موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ بارش کی مندمند پھوہار نے موسم میں مزید تازگی بھر دی تھی۔ لیکن میرے اندر کے کسیلے پن نے اس روح پرور موسم کے لطف سے مجھے محروم رکھا۔ بس کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اسے اتفاق کہیے یا موسم کا کرم کہ بس میں سواریاں بہت کم تھیں لہٰذا خالی سیٹیں دیکھ کر بیٹھ گئی۔ بہت کوشش کی کہ اس دھلے اجلے سرمئی موسم میں بوندوں کی چھیڑخانی سے نازک نازک پھولوں کا اور ہری ہری پتیوں کا لجانا دیکھوں اور ہری بھری پیاسی گھاس کا بچھ بچھ جانا دیکھوں، لطف لوں اور سب کچھ بھول جاؤں۔ لیکن پروفیسر پانڈے بار بار میرے ذہن کے پردے پر ابھر آتے۔
پروفیسر پانڈے سے میری ملاقات ایک آرٹ گیلری میں ہوئی تھی۔ جہاں آرٹ اور فوٹوگرافی پر نمائش کے علاوہ ایک مذاکرہ بھی تھا۔ صدارتی تقریر میں جب پروفیسر پانڈے نے آرٹ اینڈ فوٹوگرافی پر میرے خیال کی بھرپور تائیدکی تو میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ دراصل میرا خیال تھا فوٹوگرافی کتنی ہی حسین دل آویز پراثر اور حقیقی کیوں نہ ہو زندگی سے حسین تو نہیں ہو سکتی۔ ہاں زندگی کے حسین لمحوں کو قید کرنے کا ذریعہ ضرور بن سکتی ہے اور وہ ایک لمحہ ہی فوٹوگراف کو زندگی بخش دیتا ہے اور پھر یہیں سے باتوں اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
پروفیسر پانڈے نہ صرف آرٹ کی دنیا کی ایک مشہور و معروف شخصیت تھے بلکہ اور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ خوش وضع، خوش مزاج، اور انتہائی بے تکلف صورت شکل اور چال ڈھال کے لحاظ سے پروقار لیکن حسن پرست۔ سنا تو تھا دیکھا بھی کہ وہ اپنے اردگرد بھیڑ جمع کرنے میں ماہر تھے۔ ان کے اردگرد لڑکیاں ایسے پھڑپھڑا کر گزرتیں جیسے پھول پر تتلیاں۔
آرٹ کی ان کی اپنی ایک الگ دنیا تھی وہ Realism کے دلدادہ تھے لیکن نت نئے تجربات ان کے فن میں شامل تھے۔ پروگریسو تھے اور مثبت سوچ کے مالک۔ اپنے فن میں بلند قامت ہونے کے باوجود حددرجہ مخلص عمر کی پانچ دہائیاں مکمل کرنے کے باوجود نوجوانوں کی طرح چاق و چوبند۔ ان کا علمی ذخیرہ کسی قارون کے خزانے سے کم نہ تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر محفل میں وہ ایک ہجوم میں گھرے رہتے۔ میری ان سے اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ مجھے ان کے قرب سے ذہنی تمانت کا احساس ہوتا۔ اس سلسلہ میں وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی بھی کرتے اور کہتے ’’تمہاری باتیں تمام کلفتیں دور کرکے ہمارے لیے ذہنی غذا کا کام کرتی ہیں۔
نومبر کی ایک ایسی ہی شام تھی وہ۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے اسٹڈی روم میں اپنی مخصوص چیئر پر موجود تھے اور میرے منتظر۔ مدھم سروں میں غزل کے یہ بول کمرے کی فضا میں پھیلے ہوئے تھے، ’’نکتہ چیں ہے غم دل بات بنائے نہ بنے۔‘‘
کیا بات ہے؟ آج کوئی گھر میں نہیں کیا؟ میں نے غیرمعمولی خاموشی سے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔ انہوں نے ملازم کو چائے کا آرڈر دیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔ ہماری بیوی کے بھتیجے کی شادی ہے سب وہیں گئے ہوئے ہیں۔ اچھا کیا آپ آ گئیں۔۔۔ کم ازکم کچھ وقت تو اچھا گزرےگا۔ حالانکہ ان کے سامنے ہی کینوس پر تازے رنگوں کی ادھوری پینٹنگ ایزل پر آویزاں تھی جس کے مطالعہ میں وہ اب بھی غرق تھے۔ مسٹر پانڈے رنگوں کے کھلاڑی تھے اور لکیر کے بادشاہ۔ عورت کی ایک خاص چھوی ان کی تصاویر میں نمایاں ہوتی جو کہیں فکرانگیز ہوتی تو کہیں رومان پرور اور کہیں صرف ایک جسم۔ بہت دیر تک ہم دونوں رسمی سی گفتگو کرتے رہے لیکن جب بات انسانی نفسیات اور فرائڈ کے نظریات کی چھڑی تو معاملہ کافی طول پکڑ گیا۔ وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ ہوا کے تیز جھونکے کے ساتھ کھڑکی کے پٹ کھلے تو معلوم ہوا باہر سرمئی چادر پھیل چکی ہے۔ ہوا کے ساتھ ساتھ بارش کی ہلکی پھہار کمرے میں داخل ہوئی تو پروفیسر پانڈے نے کھڑکی کے پٹ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی۔ حالانکہ اس سرد لہر نے میرے جسم کو بڑی فرحت بخشی تھی۔ اس کے برعکس پروفیسر پانڈے نے سردی سے سکڑتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ہیٹر کی طرف پھیلا دئیے جو پورے وجود سے ان کے قدموں میں دہک رہا تھا۔
چائے کے دو دور چل چکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے پھر چائے کا آرڈر دیا۔
’’چائے تو ابھی پی ہے۔‘‘ میں نے مداخلت کی۔
’’ارے بھئی اب آپ کے ساتھ اور کچھ تو پی نہیں سکتے۔ کم ازکم چائے تو پینے دیجیے۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ آپ اپنی من پسند ڈرنک لے سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘
’’ہم جانتے ہیں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
باہر کافی سردی ہے آج، لیکن آپ نے تو پوری طرح گرمی منا رکھی ہے۔ ہاں بھئی جوانوں کو سردی کہاں لگتی ہے۔ اور خاص کر خواتین کو۔ ہم ٹھہرے بوڑھے آدمی۔
ایسی بات نہیں ہے۔ جب میں گھر سے چلی تھی تو دھوپ کافی تیز اور نکھری ہوئی تھی۔ اندازہ نہیں تھا کہ موسم اس طرح بدل جائےگا۔ مجھے ان کے بوڑھا کہنے پر ہنسی آ گئی۔ نہ میں جوان ہوں نہ آپ بوڑھے۔
ہنسئے ہنسئے۔۔۔ خوب مذاق بناے ئے ہماری۔۔۔ یہ دیکھئے ہاتھ کیسے ٹھنڈے ہورہے ہیں؟ پروفیسر پانڈے نے یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ میری طرف بڑھا دئیے۔ میں نے چھوا۔۔۔ وہ واقعی برف کی طرح ٹھنڈے تھے۔ قدرے لمبے نرم ملایم ہاتھ سکڑ کر میری ہتھیلیوں میں سما گئے تھے۔ ٹھنڈی یخ انگلیوں اور ہتھیلیوں کو اپنی ہتھیلیوں سے رگڑ کر میں نے گرمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ناخن ہلکے ہلکے سفیدی اور پیلاہٹ لیے تھے جن پر بہت باریک دھاگے جیسی لائنیں جھلک رہی تھیں۔ میں نے ایک ناخن کو اپنے ناخن سے دبایا تو پیلاہٹ اور ابھر آئی۔ میں نے فوراً اپنا ناخن ہٹا لیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہی کیا تو تمام ناخنوں کا گلابی پن واپس آ گیا۔ چند منٹوں میں ہی پروفیسر پانڈے کے ہاتھوں میں حرارت پیدا ہو چکی تھی۔ ڈھیلے چھوٹے ہوئے ہاتھوں کو میں نے واپس ان کی طرف بڑھا دیا۔ یہ لیجیے۔ گرم ہو گئے ہیں۔
میں نے دیکھا پروفیسر پانڈے پہلے ہی مجھے بغور دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک گلابی اور گہری ہو گئی ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہیں کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے نظریں بچاتے ہوئے میں فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
اب چلتی ہوں۔
بیٹھئے چائے آتی ہوگی۔
جی نہیں۔ چائے تو بہت پی چکی ہوں۔ شام ہو گئی ہے اب چلتی ہوں۔
کچھ دیر بیٹھیے۔ چائے پی لیں۔ پھر ہم آپ کو گاڑی سے چھوڑ آئیں گے۔
نہیں اس تکلیف کی ضرورت نہیں۔ میں آٹو یا بس لے لوں گی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔
ارے بھئی اسٹاپ تک ہی چھوڑ دیں گے۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ موسم خراب ہے۔
مجھے یہ موسم پسند ہے۔ آپ فکر نہ کیجیے۔
پروفیسر پانڈے اٹھے اور میرے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھوں کو جماتے ہوئے مجھے صوفے میں دھنسا دیا۔۔۔ بیٹھئے۔۔۔ کچھ ڈانٹ کا عنصر شامل تھا۔ پھر انہوں نے الماری کھول کر ایک سفیدشال نکالی۔ تہہ کھولی اور پھیلا کر میرے دونوں کاندھوں پر ڈال دی۔
اس کی ضرورت نہیں میں بول پڑی۔
’’ہے۔۔۔‘‘ ہے پر کچھ اتنا زیادہ زور دیا کہ مجھے خاموش ہونا پڑا۔ شکریہ کہہ کر میں پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کے چہرے کے کوئی تاثرات جانے بغیر خدا حافظ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
بس تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی اور اس کی رفتار کے ساتھ ساتھ میرے اندر گھٹن کا احساس بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک مایوسی سی میرے اندر اترتی جارہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے شیشہ کھسکایا تو بارش کی تیز بوندوں نے میرے چہرے کو چھوا۔ لیکن میرے اندر کی کثافت اور گھٹن میں کوئی کمی نہیں آئی۔ گھر پہنچتے پہنچتے میں بارش میں کافی بھیگ چکی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرے جسم کی تمام حدت میرے دماغ میں جمع ہو گئی ہے۔ کسی جوالہ مکھی کی طرح یہ دماغ پھٹےگا اور بھک سے میرے پرخچے اڑ جائیں گے۔ بات کچھ بھی نہیں تھی لیکن بہت کچھ تھی۔ ندامت اور احساس جرم مجھے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ لیکن میں نے کیا کیا تھا؟ بارہا یہی سوال ذہن پر ابھرتا۔ پروفیسر پانڈے میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟ شاید مجھے اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ سب تو غیرارادی طور پر ہوا تھا۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ لاکھ انہوں نے ہاتھ میری طرف بڑھائے۔ میں نے کیوں تھام لیے؟ احتیاط برتنا چاہیے تھی مجھے۔ کہیں پروفیسر پانڈے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ شاید انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر مجھے ہی۔۔۔ کیا میں؟ توبہ۔۔۔ شاید کچھ بھی نہیں میرے وہم کے سوا۔۔۔ لیکن پروفیسر پانڈے کی آنکھی اور سانسوں کا زیر و بم۔۔۔؟ اور پھر فرائڈ کے نظریات اور پروفیسر پانڈے کے دلائل کے آگے میری بحث دم توڑتی ہوئی نظر آئی۔ ذہنی تناؤ بڑھا اور ماتھے کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ہلو۔۔۔ میں پانڈے۔۔۔ ٹھیک پہنچ گئیں آپ؟
جی۔۔۔
فکر ہو رہی تھی آپ کی۔ موسم خراب اور پھر اکیلے۔ موڈ بھی کچھ خراب تھا آپ کا۔۔۔ اور ہمیں بار بار یہ بات پریشان کررہی تھی۔شاید فرائڈ کے نظریات پر چھڑی بحث نے آپکو بوجھل کر دیا۔
جی۔ جی نہیں تو۔ ایسی کوئی بات نہیں۔
ایک بات کہیں برا مت مانئےگا۔
جی۔ جی کہیے۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
’’جس طرح تمام منزلیں طے کرجانے کے بعد سب کچھ سپاٹ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ باقی رہ جانے کا احساس ہی کبھی کبھی رشتوں کو دائمی بنا دیتا ہے۔ امید ہے آپ آئندہ نڈر ہوکر آئیں گی۔۔۔‘‘
پل بھر میں ہی میرے وجود میں پنپتی بےچین کرتی ساری کلفتیں دور ہو گئیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر میں نے اپنے سینے پر دباؤ ڈالا اور ایک طویل سانس کھینچی تو پروفیسر پانڈے کے لمس کی ٹھنڈک مجھے اپنے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرے جذبات اور احساسات کو اتنی صحت مند زبان مل جائےگی سوچا بھی نہیں تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.