Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لیڈیز ٹیلر

ثمینہ نذیر

لیڈیز ٹیلر

ثمینہ نذیر

MORE BYثمینہ نذیر

     

    مقام: کراچی
    زمانا: موجودہ دور
    موسم: برسات

    کردار
    شوکت الٰہی: ۳۸ سالہ مرد، شریف، نمازی، درزی۔ انٹر پاس، یتیم، والدنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ درزی کا کام سکھادیا۔ قناعت پسند ہیں۔ خوش رہتے ہیں۔ 

    صرف مہدی حسن کی غزلیں سنتے ہیں۔ کبھی کبھار کلاسیکی موسیقی بھی۔ ایک آدھ دوست ہے۔ زیادہ تر گفتگو دکان پر بیٹھے لڑکے سے کرتے ہیں، جو اُن کا ہاتھ بھی بٹاتا ہے اور اُن کا ہمراز بھی ہے۔ ڈیفنس کے متوسط علاقے کے مکان میں رہتے ہیں، جو مرحوم والد ترکے میں دے گئے اور اُسی کے باہر والے کمرے میں درزی خانہ ہے۔ محلے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ 

    حورشمائل: ۲۲۔ ۲۱ سالہ، نہایت شوخ اور بے باک لڑکی۔ بات بے بات ہنسنا، مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا، زور زور سے گانے گانا اس کی عادات ہیں۔ انٹر میں فیل ہوچکی ہے۔ اب محلے میں لڑکوں سے چکر چلا کر تحفے تحائف اینٹھنا، فلمیں دیکھنا اور بازار جانا اُس کی زندگی ہے۔ گھر سے بیزار ہے۔ 

    ہیرو: ۱۸۔ ۱۷ سالہ لڑکا، شوکت کا شاگرد، غریب گھر کا لڑکا، کام اچھا کرتا ہے اور ہر وقت FM پر انڈین گانے سننا اُس کا مشغلہ ہے۔ ایک آدھ لڑکی سے افیئر چلا رکھاہے۔ اتوار کی چھٹی کی ضد لگا رکھتا ہے۔ شادیوں میں جانے اور وہاں کھانا کھانے کا بہت شوقین ہے۔ بہت عامیانہ زبان بولتا ہے۔ 

    فاطمہ بی: رشتے لگانے والی مشاطہ۔ خاصی غریب، ندیدی قسم کی، لیکن دل کی اچھی ہیں۔ شوکت کو اکیلا دیکھ کر اُس کی شادی کی جستجو میں رہتی ہیں۔ برقعہ اوڑھتی ہیں اور عادتاً ذرا جھک کر چلتی ہیں۔ ہاتھ میں ہر وقت لڑکے لڑکیوں کا ایک البم رکھتی ہیں۔ 

    منظر۔ ۱
    ’’اسٹیج دو حصوں میں منقسم ہوگا۔ دائیں جانب درزی خانہ، بائیں جانب شوکت کا کمرہ۔ 

    پردہ اٹھتا ہے صراحی، مٹی کا پیالہ، پرانا صندوق۔ بستر، رضائی سب سلیقے سے سجے ہیں۔ اسٹیج کے دائیں جانب درزی خانے کا سیٹ اپ ہے۔ اس کے اوپر شوکت لیڈیز ٹیلر کا بورڈ، جس پر ’’غرارہ، آڑھا پاجامہ ایکسپرٹ، وقت پر کام دینے کی ضمانت‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اسٹیج پر نیم تاریکی میں شوکت ایک پلنگ پر گہری نیند سوتے ہوئے کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ اوسط درجے کا کمرہ ہے۔ اس میں ایکmannequinنمایاں ہیں جن پر بھاری زنانہ لباس نظر آتے ہیں۔ چہرا آنچل سے ڈھکا ہواہے۔ 

    شوکت پلنگ پر سو رہا ہے۔ شاید خواب دیکھتے ہوئے مسکرارہا ہے۔ بیک گراؤنڈ سے ٹھمری۔۔۔ ’’لٹھ اُلجھی سلجھا جارے بالم۔۔۔ میں ناں لگاؤں گی ہاتھ‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اور دو بیٹ کے بعد اذان فجر بلند ہوتی ہے۔ جس سے شوکت ہڑبڑا کر جاگتا ہے۔ اور ایک کونے میں جاکر وضو کرنے لگتا ہے۔‘‘ 

    شوکت: (مسکرا کر) حور شمائل۔۔۔!کتنا خوبصورت خواب تھا۔ اور تم کس قدر شرمیلی۔ 

    ’’پھر لاوحول ولا قوۃ کہہ کر وضو کرنے لگتا ہے۔۔۔ پس منظر سے لڑکی کی ہنسی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ نماز ادا کرکے نعت پڑھتے ہوئے شوکت ناشتہ کی تیاری میں ہیں کہ ہیرو اندر آتا ہے‘‘ 

    ہیرو: السلام علیکم ماسٹر صاحب!

    شوکت: وعلیکم السلام۔۔۔ مجھے معلوم تھا تم ہی ہوگے۔ 

    ہیرو: (منہ بناکر) اور کون آئے گا اتی صبح۔ قسم اللہ کی استاد تم تو جوانی کی نیند سونے (انگڑائی لے کر) بھی نہیں دیتے چین سے۔ 

    (شوکت ناشتے میں مشغول ہیں) 

    اور تم پر تو لگتا ہے جوانی کبھی آئی ہی نہیں۔۔۔ چابی۔۔۔؟ 

    شوکت: (کھاتے کھاتے چابی کے گچھے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہیرو وہاں سے اٹھالیتاہے) آؤ ناشتہ کرلو، ایک پراٹھا تمہارے لیے بھی بنایا ہے۔ 

    ہیرو: نہ بھئی مجھے بھوک نہیں۔ اتی صبح صبح تو میں کھا ہی نہیں سکتا۔ قسم اللہ کی استاد! محلے کی ساری دکانیں ۱۲ بجے کھلتی ہیں۔۔۔ سوائے ایک ناگوری ملک کے۔۔۔ 

    شوکت: (بات کاٹ کر) اور رحمت ٹیلرز اینڈ son کے۔ 

    ہیرو: (منہ بگاڑ کر) رحمت ٹیلرز نہیں رحمت اسکول کہیے۔ اسکول سے بھاگا تو یہاں آکر پھنسا۔۔۔ نیند سالی آئے جارہی ہے۔ (منہ پھاڑ کر جمائی لیتا ہے۔ شوکت برتن اٹھا کر باورچی خانے کی طرف جاتے ہیں) 

    شوکت: (رک کر) نہا کر آئے ہو ناں؟ 

    ہیرو: ہاں ہاں۔ لو سونگھ لو۔ لال صابن سے۔ کتی دفعہ اماں کو بولا ہے ذرا اچھا والاصابن لادو۔۔۔ مان کے نہیں دیتی۔ (اسٹائل سے کہتا ہے) ’’ذرا سا لکس۔‘‘ 

    شوکت: (ہنس کر) چلو میں منگوا دوں گا اچھا والا صابن۔ ہاں آج صفائی ذرا ٹھیک سے کرنا۔ کترنیں بہت جمع ہوگئی ہیں ان کو الگ ڈرم میں ڈالنا۔ میں ہانڈی چڑھا کر ابھی آیا۔ 

    ہیرو: (منہ میں پانی لاکر) استاد۔۔۔ کیا بنارہے ہو آج؟ گوشت ناں؟ 

    شوکت: لوکی۔۔۔ 

    ہیرو: (منہ بناکر) صرف لوکی؟ ذرا سا گوشت اس میں چھڑک دو۔۔۔ کیا جاتا ہے تمہارا؟ اچھا ہڈی والا گوشت ڈال لو۔ بچھیا کا۔ قسم اللہ کی لائف بن جائے گی۔ 

    شوکت: (ہنس کر) اچھا چلو لوکی گوشت بنالیتا ہوں۔ آج دیر تک کام کرنا ہے۔ 

    ہیرو: (جاتے جاتے) استاد کام سے میں نہیں گھبراتا بس کھانا tight مل جائے تو کیا بات ہے۔۔۔ ہاہاہا۔ (چلا جاتا ہے) 

    ’’اب اسٹیج کے دائیں طرف روشنی ہوتی ہے اور درزی خانے کا سیٹ اپ نمایاں ہوتا ہے جہاں ہیرو کوئی چھچورا سا گانا کیسٹ پلیئر پر سن رہا ہے: ’’انارکلی ڈسکو چلی‘‘ 

    شوکت: ہیرو! اتنی پیاری صبح اور ایسا واہیات گانا؟ بند کرو۔۔۔ 

    ’’ہیرو آواز دھیمی کرتا ہے‘‘ 

    شوکت: میں نے کہا بند۔۔۔ اور میرا کیسٹ ذرا rewind کرو۔ یہ اگر بتی لگالوں تو شروع کردینا۔ 

    ’’ایک جگہ اونچے سے شیلف پر قرآن رکھا ہے، شوکت اگر بتی سلگاکر، کشادگی رزق کی دعا مانگتے ہیں، سب کے لیے، اور پھر ہاتھ پھیر کر اپنی میز کے پاس آجاتے ہیں‘‘ 

    ہیرو: استاد! اُدھر اجتماع میں مولانا کہہ رہے تھے کہ یہ (اگربتی کی طرف اشارہ کرکے) یہ ہندؤوں کی ہے۔ 

    شوکت: (مذاق اڑا کر) کیا؟ اچھا یہ اگر بتی ہندو ہے؟ اور چراغ مسلمان؟ اور اور موم بتی عیسائی۔۔۔ ہاہاہاہا۔ 

    ہیرو: میرا مطلب ہے ہندوؤں کی رسم ہے۔۔۔ 

    شوکت: تو کیا بری ہے؟ یہ ناچ گانے اور بے ہودہ اشعار والے چھچورے گانوں سے تو بہتر ہے۔ تم اور یہ (ریڈیو کی طرف اشارہ کرکے) اس سے اپنے دن کا آغاز کرو اور ہم اللہ اللہ کرکے۔۔۔ اس اگربتی سے۔ کم از کم خوشبو تو دیتی ہے۔ 

    ’’ہیرو ایک شرٹ لاکر دکھاتا ہے‘‘ 

    شوکت: یہ گلے کی پٹی کھینچ کر ترپائی کرو۔ ورنہ جھول آجائیگا۔ 

    ہیرو: اچھا۔ (منہ بناکر) استاد مارکیٹ میں سب گلے دامن پر مشین کی ڈبل سلائی کرکے، فارغ کرتے ہیں، گاہک کو۔ ایک تم ہی ہو۔۔۔ باریک ٹانکہ، نفیس ترپائی۔۔۔ اونہہ۔ 

    شوکت: اگر سب نے لوٹ کھسوٹ مچا رکھی ہے تو میں بھی شروع ہوجاؤں؟ 

    نہیں ہیرو۔ مجھے کسی بات کی جلدی نہیں۔ 

    ہیرو: (آہستہ سے) مجھے تو ہے استاد۔ 

    شوکت: (کپڑا ناپ کر کاٹتے ہوئے) کس بات کی؟ 

    ہیرو: (مسکرا کر) بڑا آدمی بننے کی۔ وہ ٹی وی پر دیکھونا کیسے کیسے لوگوں کے شو آتے ہیں۔۔۔ وہ دیپک پروانی۔۔۔ اور وہ۔۔۔ 

    شوکت: (ہنس کر) دیپک پروانی؟ ہندو ہے۔ ہندؤں کی تقلید کرو گے؟ 

    ہیرو: (منہ بناکر) وہ تو منہ سے نکل گیا۔ مولانا جنید جمشید بھی ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ 

    شوکت: ہیرو، ان سب نے وقت لگایا ہے۔ اپنے کام سے، اپنے فن سے محبت کی ہے۔ (سوچ کر) کھیل سارا محبت کا تو ہے۔ 

    ہیرو: (ہنس کر) ہاہاہا۔ استاد، تم اور محبت۔۔۔؟ لیڈیز ٹیلر ہو اور لیڈیز سے دور بھاگتے ہو۔۔۔ تم کیا جانو محبت کیا ہے۔۔۔ ہاہاہا۔ 

    ’’شوکت کو آج صبح کا خواب یاد آتا ہے، جب ایک پاکیزہ سا ہیولا عبادت میں مصروف تھا۔۔۔ شرمیلی سی مسکراہٹ سے چپ ہوجاتے ہیں‘‘ 

    ہیرو: ایک سے ایک tight لڑکی یہاں آتی ہے۔ مجال ہے جو تم ایک سے دوسرا جملہ بول لو۔۔۔ (آہستہ سے) کم از کم ناپ ہی لے لیا کرو۔ 

    (نقل اتار کر) کیا ڈیزائن رکھوں؟ ناپ کی شرٹ لائی ہیں؟ دو ہفتے بعد کپڑے ملیں گے۔ سادے کے چارسو روپے اور ڈیزائن کے چھ سو۔۔۔ لو جی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ 

    شوکت: (کپڑا کاٹتے ہوئے) تو اور کیا۔۔۔ زیادہ بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ عورتیں اپنے اپنے گھروں کی شمع ہیں۔ ان کا اُجالا ان کے آنگن تک ہی رہنا چاہیے۔ 

    ہیرو: (پھر ہنستا ہے) کیا جوک مارا ہے۔۔۔ شمع۔۔۔ ہاہاہا۔ استاد۔ یہ شمع آجکل سرچ لائٹ بن گئی ہیں۔ ان کے ایسے ایسے message آتے ہیں فون پر۔ پڑھ لو تو۔۔۔ تو قسم اللہ کی تم تو حج پر نکل جاؤ۔ 

    شوکت: (ڈانٹ کر) تم آج زیادہ نہیں بتیا رہے ہو؟ چپ کرکے کام کرو۔ اور میرا گانا کیوں نہیں چل رہا۔۔۔ (ملکہ پکھراج کی آواز میں غزل سننا چاہتے ہیں۔ گنگنانے لگتے ہیں) ’’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔۔۔ کیا کلام ہے علامہ اقبال کا۔ 

    ہیرو: (منہ بناکر) وہ کیسٹ ادھر اُدھر ہوگیا استاد۔ 

    شوکت: ڈھونڈو فوراً۔ 

    ہیرو: (ایک اٹھا کر) یہ لگادوں استاد؟ Hot girls۔۔۔ 1980 کل ہی لا یا تھا۔ آپ کے زمانے کی ہیں۔ سری دیوی۔ مادھوری۔۔۔ 

    شوکت: لاحول۔۔۔ میں نے تو کبھی انڈین کیا پاکستانی فلم نہیں دیکھی۔ 

    ہیرو: (منہ کھول کر) ہیں؟ سچی؟ ہاں آں۔۔۔ آپ ضرور ایسا کرسکتے ہو۔ 

    ’’شوکت بھی آکر وہ چھپایا ہوا کیسٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ساتھ گٹکے کی پڑیا بھی مل جاتی ہے۔ کیسٹ لگا کر ہیرو کو گھورنے لگتے ہیں۔ ہیرو جھینپ کر سلائی میں مصروف ہوجاتا ہے۔ شوکت کچھ کہنے کو منہ کھولتے ہیں کہ ہیرو بولتا ہے:‘‘ 

    ہیرو: اب اس پر صبح صبح بھاشن میں نہیں سنوں گا۔ 

     ’’ملکہ پکھراج گا رہی ہیں: 

    ’’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 

    میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘ 

    ہیرو: (میوزک کو اشارہ کرکے) ادھر یہ بڑھیا رو رہی ہے، رات بھر کا جاگا ہوا الگ ہوں، چائے تک تو پی نہیں۔۔۔ اب تم بولو گے گٹکا ایسا، ویسا۔۔۔ (اندر چلا جاتا ہے) 

    شوکت: (مسکرا کر ہیرو کو دیکھتے ہیں) چلو میں تمہارے لیے چائے پراٹھا لاتا ہوں۔ 

    ’’حور شمائل بہت ادا کے ساتھ محلے سے گزر کر وہاں دکان پر آتی ہے‘‘ 

    حور: (اس کی آواز سن کر شوکت مڑتے ہیں) ماسٹر صاحب یہ سوٹ ارجنٹ سلوانا ہے۔ سی دو گے ناں؟ (کپڑا نکال کر میز پر رکھتی ہے) بڑی تعریف سن رکھی ہے، خالہ کبری سے، کہ ماسٹر شوکت جیسی فٹنگ تو ڈیفنس کے بوتیک والے بھی نہیں کرسکتے۔ 

    شوکت: ہوں۔۔۔ (کپڑا دیکھتے ہوئے۔ نظریں نیچے کرکے) 

    حور: ناپ لیں۔۔۔ ناپ لیں پورا ہے، پانچ میٹر۔ کمینہ گز ناپ رہا تھا، میں نے کہا میٹر میں دینا ہے تو دو ورنہ بینڈ بجادوں گی۔ دیکھیں تو پیور سلک ہے اور یہ دامن پر۔۔۔ جاما ور لگے گی۔۔۔ دوپٹہ پیکو کروادینا ضرور۔ یہاں یہ بیل۔۔۔ (جانے لگتی ہے) 

    شوکت: (روک کر) رک جائیں محترمہ۔۔۔ کپڑا تو ناپ لوں۔۔۔ 

    حور: ہائے اللہ۔۔۔ ٹائم کہاں ہے۔ مجھے کل صبح پہننا ہے ورنہ اکمل میری جان نکال (آہستہ سے مسکرا کر) دے گا۔ 

    ’’ماسٹر کپڑا ناپ رہے ہیں، ہلکا سا چونکتے ہیں‘‘ 

    حور: اُسی کم بخت نے دلایا ہے یہ۔۔۔ پورے تین ہزار کا ہے۔ گلا اور بیل الگ خریدی ہیں۔ کل کتنے بجے آجاؤں لینے؟ 

    شوکت: (نظریں نیچی) کل؟ (کپڑا دوبارہ تھیلے میں ڈال کر) یہ گلی میں سیدھی چلی جائیں وہاں ٹینا فیشن نام کا بوتیک ہے۔ وہ سیتے ہیں ارجنٹ۔ تین گنا زیادہ سلائی لے کر۔ 

    حور: (اطمینان سے) میں پہلے وہیں گئی تھی۔ (منہ لٹکا کر) اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ 

    شوکت: (جل کر) اکمل صاحب سے لے لیں۔ (کہہ کر پچھتاتے ہیں کہ کیا کہہ دیا) 

    حور: (اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر) ہائے مر نہیں جائے گا کمینہ۔۔۔ تین ہزار کا جوڑا، تین ہزار سلائی۔۔۔ پھر ڈیٹ پر جائیں گے تو کھانا پینا، فلم۔۔۔ کل ڈیٹ ہے میری (اترا کر) 

    شوکت: (سادگی سے) جی ڈیٹ؟ کیا کسی کی شادی کی ڈیٹ طے ہوگئی ہے کل؟ 

    حور: (زور سے ہنستی ہے) ماسٹر۔۔۔ آپ واقعی اتنے بھولے ہو کہ بن رہے ہو؟ ڈیٹ۔۔۔ بھئی ڈیٹ۔۔۔ (شرارت سے) ڈیٹ کیا ہوتی ہے۔۔۔ دیکھیں میں بتاتی ہوں آپ کو۔ جب لڑکا اور لڑکی چکر چلاتے ہیں تو پھر۔۔۔ باہر جاکر ملنا ملانا تو پڑتا ہی ہے۔ ہے ناں؟ (شوکت خاموش) تو وہ باہر جاتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، پیار بھری باتیں کرتے ہیں، کچھ شاپنگ کرتے ہیں بس یہ ہی ڈیٹ ہوتی ہے۔ 

    شوکت: (زور سے آواز دے کر) ہیرو۔۔۔ ہیرو۔۔۔ جلدی آؤ۔ 

    (تھیلا حورشمائل کو دے کر) یہ اٹھایے اور جہاں جانا ہے جایے۔ مجھے آپ کے کپڑے نہیں سینا۔ لاحول ولاقوۃ۔۔۔ 

    ’’اتنے میں حورشمائل کے ہاتھوں پر نظرپڑتی ہے اور پھر پیروں پر۔ کیسٹ میں دوسری غزل شروع ہوجاتی ہے: ’’جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں۔۔۔ خراماں خراماں ارم دیکھتے ہیں‘‘ حورشمائل کی انگلی میں وہی انگوٹھی ہے جو خواب میں دیکھی تھی۔ اور پیروں میں وہی پازیب، جو اُن کا ایمان لوٹ لیتی ہے۔ حورشمائل بیٹھی بے نیازی سے ٹانگ ہلائے جارہی ہے۔ ہیرو گرتا ہوا آتا ہے۔‘‘ 

    ہیرو: کیا ہوا اُستاد؟ کیا ہوا۔۔۔؟ 

    حور: (تنک کر) تم انہیں استاد کہتے ہو؟ ان کو تو (نخرے سے) شاگرد بنانے کا جی کررہا ہے۔ نہ ان کو پیار کا پتہ ہے نہ ڈیٹ کا۔۔۔ (ہیرو اُس کو چپ کرانا چاہتا ہے وہ بولے جاتی ہے) ہیرو! ان کو تو لے جاکر کسی میوزیم میں رکھ دو۔ ارے یہ ٹیلر کم مسجد کے امام زیادہ لگتے ہیں۔ سوچو ذرا۔۔۔ پورے محلے میں حورشمائل کو کوئی منع کرسکتا ہے؟ (نام سن کر شوکت چونک جاتے ہیں، حور شمائل) سارے لڑکے، جوان، بڈھے مرد سب کے سب آگے پیچھے پھرتے ہیں میرے۔۔۔ اور یہ صاحب۔۔۔ (تپ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔) 

    ’’ہیرو سہم جاتا ہے کہ آس پاس کے لوگ ہنسیں گے کہ اتنے میں شوکت بول پڑتے ہیں‘‘ 

    شوکت: ناپ کی قمیض لائی ہیں؟ 

    حور: (جاتے جاتے رک جاتی ہے۔ خوش ہوکر) یہ ہوئی ناں بات۔۔۔ وہ تو نہیں لائی۔۔۔ (اپنا دوپٹہ ہٹاتے ہوئے) ناپ ابھی لے لیں۔ کمر کو ذرا tight رکھیں اور بھئی مجھے تو زِپ والی فٹنگ چاہیے۔ گلا آٹھ رکھیے گا، آٹھ۔۔۔ 

    ہیرو: (آنکھیں پھیلا کر) آٹھ۔۔۔؟ حورشمائل بہت نہیں ہوگا یہ؟ 

    حور: (ہیرو کو) تم بہت فری ہورہے ہو۔۔۔ باجی کہو فوراً۔۔۔ خاصے چھوٹے ہو مجھ سے۔ اکمل کا gym ہے، معلوم نہیں کیا تمھیں؟ پورے محلے میں کسی مرد کی ایسی باڈی نہیں ہے۔ 

    ہیرو: (منہ لٹکا کر) جی۔۔۔ باجی۔ 

    شوکت: میں ناپ نہیں لیتا۔ جوڑا سی دوں گا رات تک۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ناپ کی قمیض گھر سے بھجوا دیں۔ شلوار کی لمبائی؟ 

    ہیرو: (جلدی سے) چالیس۔۔۔ (کھسیا کر) باجی کافی tall ہیں۔ 

    حورشمائل: ہاں ہاں۔ منظور۔۔۔ ہیرو میرے ساتھ چلو۔ ابھی قمیض دیتی ہوں لاکر۔۔۔ مولانا صاحب کو دے دینا۔ 

    ہیرو: (ڈر کر) اُستاد جاؤں؟ 

    شوکت: جاؤ۔ مگر فٹا فٹ لے آنا۔ 

    حور: جو قمیض بھجوارہی ہوں وہ ذرا loose ہے۔۔۔ یہاں سے (کمر کو چھوکر) 

    ’’شوکت دیکھتے ہیں اور پھر نظریں جھکا کر درود پڑھنے لگتے ہیں‘‘ 

    حور: تو دو انچ کم رکھیے گا۔ (دوپٹہ اٹھا کر اوڑھ لیتی ہے، پورا سر سے) 

    اوہ باہر دھوپ کتنی ہے۔ (cheap سا دھوپ کا چشمہ لگالیتی ہے) 

    ابھی پارلر بھی جانا ہے۔ face polish لگے گی۔۔۔ چلو ہیرو۔ (ہیرو جانے لگتا ہے) اصل میں کل میری برتھ ڈے ہے۔ دیکھو اکمل کیا گفٹ لے کر آتا ہے۔ 

    ہیرو: (جاتے جاتے) اسمارٹ فون مانگ لیتیں۔۔۔ نیا والا ماڈل۔ 

    شوکت: استغفار استغفار۔۔۔!

    ’’دونوں چلے جاتے ہیں۔۔۔ شوکت گڑبڑا کر صراحی سے غٹاغٹ دو کٹورے پانی پی جاتے ہیں۔ اذان ظہر بلند ہوتی ہے۔‘‘ 

    منظر۔ ۲
    ’’دوکان پر دونوں کام کررہے ہیں۔ FM ریڈیو بج رہا ہے۔ گانا چل رہا ہے۔۔۔ ’’گندی بات۔۔۔ اب کروں گا گندی بات‘‘ شوکت پلٹ کر ہیرو کو گھورتے ہیں اور وہ جلدی سے کیسٹ آن کر دیتا ہے۔ مہدی حسن کی غزل: ’’دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے‘‘ بجنے لگتی ہے۔ ہیرو منہ بناتا ہے، شوکت مسکراتے ہیں۔ شوکت ایک مرتبہ اُس پیکٹ پر نظر ڈالتے ہیں جس میں سے سلا ہوا جوڑا جھلک رہا ہے اور کام کرتے رہتے ہیں بے نیازی سے، کہ فاطمہ بی آتی ہیں۔‘‘ 

    فاطمہ: توبہ! توبہ! کیا گرمی ہے میاں۔۔۔ توبہ توبہ!

    شوکت: (خوش دلی سے) سلام فاطمہ بی۔ 

    فاطمہ: وعلیکم السلام۔۔۔ (پسینہ پونچھ رہی ہیں) کیسے ہو میاں شوکت؟ تمہارے گھر کے بیسیوں چکر کاٹ چکی ہوں۔ ہر وقت تالا میرا منہ چڑاتا ہے۔ ہوتے کہاں ہو آخر؟ 

    شوکت: عشا تک یہاں ہوتا ہوں فاطمہ بی۔۔۔ پھر مسجد۔۔۔ پھر۔۔۔ 

    ’’ہیرو سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھتا ہے کہ شوکت کہاں جاتے ہیں رات کو۔۔۔ پھر کام میں مگن ہوجاتا ہے‘‘ 

    فاطمہ: بیٹا۔۔۔ گرمی بہت ہے۔۔۔ 

    شوکت: (سادگی سے) ہاں وہ تو ہے۔ ہیرو ذرا پنکھا اماں کی طرف کردو۔ 

    فاطمہ: (ذرا چڑ کر) ارے بیٹا۔۔۔ حلق میں کانٹے پڑ رہے ہیں۔ 

    ’’شوکت جھٹ صراحی سے ٹھنڈا پانی انڈیل لیتے ہیں‘‘ 

    فاطمہ: جی، (منہ لٹکا کر پانی لے لیتی ہیں) جزاک اللہ۔ اگر لال شربت ہوتا تو کیا بات تھی۔ 

    شوکت: گھر پر آؤ گی تو وہاں لال شربت پلادوں گا۔ یہاں۔۔۔ 

    فاطمہ: (جلدی سے) اے ہیرو، جلدی سے ٹھنڈی بوتل پکڑ لا۔ استاد کہہ رہے ہیں اور تو بہرا بنا بیٹھا ہے۔ 

    ہیرو: (اٹھ کر پاس آتا ہے) دو لاؤں کہ تین۔۔۔؟ 

    شوکت: میں نہیں پیتا یہ فضول بوتل ووتل۔۔۔ دو لے آؤ۔ 

    ’’شوکت پیسے دیتے ہیں۔ ہیرو بھاگ کر جاتا ہے۔ فاطمہ بی دوچار لڑکیوں کی تصاویر لیے بیٹھی ہیں۔ ایک ہاتھ میں پانی ہے جسے گھونٹ گھونٹ پی رہی ہیں۔‘‘ 

    فاطمہ: ارے دیکھ تو لو ڈھنگ سے۔ عقل کے اندھے۔۔۔ 

    شوکت: (مسکرا کر) کیا دیکھوں۔ سب لڑکیاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ سب کی ایک صورت۔ اصل عورت تو سیرت سے بنتی ہے۔ 

    فاطمہ: افوہ! تمہاری تو چھب ہی نرالی۔ لوگ گوری رنگت، لمبا قد، لمبے بال، بھرے گال، پتلی کمر جانے کیا کیا مانگتے ہیں۔ مال جہیز الگ۔ اور تم۔۔۔ (ہیرو بوتل لے آتا ہے۔ شوکت کے پاس کان لاکر) اے میاں، کوئی ازدواجی عیب وغیرہ تو نہیں ہے؟ (ہیرو کھیں کھیں ہنسنا شروع ہوجاتا ہے) جولڑکیوں سے یوں کنّی کتراتے ہو۔ 

    شوکت: (ہڑبڑا کر) جی نہیں! فاطمہ بی، آپ۔۔۔ نہایت۔۔۔ (قابو پاکر) آپ بوتل پی کر چلیے۔۔۔ کبھی گھر پر آیے گا۔۔۔ کسی اتوار کو۔۔۔ 

    ’’حور شمائل بازار سے گزرتی لہراتی بل کھاتی آرہی ہے۔ محلے کے منچلے اُسے چھیڑ رہے ہیں، اور وہ اُن سب کو شوخی سے ٹھنڈا کرتی ہوئی شوکت کی طرف آرہی ہے۔ لہراتی ہوئی ایک دم سے شوکت کے قریب آکربات کرتی ہے۔‘‘ 

    حور: (ادا سے) شوکت جی! سوٹ سل گیا شوکت جی؟ 

    فاطمہ: (فاطمہ بی دانتوں میں انگلی دبائے دیکھ رہی ہیں) بدتمیز لڑکی۔ نا سلام نہ دعا۔ برقعے میں بیٹھی فاطمہ بی نظر نہ آئی۔ مردوا فوراً تاڑ لیا؟ 

    حور: سوری، سلام! آپ کو دیکھا نہیں!Actually دھوپ میں مجھے کالے لوگ نظر نہیں آتے۔ 

    فاطمہ: (تنتناکر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ برقعہ سنبھال کر) افوہ! میں کالی؟ واہ واہ۔۔۔ ہاں میں ہوں کالی۔۔۔ مگر تمہاری طرح بدذات نہیں۔ نہ گھر کی نہ گرہستی کی، تھو! ادھر اُدھر منہ مارتی بلی۔۔۔ آوارہ!

    ماں باپ کا پتہ نہیں اور بدتمیزی دیکھو۔۔۔ میرے منہ کو آتی ہے۔ (جاتے جاتے) میاں ذرابچ کے رہنا۔ (برقعہ اوڑھ کر نکل جاتی ہیں) 

    ’’ہیرو ماحول ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی بوتل حور شمائل کو آفر کردیتا ہے جو وہ فوراً پی جاتی ہے‘‘ 

    شوکت: (سادگی سے) آپ ان کی (فاطمہ بی کی طرف اشارہ کرکے جو کہ جاچکی ہیں) ان کی باتوں کا برا مت مانیے گا۔۔۔ یہ ذرا بس۔۔۔ منہ پھٹ ہیں۔۔۔ 

    حور: ادھر کون mind کررہا ہے، بڈھی کھوسٹ کو۔ وہ تو آپ کے خیال سے میں نے صرف کالی کہا ورنہ۔۔۔ خیر، ابھی موڈ نہیں ہے میرا لڑائی کا۔ ہیرو! تم نے مجھے wish نہیں کیا؟ 

    ہیرو: وہ۔۔۔ سوری۔ باجی۔۔۔ Happy Birthday to you

    حور: او تھینک یو۔۔۔ اور میرا گفٹ؟ 

    ہیرو: یہ میٹھے پان۔۔۔ اور بس!

    حور: بس؟ کیسے دوست ہو!

    ہیرو: ابھی استاد نے تنخواہ نہیں دی ناں (سوٹ کی طرف اشارہ کرکے) وہ رہا آپ کا سوٹ۔ 

    حور: ارے ہاں، یہ ہی تو لینے آئی تھی۔۔۔ بس بڑھیا نے دماغ خراب کردیا۔ (آکر جوڑا اٹھاتی ہے، ذرا اترا کر اور نخرے سے بولتی ہے) شوکت صاحب کتنے پیسے ہوئے؟ 

    شوکت: (ذرا گڑبڑا کر) وہ سیا تو ارجنٹ ہے۔۔۔ آپ بس۔۔۔ جو چاہیں دے دیں۔ 

    ’’ہیرو منہ کھول کر دیکھ رہا ہے‘‘ 

    حور: (اپنے پرس میں ہاتھ ڈالتی ہے۔ کھسیانی ہنسی ہنس کر) وہ۔۔۔ ہزار کا نوٹ پڑا تھا۔۔۔ ابھی تو پارلر میں دیا ہے۔ شام کو اکمل سے لے کر دے دوں گی۔ دکان کب تک کھلی رہتی ہے؟ 

    شوکت: (دوسرا کام شروع کرتے ہوئے) جی کوئی بات نہیں۔ بعد میں آجائیں گے۔ 

    حور: شکریہ۔ (جاتے جاتے پلٹ آتی ہے، شوکت پانی پی رہے ہیں) 

    وہ ناپ کی قمیض اسی میں ہے ناں؟ 

    شوکت: (شوکت کو اچھو لگ جاتا ہے) ہاں۔ آں۔ (حور تھیلے میں جھانکنے لگتی ہے) 

    حور: اچھا پھر لے جاؤں گی۔ ابھی دیر ہورہی ہے۔ 

    ’’چلی جاتی ہے۔ اور شوکت کی جان میں جان آتی ہے‘‘ 

    منظر۔ ۳
    ’’شوکت رات نماز پڑھ کر گھرآتے ہیں۔ کھانا کھایا نہیں جاتا۔ واپس رکھ دیتے ہیں۔ چپ چاپ آنگن میں بچھی چارپائی پر لیٹ جاتے ہیں۔‘‘ 

    شوکت: آج سے پہلے یہ گھر ایسے کاٹ کھانے کو نہیں آیا۔۔۔ آج ایسا کیا ہوگیا۔۔۔ دل لگائے نہیں لگ رہا۔۔۔ ماموں ممانی سب کے سب مجھے اکیلا چھوڑ گئے۔ بیس سال ہوگئے۔ (چڑ کر) تو کیا ہوا؟ بیس سال گزار لیے باقی عمر بھی تنہا گزار لوں گا۔ 

    حور: (پس منظر سے حور کی آواز) تو گزار لو ناں۔۔۔ پھر رونا کس بات کا ہے۔۔۔ کیوں کروٹیں بدل رہے ہو۔ 

    شوکت: (اٹھ بیٹھتے ہیں۔ تھیلے سے حور کی قمیض نکال کر) باپ رے باپ۔ لڑکی ہے کہ بولنے کی مشین۔ قینچی کی طرح کھٹا کھٹ جملے پہ جملہ۔ بات پہ بات نکالے چلی جاتی ہے۔ بالکل مشین گن ہے یہ۔ (خیال بدل کر) اچھا ہوا فاطمہ بی نے آج اُس کا کچھا چھٹا ہی کھول کر رکھ دیا۔ (منہ بنا کر قمیض واپس تھیلے میں رکھتے ہیں) اونہہ! اب آئے گی تو نگاہ اٹھا کر دیکھوں گا بھی نہیں۔۔۔ شرع میں یہی حکم ہے۔۔۔ خواہ مخواہ میں قریب آکر نفس کا امتحان لیتی ہے۔ اور خوشبو بھی جانے کون سی لگا کر آتی ہے کہ بس طبیعت متلا جائے۔ (قمیض اٹھا کر سونگھتے ہیں اور پھر گھبرا کر بولتے ہیں) کل منہ پر دے ماروں گا یہ قمیض اور اپنے پورے پیسے لوں گا۔ ارجنت جوڑا بھی سلوا لیا ناز و ادا دکھا دکھا کے۔۔۔ بیوقوقوف سمجھ رکھا ہے۔۔۔ پتہ نہیں محلے میں کس کس مرد سے یاری ہے۔ ہونہہ!(چادر اوڑھ کر بھوکے سوجاتے ہیں) 

     (وقفہ) 

    ’’اٹھ کر سرہانے رکھا پانی پھر غٹا غٹ پیتے ہیں اور سونے لگتے ہیں‘‘ 

    منظر۔ ۴
    ’’دونوں کام میں مصروف ہیں۔۔۔ شوکت بہت چڑچڑا ہورہا ہے، انگڑائیاں لے رہا ہے۔ ہیرو کام میں مصروف ہے اور کیسٹ پر غز ل چل رہی ہے: 

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
    آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

    شوکت بار بار حور شمائل کی راہ دیکھ رہے ہیں کام میں دل نہیں لگ رہا۔ اُس کی قمیض بھی تھیلے میں ڈال کر لے آئے ہیں۔ مگر وہ آکے نہیں دے رہی۔ ’’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ‘‘ اس مصرعے کو دوبارہ سن کر بھنا جاتے ہیں۔‘‘ 

    شوکت: ابے بند کر یہ۔۔۔ 

    ’’ہیرو حیران ہوتا ہے پھر سٹپٹا کر ٹیپ بند کردیتا ہے‘‘ 

    شوکت: سر میں درد کر رکھا ہے۔ فضول شاعری۔ نہ سر نہ پیر۔ 

    ہیرو: (حیران ہوکر) مگر، استاد یہ تو علامہ اقبال ہیں، تمہارے فیورٹ۔۔۔ 

    شوکت: (چڑ کر) احمد فراز، اب ضروری تو نہیں اچھا شاعر ہر کلام اچھا لکھے۔ (باہر جھانکتے ہیں کہ حورشمائل آئی ہو، انگڑائی لیتے ہیں) 

    ہیرو: کیا بات ہے اُستاد؟ (سادگی سے) چڑچڑے کیوں ہورہے ہو؟ 

    تھکے تھکے بھی لگتے ہو۔۔۔؟ 

    شوکت: ہاں بھئی۔۔۔ رات بھر سو نہیں سکا۔ فجر بھی قضا پڑھی۔ بس جسم ٹوٹا پڑ رہا ہے۔ اچھا تم یہ کام ختم کرو، میں ذرا استر کا کپڑا لے کر آتا ہوں (ایک طرف چلے جاتے ہیں) 

    ’’دور سے گولیاں چلنے کی آوازیں آتی ہیں اور شوکت ہاتھ میں کپڑا لیے دوڑتا ہوا واپس آتا ہے۔ ہیرو اکیلا ہے۔ کام بھی کررہا ہے اور زور زور سے fm سن رہا ہے۔ گٹکا منہ میں ہے۔ ساتھ ساتھ گارہا ہے: 

    ’’آنٹی پولیس بلالے گی۔۔۔ آنٹی پولیس بلالے گی۔۔۔‘‘ 

    فون پرsms کے مسکرا مسکرا کر جواب دیتا ہے کہ شوکت آنے لگتے ہیں۔ ہاتھ میں سامان ہے۔ ہیرو ریڈیو بند کردیتا ہے۔‘‘ 

    ہیرو: سلام علیکم! جلدی آگئے ماسٹر۔۔۔؟ 

    شوکت: (گرمی سے ہانپ رہے ہیں اور ذرا ڈرے ہوئے بھی ہیں) پا۔۔۔ پانی۔ 

    ’’ہیرو انھیں پانی دیتا ہے‘‘ 

    ہیرو: کیا ہوا استاد؟ (جلدی میں) کیا موبائل چھن گیا۔۔۔ اوہو۔۔۔ تمہارے کنے موبائل تو ہے ہی نہیں۔ 

    شوکت: چپ کر جا ہیرو، ذرا سانس آنے دے۔ (وقفہ) ابے وہاں گولیاں چل رہی تھیں۔۔۔ آگے والی فرنیچر مارکیٹ کے پاس۔ کیا ہوگیا ہے اس شہر کو! کتنے دنوں بعد یہ استر کا کپڑا لینے نکلا تھا۔۔۔ اور۔۔۔ جان کے لالے پڑ گئے۔ 

    ’’ہیرو اطمینان سے دوبارہ مشین پر بیٹھ جاتا ہے‘‘ 

    شوکت: تمھیں ڈر نہیں لگتا؟ ان گولیوں سے؟ چھینا جھپٹی سے؟ 

    ہیرو: (ہنس کر) بالکل نہیں استاد بلکہ جب تک دو چار گولیوں کی تڑ تڑ یا بم دھماکے کی خبر نہ سنو تو اللہ قسم زندگی پھیکی پھیکی لگتی ہے۔ تمہارے آلو گوشت کی طرح۔ 

    شوکت: بکواس کرتے ہو۔۔۔ 

    ہیرو: سچ کہہ ریا ہوں استاد۔ تمہارے گھر نہ ٹی وی ہے نہ ریڈیو، ایک اخبار آتا تھا وہ تم نے بند کروادیا۔ (نقل کرکے) کہ بھئی ہولناک اور دہشت ناک خبریں آتی ہیں۔ بند کرو یہ خواہ مخواہ کا خرچہ۔ 

    شوکت: (چڑ کر) تو اس میں برا کیا ہے۔ 

    ہیرو: (تپا کر) برا یہ ہے کہ اب تم اس ماحول کے اور اس ملک کے عادی نہیں رہے ہو۔ پاکستان تو بس اب ایسا ہی ہے۔ 

    شوکت: اب ایسا بھی نہیں۔ 

    ہیرو: ہم نے تو آنکھ کھولی تو کانوں میں اذان کے بجائے گولیاں تڑ تڑ سنی۔ اسکول گئے تو تعلیم سے زیادہ سیاست دیکھی۔ سردیوں میں موٹی جیکٹ کے بجائے خودکش بمبار کی جیکیٹیں زیادہ دیکھ رکھی ہیں ہم لڑکوں نے۔۔۔ (ہاتھ میں پکڑے موبائل پر message پڑھ کر جواب لکھتا ہے) اب اپنا دل اس موبائل اور اس کے messages سے نہ بہلائیں توکیا کریں۔ 

    شوکت: یہ استر کا کپڑا ذرا shrink کرلو۔۔۔ (اُداس سے بیٹھے ہیں) 

     ’’ہیرو بالٹی میں پانی لے کر کپڑا بھگوتا ہے‘‘ 

    شوکت: تم بھی ٹھیک کہتے ہو ہیرو۔ شاید تم سب ٹھیک ہو اور میں غلط۔۔۔ 

    ہیرو: (بات جاری رکھ کر) استاد تم نے اچھا کیا جو آنکھوں پر شٹر گرالیا اور اپنی دنیا اور ہی سجالی۔ جہاں تمہاری یہ غزلیں ہیں، پرانے گانے ہیں اور اللہ جانے کیا کیا ہے۔ (ہیرو کو اچانک دور سے حورشمائل گزرتی نظر آجاتی ہے) ارے باجی! او حور باجی! کہاں جارہی ہو؟ ادھر تو آؤ۔۔۔ 

    ’’شوکت کی شکل بدلنے لگتی ہے۔ ذرا سے گھبرا سے جاتے ہیں کہ وہ ان کی چوری نہ پکڑ لے۔۔۔ حور شمائل اٹھلاتی آجاتی ہے۔ شوکت ذرا دکان میں اندر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شوکت اندر کی طرف خواہ مخواہ اپنے آپ کو مصروف ظاہر کررہے ہیں۔ کاؤنٹر پر ہیرو کھڑا ہوجاتا ہے اور حور آتی ہے۔‘‘ 

    حور: باجی! اِتی دھوپ میں کہاں جارہی ہو؟ (آنکھ مار کے) اکمل بھائی کے پاس؟ 

    حور: (گھبرا کر) نہیں تو، آج شبینہ کی مایوں ہے، تو ڈھول کرائے پر لینے گئی تھی۔ کمبخت شناختی کارڈ مانگ رہا تھا، میں نے صاف منع کردیا۔ 

    ہیرو: کیوں باجی؟ 

    حور: چل کمینے! سمجھا کر ناں، میری ایج معلوم کرلیتا سور۔ اچھا دیکھو یہ ہاٹ ہاٹ گانوں کی CD لائی ہوں اس پر کریں گے شام کو۔۔۔ (ڈانس شروع کرتی ہے کہ اندر سے شوکت آجاتا ہے۔) ہاں۔۔۔ آں۔۔۔ (اندر شوکت کو دیکھ کر) شوکت جی۔۔۔ سلام۔ کیسے ہیں آپ؟ 

    شوکت: الحمدللہ۔ (جھینپ جاتے ہیں) 

    حور: آپ کا سلا سوٹ بہت lush تھا۔ ایک دم ٹائٹ فٹنگ کی تھی آپ نے۔ سب دوستیں پوچھ رہی تھیں کہ کس سے سلوایا۔ 

    شوکت: اچھا شکریہ! (قریب آکر) یہ آپ کی ناپ کی قمیض۔ 

    حور: (لاپرواہی سے) رکھیں رکھیں۔۔۔ یہ قمیض لائی تھی۔ بس اس کی فٹنگ ٹھیک کردیں۔ یہ ناپ لے لیں، لہنگے پر پہننی ہے۔۔۔ یہاں تک۔۔۔ ایسا کریں ناپ لیں۔ 

     ’’زور سے بادل گرجتا ہے‘‘ 

    حور: اللہ! بارش شروع ہونے والی ہے، اب تو اور بھی مزہ آئے گا!ہے ناں ہیرو؟ (کھسر پھسر کرتے ہوئے) ان بڈھے کھوسٹ کو کیا پتا بارش اور بارش کی مستی کا۔ میرے تو بدن میں آگ لگ جاتی ہے بارش کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے۔ (اور زور زور سے گاتے ہوئے جانے لگتی ہے) 

     ’’ٹپ ٹپ برسا پانی، پانی نے آگ لگائی‘‘ 

    ہیرو: (پیچھے سے آواز دے کر) حور باجی میری بھی دعوت ہے مایوں کی، شائستہ کے ساتھ میں ہی تو ڈانس کروں گا۔ (حورچلی جاتی ہے) 

     ’’شوکت اُسے گھور رہے ہیں‘‘ 

    شوکت: سچ بول رہا ہے ناں؟ 

    ہیرو: ہاں، استاد۔ 

    شوکت: کیوں بھئی یہ شائستہ کون ہے؟ بتایا کیوں نہیں مجھے؟ 

    ہیرو: (جھینپ کر) کیا بتاتا۔ تم پیار محبت سے ویسے ہی خار کھاتے ہو۔ جب تمھیں عشق عاشقی کی سمجھ ہی نہیں ہے تو کیا بتاتا۔۔۔ بس گھر سے دکان۔۔۔ دکان سے مسجد اور پھر۔۔۔ 

    ’’شوکت ایک دم اُداس ہوجاتے ہیں‘‘ 

    ہیرو:استاد میں جاؤں؟ 

    شوکت:(ہڑبڑا کر) ہاں آں۔۔۔ 

    ہیرو:یہ لڑکیاں بھی بس۔۔۔ ادھر بارش کی ایک بوند پڑی اور ان کو پکوڑے، سموسے بندکباب جانے کیا کیا کھانے کو من کرتا ہے۔ 

    ’’فاطمنہ بی آنے لگتی ہیں‘‘ 

    شوکت:(سو روپے دے کر) یہاں کے لیے بھی کچھ لے آؤ۔ (ہنس کر) ایک لڑکی ادھر بھی آرہی ہیں۔ (شرارت سے) آتے ہی ان کو بھوک لگ جائے گی۔ 

    ہیرو:سلام، سلام!

    فاطمہ: (قریب آکر) ارے بیٹا۔ منہ پھیکا ہورہا ہے۔ سموسے بھجیے تو منگواؤ۔ بڑی بھوک لگی ہے۔ 

    ’’شوکت اور ہیرو زور سے ہنستے ہیں اور ہیرو بھاگ جاتا ہے۔ فاطمہ بی برقعہ ایک طرف رکھے، بھر بھر کے سموسے جلیبی کھا رہی ہیں اور چائے پی رہی ہیں۔۔۔ شوکت کے ہاتھ پیلی قمیض ہے جس پر وہ ہاتھ سے بیل، گوٹا لگا رہے ہیں۔‘‘ 

    فاطمہ: (قمیض دیکھ کر) کس کی ہے؟ 

    شوکت: (گڑبڑا کر) وہ ہے کوئی خاتون۔ محلے کی ہی ہیں۔ 

    فاطمہ: اے توبہ توبہ۔۔۔ یہ لڑکیاں! ذرا قمیض دیکھو تو! لگتا ہے دس سال کی بچی کی قمیض ہے۔ یا تو لمبے لمبے کفن پہن لیں گی، اوپر سے مرزا غالب کا پائجامہ، یا پھر یہ دو بالشت کی سکھوں والی قمیض شلوار۔ 

    شوکت:جی جی۔ (اپنے کام میں مصروف ہیں) 

    فاطمہ:اے کب تک محلے کی عورتوں کی خدمت کرتے رہو گے۔۔۔ کچھ اپنا بھی سوچو۔ گھر میں جورو لے آؤ۔ گھر سنور جائے گا، عاقبت بھی۔ 

    شوکت: فاطمہ بی سارے گھر کا survey کرلیں۔ مجال ہے جو کہیں کوئی جالا، لال بیگ یا مٹی نظر آجائے۔ اپنے ہاتھوں سے گھر کی صفائی کرتا ہوں۔۔۔ پھر بیوی کی کیا ضرورت۔ 

    فاطمہ: اور کھانا پکانا، روٹی۔ سو پکوان۔۔۔ اُس کا کیا؟ 

    شوکت: کسی دن میرے ہاتھ کا کھانا کھا کر تو دیکھیے۔۔۔ مزہ آجائے گا۔۔۔ 

    فاطمہ: (منہ بناتی ہیں) اے مانا کہ تمہاری اماں تمھیں امور خانہ داری میں طاق کرکے گئی ہیں، مرحوم رحمت الٰہی اپنا ہنر تمھیں دے گئے ہیں۔۔۔ لیکن پھر بھی بیٹا، شادی تو شرعی فریضہ ہے۔ اور پھر (بزرگانہ معنی خیزی سے) بیوی کیا گھر سنبھالنے ہی کے لیے آتی ہے۔ آخر کو۔۔۔ مرد کی سو ضروریات۔۔۔ 

    ’’شوکت کو کھانسی آجاتی ہے۔ بجلی زور سے کڑکتی ہے‘‘ 

    فاطمہ: (برقعہ سنبھالتی ہیں) ارے بھئی میں چلی۔ اگر بجلی چلی گئی تو گلیوں میں گر پڑ کر کہیں ٹانگ نہ تڑوا لوں۔ (برقعہ پہنتے پہنتے اچانک خیال آتا ہے) اے کہیں setting تو نہیں کر بیٹھے کسی سے؟ 

    شوکت: جی۔۔۔؟ 

    فاطمہ: ارے بھئی۔۔۔ آنکھ مٹکا۔ حور کو آتے جاتے دیکھا ہے محلے والوں نے تمہارے ہاں۔ ہیں؟ 

    شوکت: نہ۔ نئیں۔ ایسی بات نہیں۔ 

    فاطمہ: تمہاری شرافت کی تو لوگ قسمیں کھاتے ہیں!ارے میاں، کنوارے مرجانا اچھا ہے مگر حوری جیسی گند بلا کو کوئی پاس نہ بلائے۔ توبہ، توبہ! (لڑکیوں کی تصاویر پھر اٹھا کر دیتی ہیں) دیکھو تمہاری ماں جیسی ہوں۔ ان میں سے کسی کو چن لو۔۔۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند، عزت دار بیبیاں ہیں۔ بس۔۔۔ اسی ربیع الاول یا چلو شعبان تک سہرا سجالو۔ (بارش شروع ہوتی ہے۔ لائٹ کھل بند۔ کھل بند ہورہی ہے۔) خدا حافظ! میں پھر آؤں گی۔ بس اب جواب ہاں میں چاہیے۔ اے یہ بچے ہوئے سموسے کیا کرو گے۔ (تھیلی میں باندھ لیتی ہیں اورجھپ سے چلی جاتی ہیں۔ شوکت لڑکیوں کی تصاویر اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں) 

    ہیرو کی آواز: استاد حور باجی کو جوڑا دے آیا۔ کہہ رہیں تھیں دو سوٹ کی سلائی اگلے مہینے دے دیں گی، حساب میں لکھ لیجیے گا۔ 

    ہیرو: استاد! آج یونٹ نے اعلان کیا ہے کہ کاروبار بند رکھیں (آنکھ دبا کر) ذرا حساب سے۔۔۔ 

    شوکت: (چڑ کر) کیوں بند رکھیں بھئی؟ گھر بیٹھ کر کیا کریں۔ شادیوں کا سیزن ہے۔ ابھی عورتوں کا رش لگ جائے گا۔ چلو کام شروع کرو!

    ’’دونوں کام کررہے ہیں‘‘ 

    ہیرو: (منہ لٹکا کر) آپ کی مرضی۔ ویسے موسم بھی سہانہ ہورہا ہے۔۔۔ 

    (آہ بھر کے) ہائے ہائے یہ مجبوری۔۔۔ ویسے شام کو شبینہ باجی کا مایوں ہے۔ میں نے ضرور جانا ہے، استاد، بریانی پکے گی۔ ہاں جی! (کام کررہا ہے) استاد، فاطمہ جی ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ بس اب تم شادی کرلو۔ 

    شوکت: (چڑ کر) کیوں کرلوں؟ کیوں؟ 

    ہیرو:(شرارت سے) کھانا تو مزے کا پکا کرے گا۔۔۔ ماسٹر صاب۔۔۔ ہاہاہا

    (ایک دم کچھ یاد آتا ہے۔ بارش کو دیکھ کر) ارے استاد، میرا اکلوتا کرتا دھوکر سکھانے چھوڑ آیا تھا کہیں بھیگ گیا تو کیا پہنوں گا مایوں میں۔ بس ابھی گیا اور ابھی آیا!

    شوکت: اچھا اچھا! (اور تیزی سے مشین چلانے لگتے ہیں۔ خوش ہیں، گنگنارہے ہیں۔) چلو میں بھی تھوڑا آرام کرلوں۔ 

    منظر۔ ۵
    ’’درزی خانے کا منظر، موسم ابرآلود۔ سڑک پر سے آتی حور شمائل پیلا جوڑا پہنا ہوا۔ ہاتھوں میں ہری چوڑیاں، پیر میں موٹی پازیب، پراندہ، جھمکے۔ مہندی سے رچے ہاتھ اور پرس بھی لٹکایا ہوا ہے۔ مگر تیور اچھے نہیں ہیں، غصہ میں لگتی ہے۔ اکا دُکا لوگ راستے میں آوازیں بھی لگاتے ہیں۔ شوکت کے کاؤنٹر پر غصہ میں جاکھڑی ہوتی ہے۔‘‘ 

    حور: یہ کیا ہے؟ (کمر کو ہاتھ لگا کر) 

    شوکت: جی۔۔۔ جی۔۔۔ 

    حور: کہا تھا ناں پوری فٹنگ چاہئے۔ یہ دیکھیں کمر سے loose اور یہ گلا۔۔۔ 

    شوکت: بڑا ہوگیا؟ 

    حور: (چلا کر) چھوٹا ہے۔۔۔ دم گھٹ رہا ہے میرا۔ گلے کی جیولری کیسے نظر آئے گی، اگر گلا چھوٹا ہوگا تو۔۔۔ (آنکھوں میں آنسو لاکر) اب میں کیا کروں گی، کتنے پیار سے جوڑا لائی تھی۔۔۔ سارا برباد ہوگیا۔ 

    شوکت: (جلدی سے) آپ آپ تحمل سے کام لیں۔ روئیں مت۔ میں ابھی ایک سلائی لگادیتا ہوں۔ بالکل فٹ ہوجائے گی۔ آپ۔۔۔ 

    حور: کیسے؟ میں تو اب مایوں میں جارہی ہوں۔۔۔ سب لڑکیاں آچکی ہیں وہاں۔ یہ ڈھیلا چغہ پہن کر تو جوکر لگے گی حور شمائل۔۔۔ ہائے! (رونے لگتی ہے) 

    شوکت: (ہمت کرکے) آ۔۔۔ آپ یہ قمیض مجھے اتار کر دیں۔۔۔ 

    حور: (رونا چھوڑ کر) ہیں؟ 

    شوکت: (جلدی سے) وہ اندر گھر میں غسل خانے میں جاکر مجھے یہ قمیض دے دیں۔۔۔ میں ابھی ٹھیک کردیتا ہوں۔ (اِدھر اُدھر دیکھ کر) یہ ہیرو کم بخت بھی جانے کہاں مر گیا۔ (بادل گرجتے ہیں) 

    حور: (جلدی سے اندر جانے لگتی ہے) ہائے۔۔۔ بارش۔۔۔ اگر لائٹ چلی گئی تو یہ آفر بھی جائے گی حور شمائل۔ جنریٹر تو ہوگا نہیں آپ کے پاس؟ راستہ کہاں سے ہے؟ (دونوں اندر جانے لگتے ہیں۔) آپ کیوں آرہے ہیں پیچھے پیچھے؟ (مشکوک لہجے میں) 

    شوکت: بس۔۔۔ (نظریں نیچی) قمیض کون لاکر دے گا؟ 

    حور: (سوچ کر) ہاں۔ یہ بھی ہے۔ 

    ’’دونوں گھر کے اندر چلے جاتے ہیں۔ غسل خانے سے ایک ہاتھ باہر نکلتا ہے جس میں پیلی قمیض ہے۔ شوکت دوسری طرف منہ کیے، آنکھ بند کرکے کھڑے ہیں۔‘‘ 

    حور: (چیخ کر) لیں جلدی۔۔۔ بس دو منٹ میں لادیں۔ 

    شوکت: (شرٹ لے کر) جی بس ایک منٹ۔ 

    ’’وہ درزی خانے کی طرف بھاگتے ہیں۔ شوکت جلدی جلدی سلائی لگا کر، دھاگہ کاٹتے ہیں۔ ہلکی press مار کر اندر کی طرف بھاگتے ہیں۔ دور سے gun shots کی آوازیں۔‘‘ 

    شوکت: (ہلکا سا گھبرا کر) یہ برأت کے پٹاخے ہیں یا سچ مچ کی گولیاں۔۔۔ خدایا خیر!

    ’’شوکت اندر چلے جاتے ہیں۔ حور شمائل کا چوڑیوں بھرا ہاتھ باہر آتا ہے۔ اُسے قمیض تھما کر جلدی سے دکان کی طرف دوڑتے ہیں جہاں ہیرو کی گھبرائی ہوئی آوازیں آنے لگی ہیں۔‘‘ 

    شوکت: (صحن سے) کیا ہوا، کیا ہوا؟ 

    ’’وہ سمجھتے ہیں کہ حورشمائل کی چوری پکڑی گئی کہ لڑکی گھر میں ہے۔ بوکھلا جاتے ہیں۔ ہیرو دروازہ اورشٹر بند کررہا ہے۔ خود باہر کھڑا ہے۔‘‘ 

    شوکت:(بوکھلا کر) اررے۔ کیا کررہے ہو؟ (گولیوں کی آوازیں قریب آرہی ہیں) 

    ہیرو:استاد! شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے آج۔ بولا بھی تھا تم کو، تم سنتے کہاں ہو۔ جلدی بند کرو دکان اور گھر میں چھپ کر بیٹھ جاؤ۔۔۔ یہ میں باہر سے تالا لگا رہا ہوں!

    شوکت: ابے سن تو۔۔۔ ارے او احمق۔۔۔ (بار بار اندر کی طرف دیکھتے ہیں) 

    ہیرو: استاد! گولی کھانے کا شوق ہے کیا تم کو؟ جلدی کرو۔۔۔ مجھے تو ابھی بہت جینا ہے۔ شائستہ کے بچوں کا ڈیڈی بننا ہے۔ 

    شوکت: ہیرو۔۔۔ اندر۔۔۔ وہ

    ہیرو: اندر کیا؟ آج ایک دن نماز جماعت سے نہیں پڑھو گے تو کیا ہندو ہوجاؤ گے؟ خدا حافظ! مجھے مایوں میں جانا ہے اللہ قسم ورنہ میں تمہارے ساتھ اندر بند ہوجاتا۔ 

    ’’اور دکان بند، باہر تالا لگا کر وہ یونٹ کے لڑکوں سے بات کررہا ہے۔‘‘ 

    ہیرو: دیکھ لیجیے بھائی۔ صبح سے تالا ہے۔ چیک کرلیں آپ۔۔۔ 

    ’’شوکت پلٹ کر صحن کی طرف جاتے ہیں، گویا پیروں تلے زمین نکل گئی، پلٹ کر دیکھتے ہیں تو حور شمائل تیار ہوکر باہر آچکی ہے۔ اب خوش ہے۔‘‘ 

    حورشمائل: تھینک یو شوکت جی! (فٹنگ دکھا کر) یہ ہوئی ناں بات! اب ایسا فیگر کوئی لاکر دکھائے تو سہی محلے میں۔۔۔ محلے میں کیا، فلموں میں نہیں ہے۔ ہے ناں؟ (دیکھتی ہے تو شوکت مجرم کی طرح کھڑے ہیں) 

    ’’باہر گولیوں کی آوازیں قریب سے آرہی ہیں جسے حورشمائل بالکل ignore کردیتی ہے۔ ہلکی سی پھوار ہوتی ہے۔‘‘ 

    حور: ہائے میرا میک اپ نہ خراب ہوجائے۔۔۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ (گانا گنگناتے ہوئے) ایسا نہ ہو حرامزادیاں میرے سے پہلے ہی ڈانس شروع کردیں۔ پنجابی نمبر، ’’تو گھنٹی بِگ بینگ دی پورا لندن ٹھمکدا‘‘ ارے؟ آپ کو کیا ہوا؟ (قریب آکر) اچھا سوری۔ وہ میں ناں جب angry ہوتی ہوں تو تھوڑی تھوڑی mad ہی ہوجاتی ہوں۔ اچھا، بائی! اور سوری۔۔۔ اللہ حافظ۔ 

    شوکت: (سرنیچے کرکے) آپ باہر نہیں جاسکتیں۔ 

    ’’حور شمائل بند دروازے کو اور پھر شوکت کو دیکھتی ہے۔ باہر بادل گرج رہے ہیں۔ آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔ زور سے چلانا چاہتی ہے اور شوکت آکر اس کا منہ بند کردیتے ہیں۔ ایکٹرز فریز۔ دو بیٹ کے لیے اندھیرا۔‘‘ 

    منظر۔ ۶
    ’’شوکت کا کمرہ۔ شوکت حور شمائل کا منہ بند کیے ہوئے ہیں، وہ باقاعدہ ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ اندر کمرے میں پہنچ کر چھوڑنا پڑتا ہے جب وہ اُن کے ہاتھ پر زور سے کاٹ لیتی ہے اور منہ کھلتے ہی چلاتی ہے۔‘‘ 

    حور: کمینے، کتے، وحشی! مجھے معلوم تھا۔۔۔ مجھے پتہ تھا تم بھی اس داڑھی کے پیچھے کمینے ہو۔ بڑے ملا بنے پھرتے ہو۔۔۔ تھو۔۔۔ کھولو دروازہ۔ 

    شوکت: (بے چارگی سے) باہر سے بند ہے۔۔۔ میں نے۔۔۔ 

    حورشمائل: تم نے تم نے ہی کسی سے کہہ کے یہ کام کروایا ہے۔۔۔ تم ذلیل۔۔۔ 

    شوکت: (تپ کر) دیکھیں۔ آپ یہ واہیات زبان میرے گھر میں استعمال نہ کریں! یہاں اماں مرحومہ تہجد پڑھا کرتی تھیں۔ 

    حور: ہائے ہائے، اماں مرحومہ۔۔۔ اور بیٹا یہ ولن والے کام کررہا ہے۔۔۔ میں اور چلاؤں گی۔۔۔ (زور سے چیختی ہے، مگر آواز بادلوں کی گرج اور پانی کے شور میں دب جاتی ہے) کھولو ناں دروازہ۔ جھوٹے۔۔۔ 

    شوکت: میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ باہر وہ ہڑتال والوں نے شٹرڈاؤن کروایا ہے اور۔۔۔ 

    حور: گلی کا دروازہ بھی؟ 

    شوکت: ہاں باہر گولیاں چل رہی ہیں بخدا۔۔۔ آپ آوازیں سن لیں۔۔۔ تھوڑی دیر میں امن ہوجائے گا اور آپ چلی جایے گا۔ 

    حور:جھوٹ جھوٹ، سب جھوٹ(شیرنی کی طرح ٹہل رہی ہے) تم ہو ہی گڑبڑ آدمی۔۔۔ جان بوجھ کر میرے ساتھ میٹھے میٹھے بنے رہے۔۔۔ سلائی بھی نہیں لی۔ فری کے کپڑے سی کر بچی کو set کررہے تھے؟ 

    شوکت: لاحول ولا قوۃ!

    حور: ہاں ہاں مجھے کمینے مردوں کا پتہ ہے۔۔۔ سالے کتے ہوتے ہیں، کتے!کتے کیا بھیڑیے۔۔۔ حرامزادے۔۔۔ 

    شوکت: دیکھے۔۔۔ میں۔۔۔ آپ کو لے جاکر وہاں پاخانے میں بند کردوں گا اگر آپ نے یہ بیہودہ زبان استعمال کی تو۔۔۔ 

    حور: چھی! باتھ روم کہتے ہیں۔۔۔ 

    شوکت: جو بھی ہو۔۔۔ وہیں، کیوں کہ آپ بہت ہی گندی زبان بولتی ہیں۔ 

    حور: میرا پرس۔۔۔ میرا پرس۔۔۔ فون کیوں نہیں کررہی میں۔۔۔ آئیں اور مجھے لے کر جائیں اس یتیم خانے سے (حکم دیتی ہے) پرس لاکردیں میرا۔ 

    ’’حورٹہلنے لگتی ہے۔ شوکت دوڑ کر درزی خانہ سے پرس لاکر دیتے ہیں جس میں موبائل بج رہا ہے۔ حور گھبراہٹ میں پورا پرس باہر الٹ دیتی ہے۔ وہ جلدی سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنا فون نکالتی ہے۔ پہلے میک اپ کی بہت ساری چیزیں، ٹشو، بسکٹ، لپ اسٹک، پین، گانوں کی ڈائری سب پھیل جاتے ہیں۔‘‘ 

    حور: ہیلو ہیلو۔۔۔ 

    ’’فون بند ہوجاتا ہے۔‘‘ 

    حور: (جھلا کر) شبینہ کا تھا۔۔۔ دلہن کا۔ 

    ’’شوکت پھر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔‘‘ 

    شوکت: تو آپ کرلیں۔۔۔ 

    حور: ہاں آں۔۔۔ balance ختم۔۔۔ ہونہہ! (لاپرواہی سے) اپنا فون دیں ذرا۔ 

    شوکت:میرا؟ میرے پاس۔۔۔ میں موبائل فون نہیں رکھتا۔ 

    ’’دور ایک landline پڑا ہے‘‘ 

    حور: (آنکھیں پھیلا کر) ہیں؟ موبائل فون نہیں رکھتے؟ پھر جھوٹ۔ مولانا شوکت، (اکڑ کر) میں بہت بری لڑکی ہوں۔ فٹافٹ نکالو فون! فوراً۔۔۔ جھوٹے مکار۔۔۔ 

    ’’جاکر شوکت کا گریبان پکڑتی ہے اور وہ تڑپ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر آگے آتی ہے تو مردانہ سختی سے اُس کا ہاتھ موڑ دیتے ہیں۔‘‘ 

    شوکت: (سختی سے) میں جھوٹا نہیں ہوں۔ محلے میں کسی سے پوچھ لو۔۔۔ میں یہ موبائل جیسی خرافات نہیں رکھتا۔ 

    حور: ہونہہ! سنتوش کمار۔۔۔ 

    ’’حور جھنجلا کر اپنا فون پٹکتی ہے اور جاکر landline چیک کرنے لگتی ہے۔‘‘ 

    حور: یہ۔۔۔؟ 

    شوکت: یہ تو کب کا کٹ گیا۔ اماں مرحومہ استعمال کیا کرتی تھیں۔ 

    حور: (جھلس کر) تو آپ کیوں نہیں (آہستہ سے) چلے گئے اماں مرحومہ کے ساتھ۔۔۔ (ہڑبڑا کر) خود ہی تار کاٹ دیا ہوگا۔ پرانی فلموں میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ 

    شوکت: فلمیں کم دیکھا کریں۔ حقیقی زندگی کچھ اور چیز ہے۔ 

    ’’اذان عشا بلند ہوتی ہے۔ شوکت آہستہ آہستہ اذان کا جواب دیتے ہیں۔ حورشمائل انہیں حیرت سے دیکھ رہی ہے، شوکت نماز کی تیار ی کرنے لگتے ہیں۔ حور کا خوف اب چھٹ گیا ہے۔ ذرا relaxed ہے۔‘‘ 

    حور: کیا کررہے ہیں؟ 

    شوکت: نماز کی تیاری!

    حور: اوہ خدایا، میری یہاں جان پر پڑی ہے اور آپ اطمینان سے نماز۔۔۔ 

    شوکت: میں نماز کبھی قضا نہیں کرتا۔ 

    حور: ہائے اللہ کیا کروں۔۔۔ وہاں مایوں بیٹھ بھی چکی ہوگی۔ سلمی، شگو، بے بی سب مُردار ہیں۔ کمینیاں کہیں کی۔ حرام ہے جو کوئی مجھے فون کردے۔ 

     ارے! (خوش ہوکر) ہیرو۔۔۔ وہ وہاں ہوگا۔ وہ آکر مجھے لے جائے گا۔ یونٹ کے سب لڑکے اُس کو جانتے ہیں، ہاں! (فوراً ہیرو کا فون لگانے لگتی ہے۔۔۔ پھر منہ لٹکا لیتی ہے) 

    شوکت: کیا ہوا؟ 

    حور:(منہ بسور کر) بیلنس۔۔۔ آخری والا بھی میں نے چوس لیا۔ اور اب تو بیٹری بھی جارہی ہے۔ چارجر ہوگا آپ کے پاس؟ پتلی پِن کا؟ (سرپر ہاتھ مارکر) میں بھی کس سے پوچھ رہی ہوں۔ اہرام مصر سے۔۔۔ (رونے لگتی ہے) سچ کہتی ہیں ببلی خالہ، میں ہوں ہی منحوس! پیدا ہوئی اماں کو کھاگئی، ابا بھاگ گئے گھر چھوڑ کر، کوئی نہیں ہے میرا۔۔۔ 

    شوکت: (اُسے چپ کرواتے ہیں) وہ اکمل صاحب ہیں ناں۔۔۔ 

    حور: (چور لہجے میں) ہاں آں۔ اکمل۔ اکمل Yes۔ اکمل ہے ناں۔ کیوں نہیں۔ 

    مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔ ہائے، وہاں بکرے کی بریانی بننے والی تھی۔ میں نے تو صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ بوتل بھی ہوگی۔۔۔ اللہ کس کا منہ دیکھا تھا صبح صبح۔۔۔ ببلی خالہ ہی سامنے آئی تھیں۔ (شوکت اُسے رومال دے کر جانے لگتے ہیں) کہاں جارہے ہیں؟ نماز پڑھنے؟ 

    شوکت: نہیں۔ باورچی خانے میں۔۔۔ 

    ’’شوکت نکل جاتے ہیں۔ حور فون سے کھیلنے لگتی ہے، اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ دو، چار مزدور زور سے بولتے ہوئے گزرتے ہیں۔ ڈر جاتی ہے۔ گولی اور سائرن کی آواز، سہم کر بیٹھ جاتی ہے۔ بارش رک چکی ہے اور ٹائر جلنے کا دھواں صحن میں بھرنے لگتا ہے۔‘‘ 

    شوکت: یااللہ! کس گھڑی میں محبوب کی آرزو کی تھی۔ تو نے قبول تو کرلی پروردگار لیکن۔۔۔ اس طرح سے؟ ہنسوں یا رؤں سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔ 

    یا اللہ جلدی ہڑتال ختم ہو اور یہ مصیبت جائے یہاں سے۔ 

    mannequin’’سے آواز‘‘ 

    آوار: تم چاہتے ہو کہ میں یہاں سے جاؤں؟ دیکھو تو تمہارے سُونے آنگن میں کیسی رونق آگئی ہے۔۔۔ یہ صراحی، یہ الماری، یہ پلنگ، یہ کلینڈر وہ طغرہ سب کے سب ناچتے ہوئے نہیں محسوس ہورہے؟ دیکھو تو ایک میرے آنے سے کیسا میلہ سا لگ گیا ہے۔ 

    ’’ایک دم اندر سے حور کھانستے ہوئے آتی ہے۔ شوکت گھبرا کر باورچی خانے میں چلے جاتے ہیں۔ شوکت جلدی جلدی کھانا چھوٹی میز پر لگا رہے ہیں، حور شمائل کھانس رہی ہے۔‘‘ 

    حور: کیا لکڑیوں پر کھانا بناتے ہیں؟ ہائے۔۔۔ 

    شوکت: وہ۔۔۔ باہر ٹائر جلا کر گلی بند کردی ہے۔ اُسی کا دھواں ہے۔ 

    ’’بارش رک چکی ہے‘‘ 

    حور: اوہ۔۔۔ لو اور مصیبت۔ اگر ہیرو آئے بھی تو یہاں تک نہیں آسکے گا۔ (ڈش میں جھانک کر) کیا پکا ہے؟ بہت بھوک لگی ہے۔ ہیں؟ (کھانا دیکھ کر) بریانی؟ واہ بھئی۔ 

    شوکت: وہ جی! کل اماں مرحومہ کی برسی تھی۔ تو۔۔۔ 

    حور: ہاں آں، (کھاتے ہوئے) منگوالی ہوگی؟ واہ بھئی۔ 

    شوکت: (مری ہوئی آواز میں) میں نے بنائی ہے۔ 

    حور: پھر جھوٹ۔۔۔ (ادھر اُدھر دیکھ کر) اور کون رہتا ہے یہاں؟ آپ کی بیوی کہاں ہے؟ میکے میں؟ بچے بھی نہیں دکھ رہے۔۔۔ (حور کھا رہی ہے) رائتہ دینا۔ 

    شوکت: میں اکیلا رہتا ہوں۔۔۔ ش۔۔۔ شادی نہیں کی۔ 

    حور: (بے نیازی سے) کتنے سال کے ہیں۔؟ پچاس؟ 

    شوکت: نہیں تو۔۔۔ پینتیس۔۔۔ 

    حور: جھوٹے۔۔۔ پچاس سے اوپر کے ہو (کھاتے ہوئے) طلاق دے دی ہوگی (مذاق اڑا کر) بلکہ اُس نے خود ہی (آنکھ مار کر) لے لی ہوگی۔ تم کچھ کام کے نہیں لگتے۔ (شوکت خفا ہوکر اٹھ جاتے ہیں) ارے۔ سوری شوکت جی۔ ایسے ہی مذاق کررہی تھی۔ (اچانک ہچکی لگ جاتی ہے جو بہت دیر تک چلتی ہے۔) ب۔ بوتل۔۔۔ ہوتی تو۔ ہچ۔۔۔ مزہ آجاتا۔۔۔ ہچ۔ 

    ’’شوکت لپک کر بوتل لاتے ہیں اور opener ڈھونڈ کر کھولتے ہیں‘‘ 

    حور: (جی کر) ارے واہ۔ کیا بات ہے۔۔۔ ہچ۔۔۔ یہ شوق بھی رکھتے ہو۔۔۔؟ 

    شوکت: وہ ہیرو پیتا ہے۔ کبھی کبھار اُس کے لیے لے آتا ہوں۔ میرا اور ہے کون اُس کے سوا۔۔۔ برف نہیں ہے۔ چلے گی؟ 

    ’’حور شمائل ایک نظر ہر طرف ڈالتی ہے۔ اب mannequin نے اُس کے ناپ کی قمیض پہنی ہے، شوکت ڈر جاتے ہیں۔ 

    شکوت گھبرا کر وضو کررہے ہیں پھر نماز شروع کردیتے ہیں۔ حور شمائل انھیں نماز پڑھتا دیکھتی ہے اور دل میں کہتی ہے۔‘‘ 

    حور: ارے یہ تو سچ مچ نماز پڑھنے لگے۔ حورشمائل تجھے اکیلے گھر میں رکھ کر کوئی نماز بھی پڑھ سکتا ہے؟ واہ۔۔۔ 

    شوکت: (دعا میں) یا اللہ معاف کرنا۔ نامحرم اور ناسمجھ لڑکی کو گھر میں رکھا ہے میں نے۔ مجھے معاف کردینا۔ تو دلوں کا حال جانتا ہے تو یہ بھی جانتا ہے کہ میری نیت سچی ہے۔ اُسے اس لیے روک رکھا ہے کہ اس کی جان اور میری عزت سلامت رہے۔ یا اللہ معاف فرما۔ استغفار استغفار۔۔۔ 

    ’’دعا کے ہاتھ پھیر کر سن گن لیتے ہیں۔ کوئی آہٹ نہیں۔ ڈرتے ڈرتے کمرے کی طرف آتے ہیں تو حور شمائل بے سدھ سو رہی ہے۔ دیکھ کر سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اُس کا دوپٹہ نیچے گر پڑا ہے۔ چادر لینے چلے جاتے ہیں۔ چادر لے کر آتے ہیں، اُسے ڈرتے ڈرتے اڑھاتے ہیں۔ اُس کا دوپٹہ اٹھا کر کرسی پر رکھتے ہیں اور پلٹ جاتے ہیں۔‘‘ 

    حور: کہاں جارہے ہیں شوکت جی۔ (حورشمائل اُن کا ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے) میں سوئی نہیں ہوں۔ (اٹھ کر انگڑائی لیتی ہے، شوکت نظریں نیچے کرلیتے ہیں) بس ذرا آنکھ لگ گئی۔۔۔ ایسی کافر بریانی کھا کر تو گدھا بھی سوجائے۔ (وہ ابھی تک کھڑے ہیں) آپ کے پاس سچی میں موبائل نہیں ہے؟ بیٹھ جائیں بھئی۔ آپ کا اپنا گھر ہے۔ (ڈانٹتی ہے۔) 

    شوکت: (بیٹھ جاتے ہیں) مجھے فون کی ضرورت ہی نہیں۔ جس کو میری ضرورت ہو وہ دکان پر آجاتا ہے یا گھر پر۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ یہاں آرام سے سوجائیں۔ لائٹ بند کرلیں اور یہ دروازہ بھی۔ (اٹھ کر جانے لگتے ہیں) میں جلدی سوجاتا ہوں۔۔۔ شب بخیر۔ 

    حور: ارے۔۔۔ عجیب آدمی ہیں۔ شوکت جی میں تو صبح کی اذان سن کر۔۔۔ 

    شوکت: (خوش ہوجاتے ہیں) نماز پڑھتی ہیں؟ 

    حور: (منہ بناکر) سوتی ہوں۔ صبح پانچ بجے تک۔ اصل میں ساری رات فری کال اور smsکا پیکج لے رکھا ہے۔ 

    شوکت: مگر آج تو آپ کا فون بند ہے۔ سو۔۔۔ 

    حور: (بات کاٹ کر) اسی لیے تو کہہ رہی ہوں۔ بیٹھ جائیں اور مجھ سے باتیں کریں جب تک مجھے نیند نہ آجائے۔ بلکہ باہر چلیں؟ (شوکت بے چارگی سے باہر دیکھتے ہیں۔) مطلب صحن میں۔ آپ نے گھر بڑا صاف ستھرا، اور سجا کر رکھا ہے۔ مجھے چنبیلی اور چمپا کے پھول بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہاں گرے پڑے دیکھے تھے میں نے۔ اٹھالوں؟ 

    شوکت: ہاں ہاں۔ 

    ’’دونوں باہر آنے لگتے ہیں‘‘ 

    حور: ماسی کتنے پیسے لے لیتی ہے؟ بڑا اچھا کام کرتی ہے بھئی۔۔۔ 

    شوکت: وہ میں۔۔۔ سب صفائی خود کرتا ہوں۔۔۔ 

    حور: (ذرا سی شرمندہ ہوجاتی ہے۔۔۔ جاکر پھول چنتی ہے۔۔۔ کچھ اپنے ہی بالوں میں لگالیتی ہے) آپ چائے نہیں پیتے؟ رات کو؟ 

    شوکت: (شوکت اُسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ گڑبڑا کر) نہیں۔ تمہارے لیے بنادیتا ہوں۔ مجھے چائے پی کر نیند نہیں آتی۔ 

    حور: دو کپ بنائیں۔ کیونکہ آپ کو میرے ساتھ جاگنا ہے۔ (اچھے موڈ میں گنگنانے لگتی ہے) لٹ الجھی سلجھا جارے بالم۔۔۔ 

    ’’زور زور سے گانے لگتی ہے، اپنے میں مست ہے۔ بچوں کی طرح پھول چن رہی ہے۔ شوکت چائے بنارہے ہیں اور کھڑکی سے صحن میں اُسے کھیلتا دیکھ کر محظوظ ہورہے ہیں۔‘‘ 

    V/oشوکت: کاش یہ رات بھر یہیں رہے۔ بلکہ زندگی بھر۔۔۔ گلی کے لڑکے یوں ہی پہرہ دیتے رہیں۔ ہیرو کا موبائل کہیں کھوجائے اور حورشمائل ہمیشہ کے لیے یہاں بسیرا کرلے۔ (آواز آتی ہے) 

    حور: شوکت جی۔۔۔ چائے بن گئی؟ لے بھی آئیں۔ 

    شوکت: (شوکت جلدی سے چائے انڈیلتے ہیں) آرہا ہوں۔۔۔ یہ تھوڑی کھیر بھی ہے۔ لے آؤں؟ 

    حور: ہاں آں۔۔۔ (دونوں صحن میں چائے پی رہے ہیں) 

    شوکت: آپ گاتی اچھا ہیں؟ 

    حور: مجھے معلوم ہے۔ پوری گانوں کی ڈائری ہے میری۔ شادی بیاہ کے، فلموں کے، لتا، آشا سب گانے مجھے آتے ہیں۔ ڈائری لاؤں؟ مایوں میں نہیں گئی تو کیا ہوا ادھر پارٹی کرتے ہیں۔۔۔ 

    ’’بھاگ کر اندر جاتی ہے اور ڈائری لے آتی ہے۔ حور اچانک گھنگرو تلاش کرلیتی ہے‘‘ 

    حور: اررررے۔۔۔ اس گھر میں گھنگرو، کیا چکر ہے مولانا؟ (پھر اسٹائل سے بولتی ہے) کہاں سے آئے یہ گھنگرو؟ کیا کہہ رہے ہیں یہ گھنگرو؟ کس نے دیے ہیں یہ گھنگرو؟۔ 

    ’’شوکت بوکھلا جاتا ہے۔ حور گھنگرو باندھتے ہوئے۔‘‘ 

    حور: نیپئر روڈ کے کسی کباڑیے سے لیے ہوں گے۔ 

    ’’وہ باضابطہ رقص کرنے لگتی ہے۔ پس منظر سے ٹھمری ’’لٹھ الجھی سلجھا جارے بالم۔۔۔‘‘ اور وہ رقص کرتی رہتی ہے۔ دونوں بہت خوش نظر آتے ہیں۔ شوکت حور کے بہت قریب آنے لگتا ہے کہ اُسے چھو لے کہ اچانک حور کو ابکائی آتی ہے اور وہ باتھ روم کی طرف بھاگتی ہے۔ شوکت نڈھال ہو کر موڑھے پر گر جاتے ہیں۔ حور باتھ روم سے نکل کر سیدھے شوکت کے کمرے میں آکر بستر پر گرجاتی ہے، طبیعت نڈھال سی ہے۔ کچھ پریشان بھی ہے۔‘‘ 

    شوکت: (آتے ہیں) کیا ہوا؟ طبیعت گڑبڑ ہوگئی کیا؟ پیٹ خراب ہے؟ 

    حور: ہاں آں۔۔۔ نئیں۔ ضرور اس کھیر میں تھا۔ کھاتے ہی نکل گئی۔ توبہ۔۔۔ ذرا پانی دیں۔۔۔ اور میرا پرس لادیں۔ دوا کھانی ہے۔ 

    ’’شوکت پرس لاکر دیتے ہیں۔ وہ دوا کھاتی ہے اور خاموش بیٹھ جاتی ہے۔‘‘ 

    شوکت: خواہ مخواہ میری وجہ سے آپ یہاں بند ہوگئیں۔ نہ میں قمیض ڈھیلی سیتا اور نہ یہ ہوتا۔ آپ کی سہیلیاں آپ کا انتظار کرکر کے تھک گئی ہوں گی۔ انتظار۔۔۔ کم بخت بڑی بری چیز ہے۔ (چور نظروں سے Mannequin کی طرف دیکھتے ہیں) ہاں وہ اکمل صاحب۔۔۔ وہ۔۔۔ 

    حور: (غصے سے) مت نام لیں اُس کمینے کا۔۔۔ جب سے ladies gym اسٹارٹ کیا ہے۔۔۔ دماغ ہی نہیں مل رہے۔ ڈیفنس کی لڑکیاں بھی تو وہاں آنے لگی ہیں۔ سب انگلش بولتی ہیں۔ انگلش کیا بس انگلش نخرے۔ ان کو جان بوجھ کر exercise سکھاتا رہتا ہے۔ (نقل کرکے) مِس ایسے۔۔۔ یہ ویٹ یوں پکڑیں۔ کمر سیدھی۔۔۔ ہونہہ! (آہستہ سے) کمینہ۔۔۔ میں تو اب اُس کو نظر ہی نہیں آتی۔ کسی بغیر ویٹ کی چیونٹی کی طرح۔ 

    شوکت: اوہ۔۔۔ افسوس ہوا! (دل میں خوش ہوجاتے ہیں) 

    حور: خیر! بہت پڑے ہیں میرے لیے۔ فیصل ہے، کال سینٹر میں کام کرتا ہے۔ بائیک ہے اُس کے پاس۔ پھر انیس ہے، ذرا بھدا ہے موٹا سا لیکن آلٹو ہے اُس کے پاس۔۔۔ گاڑی میں بڑے اسپیکر والا ڈیک ہے۔۔۔ وہی تو آج آنے والا تھا مایوں میں۔۔۔ 

    ’’شوکت یہ سب سن کر جل جاتے ہیں اور بے دھیانی میں پاس پڑی لڑکیوں کی تصویریں دیکھنے لگتے ہیں‘‘ 

    حور: آپ کس کا انتظار کررہے ہیں؟ زندگی میں؟ 

    شوکت: (اچھل کر) میں؟ نئیں تو۔۔۔ 

    حور: ابھی بول تو رہے تھے کہ انتظار بڑی بری چیز ہے۔۔۔ 

    شوکت: ہاں آں وہ۔۔۔ بس۔۔۔ 

    حور: آپ اچھے آدمی ہیں۔ (سنجیدگی سے) جیسا کہ آدمی کو ہونا چاہئے (آہستہ سے) اور لوگوں جیسے نہیں۔۔۔ سوری میں نے پتہ نہیں آپ کو بھی۔۔۔ (رک کر) اُن جیسا سمجھ لیا۔ فاطمہ بی ٹھیک کہتی ہیں۔ اب آپ شادی کر ہی لیں۔ دکھائیں یہ تصویریں! (تصویریں دیکھ کر) ہاں اں۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ ارے ان کو تو میں جانتی ہوں۔۔۔ ان کی ایک طلاق ہوچکی ہے۔ مگر اچھی ہیں۔ ذکیہ باجی۔ بیچاری بڑی دکھی ہیں۔ 

    شوکت: (دل چسپی نہ لیتے ہوئے) آپ۔۔۔ آپ کے گھر میں کون کون رہتا ہے؟ امی ابا، بھائی، بہن؟ 

    حور: (آہستہ سے) بھائی، بہن، یہ پتہ نہیں کون ہوتے ہیں۔ کیسے ہوتے ہیں۔۔۔ ببلی خالہ میری اماں کی کزن ہیں، بس انھوں نے ہی پال لیا، جیسے تیسے۔۔۔ پارلر چلاتی ہیں۔ وہ ہے ناں اُدھر اسٹاپ کی طرف دلہن پارلر، وہ والا۔ 

    شوکت: ہاں آں، اچھا۔۔۔ (انھیں مزہ آرہا ہے باتوں میں) پھر؟ اور؟ 

    حور: اور کیا؟ اماں کو تو میں ایسے چٹ کر گئی، بقول پورے خاندان والوں کے۔۔۔ بتائیں ذرا انسان کیا اپنے نصیب خود بناتا ہے؟ اگر بناتا ہے تو کیا وہ اپنی ماں کو کھا جانے کا منصوبہ اوپر سے بنا کر لاسکتا ہے؟ ہاں، بولیں؟ 

    شوکت: آ۔۔۔ نہیں۔ غلط ہے یہ بات۔ پھر؟ 

    حور: (حور سامنے پڑی مونگ پھلیاں کھارہی ہے) بس ببلی خالہ کے ہاں ہی لوٹ پوٹ کر بڑی ہوگئی۔ کبھی ایک ماموں کے محلے میں پانچویں تک پڑھا۔۔۔ پھر دوسرے کے ہاں میٹرک کرلیا۔ 

    شوکت: آگے؟ آگے پڑھو ناں تم۔۔۔ ابھی تو پڑھنے کی عمر ہے۔ 

    حور: رہنے دیں۔۔۔ خالہ کے ساتھ پارلر میں کام کرتی تھی وہاں میری لڑائیاں ہوگئیں۔ 

    شوکت: تو گھر پر رہیں۔ گھرداری کریں۔ سینا پرونا۔ 

    حور: ہونہہ! گھر پر۔۔۔ گھر پر تین کتے ہیں۔۔۔ 

    شوکت: (ڈر کر) باپ رے۔۔۔ کتے؟ تین کتے؟ 

    حور: (ہنس کر) آپ ڈر گئے؟ ارے تین کتے، میرے تین کزن۔۔۔ مسٹنڈے، کام چور۔۔۔ چرسی، جو میرے لیے آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ 

    شوکت: (اداسی سے) اوہ۔۔۔ 

    حور: اب بتائیں۔۔۔ اس میں کیا گھر داری ہو، کیا پڑھائی ہو۔ 

     کبھی کبھی دل چاہتا ہے گھر سے بھاگ جاؤں۔۔۔ یا پھر دنیا سے۔۔۔ 

    شوکت: ارے؟ نہیں نہیں۔۔۔ 

    حور: ہاں ہاں۔۔۔ بھاگ کر جہاں بھی جاؤں گی وہ دنیا ببلی خالہ کے گھر سے تو بری نہیں ہوگی؟ کہ ہوگی؟ اور اگر خودکشی کرلی تو سیدھے (جہاز کا اشارہ کرکے) دوزخ میں!تو شوکت جی، دوزخ میں تو already میں رہ رہی ہوں۔۔۔ 

    اللہ۔۔۔ پھر بھوک لگ رہی ہے۔ 

    شوکت: (اٹھتے ہوئے) میں ایک چائے اور بناکر لاسکتا ہوں۔ 

    حور: ایک نہیں، دو۔ 

    شوکت: (اُداس ہوکر) ویسے باہر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔۔۔ آپ۔۔۔ چاہیں تو اب جاسکتی ہیں۔ 

    حور: اچھا؟ لیکن گلی کا دروازہ تو ہیرو نے باہر سے بند کردیا تھا۔۔۔ 

    شوکت: دیکھتا ہوں شاید کھول گیا ہو۔۔۔ (جانے لگتے ہیں اور کمرے سے نکل کر سوچنے لگتے ہیں۔) 

    شوکتV/o: کاش کاش ہیرو نے دروازہ نہ کھولا ہو۔ کاش! اللہ میری یہ چھوٹی سی دعا سن لے۔ 

    ’’دروازے کے پاس جاکر رک جاتے ہیں پھر کچن میں چائے بنانے چلے جاتے ہیں۔ بند دروازہ، گلی میں باہر جانے کا۔ شوکت ایک ہاتھ چائے کی ٹرے (دو کپ) لیے کھڑے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازے کو دھکیلتے ہیں۔ وہ آہستہ سے باہر کی طرف کھل جاتا ہے۔ اُداس ہوجاتے ہیں۔ مرے قدموں سے حورشمائل کی طرف جاتے ہیں۔ حورشمائل دوپٹہ اوڑھے کھڑی ہے۔‘‘ 

    شوکت: (حیران ہوکر) یہ۔۔۔ یہ۔۔۔؟ 

    حور: یہی تو میں حیران ہوں۔ اندر تو آپ نے پورا بوتیک کھول رکھا ہے۔ اور یہ سارے جوڑے۔۔۔ کتنے پیارے ہیں۔۔۔ مہنگے مہنگے۔۔۔ یہ شرٹ تو سب میرے ناپ کی ہیں۔ ہائے اللہ (ایک شرٹ لگا کر) کتنی پیاری ہے۔ آپ کی چوائس بہت A-1 ہے شوکت جی۔ 

    شوکت: (آہستہ سے) یہ۔۔۔ یہ سب میرے خواب ہیں۔ 

    حور: یہ خواب ہیں؟ (زور زور سے ہنستی ہے) ۔۔۔ جھوٹے۔۔۔ (پیار سے) 

    شوکت: (مسکرا کر) میں جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔ آپ خواب دیکھتی ہیں؟ کوئی خاص؟ 

    حور: ہاں آں!(خیالوں میں کھو کر) میرا خواب ہے کہ میں ایک چھوٹے سے، خوبصورت گھر کی مالکن ہوں۔۔۔ بلکہ، بلکہ میں خود اُس گھر کو جھاڑوں، پونچوں۔۔۔ (اُداس ہوکر) ببلی خالہ کا گھر بہت گندا ہے۔۔۔ بہت ہی۔ ابکائی آتی ہے، بدبو۔ (بات بدل کر) کیا ان جوڑوں کی exhibition کروائیں گے؟ بتائیں ناں؟ 

    شوکت: یہ سب۔۔۔ بس۔۔۔ (اُداس ہوکر) کسی کا آرڈر ہے۔ 

    حور: (غرارہ اٹھا کر) یہ بھی؟ یہ تو دلہن کا لگتا ہے۔ 

    ’’اُس کا دوپٹہ اوڑھ لیتی ہے اور بالکل اُن کے خواب جیسی لڑکی دلہن بن جاتی ہے۔‘‘ 

    شوکت: ہاں یہ بھی۔ (سختی سے) آپ رکھ دیں اُدھر۔ چائے کا دھبہ لگ جائے گا۔ 

    (حور ڈر کر واپس رکھ دیتی ہے۔ شوکت دروازہ کھول چکا ہے۔) آپ جاسکتی ہیں!

    ’’دونوں کمرے کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔۔۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔ پہلی مرتبہ شوکت نے کھلی آنکھوں سے اُسے دیکھا ہے۔ اب وہ نظریں چراتی ہے، mannequinکی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘‘ 

    حور: یہ۔۔۔ آپ نے میری قمیض اُسے کیوں پہنائی ہے؟ 

    شوکت: (چڑ کر) دماغ خراب ہوجاتا ہے میرا کبھی کبھی۔۔۔ آج ضرور اسے لے جانا۔ سارا فساد اس قمیض ہی کا ہے۔ (جاکر اُسے اتارنے لگتے ہیں) لو یہ قمیض لو۔ اپنا سامان لو اور جاؤ۔ اور خدا کے واسطے اب میری دکان پر کبھی مت آنا۔ 

    حور: (شوخی سے) آؤں گی۔ بار بار آؤں گی۔۔۔ حورشمائل کسی کے بھی رعب میں نہیں آتی۔ 

    ’’شوکت سختی سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ چوڑیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور آنکھیں غصے سے ابل رہی ہوتی ہیں۔‘‘ 

    شوکت: میں کہتا ہوں جاؤ۔۔۔ دروازہ کھلا ہے۔ 

    حور: (ہاتھ چھڑا کر آرام سے بیٹھ جاتی ہے) ابھی اندھیرا ہے۔۔۔ اذان ہونے سے ذرا دیر پہلے نکل جاؤں گی۔ 

    شوکت: (تپ کر) تمہاری کون سی محلے میں عزت ہے۔۔۔ 

    حور: (بات کاٹ کر آرام سے) میری تو نہیں مگر آپ کی تو عزت ہے۔ احترام ہے شوکت جی۔ میں کیسے اُسے برباد کرسکتی ہوں۔ ایسے ایک ہی رات میں۔ ایک ہی منٹ میں۔ (شوکت ایک دم ڈھیلے پڑ کر بیٹھ جاتے ہیں) ایک بات کہوں۔ آج سے پہلے مجھ سے کسی نے اتنی تمیز اور عزت سے بات نہیں کی۔ ’آپ‘ تو کسی نے کہا ہی نہیں۔ مجھ سے تو چھوٹے بچے بھی تڑاخ سے بات کرتے ہیں۔ 

    ’’اٹھ کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ سامان اٹھاتی ہے، اذان فجر سے پہلے کی دعا یا اذان فجر شروع ہوتی ہے۔ مائیک میں کھر کھر۔۔۔ دونوں چوکنے ہوجاتے ہیں۔‘‘ 

    حور: آپ کی بیوی بڑی نصیبوں والی ہوگی۔ (حسرت سے) کاش ہم اپنا نصیب خود بناتے، شوکت جی!

    ’’ایک دم سے اندھیرے میں نکل جاتی ہے۔ شوکت دیکھتے ہیں کہ وہ قمیض کا پیکٹ پھر بھول گئی ہے۔۔۔ حسرت سے کھڑے رہ جاتے ہیں۔۔۔ اور ایک تہہ شدہ خط بھی جو کہ گانوں کی ڈائری سے گرتا ہے، بے دھیانی میں کھولتے ہیں۔‘‘ 

    حورV/o: جان سے پیارے اکمل!

    نہ تم فون اٹھا رہے ہو نہ message کے جواب دے رہے ہو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ تم تو کہتے تھے ساری زندگی میرے سوا کسی سے پیار نہیں کرو گے لیکن۔۔۔ اب تمھیں ڈیفنس والی ہر لڑکی سے پیار ہورہا ہے۔ میں تمھیں یہ خط نہیں لکھتی لیکن۔۔۔ کیسے لکھوں اکمل کہ میں pregnant ہوچکی ہوں۔ لیڈی ڈاکٹر کہتی ہے کہ صفائی ہوجائے گی لیکن تیس ہزار کا خرچہ ہے۔ شادی نہیں کرتے تو کم از کم پیسے ہی دے دو۔ ورنہ میں خودکشی کرلوں گی۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔۔۔ 

     تمہاری حور شمائل۔ 

    ’’شوکت واپس دکان پر آجاتا ہے۔ ہیرو دکان کی صفائی کررہا ہے۔ کوئی اُداس غزل چل رہی ہے۔۔۔ شوکت بھی اُداس بیٹھے ہیں‘‘ 

    ہیرو: استاد۔۔۔ اب تو استانی آنے والی ہیں، مطلب بھابھی۔ اب تو خوش ہوجاؤ۔ 

    شادی بیاہ کا گانا لگادوں؟ (شوکت خاموش ہیں) پتہ نہیں کیا روگ لگ گیا اِن کو۔ بات بھی نہیں کررہے۔ 

    ’’ہیرو کام کرتے ہوئے۔ اتنے میں حور شمائل گھبرائی ہوئی آتی ہے۔ ہیرو کو دیکھ کر جھجک جاتی ہے۔‘‘ 

    حورشمائل: شوکت جی۔ وہ سلام۔۔۔ میرا وہ۔۔۔ میری وہ ڈائری۔ نہیں قمیض رہ گئی ہے آپ کے پاس۔ 

    ’’اشارے سے کہتی ہے کہ ڈائری رہ گئی۔ شوکت قمیض دے دیتے ہیں‘‘ 

    ہیرو: وہ۔۔۔ (آہستہ سے) ڈائری۔۔۔ 

    شوکت: ڈائری نکال کر دے دیتے ہیں 

    ’’وہ الٹ پلٹ کر دیکھتی ہے۔ اس میں خط نہیں ہے۔ پریشان کھڑی ہے۔ اب شوکت اُسے خط دیتے ہیں۔ نظروں ہی نظروں میں ساری داستان عیاں ہے۔ ہیرو منہ پھاڑے دونوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ 

    ہیرو: استاد کی شادی طے ہوگئی ہے، چھبیس جولائی۔۔۔ مبارک تو دے دو باجی۔ 

    حور: (مری آواز میں) اچھا۔۔۔؟ مبارک ہو شوکت جی۔۔۔ 

    ’’خط لے کر جانے لگتی ہے۔ دو قدم دور جاتی ہے تو شوکت بے تابی سے آگے بڑھتے ہیں۔ ہمت کرکے مرد کی طرح بولتے ہیں۔‘‘ 

    شوکت: حور شمائل! کیا تم میرے نکاح میں آنا پسند کرو گی؟ 

    ’’حور شمائل کے خوشی والے expression۔۔۔ خط کو دیکھتی ہے جو کہ کھلا ہے۔۔۔ ہیرو خوشی کا نعرہ لگاتا ہے۔‘‘

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے