Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لمحہ

MORE BYنگار عظیم

    دروازہ کھولا تو اسے یوں سامنے کھڑا دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔

    ’تم؟‘

    ’کیا اندر آ سکتا ہوں؟‘

    ’ہاں ہاں آؤ۔‘

    ایک ہی نظر میں اس نے گھر کا جائزہ لیا۔ اپنے بریف کیس کو ایک طرف رکھا اور صوفے پر اس طرح دراز ہوا جیسے مانوتھک کر چور چور ہو رہا ہو۔ دوتین مرتبہ بالوں میں انگلیاں پھیریں جیسے تھکن کا احساس کم کر دینا چاہتا ہو۔

    ’کیسے آنا ہوا؟ کب آئے؟‘

    ’صبح آیا تھا ویزا کے چکر میں بھٹکتا رہا۔ اب بھی کام مکمل نہیں ہوا۔ کل پھر جانا ہے۔ کام ہو جاتا تو آج ہی واپسی کا ارادہ تھا۔‘

    ’مجھ سے ملے بغیر ہی...؟‘ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ الفاظ بےساختہ میرے منہ سے نکل گئے۔

    ’نہیں ایسی بات نہیں...‘

    وہ میرے وطن کا تھا۔ اس کا نام ندیم تھا۔ لمبی مسافت طے کرکے آیا تھا۔ دفتروں میں بھٹکتے بھٹکتے یقینا وہ بہت تھک گیا ہوگا۔

    میرے دل نے کہاسیدھے ادھر آتے، نہادھو کر آرام کرتے پھر کام کے لیے نکلتے۔ میں کیا تمہاری اپنی نہیں تھی؟

    لیکن یہ سب تو میرے دل نے کہا تھا زبان نے نہیں... اور... اور وہ شاید دل کی بات کہنا اور سننا بھول گیا تھا۔ بھولتا بھی کیوں نہیں... مجھے بہت پہلے سے معلوم تھا کہ اس کی گھریلو زندگی اچھی نہیں گزر رہی ہے۔

    ’تمہارے وہ کہاں ہیں؟‘

    ’وہ تو تمھیں نہیں مل سکیں گے۔‘

    ’لیکن کیوں...‘ بڑا اشتیاق تھا ان سے ملنے کا۔ آخر ایسی کیا بات ہے؟‘

    ’وہ یہاں موجود نہیں۔‘

    ’مجھے بہت افسوس رہےگا ان سے نہ ملنے کا۔‘

    ’مجھے بھی افسوس رہےگا اس بات کا۔ اتفاق ہے کہ وہ اس وقت شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ کل ان کی دادی کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید کل یا پرسوں تک آئیں گے۔‘

    ’اوہ‘ اس نے انتقال پر رسماً افسوس ظاہر کیا۔

    ’بچے کہاں ہیں تمہارے...؟ کتنے ہیں؟ کیا یہی ایک بیٹا ہے؟‘

    ’دو بیٹے ہیں۔ بڑا آٹھ برس کا ہے چھوٹا یہی ہے۔بڑے بیٹے کو یہ ساتھ لے گئے ہیں۔ کہتے تھے پردادی کو آخری مرتبہ دیکھ لے شاید یاد رہیں۔‘

    ’پھر تو میں غلط وقت پر آ گیا ہوں۔ تم اکیلی ہو شاید... مجھے یہاں رکنا نہیں چاہیے۔‘

    ’اب آ ہی گئے ہوتو رک جاؤ۔ کہاں ہوٹل دیکھتے پھروگے۔ یہ ایسے گئے گزرے بھی نہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔‘

    ’مجھے لگا کہ اسے شاید اس آخری جملے کی امید نہیں تھی۔ ہوتی بھی کیسے؟ اچھا فریش ہو جاؤ... میں چائے بناتی ہوں۔‘

    وہ فریش ہوکر نکلا تو میں چائے تیار کر چکی تھی۔

    ’اور سناؤ کیا کر رہے ہو؟‘

    ’وہی ٹھیکیداری...جنگلات کا کام۔‘

    ’کتنے بچے ہیں؟‘

    ’دو۔ایک بیٹا، ایک بیٹی۔‘

    ’بیوی کیسی ہے تمہاری؟ اچھی ہی ہوگی۔ پیسے والی تو یقیناً ہوگی۔‘ آخری جملہ کہہ کر میں نے خود ہی خجالت سی محسوس کی۔امی اور اباجان تو یقیناًبہت خوش ہوں گے۔

    ہاں اچھی ہی ہے کیوں کہ امی اپنی پسند سے لائی ہیں۔ ساراگھر جہیز سے بھر گیا تھا۔ لیکن تمہارے ساتھ ناانصافی کی سزامل گئی انھیں۔ امی اور والد صاحب آخری دنوں میں تمھیں بہت یاد کرتے تھے۔

    ’اوہ...کیا دونوں...؟‘

    ’ہاں...‘ اس نے ایک سرد آہ کھینچی۔

    ساری گزری ہوئی باتیں جنھیں میں بھول چکی تھی یاد آنے لگیں۔ ہم دونوں نے چار سال ایک ساتھ گزارے تھے۔ پڑوس کی شناسائی کالج میں پروان چڑھ گئی تھی۔ اتنی پروان چڑھی کہ ایک ساتھ جینے اور ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے کیے تھے۔ لیکن ندیم کے ماں باپ پر تو جہیز کا بھوت سوار تھا۔ میں تو معمولی گھرانے کی لڑکی تھی اور پھر ویسے بھی میرے والدین ہمیشہ سے جہیز لینے اور دینے کے حق میں نہیں تھے۔ مجھے بھی اپنی انا اور ماں باپ کی عزت پیاری تھی۔ ندیم کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی میں نے اس سے سول میرج نہیں کی۔ بس یہی وجہ ہم دونوں کی علیحدگی کا سبب بن گئی۔

    اب پورے دس برس بعد ندیم کو دیکھ رہی تھی۔ روح وقت سے اپنا حساب مانگ رہی تھی۔ زندگی کی جدوجہد، خوشیاں اور غم، اس کے تمام وجود سے ظاہر تھے۔ بال کھچڑی ہوگئے تھے، صحت بھی کوئی بہتر نہیں تھی۔ طبیعت میں ڈھیلاپن آ گیا تھا۔

    ’ندیم... تمھیں دیکھ کرلگ رہاہے واقعی دس برس بیت گئے۔‘

    ’صرف دس برس...؟ مجھے تو لگتا ہے میرے اوپر سے صدیاں گزر گئی ہیں۔‘

    اس ایک جملہ نے اس کی تمام کیفیت بیان کر دی تھی۔

    میرادل چاہا کہ... لیکن اس سب کی قصوروار میں نہیں تھی۔ کیا میں نے کچھ نہیں جھیلا؟ شاید اس سے بھی زیادہ... یہ اور بات ہے کہ مجھے وقت اور حالات نے سخت بنا دیا۔ میں نے خود کو ٹوٹنے نہیں دیا، بکھرنے نہیں دیا ورنہ...

    ’تم واقعی بہت خوش قسمت ہو پاکیزہ... تمھیں دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ تمھیں سب کچھ پہلے سے بہتر ملا ہے۔ تم اس کی مستحق بھی تھیں۔ کافی مطمئن لگتی ہو یا پھر حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے؟‘

    ’سمجھوتہ تو تم جیسے لوگ کرتے ہیں۔ زندگی میں سب کچھ تونہیں مل جاتا؟ میں بہتر سے بہتر زندگی جینے کے حق میں ہوں اسے چاہو تو سمجھوتہ کہہ سکتے ہو۔‘مجھے لگا کہ شاید میرا لہجہ کچھ تلخ ہو گیا ہے۔

    ’میں کھانے کابندوبست کرتی ہوں۔‘ یہ کہہ میں میں اٹھ گئی۔

    اور وہ میرے بیٹے سے باتیں کرنے میں محو ہو گیا۔

    کھانے کے دوران ہم دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اپنے تمام ساتھیوں کی، دوستوں کی، پڑوسیوں کی، کسی کے مرنے کی، کسی کی شادی کی.........

    ’پاکیزہ...کیا تم ہمارے آنگن کا وہ ککروندے کا پیڑ بھی بھول گئیں جس کے تم نے بہت ککروندے کھائے ہیں؟‘

    ’تم یہ بات کیوں جاننا چاہتے ہو کہ مجھے کیا یاد ہے اور کیا نہیں؟‘

    ’میں یہ اندازہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو میں سوچتا تھا وہ سچ تھا یا غلط۔‘

    ’تم سوچتے ہی غلط ہو۔ اپنی سوچ کا زاویہ بدل دو۔ لمحوں کے کرب سے باہر نکل آؤ۔ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائےگا۔ مکمل جہاں کسی کے حصہ میں نہیں آیا۔‘

    ’توکیا.........؟ .........تم بھی.........؟‘

    ’نہیں بالکل نہیں.........میں خوش ہوں۔‘

    باتیں کرتے کرتے کافی رات گزر گئی۔ ندیم اب تم آرام کرو۔ میں اٹھتی ہوں اور یوں دوسرے کمرے میں میں نے ندیم کے آرام کا بندوبست کر دیا۔

    رات تقریباً آدھی بیت چکی تھی۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بیٹا میری بغل میں آرام سے سو رہا تھا اور میں دس سال پرانی کڑیوں کو جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ آنکھیں چھلک رہی تھیں لیکن حلق میں تشنگی محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک ندیم کے کمرے کی لائٹ روشن ہوئی۔ مجھے کئی وسوسوں نے ایک ساتھ گھیر لیا۔ وہ باہر نکلا۔

    ’پاکیزہ.........پاکیزہ.........سو گئیں کیا.........‘

    میں چپ سادھے پڑی رہی۔ کوئی جواب نہ پاکر اس کے قدم واپس مڑ گئے۔ پھر اس نے صدر دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس آ گیا۔ سگریٹ اس کے ہونٹوں پر سلگ رہا تھا۔ اس نے صدردروازہ بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

    میں نے لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ سونا چاہا لیکن نیند غائب تھی۔ پھر آہٹ محسوس ہوئی۔ میں پھر اٹھ کر بیٹھ گئی لیکن یہ میرا وہم تھا۔

    چاہتی تھی کوئی میگزین کوئی کتاب پڑھوں تاکہ فضول باتیں سوچنے سے بچی رہوں،لیکن میں یہ بھی تو ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی کہ میں جاگ رہی ہوں۔

    لیکن وہ بھی تونہیں سویا۔ اب تک جاگ رہا ہے۔ دن بھر کی تھکان کے باوجود... آخرکیوں؟ وہ شاید پھر اٹھا ہے۔

    ’پانی... پانی تو میں رکھ آئی تھی جگ میں... کیوں اٹھا ہے وہ... کہیں ادھرتو نہیں آ رہا۔ اس مرتبہ شاید وہ باتھ روم گیا تھا... اب شاید وہ باتھ روم سے نکل آیا ہے... شایداب وہ لائٹ بند کرے اور سو جائے۔ لیکن... اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہی اور میں...‘

    رات یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گزر رہی تھی۔ تین بج چکے تھے۔ سرمیں شدید بھاری پن محسوس ہو رہا تھا۔ آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کرکے میں نے سونے کی کوشش کی۔

    پھر آہٹ... آواز... گھبراکر اٹھ بیٹھی۔ سامنے ندیم کھڑا تھا۔

    ’ایک کپ چائے ملےگی؟‘

    ’اوہ...‘ گھڑی پرنگاہ ڈالی سات بج رہے تھے۔ یعنی میں سو گئی تھی۔ آنکھیں اب بھی بوجھل تھیں۔

    چائے لے کر جب میں ندیم کے کمرے میں گئی تو سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے میں نے ایس ٹرے کو بھرا ہوا پایا اتنا کہ کئی ٹکڑے ایش ٹرے کے باہر بھی گرے پڑے تھے اور ندیم کی آنکھیں میری آنکھوں سے بھی کہیں زیادہ بوجھل اور سوجی ہوئی تھیں۔ میں نے سکون کا سانس لیا... وہ کمزور لمحہ گزر چکا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے