Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لہو رنگ تصویر

احمد صغیر

لہو رنگ تصویر

احمد صغیر

MORE BYاحمد صغیر

    اندھیرے کی حکومت بڑھتی جا رہی ہے۔

    چراغ ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں۔

    میں آئندہ منظر کی دستک سے ڈرتی ہوں۔

    پتہ نہیں آنے والا منظر کیسا ہو۔۔۔؟

    ملک کے حالات بدلتے جا رہے ہیں۔

    شائستہ کی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو ایک انجانا سا خوف اس کے اندر سرایت کر جاتا ہے جیسے ہر نگاہ اسے گھور رہی ہو —— دیکھو وہ مسلمان لڑکی جا رہی ہے—— وہ ایک دم سے کانپ جاتی۔ اسے لگتا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ مڑکر دیکھتی مگر وہاں کوئی نظر نہیں آتا پھر کون ہے جو اسے ڈرا رہا ہے۔ کہیں اس کے اندر کا خوف تو نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ڈر ایسے ہی سرایت نہیں کرتا۔ کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور وجہ ہے بدلتا ہوا ماحول۔۔۔ عارض بھائی نے ایک دن ابو سے کہا تھا——

    ’’ابو! گاؤں کے لڑکے مجھ پر فقرے کستے ہیں۔۔۔اب یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ جس طرح منجھلے چچا اور چھوٹے چچا گاؤں چھوڑ کر چلے گئے، ہمیں بھی چلے جانا چاہئے۔‘‘

    ’’نہیں بیٹا ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہم لوگ ستر سال سے مل کر یہاں رہ رہے ہیں۔ بٹوارے کے وقت بھی یہاں کوئی فساد نہیں ہوا۔ یہ چند لڑکے جو فقرے کستے ہیں۔ یہ ناسمجھ ہیں۔ آپ کو ان باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔‘‘

    عارض بھائی تو ابو کی باتوں سے مطمئن ہو گئے تھے لیکن میرے اندر ایک کانٹا سا چبھ رہا تھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ یہی فقرے کل نعروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ چنگاری کو ہوا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ خود بخود شعلہ بن جاتا ہے۔

    اور شائستہ کا خوف حقیقت میں بدل گیا۔

    ایک پل میں سب کچھ نہیں بدلاہے۔ ستر برسوں کا رشتہ ایک دن میں ختم نہیں ہوا ہے۔ کوئی تو ہے جو اس رشتے کی جڑ کو برسوں سے کاٹ رہا تھا۔۔۔ زہر کا انجکشن دے رہا تھا۔ تبھی تو رشتے کی لالیما ختم ہو رہی ہے اور زہریلا رنگ ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ کتنا اپنا پن تھا اس گاؤں میں جیسے سب اپنے ہیں، بالکل سگے، کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ راجندر چاچا، سمترا چاچی، رادھیکا۔۔۔۔۔۔رادھیکا تو میری سگی بہن جیسی لگتی تھی۔ دیوالی میں ہم لوگ مل کر دیپک جلاتے۔ ہولی مل کر کھیلتے اور عید کے دن رادھیکا نئے کپڑے پہن کر میرے گھر آ جاتی اور ابو سے کہتی—— ’’چاچا عیدی دیجئے۔‘‘ —— اور ابو سو کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتے۔ وہ شکریہ ادا کرتی اور ہم لوگ میلہ گھومنے چلے جاتے۔

    لیکن اب تو سب کچھ بدل چکا ہے۔

    زمانہ۔۔۔ زمین۔۔۔ مکین۔۔۔ رشتے۔۔۔ مسکراہٹیں۔۔۔ نگاہیں اور ارادے۔۔۔ اس بدلے ہوئے حالات کا نوحہ تو سبھی کر رہے ہیں لیکن حالات کو بہتر بنانے کے لئے کون سامنے آ رہا ہے۔۔۔ خوف کی ایک دبیز پرت سب کے دلوں میں جم گئی ہے۔ دھند میں ڈوبی شام زینے سے آہستہ آہستہ اتر رہی ہے۔ منظر پر خاموشی کا غلاف چڑھ گیا ہے۔ چہکتے چہرے اب مرجھا گئے ہیں۔ ہنسی کا فوارہ پھوٹنا بند ہو گیا ہے۔ میرے گھر کے ہر فرد کا چہرہ لہو رنگ لئے ایک تصویر بنا ہوا ہے۔ ایسی تصویر جس کا کوئی بھی عنوان دیا جا سکتا ہے۔۔۔ آدری۔۔۔ ہاں یہ نام ہی صحیح ہے۔ آخر اسی نام سے تو ہماری تصویر پہچانی جا رہی ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک ایک تصویر ابھر رہی ہے۔۔۔ ابو محمدطارق۔۔۔ بڑے بھائی جان محمد زرتاج۔۔۔ منجھلے بھائی جان محمد حامد اور چھوٹے بھائی محمد عارض۔۔۔ اس میں ابو کی تصویر لہو رنگ لئے ہوئے ہے۔ ہاں لہو رنگ اور بھائی عارض کا چہرہ لہو لہو ہے۔ اس کے جسم سے اتنا لہو ٹپکا ہے کہ جسم زرد پڑ گیا ہے۔ پیلی آندھی ایسی چلی کہ سب کچھ تباہ ہو گیا۔ پیلی آندھی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اسے پیلی آندھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو کیسریا آندھی تھی۔۔۔ یہی آندھی تو ابھی ملک میں چل رہی ہے جو ملک کی سا لمیت اور ایکتا کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

    اس رات تمام منظر پر دھند طاری تھی۔ ہوا سہمی سہمی سی بہہ رہی تھی۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے کہ اچانک باہر سے چیخنے اور گالیاں دینے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دروازہ پیٹا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بغل کے مکان سے ایک میٹر اونچی دیوار پھاند کر بھیڑ مکان کے اندر گھس آئی۔ گھر کا ہر فرد چیخ رہا تھا۔ سامنے کے راجندر چاچا نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا بلکہ آس پاس کے سبھی دروازے بند ہو گئے تھے۔ ہم لوگ بے اماں مدد کے لئے چلا رہے تھے لیکن کوئی دروازہ کھول کر مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر رشتہ داروں کے یہاں سے جو بکرے کا گوشت آیا تھا فریج میں رکھا ہوا تھا۔ اسے گائے کا گوشت بتا کر فسادیوں نے فریج سے باہر نکالا اور میرے ابو اور بھائی کو پیٹنا شروع کر دیا۔ اینٹ سے عارض بھائی کو پیٹ کر لہو لہان کر دیا۔ وہ بے ہوش ہوگئے۔ اسے مرا سمجھ کر میرے ابو کو گھسیٹتے ہوئے مکان سے باہر لے گئے اور بیچ سڑک پر ڈنڈوں اور پتھروں سے کچل کر مار ڈالا۔ لوگ میری عزت لوٹنا چاہتے تھے لیکن میں اپنے آپ کو کسی طرح بچا نے میں کامیاب ہو گئی۔ دادی کو اتنا مارا کہ وہ سیاہ پڑ گئیں۔ امی بھی لہو لہان ہو گئیں۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے؟

    شائستہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ بار بار ابو کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا۔ جیسے وہ کہہ رہے ہوں بیٹا اب یہ گھر محفوظ نہیں ہے۔ کسی دن یہ فسادی تم لوگوں کو بھی مار ڈالیں گے—— شائستہ بلک پڑی۔ اس گھر میں وہ پیدا ہوئی۔ کھیلی کودی، جوان ہوئی۔ یہاں کے سب لوگ تو اس کے اپنے تھے لیکن چند برسوں میں ایسا زہر بویا گیا کہ ساری فضا ہی زہر آلود ہو گئی ہے۔ اب ہماری پہچان انسان سے نہیں ہوتی۔ ہندو مسلمان سے ہوتی ہے۔ کوئی بھی مندر سے کچھ بھی اعلان کر دیتا ہے اور بھیڑ دنگائی ہو جاتی ہے۔ بھیڑ، بھیڑیے کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اپنے نوکیلے دانتوں سے جسم کا ایک ایک قطرہ خون بہا دینا چاہتی ہے۔ خون۔۔۔ انسانیت کا خون۔۔۔ انسانیت سسک رہی ہے اور حیوانیت قہقہے لگا رہی ہے—— ’’یہاں رہنا ہے تو میری شرط پر جینا ہوگا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے