Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کوکون

MORE BYاسد محمد خاں

    اے اے میری کچھ نہیں تھیں۔ نہ ماں، نہ رشتے دار۔ وہ بس میری ماں کی سہیلی تھیں۔ یہ دونوں کسی اور شہر میں (میرے پیدا ہونے سے بہت پہلے) پاس پاس کے گھروں میں رہتی تھیں۔ میں کچھ ہی مہینے کا تھا تو میرے باپ نے، نہ معلوم کیوں، میری ماں کو مار ڈالا۔ (میرے باپ کا نام اے اے نے بہت دنوں تک مجھے نہیں بتایا تھا۔۔۔ یہ انہوں نے کچھ ہی دن پہلے بتایا ہے۔۔۔) بس تو، اے اے کسی سے بھی کہے بغیر، مجھے اٹھا لائیں اور اس شہر میں آن بسیں۔

    وہ میری ماں سے بہت پیار کرتی تھیں۔ اے اے بہت چاہتی تھیں انہیں۔

    اچھا تو، پولیس نے باپ کو قید میں ڈال دیا۔ انہوں نے مجھے۔۔۔ اور اے اے کو بھی، تلاش کیا ہوگا۔ ہم انہیں ملے ہی نہیں۔

    اے اے نے بتایا کہ میری اماں کا نام بی بی تھا۔

    راتوں میں دیر تک اے اے مجھے اپنے اور بی بی کے بچپن، لڑکپن کے قصے سناتی تھیں۔ اتنی چاہت، ایسے لاڈ پیار سے وہ میری ماں، بی بی کا نام لیتی تھیں کہ وہ خاتون، میں نے جن کی تصویر تک نہیں دیکھی تھی، قصے سنتے ہوئے میری اپنی دوست جیسی بن جاتیں، باکل اے اے کی طرح اور وہ شہر جسے میں نے بس نقشے میں دیکھا تھا، اپنے شہر جیسا لگنے لگتا۔

    پڑھائی اور اے اے کے بتائے چھوٹے موٹے کاموں سے فارغ ہو کر پہلے تو میں اپنے کھیل کھیلنے یا تصویریں بنانے میں لگ جایا کرتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کھیلنے، تصویریں بنانے میں اب میرا جی نہیں لگتا تھا۔ میں چھوٹی موٹی شرارتوں، مزے مزے کے ان قصوں کو یاد کرنے بیٹھ جاتا تھا جو مجھے اے اے نے سنائے ہوتے۔ جو کچھ بھی۔۔۔ برسوں پہلے، ان دو چھوٹی لڑکیوں نے کیا ہوتا، میرے حساب سے، وہ اب ہم تین چھوٹے بچوں کا کیا ہوا بن جاتا تھا۔تیسرا بچہ میں ہوتا تھا۔۔۔ سی سی۔

    ایسا لگتا تھا کہ میں یہ جگہ، یہ دن رات چھوڑ کے، کسی نہ کسی طرح، ان دو چھوٹی شریر لڑکیوں کے شہر اور ان کے دنوں میں پہنچ گیا ہوں۔ وہاں موجود ہوں۔ جو کبھی اے اے کا اور میری ماں بی بی کا شہر اور ان کے دن رات ہوا کرتے تھے۔ وہاں چل پھررہا ہوں، کھیل رہا ہوں۔

    مجھے ان قصوں میں بس انہی تین آدمیوں سے سروکار ہوتا تھا۔ اے اے اور بی بی سے۔۔۔ اور سی سی سے۔۔۔ مطلب، خود اپنے آپ سے۔

    اور جب یاد کرتا تھا تو بس تین ہی آدمی اچھی طرح دکھائی دیتے تھے۔ اے اے، بی بی اور سی سی، یعنی خود میں۔۔۔

    یہ مجھے خوب اجلے اجلے نظر آتے تھے۔

    ہے ناعجیب بات؟

    اور انہی تین کی آوازیں مجھے سنائی دیا کرتی تھیں۔ بالکل صاف، سمجھ میں آنے والی آوازیں۔۔۔ حیرت ہے!

    پھر ان قصوں میں دوسرے لوگ بھی آنے لگے۔ بی بی کی ماں جی اور ایک بہت گوری چٹی بوڑھی عورت، بی بی کی دادی۔ ان کے نام خبر نہیں کیا تھے۔ یہ سبھی مجھے دھندلے نظر آتے۔ اے اے کے سنائے قصوں کے سارے لڑکا، لڑکی، ٹیچر، بوڑھے، جوان اور میری ماں بی بی کے اور اے اے کے گھروں کے لوگ۔ بیشک کم کم اور دھندلے دکھتے۔ مگر جب بھی یاد کرتا تو دکھتے ضرور تھے۔۔۔ اور آوازیں ان کی ہلکی ہلکی، جیسے دور سے آتی سنائی دیتی تھیں۔ ان میں ہم تینوں جیس کوئی بات ہی نہیں ہوتی تھی۔

    اس طرح بی بی کے اور اے اے کے گھروں میں کام کاج کے لیے آنے والے سب لوگوں کو میں پہچاننے لگا تھا۔ بہت سوں کی شکلیں تو اے اے نے بتائی بھی تھیں۔ جن کی شکلیں نہیں بتائی تھیں، ان کو میں نے سوچ لیا تھا کہ یہ ایسا ہوگا اور وہ ایسا۔ بس اسی طرح، میں نے، ان سبھی لوگوں سے دوستیاں جیسی کر لی تھیں۔

    لیکن باپ سے دوستی نہیں ہوئی تھی۔ اے اے نے اس کی شکل ہی نہیں بتائی تھی۔

    ایک دن، جب اے اے مجھے سلانے، شب بخیر کہنے آئیں تو میں نے انہیں روک لیا اور پوچھا کہ میرے باپ کی شکل کیسی تھی، کیسا دکھتا تھا وہ؟

    اے اے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں ضد کرنے لگا تو پوچھنے لگیں کہ جو سناتی ہوں تجھے وہ باتیں اچھی لگتی ہیں؟ میں نے کہا، جی ہاں، بہت۔ کہنے لگیں کہ وہ اچھے لوگ تھے، اس لیے ان کی باتیں بھی اچھی ہیں۔

    ’’تومیرا باپ اچھا نہیں تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ انہوں نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے بھی اور بات شروع کر دی۔ ان سے بی بی کا پوچھا کہ وہ پڑھائی میں کیسی تھیں؟ اسکول کا یونیفارم کیسا ہوتا تھا؟ وہ یونیفارم میں کیسی دکھتی تھیں؟ بی بی او ر آپ، گھر میں کیسے کپڑے پہنتی تھیں؟

    اے اے نے سب کچھ بتا دیا۔ ہنس کے کہنے لگیں، ’’بہت باتیں کر رہا ہے آج! کیا پہنتی، کیسی دکھتی تھیں؟ یہ سب جان کے کیا کرےگا تو؟‘‘

    میں نے چالاکی سے ان کی بات ٹال دی۔ جب انہوں نے گدگدی کرنے کی دھمکی دی تومجھے پوری بات بتانی پڑی کہ آپ کے سنائے یہ سب قصے، یہ ساری اچھی اچھی باتیں، میں دل ہی دل میں دہراتا ہوں اور آپ کے اور بی بی کے ساتھ وہ وقت اسی طرح گزارتا ہوں جیسا آپ نے گزارا تھا۔ ہم خوب مزے کرتے ہیں، خوب کھیلتے، شرارتیں کرتے ہیں۔ ہم تینوں، آپ بی بی اور آپ ہی کی طرح کا ایک چھوٹا لڑکا میں، سی سی۔

    وہ دیر تک مجھے حیرت سے دیکھتی اور مسکراتی رہیں۔ پھر انہوں نے میری پیشانی چوم لی اور بولیں ’’سی سی تونے تو مجھے حیران کر دیا۔ ارے واہ! یہ باتیں بھلا کیسے سوچ لیتا ہے؟‘‘ میں کیا بتاتا، مجھے خود معلوم نہیں تھا۔

    جاتے ہوئے وہ کہنے لگیں ’’سی سی! تو ہمیشہ سے میرا بیٹا بھی ہے اور دوست بھی۔ بالکل بی بی کے جیسا، پکا دوست، ساتھ کا کھیلا۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟ اب ان قصوں میں ہم تین دوست ہوا کریں گے۔ تو، میں اور بی بی۔ مگر ہم اور بی بی تو اسکول کا یونیفارم بھی پہنیں گے۔ توکس طرح کے کپڑے پہنےگا؟ سوچ کے رکھنا۔‘‘ پھر وہ شب بخیر کہتے ہوئے چلی گئیں۔

    اس رات کے بعد سے اسی طرح ہونے لگا۔ اے اے اپنے بچپن لڑکپن کی کوئی بھی کہانی سناتے ہوئے خود ہی مجھے بھی ایسے شامل کر لیتیں جیسے میں وہیں تھا اور کبھی تو مجھے یاد دلانے لگتیں کہ ’’یاد ہے نا تجھے؟ ہم لوگ کتنے شوق سے درختوں پر چڑھتے، کچ پکی املیاں توڑتے تھے؟ بی بی کی ماں جی۔۔۔ نانی تیری، چاہے جتنی خفا ہوں، ڈانٹ پھٹکار کریں، ہم باز نہیں آتے تھے۔ املیاں چھین کے پھنکوا دیتی تھیں وہ۔ پرہم کہاں ماننے والے تھے۔‘‘

    اے اے مجھے یاد دلاتیں۔ پوچھتی کہ تو ہمیں یونیفارم پہنے، کندھوں پہ بستے لٹکائے، انہیں ہاتھوں سے سنبھالے اسکول لاری پہ چڑھنے میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے دیکھتا تھا نا؟ میں کہتا ’’ہاں دیکھتا تھا۔‘‘ اور جب بہت سی راتوں تک میں یہ بات برابر سنتا رہا اور یہی جواب دیتا رہا تو پھر مجھے اے اے اور بی بی اسی طرح نظر آنے لگی۔۔۔ مطلب، یونیفارم پہنے، کندھے پہ بستے لٹکائے، انہیں سنبھالتی اور لاری پہ چڑھنے میں بازی لے جانے کی کوشش کرتی۔

    پھر عجیب بات ہونے لگی، خودبخود میں یہ جان گیا کہ جب دروازے میں پھنستی ہوئی وہ اندر پہنچتی تھی تودونوں میں وہ جو پہلے پہنچ جاتی تھی اس پرخوش ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے اس نے دوسری کو ہرا دیا ہے۔ ہر دوست کو ہرا کے خوش ہوا؟ یہ توکوئی اچھی بات نہیں۔

    میں نے کہہ دیا کہ اے اے! مجھے بتائیے کیا سچ میں ایسا لگتا تھا کہ ایک نے دوسری کو ہرا دیا ہے؟ پہلے تو وہ سوچ میں پڑ گئیں۔ پھر کہنے لگیں۔

    ’’سی سی امی نے تجھے ایسا توکچھ نہیں بتایا تھا، اس لیے کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی، کھوٹے پن کی بات تھی۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’مگر آپ ایسا سوچتی تو تھیں نا؟‘‘

    وہ جواب میں بولیں۔ ’’ہاں، ہم میں یہ برائی تو ہوگی۔‘‘ میں نے کہا ’’ہوگی نہ کہیے۔ یہ کہیے، تھی۔ ہم میں یہ برائی تھی۔‘‘

    اے اے نے دھیرے سے سرہلا کے مان لیا کہ ہاں یہ ایک برائی تو تھی۔

    ایک دن انہوں نے کسی لڑکی کا بتایا کہ وہ ان دونوں میں اتنی دوستی دیکھ کے بہت کڑھتی تھی۔ نہ معلوم کیوں کڑھتی تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ اس کی صورت ایسی ایسی تھی۔ میں نے پوچھا نہیں تھا۔ پھر بھی انہوں نے اس کی صورت بتائی، نام بھی بتایا اس کا۔

    مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔

    یہ پہلی بات تھی اے اے کی، جومجھے اچھی نہیں لگی۔

    انہوں نے میرے باپ کی۔۔۔ جو اچھا نہیں تھا۔۔۔ نہ تو مجھے صورت بتائی تھی، نہ ہی نام بتایا تھا۔ تو پھر انہوں نے لڑکی کی صورت اور اس کا نام مجھے کیوں بتادیا، جو کڑھتی تھی اور اچھی نہیں تھی؟ اس کی اتنی باتیں کیوں کیں مجھ سے؟

    مجھے دو دن تک اس بات کا صدمہ رہا۔ اے اے نے کیوں کیا ایسا؟

    وہ سمجھ گئیں کہ میں خفا ہوں، پر کس بات پر خفا ہوں؟ یہ نہیں سمجھتی تھیں وہ۔

    اس لیے تیسرے دن میں نے ان سے پوچھ لیا۔ کہا کہ ’’اے اے! آپ دونوں میں جو ایک بات اچھی نہیں تھی وہ آپ نے مجھے بتا دی۔ جو لڑکی کڑھتی تھی اور اچھی نہیں تھی، آپ نے اس کی صورت اور نام تک مجھے بتا دیا۔‘‘

    کہنے لگی، ’’ہاں، جو لڑکی اچھی نہیں تھی اس کی صورت اور نام تجھے بتا دیا۔ جو بات ہم دونوں میں اچھی نہیں تھی، وہ تجھے بتا دی۔۔۔ پھر؟‘‘

    میں نے کہا ’’لڑکی کی صورت اور نام بتا دیا، مگر میرا باپ۔۔۔ جو اچھا نہیں تھا، وہ کیسا دکھتا تھا؟ اس کا نام کیا تھا؟۔۔۔ یہ مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘

    اے اے نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے چہرے پر ایسی خفگی تھی جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ رات تک وہ مجھ سے نہیں بولیں۔ ’’میں بھی کیوں بات کرتا؟‘‘

    رات میں جب میرے سونے کا وقت ہوا تو وہ روزانہ کی طرح گلاس میں پانی لے کر آئیں اور بہت پیار سے مجھ سے کہنے لگیں ’’لے نا، اپنی گولی کھالے۔‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں، میں نہیں کھاتا۔‘‘ اور میں نے منہ پھیر لیا۔ انہوں نے کتنی ہی بار یہ بات کہی اور میں نے انکار کر دیا اور منہ پھیر لیا۔ اس پر وہ بگڑ گئیں اور مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ میں نے چیخ کے کہا ’’میں کبھی نہیں بولوں گا آپ سے۔ آپ اچھی نہیں ہیں۔‘‘

    تب عجیب بات ہوئی۔ اے اے نے اچانک میرا سر تھام کے مجھے خود سے بھڑا لیا۔ میں سمجھا لاڈ سے کرتی ہیں۔ پر انہوں نے گردن کے پیچھے سے ہاتھ پہنچا کر منہ کھولا اور گولی ڈال دی۔۔۔ میں نہیں پی رہا تھا، مگر انہوں نے بہت سا پانی پلا دیا۔۔۔ قمیص تک بھیگ گئی میری۔ میں رونے لگا۔ انہوں نے پرواہ نہیں کی۔ جلدی جلدی میری قمیص بدلی اور روشنی اور دروازہ بند کرتی چلی گئیں۔ آج انہوں نے گانے کا ٹیپ بھی نہیں لگایا تھا۔ ’شب بخیر‘ بھی نہیں کہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اٹھ کے دروازہ پیٹوں۔ غصہ کروں۔ پر اٹھا ہی نہیں گیا۔ نیند آ گئی تھی۔

    جیسے روز راتوں میں خواب آتے تھے، آج بھی ویسے ہی خواب آئے۔ صبح اٹھا تو روز کی طرح منہ کڑوا ہو رہا تھا، پیاس لگ رہی تھی اور سر گھوم رہا تھا۔ اس سب کے ساتھ، آج غصہ بھی آ رہا تھا مجھے۔ اے اے نے مجھے اس طرح کیوں گولی کھلائی؟ اچھی طرح کہہ دیتیں، انکار کیا ہے میں نے؟ روز تو کھا لیتا ہوں۔

    پھر صبح کو وہ روز کی طرح مسکراتی ہوئی آئیں، گال تھپتھپائے اور ٹھنڈے جوس کا گلاس میرے منہ سے لگا کے ’شاباش شاباش‘ کہتی ہوئی مجھ سے ایک سانس میں گلاس ختم کرا دیا۔ پھر روز کی طرح مجھے شاور کے لیے بھیجا، کپڑے بدلائے، ناشتہ کرایا، گھنٹوں پڑھاتی رہیں، ہوم ورک دے کے خود کھانا پکانے لگیں۔

    کھانے کے بعد میں کچھ بھی کر سکتا تھا۔ تصویریں بنا سکتا تھا، نرم لکڑی کو آریوں سے کاٹ کے تیز چاقوؤں سے تراش کے ریتیوں سے ہموار کر کے کچھ بھی بنا سکتا تھا۔ موٹر کار، خرگوش، طوطا۔۔۔ کچھ بھی۔ ان پہ رنگ کر سکتا تھا۔

    تو میں نے سوچا آج گھوڑا بناؤں گا۔ میں اپنا سامان اٹھا لایا۔ ڈبے میں رنگ، پنسل، کاغذ سبھی تھے، مگر آریاں، چاقو، ریتیاں نہیں تھیں۔

    میں نے پوچھا، ’’اے اے! سب چیزیں آپ نے کہاں رکھ دیں؟ میں لکڑی کا گھوڑا بناؤں گا۔‘‘

    وہ میرے بیڈ پہ لیٹی تھیں اور نیند میں ہو رہی تھیں۔ کہنے لگیں، ’’کاغذ پہ بنالو، سی سی! جب اٹھوں گی تو لا دوں گی۔‘‘

    میں نے کہا ’’جی نہیں کاغذ پہ نہیں، میں لکڑی سے بناؤں گا اور ابھی بناؤں گا۔ آپ اٹھیے! لا کے دیجئے۔‘‘

    انہوں نے کچھ کہا جو میں سن نہیں سکا۔ میں نے الجھ کے پوچھا کہ، ’’اے اے! میری چیزیں ڈبے میں رکھی ہوتی ہیں۔ آپ نے کیوں نکالیں؟‘‘

    وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھیں اور چیختی ہوئی آواز میں ایسی بری بری باتیں کہنے لگیں جو میری سمجھ میں نہ آئیں۔ اس لیے کہ میں نے تو وہ کبھی سنی نہیں تھی۔ انہوں نے میرے باپ کے لیے کوئی بہت بری بات کہہ دی اور یہ بھی کہا کہ میں بالکل اپنے باپ پہ پڑا ہوں۔ ضدی، بدتمیز اور نہ جانے کیا کیا ہوں۔۔۔ اور میری صورت بھی باپ جیسی ہے!

    یہ پہلی بات تھی جو مجھے اپنے باپ کے بارے میں اچانک معلوم ہوئی۔ ’’اس کی صورت میرے جیسی تھی۔‘‘

    میں وہاں سے ہٹ کر شیشے کے سامنے آیا اور اپنی صورت دیکھنے لگا۔ ’’اچھا؟ میرا باپ ایسا دکھتا تھا؟‘‘

    میں نے دل میں کہا، ’’ٹھیک ہے، مجھے اپنے باپ کا نام بھی معلوم ہونا چاہیے۔‘‘

    (تو اس کے لیے مجھے کچھ کرنا ہوگا؟)

    میں نے بڑھ کے ان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ ان سے کہا کہ ’’غصہ مت کیجئے۔ سوجائیے۔۔۔ گھوڑا تو میں کاغذ پہ بنا لوں گا۔‘‘

    وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہیں پھر دھیرے سے کہنے لگیں کہ، ’’تو سمجھتا نہیں ہے۔ چاقو اور آریاں اور ریتیاں، یہ سب دھاردار ہوتی ہیں۔ ان سے تجھے چوٹ لگ سکتی ہے۔ ہاتھ بھی کٹ سکتا ہے تیرا۔ اسی لیے میں نے سب ہٹا دیں۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ اصل بات کچھ اور ہے۔

    ’’ہٹا دیں۔۔۔؟ یہاں سے ہٹا کے کہاں رکھ دیں؟ یہاں کے علاوہ گھر میں اور کیا ہے؟‘‘ مگر یہ میں نے نہیں پوچھا۔ وہ نہیں بتاتیں۔

    یہ مجھے معلوم ہونا چاہیے۔ جس طرح یہ معلوم ہوا کہ باپ کی صورت کیسی تھی۔ اسی طرح اس کا نام بھی اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ سب چیزیں یہاں سے ہٹا کے کہاں۔۔۔؟

    ’’تو کیا سوچنے لگا؟‘‘ اے اے نے پھر سوال کیا کہ تو کیا سوچ رہا ہے اور انہو ں نے ہاتھ بڑھا کے میرا سراپنے شانے سے ٹکا لیا۔ یہ ٹھیک ہے، میں نے دل میں کہا کہ انہیں کچھ بھی بتانا اچھا نہیں ہے۔ تو بس میں ہنسنے لگا اور میں نے وہ بات کہہ دی جو سچ نہیں تھی،

    ’’میں کچھ نہیں سوچ رہا۔‘‘ میں نے کہا۔۔۔ اس بات پر وہ خود بھی ہنسنے لگیں۔

    مگر اب بھی ان کی ہنسی پر بھروسا نہیں رہا۔ نہ ان کی پیار کی باتوں پر۔ وہ مجھ سے اچھی بات کر کے جو چاہتی ہیں کرا لیتی ہیں اور کوئی بات اگر ان کی مرضی کی نہیں ہوتی تو وہ چیختی اور بری بری باتیں کہتی ہیں اور جب جی چاہتا ہے وہ سچ بات کہنا بند کر دیتی ہیں۔

    (تو میں بھی اب اپنی مرضی کروں گا!)

    میں نے بہت دن انہیں خفا ہونے کا موقع نہیں دیا۔ اسے الجھ کے بات نہیں کی۔ کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ چڑ جاتیں اور کچھ نہیں بتاتیں۔

    بہت سی باتیں معلوم کرنا تھیں مجھے۔ یہ پوچھنا تھا کہ لکڑی کے کام والے اوزار کہاں ہیں اور یہ بھی کہ کیا اب وہ مجھے کبھی نہیں ملیں گے؟

    اور ایک دفعہ باتیں کرتے کرتے میں نے ہنس کے پوچھ بھی لیا کہ آپ نے یہ کس طرح کہا کہ میرا باپ ضدی اور بدتمیز تھا؟

    وہ کچھ سوچ رہی تھیں۔ ایک دم بول پڑیں کہ، ’’سب جو کہتے تھے۔ اصل میں ڈی ڈی خود ہی بہت کمینہ آدمی رہا ہوگا۔‘‘ پھر ایک دم چپ ہو گئیں۔ شاید وہ نہیں چاہتی تھیں کہ مجھے یہ نام معلوم ہو۔ مگر اب تو مجھے معلوم ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

    میں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’’یہ ڈی ڈی کیسا نام ہے؟ برا نام ہے نا؟ اس کی آواز بھی اے اے، بی بی اور سی سی جیسی نہیں ہے۔۔۔ یخ!‘‘

    کہنے لگیں، ’’تو ٹھیک کہتا ہے۔ مگر اس وقت ایک دم تجھے اس کا خیال کیسے آ گیا؟‘‘

    میں نے کہا، ’’مجھے اس کی وجہ سے خیال نہیں آیا، اپنی وجہ سے آیا ہے۔۔۔ میرے کام کے اوزار ہٹا دئیے آپ نے اور میں نے پوچھا تو آپ نے بے ضرور ت ڈی ڈی سے مجھ کو ملا دیا کہ میں بالکل اپنے باپ پہ پڑا ہوں، ضدی، بدتمیز اور نہ جانے کیا کیا ہوں اور آپ ایسی بری باتیں بھی کہنے لگیں جو میری سمجھ میں نہ آئیں۔ اب مجھے اپنے اوزار چاہئیں۔ یہ آپ نے جھوٹ کہا ہے کہ چاقو اور آریاں اور ریتیاں، یہ سب دھار دارہوتے ہیں، ان سے چوٹ لگ جاتی ہے، اس لیے آپ نے ہٹا دئیے۔ اگرایسا تھا تو آپ نے پہلے ہی کیوں دئیے تھے؟ ابھی تک توکچھ نہیں ہوا۔ جی ہاں! اس لیے کہ میں بڑا ہو گیا ہوں، کام سیکھ گیا ہوں۔‘‘

    یہ سب ٹھیک تھا۔ مگر میں نے ایک غلطی کر دی۔

    میں نے اے اے سے کہہ دیا کہ مجھے ان کی یہ بات جھوٹ لگتی ہے کہ باپ نے ماں کو مار ڈالا تھا۔ ایسا بالکل نہیں ہو ہوگا۔ میں نے کہا ’’اگر اس نے میری ماں کو۔۔۔‘‘

    انہوں نے بات بھی نہ پوری کرنے دی۔ طمانچے اور گھونسے مار مارکے مجھے گرا دیا اور اتنی خراب اور گندی باتیں کیں کہ میں پریشان ہو گیا۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا۔

    میری ناک سے خون بہنے لگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں واش روم میں جا گھسا اور کنڈی بند کر لی۔ میں نے سنا وہ برابر کچھ نہ کچھ بکے جا رہی تھیں۔

    بہت دیر بعد میں باہر آیا۔ اے اے جا چکی تھیں۔ رات ہو گئی۔ میں بھوکا تھا، لیٹ کے آنکھیں بند کر لیں۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ گولی کھلانے ضرور آئیں گی وہ نہیں آئیں۔ میں بہت دیر جاگتا اور سوچتا رہا، پھر سو گیا۔

    رات میں کسی وقت میری آنکھ کھل گئی۔ باہر سے، کہیں سے ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ موٹرکاریں اور بائیک ہارن بجاتی گزری تھیں۔ یہ آوازیں میں نے ریڈیو اور ٹیپ پہ سنی ہیں۔ باہر کوئی ٹیپ بجا رہا ہے؟ مگر نہیں، یہ ٹیپ یا ریڈیو نہیں، سڑک پر موٹر کار نے ہارن دیا تھا اور کہیں قریب سے اذان کی آواز آئی تھی۔ میں نے ٹیپ پر کتنی بار اذان سنی ہے، مجھے پوری یاد ہے۔ آدھی رات کے بعد کون سی اذان ہو رہی ہے؟

    ہاں اور یہ صبح کی اذان نہیں تھی۔ میں دیر تک سوچتا رہا۔ گھڑی میں ایک سے زیاد ہ بجا تھا۔ کیا یہ دن کا وقت ہے؟ بہت سی آوازیں ایسی تھیں جنہیں میں نہیں جانتا۔ مگر ایک آواز اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ آئس کریم والے کی آواز! وہ کتنی دیر کھڑا گھنٹی بجاتا، آواز لگاتا رہا۔ پھر چلا گیا۔ میں بہت دیر بیٹھا سوچتا رہا، یہ دن کاوقت ہے۔ باہر دن نکلا ہوا ہے۔

    مجھ سے رات کہہ کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ (یہ رات نہیں دن کا وقت ہے!)

    ٹھیک ہے۔ میں نے خود سے کہا کہ ٹھیک ہے، مجھے معلوم کرنا ہے کہ اصل بات کیا ہے۔ مجھے جھگڑنا نہیں، بس معلوم کرنا ہے۔

    اور اب میرے لیے اے اے کو سمجھنا ضروری ہے۔

    سب سے زیادہ انہیں یہی اچھا لگتا ہے کہ میں روز۔۔۔ ہر روز انکی دی ہوئی گولی کھا کے پانی پی لیتا ہوں۔ اب ایسا کچھ کروں کہ وہ سمجھیں میں پانی پی رہاہوں، تو اس لیے پی رہا ہوں کہ میں نے گولی کھا لی ہے۔ مگرمیں گولی حلق سے نہ اتاروں، منہ میں ہی روک لوں۔

    اگلی صبح جب وہ کچھ ناراض سی، کچھ لاڈ کرتی آئیں تو میں نے سوچ لیا کہ آج ایسا ہی کروں گا۔

    میں دن بھر ان کی کہی باتوں پر سر ہلاتا، مسکراتا رہا۔ دن بھر میں نے سب کچھ ویسا ہی کیا جیسا وہ چاہتی تھیں۔ پھر شام ہوئی اور رات ہو گئی، میں نے انہیں کاغذ پہ گھوڑے کی تصویربنا کے دکھائی۔ وہ خوش ہوئیں۔ پھروہ میرے لیے گولی لے کر آ گئیں۔

    میں نے گولی منہ میں ڈالی، اسے زبان اور ڈاڑھ کے بیچ پر روک لیا۔ اوپر سے پانی پی لیا۔ منہ پونچھنے کے بہانے گولی مٹھی میں لے کے جیب میں ڈال لی۔ انہوں نے شب بہ خیر کہا۔ میں نے جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ انہیں پتا نہ چلا۔ وہ سمجھیں میں سو گیا ہوں۔ مگرمیں سب سن رہا تھا۔ انہوں نے گانے کی آواز بند کی، روشنی بجھائی اور دروازہ بند کر کے چلی گئی۔

    میں نے سنا، دروازہ بند کرتے ہوئے انہوں نے چابی گھمائی تھی۔

    میں اٹھ بیٹھا۔ اچھا؟ اے اے تالا ڈال کے جاتی ہیں! کیوں؟ سب طرف دن ہوتا ہے، تو وہ کہیں جاتی ہیں؟ پر وہ جاتی کہاں ہیں؟ میں رات سمجھ کے یہیں سوتا رہتا ہوں! میں جا نہیں سکتا کیوں کہ باہر تالا پڑا ہے۔ (مجھے سوچتے رہنا چاہیے۔)

    میں نے کئی دن ایسا کیا۔ میں گولی منہ میں ڈالتا، اسے ایک طرف روک لیتا، پانی پی لیتا۔ پھر گولی مٹھی میں لے کر جیب میں ڈال لیتا۔

    یوں کچھ دنوں میں چار چھ گولیاں جمع ہو گئیں۔ میں نے انہیں ایسی جگہ چھپا دیا جہاں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

    اگر جلدی نہ سو جاؤں تو بہت سی باتیں سوچ سکتا ہوں۔ یہ زیادہ ضروری ہے۔ سوچنا بہت ضروری ہے۔ تو بس میں جاگتا اور سوچتا رہا۔

    اور پھر، جب کہ میری طرف شام ہوئی۔ وہ میرے لیے دودھ کا پیالہ اور اپنے لیے ایک کپ میں سیاہ کافی کے کر آ گئیں اور مجھ سے ہنس ہنس کے باتیں کرنے لگیں اور جب وہ کم دھیان دے رہی تھیں، میں نے کافی کے کپ میں تین گولیاں ڈال دیں۔ باتیں کرتے ہوئے انہوں نے چمچہ چلایا اور کافی پی لی۔

    باتیں کرتی ہوئی وہ تکیے سے ٹیک لگا کے اونگھنے لگیں۔ پھر لیٹ گئیں اور۔۔۔ سو گئیں۔

    (میں یہی چاہتا تھا)

    (دو چابیوں میں سے ایک دروازے میں گھوم گئی۔ دروازہ کھل گیا۔ باہر پیلا سا بلب جل رہا تھا اور سیڑھیاں اوپر چڑھتی چلی جارہی تھیں۔ اوپر چڑھتے ہوئے روشنی سفید ہوتی جاتی تھی۔ سیڑھیاں گھوم گئیں۔ میں رک گیا۔ یہاں سے آوازیں تیز ہونے لگیں۔ اوپر یہ کیا ہے جو اتنا شو رہو رہا ہے؟ بوجھ اٹھانے والی گاڑی ہوگی، بڑی گاڑی۔ ٹرک کہتے ہیں۔ میرے پیر دکھ رہے ہیں۔ مگر میں بھاگ کے چڑھتا ہوں، گرتا ہوں، پھر اٹھ جاتا ہوں۔ یہاں ایک دروازہ ہے، بند ہے، تالا نہیں ہے اس میں۔ میں اندر چلا جاتا ہوں۔ یہ کمرہ ہے۔۔۔ بہت بڑا۔ سامان سے بھرا ہوا۔ یہاں ایک بستر ہے اور کیا اور کیا ہے۔ یہ ایک طرف میرے اوزار پڑے ہیں۔ میں بھاگتا ہوں۔ کرسی سے ٹکراتا ہوں اور اٹھتا ہوں۔ ادھر سامنے دروازہ ہے۔ یہ بڑا دروازہ ہے اس میں تالا پڑا ہے۔ میں دوسری چابی لگاتا ہوں۔ تالا کھل جاتا ہے۔ مگر مجھے بہت زور لگا کے دروازہ کھولنا پڑا۔ دروازہ کھلا تو بہت سفید روشنی میرے اوپر آئی۔ میں ذرا سا پیچھے ہٹا پھر دوڑ کے بڑھا۔۔۔ اور دوسری طرف سیڑھیوں پر سے لڑھکتا سخت زمین پر جا گرا۔ کوئی چیختا ہوا۔۔۔ ایک بھاری آواز والا آدمی چیختا ہوا، ’’ارے ارے‘‘ کہتا ہوا جھپٹا۔ میں نے رونا اور خود بھی چیخنا شروع کر دیا۔۔۔)

    جنہوں نے مجھے اٹھایا تھا، اسی سڑک پہ کپڑے کی دوکان کرتے ہیں، وہ اپنی دوکان کھولنے جا رہے تھے۔ انہی نے پولیس اور اسپتال والوں کو فون کیا تھا۔ پھر پولیس والے میرے ڈی ڈی کو اور میری ماں کو اسپتال لائے تھے۔ میں ڈی ڈی کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا۔ مجھے پتا تھا وہ کیسے دکھتے ہیں۔

    ماں وہ نہیں تھی جسے اس عورت، اے اے نے بی بی کا نام دیا تھا۔ ماں وہ تھی جسے اس نے اسکول کی لڑکی کہا تھا اور بتایا تھا کہ وہ اس کی اور بی بی کی دوستی سے کڑھتی ہے۔ کہیں کوئی بی بی نہیں تھی۔ جھوٹ بولتی تھی وہ!

    ماں میرے پاس اسپتال میں ہی اٹھ آئی ہے۔ وہ روتی بھی ہے اور ہنستی بھی ہے۔ نو سال پہلے میں کچھ ہی گھنٹے کا تھا تو اس اے اے نے مجھے اسپتال سے چرا لیا تھا۔ وہ وہاں نوکری کرتی تھی۔ نئے شہر کی ایک پرانی ٹوٹی حویلی کو اس عورت، اے اے نے، کرائے پر لے کے حمام کو قید خانہ جیسا بنا لیا تھا۔

    وہیں رہا تھا میں۔ پورے نو سال۔

    اب پولیس والے اسے سب جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا ہے کہ وہ کیسی دکھتی ہے۔ مجھ سے پوچھ پوچھ کے انہوں نے اس اے اے کی تصویر بنا لی ہے۔ کہتے ہیں میری بنوائی ہوئی تصویر اسپتال کے فوٹو سے بہت ملتی ہے۔ ماں کہہ رہی ہے دیکھنا وہ ضرور پکڑی جائےگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے