لمس
وہ ایک طویل عرصہ سے بےخوابی کا شکار تھا اور یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر اس کی اس بے خوابی کی اصل وجہ کیا ہے؟ بڑھاپا۔۔۔ یا کچھ اور۔۔۔ وہ اکثر ان دنوں کے بارے میں سوچتا جب ایک خوبصورت مخروطی انگلیوں والا نازک سا ہاتھ اس کے مضبوط اور چوڑے سینے پر پھیلے گھنے بالوں کے درمیان حرکت کرتا تو لاکھ تھکن کے باوجود اس کے جسم میں ایک عجیب سا نشہ اتر آتا تھا اور اس کی آنکھوں میں نیند کے گلابی دوڑے تیرنے لگتے مگر اب۔ اس نے Tranquillizer کی گولی کو پانی کی مدد سے گلے سے نیچے اتارا اور بستر پر گرنے والے انداز میں لیٹ گیا۔۔۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اُس لمس کی شدت اور اس میں بسی اس حدت کو محسوس کر نے کی کوشش کر نے لگا جو اس وقت اسے یاد آ رہی تھی اچانک اس کی نگاہ دیوار پر لگی گھڑی پر پڑی، وہ چونکا، رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا مگر اُس کی بیوی ابھی تک اپنے دوستوں کی پارٹی سے نہیں لوٹی تھی اس نے ایک لمبی سانس لی اور سونے کی کوشش کر نے لگا اِس وقت اسے کچھ دیر کے لیے سونا بہت ضروری تھا کیوں کہ اِس شہر نما جنگل میں اس کے کئی بڑے بڑے پروجیکٹ چل رہے تھے اور کل ایک اور میگا پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب تھی وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا، اپنے آپ کو ریلکس کرنے کی کوشش کر تے ہو ئے اچانک اسے اس لمس کا احساس ہوا وہ چونکا اسے ایسا لگا جیسے وہ چپکے سے اس کے بستر میں اپنے مہکتے وجود کے ساتھ آگھسی ہو، اس کی نرم و نازک مخروطی انگلیوں کی پوریں اسے اپنے سینے پر رینگتی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔وہ حیرت سے بولا۔۔۔
’تم اس وقت! یہاں، مگر کیسے؟‘۔۔۔
وہ دل فریب انداز میں ہنسی۔۔۔
’تم کیا سمجھتے ہو کیا تم ہی بے خوابی کا شکار ہو؟ کیا صرف تمہیں ہی اِس لمس کی کمی محسوس ہو تی ہے؟ مجھے بھی تمھارے گھنے بال، خوبصورت چوڑا اور کسرتی سینہ بےچین کرتاہے؟‘۔۔۔
’اف تم بھی نا! پاگل ہو پوری پاگل!‘۔۔۔
وہ زور سے اسے اپنے سینے سے بھنچتے ہو ئے بولا۔۔۔
’پاگل کیوں کہا تم نے مجھے؟‘۔۔۔
وہ مصنوعی غصہ سے بولی۔۔۔
’ارے میری جان! ناراض کیوں ہوتی ہو دراصل یہاں تو لوگ میری دولت، شہرت اور مقام سے متاثر ہوتے ہیں اور تم ہوبس صرف۔۔۔ میرے‘
اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بولی۔۔۔
(۲)
’مجھے کسی چیز کی کوئی خواہش نہیں میرا سب کچھ تو بس تمھارا یہ خوبصورت سا ساتھ ہے، تمھارا یہ لمس ہی میری زندگی ہے جب میری انگلیاں تمھارے سینے کے ان گھنے بالوں میں رینگتی ہیں تو میں ان کے سحر سے مدہوش ہو نے لگتی ہوں اور پھر کب مجھ پر نیند کی دیوی مہربان ہوتی ہے مجھے معلوم ہی نہیں ہوتا‘۔۔۔
’بدتمیز! کیا تم جانتی ہو کہ میں اب تمھارے اس لمس کا اس قدر عادی ہو گیا ہوں کہ اب جب تک تم اپنی انگلیوں کے پوروں سے میرے سینے کو نہ سہلاؤ تو مجھے نیند ہی نہیں آتی‘۔۔۔
وہ اسے دیکھتے ہوئے بےبسی سے بولا۔۔۔
’ہاں یہ تو اچھی بات ہے نا اب تو تم پوری زندگی بس میرے ہی دیوانے رہوگے صرف میرے‘۔۔۔
وہ کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔
’اچھا تو یہ سب کچھ تم نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا ہے تاکہ مَیں پوری زندگی صرف تمھارے نام کی ہی مالا جپتا رہوں‘۔۔۔
اس نے اس کے ہونٹوں پر اپنے پیار کی مہر ثبت کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
وہ اتراتے ہو ئے بولی۔۔۔
’جی ہاں!‘۔۔۔
وہ اس کی اِس ادا پر جیسے اپنا آپ ہی ہارتا چلا گیا اور جذبات کی شدت سے اس نے اسے اتنی زور سے اپنی بانہوں میں بھینچا کہ اس کی کھنکتی ہوئی ہنسی چیخ میں بدل گئی۔۔۔ جس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔۔۔ اُس نے گھبرا کر ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر۔۔۔ اف! اس نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہو ئے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بستر سے اُٹھتے ہو ئے بڑبڑایا۔۔۔
’اب اسے اتنی فرصت کہاں کہ تیرے سینے کے بالوں میں انگلیاں پھیرے‘۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.