لیجئے ہم نے پھر عشق کیا
کہانی کی کہانی
ایک بوڑھے شخص کی کہانی، جس نے اپنی زندگی میں بہت سی عورتوں سے عشق کیا تھا۔ اب اسے ایک بار پھر عشق ہو جاتا ہے۔ جب وہ اس عورت سے بیزار ہو جاتا ہے تو وہ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ وہ اس عورت کے سامنے جب بھی کوئی ایسا عذر پیش کرتا ہے تو وہ عورت پوری بیباکی سے اس کا جواب دیتی ہے۔ بے بس ہوکروہ بوڑھا اس کے خطوں کے جواب دینا ہی بند کر دیتا ہے۔
عشق جیسی لطیف شے، جس پر ہمارے مشہور و معروف شاعروں اور افسانہ نگاروں نے افسانے لکھ کر غیر فانی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے عاشقوں اور معشوقاؤں نے اپنی زندگی کی بازی لگا کر ادبی داستانوں میں جگہ بنا لی ہے، اسے مزاحیہ انداز میں پیش کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے، لیکن بندہ نواز، میں بے بس، لاچار اور مجبور ہوں، اس میں شک نہیں کہ لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ کی عشقیہ داستانوں نے جوانوں کے دلوں پر گہرا اثر ڈالا ہے اور وہ عشق کرنے سے باز نہیں آئیں گے، حال ہی میں مرحوم جان کنیڈی کی بیوہ نے ایک ستر سالہ بڈھے سے عشق فرماکر اور اس کے بعد ازدواجی بندھن میں بندھ کر مردوں کی بڑی ہمت افزائی کی ہے، اس سے عشق کی راہیں استوار اور ہموار ہوئی ہیں اور عشقیہ ماحول کافی خوشگوار ہوا ہے۔
حضور انور! میری عمر پچاس سال سے زیادہ ہے، میرے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں، میں خضاب لگا کر عالم شباب کے مزے لینا چاہتا ہوں، اسے میری خوش قسمتی سمجھئے یا بدقسمتی کیوں کہ ابھی تک میں یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ عشق کرنے والوں کو خوش قسمت سمجھنا چاہئے یا بدقسمت، اس کا فیصلہ آپ ہی کیجئے۔ یو ں اس سے پہلےمیں کئی عشق کر چکا ہوں، گو زندگی میں ایک ہی عشق کافی ہوتا ہے، مگر میں تو اس صف میں کھڑا ہوں جہاں عشق ایک مسلسل بیماری کی صورت اختیار کر گیا، یعنی جونہی ایک عشق ختم ہوا دوسرا چالو۔۔۔
سچ پوچھئے تو میں کہوں گا کہ اس عشق سے پہلے جو میں نے محبت کی تھی وہ بڑی جان لیوا تھی یعنی میں مرتے مرتے بچا۔ اگر آپ نے دنیا کی مشہور عشقیہ داستانیں پڑھی ہوں گی تو آپ کو پتہ ہوگا کہ عشق کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس سے بدتر کوئی کام نہیں، میری حالت عشق شروع ہوتے ہی بگڑنے لگتی ہے، میں فوراً جذباتی سا ہو جاتا ہوں، اپنی پچھلی محبتوں کو بھول جاتا ہوں اور جس سے محبت کرتا ہوں اسے اپنی پہلی محبت سمجھنے لگتا ہوں، یعنی دل و جان سے فدا ہو جاتا ہوں، الٹے سیدھے وعدے کرتا ہوں، اگر میں نے اپنے آپ کو شادی شدہ ظاہر کیا ہے تو میں فوراً اپنی محبوبہ سے کہہ دیتا ہوں کہ میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دوں گا اور تمھارے ساتھ شادی کروں گا، تیاگ اور قربانی کے اس جذبے سے متاثر ہوکر محبوبہ بڑی آسانی سے میرے جھانسے میں آ جاتی ہے اور میری گرویدہ ہو جاتی ہے، جہاں تک میرے دوسرے چھوٹے موٹے وعدوں کا تعلق ہے، مثلاً مقررہ وقت پر ملنا، سنیما جانا، کسی ریستوران میں جانا، کھانا کھلانا، ان تمام وعدوں کو بڑے سلیقے سے نبھاتا ہوں۔۔۔ محبوبہ کو خوش کرنے کے کئی طریقے ہیں، مشہور کو کوکا پنڈت کے نسخے تو آپ نے آزمائے ہوں گے، میرے ایک دو نسخے آزمائیے، اس سے فائدہ ہی ہوگا، نقصان کی امید کم ہے۔
سب سے بہترین حربہ جس سے محبوبہ کو اپنایا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اپنی زبان سے کچھ نہ کہو، اسے کہنے دو، وہ تمھارے پاس بیٹھی ہو، تو یوں سمجھو کہ وہ تم سے بہت دور بیٹھی ہے، یعنی وہ خود قریب آئے، تم خود قریب نہ جاؤ، صاف ظاہر ہے کہ اس چکّر میں قوت برداشت کی سخت ضرورت ہے۔ یوں تو قوّتِ برداشت کے بغیر کوئی بڑا اور اہم کام ہو ہی نہیں سکتا، دنیا کے شہرت یافتہ اور بڑے انسانوں کی زندگیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان سب میں قوت برداشت کا مادہ سب سے زیادہ تھا، محبوبہ کو حاصل کرنے کے لئے اگر اس شکتی سے کام لیا جائے تو کیا قباحت ہے۔
ایک بار جب آپ کی ہونے والی محبوبہ خود اپنی زبان ِ مبارک سے یہ الفاظ کہہ دےگی، ’’ڈارلِنگ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘ تو فتح آپ کی جناب، اگر کسی وجہ سے آپ کی محبوبہ شرم لاج کی دیوی ہے اور وہ صرف اشاروں اور کنایوں سے اس جذبے کا اظہار کرتی ہے، تو اس وقت آپ سمجھ لیجئے کہ آل کلئیر کا سگنل مل گیا، اب آپ اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں۔ سنٹ پر سنٹ جیت آپ کی ہوگی، اس طرح آپ رسوائی اور بے عزتی سے بچ جائیں گے۔
دراصل میں راہ سے بے راہ ہو گیا، یعنی میں اپنے عشق کا قصہ سنا رہا تھا کہ بیچ میں لڑکیوں کو اپنانے کا طریقہ بتانے لگا۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ آخری عشق کرکے میں نے قسم کھائی تھی کہ اب دوبارہ اس نامراد بیماری کا منہ نہ دیکھوں گا، کہ ایک دن اچانک ایک ماہ لقا سے ٹکر لگتے ہی میرا چکر شروع ہو گیا، یعنی اس کے سر و قد، گوری رنگت اور چہرے کے خدو خال سے اتنا متاثر اور مرعوب ہوا کہ دنیا و ما فیہا کو بھول گیا، گو عشق کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں اس کی طرف رجوع نہ ہوا تھا بلکہ وہ میری طرف رجوع ہوئی تھی۔
محبوبہ کا میری طرف رجوع ہونا خطرے سے خالی نہ تھا، یوں بھی اس عمر میں عشق کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ میں جانتا تھا کہ عشق کے شروع ہوتے ہی میرے دل کی رفتار یوں تیز ہوگی جیسے میں کسی راکٹ پر سوار ہوں اور جلد ہی کسی چاند پر اترنے والا ہوں۔ عشق میں صرف دل کی دھڑکنیں ہی تیز نہیں ہوتیں، بھوک بھی مر جاتی ہے، راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے، کسی دوسرے سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا، ہمیشہ اس بات کی خواہش رہتی ہے کہ محبوبہ آپ کے سامنے بیٹھی رہے، کسی رقیب روسیاہ سے بات نہ کرے، کسی دوسرے کی طرف نہ دیکھے، بس اسی قسم کی جاہلانہ حرکتیں کرنے پر انسان مجبور ہو جاتا ہے۔
عشق کی آخری منزل تو بہت ہی بری ہوتی ہے، انسان پاگل سا ہو جاتا ہے، بیوی کو اگر آپ کے عشق کا پتہ لگ گیا تو سمجھو جیتے جی موت کا نظارہ آنکھوں کے آگے گھومنے لگتا ہے۔ ایک طرف بیوی کے گالیاں سنو تو دوسری طرف محبوبہ کی آہ و زاریاں۔ کبھی بیوی آنکھیں دکھاتی ہے تو کبھی محبوبہ، یعنی ان دونوں کے درمیان عاشقِ نا مراد کی وہ حالت ہوتی ہے جو آج کل ویت نام کی ہو رہی ہے، حضور انور! عشق بہت بری بلا ہے، ایک بار جب اس نامراد بیماری کی لت پڑ گئی تو کمبخت پان، بیڑی، شراب، افیون، گانجا اور چرس پینے کی حالت تو شاید چھوٹ جائے مگر عشق کرنے کی لت تو نہیں چھوٹتی۔
جب میری حالت بد سے بدتر ہونے لگی اور جان کے لالے پڑ گئے، تو میں نے اپنی ماہِ لقا سے التجا کی، ’’ڈارلنگ، میری آنکھوں کے آگے موت ناچ رہی ہے، لبوں پر جان اٹکی ہوئی ہے، اگر آپ مجھے معاف کر دیں گی تو بڑی عنایت ہوگی آپ کی۔‘‘
’’کیوں جی، آپ اتنی جلدی فیڈ اپ ہوگئے ہیں ہم سے، ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔‘‘
میں اپنی محبوبہ سے صاف صاف کیسے کہتا کہ جانِ من، یہ کھیل میں کئی بار کھیل چکا ہوں، عشق اور محبت کی مصیبتیں کئی بار جھیل چکا ہوں، میں جانتا ہوں کہ میرا کیا حشر ہونے والا ہے، میں قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں، گیس ٹربل کا پرانا مریض ہوں، دو قدم چلتا ہوں تو سانس پھولنے لگتی ہے، یہ ڈاکٹروں اور حکیموں اور مرغن غذاؤں کا معجزہ ہے کہ میں خوبرو اور خوش شکل نظر آتا ہوں ورنہ میں کب کا شمشان گھاٹ پہنچ جاتا، میری حالتِ زار پر رحم کیجئے دیوی جی اور کسی نوجوان لڑکے سے عشق کیجئے۔
مجھے نوجوان اچھے نہیں لگتے، حسینہ نے میرے سوال کا جواب فوراً دیا۔ اس منہ توڑ جواب کو سن کر میں سن ہو گیا، کیسا زمانہ آیا ہے جناب، کیسی وبا چلی ہے کہ جوان لڑکیاں نوجوانوں سے عشق کرنا نہیں چاہتیں، مغرب سے لے کر مشرق تک، یعنی دنیا کے ہر دیش میں اس نئی بیماری کو فروغ ملا ہے، یعنی جب سے جان کنیڈی کی بیوہ نے اس راہ کو اپنایا ہے، نوجوان لڑکیاں بڈھوں کو اپنانے کی بھر پور کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں اور یہ کوشش ایک منظم تحریک کی صورت اختیار کر رہی ہے، مجھے تو اس تحریک میں ایک گہری سازش کا پتہ چلتا ہے، نوجوان لڑکیوں کی ایک بہت ہی سلجھی ہوئی اور ترقی پسندانہ سیاسی چال ہے، مردوں کو ہوشیار رہنا چاہئے، ورنہ جس دنیا پر ان کی حکومت ہے وہ ہاتھ سے نکل جائےگی۔
لیجئے میں اصلی موضوع کی طرف آتا ہوں، اپنا قصہ سناتا ہوں۔ میں نے اپنی محبوبہ سے کہا تھا کہ تمھارا عاشق کوئی مالدار آسامی نہیں بلکہ ایک غریب ادیب ہے جسے بنکوں کو نیشنالائز کرنے کے بعد بھی اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا، جنھیں حکومت قرضہ دےگی، یعنی ایک رکشہ والے سے لے کر ایک موچی تک کو حکومت قرضہ دےگی، مگر بیچارے ادیب کو اس قابل بھی نہ سمجھا گیا کہ اسے قرضہ دیا جائے، بہرحال جب میری محبوبہ کو میری اقتصادی حالت کا پتہ چلا تو وہ ٹس سے مس نہ ہوئی، بلکہ اس کی آنکھوں میں آنسو گئے اور وہ لمبی لمبی آہیں بھی بھرنے لگی اور کہنے لگی، کیا آپ میرے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں کہ میں آپ کے بینک بیلنس پر نظر رکھتی ہوں یا میں آپ کو مالدار آسامی سمجھ کر عشق فرما رہی ہوں، جی نہیں، میں دل و جان سے آپ کو چاہتی ہوں، میں اس جنم میں ہی کیا، اگلے جنم میں بھی آپ کی ہوکے رہوں گی۔
پھوٹ گئی ری قسمت ہماری، یہ جواب سن کر میں سن سا ہو گیا۔ اب تو مجھے پکا یقین ہو گیا کہ میراکوئی قصور نہیں، اس لڑکی کے دماغ میں ضرور کوئی فتور ہے، اب آپ ہی بتایئے حضور، میں کیا کرتا، کاش میں پرماتما ہوتا، یا میرے سینے میں گوشت اور پوست کے لو تھڑے کی جگہ سمینٹ کا دل ہوتا تو ان آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کو نظر انداز کر دیتا، بس کیا عرض کروں کہ بندہ نا چیز اور کندہ نا تراش انسان کیا کرتا، اس عشق کے چکر میں ایسا پھنسا کہ حالات دگر گوں ہونے لگے۔
عشق کے کئی درجے ہوتے ہیں۔ شروع میں محض رسمی ملاقاتیں، بات سے بات بنتی اور بڑھتی ہے، ہر روز ملنے کا وعدہ، انتظار، محبت کا اظہار اور ساتھ ہی ہلکا سا بخار، پھر وصل کا وعدہ، پھر ہجر کا رنگ گہرا ہونے لگتا ہے، پھر ایک اسٹیج ایسی بھی آتی ہے خدا ایسی اسٹیج کبھی نہ لائے، جب عاشق معشوق ایک دوسرے سے بیزار ہو جاتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتے، آخری اسٹیج کو تجربےکار عاشق بڑی تیزی آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں، نا تجربہ کار عاشق تو اس منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتے، اس سے پہلے ہی راہی ملک عدم ہوتے ہیں۔
ہاں جب ہجر کی اسٹیج شروع ہوتی ہے تو عاشق کا اصلی امتحان شروع ہوتا ہے، ہجر اور فراق کی گھڑیاں بڑی جان لیوا ہوتی ہیں، بڑے بڑے عاشقوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے، انہی لمحات میں اکثر عاشق گریبان چاک کرکے مجنوں بن جاتے ہیں، صحرا صحرا جنگل جنگل گھومنے لگتے ہیں، ماڈرن مجنوں اپنی جان بچانے کے لئے نرسنگ ہوم یا شفاخانے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، کئی ایک اونچی بلڈنگوں سے چھلانگ مار کر زندگی ختم کر دیتے ہیں یا سمندر، دریا، کنواں میں چھلانگ لگا کر اگلے جہان کا رخ کرتے ہیں۔ یوں آج کل کے عاشق اتنی دوڑ دھوپ نہیں کرتے، بڑے آرام اور چین سے مرنا چاہتے ہیں، وہ بیچارے نیند آور گولیوں کو کھا کر سو جاتے ہیں اور دوبارہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے، یہ مرنے کا بہترین طریقہ ہے اور اس میں تکلیف کم ہوتی ہے، مرنے میں بڑا مزا آتا ہے اس لئے اس طریقے نے ایک وبائی صورت اختیار کر لی ہے، جس کی روک تھام بھارتی سرکار کو کرنا چاہئے۔
چوں کہ میں درجنوں عشق کر چکا ہوں اس لئے میں خود کشی کرنے کے لئے تیار نہ تھا، میری قوت برداشت تو میری محبوبہ آزما چکی تھی، اب میں اپنی محبوبہ کی سہن شکتی کو آزما رہا تھا، آخر کب تک وہ اس طرح عشق کرتی رہےگی۔ ایک شام جب ہم دونوں سمندر کے کنارے بیٹھے ہوئے لہروں کو گن رہے تھے کہ میری محبوبہ نے کہا، ’’جس کمرے میں آپ رہتے ہیں، کیا وہ کمرہ آپ ہی کا ہے؟‘‘
’’کمرہ تو مالک مکان کا ہے، لیکن رہتا میں ہوں اور کمرہ میرے نام پر ضرور ہے۔‘‘
’’پرماتما نہ کرے، اگر آپ مر جائیں، تو یہ کمرہ کس کے نام کریں گے آپ؟‘‘
میں اپنی محبوبہ کی طرف دیکھنے لگا، معلوم ہوتا تھا کہ اب میری محبوبہ کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی اور وہ اپنی اصلی اوقات پر آ گئی تھی، گو سوال سے کافی ذہانت ٹپکتی تھی، شاید آپ کو معلوم نہیں کہ بمبئی میں نوکری اور چھوکری تو بڑی آسانی سے مل جاتی ہے مگر رہنے کے لئے دوگز زمین نہیں ملتی۔ اس شام میں چپ رہا، ہم دونوں سمندر کی لہریں گنتے رہے، ’’کل جواب دوں گا، ڈارلنگ، کل اسی جگہ ملیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
رات بھر سوچتا رہا، میری پریمکا کافی ذہین ہے، میں آج تک اسے جاہل اور بے وقوف سمجھتا رہا، دراصل جہاں وہ رہتی ہے وہ جگہ بےحد گندی، گھٹیا اور چھوٹی ہے، میرا کمرہ کافی کشادہ، صاف ستھرا اور ہوادار ہے اور اب میری محبوبہ کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ بڈھا زیادہ عرصہ تک جی نہیں سکتا، عشق جیسی نامراد بیماری اسے مار کر دم لےگی، مرنے سے پہلے اگر یہ بڈھا یہ کمرہ اس کے نام کر دے تو پوبارہ، یعنی، میری محبوبہ کی نظر میری کمر پر نہ تھی کمرے پر تھی۔
اگلی شام میں سمندر کے کنارے نہ گیا، کیوں کہ میں نےتہیہ کر لیا تھا کہ مجھے صرف ایک دو ماہ یا ایک دو سال ہی نہیں جینا ہے بلکہ دس پندرہ سال اور زندہ رہنا ہے، اس کے بعد میری محبوبہ کے کئی پیام آئے، کئی خط آئے، لیکن میں نے اپنی محبوبہ سے ملنے سے انکار کر دیا، میری محبوبہ کو میری بےرخی سے اندازہ ہوگیا کہ یہ چالاک اور کائیاں بڈھا اتنی آسانی سے نہ مرےگا اور نہ ہی اپنا کمرہ اس کے نام کرےگا، اس لئے وہ بھی کسی اور طرف رجوع ہو گئی۔ اب میں نے قسم کھا لی ہے کہ میں اپنے کمرے میں مرنا چاہتا ہوں، کسی فٹ پاتھ پر نہیں، اس لئے اب میں نے توبہ کر لی ہے کہ آئندہ عشق نہیں کروں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.