Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لہو لہو راستے

رتن سنگھ

لہو لہو راستے

رتن سنگھ

MORE BYرتن سنگھ

    کہانی کی کہانی

    یہ کہانی سماجی تفریق کے گرد گھومتی ہے۔ گاؤں میں کچھ اونچی ذات کےلوگوں کو چھوڑ کر کسی اور کو بھی سر اٹھا کر چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر ایک روز ایک شخص نے ٹھاکر کی حویلی کے سامنے سے گزرتے ہوئے اوپر کی طرف دیکھا تو اسے وہاں کچھ چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کی روشنی میں اس کا سر اونچا اٹھتا ہی چلا گیا۔ مگر اس کی قیمت اسے اپنے سر کو جسم سے جدا کر کے چکانی پڑی۔ پھر کچھ اور لوگوں نے ایسا کیا اور ان کے سر بھی جسم سے الگ کر دیے گئے۔ پہلے شخص کا بیٹا، جو اپنے باپ کی موت سے بدحواس ہو گیا تھا، وہ سوچتا ہے کہ ایک دن تو ایسا آئے گا جب سبھی لوگ سر اٹھاکر چلیں گے۔

    اس کے باپ کا قتل کیوں ہوا، اس کی کہانی تو مجھے اپنا سر نیچا کرکے کہنی پڑے گی اور آپ کو بھی اسے سننے کے لیے اپنے سر نیچے کرنےہوں گے۔۔۔ ورنہ ہوسکتا ہےمیرے اور آپ کے سر بھی اسی طرح قلم کردیے جائیں۔ ہاں البتہ باپ کےقتل سےدہشت زدہ ہوکر وہ پانچ چھ سال کامعصوم سابچہ بھاگا تو اس سے اس بستی میں ایک ایسی کہانی کی داغ بیل پڑی ہے، جو کہیں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہےاور وہ بچہ، برسوں گزر گئے تب سے لے کر اب تک متواتر دوڑ رہاہے۔ تیز تیز۔

    جہاں کہیں وہ کسی آدمی کی صورت دیکھتا ہے اسے دہشت ہونے لگتی ہے۔ اس کے پاؤں تلے جیسے زمین کے ذرے انگارے بن جاتے ہیں اور وہ اس آگ سے بچنے کے لیے تیز رفتاری سے بستی کے باہر کی طرف دوڑنے لگتاہے۔ وہ دوڑتا ہے تو کھیتوں میں کٹی ہوئی فصلوں کی جڑیں پگڈنڈیوں پر بکھرے ہوئے کنکر پتھر، راستے کی جھاڑیاں، یہ سب اسے لہو لہان کرتی رہتی ہیں۔ لیکن وہ دوڑتا رہتا ہے دوڑتا رہتاہے لیکن گاؤں کی آخری حد پر پہنچتے ہی نہ معلوم کون سی مقناطیسی کشش اسے واپس کھینچ لاتی ہے اور وہ پھر گاؤں کی طرف پلٹ آتا ہے یا پھر اس کے گرد چکر لگانےلگتاہے۔

    دوڑتے ہوئے وہ اپنے بازو ہوا میں یوں لہراتا ہے جیسے ہوا میں تلوار چلارہاہو جیسے کسی چیز کو وہ کاٹ رہاہو۔ اس کے بازؤں کو اس طرح لہراتے دیکھ کر لوگ اندازے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ وہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کے باپ کاسرکاٹ دیا گیا تھا یا پھر یہ کہ وہ ہوا میں بازو لہرا کر تصور ہی تصور میں باپ کے قاتلوں کے سر اس طرح کاٹ کاٹ کر زمین پر پھینک رہاہے۔ ان دونوں باتوں میں کون سی بات صحیح ہے ،یہ تو صرف وہ لڑکا ہی بتاسکتا ہے لیکن اس سے پوچھاکیسے جائے۔ وہ تو کہیں رکتاہی نہیں۔

    اب رہی اس کے باپ کے قتل کی بات۔

    تو اس کی ذمے داراس بستی کی صدیوں پرانی روایت ہے جس کے مطابق اس بستی کے بیشرو لوگوں کو ہروقت سرجھکا کر چلنا پڑتا ہے۔ سراٹھاکر چلنےوالے صرف چند ہی چودھریوں کے گھر ہیں جواس بستی کی ساری زمین اور پیدا وار کے مالک ہیں اور ایک طرح سے ساری بستی کے ان داتا ہیں۔ باقی لوگ صدیوں سے، یپڑھیوں سے سرجھکاکر ہی چلتے آئے ہیں۔

    انہیں یہ تو معلوم ہے کہ زمین پر روشنی پھیلتی ہے تو کام کرنا ہوتا ہے اور اندھیرے پھیلتے ہیں تو تنگ و تاریک کوٹھریوں میں دبک کر چھپ جانا ہوتا ہے، لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ آسمان پر چمکتا ہوا ہر نیا سورج دنیا کی نئی وسعتوں کی طرف اشارہ کرتاہےاور رات کے اندھیرے میں چمکتے ہوئے چاند اور ستارے نت نئی منزلوں اور بلندیوں کا پتہ دیتے ہیں اور یہ کہ اس سورج کی روشنی میں اور چاند کے حسن میں ان کا بھی حصہ ہے۔ برابر کاحصہ۔ان کے جھکے ہوئے سروں نے اب تک دیکھا تھا اپنے مٹی میں سنے ہوئے ہاتھوں کو اور دھول سے اٹے ہوئے پیروں کو اور اپنے گرد بکھرے ہوئے کانٹوں اور کنکروں کو جنہیں صاف کرتے کرتے ان کی زندگیاں لہولہان ہوجاتی ہیں۔

    انہی لوگوں میں اس لڑکے کاباپ تھا۔ جس نےایک شام اپنے گھر کی طرف لوٹتے ہوئے بستی کے چودھری کی اونچی حویلی کی طرف دیکھنا شروع کیا تو جیسے جیسے وہ حویلی فضا میں اونچی ہوتی چلی گئی ویسے ویسے اس کی نظر بھی اوپر اٹھتی گئی اور ساتھ ہی اٹھتا چلاگیا اس کا سر۔

    اب اس کی نظر حویلی کی سب سے اونچی کھڑکی پر جمی تھی جس میں بجلی کی روشنی اس طرح چمک رہی تھی جیسے چاند آسمان سے اتارکر اس کھڑکی میں لیمپ کی طرح رکھ دیا گیا ہو۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نیںں آرہاتھا۔ تو کیا سچ مچ چودھری نے چاند اتار کر اپنی کھڑکی میں رکھ دیا ہے۔ اس نے کھڑکی کے پیچھے چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا۔ چاند کہیں دکھائی نہیں دے رہاتھا۔پھر اس نےاپنا سر پوری طرح اوپر اٹھاکر آسمان کھنگال ڈالا۔ وہاں انگنت ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی اسی بلندی پر چودھری کی کھڑکی میں چمک رہاتھا آسمان کا چاند۔

    اس چاند کو دیکھنے کے لیے اس کا سرکافی دیر تک اونچا اٹھا رہا تو اسے سر اٹھاکر چلنا اچھا لگا۔ سراٹھاکر چلنے سے اسے ایسا لگا جیسے اس کا وجود اونچا ہو رہاہو۔ جیسے چاند اس کے سر کے قریب چمک رہا ہو پھر اس نے سوچا کہ جو چاند چودھری کی کھڑی میں چمک سکتا ہے، وہ اس کے سر پر بھی چمک سکتا ہے، اس کے اور اس کے ہزاروں ساتھیوں کے اندھیرے گھروں میں بھی چمک سکتا ہے۔

    اپنی زندگی میں چاند کے چمکنےکی خواہش پیدا ہوتے ہی اس پر نشے کاسا اثر ہوا، اور دوسرے لمحے اس کے ہونٹ کچھ گنگنارہے تھے، جس کامفہوم کچھ اس طرح تھا۔ ’’سر اٹھا کے چلو۔۔۔‘‘ اور پھر اس نغمے کی آواز کچھ اونچی ہوئی۔ کچھ اور اونچی۔ اس کے اپنے کانوں کو وہ آواز اچھی لگی جیسے وہ نہیں بلکہ کوئی دوسرا آدمی اپنے نغموں سے اس کے وجود میں رس گھول رہاہو۔ پھر اس کی آواز اتنی اونچی ہوگئی جیسے وہ اپنا گیت آسمان کے ستاروں کو سنانا چاہتا ہو۔ جیسے وہ اپنی آواز کے سہارے ان ستاروں کو اسی لمحے توڑ کر لانا چاہتا ہو۔۔۔

    تبھی کوئی گھڑسوار نہ معلوم کب اس کے پاس گزرا تھا اور اس کی گردن تن سے کٹ کر الگ ہوگئی تھی۔ اس کے پہلے نغمے کی تان آسمان کی بلندی سے یک لخت زمین پر گری اور اس نے لہو لہو ہوکر دم توڑ دیا۔

    اور تب سے اس باپ کا لڑکا دہشت زدہ ہوکر پاگلوں کی طرح اس بستی میں اسی طرح دوڑتا رہا ہےاور اس بستی کے لوگ اسی طرح سرنیچا کیے چلتے رہے ہیں۔ بلکہ اس قتل کے بعد سے ان کے سر پہلے سے بھی زیادہ جھک گئے تھے۔ ہاں البتہ اس پاگل بچے کی ضرورتوں کا انہیں ضرور احساس ہے۔ وہ اس کے لیےکھانے کا سامان کسی مخصوص پیڑ کے تنے پر رکھ دیتے تھے، جہاں وہ رات کے اندھیرے میں پتہ نہیں کب آتا، ڈرا اور سہما ہوا اور کھانا کھا کر پھر اسی طرح دوڑنا شروع کردیتا۔

    پھر ایک دن گاؤں کا ایک اور نوجوان جس کے کھیت چھن چکے تھے اور جو بے کاری کی گہری کھڈ میں پھینک دیاگیا تھا ،اس نے اپنے تین دوستوں سے بڑی رازداری سے مشورہ کرتےہوئے کہا کہ اس طرح زندگی میں سرجھکاکر چلتےچلتے میں تنگ آگیا ہوں اور میرا دل کرتا ہےکہ آج سےمیں بھی اس پاگل لڑکے کے پیچھے پیچھے بھاگنا شروع کردوں۔

    اس کے دوستوں نے بھی دبی زبان میں کہا کہ وہ بھی ایک عرصے سےکچھ اسی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ اور اس زمین پر گردن اٹھاکر چلنےکے لیے وہ بھی بے چین ہیں۔ اور اس دن یہ ہوا کہ اس بستی میں ایک ساتھ چار خون ہوگئے۔ برسوں پہلے ہوئے خون اور اس خون میں فرق یہ تھا کہ تب صرف ایک سر اٹھاتھا جو قلم ہوگیا تھا اور اب کی ایک ساتھ چار سر قلم ہوئے تھے۔

    اس دلدوز واقعے کے بعد جہاں بستی والےلوگوں کے سرزمین کی طرف اور زیادہ جھک گئے ہیں وہاں بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش بھی پیدا ہوئی ہے کہ وہ سب ایک ساتھ سر اونچا اٹھالیں۔۔۔ اور پھر جو ہو سو ہو۔

    اور۔۔۔ اور۔۔۔ وہ جو پاگل لڑکا ہے اس کے بھاری زخمی قدموں سے اور زیادہ خون رسنے لگاہے لیکن اس میں ادھر ایک خاص تبدیلی یہ آئی ہے کہ دوڑتے ہوئے وہ اپنا سر اونچا اٹھا کر رکھنے لگا ہے اور شاید اس کے کانوں میں یہ بھنک پڑگئی ہے کہ وہ دن اب بہت دور نہیں جب اس کے گاؤں کے تمام دبے کچلے لوگ ایک ساتھ سر اٹھا کر اس کے ساتھ دوڑ میں شامل ہوجائیں گے۔

    اسی لیے اس کی رفتار اور تیز ہوگئی ہے اور تیز۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے