کوئی منزل نہیں
گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ میں کھڑکی سے لگی اپنے خیالوں میں گم لمحہ لمحہ اس شہر سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اس شہر سے جہاں یہ خوف غالب تھا کہ اگر کچھ دن اور یہاں رہ گئی تو بدنامی اور رسوائی کے چھینٹے میرے دامن کو داغدار کر دیں گے۔
گاڑی اب شہر کی حدود کو پار کر چکی تھی۔ میں نے ایک لمبی اطمینان بخش سانس لی۔ میں اب پر سکون نیند سونا چاہتی تھی۔ لیکن گزرے ہوئے واقعات گاڑی کی چھک چھک سے ہم آہنگ ہو کر دل و دما غ پر ٹھوکریں لگا رہے تھے۔
میری گذشتہ زندگی آج سے بہت مختلف تھی۔ میں تو عیش و عشرت میں جی رہی تھی۔ شاہانہ زندگی بسرکر رہی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس عیش و عشرت کے پس پردہ کیا راز ہے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا خود کو ایک بنگلہ نما مکان میں ماں اور چند نوکروں کے درمیان پایا۔ سرپرست کے طور پر کسی مرد کا وجود نہ تھا۔ ایک تصویر میرے کمرے میں لگی تھی جسے میری ماں نے میرے باپ کی حیثیت سے مجھے روشناس کرایا تھا۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا اور انھوں نے اتنی رقم چھوڑی تھی جو ہماری پرورش کے لیے کافی تھی۔ اور یہ سچ بھی تھا کہ روپے پیسے کی کمی کبھی محسوس نہ ہوئی۔ لیکن یہ بات مجھے اکثر افسردہ کر دیتی کہ ہمارا کوئی رشتہ دار نہ تھا۔ ہمارا آنا جانا بھی کہیں نہ تھا۔ ہاں! ماں کبھی کبھی سوشل ورکر کی حیثیت سے یا اس قسم کی پارٹیوں میں شرکت کے لیے جایا کرتی تھیں۔ ایک شخص ہمیشہ ہمارے یہاں آیا کرتے تھے جن کے بارے میں ماں نے بتایا تھا کہ وہ ہمارے منیجر ہیں۔ منیجر انکل کو میں بچپن سے دیکھتی آ رہی تھی۔ وہ ایک مخلص شخص تھے۔ مجھے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ میں بھی ان سے کافی مانوس تھی۔ ماں کسی کسی موضوع پر گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتیں۔ لیکن ان باتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں تو اپنی دنیا میں مست ہنستی کھیلتی اسکول سے کالج تک پہنچ گئی تھی۔
ماں آزادیٔ نسواں کے سخت خلاف تھیں۔ مجھے ہمیشہ نصیحت کرتیں کہ میں اپنے کلاس فیلوز سے زیادہ میل جول نہ رکھوں۔ لہذا ہائے ہیلو سے آگے قدم بڑھانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ کیونکہ میرے لیے اپنی ماں کا ہر حکم حرف آخر کا درجہ رکھتا تھا۔
مجھے کالج میں داخلہ لیے ہوئے کافی دن ہو چکے تھے۔ اوراب اکزام ہونے والے تھے۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ ایک لڑکا پڑھائی سے زیادہ مجھ میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس کی نظریں ہر وقت مجھ پر ٹکی رہتیں۔
”گستاخی معاف! کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں۔” بالآخر اس نے راہ ورسم بڑھانے کی شروعات کر ہی دی۔
”میں صبا ہوں اور آپ؟“
”ناچیز کو سلمان کہتے ہیں۔ حال ہی میں اس کالج میں منتقل ہوا ہوں۔”
پھر وہ اکثر مجھ سے کوئی نہ کوئی سوال کرتا اور میں مختصر سا جوا ب دے کر خاموش ہو جایا کرتی۔
”شاید آپ کو بولنے کی عادت کم ہے۔” وہ بات سے بات نکالتا۔
”دیکھئے مسٹر! میں یہاں پڑھنے کے لیے آتی ہوں، فضول گوئی کے لیے نہیں۔”
لیکن وہ بڑا ڈھیٹ تھا۔ کامن روم ہو یا کالج کا کمپاؤنڈ، ہر جگہ مجھ سے بےتکلف ہونے کی کوشش کرتا۔ لاچار مجھے اس کی باتوں کا جواب دیناہی پڑتا۔ اسی طرح راہ و رسم بڑھتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ لیکن ماں کی نصیحت میرے ذہن کے کسی کونے میں محفوظ تھی لہٰذا میں نے اس دوستی اور بےتکلفی کو حد سے بڑھنے نہ دیا۔ میرا خیال تھا کہ گریجویشن کرنے کے بعد میں اس کا ذکر ماں سے کروں گی۔ ان سے ملواؤں گی اور انھیں بتاؤں گی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ اب یہ موقع آ گیا تھا۔ لیکن ادھر کچھ دنوں سے ماں کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ نہ جانے انھیں کون سا مرض لگا تھا کہ وہ روز بروز کمزور ہوتی جا رہی تھیں۔ علاج ہو رہا تھا لیکن کوئی افاقہ نہ تھا۔ نہ جانے کون سا غم تھا جو انھیں روز بروز موت سے قریب کر تا جا رہا تھا۔ تنہائی کا غم، اپنو ں سے جدائی کا یا پھر شوہر کی بےوقت موت کا غم۔ ایک رات انھوں نے مجھے اپنے پاس بٹھاکر کہا۔
”آج میں جو کچھ تمھیں بتانے جا رہی ہوں اسے سن کر شاید تمھارے دل میں میرے لیے شدید نفرت پیدا ہو جائے۔ لیکن بتانا ضروری اس لیے تھا کہ میری طرح تمھاری نادانی بھی تمھیں نہ لے ڈوبے۔ میں چاہتی تھی کہ یہ راز میرے ساتھ دفن ہو جائے۔ لیکن زندگی نے مجھے مہلت نہ دی۔ اب ہر قدم تمھیں خود ہی سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ دنیا کے مکر و فریب سے خود کو بچانا ہے۔ یہ دنیا جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔ صرف پرکھنے کی ضرورت ہے۔ میں بہت ہی نادان اور ناسمجھ تھی۔ اس وقت میں اپنے کالج کی تیز طرار لڑکی تھی۔ ہر سرگرمی میں پیش پیش رہنے والی۔ ہر مقابلے میں حصہ لینے والی۔ چاہے وہ ڈیبیٹ ہو یا ڈراما یا کوئی بھی کلچر ل پروگرام اور وہ جو میری تباہی کا باعث بنا، ا سی کالج کا ایک سابق اسٹوڈنٹ تھا لیکن اب بھی وہاں اس کی شخصیت نمایاں تھی۔ ہر تقریب کا صدر منتخب کیا جاتا۔ لمبی لمبی تقریریں کرتا۔ اسی کے ہاتھوں انعامات تقسیم کروائے جاتے۔ مجھے بھی اس کے ہاتھوں انعام لینے کا اتفاق ہوا اور یہ اتفاق کئی بار ہوا۔ انعام دیتے وقت وہ میری کامیابی پر مجھے مبارکباد دیتا اور بہت ہی گہری نظروں سے مجھے دیکھتا اور میں مقناطیسی کیفیت کے زیر اثر اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ پھر ہم اکثر کالج سے باہر بھی ملنے لگے۔ بلاشبہ وہ غیر محسوس طریقے سے کسی کو بھی متاثر کر نے کا فن جانتا تھا۔ میں اس کے خوبصورت الفاظ کے جال میں پھنستی چلی گئی۔ میں اس کی باتوں کی بھول بھلیوں میں ایسی گم ہوئی کہ ہر طرف مجھے و ہی وہ نظر آتا۔ اس کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ نہ باپ نہ ماں، نہ خاندان، نہ خاندان کی عزت و ناموس اور پھر ایک دن میں اپنے خاندان کی عزت و ناموس کی چادر اتار کر اس کے ساتھ چلی گئی دور، بہت دور۔ اپنے ماں باپ کے دل سے دور ان کی شفقت کی چھاؤں سے دور ان کے تحفظ سے دور۔ پھر میری دنیا ہی بدل گئی۔ وہ مجھے بڑی بڑی پارٹیوں میں لے جاتا۔ بڑے بڑے لوگوں سے ملواتا اور جب میں اس رنگ میں رنگ گئی تو مجھے اپنے طور پر استعمال کیا گیا۔ میں ان بھیڑیوں کے بیچ بری طرح گھر گئی تھی۔ گناہ کے دلدل میں اتنی دور تک دھنس گئی کہ اب اس سے نکلنا ناممکن تھا۔“
ماں اتنا کہہ کر خاموش ہو گئیں۔ ان کی باتوں نے میرے ہوش و حواس اڑا دیئے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی میرے کانوں میں سلاخیں گھونپ رہا ہو۔ ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے۔ ارد گرد کی چیزیں مجھے گردش کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
دوسرے دن وہ دنیا کے ہر غم سے آزاد ہو چکی تھیں۔ میں ان کی پٹی پر سر پٹک پٹک کر خوب روئی۔ پھر ایک عزم کے ساتھ سر اٹھایا اور اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ ان کے گزر جانے کے بھی منیجر انکل اکثر آتے۔ ایک دن انھوں نے کہا۔
”تم اپنے ابو کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں؟“
میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ میرے تن بدن میں شعلہ سا بھڑک اٹھا۔
”نہیں! میرا باپ ایک کمینہ شخص ہے۔ اس نے میری ماں کی زندگی برباد کی۔ مجھے اس سے شدید نفرت ہے۔” میں غصے میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ پھر تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر بولی۔
”انکل آپ میرے ابو کو جانتے ہیں؟“
”بالکل جانتا ہوں۔”
”آپ نے انھیں اس حادثے کی خبر نہیں دی؟“
”دی تھی۔”
”پھر بھی وہ میرے پاس نہیں آئے۔ ان کی دشمنی ماں سے تھی، مجھ سے تو نہیں۔”
”تم چاہو تو میں تمھیں ان سے ملوا سکتا ہوں۔”
”نہیں! آپ صرف ان کا پتہ مجھے دے دیں۔”
منیجر انکل نےان کا پتہ مجھے دے دیا۔ میں کئی روز تک اسادھیڑ بن میں رہی کہ مجھے اپنے ابو کے پاس جانا چاہئے کہ نہیں۔ میں جب بھی ماں کے چہرے پر چھائی اداسی اور ان کی دکھ بھری زندگی کو یاد کرتی تو میرے اندر نفرت کی چنگاریاں بھڑکاٹھتیں۔ میرے دل میں انتقام کی آگ سلگنے لگتی اور جی میں آتا کہ انھیں قتل کر دوں۔ پھر سوچتی ،کیا کسی کی جان لے لینے سے انتقام کی آگ سرد ہو جائےگی؟ میرے دل سے آواز آ تی، نہیں! تو پھر میں کیا کروں؟ دل میں بھڑکتے ہوئے شعلوں کو کیسے ٹھنڈا کروں؟ میں کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر تھی۔
اسی طرح کئی شب و روز گزر گئے۔ پھر ایک دن جب بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی تو میں منیجر انکل کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئی۔ رات بےحد تاریک تھی۔ بنگلے پر مکمل سکوت طاری تھا۔ میں گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ بر آمدہ پار کر کے ایک کمرے میں داخل ہوئی۔ مدھم روشنی کا بلب جل رہا تھا۔ بستر پر کوئی شخص سو رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ وہی تھا، بالکل وہی۔ وہی ناک و نقشہ ،وہی چہرہ،میرے کمرے میں لگی ہوئی تصویر سے مشابہ۔ شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔ میں نے بیگ کھول کر پستول نکالا اور بےدریغ گولی چلا دی۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی ایک درد بھری چیخ سنائی دی اور پھر دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں آئیں۔ پورا بنگلہ روشن ہواٹھا تھا۔ میں چاروں طرف سے گھر چکی تھی۔ پھر میں چکرا کر بےہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو اپنے بستر پر پڑی تھی۔
”اف!کتنا بھیانک خواب تھا۔”
وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا۔ مجھے آگے پیچھے،دائیں بائیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ سلمان بھی بہت دنوں سے لا پتہ تھا۔ سچ ہے کہ اندھیرے میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ پھر ایک روز منیجر انکل نے مجھے بتایا کہ میرے ابو مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ مجھے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔
”کہاں؟ اس نرک میں،جہاں وہ خود رہتے ہیں اورجہاں میری ماں نے دوزخ کی زندگی گزاری تھی۔ جس شخص نے میری ماں کی قربانی، ایثار، وفا، عزت اور اعتماد کو تار تار کر دیا وہ انسان بھروسے کے لائق نہیں۔ نہیں! میں وہاں نہیں جاؤں گی، کبھی نہیں۔”
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جس پیار اور شفقت کے لیے میں عمر بھر ترستی رہی وہی پیار اور تحفظ جب مجھے حاصل ہو رہا تھا تو میرا دل اسے قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کون جانے وہ میرا باپ ہے بھی یا نہیں؟ اور واقعی میرا اندازہ صحیح نکلا۔ وہ شخص میرا باپ نہیں تھا۔ منیجر انکل نے بھی مجھے دھوکہ دینا چاہا تھا۔ انھوں نے میری دولت ہڑپ کرنے کے لیے کسی فراڈ کو میرے باپ کی حیثیت سے مجھے ملایا تھا۔ لیکن میں اس شخص کو دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ وہ میرا باپ نہیں ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا اور پہلے تو میں نے منیجر انکل سے ’انکل‘ کو نکال دیا ،پھر منیجر کو بھی نکال دیا۔
اس کے بعد کئی لوگوں نے میرے باپ ہونے کا دعویٰ کیا۔ میں حیران و پریشان تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان میں سے کون میرا حقیقی باپ ہے۔ مجھے آج بھی اپنے باپ کی تلاش ہے تاکہ میں اس کا گریبان پکڑ کر پوچھ سکوں کہ کیوں پیدا کیا تم نے مجھے؟ میرے نہ ہونے سے دنیا میں کوئی کمی تو نہ آ جاتی؟
پھر اپنے وجود کو کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے پہلے میں نے اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہنے کا فیصلہ کر لیا لیکن جانے سے پہلے میں ایک بار سلمان سے ملنا چاہتی تھی۔ اگر اس نے مجھے اپنا لیا تو میں زندگی بھر کے لیے اس کی ہو جاؤں گی۔ ایسا میں نے اپنے دل میں سوچا اور پھر ایک روز میں سلمان کے دروازے پر جا پہنچی۔ کال بیل دبانے پر ایک ملازم نے دروازہ کھولا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کس سے ملنا چاہتی ہوں۔ جب میں نے سلمان کا نام لیا تو اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک جوان عورت میرے سامنے آ کھڑی ہوئی اور متجسس نظروں سے مجھے دیکھنے لگی اور پھر میرے آ نے کا مقصد دریافت کیا۔
”مجھے سلمان سے ملنا ہے۔”
”لیکن وہ تو کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔”
”آپ کا تعارف؟“میں نے کھوجتی نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”میں مسز سلمان ہوں۔”اس سے آگے میں کچھ اور نہ سن سکی۔ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اس شہر میں میرے لیے کوئی کشش باقی نہ رہی تھی۔
ساری رات ماضی کی بھول بھلیوں میں گزر گئی۔ اب صبح ہو رہی تھی۔ لوگ اٹھ اٹھ کر ٹوائلٹ کی طرف جا رہے تھے۔ ہر طرف سے چائے والوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گاڑی دیر سے رکی ہوئی تھی۔ شاید کوئی بڑا اسٹیشن تھا۔ لوگ اتر رہے تھے اور چڑھ رہے تھے۔
لیکن مجھے کہاں جانا ہے؟ میری تو کوئی منزل ہی نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.