Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہر زدہ شام

عذرا اصغر

کہر زدہ شام

عذرا اصغر

MORE BYعذرا اصغر

    جب میرا پہلا رشتہ آیا تو میں تیرہ برس کی تھی۔ وہ لڑکا جس سے میرا رشتہ آیا تیس کے لگ بھگ تھا اور امپورٹ ایکسپورٹ کا دھندہ کرتا تھا۔ ادھر کا مال ادھر اورادھر کا ادھر۔ کوٹھیاں تھیں، کاریں تھیں، عزت تھی، شہرت تھی۔ بہت سے لوگ دن رات اسے سلام کرتے تھے اور بہت سے لوگوں کو وہ سلام کرتا تھا۔

    اڑوس پڑوس کی عورتیں میری قسمت پر رشک کرنے لگیں اور اپنی بچیوں کو میرے جیسے نصیبے کی دعا دینے لگیں۔ میری ماں نے میرے باپ سے کہا ’’لچھمی خود چل کر ہمارے گھر آئی ہے۔ اسے موڑنا نہیں چاہیے۔ ہمار ی بچی ساری زندگی راج رجےگی‘‘ ۔ مگر میرے باپ کومیری ماں کی منطق پسند نہیں آئی۔ وہ خود کاروباری آدمی تھا۔ اسے مال کی قیمت وہ خوب پہچانتا تھا۔ ماں گھر میں بیٹھنے والی ان پڑھ عورت۔ اسے بھلا کیا پتہ زمانہ کون سی چال چل رہا ہے۔ چنانچہ میرے باپ نے صاف میری ماں کی بات رد کر دی۔ وہ کہنے لگا ’’بھلی عورت! میری بچی ابھی ذرا سی تو ہے۔ ابھی تو اس کے کھانے کھیلنے کے دن ہیں۔ ذمہ داری اٹھانے کو تو عمر پڑی ہے‘‘۔

    ایکسپورٹر نے بڑا زور لگایا اس کے گھروالوں نے بہت چکرکاٹے۔ مگر میرا باپ کسی صورت نہیں مانا اور میں اطمینان سے محلے کے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ، پٹھو گرم کھیلتی رہی۔ سولہ برس کی عمر کو پہنچتے پہنچتے میرے لیے آنے والے رشتوں کی ایک لائن لگ چکی تھی۔ مگر میرا باپ جگہ جگہ سے اس لائن کو توڑتا رہا۔ ہر آنے والے کو انکار کے ڈنڈے سے بھگاتا رہا۔ کبھی کہتا ’’میری بیٹی ابھی بچی ہے‘‘۔ کبھی کہتا ’’لڑکی ابھی پڑھ رہی ہے‘‘۔

    جب میں نے دسویں کا امتحان دیا تو میں عمر کی اٹھارویں سیڑھی پر قدم جما چکی تھی اور میرے دل میں رنگ برنگی پھلجڑیاں چھوٹتی تھیں اور میری آنکھوں میں ہر دم شمعین روشن رہتی تھیں۔ تب میری ماں نے پھر میرے باپ سے کہا ’’اے میاں! کچھ عقل کی بات کرو۔ لڑکی جوان ہو گئی ہے۔ بس اب ہاتھ پیلے کرنے کی سوچو اور کتنا پڑھاؤگے۔ کیا نوکری کرانی ہے؟‘‘

    میرے باپ نے میری ماں کا تمسخر اڑایا اور بولا ’’بھلی لوکے! عقل کے ناخن لے۔ ہماری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے۔ جو دیکھتا ہے دوڑا چلا آتا ہے۔ پھرسونے پر سہاگہ کروڑوں کی جائیداد کی تنہا وارث۔ تم دیکھوگی لوگ سر کے بل چل کر آئیں گے۔ ابھی کون سی عمر گزرگئی جو تم گھبراتی ہو۔ لکھ پڑھ لے گی تو کام آئےگا۔ مقدرکی کسی کو کیا خبر۔ ہماری ایک ہی تو اولاد ہے۔ اس کو اتنی تعلیم دلانا چاہتا ہوں کہ دس بیٹوں کی حسرت پوری ہو جائے‘‘۔

    اور اپنے باپ کے ترقی پسند نظریات سے متفق ہو کر میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اب میں پٹھو گرم کی جگہ بیڈمنٹن کھیلنے لگی۔ باسکٹ بال میں میں ہر جگہ اور ہر میچ میں فرسٹ آتی رہی۔ ہاکی میچوں میں میری کارکردگی سب سے نمایاں رہتی اور بہت جلد میں اپنی ٹیم کی کپتان بنا دی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرے رشتے آنے کی رفتار اور بڑھ گئی اور رشتوں کی تعداد کے ساتھ میرے باپ کا دل بھی بڑھ گیا۔ اس کا حوصلہ اور بلند ہو گیا۔ اس نے کہا ’’میری بیٹی لاکھوں میں ہی نہیں کروڑوں میں ایک ہے۔ میں اس کو ابھی اور پڑھاؤں گا۔ حسن صورت کے ساتھ حسن تعلیم سے بھی اس کو سجاؤں گا۔ علم کے زیور سے میں لاددوں گا۔ اتنا کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ پھر دیکھنا میری بیٹی کو کیسا بر ملتا ہے‘‘۔

    میری ماں ستی ساوتری، ان پڑھ عورت۔ خاوند کو سر کا تاج ماننے والی۔ وہ دنیا کے چھل بل کیا جانے۔ میرے باپ کی حوصلہ افزا بات سن کر وہ مطمئن ہو گئی اور گھر میں رشتہ لے کر آنے والوں کو صاف صاف جواب دینے لگی۔ میرے سامنے بہت بلند آدرش تھا۔ مجھے زندگی میں بہت کچھ کرنا تھا۔ مجھے تعلیم حاصل کر کے عورت کا مقام اونچا کرنا تھا۔ اس کے حقوق کا تحفظ بھی مجھی کو کرنا تھا۔ میرے کندھوں پر ذمہ داری کا بڑا بوجھ تھا۔ ڈگریوں کے پلندے لے کر باپ کی آرزو پوری کرنا تھی۔ اس کا مان بڑھانا تھا۔ اس کے خاندان کا نام روشن کرنا تھا تا کہ وہ اپنا سر بلند کر کے چل سکے۔ غرض میرے کندھو پر ذمہ داریوں کا بہت بوجھ تھا۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور اکلوتی ہونے کے ناتے مجھ سے ان کی جملہ توقعات کا وابستہ ہونا فطری اور لازمی امر تھا۔ مجھے خود بھی اپنے باپ کی تمنا کا شدید احساس تھا اور میں ان کی تمام ترخواہشات کے پورا کرنے کا اپنے دل میں گویا عہد کر چکی تھی۔ میرے باپ کے پاس دولت کی کثرت تھی اور میرے پاس حسن کی فراوانی تھی، ذہن تھا۔ کالج میں پہنچ کر مجھے اپنی اہمیت کا احساس مزید بڑھا۔ میری کلاس کی لڑکیوں کے علاوہ بھی دوسری لڑکیاں مجھ سے دوستی کرنے کی خواہاں نظر آتیں۔ استاد خصوصیت سے توجہ صرف کرتیں اور کالج سے باہر نکلتی تو کالج کے گیت پر لڑکیوں کے منتظر کھڑے لڑکوں کی توجہ کا مرکز سب سے زیادہ میں ہی بنتی۔ اس ماحول نے میرے اندر غرور کا بیج بو دیا۔ بداخلاق تو میں نہ بن سکی مگر لڑکوں کے معاملے میں ہمیشہ بےنیاز بنی رہی۔ حالانکہ اندرسے میراجی چاہتا، کوئی میری تعریف کرے، مجھ سے محبت جتائے، مجھ پر مرمٹنے کی قسمیں کھائے۔ مجھے دنیا کی منفرد اور حسین لڑکی بتلائے۔ مجھے اپنے خوابوں کی شہزادی کہے۔ انسان کی فطرت بھی عجیب ہے۔ اپنے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی دوسروں سے اپنے متعلق سننا چاہتا ہے۔ تعریف کا صرف ایک جملہ، محبت کا مبہم سا کوئی فقرا۔ ستائش کا ایک ننھا سا لفظ۔ عورت کا خمیر ہی شاید ایسی مٹی سے اٹھایا گیا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود میں خود کو لیے دیئے رہتی۔ سنبھال کے رکھتی۔ پھر بھی اپنے ہمسائے میں رہنے والا وہ جھکی جھکی سی شوخ آنکھوں والا لڑکا میرے حواس پر چھاتا جا رہا تھا۔ کالج آتے جاتے وہ اکثر اپنے گیٹ پر کھڑا مجھے ملتا۔ جیسے میری گاڑی کو اخیر تک تکتا رہتا ہے۔ اس کی بےتاب پرشوق نگاہیں مجھے اپنی پیٹھ میں گڑی محسوس ہوتیں مگر کبھی ایک بار بھی میں نے پیچھے مڑکر نہ دیکھا مجھے اپنی ’’انا‘‘ بہت عزیز تھی اور بلند آدرش میرے سامنے تھا۔ میں نے بی اے کا امتحان دے لیا تو اس کے گھر سے رشتہ آیا۔ خوشی سے لمحہ بھر کو میں بے قابو ہو گئی۔ مگر میرا بلند آدرش؟ میں نے اپنی خوشی کو اپنے آدرش پر قربان کر دیا اور میری ماں نے رشتے سے انکار۔۔۔!

    ’’ابھی تو ہماری بچی نے صرف بی۔ اے کیا ہے۔ ابھی ایم اے کرے گی پھر ڈاکٹریٹ اور پھر۔۔۔!‘‘

    اور اس ’’پھر‘‘ کے آگے ایک لمبی لائن تھی۔

    ’’دیکھو بھئی! ہم ابھی جانے کون کون سے علوم پڑھوائیں گے۔ کیا کیا کچھ کروانے کے ارادے ہیں۔ تم انتظار کر سکتے ہو تو کر لو ورنہ ہمیں رشتوں کی بھلا کیا کمی پڑی ہے‘‘۔ دولت مند باپ کی اکلوتی، خوبصورت ، تعلیم یافتہ لڑکی کو بھی کہیں رشتوں کی تھوڑ ہوئی ہے؟ میرے گھر رشتے آتے رہے اور میری ماں میرے باپ کی ہدایت کے بموجب آنے والوں کو ٹکا سا جواب دیتی رہی۔

    ’’ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ کون سی عمر نکل گئی۔ ہو جائےگا سب، پہلے تعلیم تو مکمل کرلے‘‘۔اور میں نے اپنے ہمسائے کے لڑکے کو ذہن سے جھٹک کر بے فکری کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وقت اپنی مدھم، غیر محسوس رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ پھر ایک دن اس جھکی جھکی شوخ آنکھوں والے لڑکے کے گیٹ پر دلہن کی پھولوں سے سجی گاڑی آکے رکی اور میں نے بڑے فخر کے ساتھ مسکرا کر اپنی ماں سے کہا ’’لوگوں کو اپنی زندگی کا مقصد ہی معلوم نہیں۔ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے اور شادی کر کے نچنت ہو بیٹھے کہ جیسے ہر مرحلہ سر کر لیا۔ مقصد حیات حاصل ہو گیا۔ کبھی کسی نے سوچا کہ شادی کے علاوہ بھی کچھ کر سکتا ہے۔ اسے کچھ اور کرنا چاہیے؟‘‘ میری ماں نے میرے اعلیٰ و ارفع نظریات کے ساتھ اتفاق کیا اور میری زبان دانی کی تعریف کی۔ ماں کی حمایت سے میرا حوصلہ بڑھا ضرور مگر مجھے لگا جیسے کوئی چیز میرے دل کے قریب ٹوٹ سی گئی ہے۔ کچھ گڑ بڑ ہوئی ضرور تھی۔ دل شکستگی کا ایک عجیب سا احساس، مایوسی کی سرد لہر، کہیں میں ملفوف بےکیف سی زندگی، یونیورسٹی کی رنگین فضا اچانک دھند سے اٹ گئی تھی۔ شفاف نیلے آسمان پر ابر چھا گیا تھا۔ تب میں نے خود سے سوال کیا۔

    ’’کیا یہ میں ہوں؟ اتنی بزدل؟ ایسی احمقانہ سوچ رکھنے والی؟ میرے سامنے کتنے بلند آدرش ہیں۔ مجھ پر کتنی ذمہ داریاں ہیں۔ مجھے اپنے باپ کی خواہشات پر بہر طور پورا اترنا ہے۔ مجھے دنیا کو بتانا ہے کہ شادی کر کے اور بظاہر گھر بسا کر بیٹھ جانے کے علاوہ بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ عورت محض گھرداری کی ہی نہیں اور بھی بہت سی ذمہ داریاں نبھا سکتی ہے۔ وہ صرف افزائش نسل کا پرزہ نہیں، دنیا کو اپنے آگے جھکا سکتی ہے۔ مردوں سے کہیں بڑھ کر علم سیکھ سکتی ہے‘‘۔

    یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر لڑکھڑا کر میں گرنے لگی مگر میرے بلند ارادوں نے مجھے سہارا دیا اور میں سنبھل کر پھر آگے چل کھڑی ہوئی۔ ایم اے کی ڈگری لینے تک میرے امیدواروں میں کمی آتی گئی اور اس صورت حال سے میرے دانا باپ کو ایک گونا اطمینان ہوا اور اس نے مجھے مزید تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھیج دیا۔ میں خوش تھی۔ اپنی ہم جولیوں میں میں سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑی تھی۔ میری چچیری خلیری قسم کی بہنیں اپنی گودیوں میں کئی کئی بچے لٹکائے پھر رہی تھیں اور مجھ پر رشک کر رہی تھیں۔ میرے سامنے ایک درخشاں مستقبل تھا۔ اعلیٰ نصب العین تھا۔

    چھ۔۔۔ مختصر سے چھ برسوں بعد جب میں باہر سے لوٹی تو میرے پاس بہت سی ڈگریاں تھیں۔ میرے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا لاحقہ لگ چکا تھا۔ ملنے والوں کے دل میرے احترام میں جھکتے تھے۔ میرے کزن لڑکے لڑکیاں مجھ سے بات کرتے جھجکتے تھے۔ میرے ماں باپ کے سر فخر و انبساط سے اٹھے ہوئے تھے۔ مگر بڑھاپا ان پرحاوی ہو چکا تھا۔ میری ماں کو گٹھیا کے مرض نے آ گھیرا تھا اور میرا باپ کئی بیماریوں کا شکار ہو چکا تھا اور میرے چہرے پر ہلکی جھریوں کا جال سا بچھ گیا تھا اور میری مانگ میں سفید چاندی کے تار جھلملانے لگے تھے اور میرے اعصاب تھک چکے تھے اور میری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ میں اپنے باپ کی واحد اولاد تھی اورمجھے اس کے پھیلے ہوئے کاروبار کو سنبھالنا تھا اور اپنی اعلیٰ ترین ڈگریوں کو استعمال میں لانے کے لیے کسی سرکاری محکمے میں اچھی سی نوکری حاصل کرنا تھی۔ میری ذمہ داریوں کا دائرہ گویا مزید وسیع ہو گیا تھا۔ بہت دوڑ دھوپ کے بعد مجھے نوکری آفر ہوئی۔ وہ ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرار شپ تھی۔ اس سے بڑا عہدہ حاصل کرنا میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں نا تجربہ کار تھی۔ سرکاری ملازمت کے لیے میری عمر زیادہ ہو چکی تھی اور میرے والدین سفر آخرت باندھے ہوئے تیار بیٹھے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے ہاتھ پیلے کر دیں مگر شادی کے لیے میری عمر نکل چکی تھی اور میری عمر کے سب لڑکے اپنے بچوں کی جوانی کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ جھکی جھکی آنکھوں والا لڑکا ایک متین مرد بن چکا تھا۔ اب میرے گزرتے سمے اس کی نگاہیں بےچینی سے میرے تعاقب میں نہیں اٹھتی تھیں۔ میں اس کی ایک نظر غلط انداز کی بھی مستحق نہیں رہی تھی۔ وہ اپنی بیوی اور نوجوان بچوں کے ساتھ بے نیازی سے میرے پاس سے گزرتا تھا۔ میرے ماں باپ میری تنہائی کے دکھ سے بوجھل تھے اور میرے معیار و اسٹیٹس کا رشتہ مفقود تھا۔ انہوں نے مجھے اپنی پسند سے اپنا گھر بسا لینے کو کہا مگر شاید وہ نہیں جانتے کہ اس کے لیے بھی اب وقت نکل چکا ہے۔ وقت کا بہتا دھارا جانے کتنے پل کر اس کر چکا ہے۔ کتنے پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے۔

    میں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کی ڈگریوں کی فائل کو شیلف میں بندکر دیا ہے اور اپنے باپ کا گرتا ہوا کاروبار سنبھال لیا ہے کہ مجھے گھر میں بیٹھ کر گھر سنبھالنے کا کوئی شعور نہیں۔میں تو ایک ایسا پھول ہوں جو شاخ پہ لگے لگے ہی بن کھلے مرجھا گیا ہو اور اس کے جی میں کسی کے کوٹ کے کالر میں ٹنکنے کی حسرت ہی رہ گئی ہو۔ میں خود سے پھر سوال کرتی ہوں اور پوچھتی ہوں۔

    ’’میں کیا ہوں؟ کون ہوں؟ میرے آدرش پورے ہوئے یا نہیں؟ اور کیا میں ان آدرشوں کے سہارے جی سکوں گی؟‘‘

    مگر میں جانتی ہوں کہ جیسے بھی ہوگا مجھے بہتر طور پر اس کی پاسداری کرنا ہوگی۔ اس کہرزدہ شام کو مجھے تنہا ہی کاٹنا ہے۔ بالکل تنہا۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے