بھرے بھرے چہرے پر جابرانہ انداز میں کھنچی آنکھیں، بھنچے ہونٹ، سیاہ نکٹائی کی امریکی گرہ میں پھنسی دوہری گردن، سیاہ کوٹ کی دائیں طرف، سینے کی جیب میں ریشمی رومال جس کا سرخ رنگ وقت کے ساتھ ساتھ فیڈ ہوتااب پیازی سا معلوم ہوتا ہے۔ داخلی دروازے کے سامنے دیوار پر کیل سے لٹکی اس پورٹریٹ کے فریم کے دائیں کونے پر چھپکلی کا داہنا پاؤں پڑتا ہے۔ تصویر لمحہ بھر کے لیے لرزتی ہے۔ کوٹ کے کالر کے کاج پر ایک سنہری پتنگا بیٹھا ہے جو بلب کی روشنی میں بالکل کسی تمغے کی طرح لشکتا ہے۔ چھپکلی اس کی گھات میں وہیں جم جاتی ہے۔
دیوار، چھپکلی، پورٹریٹ، پتنگا ایک ہی حقیقت کے انگ دکھائی دیتے ہیں۔
سیاہ کپڑوں میں ملبوس، اس علاقے کا انچارج میز پر جھکا، بے ضابطے کی کارروائی سرکار ی چوس پر سرکاری سیاہی سے تحریر کرتا ہے۔ سیاہی چوس پر پہلے ی سے بنے چند اور کیڑے مکوڑوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس کی گردن اور بھی تن جاتی ہے۔ اسے وہاں کھڑے جانے کتنا عرصہ ہوگیا ہے۔ اسے ہلنے تک کی اجازت نہیں، اس کے بالکل پیچھے ایک قدم ہٹ کے دو سیاہ پوش دائیں بائیں بید لیے کھڑے ہیں۔ جب بھی وہ تھک کر اپنا پورا بوجھ دونوں میں سے کسی ایک ٹانگ پر ڈالنا چاہتا ہے، ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے بید زناٹے سے ہوا کو چیرتے ہیں۔ اس کی مضبوط پنڈلیوں پر پڑ کے اچھلتے ہیں، جبڑوں کے تمام پٹھے تن جاتے ہیں، نظریں سامنے کوٹھڑی کے دروازے کی سلاخوں سے پار، تاریکی کو چیر کے کھڑکی کے راستے راہ پاتی ہیں۔
میں ابھی لوٹ آؤں گا۔
وہ اپنے بچے کو سینے سے ہٹاکر بیوی کی طرف دیکھتا ہے۔ بیوی گم سم اسے دیکھتی ہے، بچہ بھاگ کر صحن میں چلا جاتا ہے۔
تم نے کیا جرم کیا پتر؟
اس کی ماں کے سفید بال صحن سے آتی ہوئی سرد ہوا سے کانپتے ہیں۔
ہمارے خاندان میں آج تک کوئی۔۔۔ تم نے کیا کیا ہے؟
بیوی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں، بچہ سردی سے بے پروا بے حد خوش چوکڑیاں بھرتا صحن سے واپس آتا ہے۔
ابا، ابا، وہ، وہ۔
بچہ باہر کی طرف اشارہ کرتا ہے، اسے بتاتا ہے کہ جو بیج اس نے اپنے بیٹے کو بونے کے لیے دیا تھا اس کی کونپل پھوٹ پڑی ہے۔
کچے صحن کے عین وسط میں چھوٹے سے دائرے کی صورت چنے کنکروں کے درمیان گوڈی شدہ زمین میں ایک ننھی منی کونپل منوں مٹی کو اپنی تیز کٹار سی نوک سے چیر کے ابھری ہے۔
ہاں بیٹے وہ، اس میں ایسے ایسے موہنے لہکتے سرخ سرخ پھول فانوسوں کی صورت میں کھلیں گے۔ وہ بچے کو پھر سینے سے لگاکر بھینچتا ہے، الگ کرتا ہے، بیوی کو بھرپور نظروں سے دیکھ کر ماں کو یقین دلاتا ہے۔
ماں میں نے کوئی جرم نہیں کیا، جانے مجھے کیوں بلانے آئے ہیں، ابھی لوٹ آؤں گا۔
باہر سردی ہے بیٹے، سوئٹر پہن لو۔
بچہ چارپائی پر کھڑا ہے۔ بیوی کا ہاتھ اسے روکنے کے لیے اٹھتا ہے۔ دروازے کا سہارا لے کر ماں کا دل سسٹولی میں رکتا ہے۔ وہ ان سب کو تابلوں میں چھوڑ کر تیزی سے قدم اٹھاتا باہر سڑک پر آجاتا ہے۔ دو سیاہ پوش عملاً اسے اٹھاکر جیپ میں پھینک دیتے ہیں۔ جیپ چل پڑتی ہے۔ آگے ڈرائیور کے ساتھ انچارج بیٹھا ہے۔ اس کاچہرہ نظر نہیں آتا۔ پیچھے بیٹھے ہوئے چار سیاہ پوشوں نے اپنے گھٹنوں کے درمیان رائفلوں کو جیپ کے فرش پر کھڑا کرکے ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام رکھا ہے۔ وہ ان کے درمیان پھنسا بیٹھا اس قدروی۔ آئی۔ پی ٹریٹ منٹ پر حیران ہوتا ہے۔ جیپ تیزی سے شاہراہوں پر، گہری ہوتی ہوئی شام کی سیاہی پھیلاتی بھاگنے لگتی ہے۔ آسمان پر پھیلتے تاریک بادل ونڈ سکرین کے فریم میں مہیب صورتوں میں اٹھتے ہیں۔ اسے فوراً خیال آتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو بتاکر کیوں نہیں آیا کہ تند ہوا اور تیز بارش اس کی کونپل کے لیے قاتل ہیں۔ جب تک یہ کونپل درخت نہیں بن جاتی اور اس پر موہنے مہکتے، سرخ سرخ پھول فانوسوں کی صوت میں نہیں جھولتے تب تک۔۔۔
مجھے اس کو بتاکر آنا چاہیے تھا۔
اس کی نظریں کوٹھڑی کی کھڑکی سے پلٹتی ہیں۔ پورٹریٹ کے دائیں کونے پر چھپکلی کا داہنا پاؤں اسی طرح جما ہے۔ آنکھیں پتنگے پر گڑی ہیں۔ چھپکلی کی دم کا آخری سرا دیوار پر ایک ملی میٹر سرکتا ہے۔ پورٹریٹ میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ دیوار کی کیل پر تنی رسی، جس سے یہ پورٹریٹ لٹکی ہے، ذرا سی تنتی ہے، کیل پر محیط رسی کے نچلے زنگ آلود، بوسیدہ حصے کے چند تاگے ٹوٹتے ہیں۔
انچارج اپنی کلائی گھماکر وقت دیکھتا ہے، سردی کو دونوں ہاتھوں میں رگڑتا ہے، دروازے کی جانب دیکھتا ہے۔ ایک کونے سے مبہم سی آواز آتی ہے۔
وہیں اسی جگہ کھڑے کھڑے اس کی آنکھیں خودبخود کونے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ اس کا لہو اس کے جسم میں رک جاتا ہے۔ آنکھیں وہیں گڑ جاتی ہیں، پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ اس کونے میں بنچ پر بیٹھی اس کی ماں اور بیوی اس کو تکے جاتی ہے۔ وہ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے، ساتھ ہی اس کا قدم ان کی جانب بڑھنے کے لیے اٹھتا ہے۔ شاڑ، شاڑ۔ بید ہوا کو چیرتے اس کے جسم پر برستے ہیں، وہ پھر وہیں جم جاتا ہے، اسے ملنے کی اجازت نہیں۔
انہیں یہاں کون لایا ہے۔
اسے کوئی جواب نہیں دیتا۔ انچارج اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے کا ارادہ کرتا ہے پھر چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر پورٹریٹ کو دیکھنے لگتا ہے۔
پورٹریٹ مزید دوسوت نیچے سرک چکی ہے، پتنگا کوٹ کے کاج پر اسی طرح جما بیٹھا ہے۔ چھپکلی کے دونوں اگلے پیر اب فریم کو پار کرچکے ہیں۔ اس کا بایاں پچھلا پیر فریم کے کونے کے قریب ہے۔ دائیں ٹانگ دم کی سیدھ میں کھنچی ہے۔
بچے کو اکیلا ہی چھوڑ آئی ہیں۔
وہ بیدوں کے پے بہ پے وار سہتا، بنچ پر بیٹھی عورتوں سے تشویش بھرے لہجے میں پوچھتا ہے۔
اس کے پاس ماسی کو چھوڑ۔۔۔
میں نے کہا تھا تم بولوگی نہیں۔ اگر اب تم میں سے کوئی بھی بولا اس کی زبان کاٹ دی جائے گی۔
انچارج کی نظریں پتنگے کے پروں کا سونا چاٹنے کی خواہش میں، پلٹ کر بڑی بیدردی سے کاٹتی ہیں، ماں، بیوی سہم جاتی ہیں۔
یہ بڑی زیادتی۔۔۔ ان شریف عورتوں کو یہاں کیوں۔۔۔
شریف عورتیں؟
انچارج کے گلے میں قہقہوں کا جھاگ ابلتا ہے۔ وہ چاروں اور ماں بہنوں کی گالیاں تھوکنے لگتا ہے۔
تمہاری ماں بہن شریف عورتیں؟
اس کے بدن کے لہو میں طوفان آجاتا ہے۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے وہ بڑھ کر انچارج کو۔۔۔
لیکن دونوں سیاہ پوش اسے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ تیسرا ایک نیم روشن کونے سے برآمد ہوتا ہے، دونوں ہاتھوں سے اس کی قمیض کو گریبان سے پکڑ کر پھاڑ دیتا ہے۔ پھٹی قمیض سے اس کے صحت مند تندرست سینے پر سردی کی سنسناہٹ پھیلتی ہے، اس کے جسم کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔
انچارج سر سے اشارہ کرتا ہے۔
تیسرا سیاہ پوش اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہے باقی دونوں اسے دھکیلتے ہیں۔ ماں بیوی اسے دیکھتی ہیں پر چپ ہیں۔ تینوں سیاہ پوش اسے کمرے کی واحد کھڑکی کے پاس لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کی قمیض کے رہے سہے چیتھڑے بھی اتار پھینکتا ہے۔ کھڑکی سے آتی تیز سرد ہوااس کے جسم کے مساموں میں داخل ہوکر سراٹھاتی ہے۔ وہ جسم سے اٹھتی کپکپی کو جسم میں دبادیتا ہے۔ کھڑکی کی چوکھٹ پر دونوں ہتھیلیاں جماکر سینہ پھلاتا ہے۔ لمبا سانس بھرتا ہے۔ اب آسمان پر بادل پوری طرح جم چکے ہیں۔ مدھم مدھم کومل سرمئی سی روشنی جو تاریک سے تاریک رات میں بھی کہیں سے آجاتی ہے، کڑکتی کوندتی برق کے سامنے ہر لمحہ غائب ہوتی ہے۔ ان لمحوں کے بیچ کے لمحے میں پھر آسمان کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔ اس درمیانی لمحے کو وہ اپنے سارے وجود میں سمیٹ کر مسکراتا ہے، پلٹتا ہے۔ نظروں ہی نظروں میں ماں اور بیوی کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔
آپ مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں؟
وہ بے صبری سے پلٹ کر سوال کرتا ہے۔
آپ مجھے جانے دیں گے یا نہیں۔ میرا بچہ گھر میں تنہا ہے۔
ایک سیاہ پوش ہاتھ میں پلاس لیے اس کی طرف بڑھتا ہے۔ یکایک اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر پینترا بدلتا ہے۔ اس کا بازو اپنی بغل میں لے کر سختی سے دبالیتا ہے۔ باقی سیاہ پوش اس کی طرف جھپٹتے ہیں۔ اسے زمین پر گراکر اپنے قابو میں لے لیتے ہیں۔ پلاس والا اس کی شہادت کی انگلی کاناخن پلاس کے دانتوں میں دباکر آہستہ آہستہ کھینچتا ہے، کھینچتا ہے، حتی کہ ناخن جڑ سے اکھڑنے لگتا ہے۔ درد کی تمام حسیات سمٹ کر اس کے ناخنوں میں آجاتی ہیں۔ اس کے اندر کا ایک ایک خلیہ تناؤ میں جھنجھنا اٹھتا ہے، لیکن وہ اپنے چہرے پر اذیت کا کوئی تاثر نہیں آنے دیتا۔ انچارج غور سے اس کے چہرے کو دیکھتا ہے۔
وہ خود دل ہی دل میں حیران ہوتاہے۔ اگرچہ وہ پہلے کبھی جسمانی اذیت سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ اب یہ کیسی شناسائی ہے کہ اذیت اجنبی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید جسم اور دماغ کے ہم آہنگ ہونے پر دونوں حقیقتیں، دونوں اذیتیں ایک ہوجاتی ہیں۔ انچارج سیاہ پوش سے پلاس چھین کر دیوانہ وار اس کا ہر ناخن کھینچتا ہے، کھینچتا ہے۔ اس کے ناخنوں کے کناروں پر خون کی لکیریں ابھر کے محیط ہوجاتی ہیں۔ انچارج تھک کر لرز جاتا ہے۔ پلاس تان کر اس کے پیٹ پر مارتا ہے گالیاں دیتا ہوا سیاہ پوشوں کے ساتھ کانفرنس کرنے کے لیے پرے ہٹ جاتا ہے۔ ماں بہن کی گالیاں سنکر ماں، بیوی کے سر اور بھی جھک جاتے ہیں۔
وہ اپنے اذیت رسانوں کو مصروف دیکھ کر یکدم کروٹ بدلتا ہے۔ فرش پر پنجوں اور ہتھیلیوں کے بل چپکے سے چلتا ہے ماں اور بیوی کے قدموں میں جاپہنچتا ہے۔
بچہ تو محفوظ ہے نا؟ بوڑھی ماسی اس کا کیا خیال۔۔۔
ماں اور بیوی اسے ٹکر ٹکر دیکھتی ہیں۔ وہ کولہوں کے سہارے بیٹھ کر جلدی سے اپنے ہاتھ بغلوں میں داب لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں چلتے پانی کی لکیر دوڑ جاتی ہے۔
بچہ تو محفوظ۔۔۔
عین اسی وقت آسمان سے بارش کے پہلے قطرے کا فائر ہوتا ہے۔ بارش مشین گنوں سے چلتی گولیوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ بچہ اپنے لحاف کو ذرا سا اٹھاکر دوری چارپائی کی اور دیکھتا ہے۔ بہتر سال کی بوڑھی ماسی لحاف میں دبکی نیند میں غائب غلا ہے۔ بچہ بہت محتاط، چارپائی کی چرچراہٹ کو دھیرے دھیرے اپنے بس میں کرتا ہے۔ دبے پاؤں چل کر دیوار سے لگا اسٹول اٹھاتا ہے۔ بند دروازے کے سامنے رکھ اس پر چڑھتا ہے۔ آہستہ آہستہ کنڈی کھولتا ہے۔ دوسری چارپائی پر قبر سی بنی لحاف کی نیند میں غائب غلا بہتر سال کی ماسی کو دیکھتا ہے۔ کنڈی کھول کر وہ جلدی سے نیچے اتر کر اسٹول کو پھر دیوار کے ساتھ لگادیتا ہے۔ دروازے کا ایک پٹ کھول کر باہر جھانکتا ہے۔ دیواروں سے اچھلتی بوچھاڑ اس پر پڑتی ہے۔ ٹھنڈی یخبستہ ہوا اس کی ناک کی پھننگ سے ٹکراتی ہے۔ بچہ بڑی مشکل سے چھینک کو دباتا ہے۔ اسے صحن میں کونپل نظر نہیں آتی۔ اس کا دل زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تیز بارش کا پردہ ہے۔ کارپوریشن کے کھمبے پر جلتے بلب کی روشنی نے بارش کی چادر پر پھیل کر اسے اندھا شیشہ بنادیتا ہے۔ بچے کی جسم میں سردی کی سنسنی پھیل جاتی ہے۔ اس کو چھینک آہی جاتی ہے۔ دوسرے بستر پر بنی قبر میں جنبش ہوتی ہے۔ بچہ روہانسا ہوکر فوراً اپنے بستر میں دبک جاتا ہے۔ لحاف کی اوٹ سے ماسی کو دیکھتا ہے۔ ماسی پھر اپنی نیند میں قائم ہوچکی ہے۔
بچے کا دل مسلسل دھڑکے جاتا ہے، جانے باہر تیز بارش تند ہوا میں اس کے نئے نویلے بوٹے کا کیا حال ہوگا۔ اگر اس بوٹے کو کچھ ہوگیا تو؟ اس سے رہا نہیں جاتا۔ وہ بے چینی میں اٹھ کر اپنی تمام حرکات دہراتا ہے۔ دروازے میں کھڑا ہوکر اندھے شیشے سے پار دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ دیواروں سے ٹوٹتی پھوار اسے شرابور کردیتی ہے۔
اب ہواکارخ کھڑکی کی طرف ہے۔ جہاں اسے پھر کھڑا کردیا گیا ہے۔ تیز ہوا اس کے جسم پر بارش کی چاند ماری کرتی ہے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے جسم کے انچ انچ کو کٹے ہوئے بلیڈ چھیدتے ہیں۔ پھر جلد ہی اس کے جسم اور دماغ کی حقیقتیں ایک ہوجاتی ہیں۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنے سن جسم پر بلیڈوں کے وار سہتا ہے۔
ماں اور بیوی میں اسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ ان دونوں کی نظریں پورٹریٹ پر گڑی ہیں۔ ان کے چہروں پر نفرت اور حقارت، غم و غصے کے تاثرات ہیں۔ چھپکلی پوری کی پوری پورٹریٹ کے فریم کے شیشے پر آچکی ہے۔ سنہری پتنگا کاج پر تمغہ نہیں رہا۔ رفتہ رفتہ چلتا ہوا سر کے اس حصے پر آکے رک گیا جہاں سے بال چھدرے ہوتے ہوتے ماتھے میں ڈھل جاتے ہیں۔ چھپکلی کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ وہ اگلا دایاں پاؤں بڑھائے، پچھلی بائیں ٹانگ دم کی سیدھ میں تان کر گھات لگالیتی ہے۔ کیل کے اوپر بوسیدہ زنگ آلود رسی کے چند اور تاگے ٹوٹ جاتے ہیں، پورٹریٹ چار سوت کشش ثقل کی طرف کھسکتی ہے۔
اذیت خانے کا داخلی دروازہ کھٹکے سے کھلتا ہے۔ انچارج اور تمام سیاہ پوش اٹنشن ہوجاتے ہیں۔ وہ بھی کھڑکی سے پلٹ کر دیکھتا ہے۔ سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک شخص برساتی اوڑھے، کار سے اترکر دوسیاہ پوشوں کی معیت میں داخل ہوتا ہے۔ برساتی اتار کے ایک سیاہ پوش کو تھما دیتا ہے۔ کوٹ کی جیب سے پائپ نکال کر منہ میں دباتا ہے۔ اس کے سامنے چھ فٹ کے فاصلے پہ کھڑا ہوکر گیس لائیٹر سے پائپ سلگاتا ہے۔ دھوئیں کے چھوٹے چھوٹے بادل اس کے منہ سے نکلتے ہی کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا میں منتشر ہوجاتے ہیں۔
کونے سے رونے کی دبی دبی آواز آتی ہے۔ اس کی بیوی اپنے رومال کو منہ میں ٹھونسے، تھک ہار کے، چھلکتے صبر کے پیمانے کو چھلکنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ پائپ والا منہ سے پائپ نکال کر اس کی جانب دیکھتا ہے۔
گڈ۔۔۔
انچارج بڑے فخر سے اپنی کارگزاری سناتا ہے۔ پائپ والے کاچہرہ مطمئن ہے۔
وہ پائپ والے کی طرف لپکتا ہے۔ دوسیاہ پوش فوراً بڑھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔
میرا جرم۔۔۔ میرا جرم؟ یہ لوگ۔
انچارج کی تیز زبان اسے کاٹتی ہے۔ ماں بہن کی گالیاں۔ ماں بیوی کے سرزمین پر جھکے اٹھ نہیں پاتے۔ انچارج کے اشارے پرایک سیاہ پوش کونے میں پڑے کڑوے تیل کے کنستر میں ڈوبا کوڑا نکالتا ہے، دوبڑھ کر اسے گھسیٹ کے تاریک کوٹھڑی کے جنگلے کے ساتھ اس کی کلائیاں اور پیر باندھ دیتے ہیں، کچھ اس انداز میں جیسے یسوع مسیح کو سولی پر باندھا گیا تھا۔
سیاہ پوش کوڑے سے زائد تیل نچوڑ کر پائپ والے کو اجازت طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔ پائپ والامنہ میں پائپ رکھ کر کش لیتا ہے۔ سیاہ پوش کوڑا لہراتا ہے۔
پہلا وار۔
اس کے دانت اور آنکھیں بھنچ جاتے ہیں۔ پشت کے ریشے لمحہ بھر کے لیے سن ہوکر تڑپتے ہیں۔ وار کے بعد اس کا منہ کھلتا ہے۔ آنکھیں جنگلے کے باہر کوٹھڑی کے اندھیرے میں شعلے پھینکتی ہیں۔
دوسراوار، تیسرا، چوتھا۔
اب اس کی پیٹھ کے پٹھوں کے تمام ریشے مسلسل تناؤ میں ہیں۔ اس کی آنکھیں مسلسل بھنچی ہیں، جن کے سامنے مرکز سے سرخ نقطہ ابھرتا ہے، افق سے افق تک تنتناہی چلا جاتا ہے۔ چیخیں ہروار پر اس کے گلے میں آکے اٹک جاتی ہیں۔ پائپ والاحیران ہے کہ اتنی اذیت کے باوجود یہ چیختا کیوں نہیں۔ اس کی ماں اور بیوی اس منظر کی تاب نہ لاکر بنچ پر بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ کے آنکھیں میچ لیتی ہیں۔ ماں، دوسرے ہاتھ سے اپنی گرم چادر کے دامن میں اپنی بہو کے سر کو بھی چھپا لیتی ہے۔
کورے مارنے والا ہانپ کر بیٹھ جاتا ہے۔
اس کے پٹھوں کاتناؤ ختم ہوجاتا ہے۔ آنکھیں کھلتی ہیں۔ وہ جس طرف دیکھتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے مرکز سے ابھرتا سرخ نقطہ تاریکی کو روشن کرتا افق سے افق تک پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تھکاوٹ سے چور، جنگلے سے بندھا، لٹک جاتا ہے۔
پورٹریٹ تین سوت اور نیچے لٹک گئی ہے۔ دو ایک تاگوں کے سوارسی کے زنگ آلود حصے سے تمام تاگے ٹوٹ گئے ہیں۔ پورٹریٹ کے ماتھے پر چھپکلی اور پتنگے کے درمیان تین انچ کافاصلہ رہ گیا ہے۔
ایک سیاہ پوش بڑھ کر اس کی کلائیوں اور ٹخنوں سے رسیاں کھولتا ہے۔ وہ بے جان، فرش پرڈھیر ہوجاتا ہے۔ انچارج اپنے فل بوٹ کی نوک اس کی پیٹھ سے لگاکر زور سے دھکیلتا ہے۔
پائپ والا پلٹ کر سٹول پر پڑی دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی پر، جو اس عرصے میں ان میں سے ایک لاکے رکھ گیا ہے۔ اپنے ہاتھ سینکتا ہے۔ انچارج میز سے کاغذات اٹھاکر اس کے سامنے کرتا ہے۔ پائپ والا پائپ کے چھوٹے چھوٹے کش لیتا، کاغذات کاسرسری مطالعہ کرتا ہے۔ انچارج کو شاباش دیتا ہے۔ انچارج سیلوٹ کرتا ہے۔ اس کا جی بار بار سلیوٹ کرنے کو چاہتاہے۔ لیکن اس خیال سے کہ صاحب برانہ مان جائے، ایک ہی سلیوٹ پر اکتفا کرتا ہے۔
یہ لوگ مجھے بلاوجہ گرفتار کرکے لے آئے ہیں۔
پائپ والامڑ کر اسے دیکھتا ہے۔ وہ فرش پر گھسٹتا اس کے قریب آتا ہے۔ چند قدم پرے رک کر ہانپنے لگتا ہے۔ انچارج اور سیاہ پوش اس کی طرف لپکتے ہیں۔ پائپ والے کے ہاتھ کے اشارے سے رک جاتے ہیں۔
بہت ڈھیٹ ہے۔
انچارج کے لہجے میں خفت ہے۔ پائپ والا خاموشی سے فرش کو دیکھتا ہے۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ پڑھے لکھے ہیں۔ افسر تو بعد میں بنے۔ مجھے یاد ہے طالب علمی کے زمانے میں آپ بھی۔۔۔
شٹ اپ، تم میرے بارے میں اتنا جانتے ہو!
پائپ والے کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے۔ پیٹ کاسارا لعاب پل بھر کے لیے حلق میں پھنس جاتا ہے۔ پائپ کا کش لے کر وہ اس کیفیت سے نبرد آزما ہوتا ہے۔
فرش پر بیٹھے بیٹھے وہ دیوانہ وار قہقہے میں فرش پر جھک جاتا ہے۔ پائپ والے کا رنگ فق ہوجاتا ہے۔
خاموش۔
جی اچھا۔ بہت بہتر و بہت مناسب۔۔۔ یہ بتائیے، میں چور ہوں، بدمعاش، غنڈہ، جواری، زانی، شرابی، قاتل، ڈاکو یا سمگلر ہوں، جو مجھے یہاں لایا گیا ہے؟
پائپ والا اطمینان کا سانس لیتا ہے کہ بات اس کی ذات پر پھیلتی خود ہی سمٹ گئی ہے۔
یا میں اپنے وطن کے خلاف کسی سازش میں ملوث ہوں جو آپ مجھے اذیتیں دے کر سازش کی تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
انچارج ایک طرف کھڑا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگتا ہے کہ صاحب خواہ مخواہ اسے بکے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ وہ ابھی ایک سیکنڈ میں اس کی زبان بند کرسکتا ہے، لیکن پائپ والا اپنے ہر حکم کو جواز دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ جواز نہ بھی دے تو بھی اس شحص کو جو فرش پر بیٹھا اپنے آپ کو شریف اور معزز شہری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میری ماں، میری بیوی کی بے حرمتی۔۔۔
وہ تقریباً روہانسا ہوجاتا ہے۔
تمہارا صرف ایک جرم ہے۔ تم کسان ہو، مزدور ہو، کلرک ہو، شاعر ہو، خطرناک قسم کے بلڈی پوئٹ۔
میں بیک وقت یہ سب کچھ؟
ایک عرصے سے تم یہ سب کچھ ہو۔ تمہاری فائل کہتی ہے۔ آج دوپہر تم نے یہ ثابت بھی کردیا ہے۔
میں نے کچھ ثابت نہیں کرنا چاہا تھا۔
تو پھر تم ہجوم کے درمیان چبوترے پر کھڑے کیا بک رہے تھے؟
آواز کی آرزو میں، وہ خواہش، وہ خیال، وہ لفظ جنہیں میں نے اپنے سمیت اپنے وجود میں سمیٹ لیا تھا، آج ان کی نجات کادن تھا۔ اور میں ہجوم کے ساتھ مل کر اس حقیقت کا اعلان کر رہاتھا کہ ہم انسان ہیں، جانور نہیں۔ ہم آزاد ہیں، غلام نہیں۔
تم واقعی خطرناک شاعر ہو۔
میں یہاں ایک ہوں۔ اگر خواہشوں، خیالوں اور لفظوں کو آواز سے روشناس کرانا خطرناک ہے تو باہر سارا ہجوم، سارا شہر، ساراملک، ساری کائنات خطرناک ہے۔ انہوں نے اپنے مقدر پر لگی، جبر و استبداد کی مہریں توڑ ڈالی ہیں۔
پائپ والا بڑے اضطراب سے پائپ کو منہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں جماتا ہے۔
آپ کی بدنصیبی ہے کہ آپ نے مہریں لگانے والی مشین کا پرزہ بننا پسند کیا۔
پائپ والا کچھ کہنا چاہتا ہے کہ وہ میز کا سہارا لے کر لڑکھڑاتا ہوا اٹھتا ہے۔ میز کے سہارے کھڑا ہوجاتا ہے۔
تم بہت بولتے ہو۔
پائپ والا جلدی سے پلکیں جھکاکر کہتا ہے۔ سر کے اشارے سے انچارج کو بلاکر اس کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ انچارج کا چہرہ مسرت سے دمک اٹھتا ہے۔
دوسیاہ پوش اسے وہیں میز کے پاس فرش پر پھر سے گرادیتے ہیں۔ دو اور ساتھ مل کر اسے پوری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ انچارج اس کے سینے پر چڑھ بیٹھتا ہے۔ اپنے مضبوط ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلیوں کو اس کے جبڑوں کے دونوں طرف جماکر پوری قوت سے دباتا ہے۔ وہ مدافعت کرتا ہے، لیکن اسے منہ کھولنا ہی پڑتا ہے۔ پائپ والا ایک چھوٹا سا دہکتا ہوا انگارہ پیڈ کے کلپ میں انگیٹھی سے اٹھاکر اس کے قریب لاتا ہے۔ انگارے کی حدت اور سرخی سے اس کی آنکھوں کو سکون پہنچتا ہے۔
تم واقعی بہت بکواسی ہو۔
پائپ والا اس کے کھلے منہ کے راستے دہکتا انگارہ اس کی زبان پر رکھتا ہے۔ کونے میں گرم چادر کے نیچے ماں اور بیوی ایک دوسرے کو بھینچ لیتی ہیں۔ وہ سیاہ پوشوں کے شکنجے میں جکڑا تڑپتا ہے، چیختا ہے۔ ماں بیوی کانوں میں انگلیاں دے لیتی ہیں۔ پائپ والا انگارہ اٹھاکے پھر رکھتا ہے۔ حتی کہ اس کے منہ کے لعاب سے انگارہ بجھ جاتا ہے۔ پائپ والا کلپ سمیت انگارہ پرے پھینک کر بڑے اطمینان سے اٹھتا ہے، سوچتا ہے۔۔۔ اب یہ سدا کے لیے گونگا ہوگیا۔
عین اسی وقت پورٹریٹ کی رسی کا ایک اور تاگا ٹوٹتا ہے۔ پورٹریٹ چند سوت اور کشش ثقل کی جانب سرکتی ہے۔ اب صرف ایک تاگا رہ گیا ہے۔ جس کے سہارے پورٹریٹ کیل پر ٹنگی ہے۔ چھپکلی، اگلا دائیاں پاؤں اٹھائے، ماتھے کے تمغے، سنہری پتنگے پر اب جھپٹا ہی چاہتی ہے۔ وہ فرش پر لیٹا اپنے جسم کے تشنج پر قابو پاکر حواس مجتمع کرتا ہے۔ اجتماع میں پھڑکتی جلی زبان سے ان تمام لفظوں کا سیلاب امڈ آتا ہے، جو آج دوپہر ہجوم کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تھے۔ درد، اذیت اور غصے میں جلتی زبان سے لکنت میں ابھرتے الفاظ، پائپ والے اور دیگر سیاہ پوشوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔
یہ سدا کے لیے گونگا ہوگیا۔ اپنی دانست میں ان بے معنی آوازوں کو سنتے ہوئے، پائپ والے اور اس کے حواریوں کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیلتے قہقہوں میں پھوٹ پڑتے ہیں۔
قہقہے، کونے سے ابھرتی ماں اور بیوی کی سسکیاں، اس کی جلی ہوئی، لکناتی زبان سے دیوانہ وار نکلتے لفظ اور باہر کڑکتی بجلی، سرد سنسناتی ہوا پر تیز بارش کا منتاژ۔
کارپوریشن لیمپ پوسٹ کی روشنی سے بنے، اندھے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بچے کو یکدم ترکیب سوجھتی ہے۔ وہ دروازے سے ہٹ کر جلدی سے مڑتاہے۔ پل بھر کے لیے دوسرے بستر پر تنفس سے ابھرتی ڈوبتی رضائی کی قبر کو دیکھتا ہے۔ اپنی چارپائی کے پاس آکر جلدی جلدی جوتا پہنتا ہے، اپنی پوری قوت سے، اپنے بستر کالحاف اٹھاکر اوڑھتا ہے۔ پلٹ کر تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل جاتاہے۔ صحن کے عین وسط میں پہنچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور اس ننھی منی کونپل کو اپنے لحاف کے دامن میں لے لیتا ہے، جو منوں مٹی کو اپنی تیز کٹار سی نوک سے چیر کے ابھری ہے اور درخت بننے پر جس کی شاخوں سے موہنے، مہکتے، سرخ سرخ پھول، فانوسوں کی صورت جھولیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.