Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لوٹتے قدموں کے سائے

قمر احسن

لوٹتے قدموں کے سائے

قمر احسن

MORE BYقمر احسن

    اس دن گڑ کھیت کا میلہ تھا۔

    مجھے بس اتنا ہوش تھا کہ جب میں لوٹ رہا تھا تو میرے قدموں کے طویل سائے درختوں کی اونچی ٹہنوں پر کپکپا رہے تھے اور میں نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ لوٹتے ہوئے قدموں کے سائے کتنے۔۔۔ طویل ہو جاتے ہیں کہ انہیں درختوں کی اونچی ٹہنیوں پر پہنچنے سے ہم روک ہی نہیں سکتے۔۔۔

    اسٹیشن پر آکر جب ایک لمحہ کے لئے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ بانس کی پتلی پتلی چھڑیوں میں سرخ، تولی رنگ کے پھریرے لگائے بہت سے لوگ جمع ہیں، ان پھریروں میں جا بہ جا سفید کپڑوں کے پیوند لگے ہیں اور کچھ لوگوں کی گردنوں میں کپڑے کے تسمے بندھے ہوئے ہیں۔ ان تسموں میں بچوں کی بب کی طرح ایک چوکور ٹکڑا لگا ہوا ہے۔

    میں نے ستون سے ٹیک لگا رکھی تھی۔ اس لیے کہ قدموں کی کپکپاہٹ ابھی جاری تھی۔۔۔ ایک شخص سے میں نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟‘‘

    ’’آج گڑ کھیت کا میلہ ہے،‘‘ اس نے کہا۔ ’’ہم نے پچھلے سال اپنے عزیزوں کو دیوی کے حوالہ کیا تھا۔‘‘

    میں نے محسوس کیا کہ اب رعشہ میرے سارے جسم میں پھیل رہا ہے اور میں پھر واپس ہونے لگا ہوں وہیں جہاں سے بچنا چاہتا ہوں۔ تب جلدی سے ساتھ لائی ہوئی دو کتابوں میں کھو گیا۔۔۔ کتابوں نے کہنا چاہا۔۔۔ سوچو۔۔۔ تم مجھے کہاں سے لائے ہو۔۔۔؟ لیکن میں نے ورق الٹ دیا اور بازگشت سے محفوظ رہا۔

    اکثر درمیان میں یہ سوچ کر خوش ہو لیتا کہ ابھی تک تو محفوظ ہوں لیکن بعد کے حالات سے ڈرا ہوا تھا۔۔۔

    یکایک سارا کمپارٹمنٹ زور سے چیخ اٹھا اور میں خوف سے لڑ گیا۔ شاید مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔۔۔ یہی۔۔۔ یہ سب کچھ جو ہو گیا تھا۔

    ’’بولو۔ لال پھریرے والی کی۔‘‘

    ’’جے۔‘‘

    ’’کالے کا نکر والی کی۔‘‘

    ’’جے۔‘‘

    اور کمپارٹمنٹ میں ہنگامہ اٹھ گیا۔ میں نے بھی چونکنا چاہا لیکن پھر اس جذبہ کو بھی دبا لے گیا۔

    جب ان سب کی میلی جیبوں اور چیتھڑوں سے پیسے اور لونگ کے دانے نکل نکل کر کھڑکی کے راستے نیچے جانے لگے تو مجبوراً مجھے چونکنا ہونا پڑا اور کئی بار کوشش کی کتاب کھول لوں لیکن نہ کھول سکا۔ کہ وہاں تو نیلے رنگ کا مٹی سے بھرا ہوا وہ رومال آ پھنسا تھا۔۔۔ جسے میں نے دو سال قبل اس جگہ اور اسی وقت کھڑکی کے راستے پھینکا تھا۔ کیا پتا کھڑکی بھی یہی رہی ہو شاید۔

    یا خدا یہ کہاں سے آ گیا۔۔۔؟

    تب لاکھ کوششوں کے باوجود اپنی شکست کا اعتراف کرنے پر مجبور ہی ہونا پڑا۔

    اسی وقت کسی نے مجھے بڑی زور سے جھنجھوڑا۔۔۔ روؤ۔۔۔ رولو۔۔۔ رولو۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔ چیخ چیخ کر رولو۔۔۔ ورنہ سکتہ ہو جائےگا اور ساری زندگی رونے کو ترسوگے۔

    میں خالی خالی نظروں سے اس جھنجھوڑنے والے کی صورت دیکھتا رہ گیا۔

    ارے۔۔۔ میں نے تو تمہیں پہچانا ہی نہیں۔ یہ الجھا الجھا سا جسم گرد آلود کپڑے۔ سوجی ہوئی انگلیاں، زخمی تلوے، پتھرائی آنکھیں، سیاہ ہونٹ اور وجود پر رعشہ۔۔۔ ارے یہ تم ہو۔۔۔؟ کیا کہیں سے لٹ کر آ رہے ہو۔۔۔ میں ہنس پڑا۔

    ہنستے ہو۔۔۔؟ اس نے بڑے کرب سے کہا۔۔۔ تو مجھے ہوش آیا کہ واقعی مجھے نہ ہنسنا چاہئے تھا۔

    دیکھو نا۔۔۔ نہ ہنسوں تو کیا کروں۔۔۔ میں نے حسبِ معمول تاویل پیش کی۔ کچھ نہیں ٹھیک ہے۔ کتاب پڑھو اس نے منھ دوسری طرف کر کے شاید آنسو خشک کیے ۔ شکریہ ادا کر کے میں پھر کتاب پڑھنے لگا۔ لیکن کن انکھیوں سے اسے دیکھتا بھی رہا۔ جو بے ہوش سا میری بغل میں بیٹھا تھا۔ مجھے اس پر افسوس ہوا۔ اس لیے ہنس کر پھر اسی سطر میں کھو گیا۔ جہاں ہر وقت ’گہہ گہہ ڈیلو‘۔ ’گہہ گہہ یلو‘ کی آ واز ابھرا کرتی تھی۔

    اچانک میرے دونوں کان چیخ اٹھے۔۔۔ تب میں نے موقع پاکر جلدی سے آنکھیں کھل دیں۔ اسی سے تو بچنا چاہتا ہوں۔ آٹھ مہینہ سے کوشاں ہوں کہ وہ میرے پاس زیادہ دیر تک نہ ٹھہرنے پائے۔۔۔

    دونوں کتابیں ختم ہو چکی تھیں۔ اسی لیے میں اور بھی خوفزدہ ہوا کہ کہیں وہ آ ہی نہ جائے، ابھی بہرحال مجھے دو اسٹیشن اور سفر کرنا تھا۔ (خدا کرے خیریت سے گزر جائے) مجھ اپنے آپ سے ڈر لگنے لگا۔ اس لیے کہ میں نے اپنی لاش کو انجن کے تیسرے پہیے کے نیچے دیکھا تھا۔

    میں سامنے والی عورت سے پوچھ بیٹھا، ’’یہ گردن میں کیسے کپڑے ڈالے ہو۔۔۔‘‘؟

    اس نے بتایا۔۔۔ کہ پچھلے گڑ کھیت کے میلہ میں ہمارے وارثوں نے ہمیں لال پھریرے والی کو سونپا تھا۔ اس بار ہم منت اتاریں گے اور پنے دوسرے وارثوں کو سونپیں گے۔ میں نے محسوس کیا کہ اسے پھر موقع مل گیا ہے۔

    ’’میں نے بھی تو تمہیں کسی کو سونپ دیا تھا۔۔۔ کیا یوں ہی منت اتاری جاتی ہے؟‘‘ میں پھر روشنی کو دیکھنے لگا۔ لیکن محسوس کر رہا تھا کہ میرے جسم کا رعشہ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔

    پھر ڈگمگاتا ہوا۔ گردو پیش سے نظریں بچاتا ہوا میں پلیٹ فارم عبور کرنے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بھیس میں وہ موجود ہو اور مجھے یہیں آ دبوچے۔ (خدا کرے کمرہ تک خیریت سے پہنچ جاؤں۔۔۔)

    کمرہ میں آکر اپنے کو یقین دلانے لگا۔۔۔ چونکہ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ اس لیے فوراً سو جانا چاہیے۔۔۔ لیٹتے ہوئے ڈائری اٹھائی۔۔۔ اور وہ نہیں لکھ سکا، جو لکھنا چاہتا تھا۔ بلکہ وہی شکست و فتح کی طاری کردہ کہانی لے بیٹھا جیسے اس طرح وہ بہل جائےگا۔

    اگر میں یہ نہ کرتا تو کیا کرتا کہ ہر جگہ مجھے یہ بتایا گیا کہ تم غیر اہم ہو۔۔۔ کہ میں اپنے آپ سے مایوس ہو چکا ہوں کہ میں اسے اپنے دکھوں میں نہیں شریک کرنا چاہتا کہ یہ سب کچھ میری انا اور وقار کے خلاف ہو رہا تھا۔۔۔ کہ بعد میں اسے دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

    لیکن کسی نے سوتے میں جھنجھوڑ دیا۔۔۔ نہیں۔۔۔

    تم صرف پاگل ہو۔ خود غرض ہو۔۔۔ اور صرف اپنے آپ کو اذیت سے بچانا چاہتے ہو کہ جب وہ تمہارے ساتھ دکھی ہوگا تو اس کے دکھ سے تم دکھی ہوگے اور تم دکھی نہیں ہونا چاہتے۔

    ’’چلو یہی سہی۔ اسی میں بھی بہر حال میرا خلوص ہی کارفرما ہے۔ کہ میں اسے اپنے سے دور رکھ کر اسے خوش دیکھنا چاہتا ہوں اور کوئی سبب تو نہیں ہے نا۔۔۔؟‘‘

    ’’تم میں اب اور کسی سبب کی صلاحیت ہی کہاں رہ گئی۔ جھوٹ بولا کرو اور دوسروں کی بے عزتی کر کے قہقہہ لگایا کرو۔‘‘

    ’’بےعزتی کس کی بھائی۔ تمہیں میرے خلوص کو دیکھنا چاہئے۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ میں اس کے بغیر۔۔۔‘‘

    ’’مت جھوٹ بولو۔۔۔ تم مکار بھی ہو ذلیل۔‘‘

    ’’اچھا اب سونے دو ۔ جو ہوا سو۔۔۔‘‘

    ’’لوٹ آئے ہیں سفر سے۔۔۔ وہ بے سپر بہادر۔‘‘

    جب وہ کچھ دور ہٹ گیا تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ جاکر معافی مانگنے والا ہو۔ میں نے گھبراکر اسے دیکھا۔۔۔

    ’’کیوں۔۔۔؟ پھر جذباتی بن رہے ہو۔۔۔؟‘‘ وہ مسکرایا۔

    ’’نہیں تو۔۔۔‘‘ میں نے پھر آنکھ بند کر لی۔۔۔

    سوچا کرتا تھا کہ ایک بار اس کے سامنے رو لینا ہی میری معراج ہوگی اور تب میں سکون پا جاؤں گا لیکن مجھے کیا علم تھا کہ میرا رونا میری کمزوری کی دلیل بن جائےگا۔

    ’’اور ان قسموں کا کیا ہوگا۔۔۔؟ کیا کفارہ ان کا بدل ہو سکےگا۔ یا تم کبھی جھک سکوگے؟‘‘

    ’’خیر جھک سکنے کا سوال ہی نہیں۔ جہاں اور سب کچھ چھوٹا۔ وہ بھی نہیں۔ چلو ایک نیم کا ٹھنڈا سایہ اور نہ سہی۔‘‘

    ’’لیکن تم اصل بات اب بھی نہ بتاؤگے۔‘‘

    ’’بھئی کوئی اصل ہو تب نا۔۔۔ شاید میں اسی منزل پر آ چکا ہوں جہاں سے منصور گزر گیا تھا اب میں ہی اپنا سب کچھ ہوں۔۔۔ خود ہی عابد اور خود ہی معبود۔۔۔ تم نے کبھی خود عشقی کے بارے میں سنا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اب تم سچ میں سو جاؤ۔۔۔ لیکن خواب نہ دیکھنا۔ اس لیے کہ خوابوں پر اب تمہارا کوئی حق نہیں۔۔۔‘‘

    ’’ایسا نہ کہو۔۔۔ ورنہ میری انا۔ خوابوں سے بھی نفرت کرنے لگےگی۔۔۔ اس لیے کہ مجھے کسی چیز کے حاصل کر لینے میں کبھی وہ مزا نہیں ملتا جتنا حصوں کے لئے کوشش کرنے میں ملتا ہے اور پھر حاصل کر کے چھوڑ دینے میں۔۔۔ اس لیے کہ اب تو یہی میری خود پر طاری کردہ عادت بن چکی ہے۔‘‘

    پھر میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میرے ساتھ کبھی کسی مجبوری کا نام نہ لینا۔ ورنہ میں صرف یہ دیکھنے اور دکھانے کے لئے ہی اسے کر گزروں گا، ’’کہ میں مجبور نہیں ہو۔‘‘ خواہ اس طرح میرے صدیوں کے خواب ہی چکنا چور ہو جائیں۔ اس لیے کہ خواب بھی تو میری مجبوری بن سکتے تھے دل تو میرا اب بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی انگلیوں کو مس کر لوں اور صرف ایک بار اس کی آنکھوں میں دور۔۔۔ تک دیکھتا چلا جاؤں۔۔۔ بس اور کچھ نہیں۔ اس لیے کہ یہی سب تو میری کمزوری بن کر ان سب کے دماغ کی خرابی کا سبب بنا ہے۔ اس لیے کہ نچلی نہر کی چمکتی ہوئی مچھلیوں نے اس راز کو راز رہنے ہی نہیں دیا۔

    بعد میں تو ہم اپنے من کی شانتی کے لئے ہزار طرح سے دل کو بہلا سکتے تھے۔ یا فرار حاصل کر سکتے تھے ۔ لیکن یادوں کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے دھبوں کا کیا ہوگا۔ جو شام کی سیاہی کے ساتھ مل کر چپکے چپکے میرے کمرہ کے روشن دان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے۔ کون ایسا ہوگا جو ان سیاہیوں کو نچوڑ کر اس میں سے کاجل نکال سکےگا۔۔۔ یا کون نکال سکا ہوگا۔۔۔؟

    ابھی تو میں بے حسی کی نقاب اوڑھنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ لیکن جب یہ نقاب زرد ہوکر اپنا قدیم رنگ اور اپنی دبازت کھو بیٹھےگی تب؟ اور جب اس میں سے کہنگی کی بو آنے لگےگی تب؟ تب اگر کسی نے مجھے پھر اس کی تلاش پر آمادہ کر ہی لیا تو کیا ہوگا؟ میں اسے تلاش کرنے کہاں جاؤں گا؟ کیا وہ مجھے مل سکےگا؟ یا اگر مل گیا تو مجھے پہچان سکےگا؟ اور اگر پہچان بھی لیا تو کیا اس کا اظہار کر سکےگا؟ پھر مان لو کہ اس نے شناسائی ظاہر کر دی تو کیا ضروری ہے کہ اس میں حیرت، پیار اور خوشی کا ہی جذبہ ہو۔۔۔ نفرت، اکتاہٹ اور گھن بھی تو ہو سکتی ہے اور تب کیا تم پھر نیلے رومال، چمکتی ہوئی مچھلیاں، کڑوی شاخیں اور دالان پر پڑے ہوئے پردے کا حوالہ دے سکوگے؟ کیا تم میں اتنی اخلاقی جرأت باقی رہےگی۔۔۔؟

    لیکن اب تو میرے قدموں کے طویل ترین سائے درختوں کی اونچی شاخوں پر لرز چکے ہیں اور ماہ صفر کے پہلے چاند کے ساتھ ہی گڑ کھیت کا میلہ بھی ختم ہو چکا ہے، جسے اپنے وارثوں کو سونپنا تھا وہ سب سونپ کر اپنے مامن کی طرف واپس جا چکے ہیں۔

    اور تم اتنے غیر جذباتی بھی نہیں ہو (بہ زعم خود) کہ کوٹتے قدموں کی صدائے باز گشت کو روک لو۔ یا ان طویل سایوں کو اور طویل نہ ہونے دو۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے