Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکڑی کی دیوار

نعیم بیگ

لکڑی کی دیوار

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    میں اسکی صرف آواز سن رہا تھا اور وہ مسلسل بولے جارہا تھا۔

    ’’فادر۔۔۔‘‘ اس نے پھر کہنا شروع کیا۔ ”میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مجھ سے پیار کرے، مجھے چاہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ صرف مجھے یہ احساس دے دے کہ وہ مجھے چاہتا ہے۔ میری محبت، میری زندگی بھر کی قربانیاں، میری آرزوئیں سبھی کچھ تو وہ ہے۔ میں نے تو اس کے لیے اپنی زندگی بِتا دی۔ وہ میری آنکھوں کا نور ہے۔۔۔ فادر۔۔۔ وہ میرا ہے، فطرت نے اسے مجھے بخشا ہے۔ میں گر فرعون نہیں تو پھروہ موسیٰ کیوں ہے۔۔۔ فادر؟‘‘

    اسکی آواز میں شدید درد تھا اور شاید آنکھوں میں آنسو بھی۔۔۔ جنہیں میں دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان حائل لکڑی کی ایک خوبصورت چمکدار دیوار تھی جس میں ایک کھڑکی نما پٹ کھلا ہوا تھا جس سے میں اسکی صرف آواز سن سکتا تھا۔ میرے کیبن سے جڑے کیبن میں وہ اپنی کتھَا لیئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا۔ ہم دونوں کا منہ مقدس شہر کی طرف تھا اور ہم دونوں خدا کے سامنے پیش تھے۔

    وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آیا تھا میں جانتا تھا کہ وہ دور پہاڑوں پر بسے ایک تاریخی قصبہ کے اسکول کا بیالیس سالہ استاد جوائس ہے۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بات کرنے آیا ہے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ لوگ خدا کے سامنے کیوں پیش ہوتے ہیں۔

    فادر۔۔۔ جب آج سے بیس برس پہلے مجھے سنجو ملی تھی تو میں اسکی محبت میں اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت اور نازک تھی کہ میں اسے پیار کرتے ہوئے اسکے معصوم ہونٹوں کو چھوتے ڈرتا تھا کہ کہیں مرجھا نہ جائیں۔ سنجو کی موٹی موٹی ہرنی جیسی آنکھیں دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ میں دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص ہوں اس لیے نہیں کہ وہ مجھے ملی تھی بلکہ اس لیے کہ مجھے ہمیشہ جھیل جیسی نیلگوں آنکھوں میں ڈوبنے کا سپنا آتا تھا۔ سوتے جاگتے میں یہی دیکھتا تھا کہ نیلگوں جھیل میں ڈوب رہا ہوں اور پھر مجھے آسمانوں سے اترتی ایک پری جس کی آنکھیں اسی جھیل کی مانند نیلگوں تھیں مجھے ایک نئی زندگی دے جاتی تھی۔‘‘

    ’’جب وہ گھر سے لکڑیاں چننے کی بہانے مجھے ملنے آتی تھی تو میں دیکھتا اسکا گلابی چہرہ چھوٹے چھوٹے اونچے نیچے ٹیلوں پر چلنے سے سرخ ہو چکا ہوتا۔ اس کی مہکتی سانس پھولی ہوئی ہوتی اور جب وہ مجھے دور سے دیکھتی تو میں بے اختیار کھڑا ہو جاتا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ڈھلان میں دوڑتی ہوتی اپنے زور میں مجھ سے آ ٹکرائے گی اور تب میں اپنے سینہ کو کھول لیتا اور وہی وہ لمحہ ہوتا جب ہم دونوں مدہوش ہو جاتے۔ دنیا مافیہا سے بے خبر گھنٹوں باتیں کرتے۔ میں قصبہ سے لائے ماریو کے خستہ رول اور قیمہ بھرے تندوری پراٹھے جب اس کے سامنے رکھتا تو وہ نہال ہو جاتی اچھل کر پہلے میرا بوسہ لیتی اور پھر اس کا چٹورپن سب کچھ ختم کر جاتا کہ میں دیکھتا رہ جاتا۔ اس نے کبھی یہ نہ پوچھا تھا کہ تم بھی کھاؤ گے کیا؟ لیکن اسے یہ پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ میری بھوک تو اسکی محبت تھی اور میں اس کے لیئے دیوانہ تھا۔‘‘

    پھر وہ کچھ دیر کے لیئے خاموش ہو گیا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔

    ’’فادر۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں لیکن دیکھیں مجھے سب کچھ کہنے دیں ورنہ میں الوہی روشنی کے ہالے میں کیونکر داخل ہو سکتا ہوں جب تک میں اپنی آواز میں اپنے خدا کو سب کچھ نہ بتا دوں۔‘‘

    وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے۔ اسے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے صرف مانگا جا سکتا ہے۔‘‘ میں نے آہستگی سے اسے سمجھایا۔

    ’’ہاں میں جانتا ہوں کہ وہ سب کچھ جانتا ہے جبھی تو بات کرنے آیا ہوں۔ اپنا دل کھول کر اسکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ وہ کیوں میرے دل کے درد سے نا آشنا ہے۔‘‘

    وہ جذبات میں آ کر اونچی آواز میں بولنے لگا لیکن پھر جیسے کسی نادیدہ احساس نے اسے دوبارہ اپنے حصار میں لے لیا ہو اس نے اپنی آواز کو دھیما کیا، کچھ لمبے سانس لئے اور پھر چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا۔

    ’’ہاں تو فادر۔۔۔ اے میرے بزرگ و برتر انسان۔۔۔ میری آواز کو سن۔ وہ تو سن رہا ہے لیکن میں تجھے بھی بتانا چاہتا ہوں۔ میں بولنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے درد کا اظہار چاہتا ہوں۔ میرا دل تو تب کھُلے گا جب میں بولوں گا۔ ورنہ اگر مجھے صرف اس احساس کو دل میں دفن کر کے زندہ رہنا ہے تو وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ یہ احساس مجھے مار دے گا۔ اور میں بے وقت کی موت نہیں مرنا چاہتا، فادر۔۔۔ مجھے بچا لو۔۔۔ مجھے بولنے دو۔‘‘

    اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو گیا۔

    ’’میں نے سنجو کو اپنی زندگی دے دی۔ اپنی روح میں اسے اتار لیا تھا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے کہا کہ وہ سب کچھ مجھے دے دو جس کے لیے میں اس دنیا میں آئی ہوں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔ فادر کہ وہ کیا مانگ رہی تھی۔ لیکن مجھے اتنا ضرور محسوس ہوتا تھا کہ جب وہ میرے قریب آ کر بیٹھتی اور اپنی نازک انگلیوں کو آہستگی سے میرے ہونٹوں سے چھوتی تو میرے اندر ایک طوفان برپا ہو جاتا۔ میرے انگ انگ سے شرارے پھوٹنے لگتے۔ اسکی نازک انگلیوں کی پوروں کا لمس جادو کی چھڑی کی طرح اپنا جادو میرے اندر اتار دیتا۔ مجھے یوں لگتا کہ اگر اس نے اپنی انگلیوں کو مجھ سے دور نہ کیا تو میں ایک دھماکے سے پھٹ جاؤں گا۔ پھر وہ مجھے اپنے بازؤں میں بھینچ لیتی اور میں اسکے سینے سے لگا اس کے سنہری بالوں میں اپنے منہ کو چھپا لیتا۔‘‘

    ’’پھر ایک ایسا ہی دن تھا، جب وہ آئی اور ہمیشہ کے لیئے مجھے فتح کر لیا۔ مجھے یاد نہیں اس دن کیا ہوا تھا۔ صرف اتنا جانتا ہوں میرے ہوش میں آنے پر وہ مجھے بے تحاشا پیار کر رہی تھی اور میرے جسم کا کوئی حصہ اس کے پیار سے بچا نہ تھا۔‘‘

    وہ چند لمحوں کے لیے پھر خاموش ہو گیا۔ صرف اس کے سانسوں کی آواز کیبن کے پار سے آ رہی تھی۔ پھر وہ دوبارہ بولا۔ اس بار جوائس کی آواز دور کہیں کنوئیں سے آ رہی تھی۔

    ’’اور فادر۔۔۔ میری روح تک اس دن سرشار ہو گئی تھی۔ میرے چاروں طرف پھیلے گھنے جنگل میں چلتی تیز ہواؤں میں درختوں کی شاخیں فضا میں جھوم رہی تھیں جن سے چھن چھن کر آنے والی دھوپ ہمارے جسموں کو تمازت اور تازگی بخش رہی تھی۔ جنگلی پھولوں کی مہک سے فضا معطر تھی۔ محسوس ہوا کہ کہیں دور بہت اوپر جنگلی پرندے ہمارے پیار کے منظر کو اپنی آنکھوں میں بسا رہے تھے۔ فادر۔۔۔ کیا یہ سب کچھ عین فطری تھا نا، جو سب خوش تھے۔‘‘

    ’’فادر۔۔۔ اور وہ بھی تو دیکھ رہا تھا اور خوش بھی ہو رہا ہوگا کہ ہم نے اسکی سرشاری میں بنائی دنیا کو ایک فخر دیا۔ جو صرف محبتوں کے چشمے سے پھوٹتے ایک دریا کی مانند تھا۔ ہم نے تو پرندوں کو چہچہاتے اور پھولوں کو مہکتے دیکھا تھا۔ ہاں فادر وہی وقت تھا جب میں نے پہلی بار اپنی روح تک کو سرشار دیکھا تھا اور یہی بات مجھے سنجو نے بھی بتائی تھی کہ اس لمحے وہ بھی ایسی ہی محبت کے نشے میں چور اور مخمور تھی۔ اسکا جسم اسکی روح اس کا ایک ایک انگ پیار کی مالا جَپ رہا تھا۔‘‘

    ’’لیکن فادر۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ وہ تو ناراض ہو گیا۔ اس نے پھر کبھی دوبارہ میری طرف دیکھا بھی نہیں۔‘‘

    ’’فادر۔۔۔ یہ سب کچھ تو اس کی مرضی سے ہوا تھا نا؟ ایسا کیوں ہو گیا تھا میں نے تو صرف محبت ہی کی تھی۔ کیا اس نے محبت کا درس نہیں دیا تھا؟‘‘

    ’’فادر۔۔۔ فادر۔۔۔ تم سن رہے ہو کیا؟ پھر وہ ناراض کیوں ہو گیا۔ جب قصبہ میں سنجو کے حاملہ ہونے کی خبر پھیلی تو سارا قصبہ بھی ناراض ہو گیا۔ سنجو نے اسے اپنی کھوکھ سے جنم دینے سے انکار کر دیا۔ تب میں نے سنجو کے پاؤں پکڑ لئے تھے اور اس سے آنے والی نئی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ شاید وہ میری آنکھوں میں چمکتی اپنی محبت کو دیکھ پائی تھی پھر اس نے مجھے دلاسا دیا۔ چند ماہ بعد اس نے ہموز کو جنم تو دے دیا، لیکن وہ قصبہ والوں کی نفرت کا سامنا نہ کر سکی۔ بالاخر اس نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو خدا کے حواکے کر دیا وہ صرف محبت کی دلدادہ تھی اور وہ خود کو سزاوار سمجھتی تھی۔‘‘

    ’’فادر۔۔۔ کیا نفرت محبت سے زیادہ طاقت ور ہے؟ فادر آپ بولتے کیوں نہیں۔۔۔؟ کیا آپ نہیں جانتے ہیں بن ماں باپ اولاد کے کیا دکھ ہوتے ہیں۔ وہی دکھ میں نے اٹھائے ہیں لیکن اف تک نہیں کی۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

    میں نے اپنی آ نکھوں کو ریشمی رومال سے صاف کیا اور رندھی آواز میں اسے بیاں جاری رکھنے کو کہا،

    ’’پھر۔۔۔ فادر یہ ہوا کہ قصبے والوں نے مجھے بلا کر ہموز کو میرے حوالے کر دیا۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی تھی کہ سنجو کے پیا ر کی ایک نشانی اس کی من موہنی صورت میں میرے پاس آ چکی تھی۔ فادر میری زندگی میں دوبارہ بہار آ گئی۔۔۔ یوں میں نے اپنی ساری زندگی اس کے لیے بِتا دی۔ بِن ماں باپ کے گزرتی میری زندگی میں وہ میرا خاندان بن گیا۔ تب میں نے خوب محنت کی اسکی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسے دنیا سے مقابلہ کرنے کی تربیت دی۔ اسے انسانیت سِکھائی۔ حتیٰ کہ پورا قصبہ اب اس کے گن گاتا ہے۔ اس کے حسنِ اخلاق، مردانگی اور اسکے توانا بازؤں سے محبت کی خوشبو آتی ہے۔ وہ قصبے بھر میں ہر ایک کے کام آتا ہے۔ اسے پوری دنیا سے محبت ہے۔ وہ انسانوں پر مرتا ہے وہ کسی بھی ذی روح کے لیے جان دے سکتا ہے۔ سنجو کی طرح اسے پرندوں اور پھولوں سے محبت ہے میری طرح جنگلوں میں آوارہ پھرنا اسے پسند ہے۔ پھولوں کی مہک اسے پا گل کر دیتی ہے۔‘‘

    ’’لیکن فادر۔۔۔ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ وہ سارے جہاں کے سامنے خوشیوں کے انبار لگا سکتا ہے لیکن مجھے اپنی پاؤں کی ٹھوکر سمجھتا ہے۔ وہ مجھے اپنی ماں کا قاتل سمجھتا ہے۔‘‘

    ’’فادر۔۔۔ میں اسے اپنا بیٹا کہہ کر پکار نہیں سکتا؟ وہ مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘

    وہ مسلسل رو رہا تھا اس کی سسکیاں دھیرے دھیرے میری روح میں اتر رہی تھیں۔۔۔

    ”فادر میں اسے اپنا بیٹا کہہ کر پکارنا چاہتا ہوں۔ صرف اپنا اور سنجو کا بیٹا۔ فادر۔‘‘

    رفتہ رفتہ اسکی آواز دور ہوتی گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرا دل بیٹھا جا رہا ہو۔ میرے اور میرے جوائس کے درمیان صرف یہ لکڑی کی ایک دیوار نہیں بلکہ صدیوں کی جدائی حائل تھی۔ پھر اس کی آواز آنی بند ہوگئی۔۔۔ سسکیاں رک گئیں۔ یوں لگا کہ ہمیشہ کی خاموشی اسکا مقدر بن چکی ہے۔

    میں تڑپ اٹھا۔ درد کی ایک شدید ٹیس میرے دل سے نکل کر پورے سینے میں پھیل گئی۔ میں اپنی کرسی سے اٹھا اور بارِ گراں سے جھکے کندھے لیے لڑکھڑاتے قدموں سے چرچ کے گھنٹے کی رسی کو جا تھام لیا۔ گھنٹے کی آواز مسلسل میرے کانوں میں گونج رہی تھی اور میں زمین میں دھنستا جا رہا تھا۔

    میں اپنے جوائس کو کیسے بتا سکتا تھا کہ یہی عذاب تو اسکی پیدائش سے اب تک میں سہہ رہا ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے