aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ککلی کلیر دی

محمد حمید شاہد

ککلی کلیر دی

محمد حمید شاہد

MORE BYمحمد حمید شاہد

    قلم ککلی؟۔۔۔ یہ کیا عنوان ہوا؟؟

    اسے اعتراض تھا۔ وہ میری تحریروں کی پہلی قاری تھی اور ناقد بھی۔

    میں نے کہا:

    تمہارے نزدیک قابل اعتراض لفظ قلم ہے یا ککلی؟

    وہ اَپنی گہری بھوری آنکھیں میرے چہرے پر جماکر کہنے لگی:

    قلم بھی۔۔۔ اور۔۔۔ ککلی بھی۔

    دونوں؟۔۔۔ مگر کیوںںںںں؟

    میں نے سٹ پٹا کر کیوں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا۔ وضاحت چاہنے کے لیے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور اضافہ کیا:

    ’’دیکھو! قلم تو ہمارے پاس ایک مقدس امانت ہے۔‘‘

    وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ شوخی اس کے گورے گالوں پر ناچنے لگی۔ کہا:

    ’’اپنے جملے میں سے’’ ہے ‘‘کو’’ تھا ‘‘سے بدل لو۔‘‘

    پھرجھوم جھوم کر اور آنکھیں نچاتے ہوئے گنگنانے لگی:

    ’’تھا کا مطلب تو تمہیں آتا ہوگا؟‘‘

    میں نے الجھ کر اسے دیکھا تو وہ سنجیدہ ہو چکی تھی ۔ اس نے کندھے اچکائے اور کَہ دیا:

    ’’اب قلم جو کچھ لکھتا ہے اس کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔‘‘

    میں نے اسے یوں دیکھا جیسے اس کی شرارت پکڑ لی ہو۔ کہنے لگی:

    ’’اَب یہ تھیوری چل نکلی ہے کہ لکھنے والا جب لکھتا ہے تو موضوع غائب اور مفہوم ملتوی ہو جاتا ہے۔‘‘

    میرے چہرے کی کھڈی پر حیرت کا لٹھا تن گیا۔ اس نے وضاحت کرنے کی بہ جائے میری کم علمی پر طنز کرتے ہوے کہا:

    ’’حیرت ہے تم لکھنے والے ہو اور نہیں جانتے کہ لکھنے والا لکھتے ہی مر مرا جایا کرتا ہے۔‘‘

    مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کَہ رہی تھی۔ اس نے وضاحت کی:

    ’’یوں منھ کھول کر حیرت سے مجھے نہ دیکھو۔ میں تو اس تنقیدی فلسفے کا ذکر کر رہی ہوں جس میں لکھنے والے کی حیثیت ایک محرر سے زیادہ نہیں رہتی اور ہاں اے میرے محرر ‘تم کسی مقدس امانت کا ذکر کر رہے تھے؟

    اس نے اچانک سوال لڑھکا کر مجھے بوکھلا دیا۔ میں نے اسی بوکھلاہٹ میں رٹا رٹایا جملہ دہرا یا:

    ’’قلم مقدس امانت ہے‘‘

    ’’مقدس امانت؟ ‘‘

    اس نے منھ اوپر کرکے میرے لفظ اچھالے اور قہقہہ لگا کر کہا:

    ’’اب تو یہ امانت بکتی ہے کہ یہ بازاری جنس ہو گئی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اب ہر متن کے معنی معطل اور ہر تحریر سے وابستہ تقدس متروک ہو جاتا ہے۔ اب تو تمہارے قلم سے نکلے ہوے لفظ طوائف جیسے ہو گئے ہیں۔ یہ جس کے ہاتھ چڑھتے ہیں اسی کے ہو جاتے ہیں۔‘‘

    کیا کہتی ہو؟ میں نے برہم ہو کر کہا۔ اس نے مجھے ٹوک دیا:

    ’’میں نہیں کہتی ‘ایسا تمہاری تھیوری کہتی ہے۔ اب لکھنے والا سچ نہیں لکھتا کہ اسے ایک مبہم‘ مخلوط اور خط مستقیم سے گریزاں وسعت مکانی میں یوں لڑھکنا ہوتا ہے جیسے کوئی شرابی گھپ اندھرے میں اوبڑکھابڑ راستوں پر لڑکھڑاتا آگے بڑھتا ہے۔‘‘

    میں نے سر جھٹک کر کہا:

    ’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘

    اس نے اپنے سرخ ہونٹوں کو ایک دوسرے پر جما کر پٹاخہ بجایا:

    ’’ایسا ہی تو ہو رہا ہے۔ اب تحریر سے وابستہ تقدس اور معنی بھی اس ٹشو پیپر کی طرح ہو گئے ہیں جسے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔‘‘

    میں نے ایک ایک کرکے ان ادیبوں کو یاد کرنا چاہا جو لفظ کے معنی اور معنی کے تقدس سے وابستہ ہو سکتے تھے۔ میں سوچتا چلا گیا حتّٰی کہ میں اندر سے لرزنے لگا۔ میں نے اس کے سامنے شکست کی ہتک سے بچنے کا حیلہ کرنا چاہا:

    ’’مگر میں تو۔۔۔‘‘

    ’’قلم کی عظمت کا قائل ہوں‘‘

    اس نے میرے منھ سے جملہ اچک کر مکمل کیا اور طیش میں آتے ہوے کہا:

    ’’قلم کا تقدس۔۔۔ قلم کی عظمت۔۔۔ قلم کی حرمت۔۔۔ اور اب صارفیت کے فروغ کے لیے بازاری تھیوریاں یاپھر اینٹی تھیوریاں۔۔۔ تم ادیبوں کے پاس بانجھ لفظوں کا کتنا ذخیرہ ہوتا ہے‘ بےدریغ استعمال کرتے ہو انہیں‘سوچے سمجھے بغیر۔‘‘

    اس کی آواز معمول سے کہیں زیادہ بلندہو گئی تھی۔ میں جھینپ گیا۔ موضوع بدل دینا چاہا۔

    اور۔۔۔ ککلی پر کیا اعتراض ہے تمہارا؟

    اس کی آنکھیں ماضی کی یادوں تلے بند ہونے لگیں اور ہونٹ میٹھے لفظوں کی لذّت کو چاٹنے لگے:

    ’’ککلی کلیر دی

    پگ میرے ویر دی۔۔۔‘‘

    میں اسے خواب کے برزخ سے حقیقت کی سنگلاخ زمین پر کھینچ لایا:

    ’’میں نے تو ککلی پر تمہارا اعتراض جاننا چاہا تھا اور تم بچی بن کر ککلی گانے لگی ہو۔‘‘

    ’’ہاں! یہی تو اس لفظ کی خوبی تھی کہ بچھڑے بچپن کی انگلی تھما دیتا تھا۔‘‘

    اس نے اپنا جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ میں نے بدلا اتار دینا چاہا:

    ’’اب تم’’ تھا ‘‘کو’’ ہے ‘‘سے بدل کر اپنا جملہ درست کر لو۔‘‘

    وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور پھر ہنسے چلی گئی۔ حتّٰی کہ اس کا بدن دہرا ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ پھر وہ یکلخت یوں چپ ہو گئی‘ یوں کہ سارے میں سناٹا قہقہے لگانے لگا۔ میں اس کے چہرے پر بدلتے رنگوں کو حیرت سے تک رہا تھا اور جب سنجیدگی اس کے چہرے پر ککلی کھیل رہی تھی تو اس نے کہا:

    ’’تم نے اپنے بچوں کے چہروں کبھی غور سے دیکھا ہے؟‘‘

    میں اس غیرمتوقع سوال پر بھونچکا ہوکر اسے بٹر بٹر دیکھنے لگا۔ میں بہ ظاہر اسے دیکھ رہا تھا مگر بہت سرعت سے یہ سوچنے کی جانب رَاغب بھی ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے بچوں کے چہرے کب غور سے دیکھے تھے۔ جب میرے حیرت زدہ چہرے پر سوچ کی مکڑی نے جالا بن دیا تو وہ کہنے لگی:

    ’’تمہیں کب فرصت ہے اس کی؟ تمہارا دفتر ہے‘کمپیوٹر ہے ‘انٹرنیٹ ہے‘ بزنس میٹنگز ہیں‘ پارٹیاں اور آؤٹنگ ہے۔ اور لکھنا لکھانا بھی تو ہے‘ ہونہہ۔ ہاں تو میں کَہ رہی تھی کہ تمہارے اپنے معمولات ہیں۔ ایسے میں تمہارے پاس وقت کہاں کہ بچوں کے چہرے غور سے دیکھ سکو۔ تمہاری نظریں تو میرا چہرہ بھی ڈھنگ سے دیکھنا بھول گئی ہیں۔‘‘

    میں شرمندہ ہوگیا۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی تھی کہ ایک مدّت سے میں اس کا چہرہ حیرت سے دیکھتا تھا یا بوکھلاہٹ میں۔ محبت سے دیکھنا نہ جانے کب سے چھوٹ گیا تھا۔

    مجھے جھینپتے پاکر وہ ماضی کے ان لمحات میں اتر گئی جب میری نظروں کی آنچ سے اس کے گورے گال تمتما کر سرخ ہو جایا کرتے تھے۔ وہ ماضی سے جلد ہی لوٹ آئی اور میرے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہنے لگی:

    ’’شرمندگی کے بیج بو کر ہم نے پچھتاوے کی فصل کے سوا اَپنی آئندہ کی جنریشن کو برداشت کے لیے اور دیا ہی کیا ہے؟‘‘

    اب میں جس کیفیت میں تھا ‘اسے کوئی نام نہ دیا جا سکتا تھا۔ وہ میرے چہرے کے بدلتے رنگوں سے بےنیاز ہو کر کہنے لگی:

    ’’جب سے آزاد تجارت اور منڈی کی معیشت نے اخلاقی اقدار کے تہذیبی ہونے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اَپنی اخلاقیات مادے کے حوالے کردی ہیں ‘رشتے بھی بے معنی ہو رہے ہیں۔ پہلے رشتے ضرورتوں کو حد سے نہیں بڑھنے دیتے تھے۔ اب ضرورتیں رشتوں کی حدیں خود قائم کرتی ہیں۔ جب سے صارفیت نے انسانی ضرورتوں کی پیداوار کا ٹھیکہ اپنے ذمہ لیا ہے‘ میڈیا وہ سبق پڑھ رہا ہے جو سرمایہ کار اسے پڑھا رہا ہے اور جو ہر انسان کے صارف ہونے کے لیے دینیات جیسا لازمی مضمون ہو گیا ہے۔ ‘‘

    وہ ہنستی ہے اور ہنستے ہنستے اَپنی بات مکمل کرنا چاہتی ہے:

    ’’ہرشے جنس ہو گئی ہے۔ رشتے ناتے۔ میاں بیوی۔ بہن بھائی۔ حتّٰی کہ ماں باپ۔ کس کے پاس وقت ہے کہ اس دوسرے کے دل میں جھانک کر دیکھ سکے۔ اب سب کو مل بیٹھ کر دکھ سکھ نہیں بانٹنے کہ سب آسانیوں کی طلب میں پاگل ہوے جاتے ہیں۔‘‘

    میں نے اسے ٹوکا:

    ’’ہمارے ہاں ابھی تک صورت حال اتنی بھی گھمبیر نہیں ہوئی۔۔۔ اور مشرق میں ابھی تک خاندانی نظام باقی ہے۔‘‘

    اس نے سانس کا لمبا دھاگا کھینچا اور کہا:

    ہاں ‘مگر اے میرے دانشور‘ ہمارے ٹیکنوکریٹس ‘ہمارے سیاستدان‘ ہمارے ادیب اور پڑھے لکھے لوگ ‘ہمارا مقتدر طبقہ اور ہمارا میڈیا ہمیں زبردستی کس جانب دھکیل رہا ہے ۔

    میں نے وضاحت کرنا چاہی:

    ’’دیکھو وقت بدل رہا ہے۔ ادیب اور دانشور کا یہ منصب ہے کہ اپنے لوگوں کو زمانے کی ہوا سے آگاہ کرے۔‘‘

    وہ جیسے پھٹ پڑی تھی۔ کہا:

    ’’آگہی اور چیز ہے اور دوسروں کے فرسودہ نظریات کے لیے کچرے کے ٹرک بن جانا اور بات۔ افسوس کہ ہم اپنا سب کچھ تج دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں اَپنے آپ پر اعتماد نہیں اور ہمیں آنے والے لمحوں کا خوف کھائے جاتا ہے۔ ہمارا ماضی ہے نہ حال۔ مستقل کا کوئی بھروسہ نہیں۔ لہذا ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں جنہوں نے علم اور تہذیبی مظاہر کی جگہ انفارمیشن گاربیج کو دے دی ہے۔‘‘

    ’’انفارمیشن گاربیج؟‘‘

    میں نے اسے ٹوک کر پوچھا:

    ’’ہاں انفارمیشن گاربیج۔ ایک ڈھیر ہے معلومات کا جو انٹرنیٹ کے ذریعے بہا چلا آتا ہے۔ اسی میں ننگی عورتیں بھی ہیں اور سائنسی فامولے بھی۔ یہاں بے ہودہ مرد اور جنسی لذّتیں بھی ہیں اور شعروادب کے چسکے کا سامان بھی۔ چلتے فیشن کی چڈی ‘نئے ڈیزائن کی نائیٹی‘ چٹ پٹے لطیفے بش کی دھمکیاں تیل کی چڑھتی ہوئی قیمتیں جسے جو کچھ جاننا ہوتا یہیں سے اچک لیتا ہے۔ یہ ساری معلومات ہم اپنے بچوں کو بھی دینا چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’م۔۔۔ م۔۔۔ مگر‘‘

    میں نے اسے روکنا چاہا۔ وہ خود ہی رک گئی تھی۔ اس کی آواز اب جیسے بہت دور سے آ رہی تھی:

    ’’ٹیوشن ‘ہوم ورک‘ ٹی وی ڈرامے ‘فلمیں‘ انٹرنیٹ اور لمبے دن کی بے پناہ تھکن۔ معصوم چہروں کو بے ڈھب معلومات کے اس عفریت نے چچوڑ کر بوڑھا کر دیا ہے۔ اتنے تیزی سے گزرتے ہوے طویل دن کی کوئی شام ان کھیلوں کے لیے نہیں ہے جو ساری عمر انگلی تھامے رکھ سکتے ہیں۔ لکن میٹی نہ کانچ کی گولیاں۔ اینگن مینگن تلی تلینگن نہ کٹم کاٹا۔ گڑیا پٹولے نہ کھو کھو۔۔۔ اور۔۔۔ نہ ککلی۔ جب بچوں کے پاس بچپن ہی نہیں رہا تو ککلی کیسی؟‘‘

    میں نے اسے دیکھا۔ اسے بھی اور اس کی آنکھوں میں امنڈتے آنسووں کو بھی۔ اس کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔ میں نے تب قریب آتے بچوں کو دیکھا اور یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا کہ ان کے چہروں سے بچپنا رخصت ہو چکا تھا۔ تب میں نے ذہن پر زور ڈالا مگر مجھے یاد نہ آ رہا تھا کہ میرے بچوں نے یہ کھیل کبھی کھیلے بھی تھے یا نہیں۔

    اس نے مجھے چھو کر اَپنی جانب متوجہ کیا اور کہا:

    ’’اسی لیے تو میں نے’’ککلی‘‘ کے ساتھ’’تھا‘‘ کا لفظ لگایا تھا۔ ککلی میں میری تیری نسل کے لیے اپنے ماضی کے حوالے سے شاید کچھ کشش باقی ہے مگر آنے والے نسل۔۔۔‘‘

    میرے دل میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ اسے کچھ اور کہنے سے روکتے ہوے کہا:

    ’’پھر تو میں اس تحریر کا عنوان ’’ قلم ککلی‘‘ ضرور رکھوں گا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    اس نے پوچھا۔

    ’’اس لیے کہ مجھے اپنے بچوں سے نہ تو ان کا تہذیبی ماضی چھیننا ہے نہ ان کو مستقبل میں روبوٹ یا محض صارف بنانا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ مجھے اپنے قلم کو اَپنی تحریر کو اور اَپنی اولاد کو جنس ہونے سے بچانا ہے۔‘‘

    جب میں یہ کَہ رہا تھا تو میرا سینہ زور زور سے بج رہا تھا۔ اس نے میری کیفیت بھانپتے ہوے کہا: ’’تم جذباتی ہو رہے ہو!‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ شاید۔‘‘

    میں نے ترَت کہا اور اضافہ کیا: ’’کیا کچھ امور میں جذباتی ہونا درست نہیں ہوتا؟‘‘

    اس سوال میں عجب طرح کا یقین تھا جس نے اس کی آنکھوں میں ایک مدّت بعد پھر چمک بھر دی تھی۔ یہ میرے لیے تصدیق کی چمک تھی کہ اس سے دور دور تک راستہ روشن ہو گیا تھا۔ وہ یکبارگی مسکرائی اور سارے میں مہک بھر گئی۔ میں نے اس کی خوشبو سے اَپنی سانسوں کو معطر کیا‘ اپنے لفظوں کو اسی خوشبو سے غسل دیا اور قلم کو محبت سے کا غذ پر سجدہ ریز ہونے دیا۔

    قلم میں ایک مستی تھی کہ وہ ککلی ڈالنے لگا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے