لاٹھی پوجا
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسی بیوہ کی کہانی ہے جو زندگی کے مصائب سے تنہا جوجھ رہی ہوتی ہے۔ اس کا شوہر مشہور لٹھیت تھا، جس کا ایک روز دھوکے سے کسی نے قتل کر دیا۔ اس قتل کا الزام اس کے ہی ایک قریبی چھیدا پر لگایا گیا تھا۔ چھیدا ایک دن اس بیوہ سے ملنے آیا اور اس نے نہ صرف اس کے شوہر کے قاتلوں کو پکڑا، ساتھ ہی اس بیوہ کی ساری خانگی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
ہریا لاٹھی پر ٹیک لگائے آم کے باغ میں کھڑی تھی۔ چار بج چکے تھے۔ مگر اب تک لو چل رہی تھی۔ دھوپ ہریا کے کندنی رنگ کو تپاکر گلابی بنا رہی تھی۔ جسم میں شعلے سے لپٹتے محسوس ہوتے۔ کھیتوں میں سے ایک سیاہی مائل لہر سی اٹھتی اور باغ کی طرف دوڑتی دکھائی دیتی۔ ہوا کہ ان جھونکوں سے باغ کی جھاڑیوں اور سوکھی لمبی گھاس میں پھنسے ہوئے، اٹکے ہوئے خشک پتے کھڑکھڑاتے اور درختوں کے ہرے پتے پھڑپھڑاتے تھے۔ شریر ہوا ہریا کے آنچل کو جھولے کے پینگ دیتی اور ساری کے نچلے حصے کو غبارہ بناتی تھی۔ مگر ہریا ہر بات سے بےخبر لاٹھی پر ٹھڈی رکھے فضا پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔
باغ والی گڑھیا میں اس کی بھینسیں پڑی تھیں۔ گڑھیا میں پانی نام ہی کوتھا۔ مئی کے مہینے میں یو۔پی کے سارے تال تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ یہ گڑھیا ذرا گہری تھی اس لیے اس کے بیچ میں کیچڑ نما پانی گھٹنوں گھٹنوں اونچا اب بھی باقی تھا۔ اسی میں ہریا کی چاروں بھینسیں لیٹی بیٹھی اپنے کو ٹھنڈا کر رہی تھیں۔ گائیں ذرا زیادہ نازک مزاج اور صفائی پسند ہوتی ہیں۔ انھیں کیچڑ میں لت پت ہونا نہیں بھاتا۔ ہریا کی گائیں بھی کچھ دیر تو بھینسوں کو کچھ شک کچھ حقارت سے دیکھتی رہیں، پھر باغ میں جاکر سوکھی گھاس نوچنے لگیں یا درختوں کی آڑ میں بیٹھ کر جگالی کرنے لگیں۔
باغ تھا قلمی آموں کا۔ اب کے فصل اچھی آئی تھی۔ گاؤں کا کھٹک اسے پہلے ہی خرید چکا تھا۔ وہ اپنی چھوٹی سی منڈیا میں بیٹھا ہریا اور اس کے مویشیوں کی حرکتوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اسے ڈر تھا آم سے لدی ہوئی شاخیں کہیں ہریا کو ہاتھ لپکانے پر مائل نہ کردیں۔ یا کوئی گائے گردن بڑھاکر پتیاں کھانے اور پھل گرانے پر تیار نہ ہو جائے۔ لیکن آنکھیں اپنے پھلوں کی نگہبانی کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی دیکھ رہی تھیں۔ وہ تھیں ہوا سے بار بار کھلتی ہوئی گوری گوری پنڈلیاں اور آنچل کے پردے سے نکل کر لہرانے والی کالی کالی ناگنیں! ہریا، کھٹک کے وجود سے بےخبر لاٹھی پر ٹھڈی رکھے کھڑی تھی۔
داہنا ہاتھ تو لاٹھی کو سیدھا رکھنے میں لگا تھا۔ بائیں ہاتھ سے کبھی وہ آنچل برابر کر لیتی، کبھی سرکے اڑتے ہوئے بال کو اور کبھی ساری کے پھولتے ہوئے نچلے حصہ کو پنچا دیتی تھی۔ اس کے جسم میں ایک لہر سی دوڑتی، وہ پھول کی ٹہنی کی طرح ہلتی، جھکتی اور سنبھلتی تھی اور اس کی انگلیاں بھاؤ بتانے والے انداز سے کھلتی، مڑتی اور سمٹتی تھیں۔ مگر یہ سب کچھ ہو رہا تھا بے جانے بوجھے۔ ہریا اپنے خیالات میں غرق بس کھڑی سوچ رہی تھی۔ ہائے! کتنی بدل گئی اس کی دنیا، بیوہ ہوتے ہی! الجھن کی زندگی میں کبھی اسے اپنے مویشی چرانے کے لیے خود نکلنا پڑا تھا۔ بیسیوں آدمی خوش خوش ایسے فرائض مفت انجام دے دیا کرتے تھے۔ لچھن اپنی لاٹھی کے لیے دور دور مشہور تھا۔ ضلع میں کوئی بڑی فوجداری نہیں ہوئی تھی جس میں لچھن شریک نہ ہوا ہو۔ وہ دو مرتبہ اس سلسلے میں پکے گھر بھی ہو آیا تھا۔ بڑے بڑے ٹھاکر اس سے دبتے تھے اور اس سے مددمانگتے تھے۔ وہ جس کی طرف ہو جاتا اس کی جیت یقینی تھی۔ کھیتوں پر قبضہ کرنے، ان میں پانی چڑھانے اور درختوں کے کٹوانے میں ہمیشہ گاؤں میں دوپارٹیاں ہو جاتیں۔ جس کو لچھن کی پشت پناہی حاصل ہوتی وہ ساری زبرستیاں کر لیتا۔ کوئی اس سے نہ بولتا۔
ہریانے اس طاقت اور رعب کا مزہ چار برس اٹھایا تھا۔ خود اپنے گھر میں بھی کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ دس بیگہ کھیت جوت میں تھے۔ ہلواہی، پروائی، نکائی کٹائی، سارے کام مفت میں انجام پا جاتے۔ گیہوں، ارہر، چنا، مٹر، ایکھ سب ہی کچھ اس کے کھیتوں میں ہوتا اور اتنا ہوتا کہ بیچا جاتا۔ زمینداری کے زمانے میں اتنی کسی کی ہمت نہ تھی کہ اس سے کوئی لگان وصول کر لیتا۔ اب جب سے وہ ان کھیتوں کا بھومیدر بن گیا تھا۔ سرکاری لگان تو دینا ہی پڑتا تھا۔ پھر بھی وہ تھا ہی کتنا، پیداوار کے مقابلے میں بہت ہی کم غلہ۔
دس گائیں اور چار بھینسیں تھیں۔ ان کا دودھ، دہی، گھی بیچ کر دو ڈھائی سو ماہوار آ جاتے۔ کھانے والے اور خرچ کرنے والے صرف میاں بیوی۔ دو نفر! اس پر ترکاری مفت آتی تھی۔ اپنے اور آس پاس کے گاؤں والے کو ری ہر فصل کی چیز نذر دے جانا فرض سمجھتے تھے۔ ان کو ڈر تھا اگر ’’بھوگ‘‘ چڑھانے میں ذرا بھی دیر ہوئی تو پورا کھیت چرادیا جائےگا یا اکھاڑ دیا جائےگا۔
یہی وجہ تھی کہ سہاگ کے چار برس میں ہریا سونے میں پیلی بن گئی۔ وہ تو موتیوں میں سفید بھی بن جاتی، مگر دیہاتن تھی، وہ بھی اَن پڑھ اور موتیوں کی قدر تو جوہری ہی جانتا ہے یا بادشاہ۔
بہرحال ان دنوں ہریا خوش تھی، مگن تھی، ہروقت گنگناتی رہتی تھی۔ بس اسے فکر تھی تو دوباتوں کی۔ ایک تو یہ کہ اب تک اس کی گود نہ بھری تھی۔ اس کے لیے وہ کبھی کبھی یاترا کی سوچتی تھی۔ مگر لچھن ہمیشہ ہنس کر ٹال دیتا کاہے کی جلدی ہے۔ یہ بھی ہو رہےگا۔ ہریا البتہ سورج نکلتے وقت آسمان کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھرتی اور اس کے ہونٹ کانپنے لگتے۔ گویا وہ میاں کی آنکھ بچاکر بھگوان سے کہتی ہوتی کہ مجھے میرا چاند بھی دے۔
دوسرا سچ جوہر یا کوگھن کی طرح کھائے جا رہا تھا وہ یہ تھا کہ لچھن کسی طرح پرائے پھٹے میں پاؤں ڈالنے کی عادت چھوڑدے۔ وہ چاہتی وہ ہو اور اس کا شوہر، میٹھی میٹھی باتیں ہوں اور پریم کی چھیڑچاڑ، وہاں کی حالت یہ کہ لچھن دن دن بھر اور اکثر پوری پوری راتیں اپنی جتھ بندی میں پھنسا رہتا۔ ضلع بھر کا خدائی فوجدار بنی پھرتا۔ زیادہ دن نہیں ہوئے۔ ابھی چھ مہینے ادھر کی بات ہے کہ گشائیں پور کے مشہور ’’لٹھیت‘‘ چھیدا کے خلاف لچھن نے دھاوا بول دیا تھا۔ چھیدا اپنے گاؤں کے ایک کوری کے کھیت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ روتا دھوتا فریاد لیے پہنچا لچھن کے پاس۔ پھر کیا تھا۔ ہریا نے لاکھ روکا اور سمجھایا۔ دوسرے گاؤں کی بات ہے، تم کاہے کو بیچ میں پڑتے ہو۔ مگر لچھن کو تو زور آزمائی کا ایک موقع مل گیا تھا۔ وہ پانچ چار چیلوں کو لے کر گشائیں پور پہنچ گیا۔ لاٹھی چلی اور خوف چلی۔ مگر کھیت پر ہل چلا کوری ہی کا۔ چھیدا زخمی ہوکر اسپتال داخل ہو گیا۔ اس فتح نے لچھن کی سرداری پر گویا مہر لگا دی۔ اس کی لاٹھی کی ’’دھاک‘‘ سارے ضلع پر بیٹھ گئی۔ اس خوشی میں طے ہوا ’’لاٹھی پوجا کی جائے‘‘۔
وہ بھی کیا رات تھی، اماوس کی رات، چاندنی چھٹکی ہوئی۔ خاصی ٹھنڈک مگر ایک ہزار ’’لٹھیت‘‘ لاٹھی پوجا میں شرکت کے لیے اکٹھا ہوئے تھے۔ گھر کے سامنے والے میدان میں بیسیوں کڑھائے چڑھے ہوئے تھے۔ حلوائی پوریاں ’’چھان‘‘ رہے تھے۔ حلوہ مٹھائی بنا رہے تھے۔ خیال تھا جس کا جتنا جی چاہے کھائے۔ جتنی سمائی ہو پیٹ میں بھرے کسی چیز کی کمی نہ ہو۔
وہ جن کے گلوں میں کنٹھے تھے اور دوسروں کے ہاتھ کا پکایا نہ کھاتے تھے انھوں نے اپنے اپنے الگ چولہے بنا رکھے تھے، کوئی ہنڈیا چڑھائے کھچڑی ابال رہا تھا، کوئی اپلوں کے بھوبھل میں ’’بھوری‘‘ لگا رہا تھا۔
جب سب کھانا تیار ہو گیا تو پروہت جی بلائے گئے ایک بڑے سے گڑ بنانے والے کڑھائے کے گرد زمین لیپی گئی۔ اس پر اکڑوں بیٹھ کر انھوں نے کچھ اشلوک اور منتر پڑھے پھر دس من دودھ میں لچھن کی لاٹھی کو نہلایا۔ کڑھائے میں یہ اکٹھا کیا ہوا دودھ ’’پرشاد‘‘ کی طرح ہر ایک کو کلہڑوں میں بانٹا گیا۔ پھر کھانے میں ہاتھ لگا۔ منچلوں نے ایک دوسرے کو للکار للکار کر ڈھائی ڈھائی سیر کی پوریاں کھا ڈالیں اور چار چار سیر پانچ پانچ سیر دودھ پی ڈالا۔ پھر رات بھر برہے کا مقابلہ رہا۔
کتنا خوش تھا لچھن اس رات سپید ادھی کا کرتا جسم میں۔ گلابی رنگی ہوئی دھوتی ٹانگوں میں اشرفیوں کا مالا گلے میں۔ موٹا سا پھلوں کا گجرا سینے پر۔ جدھر جدھر جاتا ہر ایک گرو، گرو، سردار، سردار، کہہ کر ہاتھوں ہاتھ لیتا اور برہا گانے والا کوئی نہ کوئی ٹکڑا اس کی تعریف میں بھی ضرور بڑھا دیتا۔
ہریا دودھ، دہی، شکر، آٹا، گھی، ترکاری، نمک، مصالحہ بانٹتے بانٹتے تھک گئی تھی، چور ہو گئی تھی، مگر اسے محسوس ہوتا تھا۔ جیسے وہ آج بیٹے کی برات لے جانے کے پہلے کھانا دے رہی ہے۔ جیسے بھی ہو سارے کھانے والے خوش رہیں۔ ہر شخص کو اس کی پسند کی چیز مل جائے اور ہر ایک ڈَٹ ڈٹ کر کھائے، اس لیے اس ٹھکن میں بھی بڑا آنند تھا۔ عجیب طرح کی خوشی اور مستی۔
چاندنی رات میں جگہ جگہ چولہوں کی روشنی ایسی نظر آئی جیسے سفید جارجٹ کے دوپٹے پر زری کے پھول بنا دیے گئے ہیں۔ رات جب بھیگ گئی چھوٹے چولہے گل ہو گئے اور ہلکا کہرا سارے میں چھا گیا تو بڑے بڑے الاؤ جلا دیے گئے، ان کے لمبے بھڑکتے شعلے ایسے لگتے جیسے دھوئیں کی چادر کے پیچھے انار چھوٹ رہے ہیں۔ گویا گھر میں برات اتری ہے اور آتشبازی بھی ساتھ لائی ہے۔
کئی دن اس خوشی کا خمار رہا۔ ہریا کا جوڑ جوڑ دکھتا تھا مگر تعریف کرنے والوں اور مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ خود لچھن بھی کئی راتیں اس اطمینان سے سویا کہ ہریا کو صبح اسے گد گداکر اٹھانا اور ناشتہ کرنے کے لیے جگانا پڑا اور وہ انگڑائیاں لے کر مسکراکر اس طرح بیوی کو دیکھتا جیسے ہریا سچ مچ سپنوں کی پَری بن گئی تھی۔ مسرت کی لہر اسی طرح اٹھتی رہی، اٹھتی رہی اور تہہ میں بیٹھنے نہ پائی تھی کہ اچانک لاٹھی پوجا کے ساتویں دن لچھن مار ڈالا گیا۔
کتنا تکلیف دہ تھا وہ دن بھی چار بجے صبح کو جب کہ خاصا اندھیرا تھا۔ کسی نے کنڈی کھٹ کھٹائی، لچھن باہر گیا دونوں میں آہستہ آہستہ باتیں ہوئیں اور لچھن جھپٹا ہوا اندر آیا اور لاٹھی اٹھاکر نکل گیا۔ ہریا لچھن کے اس طرح اچانک چلے جانے کی عادی تھی۔ یہ کوئی نہیں بات نہ تھی۔آئے دن ایسا ہوا کرتا تھا۔ مگر آج ہریا کا دل نہ جانے کیوں آپ ہی آپ گھبرانے لگا، وہ پلنگ پر لیٹی نہ رہ سکی۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اس نے باہر جاکر مویشیوں کو ناند پر لگادیا، پھر لوٹا لے کر ’’جنگل‘‘ چلی گئی۔ پلٹ کر اس نے اپنے پکے کنوئیں سے گگرے پہ گگرا بھر کر خوب نہایا اور ساری بدل کر دودھ دوہنے لگی۔ مگر یہ عجیب بات ہوئی کہ جب بڑی بالٹی دودھ سے بھر چلی تو دودھ کی لٹیا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین کی طرف چلی اور اس کے سنبھالنے میں جوہریا جھپٹی تو دودھ سے بھری بالٹی ٹھوکر لگ کر الٹ گئی اور دس سیر سے زیادہ دودھ زمین پر بہہ گیا۔
اس بدشگونی پر ہریا کو یقین آگیا کہ آج کا دن خیریت سے گزرنا مشکل ہے۔ وہ بھد سے زمین پر بیٹھ گئی اور عجیب طرح کی بے بسی محسوس کرکے رونے لگی۔
اب پَو پھٹ چکی تھی، کوے قائیں قائیں کرکے درختوں سے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔ چڑیاں چہک رہی تھیں، دور کسی اور کا بچھڑا ماں کے لیے ’’بائیں بائیں‘‘ کر رہا تھا۔ اہیر ٹولی میں چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ مویشی کھولے باندھے جارہے تھے اور دودھ دوہا جا رہا تھا۔ اہیرینیں کہتریوں میں دودھ اور جھوؤں میں سوکھے اپلے گاؤں میں لے جاکر بیچنے کے لیے رکھ رہی تھیں۔ مگر ہریا سر پکڑے زمین پر ہی بیٹھی رہی۔ اس میں سے ایک اہیرن نے اپنے گھر سے اسے اس حالت میں دیکھا، لپکی ہوئی آئی، اس سے پوچھا، ’’ارے توں کاہے چپ چاپ بیٹھن ہو‘‘۔ دفعتاً اس کی نظر گرے ہوئے دودھ پر پڑی۔ وہ چیخ پڑی، ’’ارے دیارے! ای کا بھوا؟ اب اٹھاون کا دودھ کیسے دی ہو؟‘‘
جب ہریا کچھ نہ بولی تو وہ خودی ہی ہر ایک کے ہاں سے جاکر تھوڑا تھورا سا دودھ مانگ لائی اور ہریا کو ساتھ لے کر گاؤں میں جہاں جہاں دودھ مقرر تھا سب گاہکوں کو پہنچا آئی۔
ہریا بہت کم خود دودھ لے کر کہیں جاتی تھی۔ یہ کام بھی لچھن کے خوف یا خاطر سے دوسرے ہی کر دیا کرتے تھے۔ مگر آج صبح ہی سے کوئی نہ آیا۔ اسے خود ہی جانا پرا۔ پھر گھر پلٹی تو بڑی تنہائی محسوس ہوئی۔ چرواہا مویشیوں کو میدان لے جا چکا تھا۔ گھر میں کوئی کام نہ تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے لیے دو روٹیاں ٹھونکیں اور انھیں مل کر دودھ میں ڈال کر کھا لیا۔ مگر پاؤ بھر دودھ ایسا دوبھر ہو گیا کہ آدھا جھوٹا باہر جاکر ڈال آئی۔
وہ بار بار گھر سے نکل کر اِدھر ادھر دیکھتی، پھر مایوس ہوکر گھر کے اندر چلی جاتی۔ وہاں سے اپنے کو پلنگ پر گرا دیتی، کروٹیں بدلتی، اٹھ کر پانی پیتی۔ پھر جلتی دھوپ میں دورتی ہوئی باہر آتی۔ دیر تک ادھر ادھر دیکھتی رہتی۔ پھر مایوس واپس جاتی۔ دو بجے دن تک وہ یہی آہر جاہر لگائے رہی۔ پھر وہ باہر والے چھپر ہی میں جم کر بیٹھ گئی۔ اسے نہ سردی لگتی نہ گرمی۔ اسے پیاس تھی نہ بھوک پھر بھی ہونٹ پپڑائے ہوئے تھے۔ حلق سوکھا ہوا تھا اور زبان میں کانٹے پڑے تھے۔
شام کے قریب چرواہا دوڑا ہوا آیا۔ اس نے سنانی سنائی لچھمن کو دشمنوں نے دھوکہ سے مار ڈالا اور اس کی لاش کو گڑانسے سے ٹکڑے کرکے دریا میں مختلف جگہوں پر اس طرح ڈال دیا کہ کوئی پتہ نہیں چل سکتا۔
ہریا کو عمر میں پہلی اور آخری بار غش آیا۔ وہ دس دن بخار اور سرسام میں پڑی رہی۔ جب وہ اپنے حواس میں آئی تو دو ایک دن لوگوں نے اس سے یہ دکھ بھری کہانی چھپائی، پھر آہستہ آہستہ بتایا کہ گاؤں کے چوکیدار کی رپٹ پر سپاہی بھی آئے تھے اور خود داروغہ جی بھی۔ بڑی پوچھ گچھ رہی۔ گشائیں پور تک دوڑ گئی، دریا میں جال بھی پڑے، مگر لچھن کے جسم کا کوئی ٹکڑا نہ ملا اور قانون کی رو سے جب تک لاش نہ ملے کسی کو قاتل نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہرشخص کو یہ یقین تھا کہ یہ کام چھیدا کا ہے، مگر کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا۔ غرض پولیس معمولی کوشش کرکے بیٹھ رہی۔ نہ اسے لچھن کے مارے جانے کا کوئی غم تھا اور نہ اس کے قاتل کے سراغ لگانے کی کوئی خاص فکر تھی۔ اس کے نزدیک تو خس کم جہاں پاک والا معاملہ تھا۔
مگر ہریا کا تو راج لٹ گیا، دودھ بکنا بند ہو گیا، ترکاریوں کا آنا بند ہو گیا۔ ہر کام میں ہاتھ بٹانے والوں کا تانتا لگنا بند ہو گیا۔ نہ اب اس کے پاس کوئی چرواہا تھا نہ ہرواہا۔ نہ چیلوں کا جتھا، نہ خوشامدیوں کا گروہ۔ وہ لوگ جو ہمیشہ اس کی طرف نظر اٹھاکر دیکھتے ڈرتے تھے، اب اسے دیکھ کر آنکھ مارتے تھے، جن کی اس کے سامنے گھگھی بندھتی تھی، وہ اب فقرے کستے تھے۔ جس لاٹھی نے اس کے گرد لوہے کی دیوار کھینچ رکھی تھی، وہ ٹوٹ گئی تھی۔ اب تو ہر ایک اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا۔ وہ ایک ٹوٹی ہوئی شاخ کا پکا پھل تھی، ہر ایک اسے توڑ کر کھا لینے کا اپنے کو حق دار سمجھتا تھا۔
ہریا ان بدلی ہوئی نظروں کو پہچانتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتی تھی مگر کر ہی کیا سکتی تھی۔ کوئی اپنا نہ تھا جس سے ان بیگانوں کی شکایت کرتی۔ گاؤں میں کوئی بھی ہمدردی کرنے اور سرپر ہاتھ رکھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب کو لچھن سے کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی آزار ضرور پہنچا تھا۔ جن کے ساتھ اس نے احسان کیے تھے وہ بھی انھیں بھول گئے تھے۔ بلکہ الٹے گڑے مردے اکھاڑے گئے اور سوکھے زخم کرید کرید کر پھر سے ہرے کر لیے گئے۔ ہریا ایک پاجی، بدمعاش ڈاکو کی بیوی تھی۔ اسے بے سہارے بے جان گرا ہوا دیکھ کر ہر ایک اسے دو لاتیں مار دینا فرض سمجھتا تھا۔ بیماری ہی میں گھر کا بہت سا اثاثہ صاف کر دیا گیا تھا۔ اب رات ہی رات اس کا تیار کھیت کاٹ لیا گیا۔ اس کے مویشی ہر بہانے مویشی خانے پہنچا دیے گئے۔ حد یہ ہوگئی کہ اس کے سب سے اچھے بیلوں کی وہ جوڑی جو سال بھر پہلے لچھن نے پانچ سو کو خریدی تھی ایک رات کھونٹے سے کھل کر غائب ہو گئی اور کچھ پتہ نہ چلا کہ زمین میں سما گئی یا آسمان میں اڑ گئی۔
یہی وجہ تھی کہ ہریا اب خود مویشی چراتی تھی اور رات میں انہیں کے قریب کٹیا ڈال کر سوتی تھی۔ یہی باتیں تھیں جو وہ اس وقت لوں میں کھڑی سوچ رہی تھی اور وہ بار بار دل میں ان تمام تکلیفوں کا باعث چھیدا کو ٹھہراتی اور اس سے نفرت کی آگ کو ہوا دے دے کر بڑھاتی تھی۔ اس کا بس چلتا تو وہ چھیدا کی بوٹی بوٹی دانتوں سے نوچتی اور چیل کوؤں کو کھلاتی۔
وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کھٹک نے زور زور سے الاپنا شروع کیا،
اسی باعث تو کتلے آسکاں سے مناکرتے تھے
اکیلی پھر رہی ہو یو سپھے بے کارواں ہوکر
(اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر)
ہریا شعر کے معنی تو نہ سمجھ سکی مگر اس میں چھپے ہوئے طعن کو سمجھ کر تلملا اٹھی۔ وہ لاٹھی اٹھاکر جھپٹتی ہوئی منڈیا تک آئی اور لاٹھی تان کر بولی، ’’چپ کھٹک کے جنے! لچھن مرگئل پر اہکا لاٹھی نامرل!‘‘ کھٹک ڈر کر جھونپڑی کے کونے میں دبک گیا۔ وہیں سے کانپتی آواز میں بولا، ’’ارے ہم کیچہو کہت ہئیں بھوجی!‘‘
وہ بولی، ’’ہاں، تو ہم ہوں کہہ دیت ہئیں کہ ہم ایسن ویسن مت جنی ہو! ہم سرتوڑ کے رکھ دئیب!‘‘ اتنے میں ایک گائے جوہریا کو کان اٹھائے آنکھ پھاڑے دیکھ رہی تھی نہ جانے کیا سمجھی کہ یکایک بھڑک کر بھاگی۔ ہریانے دور تک اس کا پیچھا کیا اور اسے ہنکاکر گلے میں لائی۔ پھر بھینسوں کو گڑھیا سے نکال کر سارے مویشیوں کو بڑبڑاتی ہوئی ہنکاتی گھر لے گئی۔ اتفاق سے اسی وقت گشائیں پور کا ایک آدمی دکھائی دیا۔ ہر یا نے اسے روک کر کہا، ’’چھیدا سے کہہ دیہو کہ چھپ چھپ کر وار کرنا مردن کا کام نا ہیں اور نہ بھودا کو ستانا بہادری باٹے۔ اہکا لڑے کا جی چاہت ہے تو ایہاں پنچن کے سامنے آکر ہم سے لاٹھی چلالے!‘‘
چھیدا اسی رات کو آیا اور تنہا آیا۔ ہریا اپنے چھپر میں غافل سو رہی تھی۔ اس نے پلنگ سے دور کھڑے ہوکر کنکریاں پھینک پھینک کر اسے جگایا۔ وہ گھبراکر اٹھی۔ چھیدا وہیں سے بولا، ’’جرا لالٹین جلاؤ بھوجی، تو ہم تہہ سے بات کریں!‘‘
ہریا نے لالٹین جلاکر دیکھا تو ایک سانولے رنگ کا میانہ قد جوان ہے، سر پر پگڑی، ننگے بدن، دھوتی، کاچھے کی طرح کسی ہوئی، ہاتھ میں ایک سیاہ تیل لگی ہوئی لاٹھی، چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھیں۔
ہریا نے پوچھا، ’’کون ہو جی تم؟‘‘
اس نے کہا، ’’چھیدا‘‘
نام سنتے ہی ہریا کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی۔ وہ چھلانگ مارکر پلنگ سے پھاندی اور اس نے ایک موٹی سی گالی دے کر چھیدا پر پورا وار کیا۔ چھیدا اچھل کر اپنے کو بچا گیا اور ہنس کر بولا، ’’واہ رے بھوجی واہ! پائن ایہو طرح کہیں اتارل جات ہے!‘‘
ہریا نے پھر لاٹھی تانی۔ وہ ہاتھ اٹھاکر روک کر بولا، ’’ارے جری بات تو سُن لے! ہم کا تہہ سے لڑے کا ہوت تو ہم تہہ کا ٹھار ہوئے دیئت؟‘‘
ہریا ہانپتی ہوئی بولی، ’’تو جلدی کہہ، کا کہے کے ہے؟‘‘
چھیدا بولا، ’’بھوجی، ہم پر جھوٹ الجام ہے۔ ہم لچھن کا نا مرلیں۔ اہی کا گٹ والا مل کے گھات کئی لین! اوہے تور کھیت کاٹت ہن، تور گورو بچھرو چراوت ہن!‘‘
ہریا کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ چھیدا کے لب و لہجہ میں اتنی سچائی تھی، اتنی نڈری تھی، اتنا بھروسہ تھا کہ ہریا اس کی بےگناہی پر یقین کیے بغیر نہ رہ سکی۔ مدتوں سے جو نفرت کا قلعہ کھڑا تھا وہ چھیدا کی باتوں سے دھم سے گر پڑا۔ اس نے اپنی ٹانگوں میں کمزوری محسوس کی اور وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ وہ سوچنے لگی، چھیدا کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ سب نے لچھن کا قاتل کہہ کر اس کا کیا بگاڑ لیا تھا کہ اگر وہ اس وقت اقرار کر لیتا تو ہریا اس کا کچھ کر لیتی۔ پھر اگر وہ واقعی ہریا کو ستانا چاہتا تو وہ سوتی ہوئی عورت کو ہر طرح پریشان کر سکتا تھا۔ اس پر لاٹھیاں برساکر مار ڈالتا، اس کا گھلا گھونٹ دیتا۔ اس کے مویشی کھول لے جاتا۔ اس کے وار کو خالی دینے کی جگہ لاٹھی کا جواب لاٹھی سے دیتا۔
چھیدا نے کہا، ’’ارے بھوجی! بدماسن کی سرداری بڑا جان جوکھم کام ہے۔ جہاں جتھا مجبوت بھیل اور سبے سردار بنے کا چاہت ہن۔ اپنے گاؤں کا نرپت کا دیکھو، آج کل کیسن سانڑ بنا پھرت ہن۔‘‘
ہریا نے پوچھا، ’’تو اہے مرلَس ہئو؟‘‘
چھیدا نے کہا، ’’ای ہم کا جانیں۔ مل ہم نا مرلین!‘‘
ہریا نے بڑی بے بسی سے کہا، ’’تو ہم کا کریں؟‘‘
وہ بولا، ’’تم تنکو چنتا جن کرو۔ آنند سے بیٹھو۔ ہم سب انتجام کردئیب!‘‘ اور وہ چلا گیا۔
دوسرے ہی دن گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ آس پاس کے گاؤں میں چھیدا کے آدمی گھوم گھوم کر کہہ گئے ہیں کہ ہریا کے کھیت یا مویشیوں کو اگر کسی نے آنکھ اٹھاکر بھی دیکھا تو اسے چھیدا سے سمجھنا پڑےگا۔ ہریا کو یہ خبر سن کر ذرا سکون تو ہوا، مگر اسے سب سے زیادہ فکر تھی اب کے کھیتوں کے جو تنے کی۔ بیل چوری جاچکے تھے۔ ہل کیسے چڑھےگا۔ کیا اب کے سب کھیت پرتی ہی پڑے رہیں گے؟ یہ نہیں تھا کہ ہریا کے پاس نئے بیل خریدنے کے لیے دام نہ تھے۔ وہ اچھی سے اچھی جوڑی خرید سکتی تھی۔ مگر وہ گھر اکیلا چھوڑ کر کہیں میلے ٹھیلے جا بھی تو نہیں سکتی تھی۔ دن دھاڑے لوگ گھر میں گھس کر ’’جمع جھتا‘‘ نکال لے جاتے۔ کوئی مرد ایسا نہ تھا جس کو کئی سو روپے بیلوں کے خریدنے کے لیے دے دیے جائیں۔ بیوہ کے روپے مار لینا کون سی بڑی بات ہے۔ ہریا کو اس زمانے میں یہ بڑی سختی سے محسوس ہوا کہ بغیر اپنے مرد کے ایک تنہا عورت کے لیے زندگی بڑی دشوار ہے۔ اسی لیے اسے بار بار چھیدا کا خیال آتا، سوچتی اسی کے ہاں کہلادو۔ وہی انتظام کر دےگا۔ مگر عورت ذات تھی۔ کہلاتے شرم بھی آتی تھی۔ نہ جانے دل میں کیا سمجھے اور بات پہنچانے والا کیا کیا معنی پہناوے۔
وہ اسی حیص بیص میں تھی کہ جون کی پندرہ آ گئی۔ مونسون چلا۔ ابر آسمان پر چھا گئے۔ بادل مینڈھوں کی طرح آپس میں ٹکڑائے۔ پانی ٹوٹ ٹوٹ کر برسا اور سارے میں جل تھل ہو گیا۔ جن کے پاس دھنکر تھے انھوں نے تو مینڈیں اونچی کرکر کے اپنے کھیتوں میں پانی روکا، جن کے کھیت ذرا بلندی پر تھے اور وہ دوسرے اناج بونا چاہتے تھے، انھوں نے مینڈیں کاٹ کاٹ کر پانی نکال دیا۔ ہریا گھر ہی میں بیٹھی رہی، اپنے کھیتوں کے قریب بھی نہ گئی۔
چوتھے دن جب پانی رکا اور دھوپ نکلی تو ہر طرف چہل پہل تھی۔ کھیتوں پر ہل چڑھ گئے۔ مہینوں کے خشک کھیت شاداب و سیراب ہوکر مسکرا رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کھیت نہیں، ماؤں کی چھاتیاں ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے دودھ سے بھری پڑی ہیں۔ ان کی بھوک پیاس بجھانے کے لیے، ان کو شکم سیر کرنے کے لیے، ان کو غذا اور طاقت دینے کے لیے۔ ہریا بھی اندر نہ بیٹھ سکی، وہ کئی بار اپنے کھیتوں کی حالت جاکر دیکھ آئی۔ وہ گود پھیلائے اسے بلا رہے تھے۔ آؤ، آؤ ہمیں کھودو، کاٹو، روندو، ہمارا سینہ پھاڑو، ہم تمہیں خوشی خوشی اجازت دیتے ہیں۔ مگر ہریا آنکھوں میں آنسو بھر کر منہ پھیر لیتی اور لمبے لمبے قدم رکھ کر گھر بھاگ آتی تھی اور اپنی تنہائی اور بےبسی محسوس کرکے سسک سسک کر روی تھی۔ شام کو جب ہر کسان خوش خوش گھر پلٹا تو ہریا نے مویشیوں کو چارے پر بھی نہ لگایا، وہ اندر گھس گئی۔ اس نے کنڈی بند کرلی اور وہ منہ لپیٹ کر کھاٹ پر گر پڑی۔ دماغی کوفت اور تھکن نے اسے خوف غافل سلایا۔ وہ سوئی اور گھوڑے بیچ کر سوئی۔ دن چڑھے وہ اس وقت اٹھی جب کسی نے کنڈی کھٹ کھٹاکر اسے زور زور سے پکارا۔
وہ باہر آئی تو اسے نے دیکھا ایک اجنبی کھڑا ہے۔ اس نے تیکھے پن سے پوچھا، ’’توں کون ہَو اور کا چاہت ہَو؟‘‘
اس نے کہا، ’’آپن کھیت پر چلو، چھیدا بلاوت ہن!‘‘
وہ لپکی ہوئی ساتھ ہولی۔ تھوڑی ہی دور پر اس کے وہ کھیت تھے جن میں گیہوں بویا جاتا تھا۔ دیکھا تو ان میں تین ہل ایک ساتھ چل رہے ہیں اور یہ سب ہیں گوشائیں پور کے۔ خیال آیا ارے یہ میرے کھیتوں پر قبضہ کرنے کی ترکیب تو نہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ کچھ کہہ سکے کندھے پر ہل رکھے اور ناگوری بیلوں کی جوڑی ہنکاتا ہوا سامنے سے چھیدا آتا دکھائی دیا۔
وہ ہریا کے قریب آکر بولا، ’’بھوجی، جاکے دیکھ لیو، تہار سب کھیت جت گئل!‘‘ اور ہریا ادھر مڑ گئی جدھر دوسرے کھیت تھے۔ سب جتے ہوئے ملے۔ پھول کی طرح ہنستے ہوئے۔ ہر ایک کی سطح پر لہریا بن گئی تھی اور ان کی تازی مٹی سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ ہریا کو محسوس ہوا جیسے وہ کسی نئی دلہن سے ملنے آئی ہے جو زبان سے تو کچھ نہیں بولتی مگر جس کے دل میں بار بار گدگدی ہوتی ہے اور چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔
پلٹتے میں گاؤں کا ایک کسان ملا۔ اس نے دیکھتے ہی ہریا کو مبارک باد بھی دی اور طعن بھی کی۔ وہ بولا،
’’لیو، بھوجی! ہرے لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے، تم ٹانگ پسارے سووت رہو اور چھیدا تہار سب کام کردہس! کئی سو بدماس ہو، ہریا کے آگے سب کی نانی مرت ہے!‘‘
ہریا نے اسے گھور کر دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔ پہلے کھیتوں سے بھی ہل نکل کر جا چکے تھے۔ ہریا ان میں گھوم گھوم کر ان کی حالت دیکھتی رہی، کنکر پتھر ان میں سے چن کر باہر پھینکتی رہی اور بڑے بڑے مٹی کے ڈھیلوں کو توڑ کر انھیں چور کرتی رہی۔ مگر دل میں نہ جانے کیسے کیسے خیالات آتے رہے۔ چھیدا بڑا اچھا ہے، چھیدا نے اس کے کہے بغیر اس کے کھیت جتوادیے۔ چھیدا اپنی بات پر اڑنے والا مرد ہے، چھیدا، چھیدا، چھیدا! بس اسی کی صورت، اسی کی باتیں، اسی کا دھیان اور گوشائیں پور والے سب چلے گئے۔ ہریا نے کسی کو کچھ کھلایا پلایا بھی نہیں۔ کوئی خاطر بھی نہ کی۔ کسی سے ہنس کر بولی تک نہیں اور چھیدا۔۔۔ اس کی سانسیں سینے میں اٹکنے سی لگیں، اس کا چہرہ کبھی سرخ ہو جاتا، کبھی زور، اس کے جسم میں ہلکی سی کپکپی پیدا ہو جاتی۔ وہ گھبراتی رہی، الجھتی رہی، چھیدا کے احسان کا بدلہ کیسے اتارے، یہی سوچتی رہی۔ وہ پسینے میں بھیگ گئی اور گردن جھکائے سوچتی گھر پلٹی۔ دیکھا تو اس کے جانور پاس والے باغ میں چر رہے ہیں، اس کے بیلوں کی سونی ناندوں پر دو خوبصورت بڑے بڑے بیل بندھے ہیں۔ بالٹیوں میں کہتریوں میں دودھ بھرا رکھا ہے اور اس کے چھپر میں اس کے کھاٹ پر چھیدا پڑا بےخبر سو رہا ہے۔
ہریا جلدی سے رسوئی گھر میں گھس گئی۔ اس نے چولہا جلایا اور آٹے میں خوب گھی ملاکر کئی موٹی موٹی خستہ اور بھربھری ٹکیاں سینکیں۔ اس نے یہ ٹکیاں پھول کی ایک تھالی میں رکھیں، اس میں گڑ کی بھیلی رکھی اور بہت سا سوندھا سوندھا کچا گھی اور ایک بڑا سا گلاس بھر کر دودھ۔ ایک ہاتھ میں یہ تھالی اور دوسرے میں پانی سے بھرا لوٹا لیے ہوئے چھیدا کے پلنگ کے پاس آئی۔ اس نے گھٹنے سے اس کے کھاٹ کی پٹی ہلائی اور وہ بولی،
’’کب تک سوای ہو۔ اٹھو! منہ ہاتھ دھو کے کچھ کھا لیو!‘‘ اور اس کے لہجہ میں وہی نرمی، وہی گرمی، وہی شیرینی تھی جو ہندوستانی عورت کی آواز میں اپنے پتی ہی کے لیے ہو سکتی ہے۔
چھیدا نے آنکھ کھولی، انگڑائی لی، تھالی ہریا کے ہاتھ سے لے کر بان کے کھاٹ پر رکھ دی، بولا آؤ ہم اپنی لاٹھی پوجا تو کر لیں! وہ دودھ سے بھرا گلاس لے کر بیلوں کی طرف چلا۔ ہریا بھی پیچھے پیچھے ہولی۔ ناند پر پہنچ کر چھیدا نے ہریا سے اشارہ کیا اور دونوں نے گلاس کا دودھ چلوؤں میں بھر بھر کر بیلوں کو پلایا۔
چھیدا نے مسکراکر ہریا کو دیکھا اور بڑی خوداعتمادی سے پوچھا، ’’اب؟‘‘
اس نے گھونگھٹ نکال کر کنکھیوں سے دیکھ کر کہا، ’’آؤ چلو، تہرو پاؤں دودھ سے دھو دیں!‘‘ اور اس کی آواز میں ایک پجاری کا خلوص تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.