Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لیبارٹری

مشرف عالم ذوقی

لیبارٹری

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

    گندہ تالاب، کیکڑے اور وہ

    یہ قیاس لگانا بہت آسان ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہوں گے۔۔۔ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ کہیں، کسی بھی طرح، کسی بھی حال میں۔۔۔ لیکن معاف کیجئےگا۔ اُنکی پیدائش کے عمل کو کسی بھی طرح میں ’’کلوننگ پروسیس‘‘ سے جوڑنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اس لئے کہ کلوننگ کے ذریعہ چاہے وہ بھیڑ، ہو یا انسان۔۔۔ اور یقیناً آپ تسلیم کریں گے کہ سائنس کی تجربہ گاہیں، انسانی تجربہ گاہوں کے مقابلے، کم خطرناک ہیں۔۔۔ نہیں، اس بحث کے لئے ڈولی بھیڑ‘‘ یا پہلے انسان ’’مکاؤف‘‘ کے تصور سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ سائنس کا پیدا کردہ انسان بھی گوشت پوست کا ہی انسان ہوگا مگر اُس انسان سے کم خطرناک ہو گا۔۔۔ جو انسان کے ذریعہ، انسانی فضا میں، انسانی گھر، انسانی کمرے میں اور انسانی عمل کے دوران ان عالم وجود میں آ گیا ہے۔۔۔ (اس لئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ کلوننگ کا انسان دوم درجے کا انسان ہوگا، کہ اُس کے اندر جنگ اور تہذیب کے جراثیم وہ شدت اختیار نہیں کر پائیں گے جو۔۔۔)

    اس لیے فرض کرتے ہیں کہ وہ وہی تھے جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں، انسانی عمل کے دوران۔۔۔

    اور فرض کرتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا، ہو سکتے ہیں۔۔۔

    وہ کئی تھے۔ چار، پانچ چھ، سات، آٹھ۔۔۔ یعنی کل ملا کر اتنے کہ انکی گنتی آسانی سے ہو سکتی ہے۔ وہ بیحد نرم ملائم، سادہ لوح یا ایسے تھے، جن کو لے کر پانیوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ یعنی کسی بھی برتن میں ڈال دو۔۔۔ وہ ایسے تھے کہ آپ ان کا کچھ بھی استعمال کر سکتے تھے۔۔۔ اور جس دن کا واقعہ ہے، اس دن دوپہر کا سورج آگ برساتا ہوا اپریل مہینے کو جلانے اور جھلسانے کی تیاری کر رہا تھا۔ دو بجے کا وقت ہوگا۔ ’’وہ‘‘ بہرکیف، ساری رات کے تھکے ہوئے۔۔۔ ایک چھوٹے سے تالاب کے کنارے بیٹھے، گندے پانی سے بار بار نکلتے اور اندر جاتے کیکڑے کا لطف لے رہے تھے۔۔۔

    ’’کیکڑے کے کتنے پاؤں ہوتے ہیں۔‘‘

    دوسرا زور سے قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔۔ کیکڑے کی آنکھیں کہاں ہوتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔‘‘

    ’’سالے میں نے پاؤں کے بارے میں پوچھا تھا۔

    ’’اور میں نے آنکھوں کے بارے میں۔‘‘

    ان میں ایک سن رسیدہ تھا۔ اس کی بڑی بڑی دانشورانہ، آنکھوں میں چمک لہرائی۔ ’’دیکھو، کتے کو۔۔۔‘‘

    ’’کتا نہیں کیکڑا‘‘

    ’’ایک ہی بات ہے۔‘‘

    ’’ایک ہی بات کیسے، تم اور میں کیا۔۔۔‘‘

    وہ ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا۔۔۔ ایک ہی بات ہے۔۔۔ دیکھو۔۔۔ دیکھو کیکڑا مٹی سے پھر باہر نکل آیا۔

    ’’بارش ہوگی۔‘‘

    ’’اِن سالوں کو پتہ کیسے چل جاتا ہے۔‘‘

    ’’بارش کی اطلاع ملتے ہی کیکڑے اپنے بلوں سے باہر نکل آتے ہیں۔‘‘

    ’’اسی سنجیدہ قسم کے دانشور نے اطلاع بہم پہنچائی۔ کیکڑے کے بارہ پاؤں ہوتے ہیں۔ کینکڑے اپنے پاؤں کا حساب نہیں رکھ پاتے۔ انکے لئے زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ دیکھو۔ دیکھو۔۔۔ سالا گرا۔۔۔

    بارہ پاؤں نہیں۔ کینکڑے کے دس پاؤں ہوتے ہیں۔۔۔

    ’’آٹھ۔۔۔‘‘

    ’’چھ۔۔۔‘‘

    پہلے نے گفتگو کے رخ کو ہی بدل دیا تھا۔ کیکڑے کے ہاتھ کہاں ہیں؟ آں؟ ہاتھ۔۔۔

    ’’ہاں، ہاتھ کہاں ہیں؟‘‘

    پہلا پر امید تھا۔۔۔ ’’در اصل آپ لوگ جسے پیر سمجھ رہے ہیں وہ۔۔۔‘‘

    ’’ممکن ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ یا تو کیکڑے کے ہاتھ نہیں ہوتے یا پاؤں۔‘‘

    دھوپ سخت تھی، لیکن اچانک بادلوں کا ایک کارواں دھوپ کے آگے سے گزر گیا۔

    ’’بارش ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’نہیں بھی۔‘‘

    ’’کیکڑے زمینوں سے باہر آ رہے ہیں، اس لئے ممکن ہے۔۔۔‘‘

    کیکڑے زمینوں سے باہر نہیں آ رہے ہیں، جان بچا کر بھاگ رہے ہیں۔‘‘

    ’’جان بچا کر۔۔۔‘‘

    ’’بارش کے موٹے موٹے قطرے، پتھر بن کر۔۔۔‘‘

    ’’معصوم کیکڑے۔‘‘

    ’’قطعی نہیں۔۔۔‘‘ بیحد سنجیدہ نظر آنے والے دانشور نے منطق کا حوالہ دیا۔۔۔ ایسے بدنما، بدصورت، بد ہیئت اور اس گندے آکٹوپس کی چھوٹی قسم کو کیا نام دیں گے۔ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن معصوم نہیں ہو سکتا۔

    وہ دیر تک سر جوڑے بے بنیاد، غیردلچسپ گفتگو میں الجھے رہے کہ کیکڑہ عالم وجود میں کیسے آتا ہے۔ کیکڑہ دیکھتا کیسے ہے؟ کیکڑا زندہ کیسے رہتا ہے۔ کیکڑے کی زندگی کتنے دنوں کی ہوتی ہے۔ یا، کیکڑوں کے پاس زندگی کا تصور کیوں نہیں ہے۔ کیکڑے اپنی حفاظت کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ وہ دیر تک سر جوڑے بیٹھے تھے کہ بادلوں کی اوٹ میں گم ہوتے سورج نے اِن کی تفریح طبع کے لئے بارش کی کچھ موٹی بوندیں آسمان سے بھیج دیں۔ کیکڑا کچھ لمحے تک تڑپا۔ پانی کے چھوٹے سے گڈھے میں ’’اچھلا‘‘ کودا۔۔۔ اوپر نیچے کیا۔ بارش ذرا تیز ہوئی تو چھوٹے سے گڈھے میں کیکڑے کی لاش تیر رہی تھی۔

    وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھے۔۔۔

    ’’جو اپنی حفاظت نہیں کر پاتے ہیں‘‘

    دوسرے نے جوڑا۔۔۔ جو زندہ رہنا نہیں جانتے ہیں۔

    تیسرا مسکرایا۔۔۔ اور جو اقلیت میں ہوتے ہیں۔۔۔ اقلیت، وہ اس لفظ پر دل کھول کر ہنسا۔

    ’’ہم نے جو کچھ دیکھا، وہی اس کی زندگی تھی۔ یعنی بس اتنی ہی زندگی، جتنی ہم دیکھ سکے۔ اس نے ذرا سا ہاتھ پاؤں مارا اور۔۔۔‘‘

    ’’اس کی لاش کا کیا کیا جائے۔‘‘ دانشور، سنجیدہ تھا۔ بارش سے گیلی ہوئی مٹی اس نے دونوں ہاتھوں میں بھری۔ کیکڑے کے ’’جسم‘‘ پر ڈالی۔ عقیدت سے آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا۔

    ’’رام نام ستیہ ہے۔‘‘

    دوسرے نے تڑکہ لگایا۔‘‘ جھوم کے بولو ستیہ ہے۔

    ’’ناچ کے بولو ستیہ ہے‘‘

    ’’گا کے بولو ستیہ ہے۔‘‘

    ’’رام نام ستیہ ہے۔۔۔‘‘

    بارش کی رم جھم جاری تھی۔ کپڑے بھیگ چکے تھے۔ چلتے چلتے ’’یہ کئی‘‘ ٹھہر گئے۔ پہلے نے دوسرے کو۔۔۔ دوسرے نے تیسرے۔۔۔ تیسرے نے چوتھے۔۔۔ یعنی سب نے ایک دوسرے کو باری باری سے دیکھا۔۔۔

    پہلے کی آواز مدھم تھی۔۔۔ ’’رام نام۔۔۔‘‘

    اس کے بعد کوئی کچھ نہیں۔ سب خاموش ہو گئے۔ اور اٹھ کر یونہی آوارہ گردی کے لیے نکل گئے۔۔۔

    کالی رات، مہذب لوگ اور تجربہ گاہ

    وہ مہذب لوگ تھے۔ وہ اتنے مہذب تھے کہ اپنے مہذب ہونے کی دلیلیں دے سکتے تھے اور ان کی دلیلیں اتنی باوزن ہوا کرتی تھیں کہ اُن دلیلوں پر چپ چاپ لوگ سرجھکا لیا کرتے تھے۔

    محترم قارئین، یہاں ان بہت ساری سیاہ راتوں کا ذکر ضروری نہیں ہے، جو ’’تجربے‘‘ کے لئے ان کی لیبارٹری میں رکھی ہوئی تھیں۔ لیبارٹری۔ وہ تہذیب سے جڑی ہوئی ہر شئے کو اپنی تجربہ گاہ میں لے جاتے تھے۔ اُنہیں سائنس میں مکمل یقین تھا۔ ردرفورڈ سے آئن اسٹائین اور گر اہم بیل سے نیوٹنس لاء کے بارے میں اُن کی معلومات خاصہ وسیع تھیں۔ جیسے وہ جانتے تھے کہ ہر ایک عمل کا اس کے مساوی اور مخالف ایک ردعمل ہوتا ہے۔ مادّہ کے فزیکل اور کیمیکل ریئکشن پر ان کی خاص نظر ہوا کرتی تھی۔ اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم آج تک کی، اس سب سے زیادہ مہذب دنیا کے، سب سے زیادہ مہذب باشندے ہیں۔ اور یہ بات اُنہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لی تھی کہ اِس مہذب دنیا کا اصول ہے، جو طاقتور ہیں، وہی زندہ رہیں گے۔ یعنی جو اقلیت میں ہیں، کیڑے مکوڑے یا کیکڑے وہ ویسے بھی مُردہ ہیں اور انہیں جینے کا کوئی حق نہیں۔

    تو یہ مہذب لوگوں کی لیبارٹری تھی، جہاں یہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ تہذیب اور جنگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یعنی جنگیں ہی وہ بیش قیمت زیور ہیں، جن سے ہمیشہ سے تہذیبوں کو آراستہ کرنے کا کام لیا جاتا رہا ہے۔

    تو فرض کر لیتے ہیں، یہ وہی تھے جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں اور انسانی عمل کے دوران۔۔۔

    اور فرض کر لیتے ہیں کہ وہ سابرمتی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک کہیں بھی پیدا ہو سکتے تھے۔۔۔

    وہ ’’کئی‘‘ تھے اور پچھلی کئی راتوں سے لیبارٹری کے لئے کام کر رہے تھے۔۔۔

    اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ کوئی بہت دل سے اپنے کا م کو انجام نہیں دے رہے تھے۔ نہ انہیں مجبور کیا گیا تھا۔ بلکہ وہ ایک ’’چھوٹے‘‘ سے خوف کی بنیاد پر، کہ اس طرح مہذب لوگوں کی دُنیا سے اُنہیں ’’دیش نکالا‘‘ مل سکتا ہے۔۔۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر اس کام کے لئے تیار ہو گئے تھے۔۔۔

    اور اس لئے بھی۔۔۔ کہ ان میں سے سب کے پاس ایک خاندان تھا۔۔۔ خاندان میں ماں باپ تھے۔۔۔ بھائی بہن تھے۔ بیوی تھی اور بچے تھے۔۔۔

    اور اس لئے بھی۔۔۔ کہ بچے معصوم ہوتے ہیں۔۔۔

    اور ان سے کہا گیا تھا۔ جو مضبوط ہوتے ہیں، بس انہیں ہی جینے کا حق ہوتا ہے۔ تہذیب کا فرمان بھی یہی ہے۔ اکثریت کی آواز بھی یہی۔۔۔ اور اقلیتوں کو۔۔۔

    انہیں چانکیہ کے اشلوک پڑھائے گئے تھے۔۔۔

    दूरर्जनस्थ सर्पस्य वरं सर्पो दुर्जनः।

    सर्पो दृशति काले तु दुर्जनस्तु पदे पदे॥

    (برے انسان اور سانپوں میں اگر موازنہ کیا جائے تو سانپ بہتر ہے کیونکہ سانپ اسی وقت ڈستا ہے جب موت آتی ہے اور انسان تو قدم قدم پر ڈستا رہتا ہے۔۔۔)

    اور انہیں بتایا گیا، اس سے پہلے کہ وہ آپ کو ڈسیں، آپ کی تہذیب کو۔ آپ۔۔۔

    وہ کئی تھے۔۔۔

    اور کئی‘‘ گیس کے سلنڈروں سے بھرے ٹرک پر ’’لد‘‘ کر ساری رات تہذیب کے نام نئی نئی فنتاسی کو جنم دیتے رہے۔ یعنی ایسی فنتاسیوں کو جن کے تذکرے نہیں ہو سکتے۔ جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ زندہ معصوم بچوں کو نئے نئے دلچسپ طریقوں سے آگ میں زندہ جلانے سے لے کر، آبروریزی اور حاملہ عورتوں کی کوکھ میں ہاتھ ڈال کر۔۔۔

    نہیں جانے دیجئے۔ فنتاسی لفظوں کا لباس اوڑھ لے تو ذائقہ جاتا رہتا ہے۔

    آپ ایسا کیجئے۔ آپ خود ہی اچھی سی فنتاسی گڑھ لیجئے۔ کیونکہ آپ نے ایک طرف جہاں ’’اتہاس‘‘ کے قصے پڑھے ہیں، وہیں ہٹلر، مسولینی، چنگیز خاں اور نریندر مودی کے نام بھی سُنے ہیں۔ آپ بابر سے بابری مسجد تک سب کچھ جانتے ہیں۔۔۔

    اس لئے ذائقہ دار فنتاسیاں گڑھ لیجئے۔ جس قدر چاہیے ’’رس‘‘ یا ’’گھول‘‘ ملا لیں۔ آپ کی مرضی۔۔۔

    محترم قارئین،

    وہ کئی تھے۔۔۔

    اور وہ وہی تھے جو سابرمتی آشرم سے دلی آشرم چوک تک۔۔۔

    اور وہ وہی تھے جو انسانی فضا، انسانی گھر اور انسانی۔۔۔

    سب کچھ آناً فاناً ہو گیا تھا۔۔۔

    پچھلے کئی دنوں سے وہ ’’تہذیب‘‘ کو بچانے میں لگے تھے اور آپ جانتے ہیں، تہذیبوں کی حفاظت میں ایسی ہزاروں جانوں کا نقصان تو ہوتا ہی ہے۔۔۔ ہزاروں جانیں لی گئی تھیں۔ وہ بھی ہزاروں طریقوں سے۔۔۔ مگر۔۔۔ اُس گھر میں جو کچھ ہوا، وہ نیا تھا۔ ایک اکثریتی فرقہ کے شخص نے اقلیتی فرقہ کے کچھ لوگوں کو ’’پناہ‘‘ دی تھی، کہانی بس یہیں سے پیدا ہوئی تھی۔

    وہ بس اس آدمی کو دیکھ رہے تھے جو گھگھیائی ہوئی آواز میں ان لوگوں کو دیکھ کر چیخ پڑا تھا۔

    ’’مجھے نہیں۔ میں تو اکثریت۔۔۔‘‘

    ’’اکثریت!‘‘

    ’’ہاں۔ میری متی ماری گئی تھی۔۔۔‘‘ وہ پاگلوں کی طرح چیخا۔۔۔ یہ میری بیوی ہے یہ بہن۔ یہ بیٹی ہے۔ اور یہ بیٹا۔ یہ سب میرے ہیں۔ ہاں اُنہیں۔ انہیں لے جاؤ۔ جو بھی کرنا ہے کرو۔ کرو۔ میری متی ماری گئی تھی۔ میں بیوی کے بہکاوے میں آ گیا تھا۔ دوست ہے۔ بچا لو۔ میں گھر لے آیا۔ مجھے کیا معلوم تھا۔ وہ چاروں۔۔۔ لے جاؤ۔۔۔ لے جاؤ۔۔۔‘‘ وہ اپنے گھر کے لوگوں کو ایسے گھیر کر کھڑا تھا، جیسے چڑیا انڈے سیتی ہے۔ اُس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ بدن ڈول رہا تھا۔ آواز میں گھبراہٹ تھی۔ بیوی، بہن، اور بچوں کی حالت بھی وہی تھی۔

    ’’تم نے بچایا کیوں؟‘‘

    ’’میں نے کہا نا۔ بیوی نے۔۔۔‘‘

    ’’میں نے نہیں۔‘‘ بیوی چیخی۔ جھوٹے ہو تم۔‘‘

    ’’م۔۔۔ م۔۔۔ میری بیٹی نے۔۔۔‘‘

    ’’خیر جو بھی ہو۔‘‘ یہ کئی‘‘ ان کی طرف گھومے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن تم نے بچانے کی کوشش کی۔ اس لئے کہ۔۔۔ دوست!

    ’’میں نے کہا نا متی ماری گئی تھی۔‘‘

    ’’یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اقلیت ہے۔‘‘

    بیوی نے بیٹی کو ایک گندی سے گالی بکی ’’وہ اس کے ساتھ پڑھتی ہے۔ اس لئے دوست لگتی ہے۔‘‘

    دوست کوئی نہیں ہوتا۔‘‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ دوستی برابر والوں میں ہوتی ہے۔ اکثریت کی اکثریت سے اور۔۔۔‘‘

    ’’ہمیں چھوڑ دو۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔ انہیں لے جاؤ۔۔۔‘‘

    دانشور نے اقلیت کے چاروں گنہگاروں کی طرف دیکھا۔ وہ سچ مچ ایک لاش بن گئے تھے۔ چہرے سپید پڑ گئے تھے جسم میں خون نہیں۔ چاروں مذبح کے جانوروں کی طرح اداس کھڑے تھے۔ یعنی کس کی باری پہلے آتی ہے۔ پھر کس کی باری۔۔۔

    دانشور نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔

    ’’باہر آؤ۔‘‘ اس نے گھر کے لوگوں کو غصے میں اشارہ کیا۔ باہر کوئی نہیں بھاگےگا۔ جو جیسے ہے۔ جس حال میں ہے، ویسے ہی۔ میرا مطلب۔۔۔

    اکثریت والا اب بھی چلا رہا تھا۔ انہیں لے جاؤ۔۔۔ میری تو متی ماری گئی تھی۔

    یہ کئی ’’اب باہر تھے۔ باہر‘‘ ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے۔

    ’’دیکھو۔۔۔‘‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ ذرا سوچو۔ یہ ایک بے حد حسین تجربہ ہوگا، یعنی اس سے پہلے جتنے تجربے ہم کر چکے ہیں، یا ہم کریں گے۔ یا ہم کرنے والے ہیں۔‘‘

    سب نے ایک دوسرے سے کانا پھوسیاں کیں۔ پھر پر امید ہو گئے۔

    ’’اب کیا ارادہ ہے!۔۔۔‘‘ دانشور جلد از جلد اپنی ’’پیاس‘‘ کو انجام دینا چاہتا تھا۔

    ’’باس۔ مکان مالک کا کیا کیا جائے۔‘‘

    ’’وہ تو اکثریت کا۔۔۔‘‘ پہلا بولتے بولتے ٹھہر گیا۔

    دانشور غصے میں بولا۔ پریشانی اب ایسے ہی لوگوں سے پیدا ہوئی ہے۔ ایسے ہی لوگ۔۔۔ یہی لوگ ہمارے اب تک کے تجربے کو ناکام کرتے رہے ہیں۔‘‘

    ’’تو سب سے پہلے۔۔۔‘‘

    دانشور نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’ساری باتیں یہیں کر لو گے کیا۔ کچھ ان لوگوں کے لئے چھوڑو۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے۔ اُن کے ساتھ کچھ لمحوں میں، آنے والے کچھ لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ’’‘‘

    اگلے ہی لمحے، یہ لوگ اندر تھے۔۔۔ سامنے اکثریت اور اقلیت کے سہمے ہوئے 9 افراد ان کے فیصلے کے منتظر تھے۔

    ’’آہ، فنتاسی۔‘‘ دانشور چلایا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آواز بدل گئی۔۔۔ تہذیب ہر بار انصاف کرتی ہے۔ جیسے کوتیا۔ یہ تہذیب کا اصول ہے۔ یہ، یہ بہت زیادہ چلاّ رہا تھا۔ اس کے منہ میں تیزاب کے قطرے ٹپکاؤ۔ تیزاب کے قطرے۔۔۔ آہ اور اس کی بیوی۔ وہ بہت تیز بولتی ہے۔ مرچی کی طرح۔ پہلے اُس کے جسم پر، آنکھوں میں مرچی کے پاؤڈر ڈالو۔۔۔ بیٹی نے بچانے کی کوشش کی تھی۔ ہے نا۔ ایک بیحد پیاری عمر۔ اور اس عمر میں ایک بیحد پیارا چہرہ۔ جیسا ہونا چاہئے۔۔۔ اسے بانٹ لو۔ ایسا کرو۔ دونوں بچیوں کو بانٹ لو۔ اِن کے سامنے۔ تفریح کرو۔۔۔ اِن میں سے کوئی کچھ نہیں بولےگا۔ جسم تفریح کے لئے ہوتا ہے۔ کمسن کے گوشت زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔

    ’’اور۔۔۔ اقلیت والوں کے لئے باس۔‘‘

    ایک بار میں ایک فنتاسی۔ ان کے لئے کچھ الگ سوچتے ہیں۔ سب سے پہلے اس سنپولئے کو۔ اس کا بھیجا اڑا دو۔ اقلیتی طبقے کا سنپو لیا خطرناک ہوتا ہے۔ حرامی۔

    بچے نے تھوک دیا تھا۔

    پہلے نے ریوالور تان لیا۔۔۔ اور اس درمیان ایک گندی گالی بکتا ہوا اکثریت کا بچہ سامنے آ گیا تھا۔

    ’’تو بھاگ جا۔۔۔‘‘

    ’’دھائیں۔‘‘

    دوسرا بچہ ایک لمحے کے لئے دوسرے کمرے میں پھر۔۔۔ رہو گیا۔ گولی دوسرے بچے کے سینے پر لگی تھی۔ سینے سے خون کے فوارے چھوٹ پڑے تھے۔ کوئی بھی نہیں چیخا۔۔۔

    سب جیسے اس کھیل کے خاتمے سے پہلے ہی انجام‘‘ کو جان چکے تھے۔

    دانشور نے کھیل کا طریقہ سمجھایا۔۔۔ اِسے پنکھے سے لٹکا دو۔ اس کی ساڑی ہٹاؤ۔ پہلے بلیڈ سے وہاں تک۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘ اس نے بچیوں کو جلتی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ یہ نئے کپڑے کی طرح ہیں۔ قینچی سے کبھی نئے کپڑے کو کاٹا ہے۔ ان کی چھاتیاں۔۔۔‘‘ وہ مسکرا رہا تھا۔ بلیڈ گھماتے ہوئے‘‘ تم ایک عجیب سے نشے میں ڈوب جاؤ گے۔‘‘

    تو یہ کمرہ اب ایک لیبارٹری تھا۔ تجربے چل رہے تھے۔ نئے نئے تجربے۔۔۔ موت۔ عورتیں اور مرد۔۔۔ جوان بچیاں اور فنتاسی۔۔۔ زندگی اور ایڈونچر۔۔۔ زمین پر ایک گھنٹے کی تفریح کے بعد آٹھ لاشیں سجی تھیں۔

    ’’حکم باس۔‘‘ پہلا آہستہ سے بولا۔

    یہ طے تھا کہ سب تھکن سے چور ہو گئے تھے۔

    ’’ابھی آخری فنتاسی باقی ہے۔ یعنی آخری تجربہ۔ دونوں مرد کی لاش چھوڑ دو۔ باقی گھسیٹ کر اندر لے جاؤ۔ ہم ایک نیا تجربہ کریں گے۔‘‘

    ’’ان کے عضو تناسل کاٹ دو۔‘‘ دانشور سنجیدہ تھا۔ اور تم۔۔۔ تم سلائی جانتے ہو نا۔ ماڈرن ٹیلرس کے بچے۔ کپڑے سیتے سیتے انگلیاں ٹیڑھی ہو گئیں تیری۔‘‘

    ’’حکم۔۔۔ حکم باس‘‘

    ’’ان کے عضو تناسل بدل دو۔‘‘

    ’’مطلب۔ مطلب باس۔‘‘

    ’’اِن سالے سوکالڈ۔۔۔‘‘ اس نے پھر گندی سی گالی بکی۔۔۔ ان سالوں کو بتانا ہے اب۔ سمجھانا ہے۔۔۔ دھرم کو کھیل سمجھنے والوں کو مزہ چکھانا ہے۔۔۔ یہ، جو ہر بار ہمارے تجربوں کو۔۔۔ اس نے پھر گالی کا سہارا لیا۔۔۔ اچانک چونکا۔۔۔ یہ آوازیں سن رہے ہو۔ ہمارے دوسرے ساتھی یہاں پہنچنے ہی والے ہیں۔۔۔ اُنہیں دیکھنے دو کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ اپنا دماغ ہوتا ہے، نہ عضوِ تناسل۔ اب آپریشن شروع کرو۔۔۔‘‘

    آپریشن شروع ہو گیا۔

    پھر ٹیلر ماسٹر نے جیب سے قینچیاں، فیتے اور بلیڈ کا پیکٹ نکال دیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے درزی کی طرح بدن کے ’’چادر‘‘ کولے کر بیٹھ گیا۔۔۔ چمڑے کی جھلّی، جو نئے انسانی وجود کے لئے زندگی کا امرت بن جاتی ہے۔ فنکاری اور صفائی سے بدل دی گئی تھیں۔ ٹیلر ماسٹر نے انتہائی مہارت سے اپنا کام انجام دیا تھا۔ ساتھیوں نے شاباشی دی۔ کندھے تھپتھپائے۔ دونوں لاشیں۔ باہر مین گیٹ پر ٹانگ دی گئیں۔۔۔‘‘

    تجربہ کامیاب تھا۔

    مگر کھیل اب شروع ہوا تھا۔۔۔

    تہذیب کے پیامبر ڈھول، تاشہ بجاتے آتے۔ عضو تناسل کو دیکھتے۔ گندی گالیاں بکتے پھر گزر جاتے۔۔۔ وہ دیر تک بلکہ کہنا چاہیے کئی گھنٹے تک اس کھیل سے مستفیض ہوتے رہے۔ چلتے وقت دانشور نے قہقہہ لگا کر کہا۔

    ’’صرف بدن کی ایک چمڑی بدل دینے سے۔ تم سب سمجھ رہے ہونا۔۔۔ آہ، کیا کیا دلکش کھیل تھا۔ ’’آہ، اس کھیل کو ہم بہت دن تک بھول نہیں پائیں گے۔ اور ہمیں اس۔ اس مکار مکان مالک کو اُس کے کئے کی سزا بھی دینی تھی۔ اب اس کی لاش دیکھو۔ اس کی لاش کی تکا بوٹی ہو چکی ہے۔ جبکہ اقلیت کی لاش۔‘‘

    ’’باس‘‘ اس پر تو پھول مالائیں چڑھی ہیں۔‘‘

    ’’اب چلو، اس کھیل کا سرور تا زندگی قائم رکھنا ہے۔‘‘

    وہ جھومتے ہوئے نشہ کی حالت میں آگے بڑھ گئے۔

    بچہ اور زندگی

    ’’تمہیں وہ بچہ یاد ہے‘‘

    ’’بچہ؟‘‘

    ’’باس، وہ اقلیت کا بچہ، ہم تو اس بچے کو بھول ہی گئے۔،

    ’’اسے بچانے مکان مالک کا بچہ آ گیا تھا۔‘‘

    ’’پھر ہم کھیل میں الجھ گئے۔‘‘

    ’’اور بچہ بھاگ گیا۔‘‘

    ’’وہ بچہ کہاں جاسکتا ہے۔۔۔؟‘‘ دانشور کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔

    ’’اس کی نیلی نیلی آنکھیں‘‘ پہلا مسکرایا۔ تمہیں اس بچے کی یاد ہے۔ اس کے چہرے پر ذرا بھی ڈر یا گھبراہٹ نہیں تھی۔‘‘

    ’’اس کے ہونٹ‘‘ دوسرا کہتے کہتے ٹھہرا۔۔۔

    ’’بولو۔۔۔ بولو۔۔۔‘‘ دانشور کی آنکھیں مند گئی تھیں۔

    ’’کھٹے کھٹے بیر جیسے تھے۔ اور پیار ے۔‘‘

    ’’اس کا چہرہ۔‘‘ تیسرے نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔۔۔ یقیناً وہ ایک بہت خوبصورت بچے کا چہرہ کہا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’وہ کہاں چھپا ہو گا؟‘‘ دانشور کو اپنی غلطی پر غصہ آ رہا تھا۔

    ’’اسے چھوڑ نا مناسب نہیں ہے۔‘‘

    ’’اسے مارنا۔۔۔‘‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔۔۔

    دانشور نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔ ’’کہیں تم سب اس بچے پر رحم تو نہیں کر رہے۔‘‘

    ’’نہیں باس۔ قطعی نہیں۔‘‘

    ’’مگر کیا اسے مارنا۔۔۔‘‘

    دانشور غصے میں گھوم گیا۔ مطلب۔ ’’تم لوگ کہنا کیا چاہتے ہو؟

    ’’بچہ ہے۔‘‘

    ’’بچے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہ ہم اسے اکثریت کا بنا دیں؟‘‘

    ’’اکثریت۔۔۔؟‘‘ دانشور چونک گیا تھا۔

    ’’ہاں۔ دھرم پریورتن۔ بچہ تو پانی ہوتا ہے۔

    دانشور کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ ابھی زیادہ گھنٹے نہیں ہوئے۔ بچہ بھوک پیاس سے بے حال ہو رہا ہو گا۔ وہ یقیناً چھپا اور زندہ ہوگا۔ ہمیں بچے کو تلاش کرنا چاہنے۔

    ’’اور بچانا بھی۔‘‘

    پہلا ابھی بھی مطمئن نہیں تھا۔ کیا وہ وہاں موجود ہوگا۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘

    دانشور نے پرامید لہجے میں کہا۔ فضول کی باتیں نہیں۔ ہم اس مدعے پر بہت باتیں کر چکے ہیں۔

    ’’بچے کی زندگی ضروری ہے۔۔۔‘‘ ٹیلر ماسٹر نے لمبی سانس لی۔

    ’’ہاں، اس کی زندگی بیش قیمت ہے۔۔۔‘‘ یہ پہلا تھا۔

    اس کی زندگی سے، یعنی اب کی زندگی سے۔ نئی زندگی سے بہت کام لینے ہیں۔‘‘ یہ دانشور تھا۔

    محترم قارئین!

    تو یہ سارا کچھ اس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا۔۔۔ اس چھوٹے سے آٹھ سالہ بچے کے لئے، جس کی آنکھیں نیلی تھیں، چہرہ خوبصورت تھا اور جس کا تعلق اقلیت سے تھا۔ تو یہ سب کچھ اس چھوٹے سے بچے کے لئے ہوا، جس کے لئے اکثریت کے بچے نے، بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی اور جو تہذیب کی اس جنگ کے دوران جان، بچانے کے لئے اپنے گھر میں ہی لا پتہ ہو گیا تھا۔ اور یقیناً ایسے بچے کو بچانا ایک اہم فریضہ تھا۔ اور جیسا کہ دانشور نے سوچا، تہذیب کے عروج کے لئے، مذہب کوہی واحد ہتھیار کے طور پر سوچا جا سکتا ہے۔ بچے کا دھرم پریورتن ہو جائے تو۔۔۔

    اور یقیناً یہ ساری جنگ تہذیب کے لئے، تہذیب کے نام پر لڑی گئی تھی۔ اور ان کے سوچنے کا پڑاؤ وہی گندہ نالہ یا تالاب تھا، جہاں انہیں وہ کینکڑا ملا تھا۔۔۔ یا بلوں سے نکلتی برساتی کالی چیونٹیوں کو انہوں نے پاؤں تلے روند دیا تھا۔

    وہ دوبارہ جلے ہوئے مکانوں اور جلی ہوئی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے اس مکان تک پہنچ چکے تھے۔ آسمان پر کووّں اور گدّھوں کی اڑان دور تک دیکھی جاسکتی تھی۔۔۔ ابھی بھی آس پاس کئی مکانوں سے دھوئیں نکل رہے تھے۔

    ’’بچے طاقتور ہوتے ہیں۔‘‘

    دانشور مسکرایا۔۔۔ ہاں‘‘

    ’’اور اسی لئے بچے سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔ عذاب، بارش اور جنگ!‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’بچے مرتے نہیں ہیں‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’بچے مر کر بھی نہیں مرتے ہیں، دانشور پھر مسکرایا۔ ’’اسے آواز لگاؤ۔ کھوجو‘‘

    ’’لیکن ہم پکاریں گے گیا؟

    ’’ہاں یہ مسئلہ تو ہے۔‘‘

    ’’بچہ۔ ہم اسے بچہ کیوں نہیں کہہ سکتے‘‘

    ’’بچے تو سب ہوتے ہیں۔۔۔ اکثریت۔۔۔‘‘ پہلا کہتے کہتے ٹھہر گیا۔

    دانشور کا چہرہ بجھ گیا تھا۔ ’’نہیں‘‘ اسے بچہ کہہ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    ’’پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’پھر۔ سوچتے ہیں۔‘‘

    ’’اُس کی آنکھیں نیلی تھیں‘‘

    ’’ہاں۔

    ’’بال بھورے تھے۔‘‘

    ’’ہاں۔

    ’’نیلی آنکھوں والا بچہ؟‘‘

    ’’یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’بھوری آنکھوں والا۔۔۔؟‘‘

    یہ بھی نہیں‘‘

    وہ شاہزادے جیسا دکھتا تھا؟ کیا شاہزادہ کہہ کر۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ دانشور سنجیدہ تھا۔۔۔ اقلیت پر شہنشاہیت برسوں پہلے ختم کر دی گئی۔ نہ تاج نہ تخت۔۔۔ نہ بادشاہ۔۔۔ نہ شہزادے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن اب تو وہ ہمارے ہو رہے ہیں۔ یعنی دھرم پریورتن۔۔۔‘‘

    ’’اس کے باوجود نہیں۔‘‘

    پھر۔۔۔؟‘‘

    ’’دانشور فیصلہ کر چکا تھا۔ اقلیت۔ یہ نام بہت ہے۔ چلو، ہم اسے اسی نام سے پکارتے ہیں۔‘‘

    ’’اس نے کسی فوجی کی طرح کمانڈر‘‘ کا رول نبھاتے ہوئے کہا۔ ’’ایسا کرو۔ تم اس طرف۔ تم اُس طرف۔ ایک میرے پیچھے پیچھے آئے۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

    باس، الگ الگ ہٹ کر ہم کمزور نہیں ہو جائیں گے۔۔۔ ٹیلر ماسٹر کی آنکھوں میں چمک تھی۔

    ’’پوائنٹ‘‘

    ’’اس طرح تو بچہ ہم پر حملہ بول سکتا ہے۔ وہ آٹھ سال کا ہے۔ آٹھ سال کے بچے کا دماغ انتہائی شیطان کا اور سازش سے بھرا ہوتا ہے۔‘‘

    ’’پوائنٹ‘‘

    ’’سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ بچہ سب کو ایک ساتھ دیکھ کر ڈر جائےگا۔‘‘ یہ بھی ٹیلر ماسٹر تھا۔۔۔

    ’’بچے کو ڈرانا نہیں ہے۔۔۔ بچانا ہے۔۔۔‘‘ دانشور کا چہرہ غصے سے پیلا پڑ گیا۔ چلو دیر مت کرو۔ تلاش کرتے ہیں۔ اقلیت۔۔۔ اقلیت۔ بیٹے۔۔۔؟

    ’’اقلیت۔۔۔‘‘

    ’’میرے اقلیت۔۔۔‘‘

    ’’اقلیت ڈارلنگ۔۔۔‘‘

    وہ بچے کو تلاش کر رہے تھے۔ گھر کی کوئی شئے سلامت کہاں تھی۔ زمین سے قالین، دیوار سے لے کر کمرے اور کمرے کے مہنگے سامان۔۔۔ لاش کی ہڈیاں کتے، گدھ اور کوے کھا چکے تھے۔ سامانوں کے جنازے بکھرے تھے۔۔۔ ٹوٹے ہوئے کھنڈر میں ان کی ملی جلی آوازیں باز گشت کر رہی تھیں۔

    ’’اق۔۔۔ لیت۔۔۔‘‘

    ’’میرے بچے اقلیت۔۔۔

    ’’یہاں تو کوئی نہیں ہے۔‘‘

    ’’اوپر۔ اوپر دیکھتے ہیں۔‘‘

    ’’بالائی منزل کی سیڑھیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔‘‘

    دانشور کی چیخ نکل گئی۔۔۔ ’’سنبھل کر آنا‘‘

    پہلا چیخا۔ ’’سربچاؤ۔

    چھت کا ایک چھوٹا سا حصہ بھڑ بھڑا کر تیز آواز کے ساتھ گرا۔۔۔

    دانشور مطمئن تھا۔ بچہ اوپر نہیں ہو سکتا۔‘‘

    دوسرے کا خیال تھا۔ چھت بُری طرح بیٹھ چکی ہے۔ یعنی ایک کوّا بیٹھنے کے تصور سے بھی۔۔۔ بچہ کا چھپنا تو دور کی چیز ہے۔‘‘

    ’’کیا بچہ اسی گھر میں ہو گا۔؟‘‘ ٹیلر ماسٹر نا امید تھا۔۔۔ ’’یعنی وہ بھاگ کر کہیں اور بھی تو پناہ لے سکتا ہے۔ کہیں اور۔۔۔‘‘

    دانشور مطمئن تھا۔ ’’بچہ کہیں اور پناہ لے ہی نہیں سکتے۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’کیونکہ آندھی تیز تھی۔ درخت سارے گر گئے تھے۔‘‘

    دانشور اپنے جواب سے مکمل طور پر مطمئن تھا۔ ایسی صورت میں بچے کے سامنے اس کھنڈر میں چھپنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔‘‘

    ’’آگے اندھیرا ہے۔‘‘

    ’’ٹارچ۔ ٹارچ نکالو۔‘‘

    اُن میں ایک نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹارچ نکالا۔ ٹارچ نکالتے ہوئے پھپھسایا۔۔۔ ’’سنتے ہیں، کچھ ملک ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں رات ہی رات ہوتی ہے، دن نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’باس یہاں بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔‘‘

    دانشور کا لہجہ غصے سے بھرا تھا۔۔۔ ’’ہم ایک نیک مقصد کے لئے۔۔۔ سمجھ رہے ہونا، بچے کو بچانے کے لئے۔،

    ’’وہ زندہ ہوتا تو ہماری آواز ضرور سنتا۔‘‘

    ’’وہ زندہ ہے اور یقیناً ہماری موجودگی سے گھبرایا ہوا ہے۔‘‘

    ’’اقلیت۔۔۔‘‘

    ’’اقلیت بیٹے۔۔۔‘‘

    مائی ڈارلنگ اقلیت،

    آواز لگاتے ہوئے، وہ ایک بار پھر آگے بڑھ رہے تھے۔ آگے، ٹوٹے ہوئے کھنڈر کے ملبے میں۔۔۔ دروازے، کھڑکیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے۔ کہ اچانک۔۔۔

    ’’کوئی ہے۔‘‘ آواز گونجی

    ’’ٹارچ۔‘‘

    ’’کوئی ہے۔۔۔‘‘ دانشور اندر ہی اندر خطرے کے سائرن‘‘ کے طور پر کانپ گیا تھا۔ پہلے نے ٹارچ جلایا۔۔۔‘‘

    دوسری آواز اٹھی۔۔۔ بچہ ہے۔‘‘

    ’’کہتا تھا، نا۔۔۔‘‘

    ٹارچ کی روشنی ٹوٹے ہوئے لاہوری اینٹے، بھربھرائی مٹی سے ہوتی ہوئی بچے کے چہرے پر ٹھہر گئی ہے۔۔۔

    ’’باس۔۔۔‘‘

    ٹیلر ماسٹر نے چیخ کر کیا۔۔۔ ’’باس بچہ ہی ہے۔‘‘

    ’’اوہ گاڈ۔‘‘

    دوسری آواز آئی۔ ’’بچے کی نبض دیکھو۔‘‘

    ’’کوئی ضرورت نہیں باس۔‘‘

    ٹیلر ماسٹر کی آواز گونجی۔۔۔ ’’بچے کی پیٹھ میں گولیاں لگی ہیں۔‘‘

    پہلے نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔۔۔ بچہ مر چکا ہے۔

    دوسرا ٹارچ کی روشنی میں بھیانک بدبو دیتے ہوئے بچہ کی لاش پر جھک گیا۔ ’’بچہ کو مرے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔‘‘

    محترم قارئین!

    کہانی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن یقیناً کچھ باتوں کا قیاس لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے لوٹتے وقت یہ بہت مایوس رہے ہوں گے۔ ممکن ہے بچے کو نہیں بچا پانے کی صورت میں۔ یا اس سے زیادہ، ممکن ہے، دھرم پریورتن کے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا پانے کی صورت میں۔۔۔ یا ممکن ہے۔

    کوئی اچھا سا قیاس آپ بھی کیوں نہیں لگا لیتے۔

    لوٹتے ہوئے ان کے چہرے جذبات سے عاری تھے اور ایسے چہروں کا فائدہ ہے کہ آپ کچھ بھی قیاس لگا سکتے ہیں۔

    لیکن قارئین، سب سے ضروری جو بات ہے، وہ یہی ہے۔ کہ یہ وہی تھے جو سابر متی آشرم سے دلی کے آشرم چوک تک۔۔۔

    اور جو انسانی فضا میں، انسانی گھر میں۔ انسانی کمرے میں۔۔۔ اور انسانی عمل کے دوران۔۔۔ کیا اب بھی آپ کو یقین نہیں ہے کہ یہ ’’کئی‘‘ کبھی پیدا بھی ہوئے ہونگے۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے