتے اور بڑھیا کھانا کھاتے۔ انہوں نے اپنے اپنے مکان بھی بنا لئے تھے اور اب ریس کے گھوڑے پالنے کی فکر میں تھے۔
آدھی رات کو رحیم ڈیرے سے پلٹا۔ اس کی سوچ راجاں کے لفظوں سے لبریز تھی۔
’’بات لیکھ کی نہیں۔ بات ہمت کی ہے۔ عقل کی ہے، نیت کی ہے۔‘‘
یہ لفظ رحیم بخش کے دل پر نقش ہونے کے لئے بے قرار تھے۔ وہ بے قراری کے عالم میں گلی میں پہنچا، جہاں اندھیرے کے سوا کچھ نہ تھا۔ پورے تین سال اس کی قسمت اس اندھیرے میں پڑی سوتی رہی۔ گلی میں جگہ جگہ نالیاں تھیں۔ لیکن رحیم بخش کو کیا؟ اس نے تو قسمت کی ٹھوکریں کھائی تھیں۔ وہ یہاں کیا ٹھوکریں کھاتا؟ سوچ میں ڈوبا یہاں سے گزر گیا اور گھر میں پہنچا۔ گھر کیا تھا کھنڈر یلا ڈربہ تھا۔ صحن بیرونی دیوار سے محروم تھا۔ بانس کھڑے کر کے ان پر رسی کھینچ دی تھی۔ کہیں پھٹی پرانی چادر پڑی تھی۔ کہیں پھٹا پرانا ٹاٹ اور کہیں ٹٹی کھڑی تھی۔
کچے فرش، مٹی سے لپی پتی دیواریں، لکڑی اور بانس کی چھت۔ راجاں لیپتے پوتتے اور کہگل کرتے کرتے تھک جاتی۔ دولے اور جامو کی باتوں سے اس کی آنکھوں میں نئے اجالے تیرنے لگے تھے۔ ذہن کے افق پر سوچ کی نئی کرنیں ابھر ی تھیں۔ یہی کرنیں لئے وہ گھر میں داخل ہوا۔ یہ گھر اس کے لئے گالی بن گیا اور دیے کی ٹمٹماتی ہوئی لو اس کی سوچ کی نئی کرنیں روند نے لگیں۔ وہ رات بھر نہ سویا۔ اس کے سامنے ٹیڈی لڑکیاں سیٹیاں بجاتے اور اشاروں سے لڑکیوں کو بلانے والے لڑکے، تندرست و توانا چہرے گزرتے رہے۔ چاندنی رات تھی لیکن چاند جیسے ٹھہر ا ہوا ہو۔ رات گزر نے کا نام ہی نہ لیتی۔ وہ رات کے بوجھ تلے دبا کروٹیں بدلتا رہا۔
صبح ایک نئے انداز سے طلوع ہوئی۔ آج اس کی زندگی کو صحیح آغاز ملا تھا۔
راجاں چائے بنا چکی تو رحیم بخش اسی کے پاس جا بیٹھا۔ اس نے پوچھا، ’’بیس تیس روپے ہوں تو بات بنے۔ میں نے بات سوچ لی ہے۔‘‘
’’کیا بات سوچ لی ہے۔‘‘
’’وہی جو تونے کہی تھی۔‘‘
’’کیا کہی تھی۔‘‘
’’یہی کہ بات لیکھ کی نہیں، بات ہمت کی ہے عقل کی ہے، نیت کی ہے۔‘‘
’’کیا اب تو بیس روپے روز کما لایا کرے گا۔‘‘
’’انشاء اللہ۔‘‘
’’تو بس پھر جتنے روپے چاہے، مجھ سے لے لے۔‘‘
راجاں نے تیس روپے لا دیے۔ رحیم بخش نے تیس روپے لے لئے، کچھ روپے اس کے پاس بھی تھے۔ پھر چائے بھی نہیں پی۔ گھر سے چلا گیا۔ سفید لٹھا خرید ا اور سامنے بیٹھ کر درزی سے شلوار قمیض اور واسکٹ سلوائی۔ نئی جوتی لی۔
آج کا دن اس نے اپنا حلیہ درست کرنے میں گزارا۔ اگلے دن نئے ڈیرے پر گیا اور فرسٹ کلاس گھوڑا تانگہ لے کر نکلا۔
اس کی نظر یں بدل گیئں۔ اس کے تیور بدل گئے۔ اب وہ نیا آدمی بن گیا تھا۔ وہ نیا رحیم بخش تھا۔ ویسے خالق نے اس کے اندر کئی رحیم بخش پیدا کر کے رکھ دیے تھے۔ وہ جس سے چاہتا کام لے سکتا۔ پہلے اس نے خود کو چونی والی سواریوں کی سطح پر رکھا تھا۔ اب وہ ان سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اب وہ بڑا آدمی بن گیا تھا اور اپنے تانگے پر بڑی سواریاں بیٹھاتا تھا۔
اسے دریافت کے لئے نئی دنیا مل گئی۔ اس دنیا میں بدنوں کی جھنکار تھی، تیس روپے تو کیا وہ پچاس روپے روز کما لاتا۔ دولے اور جامو نے مدد کی اور نئی آبادیوں کے ایسی ایسی کوٹھی خانوں کا سراغ دیا، کوٹھے جن کے سامنے پانی بھرتے۔ وہ یہیں سے سواریاں لیتا اور یہیں سواریاں لے کر آتا۔ وہ اب کوچبان نہیں بلکہ لوگوں کا محسن تھا۔ وہ بھٹکتی ہوئی روحوں کو تاڑ لیتا اور انہیں ٹھکانے لگاتا۔ اسے نفسیات کا ماہر بھی کہنا چاہیے، کیوں کہ اب اس نے کتنے ہی مردوں اور کتنی ہی عورتوں کو اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ اسے ان کی عادتوں، خصلتوں اور طبیعتوں کے مطالعے کا موقع ملا۔
وہ بڑا کانٹا نکلا، پہلی ہی نظر میں مردوں اور مُردوں میں امتیاز کر لیتا۔ زندہ عورتیں اور زندہ مردوں کے لئے وہ مقناطیں کا درجہ رکھتا۔ اس کا چمکیلا بھڑ کیلا تانگہ اور اس کی حسین گھوڑی پر نظریں نہ ٹھہرتیں۔ تانگہ ہو تو ایسا خوشنما، گھوڑی ہو تو ایسی دلفریب۔ البتہ چلتے پھرتے مردوے اس سے نظریں چرا لیتے اور اس کے تانگے کا رخ نہ کرتے۔
اسے آنکھوں میں نئی روشنی ملی، جس کی مدد سے وہ اپنی سواریوں کو پہچان لیتا اور ان کے لئے گائیڈ کا کام کرتا۔
ایک چھپی ہوئی دنیا ننگی ہو گئی اور کئی بار اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گیئں۔
اس کا نظریہ بدل گیا۔ وہ عورت کو شراب کی بوتل اور مرد کو سگریٹ کا اڑتا ہوا دھواں سمجھنے لگا۔
اب سے بخوبی معلوم ہوا کہ کتنی ہی مخلوق خدا سر چھپانے کے لئے نہیں، بلکہ شراب کی بوتلیں خالی کرنے اور سگریٹ کا دھواں اڑانے کے لئے مکان بناتی ہے۔ کتنی ہی عورتیں، کتنے ہی مرد اور کتنے ہی مکان اس کے سامنے ننگے ہو گئے۔ وہ ان سب پر بے اختیار ہنس دیتا۔
اس نے پیسے کو ایک نئے دھارے میں بہتے دیکھا، پہلے لکشمی چوک سے دربار تک چونی کی مہین سی لکیر دھیرے دھیرے بہتی رہتی لیکن اب پورے شہر میں روپے کی گنگا بہتی دیکھی اور وہ اس میں خوب نہایا۔ اب اس کے تانگے میں خوشبو دار سواریاں بیٹھتیں، جن کے پہلو میں سونے چاندی کی کھنک ہوتی۔
گنگا بہنے لگی اور اس کے گھر کی کچی دیوار یں گرنے لگیں، ان کی جگہ نئی دیواریں، نئے فرش، نئی چھتیں نمودار ہونے لگیں، پرانا مکان مٹ گیا، نیا بن گیا۔
راجاں نے چیتھڑے اتار دیے اور اب وہ بھی ریشمیں کپڑے پہننے لگی۔ اس کا بدن مہکنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں شوخیاں آنکھ مچولی کھیلنے لگیں۔ اس کے گلابی گالوں پر شادابیاں مسکرانے لگیں۔ اب وہ نجم النہار کی سہیلی بن گئی۔ دونو ں مل کر بازار جاتیں اور فرض کے طور پر جاتیں اور یہ بازار صرف عورتوں ہی کے لئے بنے تھے۔ گھر کی عورتیں یہاں آتیں۔ بازار کی عورتیں بھی یہاں آتیں اور پھر بازار سب کے ذوق کی تسکین کرتا۔ شریف کا روپیہ، دولے کا روپیہ، جامو کا روپیہ، رحیم بخش کا روپیہ اور خوشبو دار عورتوں کا روپیہ اسی بازار میں بہہ جاتا۔ اس بازار میں رات دن روپیہ کی گنگا بہتی۔
پھر نجم النہار کی بہار میں خزاں آئی۔
شریف بہت جلد ترقی کر گیا۔ ٹھیکیدار نے اسے نئی کار لے دی۔ اس نے بینک بیلنس بنا لیا۔ ڈھیر سارا سونا خرید لیا۔ گلبرگ میں نئی کوٹھی کت لیے زمین خرید لی۔ وہ اب سرکار کی بجائے ٹھیکیدار کا ملازم تھا، اس کا آدمی تھا۔ اس کا مشیر تھا۔ سرکار سے جو تنخواہ لیتا، اس سے تو بس باورچی خانے کا خرچ چلتا۔ باقی خرچ جو باورچی خانے کے خرچ سے دگناتگنا تھا، ٹھیکیدار سے وصول کرتا۔
وہ اکثر اپنے ہمکاروں کی طرف دیکھتا جنہوں نے عالیشان کوٹھیاں بنا لی تھیں اور ٹھیکیدار اس پر مہربان تھے۔ یہ لوگ وسکی پارٹیاں دیتے، کلب جاتے اور ریس کھیلتے، ان کی شان و شوکت دیکھ کر اس کے دل میں بھی ولولہ اٹھتا۔ وہ بھی زیادہ روپیہ اکٹھا کرنے کی فکر میں رہتا۔
پھر وہ یہ بھی سوچتا کہ سرکاری نوکری پر ہی بھروسہ نہ کرے۔ بد عنوان افسروں کی چھانٹی ہوئی تو اس کے پاس اتنا اثاثہ تو ہو کہ وہ خود ٹھیکیدار بن جائے اور آزادی سے کام کرے۔ اس نے پچاس پچاس ہزار روپے کے دو بیمے بیوی کے کروائے۔ پریمیم کی رقمیں ٹھیکیدار کا منشی با قاعدہ ادا کر دیتا۔
وہ بے فکری کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ کوئی غم نہ تھا، کوئی ڈر نہ تھا۔ اس کی طرح دوسرے ہمکار بھی ٹھیکیداروں کے جال میں جکڑے ہوئے تھے اور کوئی کسی کو کچھ نہ کہتا۔
ایک دفعہ وہ لنڈی کو تل بھی گیا۔ وہاں اس نے تعلقات پیدا کر لئے تھے۔ کار میں منشیات لئے آ رہا تھا کہ ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گیا۔ کار اور اس کے ساتھ وہ بھی چکنا چور ہو گیا۔
نجم النہار کا سہاگ لٹ گیا لیکن شریف اتنی دولت چھوڑ گیا کہ آرام کی زندگی بسر کر سکتی تھی۔
راجاں اور بھی اس کے قریب ہو گئی اور اکثر اسی کے ساتھ رہتی۔ فیروزاں جو پہلے ہمسایہ تھی، زیر سایہ ہو کر رہ گئی، پہلے دونوں کے مکان کھنڈر تھے اور ایک برابر بھی۔ لیکن راجاں کا نیا مکان بنا تو فیروزاں کا مکان نیچا ہو کر رہ گیا۔ راجاں کے مکان کی ٹیپ ٹاپ ہوتی رہتی اور یہ نکھرتا سنور تا ہی رہتا۔ رحیم بخش کی آمدنی بڑھی تو ہر چیز کی شکل و صورت بدل گئی۔ زندگی اور سے اور ہو گئی۔ کھنڈر پر نیا روپ چڑھ گیا۔ رحیم بخش کام میں خوب طاق ہو گیا۔
اس نے فاضل آمدنی کی ایک اور صورت بھی پیدا کی۔ وہ اندر کے شلو کے میں چرس کی گولیاں اور چرس کے سگریٹ رکھنے لگا۔ تانگے میں سیٹ تلے خالی جگہ میں گھاس کے ڈھیر میں شراب کی بوتلیں چھپائے رکھتا۔ اس سلسلے میں اس نے محلے کے ایک تکیے والے سے رابطہ قائم کر لیا تھا، جہاں بعض سرکاری حکام کے تعاون سے منشیات کا کاروبار چلتا۔ شراب کے ایک بھٹے والا خود آکر مال سپلائی کرتا۔ اس دھندے سے وہ دس بیس روپے روز فاضل کما لیتا۔
ایک رات وہ ڈھیر ساری رقم کما کر لایا لیکن ناخوش نا خوش تھا۔ گھر بجلی کے قمقموں سے روشن تھا لیکن اس کی آنکھوں میں اندھیرا تھا۔ راجاں سمجھی چالان ہو گیا ہوگا۔ اس سے رقم لیتے لیتے بولی، ’’آج بڑا افسوس ہو رہا ہے۔ خیر تو ہے کہیں پولیس نے چھاپا تو نہیں مارا۔‘‘
’’نہیں پولیس کیا چھاپا مارے گی! پولیس اور میں دو نہیں، وہ تو بچارے بڑے اچھے ہیں۔ اپنے یار ہیں۔‘‘
’’پھرکیا ہوا ہے۔‘‘
’’اچھا مال تو بس مال پر ملتا تھا۔ سارے بڑے بڑے ہوٹل مال پر ہیں اور کار پوریشن نے وہاں تانگے جانے بند کر دیے ہیں۔‘‘
’’کار پوریشن تو تانگوں کا نام نشان مٹانا چاہتی ہے۔‘‘
’’مال بند ہو گئی ہے تو اب کیا ہو گا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔ ایک راستہ بند ہو گا تو دس رستے کھیلیں گے۔‘‘
باتیں کرتے کرتے رحیم بخش کا جی ہلکا ہوا لیکن اتنا تو وہ جان ہی گیا کہ اب تگ ودو بڑھانی پڑے گی، نئی سواریاں تلاش کرنی پڑیں گی اور شہر کی چھوٹٹ گیر والی سواریاں بھی اٹھانی پڑیں گی۔
دنیا بہت ترقی کر گئی تھی۔ اب سواریاں ٹیکسی میں بیٹھنے لگی تھیں۔ بازار کی عورتیں جو سج سنور کر چمکیلے دمکیلے تانگوں میں بیٹھ کر سیر کو نکلتیں، اب ٹیکسیاں پسند کرنے لگی تھیں۔ پہلے انہیں دکان چمکانے کے لئے اپنی نمائش کرنی پڑتی لیکن اب مانگ اتنی تیز ہوئی اور ان کی مصروفیت اتنی بڑھی کہ نمائش کی شق اڑانی پڑی۔
اس جہد للبقا سے وہ گھبرایا نہیں۔ اب وہ زیادہ مستعد ہو گیا۔ اب بھی اسے مال کے علاوہ ارد گرد کی سڑکوں پر رکے تھمے ہوئے برقعے مل جاتے۔ شہر میں جگہ جگہ سنیما ہاؤس تھے۔ ان کے قرب میں اسے اپنے مطلب کی سواریاں مل جاتیں، بعض درگاہوں پر بھی اس کی نظر رہتی۔
اسے اب ایسی سواریوں کی سر پرستی حاصل تھی جو تانگے میں بیٹھ کر چلتے پھرتے گا ہک اٹھا تیں۔ یوں ٹیکسیوں کے ہوتے ہوئے بھی رحیم بخش کا تانگہ انفرادیت رکھتا۔ البتہ ٹیکسیوں سے زیادہ وہ کاروں کا دشمن تھا۔ کار نے کوٹھی اور کوٹھے کا فرق ہی مٹا دیا۔ کوٹھی اور کوٹھے ایک ہو گئے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اس نے دور کہیں سواری تاڑی اور اس کی جانب بڑھا کہ اس سے پہلے کوئی کار آکر رکی اور رکے تھمے برقعے کو اٹھا کر چل دی۔ رحیم بخش دل پکڑ کر رہ جاتا، وہ کار والے کو گالیاں فراتا، گھوڑا موڑ کر کسی اور طرف نکل جاتا۔
پہلے اس نے اپنے محلے کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی، اب محلے کی کتنی ہی عورتیں ننگی ہو گئیں اور کتنی ہی عورتوں کو وہ ننگی کرنے میں لگ گیا۔ اس نے مائی مٹھاں سے رابطہ پیدا کیا جو محلے کی دائی تھی اور کسی کا پیٹ اس سے چھپا نہ تھا۔ وہ سب کے راز جانتی۔ سب کا حال جانتی۔ گھر گھر پھرتی گھر گھر کی بو سونگھتی۔ وہ محلے کا انسایئکلو پیڈیا تھی۔ ہر قسم کی معلومات اسے حاصل تھیں اور ان کی بنا پر وہ مفید مشورے بھی دے سکتی تھی۔ رحیم بخش نے اپنی پرایئویٹ لمیٹیڈ کمپنی میں اسے شریک کیا اور اسے محلے میں سواریاں ڈھونڈ نے کو کہا۔
بننے سنورنے کا کسے شوق نہیں ہوتا؟ خال خال ہی وہ عورتیں تھی جو سرخی پوڈر سے نفرت کرتیں اور اپنے سانسوں سے گھر سے باہر کی ہوا کو خوشبو دار بنانے سے ڈرتیں۔ محلے کی نیک بیبیاں، گھریلو عورتیں بھی بن ٹھن کر نکلتیں اور پھر ایک دوسرے کی خوب خوب نقالی کرتیں، ایک دوسرے سے نئے نئے فیشن، نئے نئے نخرے، نئے نئے انداز سیکھتیں۔
مائی مٹھاں دلوں میں سیندھ لگا نے لگی۔ وہ بد بو پسند عورتوں کو خوشبو دار عورتوں میں بدلنے لگی اور اس کی محنت سے کتنے ہی بوسیدہ گھر مہکنے لگے۔ وہ نجم النہار کے گھر بھی آنے جانے لگی۔ ایسی حسین اور جوان عورت گھر کی زینت بن کر رہ گئی تھی۔ وہ تو اپنی خوشبو اور اپنے حسن سے ایک جہاں کو سنوار سکتی تھی اور نجم النہار سے زیادہ وہ مائی مٹھاں اس راز سے واقف تھی۔
نجم النہار کے پاس روپے کی کمی نہ تھی لیکن بہتی ہوئی ندی والی بات نہ رہی تھی۔ روپے کی ندی تو شریف کے دم سے بہتی تھی۔ شریف مرا تو نجم النہار کا دل بھی مر گیا۔ شریف کے بعد تو وہ سمٹ سکڑ کر رہ گئی۔ اداس دن اور اداس راتیں اس کا مقدر بن گئیں۔
مائی مٹھاں آتی اور اس کا دل بہلاتی۔ اسے سیر کے لئے باہر لے جاتی۔ رحیم بخش اسے تانگے پر بٹھا کر ادھر ادھر سیر کو لے جاتا اور گلبرگ کی دل فریب کو ٹھیاں دکھا دکھا کر اس کے جذبات میں پھول بکھیر تا اور اسے دکھا دکھا کر جتاتا کہ یہ آزادی کا زمانہ ہے، نجم النہار تو کچھ بھی نہیں، عورتیں بہت بہت آزادہوتی ہیں۔ اب وہ وقت گیا جب وہ مردوں کی غلام ہوتی تھیں، ان کی محتاج ہوتی تھیں۔ اب تو عورتیں خود کماتی ہیں، عیش کرتی ہیں، بڑے بڑے ہوٹل، بڑے بڑے کلب ان کی بدولت آباد ہیں۔ گھڑ دوڑیں ہوتی ہیں۔
’’بی بی! میں نے تو یہ دیکھا کہ عورت سجتی ہی ہوٹل، کلب اور گھڑ دوڑ میں ہے۔ غم دور کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا چاہئے۔‘‘
یہ تجربے کی بات تھی اور یہ تجربہ رحیم بخش کے معمول میں شامل تھا۔ وہ اسی قسم کی باتیں نجم النہار کے ذہن میں بٹھا تا اور مائی مٹھاں کی تائید سے اس کی سوچ بیکا ر ہوتی گئی۔ آخر اس کی سوچ کو انہوں نے سلا دیا۔
ایک دن رحیم بخش نے نجم النہار کوتا نگے میں بٹھا یا اور گلبرگ چل دیا۔ وہ اسے اس کوٹھی میں لے گیا، جو مردوں اور عورتوں کے قہقہوں سے آباد تھی۔ ہنسی اور قہقہے کے سوا یہاں کچھ نہ تھا۔
رحیم بخش نے نجم النہار کو ہنسی اور قہقہے کے سپرد کر دیا لیکن، جب وہ آدھی رات کوٹھی سے باہر آئی تو ساری ہنسی اور سارے قہقہے سو گئے تھے اور اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
وہ سوچ جو سو گئی تھی، بیدار ہوگئی۔ اس سوچ میں جلن تھی، جس سے وہ دوسروں کو جھلسانا چاہتی تھی۔ اگلے دن وہ ہنسی ہنسی راجاں کے یہاں گئی۔ راجاں کو خوشبو دار عورت بننے میں دیر نہ لگی۔ نجم النہار نے اسے لیا اور ٹیکسی میں بٹھا کر اس کوٹھی میں پہنچی جہاں ہنسی اور قہقہے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس نے راجاں کو ہنسی اور قہقہے کے سپرد کیا۔ اجنبی ہنسی اور اجنبی قہقہے نے اس کا بدن چھید دیا، آدھی رات کو کوٹھی سے باہر آئی تو لڑ کھڑا رہی تھی۔ اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی۔ ایک چمکتا دمکتا ہوا تانگہ اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔ رحیم بخش نے راجاں کو دیکھا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
دوسروں کو لوٹنے والا آج خود بھی لٹ چکا تھا۔ اس کے تو جیسے حواس قائم ہی نہ رہے۔ وہ پاگل ہو گیا۔ گلبرگ کی روشن سڑکیں اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ اس نے پوری قوت سے اپنی پیاری گھوڑی کی پیٹھ پر چابک رسید کیا۔ گھوڑی بلبلائی اور اگلی آن سڑک پر بجلی دوڑ نے لگی۔ رحیم بخش بجلی پر کوڑے برسا تا رہا اسے پتہ ہی نہ چلا کہ وہ خالی تانگہ لئے جا رہا ہے۔ سواری تو راستے ہی میں گر گئی تھی۔ پھر اسے یہ بھی سدھ بدھ نہ رہی کہ اس کا تانگہ اینٹوں سے لدے ہوئے ٹرک سے ٹکرایا اور وہ الٹ کر دور جاگرا۔ خون کی دھار چھٹی اور اس کا پورا بدن بھگو گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.