Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب راستے پر تھمے قدم

محمد عاطف علیم

خواب راستے پر تھمے قدم

محمد عاطف علیم

MORE BYمحمد عاطف علیم

    ایک طرف چمکیلے سبز مٹروں کا ڈھیر تھا اور دوسری طرف ان چھلکوں کا ڈھیر تھا جن میں سے دانے نکالے جا چکے تھے اور وہ ان کے بیچ جنگ زدہ سی بکھری بکھرائی، گھٹنوں پر پرات ٹکائے ایک منتشر عزم کے ساتھ دیر سے مٹر چھیلے جا رہی تھی۔

    اس بار جو اس نے ناخن گاڑ کر مٹر کی پھلی کو کھولا تو دیکھا کہ تین رسیلے دانوں بیچ ایک ہرے رنگ کا کیڑا نیم دائرے میں سمٹا ہوا اونگھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر محویت سے کیڑے کو دیکھتی رہی اور پھر دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے ایک جھرجھری کے ساتھ مٹر کو دور اچھال دیا۔

    خشک پتوں کا طوفان مرد کو گھر تک چھوڑنے آیا تھا۔ اس کے اندر داخل ہونے پر طوفان نے پیٹھ موڑی اور پوری گلی کو شور اور پتوں سے بھرتے ہوئے کہیں اور نکل گیا۔

    جب تک وہ صحن میں داخل ہوکر دروازہ بند کرتا بہت سے آوارہ پتے کھلے دروازے کی راہ صحن میں بکھر چکے تھے۔ عورت کے ہاتھ میں ان چھلا مٹر دبا رہ گیا کہ اب اس کی نگاہیں مرد پر جمی تھیں۔ وہ اس کے ڈھلکے ہوئے کندھوں اوراس کی آنکھوں میں کوئی خبرتلاش کررہی تھی، کوئی ایسی بات جس کے بعد سب کچھ ہمیشہ کیلئے بدل جاتا۔

    وہ وقت کی مار کھایا ہوا منحنی سا وجود، دروازے پر کنڈی چڑھانے کے بعد پلٹا اور بےڈھنگا سا چلتا ہوا صحن کے بیچ میں رک گیا جیسے طے کر رہا ہو کہ صحن میں بہتی ہوئی اذیت سے بچ بچا کر کیسے گذرا جائے۔ اس نے یونہی آسمان کی جانب نظریں گھمائیں اور دور بلندیوں میں چکراتی ایک چیل کو دیکھ کر قطعی بے موقع ہنسی ہنسا۔ یہ اصل میں نظریں جمائے دیکھتی عورت کا سامنا کرنے کی مشکل کو ٹالنے کیلئے کچھ نہ سوجھنے کی جھنجھلاہٹ سے جنم لیتی بےوقوفی تھی۔ قریب پہنچ کر اس نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا اور پھر ارادہ ملتوی کرکے کمر پر پتلون کو درست کرتا کچھ کہے بغیر صحن کے ایک جانب بنے غسل خانے میں گھس گیا۔

    عورت کہ اس آدمی کی بیوی تھی جانتی تھی کہ وہ اب کا غسل خانے میں گھسا دیر سے لوٹےگا کہ اس کی دائمی قبض ان دنوں پھر عود کر آئی تھی سو اس نے ماتھے پر جھولتی بے جان بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا اور مٹر چھیلنے میں مصروف ہو گئی۔

    وہ صبح سے بلکہ پچھلے کئی دنوں سے بے طرح مصروف تھی، مصروفیت بھی کیا تھی اپنے جسم کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوک کو دبانے کا ایک بہانہ تھا۔ دو کمروں کا یہ معمولی سا گھر جس میں دو جی رہتے تھے، خود کو ماردینے والی مصروفیت کیلئے بہت چھوٹا تھا۔ کام تھا ہی کتنا لیکن اس نے اپنی ناتوانی کے باوصف کیا کچھ نہیں کیا تھا ان دنوں۔ کبھی بیڈ کو سرکا کر ایک جانب لگایا تو کبھی دوسری جانب گھسیٹ دیا۔ لکڑی کی پرانی الماری کہ اس کی ماں کے جہیز میں سے بچ رہنے والی واحد چیز تھی اور اس کی یادوں سے لبالب تھی ہمیش طے شدہ جگہ پر کھڑی رہتی تھی، اس پرنگاہ پڑی تو بیکار میں اس کی جگہ بدلنے کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں گھسیٹتی پھری تھی۔ یہی ماجرا گھر کی دوسری چیزوں کے ساتھ بھی تھا۔ فضول کی اس اکھاڑ پچھاڑ میں ہر چیز کو اپنا مدتوں پرانا ٹھکانا بار بار بدلنا پڑا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جھاڑ پونچھ کا عمل تھا جو شروع ہوا تو ایک اذیت ناک پرفیکشن کے ساتھ چلتا رہا تھا۔ وہ جھاڑو چھوڑتی تو جھاڑن پکڑ لیتی، جھاڑن ہاتھ سے رکھتی تو نامعلوم جالوں کو اتارنے کیلئے ڈنڈے پر کپڑا باندھنے لگتی۔ یہ ایک طرح سے اس کا خود ساختہ ڈیفنس میکانزم تھا کہ جب بھی وقت اس پر دانت نکوسنے لگتا وہ خود پر مصروفیت اوڑھ کر اپنے تئیں محفوظ ہو جاتی تھی۔ یہ الگ بات کہ اگلے کئی روز اسے بستر پر پڑے کراہنا پڑتا تھا۔

    آج صبح اپنے شوہر کے پیشی پر کچہری جانے تک اس نے مارے تھکان کے خود کو اگلے کئی دنوں تک بستر پر بے سدھ پڑا رہنے جوگا کر لیا تھا۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ کچہری میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ سو شوہر کو رخصت کرنے کے بعد سے وہ ہونی کے احساس کو جھٹکنے کیلئے نئے عزم کے ساتھ کام میں جت گئی۔ ادھر وال کلاک کی سوئیوں کو ایسی موت پڑی تھی کہ کم بخت رینگنا بھول گئی تھیں۔ سو وقت کے بوجھل ٹھہراؤ سے خود کو لاتعلق رکھنے کو کبھی یہ کام تو کبھی وہ کام اور آخر میں مٹروں کا ڈھیر چھیلنے کی بیکار مشقت جو پکائے جاتے تو ان دونوں جیوں کو اگلے کئی روز کیلئے کافی ہوتے۔ یہ ریاضت یکسر بیکار تھی کہ ان مٹروں نے چھیلے جانے کے بعد پڑے پڑے خشک ہو جانا تھا کیونکہ وہ دونوں مٹر نہیں کھاتے تھے۔

    اس کی اس جان توڑ مشقت کا مقصد خود کو بھلانے کے سوا اور کیا تھا لیکن بھولنا بھلانا کیسا کہ تمام تر ضبط کے باوجود دونوں کمروں میں، باورچی خانے میں، غسل خانے میں اور چار چھ قدم چوڑے صحن کے کونوں کھدروں میں اس کی گھٹی ہوئی چیخوں کے چیتھڑے بے خیالی میں پڑے رہ گئے تھے جنہیں اس کے شوہر نے اپنی قبض کے ساتھ لڑائی میں ہارنے کے بعد دریافت کرنا تھا۔

    مرد بہت دیر بعد باہر نکلا تو اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے اور غسل خانے میں گزری لاحاصل تکلیف سے چہرہ سرخ تھا۔ وہ گیلے ہاتھوں کو ہوا میں جھٹکتا ہوا سیدھا اس کے پاس آ بیٹھا۔ وہ اس مشکل میں تھا کہ کیا کہے اور کیسے کہے؟ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی بتائے بنا بھی جان چکی ہے اور شاید چاہتی بھی نہیں کہ اسے کچھ بتایا جائے لیکن کچھ تو کہنا تھا کہ خود اس کے اندر آنسوؤں کا منجمد چشمہ رواں ہو سکے۔

    ’’اتنے ڈھیر سارے مٹر؟‘‘ اس نے ہلکا سا کھانس کر یونہی بات چلانے کیلئے کہا،’’کون کھائےگا؟‘‘

    عورت نے اس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا اور چپ چاپ مٹر وں میں سے دانے نکالتی رہی۔

    مرد نے ایک کھلا ہوا چھلکا اٹھایا اور اسے دو انگلیوں پر احتیاط سے جماکر پٹاخہ سا بجایا۔

    ‘’بچپن میں جب ہمارے گھر میں مٹر آتے تو ہم اسی طرح ماں کے پاس آبیٹھا کرتے تھے۔’‘اس نے اپنے لہجے کو بشاش سا بناتے ہوئے کہا، ’’اماں مٹر چھیلتی جاتی تھی اور ہم ایسے ہی پٹاخے بجایا کرتے تھے، بہت مزا آتا تھا۔’‘

    ’’قبض کو آرام آیا؟‘‘ عورت نے کہ شاید کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی سرسری سے لہجے میں کہا۔

    ’’تمہارا اسپغول کا چھلکا تو کسی کام نہیں آیا، دوا نے بھی اثر نہیں دکھایا، کچھ اور کرنا پڑےگا۔’‘

    ’’تنخواہ ملے تو کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔’‘

    ’’بہت دن پڑے ہیں اس میں تو۔’‘

    عورت نے ایک پرخیال ’ہوں‘ کے ساتھ موضوع کو موقوف کیا اور ان چھلے مٹروں کی ایک ڈھیری اپنی جانب کھسکالی جس کے بعد پھر ایک لمبی اور کندھوں پر بوجھ ڈالتی خاموشی۔

    ’’جو بات یہ پوچھنا چاہتی ہے کیوں نہیں پوچھ لیتی؟‘‘ اس نے خاموشی کے اس وقفے میں جھنجھلا کر سوچا۔

    کچھ اور نہ سوجھا تو اس نے واپس اپنے بچپن میں پناہ لینے کا سوچا، ’’بچپن بھی کیا چیز ہے، کوئی مسئلہ نہ پریشانی۔ ہم کہا کرتے تھے کہ فکر نہ فاقہ نائیاں گھر ہویا کاکا۔’‘

    بچپن کی ایک فضول بات دہرانے سے اسے ہنسنے کا جواز ملا تو وہ کچھ دیر حلق سے بے معنی آوازیں نکالتا رہا ۔ عورت نے ایک لحظہ سر اٹھاکر اس کی بے موقع ہنسی پر اسے ترحم سے دیکھا اور کچھ کہے بغیر اپنے کار بیکار میں جتی رہی۔

    ’’تم بھی تو بچپن میں۔۔۔’‘

    ’’مجھ پر بچپن نہیں آیا۔’‘ عورت نے الٹے ہاتھ سے ماتھے کو پونچھتے ہوئے روکھا سا جواب دیا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ایک کراہ کے ساتھ اٹھی اور پرات لے کر باورچی خانے میں چلی گئی۔

    وہ یونہی اپنے بوجھ میں دبا بے خیالا سا ان چھلے مٹروں اور چھلکوں کے پاس بیٹھا رہا، اس دوران باورچی خانے میں برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں اور اسے پتا بھی نہ چلا کہ کب دیوار سے دھوپ رخصت ہوئی اور کب رات ہوئی۔

    وہ اپنی سوچوں میں الجھا ہوا آج دن کچہری میں ہونے والی واردات سے گزرتا جانے کہاں کہاں لٹا پٹا پھرتا رہا کہ اس کی بیوی کی نرم اور بے تاثر آواز اسے واپس کھینچ لائی۔

    ’’کھانا کھا لیں!‘‘

    وہ دونوں اپنے پرانے بیڈ پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کے عادی تھے۔ شوہر نے سونے والے کمرے میں بیڈ کی پٹی پر احتیاط سے خود کو ٹکانے کے بعد ڈونگے کا ڈھکن اٹھاکر دیکھا تو اس کی بھوک بالکل ہی مر گئی۔

    ’’یہ کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’سارا دن مصروف رہی تھی کچھ ڈھنگ کا پکا نہیں سکی۔’‘ عورت نے معذرت خواہانہ لہجے میں آج کا پہلا مکمل فقرہ ادا کیا۔

    ’’نہیں ٹھیک تو ہے۔’‘ مرد نے اس کا دل رکھنے کو کہا، ’’ویسے بھی قبض میں بھوک کہاں لگتی ہے؟‘‘

    ’’صبح سے بھوکے ہیں، دو چار نوالے تو لے لیں۔’‘

    بغیر کچھ کھائے یونہی اٹھ جانا اور اسے اکیلا چھوڑ دینا سخت بےوقوفی کی بات ہوتی۔ چلو دو چار نوالے ہی سہی اور پھر کھانے میںشریک ہونے سے اسے بیوی کے سامنے کچھ دیر بیٹھے رہنے کا موقع بھی ملےگا جو ان حالات میں از بس ضروری تھا کہ وہ خود تو خیر تھا ہی گھر کا ماحول بھی قبضایا ہوا تھا۔ یہ والی قبض بھی اسے ہی توڑنا تھی ورنہ وہ دونوں ٹوٹ جاتے۔ سو اس نے لقمہ توڑا اور روٹی کے ٹکڑے کو دو انگلیوں بیچ دبائے اپنے پورے وجود کے ساتھ بظاہر کھانے میں مصروف اپنی بیوی کو دیکھنے لگا جو تھکن سے چور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔

    وہ عورت زبان سے کچھ کہے نہ کہے اس کے اندر چلتی چکی کی مشقت اس کے چہرے پر ابھر آئی تھی، اسی کی طرح ایک کمزور وجود اورخون بڑھا دینے والی خوش کن خبروں سے مستقل محرومی کے باعث قدرے ستا ہوا اور بےرونق چہرہ لیکن پچھلے چند روز سے جو چل رہا تھا اس باعث اس کا چہرہ زندگی کے رہے سہے آثار سے بھی محروم ہو گیا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ پچھلے چند روز کے یاس کی شدت سے اس کے گالوں کی ہڈیاں کچھ اور ابھر آئی تھیں اور ناک کا بانسا کچھ اور تیکھا ہو گیا تھا۔ اسی کی عمر ایسی بھی نہ تھی، اس سے دس بارہ سال چھوٹی تھی۔ اس حساب سے عمر کی پچاسویں دہائی میں داخل ہونے میں اسے ابھی تین چار سال پڑے تھے لیکن اس وقت یوں دکھ رہا تھا جیسے وہ اس کی بڑی باجی ہو۔ اس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ جب بھی معمول سے بڑھ کر کوئی صدمہ ملتا تو اس پر بڑھاپے کی تہہ بچھ جاتی تھی۔

    اپنی برسوں طویل ازدواجی زندگی میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی بھر فاصلے پر رہے تھے۔ ان کے اندر چلتی سرگوشیاں انہیں اندر ہی اندر کاٹتی رہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے بھیتر سے بےخبر اپنی اپنی بے معنویت میں جیتے رہے۔ ان کے درمیان فاصلہ سمجھ میں آنے والا تھا کہ دونوں نے دو مختلف سیاروں میں جنم لیا تھا۔ عورت نے جس سیارے میں جنم لیا تھا وہاں عورت پن کی نفی ہی بنیادی قدر تھی جو عورت کی نجات کیلئے ازبس ضروری تھی۔ یوں ایک گھٹے ہوئے اور جنس کش ماحول میں پروان چڑھنے کے باعث عورت کیلئے وہ ہمیشہ سے ایک دوسرا آدمی رہا تھا جو اوپر سے صادر کیے گئے ایک فیصلے کے نتیجے میں اس کی زندگی میں چلا آیا تھا مگر اپنے ہارے ہوئے اور جھنجھلائے ہوئے والہانہ پن کے باوجود اس کی عادت نہ پایا تھا۔

    ایک ان کی بیٹی تھی جس نے ان کے درمیان فاصلے کو اپنے وجود سے بھر رکھا تھا۔ اگر یہ گھر گھر جیسا دکھتا تھا تو صرف اسی کے دم سے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی اپنی مجبوریوں کے باعث جینے کے ڈھنگ سے دونوں ہی زیادہ آشنا نہیں تھے۔ دونوں جھینپے جھینپے اور کترائے کترائے رہنے کا مزاج رکھتے تھے۔ پارسال بیٹی کی شادی ہوئی تو گھر میں پھر سے سونا پن لوٹ آیا۔

    کے بعد سے جیسے اس پر سے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔ تب سے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔

    ان کے ایک دوسرے سے جھینپتے اور کتراتے ہوئے جینے کی ذمہ دار ان کی محرومیاں بھی تھیں جو نوع بہ نوع تھیں۔ ان میں وہ بھی تھیں جو معاش سے جڑی ہوئی تھیں۔ عورت نے چوتھائی صدی پہلے اس سے رشتہ جوڑ تو لیا لیکن جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ ایک معمولی اکاؤنٹینٹ جس کی ترقی کے امکانات بھی یونہی سے ہوں اور جو رشوت میں سگریٹ کی ڈبیا تک وصول کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو۔ اس کا نتیجہ تنگی ترشی سے گذر بسر کرنے کے اور بات بات پر خون کے گھونٹ بھرنے کے سوا اور کیا نکلتا؟

    یہی سہی لیکن کم از کم کوئی اپنا ٹھکانہ، کوئی مستقل پتا تو ہو۔ اتنے بہت سارے سال گزرنے کے باوجود اب بھی کسی شادی یا مرگمیں اسے اپنے خوشحال رشتے داروں کے ان پوچھے سوالوں کا سامنا تو نہ کرنا پڑے۔ اگر اطمینان کی کوئی ایک بات کہا جائے تو یہ کہ وہ کرائے داروں کے قدرے معزز اور محفوظ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، سرکاری ہائرنگ اور پکے ایگریمنٹ والے لوگ جنہیں ہر چوتھے ماہ سامان ڈھونا نہیں پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود مختاری کا یہ عالم کہ اپنی مرضی سے دیوار میں ایک کیل تک تو ٹھونک نہیں سکتے تھے۔ بس یہی ایک محرومی تھی جسے وہ ان سارے برسوں میں عادت نہ بنا سکی۔ وہ ساری محرومیاں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتے چلے جانا تھا، ان میں آزادی سے محرومی شامل نہ ہوتی اگر ان کے سر پراپنی چھت ہوتی۔ چلو نہ سہی لیکن وہ تو نہ ہوتا جس کا ہونا قدرت کی کھلی سازش کے سوا کیا تھا؟

    پہلی بیٹی کے کئی برس بعد جب حیدر اور عباس پیدا ہوئے تو ان کا گھر پھولوں اور تتلیوں سے بھرگیا تھا۔ ان کی زندگی اچانک سے اتنی مصروف ہوگئی کہ ذاتی گھر، اپنی چھت وغیرہ وغیرہ، انہیں کچھ بھی یاد نہ رہا۔ ایک کھلکھلاتی بیٹی اور دو دمکتی پیشانیوں والے جڑواں بیٹے، اب وہ گھونگھٹ کاڑھے کیوں پھرے، کیوں نہ لوگوں کو مضبوط قدموں چلتی اپنے پر غرور ہونے کی خبر دے؟ سو وہی نہیں اس کا شوہر اور بیٹی بھی اڑے اڑے پھرتے رہے یہاں تک کہ کسی نے اچانک موم بتی کو پھونک ماردی اور گھر بھر میں گہری خاموشی اور ٹھنڈی ٹھار تاریکی چھا گئی۔

    ان دونوں باپ کے شینہ جوانوں کی عمر کا پانچواں برس پورا ہونے سے پہلے ایک قاتل دسمبر آیا تھا جب انسانی آبادیاں قدیم برفانی دور میں داخل ہو گئی تھیں۔ تب ساتوں براعظموں میں کئی روز تک برف کی بارش ہوتی رہی تھی۔ برسوں بعد لکھی جانی والی تواریخ میں مرقوم ہوگا کہ ان دنوں برفانی طوفانوں کی یلغار کا یہ عالم تھا کہ جہنم کے ساتوں طبقات بھی برف کی دبیز تہوں میں چھپ گئے تھے۔ ایسے میں ان کا گھر کیسے بچتا؟ سو ایک صبح انہوں نے دیکھا کہ رات بھر کی برفانی بارش نے ان کا صحن برف کے بڑے بڑے تودوں سے بھر دیا تھا۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا کہ ان کے حیدر اور عباس اپنے بستر میں نہیں تھے۔ وہ جب انہیں اپنی باہوں میں اٹھائے ہسپتال کی سمت ننگے پاؤں دوڑ رہے تھے تو ادھ راہ انہوں نے پتھرائی آنکھوں دیکھا کہ وہ دونوں سنو مین بن چکے تھے۔

    ان کے خلاف نامعلوم وجوہ کی بنا پر روا رکھی جانے والی سازش میں یہ بھی شامل تھاکہ برفانی بارشیں جاتے جاتے تند ہواؤں کو ان کے گھر کا قبضہ دیتی جائیں۔ سو اب وہاں برسوں تک شرلاٹے بھرتی ہواؤں نے چکرائے پھرنا تھا۔ جب سے ان کا گھر تند ہواؤں کی تحویل میں آیا تھا دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلق بھی کچھ زیادہ ہی برادرانہ تکلف والا ہو گیا تھا، جب مل بیٹھے تو تھوڑی گپ شپ لگالی ورنہ اپنا اپنا کنج عافیت تو ہے ہی۔ خیر گذری کہ ان کی بیٹی جی دار نکلی۔ جب اس کے بھائی برفانی تتلیوں کے تعاقب میں گئے تو وہ بالڑی سی تھی جس کیلئے وہ دونوں پلاسٹک کے گڈے تھے جن کی وہ روز شادی رچایا کرتی تھی اور اس کیلئے اسے جانے کس کس سہیلی کی منتیں کرنا پڑتی تھیں کہ اپنی گڑیائیں کسی اور کے نام نہ کریں۔ اس روز جب اس نے اپنی ماں اور باپ کو ہسپتال سے یخ بازو لیے لوٹتے دیکھا تو وہ دھک سی رہ گئی۔ بہت روئی کرلائی، بہت تڑپی تڑپائی لیکن تابکے؟ ہوتے ہوتے اس کا بین کرنا جب کبھی کبھار کی ہچکیوں میں بدلا تب بھی وہ اکثر آسمان کو دیکھ کر فریاد کیا کرتی تھی، ’’اللہ جی،اتے پالے پالے سے تو وہ تھے، یہ کیا کیا؟‘‘

    تب اس نے ایک نظر ماں ا ور باپ کے سیاہ پڑتے چہروں کو دیکھا اور یک لخت بہادر بن گئی۔ اس نے الٹی ہتھیلی سے اپنے آنسوپونچھے اور انہیں دکھا دکھا کر مسکرانے لگی۔ وہ جماندرو سیانی اور زندگی سے لبریز تھی سواتنی سی عمر میں ان کی بڑی آپا بن کر خود پر انہیں جینے میں مدد دینے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اس نے اتنی شدت سے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی کہ ان کیلئے کھل کر سانس لینا ممکن ہوگیا۔ سنو مین آسیب کی صورت اب بھی گاہے گاہے گھر کا چکر لگایا کرتے تھے لیکن جیسے آتے ویسے چلے جاتے، بہت ہوا تو تھوڑا بہت رونا دھونا ہو گیا ورنہ زندگی ان کی بیٹی کی سیانپ کے طفیل معمول کی چال چلتی رہتی۔

    جب وہ بھی رخصت ہوئی تو اس گھر نے ایک بار پھر لمبی چپ اوڑھ لی۔ وہ پھر سے اداس تھے اور خاموش تھے، ایسے میں کوئی بڑی آپا جیسی بیٹی نہ تھی جو بڑھ کر انہیں گدگدی کرکے کھلکھلانے پر مجبور کرتی۔ تب دونوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر ایک دوسرے کو تھام لیا۔ بہت کچھ ایسا بھی تھا جو نہیں بدلا تھا لیکن کچھ نہ کچھ تو ان کے درمیان ضرور بدلا تھا۔ اس کیلئے بیٹی کے سکھائے ہوئے اسباق ان کے بہت کام آئے تھے جنہیں اچھے بچوں کی طرح دہراتے ہوئے انہوں نے کام چلاؤ حد تک ہی سہی رشتوں کے بغیر زندگی کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔

    اب وہ دونوں بوڑھے ہوچلے تھے۔ مرد کی ریٹائرمنٹ کو بھی ایک ڈیڑھ برس ہی رہ گیا تھا۔ اب انہیں حیدر اور عباس کے آسیبوں کی پیہم یلغار سے بچنے کیلئے کسی بھاری مصروفیت کی ضرورت تھی کہ جس میں وہ ایسے مگن ہوتے کہ دکھن کا احساس ہی نہ رہتا۔

    ’’آؤ امید امید کھیلیں۔’‘، اس نے کہا اور ایک بھولی بسری امید کو چمکا کر اپنی بیوی کے سامنے رکھ دیا۔ بیوی نے بھی گہرا سانس لیا اور مسکرا دی۔

    ریٹائرمنٹ پر ان کے گھر میں اتنا پیسہ تو ضرور آنا تھا کہ وہ ایک مختلف زندگی جی سکتے۔ بھلے سمے انہوں نے ایک نئی آبادی میں پانچ مرلے کا پلاٹ لے رکھا تھا۔ ان پیسوں سے وہ اس پر چھت بھی ڈال سکتے تھے اور کچھ پیسے بچا کر سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید سکتے تھے۔ اب ان کے پاس جی بہلانے کیلئے امکانات کے رنگ برنگے کھلونے تھے جن سے وہ روز خوب خوب کھیلا کرتے تھے۔ وہ کہ سنو مین کی یلغاروں سے تھکی ہوئی تھی، امید کے اس کھیل میں اپنی عادت کے برخلاف کھل کر شریک ہونے پر آمادہ تھی۔

    ’’ہم پتا ہے کیا کریں گے؟‘‘وہ دریافت کی سنسناہٹ میں آئے بچے کے سے جوش کے ساتھ کہتا، ’’ہم اپنے گھر کے کچے صحن میں کچن گارڈننگ کیا کریں گے، ذرا سوچو کہ تازہ سبزیاں اور زہریلے پانی کے بغیر۔’‘

    ’’اور پھل دار درخت بھی لگائیں گے جن پر پرندے بسیرا کیا کریں گے۔’‘ وہ جس امید سے برسوں پہلے دستبردار ہوچکی تھی اس کے اچانک سے زندہ ہونے پرسہمی ہوئی خوشی کی دھیمی سی لے میں کہتی، ‘’میں درختوں پر چڑھ کر امرود توڑا کروں گی۔’‘

    ’’تم؟‘‘ وہ تصور میں اسے درخت پر چڑھے دیکھ کر خوب ہنسا، ’’تم درخت پر چڑھو گی اس عمر میں؟‘‘

    ’’کیوں اس میں عمر کا کیا ہے؟‘‘وہ کھسیانی سی رہ جاتی۔

    ’’ارررے نہیں، میں تو یونہی۔’‘وہ اس کا دل دکھنے کے خیال سے فوراً بات بدلتا، ’’ایسا نہ کریں کہ اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا پولٹری فارم بھی بنالیں؟ سٹیرائڈز والی مرغیوں سے تو نجات ملے۔’‘

    اس بار ہنسنے کی باری عورت کی تھی۔

    ’’بس کرو، اب اتنا اونچا بھی نہ اڑو کہ پر ہی اکھڑ جائیں۔’‘وہ اس کی بیوقوفانہ منصوبہ سازی پر خوب ہنستی، ‘’پانچ مرلے کا پلاٹ ہے ایکڑوں کی جاگیر نہیں ہے ہماری۔’‘

    ’’جاگیر ہی تو ہے۔’‘وہ رندھے ہوئے جذبات میں اس کا ہاتھ تھام لیتا، ’’ہم تو اتنے کے قابل بھی نہ تھے۔’‘

    کچھ دیر خاموشی رہتی جس دوران مہ و سال کی گزران ان میں دکھ کی تلخی بھر دیتی۔

    ’’ہم سارا پیسہ مکان پر خرچ نہیں کریں گے۔’‘وہ جھرجھرا کر خاموشی کو توڑنے کیلئے ایک اور خوش کن خیال پیش کرتا، ’’ہم ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خریدیں گے اور پھر ہم گھر میں نہیں ٹکیں گے، خوب خوب گھوما کریں گے۔’‘

    ’’لیکن آپ نے تو کبھی سٹیرنگ پکڑ کر بھی نہیں دیکھا۔’‘

    ’’تو کیا ہوا، کسی بھی ڈرائیونگ سکول سے ہفتے بھر میں سیکھ لوں گا۔’‘

    ‘’ٹھیک ہے لیکن کبھی پلاٹ کا چکر بھی لگالیا کریں، آجکل قبضہ گروپ کتوں کی طرح سونگھتے پھرتے ہیں۔’‘

    ’’فکر نہ کرو ہمارے پلاٹ پر چاردیواری بھی ہے اور ایک کمرہ بھی بناہوا ہے، ایسے پلاٹ پر ہاتھ مارنا اتنا آسان نہیں۔’‘

    وہ کہنے کو تو کہہ دیتا لیکن یہ دراصل خود کو دی جانے والی طفل تسلی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ یہاں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔

    ان کی ایسی ہی خیال آرائیاں اصل میں ایک کھیل تھا، خود کو یقین دلانے کا حیلہ کہ زندگی کا بوجھ انہیں کبھی توڑ نہیں سکے گا۔ انہیں پہلے کبھی ایسا کھیل سوجھا ہی نہیں تھا، اب جو سوجھا تو بیٹی کی رخصتی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کیلئے وہ دل سے اس میں شریک تھے کہ دونوں زندہ رہنا چاہتے تھے۔

    اس کھیل کے دوران وہ بہت کچھ بھلائے جب ایک خواب میں اترے تو دیکھا کہ ایک جنگل تھا ،چیڑ، دیودار اور بلیو پائن کی باوقار ترتیب سے سجا ہوا۔ وہاں چہار سمت گھاس اور ننھے پودوں کی گہری سبز دبازت سے بلند ہوتے اور کھردری ملائمت میں زمانوں کے اسرار کو چھپائے آسمان کی جانب نگران تنے تھے اور بہت اوپر ان میں سے پھوٹتی مضبوط شاخوں کے بازو تھے جن کے دعا کیلئے اٹھے ہاتھوں میں اترتا ہوا سبز جمال تھا اور پھر ان کے سر پر پھیلے گھنے پن میں اترتی روشن کرنیں، اس ایک سبز رنگ کو لاتعداد شیڈز میں تقسیم کرتی اور چاروں اور امڈتی دھند کے قلب میں صبح کے مقدس اجالے کو جگاتی ہوئی اس جنگل کو ناقابل تسخیر حسن کے وفور سے بھر رہی تھیں۔ وہیں تتلیوں کی لہراتی اڑان، لمبی لمبی نیلی دموں اور سنہری چونچوں والے پنکھیوں کی بے تکان چہکار اور حیران نگاہوں تکتی گلہریوں کی سبک روی بیچ نامعلوم کو جاتا ایک راستہ نکلتا تھا جس پر دھند کے مرغولوں کا پہرہ تھا، یہ راستہ دور کہیں ایک نرم روشنی کے گداز قلب میں اتر جاتا تھا۔

    وہ اس اساتیری جنگل میں کھوئے ہوئے اس راستے پر اترے جہاں بس تھوڑی ہی دور چل کر ان کے خواب کو ٹوٹ جانا تھا۔

    اور پھر ایک دن ان کا خواب یوں کرچیوں میں بٹا جیسے فرش پر پڑے کانچ کے گلاس کو کوئی بے دھیانی میں ٹھوکر مار دے۔

    ’’ہیلو، امی! وہ۔۔۔ دراصل آپ سے ایک بات کرنا تھی۔۔۔’‘

    ’’ہاں، ہاں بولو۔’‘

    ‘’وہ۔۔۔ یہ کہ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہی امی کیسے کہوں؟‘‘

    ’’کہہ بھی چکو کیا بات ہے۔۔۔ اور سنو! کہیں تم رو تو نہیں رہی ہو؟‘‘

    شام کو شوہر اپنی قدیمی موٹر سائیکل صحن کی دیوار کے ساتھ ٹکاکر مارے تھکن کے بستر پر نیم دراز ہوا تو بیوی آکر سرجھکائے بیڈ کی پٹی پر ٹک گئی اور اس کی سوال پوچھتی نظروں کے جواب میں ایک پھیکی سی مسکان مسکادی۔

    ’’داماد نے پلاٹ کا مطالبہ کیا۔’‘ اس نے دیوار پر رینگتی ایک چھپکلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

    پانی پیتے ہوئے اچھو لگنے کے باعث آدمی کھانستے ہوئے ادھ موا ہو گیا۔

    ’’میں نے بہت کہا سنا، صاف انکار کر دیا لیکن وہ تلا ہوا ہے۔’‘

    آدمی بیوی کے پیلے پڑتے چہرے کو دیکھے گیا۔

    ’’کہتا ہے کہ کاروبار میں گھاٹا پڑ گیا ہے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔’‘

    تب بہت کچھ ہوا، بہت کچھ کہا گیا، بہت کچھ سنا گیا، کبھی کومل تو کبھی پنچم لیکن آخر میں وہی ’’طلاق دے دوں گا۔۔۔ پلاٹ پر بندے بھیج دوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    اس رات وہ دیر تک کنول آسن میں ایک دوسرے کے سامنے گود میں ہاتھ باندھے بیٹھے رہے ۔ پھر اس نے بخار میں پھنکتی بیوی کو دوا پلائی اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا کہ صبح اسے کچہری جاکر اپنا خواب ایک دوسرے آدمی کے نام لگانا تھا۔

    اس کے ہاتھ میں نوالہ دبا ہوا تھا جسے کھائے بغیر اس نے واپس رکھ دینا تھا، اس دوران وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو تھکن سے چور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔ اب تو اس کے پاس کوئی بہلاوا بھی نہ تھا کہ اپنے ساتھ ساتھ جینے والی بیوی کو بہلا سکے۔

    ’’یوں کتنے دن جی پائےگی یہ؟‘‘ مرد نے دکھ سے سوچا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔

    ان کے بیچ ایک طویل اور دم گھونٹ دینے والی خاموشی اتر آئی تھی، ایک خلا جسے عورت نے اپنی آواز سے بھرنے کو کہا:

    ’’اسپغول کا چھلکابھی ختم ہو گیا ہے، میں جاکر لے آتی ہوں۔’‘

    ’’کیوں، تم کیوں جاؤگی؟، میں نے سگریٹ لینے بھی تو جانا ہے، وہ بھی لیتا آؤں گا۔’‘

    وہ اٹھنے کو تھا کہ دروازے پر بیل بجی جو ان کیلئے سخت غیر متوقع تھی۔ عورت نے سراٹھا کر کچھ سوچا اور دھیرے سے کہا:

    ’’جائیے، حیدر اور عباس آئے ہوں گے۔’‘

    اس نے کمرے کے درمیان کھڑے ہوکر پتلون کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے اور ہولے سے مسکرایا:

    ’’نہیں ہماری بیٹی ہے۔۔۔ کچہری میں ملی تھی ،بتارہی تھی کہ وہ ہمیشہ کیلئے ہمارے ساتھ رہنے آئے گی۔ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ حیدر اور عباس بھی آئیں گے ہمارے ساتھ رہنے کیلئے۔’‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے