لوتھ
اُس کی ٹانگیں کولہوں سے بالشت بھر نیچے سے کاٹ دِی گئی تھیں۔
ایک مُدّت سے اُس نے اپنے تلووں کے گھاؤ اپنے ہی بیٹے پرکُھلنے نہ دئیے تھے۔۔۔ ضبط کرتا رہا اور اُونچی نیچی راہوں پرچلتا رہا تھا۔۔۔ مگر کچھ عرصے سے یہ زخم رِسنے لگے تھے اور چڑھواں درد گھٹنوں کی جکڑن بن گیا تھا۔۔۔ حتّٰی کہ دَردوں کی تپک اس کے حواس معطل کرنے لگی۔ اُسے سمتوں کا شعور نہ رہتا تھا۔ جدھر جانا ہوتا ٗ اُدھر نہ جاتا بل کہ اُلٹ سمت کو نکل کھڑا ہوتا۔
اُسے بار بار ڈھونڈ کر لایا جاتا۔
ہر بار اُس کے زخم رِس رہے ہوتے تھے۔
زخم تھے تو بہت پرانے مگر بیٹے پر اُن کے کُھلنے اور حواس پر شب خُون مارنے کا واقعہ ایک ساتھ ہوا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ اس کا بیٹا ٹی وی کے سامنے بیٹھا بار بار دِکھائے جانے والے وقت کے عجوبہ سانحے کو حیرت سے دِیکھ رہا تھا۔ پہلے ایک طیارہ آیا ٗ قوس بناتا ہوا۔۔۔ اور۔۔۔. ایک فلک بوس عمارت سے ٹکرا گیا۔ شعلے بھڑک اُٹھے۔۔۔ اور اَبھی آنکھیں پوری طرح چوپٹ ہوکر حیرت کی وسعت کو سمیٹ ہی رہی تھیں کہ منظر میں ایک اور طیارہ نمودار ہوا۔ پہلے طیارے کی طرح۔۔۔ اور پہلی عمارت کے پہلو میں اُسی کی سی شان سے کھڑی دوسری عمارت کے بیچ گھس کر شعلے اُچھال گیا۔
وہ اپنے بیٹے کے عقب میں بیٹھا یہ سارا منظر انوکھے اطمینا ن سے دیکھتا رہا۔ جیسے یہی کچھ ہونا تھا۔۔۔ یا پھر جیسے یہی کچھ ہونا چاہیے تھے۔ اَگلے روز اطمینان کی جگہ بے کلی نے لے لی۔۔۔ حتّی کہ کچھ ہی دنوں میں وہ دہشت زدہ ہو چکا تھا۔
جب پہلی بار یہ منظر سکرین پر دِکھائی دِیا تھا۔ انوکھی طمانیت کی بھبک کے باعث اُس نے اَپنے ہی تلووں کے زخمی حصے کو سختی سے دَبا لیا تھا جس کے سبب اس کے ہونٹوں سے سسکاری نکل گئی تھی۔
بیٹے نے پلٹ کر باپ کو دِیکھا اور فوری طور پر اس سسکاری کے کچھ اور معنی نکالے تھے۔۔۔ تاہم جب اُس کی نظر رِستے ہوے تلووں پر پڑی تو بہت پریشان ہو گیا تھا۔
اُسے گلہ تھا کہ آخر اُس سے ان زخموں کو اوجھل کیوں رَکھا گیا تھا؟
وہ اَزحد فکرمندی ظاہر کرنے لگاتھا۔۔۔ اور شاید فکر میں مبتلا ہو بھی گیا تھا۔۔۔ لگ بھگ اِتنا ہی فکر مند ‘جتنا کہ دونوں فلک بوس عمارتوں کے ساتھ طیاروں کے ٹکرانے کے بعد ہوا تھا۔
بعد کے دنوں میں دَرد اور تشویش میں اِضافہ ہوتا چلا گیا حتّی کہ دونوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے۔
پھر یُوں ہوا کہ بیٹے نے مختلف ہسپتالوں کا دورہ کرنے والی ملٹی نیشنل اداروں کے ڈاکٹروں کی ٹیم سے رابطہ کیا۔ غیر ملکی ڈاکٹروں نے یہاں کے ڈاکٹروں کو مشورہ دِیا اور اُن صورتوں پر غور ہونے لگا جو اُس کے باپ کے علاج کے لیے ممکن تھیں۔
مگر اُس کا باپ اِن ڈاکٹروں کے نام ہی سے بِد کنے لگا تھا۔ اُسے نہ جانے کیوں اُن کی صورتیں اس کمپنی کے کارپردازان کی سی لگنے لگتی تھیں‘ جنہوں نے اپنے پراجیکٹ ایریا تک بہ سہولت رسائی کے لیے سامنے کی پھلواری بھی ایکوائر کروا لی تھی۔ اُس کے باپ کا خیال تھا کہ تب جوزمین کو زخم لگے تھے اُس کے پاؤں کے تلووں نے سنبھال لیے تھے۔ اُس کا بیٹا کورآباد کو نکلتی سراب اُچھالتی شاہ راہ پر لمبی ڈرائیو کرتے ہوے اُن باتوں کی بابت سوچتا اور قہقہے مار کر ہنستا تھا۔
وہ قہقہے مار مار کر ہنستا رہا حتّی کہ قہقہوں کے تسلسل سے اُس کی آنکھوں میں کسیلا پانی بھر گیا۔
جب اُس کا باپ رَفتہ رَفتہ اَپنے حواس کھوتا چلا جا رہا تھا ‘تب بھی اُس کی آنکھوں میں ایسا ہی کسیلا پانی تھا۔
پہلے پہل یوں ہوا تھا کہ ٹی وِی پر دونوں عمارتوں سے جہاز ٹکراتے دِیکھ کر وہ بھی قہقہہ بار ہوا اور ہوتا چلا گیا۔۔۔ حتّی کہ آنکھیں کڑوے پانیوں سے بھر گئیں۔ جب اُس کی آنکھیں‘ بار بار نشر کیا جانے والا منظر‘ دیکھنے کے قابل ہوگئیں تووہ عجیب طرح سے سوچنے لگا تھا۔ منظر میں توجہاز جڑواں فلک بوس ٹاورز کے بیچ گھستے تھے مگر اُسے یوں لگتا ‘جیسے وہ دونوں ٹاورز لوہے اور سیمنٹ کے نہ تھے ‘اُس کی اَپنی ہڈیوں اور ماس کے بنے ہوے تھے۔
اُدھر سے جب بھی شعلے اُٹھتے تھے اِدھر اس کے درد کی چاہنگیں اُسے جکڑ لیتی تھیں۔
دَرد بڑھتا گیا۔ اِس قدر۔۔۔ جس قدر کہ وہ بڑھ سکتا تھا۔
جِن ڈاکٹروں کے ساتھ بیٹے نے رابطہ کیا تھا‘ اُن سب کا کہنا تھا ‘بہت دِیر ہو چکی تھی۔ ٹانگوں کا کٹ جانا اُس کے باقی بدن کی بقا کے لیے ضروری ہو گیا تھا
اُس کے باقی بدن کو بچا لیا گیا۔
اس بدن کو‘ جس کے زِندہ یا مردہ ہونے کے بیچ کچھ زیادہ فاصلہ نہ تھا۔
خود اُسے بھی اَندازہ نہ ہو پایاکہ اَپریشن کے بعد وہ کتنے عرصہ تک بے سُدھ پڑا رَہا۔۔۔ تاہم اس سارے دورانیے میں اُس درد کی شدت کا سلسلہ شاید ہی معطل ہوا ہو گا‘ جو اَندر یوں گونجتا تھا کہ باہر کی سمت چھلک مارنے لگتا تھا۔
دَرد کی کَسمَساہَٹ جب ہونٹوں تک پہنچی تو اُس نے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے جکڑ لیا۔۔۔ دَرد چہرے کے خلیے خلیے کو تھرّانے لگا۔۔۔ حتّی کہ پورے بدن پر لرزہ سا تَیر گیا۔
اور یہ وہ آخری لَرزَہ تھا جو اُس نے اَپنے پورے بدن پر بکھر جانے دِیا تھا۔
بدن پر لوٹتی تھراہٹ کے سبب اُس کے چاروں طرف بھگدڑ سی مچ گئی۔ سب سے زِیادہ فکر بیٹے کو لاحق تھی۔ بدن سے باہر چھلکتے درد کے باوصف اَبھی تک وہ باہر کی دنیا سے بہت دور تھا۔۔۔ کہ وہ تو وہاں تھا ٗ جہاں درد کے دَھارے کے ساتھ بسین نالے کا پانی تھا۔
اس پانی کے بہاؤ کی شوریدگی تھی
اور وہ ساری دہشت بھی تووہیں تھی جسے پرے دھکیلنے کے وہ عمر بھر جتن کرتا رہا تھا۔
بسین نالہ جہاں وہ رہتا تھا وہاں سے سات میل ادھر پڑتا تھا۔ اَپنے اُن دِنوں کے دوستوں کے ساتھ وہ برسوں اس نالے پر جاتا رہا تھا۔ وہ عمر کے اس مرحلے میں تھا کہ جب بہتے پانیوں کو دِیکھ کر خواہ مخواہ نہانے کو جی کرتا ہے۔ وہ اَپنی شلوار نیفے میں اُڑس لیا کرتا تھا ٗ بڑے پَلّوں والی بھاری شلوار کو اِتنے بَل دِیئے جاتے کہ اُس کا آسن کاٹنے لگتا تھا۔ وہ بسین میں گھس جاتا تو اُس وقت تک پانی سے باہر نہ نکلتا تھا جب تک کہ اُس کا آخری دوست بھی باہر نہ نکل آتا۔ بسین کا پانی اُچھالناٗ اُس کی ریت پر ننگے پاؤں چلنا اور پانی کے بہاؤ کی آواز سننا ٗمَدّھم سی اور مَدُھر سی ٗ اُسے اَچھا لگتا تھا۔
وہ اَپنے دوستوں سے اِس قدر وابستہ ہوتے ہوے بھی اُن جیسا نہ ہو سکا تھا۔ اُس کے ساتھی عین اس وقت کہ جب وہاں سے ریل کو گزرنا ہوتا تھا اُسے کھینچ کر اُدھر اوپر لے جاتے ...... وہاں جہاں تنگ سے پُل کے اُوپر سے ریل گزرتی تھی تو سارے میں ریل کے گزرنے کی گڑ گڑاہٹ بھر جاتی تھی۔ ریل گزرنے کے لمحات میں وہ سب پُل کے نیچے سے اُوپر کا نظارہ کرتے اور قہقہے مارتے تھے۔ مگر وہ دہشت زَدہ ہو کر وہاں سے بھاگ نکلتا تھا۔ قہقہے مزید بلند ہوتے۔ وہ ساری قوت مجتمع کرکے قدم اُٹھاتا ٗ اِتنی بھرپور قوت سے کہ جیسے اُس کا اگلا قدم وہاں پڑے گا جہاں نالہ دَم توڑ دِیتا تھا۔
بعد کے زمانے میں وہ اس چھوٹے سے نالے کی بابت سوچتا تھا تو اُس کا دَم ٹوٹتا تھا۔
وہ کوشش اور ہمت سے اس کی یادوں کو حافظے پر سے پرے دھکیلتا رہا۔
جب تک وہ حواس میں رہا ‘اَپنی اِس کوشش میں کام یاب بھی رہا۔
مگر بسین کے اِس معصوم اور بے ضرر حوالے کوبعد ازاں وقوع پذیر ہونے والے سانحوں نے ثانوی بنا دیا تھا۔ اب تو اُس کی یادوں میں بسین کے اَندر بپھرے پانیوں کا شراٹا بہہ رہا تھا اور وہ ایک ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ دیکھتا تھا۔
پہلے پہل کا دِھیرے دِھیرے بہنے والا بسین نالہ‘ بپھر کر دَریا بن چکا تھا۔
وہ پُل ‘جس کے نیچے کی چھاجوں برسنے والی دہشت‘ اسے پَرے پھینک دِیتی تھی ٗ پانیوں کی تندی میں بہہ گیا تھا۔
اور وہ فاصلہ جو وہ بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل ہی طے کر لیا کرتا تھا ٗ ٹرین پر طے ہوا تھا۔
ٹرین پر اُس کے لٹے پٹے مسافروں سے کہیں زِیادہ خوف لدا ہوا تھا
دہشت میں گندھا خوف ٗ چیخیں اور سسکیاں اُچھالتا ہوا۔
پُل ٹوٹ جانے کے سبب پٹڑی اُکھڑ کر پانیوں کے سنگ بہہ رہی تھی۔۔۔ اور رِیل گاڑی کو ‘کوس بھر پہلے ہی روک لیا گیا تھا۔
ریل کے رُکتے ہی دہشت کا منھ زور ریلا اُمنڈ پڑا‘ جو بسین کے کِنارے کِنارے دورتک پھیل گیا تھا۔ اُوپر کہیں شدید بارشیں ہوئی تھیں۔ یہاں بھی مینہ کم نہ برسا تھا اور ابھی تک پھوار سی پڑ رہی تھی مگر اُوپر کی بارشوں نے نالے کو دَریا بنا دیا تھا۔ حوصلے تو پہلے کے ٹوٹے ہوے تھے ‘آگے کا پُل ٹوٹ گیا تھا اور بلوائی کسی بھی وقت ان تک پہنچ سکتے تھے۔ بسین کا بپھرا ہوا پانی سامنے تھا ٗ بلوائی نہیں پہنچے تھے مگر اُن کی دہشت پہنچ گئی تھی۔
شُوکتی ہوئی اور خوخیاتی ہوئی دَہشت۔۔۔
خوف سینوں سے سسکاریاں کشید کرتا تھا۔۔۔ اتنی زیادہ اور اس تسلسل سے کہ یہ سسکاریاں بسین کے پانیوں کے شور شرابے پر حاوی ہو رہی تھیں۔
وہاں کچھ ہمت والے بھی تھے جو خوف کو پرے دَھکیلتے دَھکیلتے اُکتا گئے تھے۔ اب اُنہیں اُن کے حوصلے اُکساتے تھے لہذا ‘اُنہوں نے بپھرے پانیوں میں اَپنے قدم ڈال دیے۔
کئی پار چڑھ گئے تو اسے بھی یقین سا ہونے لگا کہ وہ بھی پار نکل جائےگا۔ اس نے اَپنی بیوی کا ہاتھ تھاما ٗ ننھّی بیٹی کو کندھے سے لگایا اور ہمت والوں کے ساتھ ہو لیا۔ اُس نے بیوی کو نگاہ سامنے کنارے پر جمائے رَکھنے کی تلقین کی اور خود بھی پار دِیکھ کر آگے بڑھنے لگا۔
اُس کی بیوی کو آٹھواں آدھے میں تھا۔ پانی دِیکھ کر اُسے چکر آنے لگتے تھے ایک قدم آگے بڑھاتی تھی تودو پیچھے کو پڑتے تھے۔ وہ سامنے کنارہ دیکھتی تھی مگر اُچھلتا چھل اُچھالتا منھ زور پانی اس کا دھیان جکڑ لیتا تھا۔۔۔ حتی کہ وہ چکرا گئی ٗ پاؤں اُچٹ گئے اور وہ پانیوں پر ڈولنے لگی۔
اُس نے بیوی کو چکرا کر پانی پر گرتے ہوے دِیکھا تو اُسے سنبھالنے کو لپکا۔ ننھی بیٹی جو کندھے سے لگی تھی اس پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بیوی کو سنبھالتے سنبھالتے بیٹی پانیوں نے نگل لی۔ اُس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر وہ چند ہی لمحوں میں نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
وہ عین بسین کے وسط سے دُکھ سمیٹ کر واپس پہلے کنارے پر پلٹ گئے۔ وہیں انہیں رات پڑ گئی اسی کنارے پر قافلے کی عورتوں نے رات کے کسی سمے اَپنی اَپنی اوڑھنیوں سے اوٹ بنائی اور سسکیوں کے بیچ ایک معصوم کی ننھی چیخوں کا استقبال کیا۔
یہ وہی معصوم تھا جو اَب اِتنا بڑا ہو گیا تھا کہ اُس نے خود ہی باپ کی ٹانگیں کٹوانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بیٹا ڈاکٹروں کے پینل سے پوری طرح متفق ہو گیا تھا کہ پاؤں کا گھاؤ پھیلتے پھیلتے اوپر تک پہنچ چکا تھا۔ وہ چلنے سے باز نہ آتا تھا۔۔۔ یوں بقول اُن کے ٗ زخم تازہ ہو جاتے تھے۔ ان زخموں سے اُٹھنے والا سلسلاہٹ جیسا مسلسل درد اُس کے نچلے دَھڑمیں اِتنا شدید ہو جاتا کہُ اس کی چیخیں نکلتی رہتیں۔ اِتنی بلند اور اِتنے تسلسل کے ساتھ کہ پڑوسی اُدھر ہی متوجہ رہتے تھے۔
ڈاکٹروں کے مطابق گھاؤ زہر بن گئے تھے لہذا اپریشن ضروری تھا۔ بیٹا بھی قائل ہو گیا تھا کہ اس ضمن میں باپ سے رائے لینا مناسب نہیں تھا اور وہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کا باپ کوئی معقول رائے دینے کے اہل نہیں رہا تھا۔
بیٹے کو یقین ہونے لگا تھا کہ وہ ساری صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکتا تھا لہذا اَپنے طور پر ہی ڈاکٹروں سے متفق ہو گیا۔ اپریشن خاصا طویل تھا۔ اپریشن ہو گیا تو ڈاکٹروں نے حسب عادت اُسے تسلی دیتے ہوے کہا‘ اس کا باپ بہت جلد ٹھیک ہو جائےگا۔۔۔
مگر جب باپ کو ہوش آیا تو وہ اپنے ہی بیٹے سے ایک اور گھاؤ پوری طرح چھپا لینے کے جتن کر رہا تھا۔
یہ اس کے دِل کا گھاؤ تھا۔
ایسا گھاؤ جس کے اندر سے دَرد کا عجب غراٹا اٹھتا تھا .....
وہ غراٹا ‘جو بدن کو تھرانے کے بہ جائے اسے لوتھ کا سا بنا دیتا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.