’’اور تم تین قسم کے ہو جاؤ گے۔‘‘
سو جو داہنے والے کیسے اچھے ہیں اور جو بائیں والے ہیں کیسے برے ہیں۔ اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ تو اعلیٰ درجے کے ہیں۔
اور قرب رکھنے والے ہیں باغوں میں نعمت کے۔
ان کا ایک بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہو گا اور تھوڑے پچھلے لوگوں میں سے ہوں گے۔
بیٹھے ہیں جڑاؤ تختوں پر تکیہ لگائے ان پر ایک دوسرے کے سامنے لئے پھرتے ہیں، ان کے پاس لڑکے۔ سدا لڑکے ہی رہنے والے آب خورے اور کوزے
اور پیالہ نتھری شراب کا۔
جس سے نہ سر دکھے اور نہ عقل میں فتور آئے۔
اور میوہ جونسا پسند کر لیں۔
اور گوشت اڑتے ہوئے جانوروں کا جس قسم کا جی چاہے اور عورتیں گوری۔
بڑی آنکھوں والیاں۔ جیسے موتی کے دانے اپنے غلاف کے اندر بدلہ ان کاموں کا جو کرتے تھے۔
نہیں سنیں گے وہاں بکواس اور نہ گناہ کی بات
مگر ایک بولنا سلام سلام
اور داہنے والے کیا کہنے داہنے والوں کے
رہتے ہیں ان باغوں میں جہاں بے خار بیریاں ہوں گی اور کیلے تہ بہ تہ
اور سایہ لمبا اور پانی بہتا ہوا
اور میوے بہت ختم نہ ہوں گے اور نہ ان کی روک ٹوک ہو گی
اور بچھونے اونچے اونچے۔
ہم نے اٹھایا ان عورتوں کو ایک اچھے اٹھان پر
پھر کیا ان کو کنواریاں
پیار دلانے والیاں
ہم عمر
واسطے داہنے والوں کے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (الواقعہ)
وہ توے کی طرح تپی ہوئی زمین پر جلدی جلدی پاؤں رکھتا اور آگے بڑھتا ہے۔
سب سے پہلے اسے شیدو مہترانی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے سر پر غلاظت ہے سے بھرا ہوا ٹوکرا ہے۔ وہ ناک پر رومال رکھ لیتا ہے اور حیرت سے شیدو کو دیکھتا ہے۔ وہ بدبو سے بے نیاز غلاظت کو ٹوکرا اٹھائے یوں گزر جاتی ہے جیسے بتاشے بانٹنے جا رہی ہو۔
پھر اسے پیرو ملتا ہے۔
پیرو کا باپ اس علاقے کا مشہور بھانڈ ہے۔ پہلے شادی بیاہ کے موقعوں پر اسی کے توسط سے طوائفیں بلائی اور نچائی جاتی تھیں مگر اب پیرو ہی اس کا واحد سہارا ہے۔ لیکن پیرو ناچنا اور گانا نہیں چاہتا۔ گھنگھرو باندھ کر ناچتے گاتے اور بیاہ شادیوں اور عقیقوں اور بدھائیاں دیتے، ویلیں وصول کرتے، وہ جوان ہو گیا ہے اور اسے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے سامنے ناچتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ رات کو جب وہ زنانہ کپڑے پہن کر سرخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھ کر اپنے باپ کی سارنگی کی تال اور بھائی کے طبلے کی تھاپ پر ناچتا گاتا اور طوائفوں کی طرح بھاؤ بتاتا ہے تو گاؤں کے لڑکے اسے ’’نی پیرو‘‘ کہہ کر چھیڑتے ہیں اور وہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔
وہ آگے بڑھتا ہے۔
اسے صادو ترکھان نظر تو نہیں آتا لیکن اس کی مخصوص کھانسی سنائی دیتی ہے۔لکڑیوں چیر چیر کر اور برادہ پھانک پھانک کر اسے کتا کھانسی ہو گئی ہے۔ اسے جب بھی دورہ پڑتا ہے وہ تھوڑا سا گڑ چاٹ لیتا ہے۔
اور یہ بڑے ملک صاحب کا ڈیرہ ہے۔
مولوی فلک شیر کان پر ہاتھ رکھ کر بڑی خوش الحانی سے قصہ سنا رہا ہے۔ نوجوان مولوی فلک شیر حال ہی میں درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آیا ہے اس کا ارادہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پر لانا تھا لیکن بڑے ملک صاحب نے اس کی ڈیوٹی سوہنا و زینی کا قصہ سنانے پر لگا دی ہے۔
گاؤں سے باہر اسے بہت سے لوگ ملتے ہیں۔ اپنے وزن سے دگنا بوجھ اٹھاتے ہوئے دھوپ اور گرمی میں کام کرتے، پتھر توڑتے اور چارہ کاٹتے ہوئے۔ وہ ان سب کو محبت بھری الوداعی نظروں سے دیکھتا آگے بڑھتا ہے اور اسے اپنے گاؤں کا آخری آدمی باقی مسلی دکھائی دیتا ہے جو شکر دوپہر میں بڑے میدان اور تالاب کے کنارے مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں تلاش کرتا پھرتا ہے۔
وہ توے کی طرح تپی ہوئی زمین پر اور تیزی سے پاؤں رکھتا اور اٹھاتا گیٹ کی طرف بڑھتا ہے اور تقریباً بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوتا ہے۔ شکاری کتوں کی طرح اس کا پیچھا کرنے والے لو کے تھپیڑے گیٹ پر آ کر رک جاتے ہیں۔ اندر دور تک لمبی لمبی چمکیلی کاریں کھڑی ہیں۔ لان میں ڈرائیور ٹولیوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے زخموں کو کرید رہے ہیں۔ وہ پانی سے بھرے ہوئے حوض کو ایک نظر دیکھتا ہے اور اس کا جی چاہتا ہے وہ اس میں تحلیل ہو جائے۔ وہ دوسری گیٹ میں قدم رکھتا ہے۔
چاروں طرف خوبصورت پھولوں کے تختے ہیں۔ ہری بھری مخملی گھاس ہے اور زرق برق لباسوں میں خوبصورت عورتیں مرد آ جا رہے ہیں۔ وہ اندرونی دروازے پر پہنچتا ہے تو با وردی ملازم ادب سے دروازہ کھولتا اور جھک کر اسے سلام کرتا ہے۔ اندر داخل ہوتے ہیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی دائیں یا بائیں کسی آنکھ کی پتلی ساکت ہو گئی ہے یا اپنی جگہ سے ہل گئی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اسے شیدو مہترانی سے لے کر باقی مسلی تک سارے لوگ اور غلاظت کے ٹوکرے سے لے کر مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیوں تک ساری چیزیں صاف اور ٹھیک دکھائی دے رہی تھیں مگر اب چیزیں فوکس نہیں ہو رہی ہیں اور اسے ایک کے دو اور دو کے چار نظر آنے لگے ہیں۔
میزبان خاتون بیگم شداد کے ساتھ ویسی ہی مشکل و صورت کی ایک اور خاتون کھڑی نظر آتی ہے۔ دونوں کے بازو ایک جیسے چکنے اور ملائم ہیں۔ ہونٹ ایک جیسے رسیلے اور دونوں کی گردنوں میں ایک ہی طرح کے دمکتے ہوئے لاکٹوں نے اپنی طلائی باہیں حمائل کر رکھی ہیں اور وہ دونوں بار بار آپس میں اوور لیپ و جاتی ہیں۔
چیزوں کو آپس میں اوور لیپ ہونے سے بچانے اور انہیں اصلی حالت میں دیکھنے کے لئے اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی ایک آنکھ بند کر لے اور جب دوسری تھک جائے تو پہلی آنکھ کھول لے۔
وہ اپنی ایک آنکھ بند کر لیتا ہے اور دوسری سے بہت سی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ پردے خوشنما ڈیزائنوں کے۔
قالین نرم اور پھولوں والے جن پر چلتے ہوئے فخر و مسرت کا احساس ہوتا ہے۔
روشنیاں خوبصورت فانوسوں کی گود میں مسکراتی ہوئی اور ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، سیلنگ پینلوں سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے ساگوان کے دروازے اور فرنیچر پالش سے چمکتے ہوئے صوفے فوم والے آرام دہ۔ لڑکے خوبصورت وردیاں پہنے ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے جن میں مشروبات سے لبالب گلاس ہیں اور بلوریں جام۔
مسکراہٹیں، خوش گپیاں، ہیلو ہیلو بولتے مسکراتے ہونٹ، کوکتی کوئلیں، چہکتی مینائیں،گھگھو گھوں الاپتی فاختائیں اور غڑغوں غڑغوں کرتے کبوتر۔
رنگا رنگ ملبوسات، سوٹ، ٹائیاں، بیل باٹم، ساڑیاں اور میکسیاں جن میں خوشنما بروچ جگمگاتے ہیں۔
آنکھوں میں جلتی قندیلیں، پینگیں جھولتی بالیاں، معطر زلفیں، دمکتے نگینے، لشکارے مارتے لونگ، سگریٹوں کا خوشبودار دھواں اور دھوئیں کے مرغولے۔
بلاؤزوں، کڑتیوں اور کھلے گلے کی قمیضوں سے جھانکتی مرمریں گولائیاں۔ پکوان اور میوے طرح طرح کے اور بہت
اور مرغ سیخوں میں پروئے ہوئے
’’سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے‘‘
اس کی دیکھنے والی آنکھ تھک جاتی ہے تو وہ اسے بند کر لیتا ہے اور دوسری آنکھ سے بہت سی چیزوں کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.