Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواہ مخواہ کی زندگی

رفاقت حیات

خواہ مخواہ کی زندگی

رفاقت حیات

MORE BYرفاقت حیات

    اس کے بلاوے پر میں اس دوزخ میں کیوں آ گیا۔ گیلی لکڑیوں کے چبھنے والے دھویں سے بھرا یہ چھوٹا سا ہوٹل دوزخ ہی تو تھا۔ کتنی گھٹن تھی اور گرمی بھی۔ نہ کھڑکی نہ روشن دان، بس ایک دروازہ۔ اندر گھسنے کے لیئے آنکھیں جل رہی تھیں۔ لگتا تھا، پلکیں جھڑ جائیں گی۔ سانسوں کا زہر بھی گلے میں اٹک جاتا تھا۔ میں لوگوں پر حیران تھا۔ وہ آپس کی باتوں میں گم تھے اور کچھ چائے میں مگن تھے۔ میں اونچی نیچی آوازیں سن رہا تھا۔ کمرے میں کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں نے بھی دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں انتظار کی گھڑیاں گن رہا تھا اور سوچ رہا تھا۔ بہت ہو چکا۔ وہ نہیں آئےگا۔ میں اٹھ کر دوبارہ بیٹھ جاتا تھا۔ بس آتا ہوگا، آج میں اس خبیث کو اپنی اذیت ناکی سے لطف اندوز نہیں ہونے دوں گا۔ اس نے مجھے اسی مقصد کے لیے بلایا تھا لیکن۔ میں کس لیے بیٹھا تھا۔

    میں اٹھ نہیں سکا۔ سانسیں پھول گئیں۔ سینے میں درد اٹھنے لگا۔ میں نے دروازے پر نگاہ کی۔ چولہے پر کھڑے آدمی کا آدھا چہرہ دکھائی دیا۔ وہ ہاتھ والے پنکھے سے کوئلوں کو ہوا دے رہا تھا۔ میں باہر کیوں نہیں نکل جاتا۔ میری کوشش کامیاب رہی۔ میرے جسم کو مجھ پر رحم آ گیا۔

    مجھے ہوٹل کے مالک کی گھورتی آنکھوں کی پرواہ نہیں تھی۔ گلک پر بیٹھے، پیسے گنتے ہوئے وہ ہر شے کو انہی نظروں سے دیکھنے لگا تھا۔ بازار میں بہت لوگ تھے۔ سارے اوباش، حرام کے پلے، لگتا تھا وہ کسی کو کھ سے نکل کر سیدھے یہاں آ گئے۔ وہ کینہ توز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ کوئی ذرا غافل ہوا تو ٹوٹ پڑیں گے۔ کاٹ کھائیں گے۔ میں سنبھل کر چلنے لگا۔ کسی دھکے پر گر گیا تو یہ روند ڈالیں گے۔ یہ میری لاش پر ناچیں گے اور اسے گلی کوچوں میں کھینچتے پھریں گے۔

    میری ٹانگیں شل ہو گئیں۔ ٹہرنا ممکن نہیں تھا۔ کوئی جگہ بھی نہیں تھی۔ میں وہاں سے کیوں نکل آیا۔ اب تک وہ آ چکا ہوگا، اور مجھے نہ پا کر لوٹ جائےگا۔ میں چلنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے مجھے ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ میرے پیچھے کئی نیزے تھے۔ مجھے رکنا ہوگا، رک کر مڑنا ہوگا۔ لیکن میرے پیچھے کیا تھا۔ کیسی غیر انسانی آواز تھی۔ لوگوں نے راستہ خالی کر دیا تھا۔ ایک موٹا بھدا شخص مجھے دیکھ کر چلا رہا تھا۔ وہ اشارے کر رہا تھا۔ سمٹے ہوئے لوگ پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ کیا ہو رہا تھا۔ میں انہیں اپنا تماشا نہیں دیکھنے دوں گا، میں نے تیز تر چلنے کی کوشش کی۔ وہ آواز میرے تعاقب میں تھی۔ موٹا شخص میری طرف دوڑ رہا تھا۔ وہ دھکے سے مجھے گرادے گا۔ مجھ میں دوڑنے کی سکت نہیں۔ میں خود کو اس کی زد میں آنے سے بچا نہیں سکتا۔ اس نے مجھے دھکا دیا۔ میں ہجوم کے قدموں میں جاگرا۔ وہ گالیاں دینے لگا۔ لوگ میرے گرد جمع ہو گئے۔ وہ ہنس رہے تھے اور مجھ پر فقرے اچھال رہے تھے۔ میں نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ میرے بس میں ہوتا تو سب کے چہروں پر تھوک کر بھاگ جاتا۔

    میں نے کسی سے ہمدردی نہیں مانگی۔ لیکن ایک داڑھی والا شیطان ہجوم سے نکل کر ہمدردی جتانے لگا۔ وہ اپنی خباثتوں کی پردہ پوشی چاہتا تھا اور میں نے موقع فراہم کر دیا تھا۔ اس نے موٹے آدمی کو چپ کرا دیا۔ ہجوم کو منتشر کیا۔ مجھے اٹھنے میں مدد دی۔ میں داڑھی نوچ لیتا۔ اس کا عمامہ نالی میں گرا دیتا۔

    میں جس مکان میں رہتا تھا۔ وہ ڈیڑھ میل دور شہر کے آخری محلے میں واقع تھا۔ وہاں تک پہنچنا مشکل تھا۔ رستے میں ہی دم نکل جاتا۔ میں ہوٹل کی طرف چل دیا۔ اس خبیث سے ملنا بھی ضروری تھا۔ وہ کبھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔ بس پیغام بھیج دیتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس سے ملنا میری مجبوری تھی۔ اس کی لائی ہوئی خبریں میری زندگی کا باعث تھیں۔

    مجھے چھ مہینے سے اس کا پیغام نہیں ملا تھا۔ میں اسے اور اس کی خبروں کو فراموش کرتا جا رہا تھا۔

    میرے اندر کل شام کشمکش ہونے لگی۔ میں ا س سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ جو بیت چکا۔ اب اس کی یاد بھی مٹتی جا رہی تھی۔ جو باقی رہ گیا۔ وہ کوئی دوسری چیز تھی۔

    میں رات بھر سو نہیں سکا۔ کمرے میں ٹہلتا رہا۔ میں جو کچھ بھوگ چکا تھا۔ اس کی رائے گانی کا خیال اذیت ناک تھا۔

    اب کوئی امید نہیں تھی۔ ایک سال گزر گیا۔ زندگی بھی کٹ جائےگی۔

    میں اپنے پیروں کی طرف دیکھتا چل رہا تھا۔ اب لوگوں کی نظروں اور بیہودہ باتوں کی پرواہ نہیں تھی۔

    وہ میرا منتظر تھا۔ اس نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس نے معذرت نہیں کی اور نہ دیر سے آنے کی وجہ بتائی۔

    ہم دھواں آلود کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ اس نے چیخ کر چائے کا آرڈر دیا۔

    وہ بار بار اپنی عینک کو درست کرتا مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظروں میں تمسخرانہ چمک تھی۔ وہ میری حساسیت سے لطف لینا چاہتا تھا۔

    میں نے اپنا چہرہ سخت کر لیا۔ سینے کو بھی تان لیا کہ وہ مجھے کمزور خیال نہ کرے۔

    اس نے حسب عادت میری صحت کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔

    میں نے اس کی رائے کو مسترد کر دیا۔

    اس نے میری مصروفیت کے متعلق پوچھا۔

    میں نے بتایا کہ مکان میں رہتا ہوں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔ میں جانتا تھا کہ وہ کتابوں کے بارے میں نہیں پوچھےگا۔ اس نے میری بیروزگاری پر افسوس ظاہر کیا۔

    وہ عام سا گھٹیا آدمی تھا۔ جس کے پاس گفتگو کے لیے باتیں نہیں تھیں۔ اسی لیے عورتوں کی زبان بول رہا تھا۔ میری مجبوری تھی کہ انہیں سنتا رہوں اور مختصر جواب دے دوں۔

    میں نے جان بوجھ کر اصل بات نہیں پوچھی کہ اسے میری وابستگی کا اندازہ نہ ہو جائے۔

    مجھے یقین تھا کہ وہ خود ہی سب کچھ بتا دےگا۔

    وہ خود کو میرا دوست کہہ رہا تھا۔ وہ میرے بارے میں فکر مند رہتا تھا اور اس نے کسی اسکول میں میرے لیے بات چلا رکھی تھی۔ پھر وہ اپنے اسکول کے بارے میں مجھے بتانے لگا۔ جہاں سے مجھے نکال دیا گیا تھا۔

    اس نے میرے پوچھے بغیر ہی تمام استادوں او راستانیوں کے متعلق بتا دیا۔

    آخر میں اس نے وہ خبر سنائی جس میں مجھے پیغام بھجوایا گیا تھا۔

    بچے کی پیدائش کا بتانے کے بعد وہ میری طرف دیکھنے لگا۔

    میں نے زور دار خالی قہقہ لگایا۔

    میں نے اس سے کہا، ’’کتیا حاملہ ہوئی اور اس نے بچہ جن دیا۔‘‘

    میں قہقہے لگاتا چلا گیا حتٰی کہ میرے سینے میں درد ہونے لگا اور سانس پھول گیا۔

    وہ مجھے گھورتا رہا۔

    میں نے جتایا کہ اس نے مجھے خوامخواہ تکلیف دی۔

    پھر ہم خاموش ہو گئے۔

    نجانے کیوں میرا جی متلانے لگا۔ ذہن میں گڈمڈ سی تصویریں بن رہی تھیں۔ میں انہیں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر وہ زبردستی میری آنکھوں میں گھسی آ رہی تھیں۔ میں نے آنکھیں میچ لیں۔ وہ اور واضح ہو گئی۔ مجھے ہوٹل کی کوئی شے نظر نہیں آ رہی تھی۔ سب کچھ دھویں میں چھپ گیا تھا۔ وہ دھواں میرے اندر بھی گھس آیا۔ اور طرح طرح کی شبیہیں بنانے لگا۔

    میں جب ہوٹل سے باہر نکلا تو چیزیں صاف نظر آنے لگیں لیکن میرا ذہن ان میں کوئی ربط نہیں پاتا تھا۔

    ہجوم، سامان سے بھری دوکانیں، آوازیں، یہ سب کیا تھا؟ کیوں تھا؟

    میں راستے کے بیچ نہیں کونوں پر چل رہا تھا۔ میں نے کسی چہرے کی طرف نہیں دیکھا۔ آنکھوں میں نہیں جھانکا۔ سب مجھے جانتے تھے۔ میرے وجود سے خائف تھے۔ مجھے خبر نہیں تھی کہاں جا رہا ہوں؟ کہاں جانا ہے؟ میں اس پاگل خانے سے نکلنا چاہتا تھا۔

    میں ایک تنگ سی گلی میں مڑ گیا۔ وہ دھواں اندر سے نہیں نکلا تھا۔ مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا اور مہیب شکلیں بنا رہا تھا۔ ایک سوراخ چھوٹا سا، کسی غلیظ مادے سے لتھڑا ہوا۔ وہ بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں سے گاڑھے، لجلجے خون کی دھاری بہہ رہی تھی، پھر اس میں سے ایک سر باہر نکلا۔ خون کی طرح لال، انسانی بچے کا سر، پھر اس کی گردن، سینہ، بازو حتٰی کہ وہ سارا باہر گر گیا۔ سوراخ سکڑنے لگا اور چھوٹا ہو گیا۔ بچے کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ غوں غوں کر رہا تھا۔

    ہر بار مڑنے کے بعد میں ایک نئی گلی میں داخل ہو جاتا تھا۔ ساری گلیاں ایک جیسی تھیں۔ گندی نالیاں تھیں اور ان پر غلاطت کے ڈھیر تھے۔ سرخ اینٹوں اور گارے کے مکان کھنڈروں کی طرح تھے۔ سب دروازے پرانی لکڑی کے تھے۔

    گلیوں میں ہجوم نہیں تھا۔ اِکا دًکا راہ گیر تھے۔ میں جلد از جلد پہنچنا چاہتا تھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن میں سکون سے رہتا تھا۔ وہاں کی دنیا میری تخلیق کردہ تھی۔ ہر شے میرے تابع تھی۔

    لیکن میں کہاں جا رہا تھا؟

    شاید گھر پہنچنا اہم نہیں تھا۔ مجھے ان چیزوں سے نجات پانا تھی۔ جو میرے ذہن میں کلبلا رہی تھیں۔ ایک عورت نزع کے عالم میں تڑپ رہی تھی۔ اس کا عضو عضو کرب میں تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ وہ چیخ رہی تھی، لگتا تھا، مر جائےگی اس کی چھاتیوں سے دودھ کی دھاریاں بہہ رہی تھیں، اس کا ابھرا ہوا پیٹ شکن آلود تھا اور تشنج میں مبتلا تھا۔

    میں اس عورت کی موت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر میں اس خبیث دوست سے نہ ملتا تو اچھا تھا۔ اب وہ قہقہے لگا رہا تھا۔ اس نے بہت کار گر وار کیا تھا۔

    میں ایک چوراہے پر پہنچ گیا۔ ایک گلی بڑی سڑک کو جاتی تھی۔ میں اس طرف چل دیا۔

    ایک پارک نظر آیا۔ خواہش تھی کہ سستالوں۔ مگر وہاں بچے شور مچا رہے تھے۔ مرد تاش کھیل رہے تھے اور عورتیں باتوں میں مشغول تھیں۔

    مجھے راستے کا پتہ چل گیا۔ میں دریا کی طرف اترنے والی سڑک پر چلنے لگا۔

    شام ڈھلنے والی تھی۔ ٹھنڈی ہوا میرا چہرہ کاٹ رہی تھی۔ آسمان بادلوں میں چھپا تھا۔ زمین پر دھند پھیلتی جا رہی تھی۔

    وہ عورت ابھی تک تڑپ رہی تھی۔ میں اس کی چیخیں سن رہا تھا۔ اس کے جسم کا تشنج دیکھ رہا تھا۔

    اب ایک مرد بھی اس کے ساتھ تھا۔ وہ اس کے جسم سے لپٹا تھا۔ اس کے ہونٹ عورت کے جسم پر ناچ رہے تھے۔ چہرے پر، سینے پر اور نیچے۔ وہ ہنس رہی تھی۔ لذیذ سسکیاں بھر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ مرد کے بالوں میں الجھے تھے۔ جب وہ دوبارہ اس کے ہونٹوں تک پہنچا تو اس نے شہوت بھرا قہقہہ لگایا۔ اس کی گردن میں با نہیں ڈال دیں۔ اس کے چہرے کو چھاتیوں پر دبانے لگی۔

    وہ شیطان اس کے جسم پر اچھل رہا تھا۔ نیچے وہ تڑپ رہی تھی۔ وہ اسے پرے دھکیلتی تھی۔ گالیاں دیتی تھی اور ہنستے ہوئے اس سے لپٹ جاتی تھی۔

    سفید چادر سرخ ہو گئی تھی۔ بستر سے ٹپکتا خون، فرش پر بہنے لگا تھا۔

    عورت بےہوش تھی۔ مرد بستر سے اترا اور کہیں سے تیز دھار والی چھری لے آیا۔

    اس نے صفائی سے پہلے چھاتیاں کاٹیں، پھر ہونٹ، ناک اور آنکھیں۔

    وہ کوئی فنکار تھا، لگتا تھا کہ کینوس پر عورت کے زندہ اعضا تخلیق کر رہا ہے۔

    سورچ پل کے عقب میں غروب ہو رہا تھا۔ میں دریا کے کنارے ایک ہوٹل میں جا بیٹھا۔

    مجھے جسم کے بوجھ کے سوا کچھ یاد نہ تھا۔ انسانی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ سائے آس پاس منڈلا رہے تھے۔ میں اپنی ذہنی حالت کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا تاکہ صورت حال بہتر ہو مگر ذہن پر اختیار نہیں رہا تھا۔

    میں چائے پینے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اب اندر کچھ بھی نہیں رہا۔

    نجانے کیوں میرا ذہن مالک مکان کی بیوی کے متعلق سوچنے لگا۔

    وہ فاحشہ تھی۔ شوہر کی غیرموجودگی میں بالکونی پر لٹکی رہتی تھی یا دروازے سے گلی میں جھانکتی رہتی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں شہوانی چمک عود کر آئی تھی۔ مگر میں اس سے نفرت کرتا تھا۔ وہ موٹی اور بھدی تھی۔ ہروقت رنڈی کی طرف بنی ٹھنی رہتی تھی۔

    میں نے کچھ لوگوں کو اس کے گھر آتے جاتے دیکھا تھا۔ ان میں سے چند نے میرے سامنے اس کے ساتھ تعلقات کا اعتراف بھی کیا تھا۔

    وہ اس وقت میرے ذہن میں کیوں در آئی۔

    میں نے چائے ختم کی اور وہاں سے چلا گیا۔

    میرا گھر نزدیک تھا لیکن مجھے وہاں کی تنہائی اور خاموشی سے ہول آنے لگا تھا۔ میرا خود سر تخئیل ہر لمحے نت نئی مکروہ شکلیں بنا رہا تھا۔ میں ان کے گھناؤنے پن کو بھی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ گھر میں اس کی خود سری زیادہ نہ ہو جائے۔

    شاید یہ تھکاوٹ کے سبب تھا۔ کل شب نیند بھی نہیں آئی تھی۔

    میں دریا کے ساتھ ویران سڑک پر چل رہا تھا۔ دریا کا پانی سرمئی ہو گیا تھا۔ وہ خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ اس نے کتنی مسافت طے کی تھی اور تھکا بھی نہیں تھا۔ اس کے لہجے اور چال میں جھلاہٹ نہیں تھی۔ وہ باوقار تھا مگریہ وقار مصنوعی تھا۔ بالکل جھوٹا۔ دریا بہت منافق اور دوغلا ہوتا ہے۔ وہ اپنے جذبات کا پتہ نہیں چلنے دیتا۔ اچانک وار کرتا ہے۔ سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ دریا۔ دوغلا۔

    میں نے آسمان کو دیکھا تو لرز کے رہ گیا۔ وہ ابھی تک بادلوں سے اٹا تھا۔ دن کے وقت بے ضرر دکھائی دینے والے بادل خوفناک لگ رہے تھے۔ میں نے نظریں جھکالیں۔

    سڑک کے ساتھ بنے مکانوں میں بتیاں روشن ہو گئی تھیں۔ آسمان کے نیچے یہ مکان عجیب لگ رہے تھے۔

    میں اپنی گلی تک پہنچ گیا۔ میری گلی تاریک رہتی تھی۔ چلتے ہوئے اکثر کسی پتھر، اینٹ یا کچرے کی ڈھیری سے ٹھوکر لگ جاتی تھی۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے کچھ سال گزر گئے تھے۔

    میری گلی کو ایک کتے نے اڈہ بنا لیا تھا۔ مجھے یاد ہے جب وہ نیا آیا تھا۔ تو روز کسی کتے سے اس کی جنگ ہوتی تھی۔ اس نے سب کو بھگا کر اپنا اجارا قائم کر لیا تھا۔ وہ بہت سیانا تھا۔ روز کسی کتیا کو گھیر لاتا تھا اور حاجت پوری کر کے بھگا دیتا تھا۔

    وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا۔ اس لیے ٹس سے مس نہ ہوا۔

    میں نے غلط چابی تالے میں لگا دی۔ میں درست چابی ڈھونڈ رہا تھا کہ ساتھ والا دروازہ کھلا۔ مالک مکان کی بیوی نے باہر جھانکا۔

    بلب کی روشنی نے گلی میں ایک چوکھٹا بنا دیا تھا۔ جس میں اس کا بے ڈھب سایہ مجسم کھڑا تھا۔

    میرے لیے اس سے آنکھیں ملانا ممکن نہیں تھا۔ اس کے جسم کو دیکھتے ہی میرے خون کی گردش تیز ہونے لگتی تھی۔

    جسم کانپنے لگتا تھا، چابی تو مل گئی لیکن تالا نہیں کھل رہا تھا۔

    گلی میں کوئی آدمی چلتے چلتے رک گیا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی۔

    میں دروازہ کھول کر اندر گھس گیا۔ کنڈی بند کی اور بستر پر جا گرا۔

    میں اس حرافہ کے متعلق سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن وہ میرے اندر سرگوشیاں کر رہی تھی، قہقہے لگا رہی تھی۔ میں یہ مکان چھوڑ دوں گا۔ مجھے اس آدمی پر غصہ آنے لگا۔ میں نے جسے دیکھا نہیں تھا۔ وہ اب اس کے جسم سے لپٹ گیا ہوگا۔ اس کے بے رس ہونٹوں سے لذت کشید کر رہا ہوگا۔ مجھے اس حرام زادی سے کیا مطلب۔ میرا جسم نڈھال ہو گیا تھا۔ کسی عضو میں کوئی جنبش نہ رہی تھی۔ آنکھیں کہیں ٹکی ہوئی تھیں مگر دیکھ نہیں رہی تھیں۔

    نسوانی قہقہہ سنتے ہی میں دروازے کی طرف لپکا۔ کنڈی کھول کر باہر جھانکا۔

    وہ اندر جا چکی تھی۔ گلی میں وہ آدمی دکھائی دیا۔

    میں نہ جانے کتنے گھنٹوں تک مردہ لیٹا رہا۔ شاید نیند آ گئی تھی۔ میں اٹھ بیٹھا۔ تیز بھوک لگ رہی تھیں۔ پرسوں والی ڈبل روٹی سے صبح کو ناشتہ کیا تھا۔ اس کے کچھ ٹکڑے بچ گئے تھے۔ چوہوں کا خیال آتے ہی کھاٹ سے اترا۔ جہاں وہ رکھی تھی مل گئی۔ مگر دودھ پھٹ گیا تھا۔ میں نے برتن دھو کر سلیمانی چائے بنائی۔

    سلیمانی چائے میں ڈبل روٹی کے بھیگے ہوئے ٹکڑے کھانے کے بعد میں نے خود کو بہتر محسوس کیا۔

    کوئی اہم بات ذہن سے اتر گئی تھی۔ میں اسے یاد کرنے لگا۔

    مجھے اپنے دوست کی سنائی ہوئی خبر یاد آ گئی۔ اس بار کی اذیت زیادہ نہیں تھی۔

    ایک سال بعد بچے کی پیدائش عجیب نہیں تھی۔ وہ عمل حیرت ناک تھا جس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ سال بھر وہ سب کچھ ہو تا رہا جو میرے نزدیک شبے کی بات تھی۔ میں نے کتنی باریک بینی سے ایک ایک نقطے پر غور کیا تھا۔ کتنا وقت صرف کیا تھا مگر یہ کیسے ہو گیا تھا۔

    میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اس گھناؤنی سازش پر مجھے غصہ آ رہا تھا۔

    اس میں کوئی زمینی ہستی ملوث نہیں تھی۔ یہ کسی خبیث بدروح کا کام تھا۔ جس کے ٹھکانے کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ مگر وہ سب کے سروں پر منڈلاتی تھی۔ مجھ پر بھی اس کا سایہ پڑ گیا۔

    مجھے اس عورت کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ جس کے جسمانی اعضاء کو قصائی نے علیحدہ کر دیا تھا۔

    میں اس قصائی کو قتل کر سکتا تھا۔ مگر ابھی صبح میں بہت دیر تھی۔

    میں کئی مرتبہ یہاں سے گزار تو تھا مگر اس کی دوکان کو دھیان سے نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کے محل وقوع پر غور کیا تھا پہاڑی پر واقع بڑے مینار کی بلندی سے نیچے دیکھنے پر بازار کی گلیوں کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ مکانوں کی چھتوں اور بالکونیوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہاں بازار کی وسیع غلام گردش بھی تھی۔ مینار کے ساتھ بل کھاتی سڑک سے اترتے ہی گھنٹہ گھر آتا تھا۔ گھنٹہ گھر چوراہے کا مرکز تھا۔ ایک راستہ دریا کو جاتا تھا اور دوسرا اسٹیشن کو۔ تیسری جانب بازار تھا۔ اسی طرف سبزی منڈی کو بھی چھوٹی سی گلی نکلتی تھی۔ منڈی کی گلیوں کے پیچیدہ سلسلے میں سبزی، پھل اور گوشت وغیرہ کی دوکانیں تھیں۔

    میں سردی سے ٹھٹھرتا اس کی دوکان ڈھونڈنے لگا۔ پیدل چلنے کی وجہ سے کنپٹیوں میں درد ہو رہا تھا۔ شاید دماغ بھی جم گیا تھا۔ میرا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا اور منہ سے بھاپ نکل رہی تھی۔

    بازار بند تھا۔ ابھی چوکیدار بھی چکر لگا رہے تھے۔ انہوں نے موٹے کوٹ پہن رکھے تھے اور سر کو مفلر سے باندھا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں بید کے ڈنڈے تھے۔ ایک چوکیدار کے کندھے پر بندوق بھی لٹکی ہوئی تھی۔ ان کے چہروں پر تھکاوٹ تھی۔ وہ بےزاری دور کرنے کے لیے سیٹیاں بجانے لگتے تھے۔ اگر کسی کو میرے ارادے کی خبر ہو جائے تو کیا ہوگا۔ یہ مجھے پولیس کے حوالے کر دیں گے یا خود ہی بندوق سے مار دیں گے۔

    میں سر جھکائے ان کے نزدیک سے گزر گیا۔ دل کی دھڑکن تیز تھی۔ پاؤں بوجھل تھے۔

    دن کے وقت چوکیدار نہیں ہوتے۔ میں کیوں ڈر رہا تھا۔

    مارکیٹ بدبو سے بھری ہوئی تھی۔ جیسے دوکانوں میں لاشیں رکھی ہوئی تھیں۔

    کیچڑے بھری ہوئی گلیوں میں، میں کپکپا رہا تھا۔

    دو تنگ گلیوں کے نکڑ پر اس کی دوکان واقع تھی۔ بلیاں دوکان کے بند دروازے کو سونگھ رہی تھیں۔

    میں کھڑا ہو گیا۔ ایک گلی سبزی منڈی سے جڑی ہوئی تھی۔ جب کہ دوسری دالگراں بازار کو نکلتی تھی۔ اسی جانب سے فرار ممکن تھا۔ میں اچھی طرح جائزہ لینا چاہتا تھا۔ مگر چوکیداروں کا دھڑکا لگا ہو تھا۔

    میں دالگران بازار والی گلی میں مڑ گیا۔

    اس بازار سے ایک اور گلی پہاڑی والے بڑے مینار کے پیچھے جا نکلتی تھی۔ اگر میں کسی طرح یہاں تک پہنچ گیا تو عافیت ہو گی۔ یہاں راستے کشادہ تھے اور دوڑنے میں آسانی تھی۔

    میں نے فلموں کے سوا قتل کا منظر نہیں دیکھا تھا۔ ناولوں میں اس کے متعلق پڑھا بھی تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مرنے والا آخر ی سانسوں میں کیا محسوس کرتا تھا۔ اس کا ذہن کیا سوچتا تھا۔ کچھ سوچتا بھی تھایا نہیں۔ شاید زخم کی اذیت محسوسات پر حاوی ہو جاتی ہو۔ موت اس کے گمان میں بھی نہ ہو۔

    پیش گفتہ واقعے کے متعلق میں پر یقین تھا۔ وہ میرے ذہن میں اپنی جزئیات سمیت مکمل ہو چکا تھا۔ گھنٹہ گھر والے راستے سے منڈی میں داخل ہو کر اسے دوکان پر قتل کرنا تھا اور دالگراں بازار والی گلی سے فرار ہونا تھا۔ میرے ذہن میں صرف اس کی دوکان تھی۔ کوئی چوکیدار نہیں تھا۔ نہ ہی دوکانداروں اور خریداروں کا ہجوم تھا۔

    میری آنکھوں کی سامنے اس کی لاش تڑپ رہی تھی۔ وہ موت سے خوف زدہ تھا۔ اس کا جسم درد سے کلبلا رہا تھا۔ میں اس کی تگ و تاز یکھنے میں مصروف تھا۔ اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں، کانپتے ہونٹ، کرب ناک چہرہ، بہتا ہوا گاڑھا خون۔

    اس منظر کے مشاہدہ کے عوض میں زندگی سے دستبر داری کے لیے تیار تھا۔

    مجھے طے کرنا تھا کہ کون سا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ چھرا، چاقو اور ایسی دوسری چیزیں مجھے پسند نہیں تھیں۔

    یہ عہد بربریت کی نشانیاں تھیں اور انسان متمدن ہو چکا تھا۔ بہت سے ہتھیار ایجاد ہو گئے تھے۔ مجھے پستول پسند تھا۔ اس کے ذریعہ قتل جیسا خوف ناک عمل بچوں کے کھیل جیسا لگتا تھا۔ جس طرح غلیل سے پرندے مارے جاتے تھے۔ بس پرندوں کو حلال کر کے کھا لیا جا تا تھا۔

    وہ نام یاد نہیں آ رہا تھا۔ جو میری مشکل آسان کر سکتا تھا اس سے میری ملاقات ہو چکی تھی مگر کہاں

    بہت دیر تک ایک ہوٹل میں بیٹھا رہا۔ چائے کی تین پیالیاں پی چکا۔

    چلتے ہوئے اس آدمی کا نام اور ملاقات کا احوال یاد آ گیا۔

    اس کی وحشت ناک ہنسی میرا مذاق اڑا رہی تھی۔

    وہ میری بات سمجھ گیا تھا۔ وہ جتا رہا تھا کہ یہ معاملہ میرے بس میں نہیں تھا۔

    مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا دام لگائےگا۔ میں تمام جمع پونجی لے آیا تھا۔

    اس کی مکروہ ہنسی سے مجھے پتہ چل گیا کہ رقم دام سے زیادہ تھی۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی۔ میری آئندہ زندگی کا دارومدار قتل میں کامیابی پر تھا۔

    اس نے زنگ آلود صندوق سے پستول نکالا پھر مجھے بتانے لگا، ’’یہ بتیس بور کا ریوالور ہے۔ چھ گولیاں ڈلتی ہیں۔‘‘

    پستول ہاتھ میں پکڑتے ہی میری ہچکچاہٹ ختم ہو گئی۔ میں نے اعتماد سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

    گھنٹہ گھر کے چاروں طرف ہجوم تھا۔ مجھے حیرت ہوئی۔ صبح والا تاثر اتنا بھر پور تھا کہ میں نے گھنٹہ گھر کو ویسا ہی تصور کر لیا تھا۔ میرے اندر ہجوم کے خلاف ایک عناد رہتا تھا۔ میں خوفزدہ دنہیں تھا بلکہ نفرت کرتا تھا۔ میں ہمیشہ بھیڑ والے رستوں سے گریزاں رہا تھا۔ ویران اور تاریک گلیاں مجھے اچھی لگتی تھیں۔

    کچھ بھی ہو مجھے آج اس عفریت کی پرواہ نہیں تھی۔ میں سبزی منڈی میں داخل ہوا۔ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ کسی کا ہاتھ میرے پیٹ سے ٹکرایا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی میری تاک میں تھا۔ کسی کو میرے ارادوں کا پتہ چل گیا تھا میں نے کوٹ میں چھپے ریوالور پر ہاتھ رکھ لیا۔

    میں نے اسے دو مرتبہ پہلے بھی دیکھا تھا۔ یہ جاننے کے لیے کہ اسے کیوں کر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ تو عام سا قصائی تھا۔ ناٹے قد کا، پھولا ہوا جسم، چہرے پر بے ضرر سی وحشت ناکی۔ میں نے اس کے بارے میں بہت سوچا تھا۔ اس کی دوکان بازار کے مرکز میں واقع تھی۔ اس لیے اس کی آمدنی بھی زیادہ تھی اور محض اتنی سی بات پر اسے میری تباہی کا قصوروار بنا دیا گیا تھا۔ وہ جانتا بھی نہیں تھا۔

    اس نے سال کے ہر ہر لمحے میری اذیت ناکی میں اضافہ کیا تھا۔ اس کی لطف انگیزی نے میری زندگی میں زہر گھول دیا تھا اس میں جمالیاتی حس نہیں تھی پھر بھی اسے فنکار بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مگر وہ آج بھی گوشت کاٹ رہا تھا۔

    میں نے اس کی دوکان پر نظر دوڑائی۔ وہ موٹر والی مشین سے قیمہ نکال رہا تھا۔ اس نے قمیض پرایپرن باندھا ہوا تھا جو خون کے چھینٹوں سے سرخ تھا۔ میں مسکرایا۔ مجھے خبر تھی کہ ایپرن باندھنے کا مشورہ کس نے دیا ہوگا۔

    دوکان میں گوشت کے ٹکڑے لٹک رہے تھے۔ خریداروں کا ہجوم تھا اس کا مدد گار کام میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔ میں ریوالور نکالنا چاہتا تھا۔ مگر وہ سامنے آ جاتا تھا۔

    آہستہ آہستہ میری ٹانگیں اکڑنے لگیں۔ لگتا تھا کہ پتھرکی ہو گئی ہیں۔ کچھ دیر میں ٹوٹ جائیں گی۔ گردن بھی نہیں ہلتی تھی، بازو بے حس ہو گئے تھے۔ آنکھیں بھٹک رہی تھیں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ مجھے ہر شے غیر حقیقی لگ رہی تھی۔

    سبزی منڈی سے نکل کر تازہ ہوا میں سانس بھرنے سے میں ٹھیک ہو گیا۔

    میں کچھ دیر بعد دوکان پر پہنچا تو کوئی گاہک نہیں تھا۔ وہ بھی باہر گیا ہوا تھا۔

    کچھ دیر بعد لوٹا۔ میرے لیے اچھا موقع تھا۔ بھیڑ بھی کم تھی۔ جسم کی کمزوری کے باوجود میں نے ریوالور باہر نکالنے کی ٹھان لی۔ دو سپاہی نظر آئے تو میں نے کوٹ سے ہاتھ نکال لیا۔

    وہ ابھی تک سامنے موجود تھا۔ جیتا جاگتا۔ اسے ختم ہونا چاہیے تھا۔ میری خواہش تھی کہ اس کا گوشت دوکان پر لٹکا نظر آئے۔ اس میں سے خون ٹپک رہا ہو اور دھواں اٹھ رہا ہو۔ اس کا عضو تناسل چھیچھڑے میں تبدیل ہو جائے اور میں اس پر بھوکی بلیاں چھوڑ کر تماشہ دیکھوں مگر وہ اب تک زندہ تھا۔ ایک اور مباشرت کے خواب دیکھ رہا تھا۔ نہیں۔ میں اسے آنے والے وقت کا کوئی حصہ استعمال نہیں کرنے دوں گا۔ دہ دن بھر کی کمائی گن رہا تھا۔ انہی سیلے ہوئے غلیظ نوٹوں کی بدولت اسے فوقیت دی گئی تھی۔

    میں نے پستول کے دستے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اچانک کسی دھکے سے میں کسی کیچڑ میں جاگرا۔ دھکا دینے والا میری طرف دیکھے بغیر گزر گیا تھا۔ میں نے گالی دی۔ میرے کپڑے خراب ہو گئے تھے۔

    میں نے بےچارگی سے اسے دیکھا اور وہا ں سے چل دیا۔

    وہ شام کو دوکان بند کر کے منڈی سے نکلا تو میں اس کا پیچھا کرنے لگا۔

    وہ کس راستے سے گھر جاتا تھا۔ مجھے معلوم تھا۔ بیچ میں ایسی گلیاں بھی پڑتی تھیں جن میں آمدورفت کم ہوتی تھی۔ میں نے ایک ویران گلی میں ریوالور کوٹ سے نکال لیا۔ کھڑا ہو کر نشانہ باندھنے لگا لیا لیکن میری آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔ میرے کان شور سے پھٹنے لگے۔ میرا جسم کانپ رہا تھا۔

    پشت سے ایک بھدا قہقہہ اور کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے ریوالور کوٹ میں چھپا لیا۔

    وہ اس گلی میں نہیں تھا۔

    میں دوڑا، تین گلیاں عبور کیں۔

    وہ نظر آ گیا۔

    میں اس کے نزدیک پہنچا۔ مگر اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔ مڑکر مجھے دیکھا۔

    کچھ دور جا کر خیال آیا۔ اسے اس کے گھر میں بھی قتل کیا جا سکتا تھا۔ میں ٹہر گیا۔ ہاں گھر میں بھی۔

    لیکن یہ متحرک تصویر کیسی تھی؟ دیوار سے لگی، زنجیروں سے بندھی برہنہ عورت۔ چھاتیوں سے چمٹا ہو بچہ۔ بے خبر دودھ پیتا ہوا۔ قصائی نے بچے کو الگ کر دیا۔ اسے فرش پر پھینک کر وہ خود چھاتیاں چوسنے لگا۔

    میں نے خاموش گلی کو دیکھا۔ دو چار قدم اٹھائے۔

    میں اس کے مکان کے قریب سے گزرا تو اس کی آواز سنائی دی۔ آواز میں مستی تھی۔

    میں اسے قتل نہیں کر سکا تھا، کوٹ کی جیب سے ریوالور نکال کر فائر کرنا تو مشکل نہیں تھا۔ میری صحت اب خراب ہو گئی تھی۔ شدید لمحوں کا بوجھ برداشت کرنا میرے بس میں نہیں رہا تھا۔ اسے قتل کرتے ہوئے میری اپنی جان نکل رہی تھی۔ کہیں میرے اندر اس کا کوئی طرف دار تو نہیں چھپا بیٹھا تھا۔ جس نے اسے بچا لیا تھا اور مجھ سے میری زندگی چھین رہا تھا۔ مجھے قتل کر رہا تھا۔

    شام ڈھل گئی، میں غلام گردش میں بھٹکتا مکان تک پہنچا۔

    وہ آج بھی دروازے پر کھڑی تھی۔ اس کا جسم لباس میں سے جھانک رہا تھا۔

    اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میرا تمسخر اڑا رہی تھی۔

    میں ٹھٹھکا۔ میں نے پوری آنکھوں سے اسے دیکھا اور تالا کھول کر مکان میں چلا گیا۔

    اس کے قہقہے کی باز گشت ابھی تک سنائی دے رہی تھی۔

    میں نے ریوالور نکالا اور دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔

    وہ اندر چلی گئی تھی۔

    ناکامی کا احساس میرے خون میں رینگ رہا تھا۔

    میں نے کوٹ فرش پر پھینک دیا اور بستر پر جاگرا۔

    قصائی کی مکروہ ہنسی کانوں میں گونج رہی تھی۔

    ذہن میں گھنٹہ گھر، بڑا مینار، دالگراں بازار، منڈی اور گلیاں باہم خلط ملط ہو رہی تھیں۔ کہیں دھوپ نہیں تھی۔ ایک دھند تھی۔ گہری۔ میں جس میں ٹھوکریں کھاتا پھرا تھا۔

    میرے پھیپھڑوں میں بھری منڈی کی بدبو سانسوں کے رستے نکل رہی تھی۔ میرے کمرے میں پھیل گئی تھی۔

    مجھے گھٹن محسوس ہونے لگی۔ پسینے سے پیشانی بھیگی ہوئی تھی اور میں ہانپ رہا تھا۔

    ایک بار اور مالک مکان کی بیوی دروازے پر آ جاتی تو میں اس کے پیروں میں گر پڑتا، گڑ گڑاتا اور اس کی چھاتیوں سے چمٹ جاتا۔ انہیں چو س کے حرارت کشید کرتا اور اس سے لپٹ کر سو رہتا۔ مگر وہ فاحشہ تو مکان کے اندر جا چکی تھی۔

    میں سردی کے باوجود باہر نکلا، نجانے کتنی دیر تک دروازے پر کھڑا رہا۔ پھر درزوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاریک راہداری کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ میں نے دھیرے سے کنڈی کھٹکھٹائی۔ پھر دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔

    میری دھڑکن معدوم ہو رہی تھی۔ میں واقعی مر رہا تھا۔ کیا میں زندہ بھی تھا؟ لیکن کب سے کب تک؟

    ایک سال کے لیے۔ ایک سال پہلے تک اور اب ہمیشہ کے لیے۔ ٹھیک ہے کو ئی بات نہیں۔ پیدائش بھی میری مرضی سے نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اپنی مرضی استعمال کرنے کا حق ملا ہی کب تھا۔ مگر آج اب پہلی بار میں اپنی مرضی استعمال کروں گا۔

    میں نے کوٹ پہنا، مکان کو تالا لگایا اور رات کی خاموشی کو اپنے قدموں سے پامال کرنے لگا۔

    میں چاہتا تھا کہ شہر کا گھنٹہ گھر جب نئے دن کے اولین لمحوں کی گنتی شروع کرے تو میرا جسم موت کے فرشتے کی شکست کا اعلان کر دے۔ جو میری زندگی میں زندگی پر پہلی فتح ہوگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے