کلہاڑی
باہر دن کے اجالے نے ابھی مکمل طور پر اپنے پر سمیٹے نہیں تھے مگر جھونپڑے کے اندر اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ جھونپڑے کے ایک کونے میں راگی منہ پر اپنی پھٹی دھوتی کا پلّو ڈالے پڑی تھی۔ اس نے اپنے گھٹنے پیٹ میں اس طرح سکوڑ لیے تھے کہ دھندلکے میں وہ محض میلے کپڑوں کی ایک گٹھری معلوم ہو رہی تھی۔ اس کی سسکیاں رک گئی تھیں مگر وہ اب بھی رہ رہ کر اپنی ناک سُڑک رہی تھی اور کبھی کبھی اپنے میلے پلّو سے اسے پونچھ بھی لیتی تھی۔ اسے جب بھی وہ منظر یاد آتا ایک گولا سا اس کے پیٹ سے اٹھتا اور حلق میں آکر پھنس جاتا۔ وہ اپنی پوری طاقت سے چیخنا چاہتی تھی۔ چیخ کر اس گولے کو اپنے حلق سے باہر اچھال دینا چاہتی تھی مگر ایسا کرنے سے پہلے وہ خود اپنے پلّو کو اپنے منہ میں ٹھونس لیتی۔ ایک گھٹی گھٹی سی اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اس کے منہ سے نکلتی۔ وہ گولا دوبارہ اس کے پیٹ میں سرک جاتا۔ آنکھیں پھیل جاتیں اور آنسوؤں سے اس کا چہرہ بھیگ جاتا اور وہ بری طرح ہانپنے لگتی۔
وہ ہانپ رہی تھی۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی چھاتیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے بال کھل کر اس کے شانوں پر بکھر گئے تھے اور وہ مادر زاد ننگی تھی۔اس کا بدن پسینے سے شرابور تھا اور دھوپ میں تانبے کی طرح دمک رہا تھا۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی اوروہ کسی شرابی کی طرح لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی تھی۔ اس کی نظریں اپنے ننگے پیروں پر جمی تھیں جودھول اور کیچڑ سے اٹے ہوئے تھے۔ وہ گردن اٹھا کر اپنے اطراف دیکھنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھی مگر وہ کنکھیوں سے دیکھ سکتی تھی کہ سڑک کی دونوں طرف بنے کچّے پکّے مکانوں کے چھجوں کے نیچے، چھتوں پر، ورانڈوں کے اوپر، دروازوں اور کھڑکیوں میں کھڑے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب اسے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظروں کی برچھیاں اس کے جسم کے ایک ایک مسام کو چھید رہی ہیں۔ اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا مگر وہ جانتی تھی کہ ٹھاکر بلی رام اور اس کے گُرگے لاٹھی کاٹھی لیے اس کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ اگر وہ چلتے چلتے لمحے بھر کو بھی رکتی تو پیچھے سے کسی کاٹھی کی نوک اس کے پہلو میں، اس کی کمر میں یا اس کی رانوں میں گڑنے لگتی اور وہ گھٹی گھٹی سسکی کے ساتھ دوبارہ تیز تیز چلنے لگتی۔
وہ اس گاؤں کی سڑک اور گلیوں سے روز ہی گزرا کرتی تھی۔ گلیوں کے ایک ایک نکڑ اور سڑک کے ایک ایک پتھر سے وہ واقف تھی۔ یہ برگد کا پیڑ، بچپن میں جس کی داڑھی پکڑ کر وہ جھولا کرتی تھی۔ اس کے آگے وہ چھوٹا سا پوکھر جس میں وہ نہاتی اور کپڑے دھوتی تھی۔ ذرا آگے بڑھنے پر وہ پاٹھ شالا پڑتی تھی جس میں گاؤں کے بچے پڑھتے تھے۔ جب وہ چھوٹی تھی تو گاؤں کی سڑک اور گلیوں سے گائے بھینسوں کا گوبر بیننے کے بعد سر پر ٹوکرا لیے اسکول کے دروازے پر کھڑی اندر کے بچوں کو پہاڑے یا کویتائیں پڑھتے سنا کرتی تھی۔ کبھی کبھی وہ بھی بچوں کے ساتھ گنگنانے لگتی۔
’’اک گڑیا نے چڑیا پالی/ ننھی منی بھولی بھالی/ گڑیا بیٹھی کھیر پکاتی/ چڑیا اس کو گیت سناتی‘‘
اگر کسی ٹیچر یا اسکول کے چپراسی کی نظر اس پر پڑ جاتی تو وہ گھڑک کر اسے وہاں سے بھگا دیتا تھا۔ پاٹھ شالا گزر گئی۔۔۔ اب وہ شیو مندر کے پاس سے گزر رہی تھی۔ وہ گوبر بینتے بینتے اکثر مندر کے سامنے کھڑے ہو کر مندر کے موٹے پجاری سے کھڑی شکر مانگا کرتی۔ پجاری کبھی کھڑی شکر یا کھوپرے کا ایک آدھ ٹکڑا اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتا، کبھی جھڑک کر بھگا دیتا۔
ایک دن جب وہ مندر کے سامنے سے گائے کا گوبر بین رہی تھی تو اس موٹے پجاری نے اس سے کہا تھا۔’’اے راگی! مندر کے پیچھے گائے کے گوٹھے میں کتنا سارا تو گوبر پڑا ہے وہ کیوں نہیں لے جاتی؟‘‘
وہ اپنا ٹوکرا لے کر گائے کے گوٹھے میں پہنچی اور گوبر جمع کرنے لگی، تبھی اسے پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ابھی وہ پلٹ کر دیکھنے بھی نہیں پائی تھی کہ دو ہاتھ اس کی بغل میں سے نکلے اور اس کی چھاتیوں کو مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی عمر اس وقت دس بارہ سال کی رہی ہوگی۔ اسے لگا اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں سے دو بڑے بڑے کیکڑے چمٹ گئے ہیں۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ تڑپی۔ مگر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ کسمسا کر رہ گئی۔ اس نے گردن ذرا ٹیڑھی کرکے دیکھا۔ پجاری اس پر جھکا ہوا تھا۔
’’چھوڑو۔۔۔ مجھے چھوڑو۔۔۔‘‘
’’چُپ۔۔۔ چپ۔۔۔ میں تجھے بہت ساری کھڑی شکر دوں گا۔ میرے پاس بوندی اور ناریل بھی ہے۔‘‘
’’نہیں چاہیے۔۔۔ مجھے نہیں چاہیے۔‘‘ وہ چھٹپٹاتی ہوئی بولی۔
مگر پجاری کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی۔ وہ اس کے گال اور ہونٹ چومنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے منہ سے رال ٹپک رہی تھی۔ بدبودار رال سے اس کا چہرہ لتھڑ گیا۔ وہ چھٹپٹاتی رہی۔ آخر جب اسے کچھ نہیں سوجھا تو اسے نے اپنے گوبر سے سنے ہوئے ہاتھوں سے پجاری کا منہ نوچ لیا۔
’’شیو۔۔۔ شیو۔۔۔شیو۔۔۔ حرامجادی ۔ یہ کیا کیا؟‘‘
پجاری نے گالیاں دیتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔ ’’تھو۔۔۔آخ تھو۔۔۔آخ تھو۔۔۔ آخ تھو۔‘‘
پجاری بری طرح تھوک رہا تھا۔ شاید اس کے منہ میں بھی تھوڑا سا گوبر چلا گیا تھا۔ اس نے لپک کر اپنی ٹوکری اٹھائی اور گرتی پڑتی وہاں سے بھاگی۔ چار پانچ روز تک اس کی دونوں چھاتیاں کچّا پھوڑا بنی رہیں۔ اس دن کے بعد سے اس نے مندر کے سامنے سے گوبر اٹھانا چھوڑ دیا۔ اگر اسے مندر کے سامنے سے گزرنا بھی پڑتا تو وہ جلدی جلدی قدم بڑھاتی ہوئی نکل جاتی۔ دو تین بار پجاری نے ٹوکا بھی۔
’’ارے راگی! کھڑی شکر نہیں لے گی؟‘‘
مگر وہ اس کی طرف دیکھے بغیر تیزی سے گزر جاتی۔
اس بات کو دس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ موٹا پجاری اب اور موٹا ہوگیا تھا۔ اس کی بڑی سی توند نکل آئی تھی۔ وہ جب بھی راگی کو دیکھتا اپنے بدصورت دانت نکال کر ایک شیطانی ہنسی ہنستا اور پوچھتا۔ ’’کیسی ہے راگی تو؟‘‘
وہ کوئی جواب نہیں دیتی۔
اب وہ اسی مندر کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ننگ دھڑنگ ، گردن جھکائے، آنسوؤں کی وجہ سے اسے چیزیں صاف نہیں دکھائی دے رہی تھیں مگر اس نے آنکھ کی کنارے سے دیکھا۔ پجاری کی دھندلی کایا مندر کے دروازے پر ہی کھڑی تھی۔
جب وہ لوگ وہاں سے گزرنے لگے تو پجاری کی آواز آئی۔’’ کیا ہوا بلی رام بابو؟‘‘
’’بہت مستی چڑھ گئی تھی حرامجادی کے۔ ہمارے کھیتوں سے گھاس چُراتی ہے۔ نوکروں نے ٹوکا تو گالیاں دینے لگی۔ میں نے منع کیا تو ہنسیے سے وار کر دیا۔‘‘
بلی رام نے اپنا پھٹا ہوا آستین دکھایا جس پر خون کا ہلکا سا دھبّہ تھا۔
’’بہت مستی چڑھ گئی ہے۔ آج پوری بستی میں برات نکالیں گے ہم اس کی۔‘‘
’’اس کا آدمی سُکھیا کہاں ہے؟‘‘
’’کہیں چھپ کر بیٹھا ہوگا گانڈو، اسی نے ڈھیل دے رکھی ہے اس کو۔ مل جائے تو سالے کی ٹانگیں توڑ دیں گے آج۔‘‘
’’یہ نیچی جات والے، بہت اونچا اڑنے لگے ہیں بلی رام بابو! سرکار نے بھی ان کو سر چڑھا رکھا ہے۔ ان کو سبک سکھانا جروری ہے۔ ایک دن ہم سے بھی الجھ پڑی تھی۔ گوبر کا ٹوکرا لے کر مندر میں گھسنے لگی تھی۔‘‘
اس نے ایک دلدوز چیخ ماری اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دبا کر بدن سمیٹتی ہوئی اکڑوں بیٹھ گئی۔ ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ریلا بہنے لگا۔پیچھے سے اس کی پسلی میں کاٹھی چُبھی اور بلی رام کا ایک گُرگا اس کے بال پکڑ کر اسے گھسیٹنے لگا۔ وہ کسی ذبح ہوتی بکری کی طرح چیخنے لگی۔’’ ماں۔۔۔ آں۔۔۔ آں۔۔۔‘‘
گُرگا اس کے بال پکڑے اسے تھوڑی دور تک گھسیٹتا رہا۔ آخر اسے جبراً دوبارہ کھڑا کردیا گیا اور وہ پھر گرتی پڑتی آگے بڑھنے لگی۔
سامنے ماروتی کی دھرم شالہ تھی۔ اس میں گونگی جھوری رہتی تھی۔ جوں ہی یہ جلوس دھرم شالہ کے پاس سے گزرنے لگا، جھوری باہر نکلی۔ راگی نے دونوں ہتھیلیوں میں اپنا چہرہ چُھپا لیا تھا اور کہنیوں سے اپنی چھاتیوں کو ڈھکنے کی کوشش کررہی تھی۔ گونگی ان سب کو حیرت اور خوف سے دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر تک تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ پھر اچانک اس کے حلق سے عجیب وحشیانہ سی چیخ نکلی اور وہ دانت کچکچاتی ہوئی بلی رام کے گرگوں پر ٹوٹ پڑی۔ اس کے بال کھل گئے تھے اور منہ سے کف جاری تھا۔ وہ انہیں بری طرح بھنبھوڑے دے رہی تھی۔ تبھی ایک گرگے نے اس کے بھی بال پکڑ لیے اور اسے زمین پر گرا دیا۔ دوسروں نے تابڑ توڑ اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ وہ چیختی چلاتی رہی مگر چند منٹوں میں ہی اس کی چیخیں سسکیوں میں بدل گئیں۔ اسی وقت راگی کو موقع مل گیا اور وہ تیزی سے ایک طرف کو بھاگی۔ سامنے اس کی جھونپڑی نظر آ رہی تھی۔ بلی رام کے گرگے جھوری کو چھوڑ کر اس کے پیچھے لپکے مگر تب تک وہ اپنی جھونپڑی کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اس نے تیزی سے جھونپڑی میں گھس کر دروازہ بند کر لیا۔ گرگے لاٹھیوں سے دروازہ پیٹنے لگے۔ بلی رام نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
’’بس کرو۔ حرامجادی کی چربی گل گئی ہوگی۔‘‘ پھر راگی کے جھونپڑے کی طرف منہ کرکے چلایا۔’’اگر آگے سے ہمارے کھیتوں کی اور نجر اٹھا کر بھی دیکھا تو یاد رکھ، وہیں کھیت میں جندہ گاڑ دیں گے، سمجھ لے۔۔۔‘‘
پھر اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔ چند بچے جھونپڑی کے سامنے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ کچھ عورتیں کھڑکیوں کی جھریوں اور ادھ کھلے کواڑوں کے پیچھے کھڑی جھانک رہی تھیں۔ بلی رام کی نظر پڑتے ہیں انہوں نے فوراً کھڑکیاں اور کواڑ بند کر لیے۔ بلی رام نے کھنکار کر حقارت سے تھوکا اور اپنے گرگوں سے بولا۔’’چلو رے۔۔۔‘‘
’کھڑ کھڑ‘۔ کسی نے دروازے کی کنڈی کھڑکھڑائی۔ راگی نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا، دروازہ بند تھا۔ مگر وہ سہمی ہوئی نظروں سے دروازے کی طرف دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد پھر کسی نے کنڈی کھڑ کھڑائی اور ساتھ ہی آواز آئی۔
’’راگی! دروجّا کھول، میں ہوں۔‘‘
راگی نے سکھیا کی آواز پہچان لی۔ اس کا خوف ذرا کم ہوا۔ وہ اپنی دھوتی سمیٹتی ہوئی اٹھی اور لڑکھڑاتی ہوئی جاکر دروازہ کھول دیا۔ دروازے میں سکھیا کھڑا تھا۔ سر سے پاؤں تک دھول اور پسینے میں شرابور۔ اس کے سر پر لکڑیوں کا بڑا سا گٹھا تھا اور ہاتھ میں کلہاڑی تھی۔ وہ ذرا سا جکا کر جھونپڑے میں داخل ہوا۔ لکڑیوں کا گٹھا جھونپڑے میں ایک طرف ڈال دیا۔ پھر سر پر چُنبل بنا کر رکھے میلے گمچھے کو جھٹک کر اس سے چہرے کا پسینہ پونچھا اور راگی کی طرف مڑا جو ایک طرف گھٹنوں میں سر ڈالے بیٹھی تھی۔
سکھیا نے اپنی کلہاڑی ایک کونے میں رکھی اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا راگی کے پاس آیا۔ اسے تھوڑی دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔ راگی اسی طرح گھٹنوں میں سر ڈالے بیٹھی تھی۔ سکھیا نے اپنا ہاتھ اس کے کاندھے پر رکھا اور آہستہ سے پکارا۔’’راگی!‘‘
راگی نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا۔ اپنی بھیگی آنکھوں سے سُکھیا کو دیکھا اور ایک چیخ مار کر اس سے لپٹ گئی۔ ایک بار پھر وہ پھپھک پھپھک کر رو رہی تھی اور اس کا پورا بدن کسی خوف زدہ میمنے کی طرح کانپ رہا تھا۔ سُکھیا آہستہ آہستہ اس کی پیٹھ سہلاتا رہا۔ جب راگی کی سسکیاں ذرا کم ہوئیں تو سکھیا نے کہا۔
’’تو اس کی کھیت میں کیوں گئی تھی راگی؟‘‘
راگی ایک جھٹکے کے ساتھ سکھیا سے الگ ہو گئی۔ ’’میں اس کے کھیت میں نہیں گئی تھی سُکھیا! وہ جھوٹ بولتا ہے۔ وہ مجھ پر بُری نظر رکھتا ہے۔ میرے ساتھ سونے کو بولتا ہے۔ میں نہیں مانی اس لیے میرے پر چوری کا لانچھن لگایا۔ ’’راگی پھر رونے لگی۔ سکھیا اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ’’مگر تیری بات کون سنے گا راگی! وہ گاؤں کا پردھان ہے۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔ تیری بات کون سنےگا؟‘‘
راگی نے اپنی لال لال آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ اس کی آنکھوں سے اب بھی لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر ان آنسوؤں کے پیچھے بہت گہرے کچھ چنگاریاں بھی سلگتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے سکھیا کی طرف دیکھا۔ سکھیا اس سے نظریں ملانے کی بجائے جیب میں بیڑی ٹٹولنے لگا۔ اس نے اپنی بنڈی کی جیب سے ایک تڑی مڑی بیڑی نکالی۔ اسے دو انگلیوں سے مسل کر اس کا تمباکو ڈھیلا کیا اور ماچس جلا کر بیڑی سلگائی۔ بیڑی سلگا کر ایک کش لیا اور اپنے آپ بڑبڑانے لگا۔
’’بھیکو کاکا نے مجھ کو سب بتا دیا ہے۔ کہتے تھے جو ہوا بہت بُرا ہوا۔ مگر سورنوں کے سامنے کھڑے ہونے کا ساہس کس میں ہے؟ پتا ہے دو ورش پہلے گھیسو چمار کے چھوکرے دگڑو کے ساتھ چوبے کی چھوکری مادھوی پکڑی گئی تھی تو سورنوں نے کیسا گدر مچایا تھا۔ چماروں کے بارہ گھر جلا دیے تھے، دگڑو اور اس کے باپ گھیسو کو کھیتوں میں دوڑا دوڑا کر بلّموں سے چھید دیا تھا۔ ان کو کون گیا بچانے! پولیس آئی تو الٹا چماروں کے چھوکروں کو پکڑ کے لے گئی۔ چوبے اور اس کے چھوکروں کو بھی پکڑا مگر وہ دوسرے دن جمانت پر چھوٹ گئے۔ چماروں کے چھوکرے آج بھی کال کوٹھری میں بند ہیں۔‘‘
سُکھیا بولے جا رہا تھا۔ راگی گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے چپ چاپ سنتی رہی۔
سُکھیا نے بیڑی کا آخری کش لیا۔ ٹرّے کو زمین پر رگڑا اور بولا۔
’’کچھ کھانے کو دے، بھوک لگی ہے۔ تو بھی دو نوالے کھالے۔‘‘
راگی کچھ نہیں بولی۔ دھوتی کے میلے پلّو سے ناک پونچھی اور وہیں کچے فرش پر پسر کر پلّو منہ پر ڈال لیا۔ سُکھیا نے ایک نظر اسے دیکھا۔ پھر چپ چاپ اٹھا۔ مٹکے سے ایک ڈونگا پانی نکالا۔ کلّی کی اور دو چار گھونٹ پانی پیا۔ پھر جھونپڑی کے ایک کونے سے پُرانے کنستر میں ہاتھ ڈال کر ایک بوتل نکالی۔ دیے کے اجالے میں دیکھا۔ بوتل کی تہہ میں دوچار گھونٹ دارو بچی تھی۔اس نے مٹی کے ایک کلہڑ میں دارو انڈیلی، اس میں تھوڑا مٹکے کا پانی ملایا اور ایک لمبا گھونٹ لے کر ہانڈیاں ٹٹولنے لگا۔ مٹی کے ایک برتن میں کپڑے میں لپٹے باسی روٹی کے کچھ ٹکڑے پڑے تھے۔ ایک ڈبّے میں گُڑ تھا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھ کر روٹی اور گڑ کھانے لگا۔ سوکھی روٹی بمشکل حلق سے اتر رہی تھی۔ وہ ہر نوالے کے ساتھ دارو کا ایک گھونٹ لیتا۔ وہ روٹی چباتا ہوا راگی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ راگی منہ پر دھوتی کا پلو ڈالے دوسری طرف منہ کیے پڑی تھی۔ اس کی پیٹھ سُکھیا کی طرف تھی۔ دیے کی ٹمٹماتی روشنی میں اس کی کمر کا خم اور کولہوں کا ابھار کافی شہوت انگیز لگ رہا تھا۔ اس کی چولی کی آستین پھٹ گئی تھی اور اس کی گول گداز بانہہ شانے تک عریاں ہوگئی تھی۔ سکھیا روٹی چباتے چباتے اس کے سراپا کا جائزہ لیتا رہا۔ گھونٹ گھونٹ کرکے اس نے دارو کے ساتھ روٹی کے چند ٹکڑے حلق سے اتار لیے۔ ہتھیلی کی پشت سے منہ پونچھا۔ پھونک مار کر بتی گل کردی اور سرکتا ہوا راگی کے پاس آ گیا۔
تھوڑی دیر تک اندھیرے میں بیٹھا رہا پھر وہیں راگی کے پہلو میں لیٹ گیا۔ راگی اب بھی دوسری طرف منہ کیے پڑی تھی۔ سکھیا کا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رینگنے لگا۔ راگی ذرا سا کسمسائی۔ سکھیا اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔ تھوڑی دیر تک سہلاتا رہا پھر اس کے کان کے پاس منہ لے جا کر آہستہ سے پھسپھسایا۔’’آنگ دبادوں؟‘‘
راگی نے ’نہیں‘ میں گردن ہلائی۔ پھر اس کے کولہے کو ہلکے سے دباتے ہوئے کہا۔ ’’پاؤں دبادوں؟‘‘ راگی غصے سے پلٹی۔ ’’سُکھیا، سونے دے، نہیں تو میں چھت سے لٹک کر جان دے دوں گی۔‘‘
سُکھیا نے جھٹکے سے ہاتھ کھینچ لیا، جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ جلدی سے بولا۔
’’سو جا۔۔۔سو جا۔۔۔ میں تو ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔‘‘
اور اپنی لنگوٹی کی گانٹھ کستا ہوا پرے سرک گیا۔
ایک بڑا سا اجگر راگی کو نگل رہا تھا۔ بلکہ کمر تک آدھے سے زیادہ نگل چکا تھا۔ راگی دونوں ہاتھ ہلاتی ہوئی بری طرح چیخ رہی تھی۔ اسے مدد کے لیے پکار رہی تھی مگر وہ اپنی جگہ کسی نیم مردہ کیچوے کی طرح پڑا چھٹپٹا رہا تھا۔ وہ اٹھنا چاہتا تھا مگر اٹھ نہیں پا رہا تھا۔ جیسے کسی انجانی طاقت نے اسے دبوچ رکھا ہو۔ وہ چیخنا چاہتا تھا مگر حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ایسی بے بسی اور لاچاری اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور نس نس سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ آخر تھک ہارکر اس نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کے گرد بندھی کسی ان دیکھی ان جان رسی کے بل ایک دم سے ڈھیلے ہوگئے ہوں۔ اس نے سب سے پہلے اپنے پہلو میں راگی کو ٹٹولا مگر راگی وہاں نہیں تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کھولی میں چاروں طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ اس نے پکارا۔ ’’راگی!۔۔۔ اے راگی!!۔۔۔‘‘
مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ اس نے اپنے سرہانے سے ماچس نکالی اور دیا جلایا۔ کھولی خالی تھی۔ موری میں جھانکا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ دروازہ بھڑا ہوا تھا مگر کنڈی نکلی ہوئی تھی۔ اس نے جھٹ سے دروازہ کھولا۔ باہر جھانکا۔ باہر گہرا سناٹا تھا۔ ’’کہاں گئی ہوگی راگی؟‘‘ وہ پلٹا۔ کھولی میں آیا۔ بے چینی سے اِدھر ادھر دیکھنے لگا۔ دیے کی ٹمٹماتی روشنی میں کھولی کی دیوار پر اس کی بڑی سی پرچھائیں ڈول رہی تھی۔ وہ کیا کرے؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر اس کونے میں گئی جہاں اس نے کلہاڑی رکھی تھی، مگر کونا خالی تھا۔ وہاں کلہاڑی نہیں تھی۔
اس کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا ماتھا پکڑ کر فرش پر بیٹھ گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.