Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کونینڈرم

محمد شہزاد

کونینڈرم

محمد شہزاد

MORE BYمحمد شہزاد

    ’’پرسوں میری سالگرہ ہے۔ شام چھ بجے۔ لیکن تم دو بجے آ جانا۔ مل کر گھر سجائیں گے۔‘‘ سلمان نے اپنے دوست راول سے کہا جس کی عمر تیرہ برس تھی۔

    ’’اووووو۔۔۔ ہیپی برتھ ڈے۔ فکر نہ کرو۔ میں پہنچ جاؤنگا۔‘‘ راول بولا۔۔۔ سلمان کا واحد دوست۔

    دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ یہ کھاتے پیتے گھرانوں کا علاقہ تھا۔ سالگرہ والے دن وہ وقت سے پہلے سلمان کے گھر پر تھا جہاں اس نے پہلی بار فرحت کو دیکھا۔

    ’’آنٹی یہ ہے میرا بیسٹ فرینڈ راول۔ بہت ذہین ہے۔ تھری بائی تھری روبک کیوب چار منٹ میں حل کر لیتا ہے۔ اور بہت اچھا چیس پلیئر بھی ہے۔ اور راول یہ ہیں میری ڈئرسٹ فرحت خالہ۔ خالہ کم اور دوست زیادہ۔ حال ہی میں یہاں شفٹ ہوئی ہیں۔ سنٹرل کالج میں انگریزی لٹریچر پڑھاتی ہیں۔ کبھی کہانیاں سننا ان سے۔ حیران رہ جاؤ گے۔ ایسا لگے گا فلم دیکھ رہے ہو۔ اس کے علاوہ مارشل آرٹ میں بلیک بیلٹ بھی ہیں۔ ایک دفعہ کچھ لڑکوں نے انہیں مری ہلز میں چھیڑ دیا۔ وہ پٹائی کی وہ پٹائی کی کہ مزا آ گیا۔ سب کو فریکچر کر کے رکھ دیا۔‘‘

    ’’سلمان نے ایک ہی سانس میں دونوں کا تعارف کرا دیا۔

    ’’ہیلو راول۔ بہت سنا ہے تمہارے بارے میں سلمان سے۔ اور میں نے تم سے روبک کیوب حل کرنا سیکھنا ہے۔ بہت خوشی ہوئی تم سے ملکر!‘‘ فرحت نے راول سے ہاتھ ملاتے کہا۔

    آخری جملہ راول کہنا چاہتا تھا مگر فرحت نے موقع ہی نہ دیا۔ جیسے ہی سلمان نے تعارف مکمل کیا، فرحت نے راول کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر یہ رسمی جملے بول دیے۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا، فرحت نے ایک جملہ اور داغ دیا،

    ’’اور میں آنٹی نہیں فرحت ہوں۔ یہ بھی مجھے فرحت ہی کہتا ہے۔۔۔ آنٹی نہیں۔ آنٹی کا لفظ میرا تعارف کراتے استعمال کرتا ہے۔ مجھے اپنا دوست ہی سمجھو۔‘‘ فرحت نے پہلے سلمان اور بعد میں راول کی جانب دیکھتے کہا۔

    ’’آپ سے ملکر واقعی بے حد خوشی ہوئی فرحت۔ آپ بہت خوبصورت ہیں۔ آنٹی آپ پر سوٹ بھی نہیں کرتا!‘‘

    یہ جملہ راول کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ وہ اپنی عمر سے کئی گنا زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا تھا۔ اس جملے نے فرحت کے گالوں پر لالی بکھیر دی۔ وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔ عمر میں راول سے دگنی، پتلی دبلی، دراز قد، گوری رنگت، بیضوی چہرہ، لمبے گھنے سیاہ بال کمر کے نچلے حصے تک۔ بلوری آنکھیں۔ یہ اصلی تھیں۔ اس زمانے میں کنٹیکٹ لینز عام نہ تھا۔ غضب کی مسکراہٹ، بے تکلفی اور اپنائیت، ہاتھ کا نرم لمس۔ سر سے پیر تک وہ صرف پیار ہی پیار تھی۔ تب ہی تو سلمان نے اتنے جوش و خروش سے اس کا تعارف کروایا۔ یہ ہی وہ لمحہ تھا جب ایک تیرہ برس کا بچہ چھبیس برس کی عورت کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ ایسی عورت جو نہ صرف شادی شدہ بلکہ ایک عدد پانچ سالہ بچی کی ماں بھی تھی۔

    لیکن پیار تو انسان کے خمیر میں ہے۔ کسی بدصورت عورت سے بھی ہو سکتا ہے۔ مگر فرحت تو بلا کی حسین تھی۔ اس کا شوہر خلیل اس سے عمر میں کم از کم پچیس برس بڑا تھا۔ مگر یہ جوڑی راول کو پسند نہ آئی۔ خلیل کہیں سے بھی اس کا شوہر نظر نہ آتا تھا۔ البتہ باپ سو فیصد دکھائی دیتا تھا۔

    لباس سے فرحت راول کو آزاد خیال لگی۔ وہ ضرورت سے زیادہ باریک تھا۔ کالے رنگ کی کھلے گلے کی شرٹ اور غیر منقسم سفید لانگ سکرٹ۔ شرٹ کے نیچے صرف اس کا بدن۔ کائنات کی بہترین خوبصورتی اور راول کی آنکھوں میں کوئی خاص رکاوٹ نہ تھی۔

    وہ دلجمعی سے سالگرہ کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ پورے گھر میں آزادانہ گھوم پھر رہی تھی۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ راول کی نگاہیں بار بار اس کی شرٹ کی جانب اٹھتیں۔ ایک ہی نظر میں وہ اسے سر سے پیر تک محسوس کر لیتا۔ سلمان کی نظروں سے راول کی یہ حرکت اوجھل نہ تھی۔ وہ خود بھی فرحت کو ایسی ہی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اور ان دونوں پر گہری نظر خلیل کی تھی جو خاموشی اور صبر سے سب کچھ برداشت کر رہا تھا۔

    ’’کاش یہ نہ آتا!‘‘ راول دل میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ خلیل اچانک اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ شاید اسے کہیں اور جانا تھا۔ اس کے جانے سے راول کو بے حد خوشی ہوئی۔ اسے لگا اب فرحت اور اس کے بیچ کوئی اور نہیں۔ مگر ایک اب بھی تھا۔۔۔ سلمان!

    اسی اثناء میں فرحت ایک فولڈنگ سیڑھی ہاتھ میں لئے لاونج میں آئی۔

    ’’راول اسے مضبوطی سے تھامنا۔ اس کا بیلنس ٹھیک نہیں۔ میں غبارے لاتی ہوں۔ پنکھوں سے باندھنے ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر فرحت غبارے لینے اوپر کی منزل پر موجود کمرے میں چلی گئی۔ راول نے سیڑھی کو کھول کر فرش پر جمانے کی کوشش کی۔ اس کا بیلنس واقعی خراب تھا۔ ایک آدمی کا اسے تھامے رہنا لازمی تھا ورنہ اس پر سوار ہونے والا انسان گر سکتا تھا۔ اس دوران فرحت غبارے لا چکی تھی۔

    ’’آپ سیڑھی پکڑ لیں۔ میں غبارے باندھ دونگا؟‘‘ راول نے فرحت سے کہا مگر وہ نہ مانی۔ اس کے پاس دلیل مضبوط تھی۔

    ’’تمہارا قد چھوٹا ہے راول۔ تم سیڑھی پکڑو۔‘‘

    راول انکار نہ کر سکا۔ وہ سیڑھی پر چڑھ گئی۔ اس نے غبارے فرحت کو پکڑانا شروع کر دیے۔ وہ اونچائی پر تھی۔ اسے احساس ہوا کہ کالی شرٹ کی طرح سفید لانگ سکرٹ کے نیچے بھی فرحت نے کچھ پہن نہ رکھا تھا۔ راول کو فرحت کے قدرتی گھنے سیاہ بال اچھے لگ رہے تھے۔ ایسا قدرتی حسن وہ فلموں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ آج پہلی بار حقیقت میں اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا۔

    چند منٹ بعد فرحت تمام غبارے پنکھوں سے باندھ چکی تھی۔ راول سوچ رہا تھا کاش غبارے ڈھیر سارے ہوتے!

    کچھ دیر بعد کیک بھی کٹ گیا۔ کیک کے چھوٹے چھوٹے مساوی ٹکڑے کر کے پلیٹ میں ڈالکر مہمانوں کو پیش کرنے کا فریضہ فرحت کا تھا۔ دوران عمل اس کئی بار میز پر جھکنا پڑا۔ اس دوران ایک سے ایک حسین منظر راول کو دیکھنے کو ملا۔

    ہر محفل کی طرح یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ اس رات راول نے اپنے اندر موجود طوفان کو تھامنے کے لئے ہر وہ تدبیر کی جو وہ فلمیں دیکھنے کے بعد کیا کرتا تھا۔ مگر طوفان ہر تدبیر کے بعد بڑھتا چلا گیا۔ رات کے کسی پہر جب وہ سویا تو خواب میں خواب میں فرحت کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ تین دن اسی کیفیت میں بیتے۔ وہ فرحت کو دوبارہ دیکھنے کے لیے بے چین تھا۔ وہ سلمان کے گھر جاتا مگر فرحت وہاں نہ ہوتی۔ وہ سلمان سے اس کے گھر کا پتہ بھی نہ پوچھ سکتا تھا۔ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ فرحت کے معاملے میں سلمان کی بھی وہی کیفیت تھی جو اسکی ہو چکی تھی۔ لیکن یہ بات اس کے علم میں نہ تھی کہ سالگرہ والے دن راول کی ماں فرحت کو اپنے گھر کا فون نمبر دے چکی تھی۔ اس کا علم اسے تب ہوا جب چوتھے دن اس کی ماں نے اسے فرحت کا پتہ دیا اور کہا کہ اس کے گھر پانی کی موٹر کام نہیں کر رہی۔ ذرا دیکھ لے کہ کیا مسئلہ ہے۔

    راول کو موٹر کے عمومی مسائل کا علم تھا۔ موٹر میں ہوا بھر جانا ہر گھر کا مسئلہ تھا۔ اس میں پانی ڈالنا پڑتا۔ اس طرح وہ ٹھیک ہو جاتی ہے۔ وہ چھوٹا رینچ ساتھ لے جانا نہ بھولا۔

    فرحت کا گھر دو گلیاں چھوڑ کر تھا۔ اس نے بہت پیار سے راول کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ کیڈبری کی ڈیری ملک چاکلیٹ کا پورا بکس اسے دیا۔ یہ ہی چاکلیٹ اس کی پسندیدہ تھی۔

    ’’میں موٹر چیک کر لوں؟‘‘ ایک چاکلیٹ ختم کرنے کے بعد راول نے فرحت سے پوچھا۔

    ’’موٹر میں کوئی مسئلہ نہیں راول۔ یہ بہانہ تھا تمہیں یہاں بلانے کا!‘‘

    فرحت کی اس بات نے راول کو کچھ حیران کچھ پریشان کر دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، فرحت دوبارہ بول پڑی،

    ’’تم اس دن مجھے بار بار دیکھے جا رہے تھے۔ کیا تم نے کبھی کسی عورت کی چھاتیاں نہیں دیکھیں؟‘‘

    اس بے باک انداز نے راول کو مزید پریشان کر دیا۔

    ’’فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر تمہاری شکایت لگانی ہوتی تو اسی دن تمہاری امی کو بتا دیتی۔ بلکہ اس کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی وقت تمہیں ایک تھپڑ بھی لگایا جا سکتا تھا۔‘‘ فرحت کے اس جملے نے راول کی پریشانی میں کمی اور حیرت میں اضافہ کر دیا۔

    ’’کم آن۔ ریلیکس۔ مجھے اپنا دوست سمجھو اور بتاؤ کیوں گھور رہے تھے مجھے اس دن؟ اور کیا تم نے کبھی کسی عورت کی ننگی چھاتیاں نہیں دیکھیں؟ شرمانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ فرحت کے لہجے میں ایک رعب تھا۔۔ مسحور کن دبدبہ۔

    ’’سب ہی آپ کو دیکھ رہے تھے۔ میں اکیلا تھوڑی تھا۔ مجھ سے زیادہ تو سلمان دیکھ رہا تھا آپ کو۔ اور آپ ہیں ہی اتنی حسین! کون نہیں چاہے گا آپکو دیکھنا!‘‘

    ’’سلمان! وہ بہت شرارتی ہے۔ نہیں وہ اتنا نہیں دیکھ رہا تھا۔ تم زیادہ دیکھ رہے تھے۔ مجھے تمہارا معصومانہ جواب اچھا لگا۔ لیکن دوسرے سوال کا جواب نہیں دیا تم نے!‘‘ فرحت ہنستے ہوئے بولی۔

    ’’میں بتانے ہی والا تھا۔۔۔ جی دیکھی ہیں۔۔۔ بہت سے عورتوں کی چھاتیاں۔۔۔ بچوں کو دودھ پلاتے وقت۔۔۔ لیکن اتنی خوبصورت کسی کی بھی نہیں تھیں!‘‘

    یہ سن کر فرحت کھل کر ہنس دی۔ اس ہنسی نے ماحول کو پرسکون کر دیا۔ کچھ دیر بعد راول اور فرحت ایک دوسرے کے گہرے دوست بن چکے تھے۔ اب راول کا بیسٹ فرینڈ سلمان نہیں ایک خوبصورت عورت تھی۔ اس دن فرحت نے راول کو بہت کچھ دکھایا اور بے حد پیار سے۔ وہ اس کے گھر بچے کی حیثیت میں داخل ہوا تھا۔ واپس مرد بن کر لوٹ رہا تھا۔ جو کچھ وہ سلمان کے ساتھ فلموں میں دیکھا کرتا تھا، آج اس کا عملی مظاہرہ کر چکا تھا۔ تجربہ گاہ فرحت تھی۔ یہ عملی تعلیم دو سال تک چلی۔ راول پندرہ برس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد فرحت کے شوہر کی پوسٹنگ کسی اور شہر میں ہو گئی اور وہ اچانک غائب ہو گئی۔

    دو سال کے عرصے میں فرحت نے راول کو اتنا ریاض کرا دیا تھا کہ وہ دنیا کے کسی بھی سٹیج پر گھنٹوں سولو پرفارمنس دے سکتا تھا۔ یہ ریاضت کرتے کرتے وہ اٹھائیس برس کا ہوا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا۔ مگر فرحت کو ایک لمحے کے لیے فراموش نہ کر سکا۔ اب گھر والے چاہتے تھے کہ وہ شادی کر لے۔ اور سچ بات تو یہ تھی کہ ہر قسم کی عورت کا ذائقہ وہ اچھی طرح چکھ چکا تھا۔۔۔ ایک نہیں بار بار۔ اب ان سب سے عاجز آ چکا تھا۔ اسے یہ یقین تھا کہ کوئی بھی عورت فرحت سے بڑھ کر حسین نہ ہو گی۔۔۔ نہ بدن میں نہ روح میں نہ سوچ میں۔ وہ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن اسے کوئی لڑکی پسند ہی نہ آتی۔

    اگلے دو برس میں راول سینکڑوں لڑکیوں کو مسترد کر چکا تھا۔ وہ تیس برس کا ہو چکا تھا۔ یہ برس اس کی زندگی کا اہم سال تھا۔ اس برس اس کی ملاقات میرن سے ہوئی۔ اس لڑکی میں فرحت جیسا حسن، انداز اور ادا تھی۔ یہ تیرہ اور تیس کے ہندسے راول کے لیے بڑے جان لیوا ثابت ہوئے۔ تیرہ برس کی عمر میں وہ فرحت اور تیس میں میرن کے عشق میں گرفتار ہوا۔

    میرن راول کے ہی دفتر میں کام کرتی تھی۔ نئی آئی تھی۔ عمر کوئی بائیس تیئیس کے لگ بھگ ہو گی۔ جسمانی حسن تو فرحت کی ہو بہو کاپی تھا۔ طبعیت بھی اس سے کافی ملتی تھی۔ تین ماہ کے قلیل عرصے میں دونوں ایک دوسرے کے عشق میں بری طرح گرفتار ہو چکے تھے۔ میرن کے والد کا عرصہ ہوا انتقال ہو چکا تھا۔ ماں کے علاوہ اس کا کوئی اپنا نہ تھا۔ وہ دوسرے شہر میں رہتی تھی۔ میرن ورکنگ وومین ہوسٹل میں رہتی تھی۔

    ’’میرن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے راول رک گیا۔

    ’’کیا سوچ رہے ہو؟ رک کیوں گئے؟ بولو!‘‘

    ’’اپنے ماں باپ کو تمہاری والدہ سے ملانے سے پہلے میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘ راول نے میرن سے پوچھا۔ دونوں اس وقت دفتر کے کیفے ٹیریا میں کافی پی رہے تھے۔

    ’’مجھے کیوں اعتراض ہونے لگا۔ کب چلیں؟‘‘

    ’’تمہارے ساتھ نہیں ڈارلنگ۔ میں اکیلے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ مل لونگا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر راول نے میرن کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہاں کچھ حیرانی سی تھی جسے محسوس کر کے راول بولا، ’’لگتا ہے تمہیں میرا ان سے تنہائی میں ملنے والا آئیڈیا اچھا نہیں لگا۔ اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں۔ ہم دونوں ساتھ چلے چلتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں راول مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں تمہیں ایڈریس دے دیتی ہوں۔ ساتھ ہی انہیں فون بھی کیے دیتی ہوں۔‘‘

    اگلے دن راول میرن کی والدہ کے گھر کے سامنے تھا۔ پوش علاقے میں یہ تیس سو گز کا ایک خوبصورت مکان تھا۔ راول نے گھنٹی بجائی۔ گیٹ جس عورت نے کھولا وہ فرحت تھی! اسی طرح حسین اور تروتازہ جیسے وہ پہلی ملاقات میں تھی! وہ میرن کی ایسی بہن لگ رہی تھی جو عمر میں اس سے پانچ برس بڑی ہو۔ وقت کے اثر سے شاید فرحت محفوظ تھی۔ راول کو لگا وہ خواب دیکھ رہا ہو۔

    ’’تم؟ سلمان کے دوست۔۔۔ راول!‘‘ اس بار بھی فرحت پہلے بول پڑی۔ راول کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دیا۔‘‘

    ’’ہاں میں وہی ہوں!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے