Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کوئلےکی کرکری

فائزہ عباسی

کوئلےکی کرکری

فائزہ عباسی

MORE BYفائزہ عباسی

    ’’نہیں امی، آپ چھوٹے چچاکومنع کردیں۔میں ان کی کسی بیٹی سے شادی نہیں کروں گا۔‘‘ اعظم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

    ’’مگرتم ایساٹکاساجواب کیوں دے رہے ہو؟بات کوسمجھوبیٹا۔ تمہارے ابوبھی یہی چاہتے ہیں۔‘‘

    جواب دینالازمی تونہیں۔‘‘ اعظم نے نظریں جھکالیں۔

    بیگم عبدالصمدکچھ دیرکے لئے مانوسکتے میں آگئی ہوں۔ بس بیٹے کوایک ٹک دیکھتی رہیں۔ انہیں اعتبار نہیں ہورہا تھا کہ ایسانیک فرماں برداربیٹا جس پرگھرمیں سبھی نازکرتے ہیں، اس طرح گھر کے سب بڑوں کی مرضی کالحاظ نہیں کرے گا۔’’آخر خرابی کیا ہے اس رشتہ میں؟گھرکی لڑکی گھرمیں رہے گی۔ تمہارے دادا کی ملکیت پر کسی غیرکاحق بنے اس سے تواچھا ہے ناکہ تم۔۔‘‘

    ماں کاکلام توقطع نہ کرسکا، بس اعظم نے نظریں جھکالیں۔

    وہ چاہتا تھا امی خاموش ہوجائیں اور وہ چھوٹے چچا کے مزیدتذکرہ سے محفوظ ہوجائے۔اسے اپنے دانتوں میں ویسے ہی کوئلہ کی کرکری محسوس ہورہی تھی جیسے چھوٹے چچا، یا ان کی دوسری بیوی یا ان کی تینوں بیٹیوں کے ذکرپر ہوتی تھی۔

    بیگم عبدالصمد نے بات کودوسرا موڑدے کردوبارہ سلسلۂ کلام کاآغاز کرنا چاہا۔’’تم سوچ سمجھ کرجواب دوبیٹا۔ کچھ وقت درکار ہوتو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ میں تمہارا جواب ابھی کسی کوبتانہیں رہی ہوں۔وہ لوگ اگلے ہفتے آرہے ہیں۔‘‘

    ’’اگلے ہفتے آرہے ہیں؟‘‘

    اعظم نے چونک کرجواب دیا۔

    ’’نہ عیدنہ بقر عیدنہ گھرمیں کوئی تقریب۔بھلاوہ لوگ بن موقع گاؤں کیوں آرہے ہیں؟منع کردیجئے۔ویسے بھی برسات کے موسم میں یہاں گاؤں کے کیچڑپانی میں ان کی بیوی اور بیٹیوں کوتکلیف ہوگی۔‘‘

    ’’بچوں جیسی باتیں نہ کرو۔ہم کیسے منع کرسکتے ہیں۔یہ گھران کاابھی اتناہی ہے جتناہمارا‘‘ ماں نے سرزنش کی۔

    ہاں ملکیت کے حقدارتو ہیں، مگرعقدثانی کے بعدانہوں نے اس گھر کے غم وخوشی سے واسطہ ہی کب رکھا ہے؟اس نے ماں کوسوالیہ نگاہ سے دیکھا۔

    ’’اب پرانی باتیں نہ کھول کے بیٹھو۔ اتنی دوربنگال میں ہے آسنسول۔ آناجانا آسان تونہیں۔‘‘

    ’’اتنابھی مشکل نہیں کہ دادی کے انتقال کے تین روزبعد آئے وہ بھی اکیلے‘‘ اب اعظم کے لہجہ میں طنز تھا۔

    ’’مگر یہ جرم ایساسنگین تونہیں کہ تم اس بنیاد پراتنابڑافیصلہ نفی میں کردو۔‘‘

    یہ تونظر یہ کی بات ہے امی۔شادی دوافراد کانہیں دوخاندانوں کابندھن ہوتی ہے۔ میری نظر میں ملکیت، تجارت اور ملازمت کے امورسے برتر خانگی سکون ہے۔ یہ کہہ کر اعظم اٹھ گیا۔

    اسکول کاوقت ہوگیاتھا۔ گاؤں کے جس پرائمری اسکول میں وہ ماسٹرتھاوہاں اس کی بڑی عزت تھی۔ دوسالوں کی سرکاری ملازمت میں اس نے غیرمعمولی محنت اورلگن سے غریب بچوں کامستقبل سنوارنے کے اقدام کئے تھے۔ باقی وقت ابا کے ساتھ کھیتوں اورباغوںکی دیکھ ریکھ میں لگاتا۔ اب گھروالے جلداز جلد اس کی دلہن لاناچاہتے تھے۔ اس نے سعادت مندی سے کہہ بھی دیاتھاکہ وہ گھروالوں کی مرضی سے شادی کرے گا۔

    مگراسے کیاخبرتھی کہ گھروالوں کی مرضی اس کے دانتوں میں زندگی بھرکے لئے کوئلہ کی کرکری بھردے گی۔اس کی یہ بات کوئی سمجھ نہیں سکتاتھا۔اس لئے وہ کسی سے ذکرنہیں کرتاتھا۔دانتوں میں کوئلہ کی کرکری سے چھوٹے چچا اوران کے خاندان کابھلاکیاتعلق؟

    کوئی سات آٹھ کاسن رہاہوگا اعظم کاجب آخری بار چھوٹی چچی کے بھائی آکرانہیں لے گئے تھے۔

    اس کی چھوٹی چچی یعنی چھوٹے چچا کی پہلی بیوی۔ جن کی گود میں کھیل کراعظم بڑا ہواتھا۔ جن کی اپنی کوئی اولادنہ تھی۔ جواعظم اوراس کے بھائی بہنوں کوہی اب اپناسب کچھ مانتی تھیں۔دادی انہیں چھوٹی دلہن کہتیں مگرامی نام سے پکارتیں۔ کبھی کبھی جب جب امی انہیں کسی کام سے پکارتیں تواس طرح حاکمانہ اندازمیں، ’’طاہرہ‘‘ کی صدابلندکرتیں کہ سننے والے کولگتا کسی نوکر کو پکار رہی ہیں۔ اعظم کوبرالگتا، مگرامی سے کیاکہہ سکتاتھا۔ جب سے دادی نے فالج کے زیراثر بسترپکڑا تھا امی ہی توگھرکی مالکن تھیں۔اباکھیتی باڑی کی آمدنی امی کے ہاتھ میں رکھتے۔چھوٹے چچاملازمت تلاش کرنے کی ناکام کوشش سے مایوس ہوگئے تھے۔ کھیتی باڑی کے کام میں بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔لہٰذا گزارے کے لئے ابا کے ہی محتاج رہتے۔

    گرمیوں میں زنان خانہ کے آنگن میں چارپائیاں نکل جاتیں۔ امی، دادی اورتمام بچوں کے پلنگ ہوادارچبوترے پرلگتے۔ سب خواتین شام سے ہاتھ کاپنکھا لیے وہیں بیٹھ جاتیں۔چائے، پان، لنگڑا آم کے انگنت دورچلتے۔ چھوٹی چچی لالا کے دیتیں۔دالان، آنگن، باورچی خانہ ایک کیے رہتیں۔

    کوئی کہتا کہ آپ بھی بیٹھیے توہولے سے کہہ دیتیں۔’’نہ ہم پان کھاتے نہ آم۔ چائے چولھے کے پاس ہی پی لی تھی۔ اب روٹی بنانے جارہے ہیں۔‘‘

    ایک دوکام میں مددکرنے والی بوائیں آتیں مگر بالآخر ہرکام کاذمہ چھوٹی چچی کاتھا۔ خادمہ بھی وہی، خانسامن بھی وہی، دھوبن بھی وہی۔ نہ کبھی خالی بیٹھے دیکھا نہ کبھی سیرسپاٹے کوجاتے دیکھا۔ کھاناپکاچکیں توکل کے لیے چاول پھٹکنے بیٹھ جاتیں۔ ابھی ناشتے میں وقت ہے تو ذراکی ذری میں آنگن میں گری نیم کی سوکھی پتیاں جھاڑدیں۔ کبھی رات دھول بھری آندھی آتی تو ایک دم سے صبح کوکچے آم کے ٹکوروں کی بوری باغ سے آجاتی۔ چھوٹی چچی جنہیں یوں ہی دم لینے کی فرصت نہیں ہوتی آم کی میٹھی چٹنی اوراچاربنانے میں لگ جاتیں۔

    سب کی طرح انہیں کبھی کھلے آنگن میں سوتے نہیں دیکھا۔ رات کہاں دبک کے گزار دیتیں پتاہی نہیں چلتا۔ یا یوں کہئے کسی کوپروا ہی کیاکہ ایک حقیر جان چھوٹی چچی کہاں سوئیں، کہاں لیٹیں۔ کھاناکھاکرسوئیں یانہیں۔

    کسی نے کھاتے تودیکھانہ تھا آج تک۔دنیا کی بیش بہانعمتوں میں نصف اشیا سے انہیں پرہیزتھا۔ پھل، مٹھائی، پوڑی، پراٹھے، قورمے، پلاؤسب پرکہہ دیتیں’’ہم نہیں کھاتے‘‘ اکثریہ بھی کہتیں کہ، ’’کھانے کاکیاہے، ہم چٹنی روٹی کھاکے گزارہ کرسکتے ہیں۔ بس اللہ عزت سے رکھے۔’’سچ ہی تو کہتی تھیں۔ کبھی اپنی پلیٹ میں بچے کھچے دال بھات پر تھوڑاآلوگوشت کاشوربہ بھی ڈال لیتی ہوں گی۔ اپنی حاجت کا بیان کبھی کسی سے نہیں کیا کہ عزت گھٹے۔

    اعظم کی پلکیں نیندسے بوجھل رہتیں تب تک چھوٹی چچی برتن دھو دھو کر چمکا چمکاکر رکھ رہی ہوتیں۔کبھی نیندکھلتی تودیکھتادادی کے سرپیردبارہی ہیں۔ نہ جانے رات کا کون ساپہرہوتا۔وہ پھرسوجاتا۔

    صبح پوپھٹنے سے پہلے آنگن کے نل کے پاس سے کوئلے کی کرکری گھسنے کی سی آواز آتی۔ یہ نازک سی کرکرصرف وہی سن پاتا جس کی چارپائی نل کے قریب ہوتی۔ باقی سب گل نسیم سحری کی میٹھی نیند کے مزے لیتے۔ چھوٹی چچی کوئلے سے دانت مانجتی تھیں۔چولھے کی ٹھنڈی راکھ میں سے ایک چھوٹاٹکڑا لیے نل پرآتیں اوردھیرے دھیرے اسے منہ میں رکھ کردانتوں سے پیستیں۔ پھرکوئلے کے چورے کوانگلیوں سے دانتوں پرایسے گھستیں جیسے ڈابر لال دنت منجن گھستے ہیں اورکہتے ہیںدانت موتیوں جیسے سفیدہوجاتے ہیں۔ اعظم کی سماعتوں سے یہ کرکرایک عجیب نقاہت لیے ٹکراتی۔ اس کے بدن میں جھرجھری ہوتی۔ وہ آنکھیں بندکرلیتا اورتب تک بدن سکوڑکرچادر سے خودکوڈھانکے رہتاجب تک منہ میں پانی کی کلی کرکے چھوٹی چچی کوئلہ تھوک نہیں دیتیں۔ ایک دوتین بارکالاپانی تھوکتیں۔ پھرمٹ میلا۔ پھروضو بناکردوپٹے کی کور سے منہ صاف کرتی نل پر سے اٹھ جاتیں۔ ابا اورچچافجر کی نمازکومسجد جانے سے قبل چائے پی کرجاتے تھے۔ لوٹ کے آتے ہی ناشتہ کی پکارپڑتی۔ دادی بھی نمازکی چوکی پرہی ابلاانڈا اورچائے لینے کی عادی تھیں۔ اب امی تواتنے بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ یہ سب کرنہیں سکتی تھیں۔

    نہ جانے کتنی اورکیسی کیسی مشکل خدمات انجام دے کرچھوٹی چچی اس جرم کی سزا روزکاٹتی تھیں کہ ان کے اولادنہیں تھی۔

    جب اعظم گھرمیں کسی کوبرش پرسفیدپیسٹ لگاکردانت صاف کرتے دیکھتا تو اسے اپنے دانتوں میں کوئلے کی کرکری محسوس ہوتی مگروہ کبھی کسی سے پوچھ نہیں سکتاتھا کہ جب سب نئے زمانے کے طریقوں پر بازارسے برش اورپیسٹ لاتے ہیں تویہ کوئلوں سے دانت مانجنے کامقدر ایک چھوٹی چچی ہی کاکیوں ہے؟

    اس وقت اس کاطفلانہ ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جوخوددار خاتون دن رات سب کی خدمت میں اس لئے کھٹتی تھی کہ اللہ نے اسے اولاد نہیں دی، وہ اپنی چھوٹی بڑی کسی ضرورت کے لئے شوہرسے توکہہ سکتی تھی، مگرناکارے شوہرسے مایوس ہوکر ساس یاجٹھانی کے آگے ہاتھ کیسے پھیلاسکتی تھی۔

    زمانہ بدل رہا تھا۔ سب کے لئے برش اورٹوتھ پیسٹ بازارسے آتاتھا۔ اب تودادا کے لئے نیم کی مسواک بھی خریدکرلانی ہوتی تھی۔ایک چولھوں کی ٹھنڈی راکھ کے کوئلے ہی بے دام ملاکرتے تھے سووہ چھوٹی چچی کی قسمت کی سیاہ داستان لکھ رہے تھے اوراس سیاہی سے اگرکوئی ایسا نابلدتھا جیسے سمندر سے میٹھا پانی تووہ تھے ان کے مجازی خدا۔ اس کے چھوٹے چچا۔

    ہاں معصوم اعظم جانتاتھا یہ دانتوں میں کوئلوں کی کرکری کیسی ہوتی ہے۔

    چھوٹی چچی گوشت کے پارچوں کے سیخ کباب بے حدلذیذبناتی تھیں۔ بڑی بڑی لوہے کی سیخوں میں بھنے مصالحہ میں لپٹے پارچہ سینی پررکھ لیتیں ۔پکے چبوترے پرکچھ زمین صاف کرلیتیں اور زمین پردواینٹیں جمادیتیں۔ کچھ چولھے سے ٹھنڈا کیاہواکوئلہ ان اینٹوں کے بیچ سجادیتیں۔پرانے کاغذکی بتی سلگاکر کوئلوں کودہکاکر سرخ انگارہ بنالیتیں۔ زمین پر اکڑوں بیٹھ کرہاتھ کاپنکھا جھل جھل کے راکھ اڑاتی جاتیں اور کوئلوں میں دم بھرتی جاتیں۔ دونوں جانب اینٹوں پرسیخ کے سرے رکھے ہوتے اوردرمیان میں گرم کوئلوں کی مدھم آنچ گوشت کے پارچوں کوسینک دیتی۔ اخبار کے ٹکڑوں سے پکڑکرگرم سیخ گھماتی جاتیں اورچاروں طرف کباب سنکتے جاتے۔جب سنکے ہوئے کبابوں کی خوشبو گھر کی فضا کومدمست کردیتی تو بچے دوڑے ہوئے ان کے پاس آکربیٹھ جاتے۔ کچاپپیتالگے گلاوٹ کے پارچے کبھی کوئلے پرٹپک جاتے۔ بچوں کے منہ میں پانی آجاتا۔چھوٹی چچی اٹھاکر واپس سیخ پر لگانے کوگرم انگاروں میں یوں ہی ہاتھ ڈال دیتیں۔

    ان کے ہاتھ سے یہ ٹکڑے لینے کے لئے سب پکارپڑتے۔’’چچی ذرا تو چکھائیے۔‘‘

    اب ہمیں دیجئے۔

    ابھی توبھائی جان کودیاتھا۔ اب ہماری باری ہے۔

    ایسی گہاروں کاغلغلہ مچ جاتا۔

    کبھی اعظم کوایک ٹکڑاٹپکے کباب کامل جاتاتوخوشی سے منہ میں ڈال لیتا۔جلدی گرم کباب سے منہ ہی جل جاتا۔ پھونک مارتے ہوئے زبان کو گول کرکے کھاتا توآنکھوں میں آنسوآجاتے۔ کبھی ساتھ کوئی جلاہوا کوئلہ کاٹکڑا بھی کباب میں چپک کرمنہ میں آجاتاتونکالنامشکل ہوتا۔ریشمی کباب کے ذائقہ میں یہ کوئلے کی کرکری اسے بہت بری معلوم ہوتی۔فوراً جاکے پانی سے کلی کرتا مگر کچھ دیردانتوں میں پھنسی رہتی۔ کوئلہ ہونہ ہو، کرکری کااحساس دیرتک رہتا۔

    اس دن اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ چھوٹی چچی کوآخری دفعہ سلام کررہاہے جب ان کے بھائی آکرانہیں لے گئے تھے۔ چہرایوں ہی ترتھاجیسا کوئلوں سے دانت مانجنے کے بعدمنہ پرپانی کے چھینٹے ڈال کرہوجاتاتھا۔ برقعے کاپردہ آنسوؤں پرکوئلوں کی سیاہ چادر کئے تھا مگرآنکھوں میں دہکتے انگاروں کی سرخی کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ گھرکی چوکھٹ سے آخری دفعہ باہرقدم نکالتے ہوئے شاید ایک ہلکی سی سسکی بھی لی ہوگی مگرپھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔

    جب سال بھرمیں چھوٹے چچا کی نوکری آسنسول میں کوئلے کی دکان میں لگی تو وہ بھی بہت خوش ہواکہ شایداب چھوٹی چچی واپس آجائیںگی۔ گھر میں پھر بہت سے لذیذکھانے پکاکریںگے اوردادی کی خدمت کابول بالا ہوگا۔ شایدپھرگلاوٹ کے سیخ کباب بناکریں گے جن کی مہک سے گھربھرجایاکرے گااوراپنے اپنے حصہ سے بڑ ھ کرٹپکے کباب مع ادھ جلے کوئلوں کے کھانے کوملیں گے۔

    مگرجب چچا نوکری پراپنے ہمراہ ایک نئی چچی لے کے گئے۔ تواعظم کے دانتوں میں کوئلے کی کرکری بس گئی۔ یہ نئی چچی تھیں تواسی گاؤں کی مگران کے والد آسنسول میں کوئلے کی کانوں میں بایوگیری پرملازم تھے۔ اس لئے گاؤں کی زندگی جس میں صبروتحمل کابڑا کردارہوتاہے، اس سے ناواقف ہی تھیں۔ وہیں خسر نے چھوٹے چچا کی بھی نوکری لگوادی تھی۔ سوگھرجمائی تونہیں ہاں اپنے گھرسے پردیسی بن کرچھوٹے چچاوہیں آسنسول، بنگال کی کانوں میں بنی رہائشی کالونیوں میں رہنے لگے۔ اولاد کی چاہ جس کے لئے چھوٹی چچی کودوبول کہے بغیرچھوڑدیاتھا وہ بھی اللہ نے پوری کی۔یکے بعددیگرے تین بیٹیوں سے نوازا۔

    چھوٹے چچا اوران کابڑھتا ہواخاندان کبھی چھٹے چھماہے بنگال سے آیاکرتا تھا۔ نئی چچی توزیادہ تراپنے مائیکے میں ہی رہتیں۔ ان کی بیٹیاں بھی ماں کے ساتھ ہی مہمان بن کرآتیں اورچلی جاتیں۔دادی کبھی دبے الفاظ میں روکتیں یااعتراض کرتیں توچھوٹے چچازیادہ توجہ نہیں دیتے۔ یوں تودادی یا امی کبھی آہ بھرکرچھوٹی چچی کویادکرلیتیں، مگرکیامجال کہ جن دنوں آسنسول سے مہمان آئے ہوئے ہوں ان دنوں کسی کے منہ سے نکل جائے۔طاہرہ۔ یاچھوٹی دلہن۔ دونوں میں فر ق اتناتھا کہ دادی نے نئی چچی کوکبھی چھوٹی دلہن نہیں پکارا۔ ان کے لئے نیالقب تجویزہوا۔ نئی دلہن۔

    بچوں کوبھی جیسے بغیرسمجھائے سمجھادیاگیاتھاکہ یہ چھوٹی چچی نہیں نئی چچی ہیں۔ یہ روزبرش اورپیسٹ سے منہ دھوتی ہیں اور ان کاصابن، تیل، کنگھا وغیرہ کوئی ہاتھ لگالے توآسمان سرپراٹھالیتی ہیں۔نہ تویہ سیخ کے کباب بناتی ہیں نہ چولھوں پرروٹیاں۔

    جب سے چھوٹی چچی گئیں اعظم نے کوئلوں پرسنکے کباب نہیں کھائے تھے، مگرجب جب ان نئی چچی، ان کی بیٹیوں یاچھوٹے چچاکاذکرہوتا، اعظم کے دانتوں میں کوئلوں کی کرکری ضرورمحسوس ہوتی۔

    وہ اپنے کمرے میں اسکول کے بچوں کی امتحان کی کاپیاں جانچ رہاتھا۔ چھوٹے چچاکوآئے ہوئے تین دن گزرچکے تھے مگرگھرمیں کسی نے اب تک اعظم اوران کی بیٹی کے رشتہ کی بات نہیں چھیڑی تھی۔ ہلکی سی دستک کے ساتھ چھوٹے چچابغیراجازت لئے کمرے میں آگئے۔اعظم تعظیماً کھڑاہوگیااورا ن کے لئے کرسی خالی کردی۔ چھوٹے چچاہاتھ کے اشارہ سے اسے بیٹھنے کے لئے کہتے ہوئے خودسامنے پلنگ پربیٹھ گئے اوربغیرکسی تمہید کے بات شروع کردی۔

    بولے، ’’اعظم !ہم لوگ اس دفعہ آسنسول سے یہ ارادہ کرکے آئے تھے کہ تمہیں اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک کرکے میں ایک فریضہ سے سبکدوش ہوجاؤں گا۔ خیرسے بھیا اوربھابھی نے رضامندی کا اظہار بھی کردیاتھا۔ پھرتمہارے اس انکارکی وجہ جان سکتاہوں؟‘‘

    چچا کی اس بے باکیت سے اعظم کی بھی ہمت افزائی ہوئی اور اس نے سیدھی بات کی راہ لی،، ’’میں اس موضوع پرگفتگو سے گھرکے ماحول میں تلخی نہیں پیداکرناچاہتا۔بالخصوص تب جب اس سے میرے فیصلے میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘

    چھوٹے چچا دنگ رہ گئے۔ بجھائی نہیںدیتاتھاکہ گفتگو کے کس سرے سے سلسلہ جاری کیاجائے۔ آخری کوشش کی امید لئے ہوئے بولے’’اعظم، بیٹے ایک بارمیرابھتیجہ بن کرنہیں بیٹابن کرسوچو۔تم سے اپناایک دکھ بانٹتاہوں جواب تک کسی سے نہیں بانٹا۔بھیاسے بھی نہیں۔ میں گزشتہ چارماہ سے آسنسول میں بغیرملازمت کے رہ رہاہوں۔ساری جمع پونجی خرچ ہوئی جارہی ہے۔میں جس کوئلہ کی کان میں تھا اس کا سارا کوئلہ ختم ہوچکاہے۔مالک اس کان کوچھوڑکرفرارہوچکاہے۔ سالہاسال جب منوں کوئلہ نکلاکرتا تھاتوایسے مال ودولت کے دریاربہتے جیسے یہ کوئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ مگرہرمادی وسائل کی ایک حدہوتی ہے اورانسان کے بے جااستعمال سے ایک دن ختم ہوجاتاہے۔ کچھ دنوں بعد ہم سے کمپنی کاکوارٹربھی خالی کروالیاجائے گا۔ لمبا چوڑا جہیز تیار کرنا اورعالی شان شادی کی تقریب کااہتمام کرنااب میری استطاعت سے باہرہے۔تم اپنے گھرکے بچے ہواگرراضی ہوجاؤتو میں کم از کم ایک بیٹی کوعزت سے پارگھاٹ لگاسکتاہوں۔ باقی اللہ مالک ہے۔ اپنی چچی کاخرانچ مزاج تو جانتے ہو۔ میں کچھ لوگوں کامقروض بھی ہوں۔ تم سے بڑی امید ہے بیٹا۔‘‘

    خاموشی سے چچا کی بات سنتے ہوئے اعظم کے چہرے پررنگ آئے بھی اورچلے بھی گئے۔ کاپی اورقلم بندکرتے ہوئے بولا،، ’’یہ گھرآپ کاہے اورجیسے میرے والدین یہاں رہتے ہیں ویسے ہی آپ بھی رہئے۔آج سے آپ کے قرض بھی میرے اورآپ کے خرچ بھی میرے۔ مگر آپ نے مجھے بیٹاکہا ہے توپھربیٹا ہی رہنے دیجئے۔ داماد بننے کابوجھ نہیں اٹھاپاؤں گا۔آپ کی تینوں بیٹیوں کی شادیاں اپنی سگی بہنوں کی طرح کروںگا۔‘‘

    ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے چچا نے متحیرہوکر اعظم کودیکھا اورتقریباً گھگھیاتے ہوئے پوچھا، ’’اوہومگرتم اتناسب کچھ کرسکتے ہو توپھر اس رشتہ سے انکارکیوں؟‘‘

    اعظم نے ان کے چہرے سے نظریںہٹالیں اوردل کی کسی گہری تہہ سے ایک پرانی دبی ہوئی آوازسے بولتا ہواکمرے سے باہر نکل گیاکہ، ’’آپ نہ سمجھے تھے نہ سمجھیں گے، دنیا کی ساری کوئلوں کی کانوں سے کوئلہ ختم ہوسکتا ہے مگرمیرے دانتوں میںکوئلوں کی نہ جانے کیسی کرکری ہے جو کوشش کرنے پربھی ختم نہیں ہوتی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے