Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لال دھرتی

دیوندر ستیارتھی

لال دھرتی

دیوندر ستیارتھی

MORE BYدیوندر ستیارتھی

    کہانی کی کہانی

    ہندو سماج میں عورتوں کے حیض کے ایام کو کسی بیماری کی طرح سمجھا جاتا ہے اور ان ایام میں انھیں گھر کے دیگر افراد سے الگ رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے ہندوستانی سماج کی کہانی ہے جو حیض کو بیماری نہیں بلکہ نیک شگن مانتا ہے۔ ایک ایسے ہی جنوبی ہند کے ہندو خاندان کی کہانی ہے جس کی دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی کو پہلی بار ماہواری آنے پر پورا گھر کس طرح جشن مناتا ہے، یہ جاننے کے لیے کہانی کا مطالعہ ضروری ہے۔

    کوئی رنگ مظلوم نگاہوں کی طرح خاموش اور فریادی ہوتا ہے۔ کوئی رنگ خوبصورتی کی طرح کچھ کہتا ہوا اور داد طلب دکھائی دیتا ہے۔ کوئی رنگ مچلتا ہوا ہمیں کسی ضدی بچے کی یاد دِلا جاتا ہے اور کسی کو دیکھ کر غنودگی سی چھا جاتی ہے۔۔۔لاری کے ڈرائیور نے دریا پار کرتے ہوئے کہا، ’’اب ہم آندھردیش میں داخل ہو رہے ہیں، بابوجی!‘‘ میں نے چاروں طرف پھیلی ہوئی سرخ زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اندھردیش کی سرخ زمین کیا کہہ رہی ہے؟‘‘

    آنکھیں میچ کر میں نے اپنے دل میں جھانکا۔ وہاں سبز رنگ لہلہا رہا تھا۔ اپنے دماغ سے اس رنگ کا مطلب سمجھنے کی میں نے چنداں ضرورت نہ سمجھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر سرخ زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیا کہ یہ رنگ بہت بلوان ہے اور میرا اپنا سبز رنگ اِس کے سامنے ٹک نہ سکےگا۔

    ڈرائیور نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ایسا نظر آتا تھا کہ اس نے سرخ زمین کے بھید خود اس کی زبانی سن لیے ہیں اور اب اس کے لیے یہ مشکل ہورہا ہے کہ انھیں چھپا کر رکھ سکے۔

    لاری بھاگی جارہی تھی۔ سرخ دھول اڑ کر ڈرائیور کے گالوں پر اپنا رنگ چڑھا چُکی تھی۔ میں نے اپنے گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ یہ دھول وہاں بھی آجمی تھی۔ میں نے سوچا کہ میرے چہرے کی میل خوری زمین پر سرخ رنگ چڑ ھ گیا ہوگا اور یہ بہت برا تو نہ لگتا ہوگا۔

    ’’پہلے یہ سارا ضلع بہار اڑیسہ میں تھا بابوجی!‘‘

    ’’اور اب؟‘‘

    ’’اب نقشہ بدل گیا ہے، بابوجی!‘‘

    ’’نقشہ بدل گیا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں، جب سے اڑیسہ الگ صوبہ بن گیا ہے۔ اِس ضلعے کے تیلگو بولنے والے حصے آندھردیش کو مِل گئے ہیں۔‘‘

    ’’بہت خوب۔‘‘

    ’’لیکن ہم خوش نہیں ہیں بابوجی! گورنمنٹ نے ابھی تک آندھردیش کو الگ صوبہ بنانا منظور نہیں کیا۔‘‘

    ’’مگر کانگریس تو کبھی کی یہ قرارداد پاس کر چکی ہے کہ زبان کی اہمیت کو قبول کیا جائے۔ ہر بڑی زبان کا اپنا صوبہ ہو۔ تاکہ ہر زبان کے ادب کی پوری پوری پرورش کی جاسکے، ہر تمدن اپنے ماحول میں آزاد ہوکر نشوونما پا سکے۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔کانگریس نے تو یہی کہا ہے کہ آندھردیش کا الگ صوبہ بنا دیا جائے مگر گورنمنٹ نہیں مانتی۔‘‘

    ’’گورنمنٹ کیوں نہیں مانتی؟ مدراس میں تو اب کانگریس منسٹری قائم ہو چکی ہے اور اس کے پردھان شری راجگوپال آچاریہ بڑے زبردست آدمی ہیں۔ وہ یہ کام ضرور کر سکتے ہیں۔‘‘

    ’’مگر اس کا حکم تو لنڈن سے آنا چاہیے، بابوجی!‘‘

    ’’لنڈن سے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔اور اگر یہ حکم نہ آیا تو ہم بڑی سے بڑی قربانی دیں گے، اپنا لہو بہانے سے بھی گریز نہ کریں گے۔‘‘

    ’’لہو بہا دوگے اپنا؟ پہلے ہی یہ زمین کیا کم سرخ ہے؟‘‘

    ڈرائیور نے ایک بار پھرمعنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نیا رنگ جھانک رہا تھا۔ وہ نیا آدمی معلوم ہوتا تھا۔

    زمین سرخ تھی۔ کبھی گہرا بادامی رنگ زور پکڑ لیتا۔ پھر یہ سیندوری بن جاتا۔۔۔سیندوری رنگ گلناری میں تبدیل ہو جاتا۔۔۔

    سرخ رنگ مجھے جھنجھوڑ رہا تھا۔ میرے لہو کی روانی تیز ہو چلی تھی۔ کئی بڑے چھوٹے پُلوں اور ننھی ننھی پلیوں کو پھاندتے ہوئے لاری وِجے نگرم کے قریب جا پہنچی۔ مندروں کے بڑے بڑے کلس دکھائی دینے لگے۔ اس بھاگا دوڑی میں ہمیں وجے نگرم اپنی طرف بھاگتا ہوا نظر آرہا تھا۔ گویا ہماری لاری ساکن تھی۔

    قصبے میں داخل ہوتے ہی سڑک تربینی کی طرح تین طرف دوڑی جاتی تھی۔ دو سڑکوں کے سنگم پر بھیم راؤ کا مکان تھا۔ ڈرائیور انھیں پہچانتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے مجھے اتارتے ہوئے اس نے دوست نواز آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ’’آندھردیش کی سُرخ زمین کیا کہہ رہی ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا۔ وہ مسکرایا۔ لاری آگے بڑھ گئی۔

    میں نے آواز دی۔ بھیم راؤ باہر نکلے۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی تھے۔ چہرے پر سیتلا مائی کا آٹو گراف نظر آ رہا تھا۔۔۔چیچک کے بڑے بڑے داغ! تو ان کی طرف دھیان گیا تو میں بڑی مشکل سے ہنسی کو روک سکا۔ ہمارے اسکول میں تو ایسا ہیڈماسٹر کبھی رُعب قایم نہ رکھ سکتا۔

    تعارفی چٹھی کو پڑھتے ہی وہ مجھے اندر لے گئے۔ بولے، ’’آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس غریب کے ہاں چلے آئے۔ اس چٹھی کی بھی کچھ ضرورت نہ تھی۔‘‘

    ’’آندھردیش کی بہت تعریف سُنی تھی۔‘‘ میں نے مسکراکر کہا، ’’بہت دنوں سے ادھر آنا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’آپ شوق سے رہیے۔‘‘

    مجھے ایک تنگ کمرہ مل گیا۔ فرش پر سرخ قالین بچھا ہوا تھا۔ ننگے پان لینے چلنے سے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا کہ آندھردیش کی سرخ زمین میرے پیروں سے چھو رہی ہے۔ اندر سے کمرے دروازہ بند کرکے کبھی کبھی میں اس قالین پر لیٹ جاتا اور دھیان سے اپنے دل کی دھڑکنیں سننے لگتا۔ اچھا شغل تھا۔ سُرخ رنگ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔؟ بار بار یہ سوال زبان تک آتا۔ مگر ہونٹ بند رہتے۔

    بھیم راؤ کے مکان پر کانگریسی جھنڈا لہرارہا تھا۔۔۔سبز، سفید اور سرخ۔۔۔۔اس ترنگے جھنڈے کا مفہوم میرے ذہن میں اجاگر ہو اٹھتا۔ دِل ہی تو تھا۔ بیچ بیچ میں یہ کہنے لگتا کہ اس جھنڈے کا سرخ رنگ آندھردیش کی ترجمانی کر رہا ہے اور یہ خیال آتے ہی مجھے ایک ناقابلِ بیان مسرت محسوس ہوتی۔ جہاں سفید رنگ ختم ہوکر سرخ رنگ شروع ہوتا تھا۔ وہیں میری نگاہ جم جاتی اور اس نوجوان لاری ڈرائیور کے الفاظ میرے کانوں میں گونج اٹھتے، ’’اب ہم آندھردیش میں داخل ہو رہے ہیں، بابوجی!‘‘

    میرے کمرے میں بڑا مختصر سا فرنیچر تھا۔ ایک طرف ایک ٹائلٹ میز پڑا تھا۔ دو کرسیاں، ایک تِپائی اور ایک طرف ایک تخت پڑا تھا جس پر مجھے سونا ہوتا تھا۔ بستر پر دن کے وقت کھادی کی دودھیا سفید چادر بچھا دی جاتی تھی۔ اب سوچتا ہوں کہ اس ٹائلٹ میز کا گول آئینہ وہاں نہ ہوتا تو وہ چند ہفتے اتنے دلچسپ نہ ہو پاتے۔ میرے جذبات کا رنگ پکی ہوئی اینٹوں کی طرح سرخ ہو چلا تھا۔ یہ رنگ میرے چہرے پر بھی تھرک اٹھتا۔ اس کے لیے میں آئینے کا ممنون تھا۔

    میرے کمرے کی دائیں کھڑکی لان کی طرف کھُلتی تھی۔ وہاں سبز گھاس اونگھتی ہوئی نظر آتی۔ پانی نہ ملنے پر یہ گھاس پیلی ہو سکتی تھی، سرخ نہیں۔

    دن چڑھتا اور پتہ ہی نہ چلتا کہ کیسے بِیت گیا۔ وِجے نگرم میرے لیے نیا تھا۔ ہر آنکھ میں کوئی نہ کوئی صدیوں کا جمع شدہ رنگ تھرک اٹھتا۔ اس سے پہلے کہیں ماضی اور حال کو یوں بغل گیر ہوتے نہ دیکھا تھا۔ رات ختم ہوتی تو صبح، سورج کا تمتماتا ہوا تلک لگائے آ حاضر ہوتی۔ اسے دیکھ کر مجھے کرشنا وینی کی پیشانی کا ’’بوٹو‘‘ یاد آ جاتا۔

    پیچھے سے آکر کرشنا وینی میری آنکھیں بند کرلیتی۔ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور یونہی وہ پرے ہٹتی، میری آنکھیں اس کی پیشانی کی طرف لپکتیں۔ کنکم کا سرخ ’’بوٹو‘‘ پانچ کینڈل کی بجائے پچیس کینڈل کا برقی قمقمہ بن کر اس کی پیشانی کو روشن کرتا دکھائی دیتا۔ کوشش کرنے پر بھی میں کبھی اسے ایسی حالت میں نہ دیکھ سکا جب کہ غسل کے بعد یہ ’’بوٹو‘‘ دھل کر اتر چکا ہو۔ پھر میں نے یہ کوشش ہی چھوڑ دی۔ بس ٹھیک ہے۔ یہ قمقمہ ہمیشہ روشن رہے، دن ہو چاہے رات۔۔۔کنکم کا سرخ بوٹو!

    ان پورنا اور کرشنا وینی دونوں بہنیں تھیں۔ وینی، پورنا سے دو سال چھوٹی تھی۔ دونوں گھر پر پڑھتی تھیں۔ بڑی بہن سنگیت کی ابتدائی منزلوں کو طے کرکے اس کی گہرائیوں میں پہنچ چکی تھی۔ چھوٹی بہن صرف بڑی بہن کی وینا کو دیکھ چھوڑتی تھی، اس کا گانا سن لیتی تھی اور اگر اس نغمہ نے اس کی فطانت کا کوئی سویا ہوا رنگ جگا دیا۔ تو اُس نے تھوڑی بہت تُک بندی کر لی، نہیں تو بس کون وینا، کون ان پورنا وہ اپنی کتابوں میں الجھی رہتی۔

    بھیم راؤ اپنی بیٹیوں کی تعریف میرے سامنے بھی لے بیٹھتے۔ دونوں بہنیں مسکراتیں۔ دونوں کے سر بوٹو میرے ذہن میں تیرنے لگتے۔ مجھے محسوس ہوتا کہ میرے منہ میں پان کی پیک اور بھی سرخ ہو گئی ہے۔ میرے جذبات چھا لیا کے ننھے، باریک ریزے بن جاتے جو پان چباتے وقت پھُس سے دانتوں کی درزوں میں سے گزر جاتے ہیں۔

    ’’یہ تو اپنے آدمی ہیں، بیٹیو!‘‘ بھیم راؤ کہتے، ’’اِن سے خوب باتیں کرو، اِن کی کہانیاں سنو۔ دیس دیس کا پانی پی رکھا ہے انھوں نے۔۔۔ہاں، دیس دیس کا۔‘‘ اپنی یہ تعریف سن کر میرے ہر مسام کے کان لگ جاتے، پٹھوں میں ایک عجیب سا تناؤ پیدا ہو جاتا، ذہن میں ایک گدگدی سی ہونے لگتی۔ یہ آندھردیش کی سرخ زمین کا خلوص تھا۔۔۔ایک ترقی پسند خلوص!

    ’’یہ کرشنا وینی تو نری گلہری ہے، مسٹر راؤ!‘‘ ایک دن میں نے دونوں بہنوں کی حاضری میں کہا، ’’اور یہ اچھا ہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’خوب خوب! ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر، نچلی تو بیٹھ ہی نہیں سکتی۔ گلہری ہی تو ہے۔‘‘

    کرشنا وینی ہنسی نہیں۔ آخر اس میں گلہری کی بات ہی کیا ہے؟ شاید ہمارے معزز مہمان کے دیس میں کنیائیں گلہریاں نہیں ہوتیں۔ وہ لجا (حیا) سے سمٹی رہتی ہوں گی۔ لیکن دیس دیس میں، دھرتی دھرتی میں فرق ہوتا ہے نا۔

    بھیم راؤ بولے، ’’یہ آندھردیش ہے۔۔۔‘‘

    ان پورنا نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’اور یہاں کی کنّیائیں سوتنتر کو یتائیں بن گئی ہیں۔۔۔‘‘

    کرشنا وینی کی آنکھوں میں ایک بجلی سی چمک گئی۔ بولی، ’’جی ہاں، سوتنتر کویتائیں۔۔۔‘‘

    اور میں نے محسوس کیا کہ کم از کم کرشنا وینی ضرور ایک سوتنتر کویتا ہے، نہ بحر کی حاجت مند، نہ قافیے کی پابند۔

    ان پورنا نے اپنے بازو کرشنا وینی کے بازوؤں میں ڈال دیے اور بولی، ’’وینی، چلو آج وشیشری کے ہاں چلیں۔ کل تو آئی تھی ادھر۔ آج اس نے شکل ہی نہیں دکھائی۔‘‘

    کرشنا وینی نے اپنا چھوٹا سا خوبصورت سر ہلا دیا اور پنکھے کی ڈنڈی کو قالین پر پھیرتے ہوئے بولی، ’’ان پورنا، میں باہر نہیں جا سکتی۔‘‘

    ’’کیوں نہیں جا سکتی باہر؟‘‘ ان پورنا نے حیران ہوکر پوچھا۔

    وینی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ان پورنا کے گلے میں بازو ڈال دیے۔ بولی، ’’دیدی۔۔۔‘‘ اور اِس کے بعد اس کے کان میں کچھ کہہ گئی۔ ان پورنا اچھل پڑی۔ بولی،

    ’’سچ؟‘‘

    وِینی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ میرا دل زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑایا۔ وینی اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور غسل خانے کی طرف چل دی۔ ان پورنا نے تالی بجائی اور گھڑی کی طرف دیکھا۔ اس وقت صبح کے دس بجے تھے۔ وہ بھی اپنی کھڑاؤں پر گھوم گئی اور سامنے رسوئی کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی جہاں اماں بیٹھی زمیں قند چھیل رہی تھی۔

    ان پورنا نے کہا، ’’امّاں!‘‘

    اماں نے سر ہلایا۔۔۔ان پورنا اس کے قریب پہنچ کر جھک گئی اور اس کے کان میں کچھ کہہ دیا۔ اماں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس کے گالوں پر ایک تمتماتی ہوئی سرخی نمودار ہوئی۔ پھر ایک مسکراہٹ ناچتی ہوئی اس کے چوڑے چکلے چہرے پر چوگان کھیلنے لگی۔ امّاں نے چاقو اور زمیں قند کو ایک طرف رکھ دیا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ بولی،

    ’’پنتلو گارو (پنڈت جی۔۔۔!)‘‘

    میرے لیے یہ سب ایک پہیلی سے بڑھ کر تھا۔ میرا خیال تھا کہ بھیم راؤ بھی اِس سے کورے ہیں۔ وہ اوپر اپنی بیوی کے پاس چلے گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ریل گاڑی میں بیٹھا ہوں، جو دندناتی ہوئی ایک سرنگ میں سے گزر رہی ہے، گھپ اندھیرا چھا گیا ہے۔۔۔کوئی عورتوں کی بات ہوگی، یہ سوچتے ہی سرنگ ختم ہو گئی۔

    کرشنا وینی نے پہلے کبھی وہ سبز رنگ کی۔۔۔؟ گھگھری نہ پہنی تھی۔ گھگھری کا رنگ گہرا سبز تھا اور انگیا کا پھیکا سبز۔ اس کی آنکھوں کی جھیلوں میں بھی سبز رنگ کا عکس پڑ رہا تھا۔ یہ رنگ کیا کہہ رہا ہے، یہ سوال مجھے اس سے ضرور پوچھنا چاہیے تھا۔ اس کے لہو میں کس نے سونا پگھلا کر ڈال دیا تھا؟ یہ سونا ہی تو تھا جو اس کے گالوں پر دمک رہا تھا۔ یہ سونا کیا کہہ رہا تھا، مانگ کیا تھی؟ پوری پوری پگ ڈنڈی تھی۔ کیا مجال کوئی لٹ پھسل پڑے، کوئی بال سرک جائے۔ کنگھی چوٹی کا فن تو اپنے کمال کو پہنچے گا ہی جوانی کے ساتھ ساتھ۔ ناک کی سیدھ رکھ کر سرکے بیچو ں بیچ مانگ کاڑھنا ان پورنا کو تو سرے سے ناپسند تھا۔ مگر نہیں کرشنا وینی کی سیدھی مانگ ان پورنا کی ٹیڑھی مانگ سے کہیں سندر لگتی تھی۔ اُس وقت دونوں بہنیں میرے قریب بیٹھی ہوتیں تو میں اپنا ووٹ چھوٹی بہن کے حق ہی میں دیتا۔

    کوئی ایک گھنٹہ بعد، پورے گیارہ بجے دور سے وینا کے سر سنائی دیے۔ صرف ان پورنا ہی کی وینا تو یہ رنگ نہ جما سکتی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ محلے بھر کی وینا بجانے والی سہیلیاں سر میں سر ملا کر کوئی راگ سادھ رہی ہوں۔ اِتنی بھی کیا خوشی تھی؟

    بہت عورتیں اور لڑکیاں جن کا ٹھٹھا اور ہنسی مذاق ہوا کو چیرے ڈالتا تھا، آخر کس تقریب پر بلائی گئی تھیں؟ مجھ سے نہ رہا گیا۔ بائیں کھڑکی کا پردہ کنارے سے ذرا سا سرکا کر میں نے آنگن کی طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کرشنا وینی سامنے والے کمرے میں پیلی دھوتی پہنے بیٹھی ہے اور دروازے کے قریب آرتی اتاری جا رہی ہے۔ تھال میں کنکم نظر آ رہا تھا۔ لیکن اس میں کوئی چومکھا دِیا نہیں جلایا گیا تھا۔ کرشنا وینی نے آنکھیں جھکا رکھی تھیں۔ اتنی بھی کیا لاج تھی؟ یا کیا یہ کوئی دیوی بننے کا اپائے تھا؟

    کرشنا وینی کی ماں کو بدھائیاں مل رہی تھیں۔ ان پورنا کی وینا سب سے زیادہ چمک رہی تھی۔ رنگارنگ کی ساڑھیاں میرے ذہن میں خلط ملط ہو رہی تھیں۔ ابھی ایک بچی رونے لگی، اسے کیلا مل گیا۔ ادھر ایک لڑکی اپنے چھوٹے بھائی کے منہ میں گُڑ اور تلوں کا لڈّو ڈالنے لگی کہ ایک لڑکا اچک کر اِسے چھین لے گیا۔ کچھ پروا نہیں، لڈو کی کیا کمی ہے؟ بھائی خوش رہے، جیتا رہے۔۔۔میری فطرت کے ایک پراسرار کونے میں کوئی تان سین جاگ اٹھا جسے ان پورنا نے اپنے گیت کی لہروں پر اٹھا لیا۔ یہ کیسا گیت تھا؟ شاید یہ دودھ اور شہد کا گیت تھا۔ دودھ دوہتے وقت جو آواز پیدا ہوتی ہے، کچھ ایسی ہی آواز ان پورنا کی وینا پر پیدا ہوئی تھی۔

    ’’اب تم گاؤ وشیشری!‘‘

    ’’تم سے اچھا تو نہ گاسکوں گی ان پورنا! اچھا بتاؤ کون سا گیت گاؤں؟‘‘

    ’’وہی جو تم نے اس روز گایا تھا۔ جب میں نے وینی کی طرح پیلی دھوتی پہنی تھی اور اسی طرح، اسی آنگنی میں۔۔۔برکت والے آنگن میں، عورتیں اور لڑکیاں جمع ہوئی تھیں۔۔۔وہی شہد کی مکھیوں کا گیت۔‘‘

    وشیشری نے گانا شروع کیا۔ آندھردیش کی شہد کی مکھیاں کیا کہہ رہی ہیں۔ یہ سوال میرے ذہن کی چاردیواری ہی میں بند رہا۔ وِینا کے سر آگے بڑھتے گئے، اونچے اٹھتے گئے۔ یہ کوئی معمولی گیت نہ تھا، صدیوں کی نسوانیت کا جذبۂ برتری تھا۔ ابھی تو دوپہر تھی۔ لیکن ہر عورت اور لڑکی کی پیشانی پر ایک ایک چاند نظر آرہا تھا۔۔۔کنکم کے سرخ بوٹو!

    کرشنا وینی کی آنکھیں اوپر نہ اٹھیں۔ کیا یہ وہی لڑکی تھی جسے اب تک کبھی اپنی چوکڑی نہ بھولی تھی؟ اس کے آویزے ساکن تھے۔ ان کے نگینے چپ تھے لاج اور دوشیزگی پہلے تو کبھی یوں توام بہنوں کے روپ میں نظر نہ آئی تھیں۔ مگر وہ کوئی کبوتری تو نہ تھی جسے پہلی بار انڈے سینے سے سابقہ پڑا ہو۔

    ٹھٹھا اور ہنسی مذاق خاموشی میں بدلتے گئے۔ گیت بھی کافی ہوچکے تھے۔ وِیناؤں کے تار تھک گئے تھے۔ کرشنا وِینی کی ماں اور بہن نے کنکم کی تھالیاں اٹھا کر ہر کسی کی پیشانی پر پھر سے نئے بوٹو لگا دیے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے لگائے ہوئے بوٹو ہی جلی کر دیے گئے۔ ایسا دن تو بہت مبارک تھا۔ ہر کسی کو پان پیش کیا گیا، ناریل اور کیلے تقسیم کیے گئے اور یوں سب کو وداع کیا گیا۔ صدیوں سے یونہی ہوتا آیا تھا۔ کنکم کے سرخ بوٹو اَن گِنت نسلوں سے قائم رہے تھے۔ ان کا رنگ کبھی پھیکا نہیں پڑ سکتا تھا۔

    دوسرے روز یہ محفل شام کے قریب جمی۔ پھر تیسرے روز بھی شام ہی کو۔ چوتھے دن شام کی بجائے صبح ہی کو رونق شروع ہو گئی۔ اس اثنا میں مجھے پتہ چل چکا تھا کہ کرشنا وینی رجسولا (حائضہ) ہو گئی ہے۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی۔ کیونکہ اس سے پہلے کہیں کوئی ایسی رسم میرے دیکھے میں نہ آئی تھی۔

    بھیم راؤ کی باتوں میں میناکاری کا رنگ پیدا ہو گیا تھا بولے،

    ’’جھوٹی شرم میں آندھردیش کوئی وشواس نہیں رکھتا۔ سچ کہتا ہوں مجھے تو حیرانی ہے یہ سن کر کہ آپ کے ہاں ایسی کوئی رسم منائی ہی نہیں جاتی۔‘‘

    ’’جی ہاں، حیرانی تو ہونی ہی چاہیے۔‘‘ میں نے بڑھاوا دیا۔

    ’’کتنا فرق ہوتا ہے دھرتی دھرتی کا۔‘‘

    ’’یہ تو ظاہر ہے۔‘‘

    ’’رجسولا ہونے پر تو گویا کنیا کو قدرت کا آشیرباد ملتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کا مطمح نظر بالکل ٹھیک ہے، مسٹر راؤ اور ایسے موقع پر خوشی منانے سے ہرگز نہ چوکنا چاہیے۔‘‘

    ’’ہمارے یہ گیت آپ کو کیسے لگتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ سب گیت وینا کے یہ سُر آندھردیش کے ابدی بول ہیں۔‘‘

    ’’آندھردیش کے ابدی بول! ہماری یہ رسم بہت پُرانی ہے۔‘‘

    ’’ضرور پرانی ہوگی۔‘‘

    ’’پہلے روز جب کنیا کو اپنے رجسولا ہونے کا پتہ چلتا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح فوراً ماں تک یہ خبر پہنچا دیتی ہے۔ تین دن تک اسے ہلدی کے پانی میں رنگی ہوئی دھوتی پہن کر ایک الگ کمرے میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ کوئی اسے چھُوئے گا نہیں۔ اس کی آرتی بھی دور ہی سے اتاری جاتی ہے۔۔۔

    ’’آرتی میں ہمارے ہاں ہمیشہ جلتا ہوا دیا۔ چومکھا دیا نہ بھی ہو تو پروا نہیں، ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مگر آپ کے ہاں۔۔۔‘‘

    ’’فرق تو ہوتا ہی ہے دھرتی دھرتی کا ہمارے ہاں بس کنکم ہی سب سے ضروری مان لیا گیا ہے آرتی کے لیے۔‘‘

    ’’سرخ کنکم؟‘‘

    ’’کنکم ہمیشہ سرخ ہی ہوتا ہے۔‘‘

    میں نے مسکراکر آنکھیں جھکا لیں۔ بھیم راؤ نے اپنی بات جاری رکھی، ’’کھانے میں بھی رجسولا کو کافی پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ سرخ مرچ اور گرم مصالحے اس کے لیے منع ہیں۔ بیٹھے بٹھائے اسے کھچڑی، دودھ اور کچھ پھل مِل جاتے ہیں۔ کھائے اور پورا آرام کرے۔ یہ تو ضروری ہے۔‘‘

    ’’تین دن کے بعد کیا ہوتا ہے!‘‘ میں نے پھر بڑھاوا دیا۔

    ’’کنیا اشنان کرکے پوتر ہو جاتی ہے۔ اس کی وہ پیلی دھوتی گھر کی دھوبن کو بطور تحفے کے دے دی جاتی ہے۔ اب وہ ماتا پتا کی حیثیت کے مطابق نئے وستر پہن کر بیٹھتی ہے اور یہ چوتھی، یعنی آخری، آرتی اتارتے وقت اُس کی پیشانی پر بوٹو لگایا جاتا ہے۔۔۔‘‘

    ’’بوٹوکے لیے کنکم نہ ہو تو آندھردیش کا کام ہی نہ چل سکے، مسٹر راؤ!‘‘

    ’’کنکم؟ یہ تو بہت ضروری ہے۔‘‘

    ’’بلکہ یہ کہیے کہ آندھردیش اور سرخ کنکم دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔‘‘

    ’’بس اب آپ نے ٹھیک سمجھ لی ہے بات۔‘‘

    ’’میرا رجحان شروع سے سبز رنگ کی طرف رہا ہے، مسٹر راؤ!‘‘

    ’’سبزرنگ کی طرف؟ لیکن سُرخ رنگ نرالی زبان میں بولتا ہے۔۔۔کنکم کا پیغام آندھردیش صدیوں سے سنتا آیا ہے۔‘‘

    ’’رنگوں کا مطالعہ میں نے بھی بہت کر رکھا ہے، مسٹر راؤ! سبز رنگ کی اپنی جگہ ہے۔ یہ شانتی کا رنگ ہے۔ ہر سبز چیز امن و سکون کا اشارہ کرتی ہے۔ قدرت کو شاید یہی رنگ سب سے زیادہ پسند ہے۔ جب تک دھرتی بنجر نہیں ہو جاتی، اس کی کوکھ سے اس رنگ کے کارنامے ہمیشہ ہمارا دھیان کھینچتے رہیں گے۔ کانگریس نے بہت اچھا کیا کہ اپنے جھنڈے پر اس رنگ کو اس کی جگہ دینے کی بات فراموش نہ کی اور سفید رنگ؟ سفید رنگ میرے خیال میں پوترتا (پاکیزگی) کا رنگ ہے۔ ہمارے جھنڈے پر تبھی یہ رنگ بھی موجود ہے اور سرخ رنگ؟ میں سمجھتا ہوں، یہ خون کا رنگ ہے۔۔۔اچھے تندرست خون کا رنگ۔۔۔تازہ مضبوط زندگی کا رنگ۔۔۔سبز، سفید، سرخ۔۔۔خوب رنگ چنے ہیں کانگریس نے۔ یہ جھنڈا بنانے کا کام آندھردیش کے سپرد کر دیا جاتا تو سارے جھنڈے پر کنکم ہی کنکم پھیل جاتا۔‘‘

    ’’لیکن یاد رہے کہ سرخ رنگ کا مفہوم سمجھنے میں آندھردیش نے خوب قدم بڑھایا ہے۔۔۔انگریس کے بائیں ہاتھ نے ادھر جو زور پکڑا ہے۔ وہ بھی ظاہر ہے۔ پچھلے دنوں جب شری سبھاش چندر بوس کانگریس پردھان کے انتخاب میں دوبارہ کھڑے ہوئے تو آندھردیش کے ووٹ بہت بھاری تعداد میں اُنھیں کو ملے تھے، حالانکہ ان کے مقابلے پر کھڑے ہونے والے ڈاکٹر پٹا بھی سیتا رامیا آندھردیش کے اپنے آدمی ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں اِن باتوں میں لحاظ داری تو ٹھیک نہیں ہوتی۔ سوشلزم اور ہندوستان کی آزادی ہمارے بڑے آدرش ہیں اور آندھردیش کو الگ صوبے کا وقار حاصل ہو جائے، اس کے لیے ہم اپنی جانیں لڑانے پر آمادہ ہیں۔‘‘

    ’’پنتلو گارو (پنڈت جی)۔‘‘ کسی نے باہر سے آواز دی۔

    بھیم راؤ باہر چلے گئے۔ میں کھڑکی میں سے لان کی طرف دیکھنے لگا۔ یوں محسوس ہوا کہ کسی کے غیرمرئی ہاتھ میری پیشانی پر کنکم کا بوٹو لگا رہے ہیں۔ میں جھٹ وہاں سے ہٹ گیا اور کمرے کو اندر سے بند کرکے میں نے بائیں کھڑکی کا پردہ ہولے ہولے ایک کونے سے سرکایا۔ سامنے بڑی خوش نما مجلس نظر آرہی تھی۔ کرشنا وینی نے ہلکے نیلے انگیا کے ساتھ گہری نیلی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ آویزوں کے نگینے سردئی تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے ذہن کے بچے کُھچے سبزرنگ نے اِن نگینوں میں پناہ پالی ہے۔

    ان پورنا نے وینا پر ملہار کا اَلاپ شروع کیا۔ اس کی انگلیاں بہت ہمک ہمک کر چل رہی تھیں۔ مگر اس راگ سے بھی کرشنا وینی کی آنکھیں اوپر نہ اٹھیں۔ ان پورنا آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اور کرشنا وینی، دھرتی کی طرف آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی۔ کس نے چھو دیا تھا اپنے غیرمرئی باغی ہاتھ سے اس کنیا کو۔۔۔؟ ہر رجسولا تو یوں چھوئی موئی بن کر نہ رہ جاتی ہوگی۔۔۔ہلکا نیلا انگیا، گہری نیلی ساڑھی اور آویزوں کے سردئی نگینے۔۔۔باہر سے بیدار مغز ہوا کا جھونکا آرہا تھا۔

    ’’بہت ہو چکی یہ لاج، وینی‘‘ ان پورنا بولی، ’’میں بھی ہوئی تھی رجسولا، تیری طرح۔ میں نے پہلے ہی روز کے بعد سے مسکرانا شروع کر دیا تھا، اوپر، دائیں، بائیں، سامنے، دیکھنا شروع کردیا تھا۔‘‘

    ’’تم بھی ایک ہی ہو مجھے ستانے والی، پورنا!‘‘

    ’’میں تو کبھی نہیں ستاتی کسی کو۔‘‘

    کرشنا وینی کے چہرے پر ہولے ہولے وہی پرانی شوخی آتی گئی۔ اماں نے آگے بڑھ کر کنکم اٹھایا اور اس کے بوٹو کو جلی کر دیا۔

    کرشنا وینی اب کوئی چھوئی موئی نہ تھی۔ ہر چہرے کی طرف اس کی آنکھیں اُٹھ جاتی تھیں۔ کالی جھیلوں میں نہ جانے کتنی لہریں تھرک رہی تھیں۔۔۔کرشنا وینی کے صندلی بازو، جنھیں دیکھ کرتازہ تازہ رندہ کیے جانے کا گمان ہوتا تھا! اوپر اٹھے۔ اس نے سب کو نمسکار کیا۔

    سب عورتیں اور لڑکیاں مسکرائیں، سب کے سرخ بوٹو تازے کنکم سے جلی کر دیے گئے۔ جانے کیا کہہ رہی تھیں کاجل کی لکیریں ہر آنکھ میں۔۔۔؟ پان بنٹے۔۔۔سبزپان جو اپنے سینوں میں سرخ رنگ چھپائے پڑے تھے۔ کیلے بنٹے۔ ناریل بنٹے۔ سب اُٹھ کھڑی ہو گئیں۔۔۔کیا لے کر رنگین تھیں یہ ساڑھیاں؟ کیا لے کے سُر تھی یہ زمین۔۔۔؟ اس کے خط اس کی قوسیں۔۔۔ہونٹ، گال، آنکھیں، سینے! کون فنکار اِن کی تخلیق کرتا تھا؟ کون تھا جو زمین کی ہر بیٹی کو ٹھیک وقت پر رجسولا بنا دیا تھا۔۔۔؟ یہ تو بہت ضروری تھا۔ ان گنت صدیوں سے، سبز، سفید اور سرخ صدیوں سے یہی ہوتا آیا تھا۔

    سب عورتیں چلی گئیں۔ سب لڑکیاں بھی تتربتر ہوکر اپنے اپنے گھر کو بھاگ گئیں۔ اب صرف کرشنا وینی اور ان پورنا رہ گئیں۔ اماں رسوئی میں جا چکی تھی۔

    ’’اچھا پورنا! ایک بات بتاؤگی؟‘‘

    ’’پوچھو پوچھو۔‘‘

    ’’رَجسولا ہوکر بھی میں اتنی کمزور نہیں ہوئی۔ بھلا کیسے؟

    ’’کیسے؟ یہی ہوتا آیا ہے بہن شروع۔۔۔؟ سے میں کون سی کمزور ہو گئی تھی۔۔۔؟ بلکہ رنگ نکھر جاتا ہے اس سے۔۔۔ہر مہینے بہا کرےگا یہ، ہر مہینے!‘‘

    ’’ہر مہینے؟ اتنا لہو بہتے رہنے ہی سے تو ہماری زمین سرخ نہیں ہو گئی؟‘‘

    ’’چپ، وینی! کوئی سن لےگا۔‘‘

    پھر دونوں بہنیں اٹھ کر اندر چلی گئیں۔ میں اپنے سرخ قالین پر لیٹ گیا۔ میری روح کی گہرائیوں سے ایک خیال اٹھا اور باہر سے آنے والی ہوا کے جھونکے سے ٹکرا گیا۔

    میرے ذہن میں کانگریس کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ سبز، سفید اور سرخ۔۔۔اِس جھنڈے کی عمر بہت زیادہ تو نہ تھی۔ مگر یہ رنگ تو پرانے تھے۔۔۔ہمالہ کے ہم عمر رنگ، گنگا، برہم پتر اور گوداوری کے ہم عمر رنگ! ہوگا ان رنگوں کا اپنا اپنا مفہوم۔ مگر میں تو اس مفہوم پر لٹو تھا جو خود ہندوستان نے ان رنگوں کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا۔۔۔اور میری آنکھوں میں وہی لاری پھرنے لگی جس پر سوار ہوکر میں بھیم راؤ کے مکان تک پہنچا تھا۔

    دائیں بائیں، آمنے سامنے، جہاں تک میرے ذہن کی پہنچ تھی، سُرخ زمین لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ایک رجسولا کنیا کی طرح وہ آرام کر رہی تھی۔ وہ وقت مجھے بہت قریب آتا دکھائی دیا جب اس کی کوکھ ہری ہوگی اور کوئی ایسا آدمی پیدا ہوگا جو بہ آواز بلند پکار کر کہہ اٹھےگا۔۔۔ہلوں کی جے۔ اب ان کھیتوں میں غلام نہیں اگیں گے۔ یہ لال دھرتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے