Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کنگ پوش

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    اور سب پھول بہار میں کھلتے ہیں۔ مگر کیسر خزاں میں کھلتا ہے۔ وہ مٹیالی ابابیل، جو ابھی ابھی اس ٹیلے سے پنکھ پھیلاکر اڑگئی، شاید کیسر کے پھولوں کو جی بھر کر دیکھنے کے لیے ادھر آ بیٹھی تھی۔ کیا یہ دھرتی کبھی اتنی بانجھ ہو جائےگی کہ کیسر اگنا بند ہو جائے؟

    کتنی چہل پہل ہے یہاں۔ یہ لڑکیاں ہیں یا رنگوں کی پریاں۔ ان کو دیکھتاہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑا دوپٹہ ہے جس میں یہ رنگ کی دھاریاں بن کر لہرارہی ہیں، وہ کیسر کے پھول چن رہی ہیں۔ ان کے اعضا کا تناسب دیکھتا ہوں تو اس بت تراش کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے گوشت میں پتھر کی سی نوک پلک پیدا کی۔

    رنگ کی ان لہروں میں میرا دل، جو پہلے امیراکدل پل کے نیچے سے گزرنے والا خاموش اور بےرنگ جہلم تھا، اب اچھلنے لگا ہے۔ کیا کشمیر کی سبھی عورتیں ایک سی خوبصورت ہیں۔ نہیں تو۔ نہ تو سبھی ایک سی نازک، نہ ایک سی لطیف اور مدماتی ہیں۔ رنگ الگ بات ہے، روپ الگ۔

    ٹھیکیدار للکار رہا ہے۔ ’’جلدی ہاتھ ہلاؤ جلدی۔‘‘

    لڑکیاں خوشی خوشی پھول چن رہی ہیں۔ پہلے ٹھیکیدار کی کڑک سن کر سہم جاتی ہیں۔ لیکن پھر باتوں کا وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جیسے ماضی، حال اور مستقبل کا سار حسن اس کھیت میں جمع ہو گیا ہے۔ یہ گوری گوری گردنیں! کالی کالی آنکھیں، کالی کالی بدلیوں سی جن میں بجلی چمک رہی ہو۔ ہونٹ کاتک کے تازہ شہد سے کہیں رسیلے اور چمکیلے، باتیں کرتی ہیں تو ہونٹوں کے کونے ہلتے ہیں اور میرے دل پر رنگین پھُوار پڑتی ہے۔

    چند بوڑھی عورتیں بھی پھول چن رہی ہیں۔ سال بسال کیسر چنتے چنتے ان کی جوانی بیت گئی۔ جب وہ دلہنیں بنی ادھر آنکلی تھیں تب بھی یہ کھیت اسی طرح کیسر پیدا کرتے تھے۔

    وہ سرخ پھِرن والی نوجوان عورت، جو کسی بچّے کی ماں بننے والی ہے، پھول چنتی چنتی تھک جاتی ہے، جیسے لالے کی ٹہنی بارش کے بوجھ سے جھک جائے۔

    میری نگاہ گھوم پر کر اس بِن بیاہی الھڑ لڑکی پر آٹھہرتی ہے۔ جس نے سبزاونی پھِرن۱؂ پہن رکھا ہے۔ اس کی نرگسی آنکھوں میں حیا ہے، جھجک ہے اور کچھ کچھ ڈر بھی۔ اس کے چہرے پر بچپنے کی شریر لالی سنجیدگی کی طرف پہلا قدم اٹھا رہی ہے۔ یہ نہیں کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں۔ دیکھنے میں تو کچھ برائی نہیں اور اگر اس میں کچھ برائی ہے تو میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کنکھیوں سے کسی اجنبی کی طرف دیکھنا اور پھر پلکیں جھکا لینا کیا کم بے انصافی ہے؟ اس کے بازوؤں کی تراش دیکھوں یا اس کی پتلی پتلی انگلیاں؟

    ٹھیکیدار کے بول ڈانٹ رہے ہیں، جھنجوڑ رہے ہیں اور جب وہ لال پیلا ہوکر کہہ اٹھتا ہے۔ ’’اور پھرتی سے۔۔۔‘‘ تو ہر ایک کا چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے، بوڑھی عورتوں کا بھی۔

    پھولوں کی پتیاں بیگنی رنگ کی ہیں۔ ہر ایک پھول میں چھ چھ تار ہیں۔۔۔تین زرد اور تین نارنجی۔ پھول چننے کے بعد انھیں دھوپ میں سوکھنے کے لیے ڈال دیا جائےگا اور پھر نارنجی تار، جو اصل کیسر ہے، الگ کر لیے جائیں گے۔ زرد تار پھینک دیے جانے چاہئیں۔ مگر یا تو وہ یوں ہی کیسر میں مِل جائیں گے یا جان بوجھ کر اس کا وزن بڑھانے کے لیے ملا دیے جائیں گے۔

    پچھلے ہفتے جب میں اپنی بیوی اور بیٹی سمیت چاندنی رات میں کیسر کے پھول دیکھنے آیا تھا، کیسر کے تار سونے کی طرح چمک رہے تھے۔ کبھی میں اوپر آسمان پر تاروں کو دیکھتا رہا اور کبھی کیسر کے تاروں کو۔

    میرے ذہن میں ایک خوبصورت تصویر بن گئی ہے۔ اس سبز پھِرن والی الھڑ لڑکی نے پھر ایک بار میری طرف دیکھ لیا ہے۔

    سات سال پہلے بھی میں کشمیر آیا تھا۔ جو تصویر اس وقت میرے ذہن میں خودبخود بن گئی تھی، وہ بھی تو قائم ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس میں کیسر کا کھیت موجود نہیں اور یہ کمی اسی وقت پوری ہورہی ہے۔۔۔

    کیسر چنتی چنتی کنواریاں ایکاایکی ایسا گیت مل کر گانے لگی ہیں، جسے سن کر ٹھیکیدار کے بوڑھے گلے میں بھی سر خرخرانے لگے ہیں،

    ’’یار گو مئے پامپوروتے

    کُنگ پوشو رُٹ نال متے

    سوچھم تتے بُچھس یتے

    بار صائیبو بوجتم زار!‘‘

    ’’میرا محبوب پامپور کی طرف چلا گیا (اور وہاں) کیسر کے پھول اس سے ہم آغوش ہو گئے۔ (آہ!) وہ وہاں ہے اور میں یہاں! او خدا! میری آواز سن!‘‘

    وہ سبز پھِرن والی شرمیلی لڑکی بڑی ہوکر شاید اس گیت میں اپنی زندگی کا کوئی مدھم پڑا ہوا رنگ ابھارنے کی کوشش کرےگی۔

    یہ اونچی نیچی زمین ہے، کچھ جہلم کے کنارے کنارے اور کچھ اس سے دور ہٹتی گئی ہے۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے، الگ تھلگ ٹیلے سے نظر آ رہے ہیں۔

    میں ٹھیکیدار سے پوچھتا ہوں۔ ’’ان ٹیلوں کو ادھر کیا کہتے ہیں؟‘‘

    وہ جواب دیتا ہے۔۔۔ ’’وُڈر‘‘ یا ’’کریوا‘‘۔

    ٹھیکیدار کا چہرہ جس پر گہری جھرّیاں نظر آ رہی ہیں، اور بھی سنجیدہ ہو گیا ہے۔ گویا وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے اور جیسے اس سوال کا جواب وہی دے سکتا ہے۔

    اس نے مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا ہے۔ وہ مجھے بتا رہا ہے کہ یہ وڈر یا کریوا سب کے سب بارانی زمین کے ٹکڑے ہیں۔ مگر ہیں بڑے زرخیز۔

    ’’تو کیا ان سبھی وُڈروں میں کیسر پیدا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔ کیسر تو پامپور کے وُڈروں ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ اس بارہ ہزار بیگھہ زمین پر خدا کا بڑا فضل ہے۔۔۔یہاں مٹی کیسر پیدا کرتی ہے۔‘‘

    اس نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ زمین مہاراجہ کی ذاتی ملکیت ہے اور جو بھی اسے ٹھیکہ پر لیتا ہے، اس کا آدھا کیسر اپنے ماتحت کھیتی کرنے والوں میں بانٹ دیتا ہے اور آدھا خود لے لیتا ہے جس میں سے اسے ٹھیکہ کا روپیہ چکانا ہوتا ہے۔

    ’’آدھی چھٹانک کیسر تیار کرنے کے لیے چار ہزار تین سو بارہ پھول چاہئیں۔‘‘ وہ بڑے فخر سے کہہ رہا ہے، جیسے اس کے باپ دادا ہمیشہ کیسر کا ٹھیکہ لیتے رہے ہیں اور اس کی جہاں دیدہ آنکھیں، جن میں کچھ خودبینی بھی جھلکتی ہے، مست ہو اُٹھی ہیں، جیسے اس نے کیسر کا یہ راز مجھے بتاکر کبھی نہ کبھی کیسر کا ٹھیکہ لینے کے لیے اکسا دیا ہے۔

    کیسر سے مجھے پیار ہو گیا ہے۔ میں اِسے سب جگہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہندوستان کے نقشے پر میں ہر جگہ کیسر چھڑک دینا چاہتا ہوں۔

    ’’دھنیہ ہے وہ دھرتی جہاں کیسر نے جنم لیا۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کل ایک دکاندار نے میرے لیے پانچ روپے کا کیسر تول دیا تھا۔ جیب سے روپے نکالتا ہوا میں سوچ رہا تھا کہ کون جانے سری نگر کے اس دکاندار کی بیوی کا نام کیسر ہو اور وہ رات کو گھر جاکر اس کے سامنے بھی کہہ اٹھے۔ دھنیہ ہے وہ دھرتی جہاں کیسر نے جنم لیا! اور وہ عورت یہ سمجھے کہ اس کے حسن کی تعریف ہو رہی ہے، یہ نہیں کہ اس کے خاوند نے ایک خانہ بدوش ادیب کے پاس تھوڑا کیسر بیچ کر ایک آدھ روپیہ کما لیا ہے۔

    میرے ذہن کی ساری شعریت سِمٹ سِمٹاکر کیسر کے ارد گرد گھومنے لگی ہے۔ میری بیوی نے کیسری ساڑھی پہن رکھی ہے۔ ماں کی دیکھا دیکھی میری بیٹی نے بھی کیسری فراک پہن لیا ہے اور میں خوش ہوں۔

    کاش! اس شرمیلی لڑکی نے کیسر کے کھیت میں کیسری پھِرن پہنا ہوتا۔ تب اس کا گورا رنگ ایک سنہری جھلک لے اٹھتا۔ وہ مجھے اور بھی سندر دکھائی دیتی اور میں سوچتا کہ وہ کیسر کے کھیت کی بیٹی ہے۔۔۔یا پھر کیسر کی دیوی ہے!

    شفق کی کیسری بشاشت دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اشا نے میرے دلی رجحان کو سمجھ لیا ہے۔ پر یہ رنگ تو اسے ہمیشہ سے پیارا ہے۔ نت نئے ہیں کیسری اشا کے چاؤ اور وہ سب رنگین جذبات جو ہمیشہ سے شاعروں اور ادیبوں سے ہولی کھیلتے آئے ہیں۔

    کیا کیسری اشا کی طرف دیکھ کر اس شرمیلی الھڑ لڑکی کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس کی طرح وہ بھی کیسری پھِرن پہن لے؟ یا کیا وہ ہر روز دن چڑھے جاگتی ہے؟ اشا کو نہ سہی کیسر چنتی چنتی کیسر کے تار تو وہ دیکھتی ہی ہے اور انھیں دیکھ کر کھو سی جاتی ہوگی۔ یہیں سے وہ کیسری پھرن کا خیال بڑی آسانی سے لے سکتی تھی۔ پر کون بتائے اسے کہ وہ سفید اونی پھرن، جسے اس نے نہایت شوق سے سلوایا ہے یا سلوانا ہے، ضرور کیسری رنگالے؟

    پامپور سری نگر سے بہت دور نہیں۔ تانگہ جاتا ہے۔ مگر جو مزا پیدل جانے میں ہے وہ تانگے میں کہاں؟ میں کئی بار پامپور ہو آیا ہوں اور کیسر کے پھولوں سے کہیں زیادہ وہ الھڑ لڑکی ہی مجھے اس کشش کی موجب معلوم ہوتی ہے۔

    ہر بار وہی سبز پھرن۔۔۔سبز پھرن! کیا اس کے پاس صرف یہی ایک پھرن ہے؟ اتنی غریبی! جی چاہتا ہے آئندہ اپنی بیوی کو تب تک نئی ساڑھی نہ لے کر دوں جب تک اس کی سب کی سب ساڑھیاں پھٹ نہیں جاتیں۔ اس الھڑ لڑکی میں کیا کچھ کم جان ہے؟ اِس کا دِل کیا کسی الگ مٹی کا ہے؟

    بہت کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح یہ الھڑ لڑکی میرے دل سے نکل جائے۔ مگر اِس کے باوجود وہ میرے دل میں سما رہی ہے۔ کئی بار تو میں نے سپنے میں بھی اسے دیکھ لیا ہے۔ وہ مجھے کیوں نہیں چھوڑتی؟ وہ کیوں گھورتی ہے؟ کیوں کھلکھلاکر ہنس پڑتی ہے؟ میں کیا جانتا تھا کہ جذبات اتنے اچھل پڑیں گے۔ جسے وہ کہتی ہو۔۔۔سبز پھرن سے اتنی نفرت کیوں؟ گھاس بھی تو سبز ہوتی ہے۔ بلکہ میں تو چاہتی ہوں تم بھی سبز کپڑے پہنو۔ درخت بھی تو سبز دوشالے اوڑھتے ہیں۔۔۔پر تم نہ مانوگے۔۔۔اچھا میں ہی مان جاؤں گی۔ میں کیسری پھِرن پہن لیتی ہوں۔۔۔کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ میرے پاس کیسری پھرن نہیں ہے؟ واہ خوب سوچا تم نے! پچھلے سال میں نے کیسری پھرن بنوایا تھا۔ پر یہ نہ جانتی تھی کہ ایک بنجارہ آئےگا اور اسے پہننے کی فرمائش کرےگا۔ میری طرف دیکھو۔۔۔دیکھو۔۔۔دیکھو تو۔۔۔میں نے کیسری پھرن پہن لیا ہے۔ میں کیسر کے کھیت کی بیٹی ہوں۔۔۔یا پھر کیسر کی دیوی ہوں۔

    کل بھی دن بھر اسی کوشش میں رہا کہ کسی طرح یہ لڑکی میرے دل میں نہ آنے پائے۔ ایک مضمون لکھنے بیٹھا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ کیسر کی دیوی مجھے کہہ رہی ہے۔۔۔کس پر لکھوگے؟ اس کیسر کے کھیت پر جہاں تم نے مجھے پہلے پہل دیکھا تھا؟ یا اس ٹھیکیدار پر جس نے تمھیں اپنے قریب بڑے ادب سے چارپائی پر بٹھا لیا تھا؟

    جب میں نہانے لگا تو میرے ذہن کی کسی نامعلوم گہرائی سے کیسر کی دیوی کی آواز بلند ہوئی۔۔۔پانی بہت ٹھنڈا ہے کیا؟ میں جانتی ہوں تم ٹھنڈے پانی سے نہانا پسند نہیں کرتے۔ مجھ سے کیوں نہ کہا؟ میں کیا انکار کر دیتی؟ میں جھٹ آگ سلگاتی۔ جھٹ پانی گرم کر دیتی۔ صابن ہے؟ ہے تو۔ اچھا نہالو۔ میں جاتی ہوں۔

    نہا کر غسل خانہ سے نکلا تو میرا چہرہ اُداس تھا۔ بیوی نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ کچھ کھوئے کھوئے سے دکھائی دیتے ہو!‘‘ مگر میں نے ہنس کر بات آئی گئی کر دی۔ آخر اس سے کیا کہتا؟ میں اندر ہی اندر گھلا جا رہا تھا اور پچھتاتا تھا کہ میں کیسر کے کھیت میں گیا ہی کیوں؟

    اور جب میں سیر کرنے کے لیے بے رنگ جہلم کے کنارے ہو لیا۔ تو بھی میں نے محسوس کیا کہ وہ کیسرکی دیوی میرا پیچھا کر رہی ہے۔ ایک پروں والا رنگ ہے جو اڑتا چلا آ رہا ہے۔یہ رنگ اپنی جگہ پر چسپاں ہو گیا اور تصویر بول اٹھی۔۔۔داسی کا کیا قصور ہے؟ یوں دِل ہٹا لینا تھا تو مجھے نہ بلایا ہوتا! میرا سوتا پیار نہ جگایا ہوتا! یہ کہاں کی ریت ہے جی! کھیت کی منڈ کے پاس کھڑے ہوکر کیوں ٹکٹکی لگاکر تم میری طرف دیکھ رہے تھے؟ تم مجھ سے کچھ نہ بولے تھے۔ پر تمھاری آنکھیں تو بولی تھیں؟ تب انھیں کیوں نہ سمجھایا تم نے۔۔۔؟ ایک بار نہیں، دوبار نہیں، تم تو پورے سات بار پامپور کے کھیتوں میں آ نکلے اور وہ بھی پیدل۔ جب میں یہ جان گئی تو تم سے پیار کرنے لگی۔

    میں پریشان سا ہو گیا۔ کچھ بول بھی تو نہ سکا۔ آخر کیا کہتا قصور وار تو تھا ہی۔ اس کی باتوں کا میں نے برا نہیں مانا۔ مگر میں اس کا سواگت نہ کر سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ مجھے چھوڑ دے، مجھے معاف کر دے اور جب اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، میں ڈرے ہوئے ہرن کی طرح رک کر کھڑا ہو گیا۔ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ اس سے صاف صاف کہہ دوں، کیسا پیار؟ کہاں کا آنند؟ مگر میں کھلم کھلا یہ نہ کہہ سکا۔ اس کے بجائے میں نے کہا۔ کیسر کی دیوی! نہیں۔ رونے سے کیا حاصل؟ دنیا کو دیکھ، دنیا کی وسعتوں کو دیکھ۔ دور نہیں تو پامپور ہی کو دیکھ۔ آنسو بھری آنکھیں دیکھتی تو ہیں پر ایک دھندلی سی پن چادر کے بیچ میں سے۔۔۔زندگی اور نگاہوں کے بیچ آنسو نہ ہونے چاہئیں کہ یوں رنگ اپنی اصلیت کھو دیتے ہیں۔۔۔اور تیری زندگی تو اڑنے والی ابابیل ہے۔۔۔کیا آنسو تیرے پنکھ بھاری نہ کر دیں گے؟ تجھے تیرا پریمی مِل جائےگا اک دن۔ پر مجھے چھوڑ دے، معاف کر دے! وہ نہ مانی۔ برابر روتی رہی۔ نہ میں کیسر کے کھیت میں گیا ہوتا، نہ یہ مصیبت آ کھڑی ہوتی۔

    میں بازار میں جا نکلا۔ پریشان خیال تب بھی تھا۔ اب یہ احساس بھی تھا کہ اکیلا ہوں اچھا ہی ہوا۔ پاؤں کی حرکت ہلکی معلوم ہورہی تھی۔ بازار تو کسی کی ملکیت نہیں۔ میں آزاد تھا۔

    پھر یوں ہی میری نگاہ ایک چھت کی طرف اٹھ گئی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے ایسا معلوم ہوا کہ میرے ذہن سے رنگ کا ایک ٹکڑا اڑکر سامنے کھڑکی میں تھرکنے لگا ہے۔ میرے پاؤں رک گئے۔ کتنا ہموار چہرہ تھا۔ سرخ گال۔۔۔جیسے دو اجلے طاقوں میں دِیے جل رہے ہوں۔۔۔اور آنکھیں۔۔۔! دو اندھیری راتیں، جن میں ٹٹول ٹٹول کر چلنا پڑتا ہے۔

    لاکھ کوشش کرنے پر بھی دل ہٹتا نہیں۔ الجھا ہوا رہتا ہوں۔ اپنے سر کے لمبے بالوں کی طرح۔ راہ چلتے ڈرتا ہوں۔ پہلے پامپور کی دیوی تھی۔ وہ میرے ذہن کا کیسری خیال۔ اب یہ عورت تھی جو کھڑکی میں یوں بیٹھی تھی جیسے فریم میں تصویر جڑ دی گئی ہے۔ وہ میری طرف کس طرح دیکھتی رہی تھی۔ میں نے اپنے دل میں ایک چٹکی سی محسوس کی تھی، جیسے کوئی نادان بچہ کسی خوش رنگ تصویر کی بوٹی نوچ لے۔۔۔وہ قصور وار تھی۔۔۔؟ نہیں، وہ بے قصور تھی۔۔۔پھر قصور کس کا تھا؟ تو کیا یہ قصور میرا تھا؟

    کل میں نے پھر دور سے اسے دیکھا تو وہ فاختہ کی طرح مجھے دیکھتی رہی۔ گھر لوٹنے پر میں نے محسوس کیا کہ دو کالی مدھ ماتی آنکھیں میرا پیچھا کر رہی ہیں، دو اندھیری راتیں میری زندگی کے اجالے میں حل ہوا چاہتی ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کی پناہ لی۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔

    دل مانتا نہیں۔ اس کے بھید میں خود نہیں سمجھتا۔

    دِل دریا سمندروں ڈونگھا

    کون دلاں دِیاں جانے؟

    وِچے چپو وچے بیڑی

    وِچے ونج مہانے!

    ’’دل بھی ایک دریا ہے، سمندر سے کہیں گہرا۔ کون جان سکتا ہے دِل کی باتیں۔ اس میں کیا چپو، کیا کشتی اور ملاح۔ (سبھی ڈوب جاتے ہیں)۔‘‘

    کیا پنجاب کے اس کسان کو بھی میری طرح ایسی الجھن میں پھنسنا پڑا تھا؟

    اب جو اس چھت کی طرف دیکھتا ہوں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس پامپوری کی دیوی ہی نے یہ روپ دھارن کیا ہے۔ مگر اس کا پھِرن تو سبز تھا اور اس کو لاجوردی رنگ پسند ہے۔ وہ کیسری پھرن کیوں نہیں پہن لیتی؟ مگر ہر پھول کو اپنا رنگ پسند ہے، جیسے ہر پرندے کو اپنا گانا۔

    مجھے یاد ہے بچپن میں ایک بار میں نے لاجوردی کوٹ سِلوایا تھا۔ برا تو نہ لگتا تھا۔ ماں کہا کرتی تھی، ہر رنگ نئی ہی خوشی دیتا ہے، بیٹا! اگر اس کو یہ بات معلوم ہو جائے تو وہ جھٹ کہہ دے۔۔۔یہ لاجوردی پھرن تمھیں پسند نہیں۔ وہ دن بھول کیے جب لاجوردی کوٹ پہن کر سکول جایا کرتے تھے اور یہ بھی تمیز نہ تھی کہ لاجوردی لڑکوں کو زیب دیتا ہے یا لڑکیوں کو۔

    اس کی آنکھیں کتنی لاج بھری ہیں۔ یہ لاج نہ ہوتی تو وہ کتنی اوچھی معلوم ہوتی۔ اتنی لاج بھی تو اچھی نہیں کہ دل کا راز دل ہی میں رہ جائے۔ میں اس کی طرف کیوں دیکھتا ہوں؟ میرے دل کی دھڑکن تیز کیوں ہو رہی ہے؟

    وہ کیسے بنی اس کھڑکی کی رانی؟ کس نے اسے اس بھڑکیلے فریم میں جڑا؟ کس سے پوچھوں؟ کون سنائے اس کی کہانی؟ اسے اس محور کے گرد گھومنے پر کس نے آمادہ کیا؟ قصور کسی کا بھی ہو، وہ خود بےقصور ہے۔ میں اسے دور سے دیکھتا ہوں۔ دیکھنے میں تو کچھ برائی نہیں اور مجھے اس سے نفرت بھی تو نہیں۔

    اس کالی آنکھوں والی کے چہرے پر کبھی کبھی ہنسی دوڑ جاتی ہے، جیسے اندھیری رات کے کالے کالے بادلوں میں بجلی گوٹے کی بےشمار دھاریاں ٹانک دے۔ میرا دل اندر ہی اندر سکڑ رہا ہے۔ سوچتا ہوں کہ وہ روتی بھی ہوگی۔ کاجل سا برس جاتا ہوگا!

    کیا اُسے اس ہری ہری گھاس کی یاد نہیں آتی جو مخمل کی طرح اس کے پاؤں تلے بچھی رہتی ہوگی؟ گھاس کی سوندھی سوندھی خوشبو، جس نے پھولوں کی مہک کے علاوہ ہزاربار اسے رجھایا ہوگا، وہ بھولی تو نہ ہوگی، وہ ضرور کسی غریب کسان کے گھر میں پیدا ہوئی ہے۔ اس مٹیالے بالاخانے کے ساتھ اس کا رشتہ بہت پرانا معلوم نہیں ہوتا۔ یہ بات تو میں بلا کسی تصدیق کے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی بیسوا کی بیٹی ہرگز نہیں۔ ورنہ وہ اتنی الھڑ نظر نہ آتی اور اس کی لاج میں تو کھیت لہلہاتے ہیں۔

    لیکن وہ کچھ گاتی کیوں نہیں؟ گانا جانتی تو ہوگی۔ ضروری نہیں کہ بنسری کسی کے ہونٹوں کا انتظار کرتی رہے۔ ہوا بھی تو سر جگا دیا کرتی ہے۔ سر نیند کے ماتے نہیں ہوتے۔ ان کی نیند بڑی ہلکی ہوتی ہے۔ کبھی نہ کبھی ضرور اس کے حلق میں سر جاگ پڑے ہوں گے، ڈر کر ہی سہی۔۔۔چنانچہ اب آنکھیں ہی نہیں، میرے کان بھی اُس کے کوٹھے کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ اب تو میں دیکھتا ہوں کہ آنکھوں سے کہیں زیادہ کانوں کو بےقراری ہے۔ کاش! میں کبھی دور سے اس کا پھڑپھڑاتا نغمہ سن پاؤں۔ میں سوچتا ہوں۔ کان برابر ادھر متوجہ رہتے ہیں۔ آنکھوں میں اک رنگین غبار سا چھا جاتا ہے۔ جب لونگ فیلو نے لکھا تھا ’’رات موسیقی سے شرابور ہو جائےگی اور سب تفکرات جو دن بھر ہمیں ستاتے رہتے ہیں، عربوں کی طرح اپنا ڈیرہ ڈنڈا اٹھاکر خاموشی سے چلتے بنیں گے۔‘‘ تو شاید اسے بھی یوں میری طرح ترسنا پڑا ہو۔ گاؤں کے خود رو گیت کبھی تو اس لڑکی کی زبان پر آتے ہی ہوں گے۔

    کسے بناؤں ہمراز؟ ڈرتا ہوں کہ سماج کا ہاتھ بڑھ کر ان تمام پیالیوں کو اپنے حلق میں نہ اُنڈیل لے جن میں میں نے بڑے چاؤ سے کئی رنگ گھولے ہیں۔ مگر یہ ڈر تو لگاہی رہےگا۔ لاکھ سوچتا ہوں ڈر بیکار ہے۔۔۔مذہب کا ڈر۔۔۔خدا کا ڈر۔۔۔سماج کا ڈر۔۔۔یہ تمام ڈر پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔

    وہ اخلاق کیا جو صرف ڈر پر مبنی ہو؟ وہ اخلاق کیا جو نفرت سکھائے، بَیر سکھائے! نہیں، اب میں نہیں ڈرتا۔

    کل رات میں اپنی تمام جرأت کو جمع کرکے اس کے ہاں چلا گیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جھٹ میرے استقبال کے لیے اٹھی، بڑی عزت سے اس نے مجھے سیاہ کشمیری کمبل پر بٹھا دیا۔

    ’’پامپور کی دیوی!‘‘ اپنے ذہن میں میں اس سے مخاطب ہوا اور میرے ہونٹوں پر یہ الفاظ آئے۔ ’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘

    شہد بھرے لہجے میں اس نے جواب دیا۔ ’’کنگ پوش!‘‘

    اور میں نے دیکھا کہ ایک زعفرانی حیا اس کے گالوں پر پھوٹنے لگی ہے۔

    ’’کنگ پوش۔‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کنگ پوش کے کیا معنی ہیں؟‘‘

    ’’کنگ پوش یعنی کیسر کا پھول۔‘‘

    اور اسے ایسی جگہ دیکھ کر مجھے فوراً خیال آیا۔۔۔اور سب پھول بہار میں کھِلتے ہیں۔ مگر کیسر خزاں میں کھلتا ہے!

    میں نے محسوس کیا کہ میرے کانوں میں وہی گیت گونج رہا ہے جو میں نے پامپور کے کھیت میں سنا تھا،

    یار گو میے پامپور وتے

    کنگ پوشو رٹ نال متے

    سوچھم تتے بچھس یتے

    بار صائیبو بو جتم زار!

    میں سوچنے لگا کہ یہی خیال پیچھے میری بیوی کو نہ آ رہا ہو۔ ’’میرا محبوب پامپور کی طرف چلا گیا اور وہاں کیسر کے پھول اس سے ہم آغوش ہو گئے۔ وہ وہاں ہے اور میں یہاں۔ او خدا! میری آرزو سن!

    کنگ پوش بہت خوش دکھائی دیتی تھی۔ اس کے چہرے پر مسرت کی لال لال دھاریاں ایک جال سا بن رہی تھیں۔ رات کا پہلا آدمی اس کے ہاں آیا تھا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ میں اسے روپیہ ہی نہ دوں گا، بلکہ چنار کا ایک سبز پتّا بھی دُوں گا۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اُسے اپنی محبت بھی دے دی ہے۔

    اور کنگ پوش لکڑی کے بنے چنار کے پتے پر الائچی اور بادام کی گِریاں رکھ کر لے آئی۔ میں نے ایک گری اٹھالی۔

    ’’شکریہ!‘‘

    ’’الائچی نہ لوگے؟‘‘

    ’’الائچی تو میں کھا چکا ہوں۔‘‘

    کانگڑی میں کوئلے دہک رہے تھے۔۔۔اس کے گالوں کی طرح۔۔۔! کنگ پوش نے یہ کانگڑی میری طرف سرکا دی۔

    ’’شکریہ!‘‘

    کتنے قریب تھے اس کے گال۔۔۔کیسر اور اشا کی لالی سے کہیں سندر۔ کالے ریشمی بال۔۔۔راتوں کے ان گنت سائے چھپائے ہوئے۔

    کنگ پوش الھڑ تو نہ تھی۔ ہاں، شرمیلی ضرور تھی۔ بجلی کی روشنی میں اس کا لاجوردی پھرن اسے زیب دے رہا تھا۔

    بالا خانے کی زبان چند رسمی فقروں تک محدود رہتی ہے۔ میں اس سے واقف نہ تھا۔ شکوہ، شکریہ اور احسان کے جھٹ جھٹ بدلتے رنگ میں کنگ پوش کی آنکھوں میں کیسے دیکھتا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا۔ قہقہہ کیسے لگاتا۔۔۔ایسا قہقہہ جو کسی پہاڑی چشمے کی آواز پیدا کرتا!

    کنگ پوش نے لکڑی کا بنا ہوا پتا جس پر بادام کی گِریاں اور الائچیاں بدستور پڑی تھیں، میری طرف بڑھایا اور یوں میں نے خاموشی سے ایک الائچی اٹھا کر منہ میں ڈالی، وہ میری طرف دیکھنے لگی۔ سچ مچ وہ کیسر کا پھول تھی۔

    میں مسکرایا۔ وہ بھی مسکرائی۔ میں شاید ایک ناگ رائے تھا اور وہ ایک ہیمال اور شاید کشمیر کی پرانی پریم کہانی ایک بار پھر دہرائی جانے والی تھی۔ مگر میں نے سنبھل کر کہا۔ ’’میں تو گیت جمع کیا کرتا ہوں۔‘‘

    ’’گیت۔۔۔؟ کیسے گیت؟‘‘

    ’’گاؤں کے گیت۔‘‘

    ’’گیت۔۔۔! گیت۔۔۔! اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی دلہن کا بھڑکیلا لباس میری آنکھوں کے سامنے میلا ہو گیا ہے۔

    اس نے اپنا تھکا ہوا بازو اٹھایا اور کانپتی انگلی سے سامنے کے مکان کی طرف اشارہ کیا، جہاں گھنگرو بج رہے تھے اور روشنی جھلملا رہی تھی۔ ’’جاؤ اس طرح چلے جاؤ۔ ادھر گیت بھی بکتے ہیں اور۔۔۔اور۔۔۔‘‘

    اس کے لہجے میں کھیتوں کی گنگناہٹ تھی اور میں ان کھیتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، جہاں مٹی کیسر پیدا کرتی ہے۔

    اور سب پھول بہار میں کھلتے ہیں، مگر کیسر خزاں میں کھلتا ہے۔

    کیا یہ دھرتی کبھی اتنی بانجھ ہو جائےگی کہ کیسر اگنا بند ہو جائے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے