Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکھنؤ سے لاہور تک

ریحان علوی

لکھنؤ سے لاہور تک

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    انگریز حکومت کے خلاف جنگِ آزادی کے دوران سلطنتِ اودھ کی آخری مزاحمت کی نشانی حضرت محل ایک جرأت مند خاتون کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ مگر اسی اودھ میں کئی چھوٹے بڑے نواب اور درباری خاندان سے تعلق رکھنے والے اور بھی عورتیں تھیں جو شائید اتنی با ہمت نہیں تھیں۔ ایسی بہت سی عورتیں نوابین خاندان سے تعلق رکھتی ہوں گی۔ کیوں نہ اان کی کہانی ڈھونڈی جائے؟ 1857۔شہریار پھر سوچ میں پڑ گیا۔ وہ آج کے کہانی لکھنے والوں کے اس قبیل کا حصّہ تھا جو ہر وقت نت نئے موضوعات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ اس وقت بھی وہ اپنے لاہور کے ایک تنگ محلے کے چھوٹے سے فلیٹ کے مختصر سے کمرے میں بیٹھا کسی اچھوتے موضوع کی کرید میں مصروف تھا۔ اودھ کا خیال اسے شائد اس لیے آیا کہ وہ اپنے بچپن سے اس طلسماتی سلطنت کے قصّے سنتا رہا تھا۔ اس کی پیدا ئش ولایت کی، تعلق اودھ سے اور رہائش لاہور میں تھی۔ تین مختلف ملکوں میں بٹا اس کاا ماضی اور حال اور اس کی محبتی تکون۔ نہ اسے لندن یاد تھا نہ اودھ۔ پھر بھی میں اپنے موضوعات اتنی دور سرحد پار ہندوستان کی اس وقت کی متمول ریاست میں کیوں تلاش کر رہا ہوں۔ شہریار نے خود کو ٹٹولا۔تم اپنے نوسٹیلجک (Nostalgic) ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتے جو دراصل تمھارا ماضی تھا ہی نہیں۔ کھاؤ یہاں کی، کرو وہاں کی۔۔۔

    تم جیسے نام نہاد نوابی خاندانوں کے لٹے پٹے لوگ کب تک اپنے ماضی پر ماتم کرتے رہیں گے۔ کہانیاں ڈھونڈنے بھی وہاں جاتے ہو۔۔۔ قریب کی نظر کمزور ہے کیا؟

    اس نے اپنی اس غیرارادی عادت پر خود کو کوسنے کی کوشش کی، مگر ہمیشہ کی طرح پھر ناکام رہا۔۔۔ میں ایک مصنف ہوں۔ میری تحریریں سرحدوں میں قید نہیں رہ سکتیں۔ کیا کوئی جالندھر والا، بمبئی والا، چندی گڑھ والا یا پٹیالے والا، دکن، امرتسر، لدھیانہ، صوہالی، سورت، گجرات والا اپنے ماضی کو خود سے نوچ کر الگ کر سکتاہے۔ اس نے پھر دلیلیں سوچنا شروع کیں۔ مگر یہ وقت دلیلوں کا نہیں نئی کہانی کا ہے۔ اس نے پھر خود کو لتاڑا۔ اودھ کی راج دھانی میں کیا کیا عمارتیں ہیں۔ وہ پھر وہیں پہنچ گیا جہاں کا خمیر تھا۔ گومتی کے کنارے سے بھی کبھی کسی کہانی کا خمیر اٹھا ہو گا۔ چھتر منزل، دلکشا کوٹھی، رومی دروازہ، موتی محل، بڑا امام باڑہ اور بھول بھلیاں۔۔۔ کہیں تو کچھ ہوا ہو گا۔۔۔ یا پھر عورتوں کی مظلومیت کی کوئی کہانی۔ انار کلی جیسا مہان قصّہ۔۔۔ آہ و بکا کرتی روتی عورتوں کی کہانیاں آج کل خوب چلتی ہیں۔ کیوں نہ اسی پر کچھ گھڑ لیا جائے۔ مگر نئی کہانی، نیا مضمون، اچھوتا خیال؟ کیوں نہ کسی دوست کے سامنے اپنا آئیڈیا رکھو۔ مگر سابقہ تجربے کی یاد نے اس کو تلخ کر دیا۔ کچھ لکھنے والوں سے اپنا آئیڈیا شیئر کیا مگرانھوں نے مین میخ نکال کر ردّی میں پھنکوا دیا لیکن کچھ مہینوں بعد اس کے رد شدہ افسانے کے آئیدیے پر مبنی کہانی ایک بڑے نام کے مصنف کے نام سے چھپ گئی۔۔۔ شہریار کو پھر دلکُشا کوٹھی، موتی محل، چھتّرمنزل، یاد آنے لگے۔ مگر بانو محل؟ وہ لکھنؤمیں نہ سہی، تھا تو اودھ ہی کے کسی قصبے میں، وہ یادوں کی بھول بھلیوں میں دور بہت دور نکل گیا۔

    بانو محل کے تمام ملازمین اور نوکر چاکر زیب النساء کو مغلیہ دور کے درباری خاندان کی اجڑی اور لٹی پٹی پیڑھی کا جلا بجھا دیا ہی سمجھتے تھے، جن کے پُرکھوں پر زوال در زوال آ گیا تھا۔ وہ بہت کم سنی میں بانو محل میں آئی تھی۔ دیگر خادماؤں اور ملازمین کے رہائشی حصے میں اس کا بھی ایک چھوٹا سا کمرہ تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا کام باقی تمام خادماؤں، بواؤں اور خدمت گاروں سیذیادہ اہم ہو گیا تھا۔ وہ بانو محل کے مالک نواب شجاع مرزا کی فالج زدہ والدہ، حضرت برجیس شہربانو کی دیکھ بھال پر مامورتھی۔ انہی کے نام پر بانو محل آباد ہوا تھا۔ کم سنی ہی میں زیب انساء کا رنگ روپ کئی نظروں کو ٹکٹکی میں بدل دیتا۔ بانو محل میں صرف آرزو ہی زیب النسا ء کی سہیلی اور دکھ درد کی ساجھی تھی۔وہ مالی بابا کی بیٹی تھی جو اب بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچے اس محل کیپاسدارری کرتے تجربہ کار ملازمین کی بچی کھچی کھیپ میں خود بخود شامل ہو گئے تھے۔ جوانی میں وہ نواب شجاع مرزا کے کئی ایکڑ پر پھیلے باغات کے نگران اعلیٰ تھے اور نجانے کب سے سب انھیں ان کے اصل نام کے بجائے مالی بابا کے نام سے جانتے تھے۔

    زیب النساء نے اپنی خدمت سے بانو محل میں خاص مقام حاصل کر لیا تھا۔اور صورت شکل میں تو نواب زادیاں بھی اس کی گرد کو نہ پہنچ پاتیں۔ اسی لیے کچھ خادمائیں اور ملازم اس سے حسد بھی کرنے لگے تھے۔ کبھی کبھی تو ان حاسدوں کے جلے کٹے جملے زیب النسا ء کو کاٹ کر ہی رکھ دیتے۔زیب النسا ء جب اداس ہوتی تو سر جھکا کر کمرے کے کونے میں جا بیٹھتی۔ ایسے میں نجانے کہاں سے آرزو آ دھمکتی۔ اس کو زبردستی بناتی سنوارتی، آنکھ میں سرمے کی سلائی پھیرتی۔ مسّی لگاتی، غازہ ملتی۔ زیب النسا ء نہ نہ کرتی رہ جاتی پراس کا نوخیز حسن اور دمک اٹھتا۔ جیسے کسی نے رنگوں، خوشبوؤں اور چاند تاروں کے حصار کھینچ دیے ہوں۔ اس کا حسن رات کی رانی میں نہائی چاندنی راتوں میں موروں کو محوِ رقص کرنے پر مجبور کر دیتا ہو۔ ’’ارے یہ کیا دیوانہ پن ہے۔ پاگل ہو گئی ہے کیا؟‘‘ زیب النسا ء گھبرا کر سارا ہار سنگھار اتارنے کی کو شش کرتی۔ آرزو کھلکھلا کر ہنس دیتی جیسے جھرنے پھوٹ پڑے ہوں۔

    ’’ارے زیب النسا ء تم کہاں مر گئیں۔۔۔ نہ کھانا پکانے کا ہوش نہ رسوئی کی خبر۔۔۔‘‘ اچانک کسی بڑی خادمہ کی آواز سجا سجایا جادو توڑ ڈالتی۔

    ’’باہر چلی جاؤ۔ ایسے ہی چلی جاؤ۔۔۔ منہ دھونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘ اور اس دن بنی سنوری زیب النسا ء کو آرزو نے یہی کہتے کہتے کمرے سے دالان کی طرف دھکیل دیاجہاں خادماؤں کا غول جمع تھا۔ بڑی خادمہ کی نظر اس پر پڑی تو پہلے توٹھٹک کر رہ گئیں پھر سنبھالا لے کر بولیں،

    ’’ارے اس بناؤ سنگھار سے تمھارے سر پر مغلیہ سلطنت کا تاج نہیں سجنے والا۔ ہاتھ میں نہیں دمڑی۔۔۔ رنگنے چلیں چمڑی۔‘‘

    ’’ہاں یہ تو وہی بات ہوئی کہ، تن پہ نہیں لتّا مِسّی لگاؤالبتہ‘‘ دوسری خادمہ نے بڑی کی شہ پا کر ٹکڑا لگایا۔

    ’’ارے رسوئی میں ‘‘ کچھ’’جل رہا ہے کیا؟‘‘ زیب النساسارے کٹارے جیسے طعنے نظرانداز کرکے رسوئی کی طرف دوڑی۔

    ’’ارے رسوئی میں کچھ نہیں جل رہا۔۔۔ یہاں ہر کوئی ’’جل‘‘ رہا ہے۔ ’’آرزو نے ہنستے ہوئے آواز لگائی۔

    ’’ہوں! جان جائے خرابی سے، ہاتھ نہ اٹھے رکابی سے، جاؤ رسوئی میں کام کے نام پر کبابوں سے بھرے طباق پر ہاتھ صاف کرو۔‘‘ بڑی خادمہ نے جلے بھنے لہجے میں گرہ لگائی۔

    آرزو نے اسے چھیڑا:’’دیکھا۔ ذرا سے سنگھار سے کیا چوکھا رنگ چڑھا۔۔۔ سب جل بھنکر کباب ہو گئیں تجھے دیکھ کر۔ تجھے دیکھ کر کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ سگھڑاپے کے ہالے میں گردکھاتا ہوا چاند جو رسوئی کی دھول میں گہنا رہا ہو۔‘‘

    ’’تم اپنی نثری شاعری کسی اور کے لیے اٹھا رکھو۔۔۔ مجھے معاف رکھو۔ میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اگر کچھ اونچ نیچ ہو گئی تو سب سے پہلے میری ہی گردن ماری جائے گی۔ ‘‘

    ’’ارے تمہیں تمہاری گردن مارنے کے لئیے نہیں بلکہ اس لئیے ترشا گیا ہے کہ تمھارے آگے گردنیں جھکائی جائیں۔ ویسے یہ سچ ہے کہ ’’جس کے ہاتھ میں ڈوئی، اس کے سب کوئی‘‘ ہم جتنی بھی جان مار لیں رہیں گے خادمہ، ملازمہ۔‘‘ آرزو کی آواز میں ملال تھا۔

    ’’زیب النسا ء سوتے سے اٹھتی ہے تو منہ شبنم سے دھلا لگتا ہے۔ جیسے ملائی میں دُھلا چاند۔ ہاتھ پاؤں کندن کی طرح دمکتے ہیں۔‘‘ آرزو نے دوسرے قصبے سے آئی اپنی جانی پھوپھو کو بتایا تو وہ تڑخ کر بولیں، ’’اے یہ لڑکیوں بالیوں کا بے حجاب کاجل، سرخی، غازہ پوڈر مَل کر ادھر اُدھر ہڑدنگیمچانا نیک فال نہیں۔۔۔ جبکہ اس نور محل کے اصول و ضابطے بھی اتنے سخت ہیں۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں اپنی زیب النسا ء کو سر جھاڑ منہ پہاڑ ہی رہنے دو۔ اور سنو چاندنی رات میں دالان میں لگے بوڑھے برگد کے نیچے تو اسے ہر گز نہ جانے دینا۔ سنا ہے جِن عاشق ہو جاتے ہیں ایسی پری زادیوں پر۔‘‘

    بانو محل کی کہانی بھی پراسرار غلام گردشوں والی بڑی بڑی حویلیوں سے کچھ مختلف نہ تھی۔ غدر کے بعد افراتفری کا دور آیا تو بانو محل کی چکا چوند بھی ماند پڑنے لگی اور نواب شجاع الدین مرزا کی نوابیت بھی حویلی کے اردگرد کی کچھ اراضیوں، دکانوں اور باغات تک سمٹ کر رہ گئی۔ ان کے دو ہی بچے تھے۔ ایک نواب زادی ایک نواب زادہ۔ فالج زدہ ماں کی دیکھ بھال کے لیے زیب النسا ء کا انتخاب نواب شجاع مرزاکی بیگم اور گھر کی مالکن مہربانو بیگم نے کیا تھا۔ کیونکہ یہ بڑی عمر کی سن رسیدہ خادماؤں کے بس کا کام نہ تھا۔ نواب زادی بیاہ کر لکھنؤ جا چکی تھیں جبکہ چھوٹے نواب صلاح الدین مرزا کو پڑھنے کے لیے ولایت بھیج دیا گیا تھاجہاں چھوٹے نواب صلاح الدین کے ماموں نے بورڈنگ اسکول میں بھانجے کے لیے بہترین انتظام کر دیا تھا۔ ویسے بھی مستقبل کی حکمتِ عملی کے تحت ولایت ہی تعلیم کے لیے بہترین مقام تھا۔بانو محل نامی اس حویلی میں زنان خانے اور مردان خانے کے درمیان بڑا سا صحن یا دالان تھاجبکہ پشت پر ایک متروک شہ نشیں اب بھی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی تھی۔ حویلی کا بڑا سا دالان چاروں طرف سے آم، املی، امرود اور بڑکے درختوں کے جھنڈ میں گھرا ہواتھا جبکہ اندرونی دروازے پر ہی بوڑھا برگد سرنہوڑائیکھڑا تھا جس کی لمبی لمبی جڑیں ادھر اُدھر جھولتیں تو ساون کے جھولوں کا گمان دیتیں۔ مگر رات میں انھی جڑوں کے لمبے لمبے ہیولے پراسرار سے لگتے۔ رات کی رانی، ہارسنگھار اور گلاب کی بیلیں دالان کے چاروں طرف بنی ڈیوڑھی پر منڈھی اپنے اپنے موسموں میں جوبن دکھاتیں۔ یوں اس لمبے چوڑے صحن اور اس سے لپٹی اردگرد کی ان تمام جزیات نے مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان فاصلے بنا رکھے تھے۔ شجاع مرزا رات گئے زنان خانے لوٹتے، انھیں جائیداد کے مسائل اور اثر و رسوخ بڑھانے میں معاون دوست احباب اور مشیران کی صحبت سے فرصت ہی کہاں تھی جو خانگی مسائل پر توجّہ دیتے۔ صبح فجر کے بعد زنان خانے سے جاتے تو عشا بعد واپسی ہوتی۔ انھیں اپنے خاندانی وقار اور حسب نسب پرآج بھی بڑا ناز تھا۔ جنگ ِ آزادی سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک کا درمیانی زمانہ ان جیسے نوابوں، درباریوں اور شاہی خاندان سے قربت رکھنے والے ہزاروں خاندانوں کے لیے کڑے امتحان سے کم نہ تھا۔ بساطِ سیاست پر مہرے الٹ پلٹ کرنے اور نئے حکمرانوں سے روابط اور قربتیں بڑھا کر اپنی رہی سہی شان و شوکت اور برائے نام اختیارات حاصل کرنے کی دوڑ جاری تھی۔نواب شجاع مرزا اس تمام تنزلی کے باوجود وہ اپنے وقار، خاندانی عظمت اور جاہ و حشمت کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے اور ساتھ ہی اپنی بچی کھچیساکھ کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مار رہے تھے۔

    ہندوستان میں آزادی کے متوالوں کی گونج سنائی دینے لگی تھی۔ انگریز حکمرانوں نے اسبابِ بغاوت ہند، پر جتنی تحقیق کی، اس سے نکلنے والے کچھ نتائج سے سبق بھی سیکھا اور انھی میں سے ایک سبق یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے بے ضرر خودمختار نوابوں اور رئیسوں کو نہ چھیڑا جائے۔ ان کی حویلیوں اور آس پاس کے احاطوں تک کی اجارہ داری پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ چنانچہ نواب شجاع مرزا کے خاندانوں کی طرح کئی اور رؤسا اور نوابین بھی اپنی حویلیوں میں خودمختار تھے۔ ان کی حویلیوں اور محلوں میں پہلے کی طرح اب بھی خادموں، نوکروں اور ملازمین کی خاصی تعداد موجود تھی۔ درباری طرز کے دوست احباب اور معاصرین کی محفلیں بھی سج رہی تھیں۔ بالاخانے اور تہ خانے دونوں اس طرح اپنی اپنی طرز کے مہمانوں سے سجے رہتے۔ بالا خانے میں رقص و سرود پر جائیدادوں کی قرقی کے کاغذات کا تبادلہ ہوتا تو تہ خانوں میں آنکھوں میں سلائی پھیرنے اور بد اخلاقوں کی کلائیوں پر نوابی مہر لگا ہمیشہ کے لیے ان سے محتاط رہنے کی نوید دی جاتی۔ نواب شجاع مرزا کے تہ خانے میں اس وقت بھی آنکھوں میں سلائی پھیر کر قید کیے جانے والا ایک سابق وفادار موجود تھا۔ پچھلے سال ایک خادمہ کی کلائی پر مہر لگانے کے بعد اسے قصبے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ دو ایک اور خادم کلائی پر مہر لگائے نور محل میں زندہ گھومتے تھے مگر نوابی مہر کی کلائی کا مطلب تھا کہ یہ صرف ایسے کاموں کے لیے ملازم ہیں جس میں اعتبار، غیرت اور وقار کا کوئی دخل نہ ہو۔ اس مہر کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ ایسے افراد کبھی کسی اور خاندان میں رسائیحاصل نہ کر سکیں۔

    مالی بابا نے اپنی موتیا زدہ آنکھ سے پانی پونچھتے ہوئے اپنی بہن جانی بیگم کو تفصیل بتائی۔ جانی بیگم یہ ساری باتیں سننے کے بعد سہم سی گئی تھیں۔ اب اس عمر میں مالی بابا کے جو کام رہ گئے تھے، ان میں سے ایک بانو محل میں آنے والے نووارد لوگوں کو یہاں کے ادب آداب یا عبرت آمیز واقعات سنا کر ہوشیار کرنا تھا۔ سو وہ یہ کام بحسن و خوبی کر رہے تھے۔

    بانو محل میں پھر گرمیاں شباب پر تھیں۔ صبح سے ہی لو چل رہی تھی۔ دالان میں لگے آم کے درختوں سے جھڑ ی امبیاں صحن میں بکھری پڑی تھیں۔ املی کے پیڑ سے گرے کٹارے حوض کے پانی میں ہچکولے کھا رہے تھے۔کوٹھے کی چھت پر مرتبانوں میں کیریوں اور ریٹھے کے تیل بھرے اچار پوری فضا میں بو بکھیر رہے تھے۔ خَس کی ٹٹیوں پر پانی کے چھینٹے مارے جا چکے تھے اور خالی مشکیں حوض کے کنارے جمع کر دی گئی تھیں۔ بٹیروں اور کبوتروں کے دڑبوں پر رسی سے تنی ٹاٹ کی چھت کھینچ دی گئی تھی۔ شہ نشیں کے چھجّے تک پر گرم ہوا کے بگولوں سے اڑی گرد کی تہ سی جم گئی تھی۔

    دوپہر اب ڈھلنے کو تھی اور دالان کے کونے میں جالیوں سے لگے کھٹولے اور تخت بچھائے جاچکیتھے جہاں ہر شام دور نزدیک کے آئے عزیز اور قرابت دار، نواب زادیاں سب گھر کی مالکن مہر بانو بیگم کے تخت کے گرد جمع ہو تے۔ مہربانو بیگم پورے رعب و دبدبے سے براجمان اپنے ریشمی غرارے کا گھیر دارپائینچاتخت پر سمیٹے مراد آبادی پاندان سجائے، گلوریاں لگوا رہی ہوتیں۔ اسشام گرمی کا زور پورا طرح ٹوٹا نہیں تھا۔ زیب النسا ء حسبِ معمول شام کی صحنی نشست کے انتظامات کرنے اٹھ چکی تھی جبکہ باقی لوگ ابھی کمروں میں بند تھے۔ وہ صحن میں رکھی تپائیوں کی قطار پر دھری صراحیوں میں پانی بھر رہی تھی۔ گرمی سے اس کا گلابی چہرہ اور بھی سرخ ہو رہا تھا۔ مردان خانے اور زنان خانے کے درمیان سرحد کا کام کرنے والے اس دالان میں اس وقت سناٹا پڑا تھا۔ وہ بے نیازی سے گگری سے صراحی میں پانی انڈیلنے لگی۔ اسے کیا خبر تھی کہ کوئی اس کے خیرہ کر دینے والے حسن کے سحر سے مبہوت بارہ دری کے ستون کی آڑ سے اسے دیکھ رہا ہے۔ چھوٹے نواب صلاح الدین مرزا ولایت سے گرمیوں کی چھٹیوں پر حویلی آئے ہوئے تھے۔۔۔ اچانک زیب النسا ء کی نظر چھوٹے نواب کی طرف اٹھی۔وہ اس خیال سے ہی کانپنے لگی کہ مردان خانے کا در اس کی سمت کھل گیا ہے اور دریچوں سے جھانکنے والی آنکھیں کسی معمولی شخص کی نہیں بلکہ مہر بانو بیگم اور نواب شجاع مرزا کے اکلوتے فرزند نواب صلاح الدین مرزا کی آنکھیں ہیں۔ پھر وہ کئی دن تک صراحیاں بھرنے نہیں نکلی۔ مگر شام کی خالی صراحیاں اس کی طرف انگلیاں اٹھانے والوں کے لیے بات کا بتنگڑ بنا سکتی تھیں۔ مجبوراً اسے پھر معمول کے مطابق نکلنا پڑا۔۔۔ اور پھر یہ معمول ایک غیر معمولی انسیت میں بدلنے لگا۔ اسے ان دو اجنبی نگاہوں کو دوپہر ڈھلنے کا انتظار رہنے لگا۔ کچھ کہے سنے بغیر چراغ بھڑکنے لگے۔

    دن بدن لو تیز ہونے لگی تھی۔ چھوٹے نواب کے تمام وعدوں یقین دہانیوں اور قسموں کے باوجود وہ اونچ نیچ کے اس کھیل میں اونچ پر جانے کے لیے تیار نہیں تھی نہ وہ نور محل کو گہن لگانا چاہتی تھی۔

    زیب النسا ء!اس نور محل کا سارا نور و جمالہمارا مرہون منت ہے۔اگر تاج محل سے شاہجہاں اور ممتاز محل کا عشق نکال دو تو کیا بچے گا، فقط سنگ مرمر کی عالیشان عمارت؟ چھوٹے نواب خود سے سرگوشیاں کرتے۔

    ’’اس عید پر بھی نواب زادیوں اور پری زادیوں کے پرے کیا کیا گہنا پاتا پہن کر نور محل کے صحن میں اترے تھے۔اوپر سے نیچے تک لدی پھندی۔ سنہرے آویزے، کندنی بازو بند، جڑاؤ کنگن روپہلے ہاتھ پھول، نقشئی جھومر، بجتی پازیب، آویزے، جھمکے، ٹیکے، شاہانے، گلوبند، انگشتری، پہنچی۔۔۔ ساری آریا ئیش و زیبائیش کے باوجود ان میں سے کوئی ہماری زیب کی پاؤں کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکا۔‘‘ آرزو کی مدح سرائیاں زیب انساء کو اور خوفزدہ کر دیتیں۔

    حویلی میں کسی کو اس عشق کی خبر بھی نہیں تھی۔ کم از کم اُن دونوں کا تو یہی خیال تھا مگر عشق اور مُشک چھپائے کہاں چھپتے ہیں۔ اس کی بچپن کی رازدان آرزو سب کچھ جان کر بھی انجان بنی ہوئی تھی۔ چھوٹے نواب صلاح الدین کا بار بار بہانے بہانے سے زنان خانے کے چکر لگانا اور سوتے جاگتے زیب النسا ء کے خواب دیکھنا، کب تک اس راز کو چھپاتا۔ اور آخرِ کار اس بے جوڑ عشق کو مالکن مہر بانو بیگم کی جہاندیدہ آنکھوں نے بھانپ لیا۔ چھوٹے نواب صلاح الدین پہلے اپنی صفائیاں دیتے رہے پھر سب کچھ کھل کر کہہ بیٹھے۔ مہربانو بیگم کے لیے یہ سخت امتحان تھا۔ بیٹے اور عزت و وقار کے درمیان کشمکش نے انھیں کمزور بنا دیا تھا، مگر نہیں۔ وہ بڑے نواب صاحب کو بغیر بتائے بھی وہی فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں جو خود بڑے نواب صاحب کی عزت، وقار غیرت اور شان و شوکت کے شایانِ شان ہو۔۔۔

    ’’یہ بات اور کس کس کو معلوم ہے؟‘‘ انھوں نے تمتماتے چہرے کو بیٹے سے چھپاتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’میرا خیال ہے صرف آپ کو۔‘‘ صلاح الدین نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

    ’’ہم اور نواب صاحب صبح سویرے لکھنؤ جا رہے ہیں۔ ہم نواب صاحب سے ٹاٹ میں پیوند لگانے کی اس کوشش کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ موجودہ سیاسی حالات میں جواب صاحب تہ خانے کی آبادی میں اضافے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مگر آپ غیرت مند خاندان کے باعزت چشم و چراغ ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ولایت لوٹ جائیے اور اس قصّے کو ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیجیے۔ زیب النساء کو ہم سنبھال لیں گے، ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی کا مطلب تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے۔ اس لیے یہ بات یہیں تک رہے۔‘‘

    نواب شجاع اور بیگم مہربانو صبح سویرے لکھنؤ کے لیے روانہ ہو گئے اور ان کے جانے سے پہلے زیب النسا ء بھی مالی بابا اور آرزو کے ساتھ بانو محل چھوڑ چکی تھی۔

    وہ گلابی جاڑے کی ایک سخت سرد صبح تھی۔ بانو محل کے دالان میں دھوپ سیکنے کے لیے آنے جانے والوں کی آمد و رفت جاری تھی مگر آج شام ڈھلے بھی دالان سنسان نہیں ہوا تھا۔ اور سورج ڈھلتے ہی ملازمین زنان خانے کی رسوئی سے گرم گرم کھانے مردان خانے میں کوئلے کی دہکتی انگیٹھیوں پر رکھنے کے لیے دوڑتے بھاگتے نظر آنے لگے۔ سماور میں چائے اور قہوے کا پانی اُبل رہا تھا۔ بارہ دری سے لے کر طعام خانے تک پیٹرومیکس کے ہنڈولے دودھیا روشنی بکھیر رہے تھے۔ چھوٹی ٹینکیوں پر ہاتھ دھونے کے لیے گرم پانی کا انتظام ملحقہ پائیں باغ کے چھت والے حصّے میں تھا۔مردانہ بیٹھک میں دبیز نرم تکیے پشت لگانے کے لیے وسیع دسترخوان کے اطراف لگے تھے، جن کے پیچھے حقّوں کی قطاریں لگی تھیں اور خاص دانوں میں شاہی ورقوں میں لپٹی گلوریاں سلیقے سجی تھیں۔ بانو محل میں آج طعام خاصتھا اور کیوں نہ ہوتا، مدوعمہمان بھی تو خاص تھے۔کھانے کے بعدخواب گاہوں میں دلائیاں رضائیاں لحاف لے جائے جانے تھے۔توشکوں پر سے مخملی پلنگ پوش اتار کر سوتی چادریں بچھانے کے لیے تہ کی ہوئی الگ رکھی تھیں۔

    خاندانی روایات، جاہ و حشمت اور سطوت و شوکت، شائد یہ سب وہ عناصر ہیں جن کے مرکب سے انا کا خول بنتا ہے۔ کیا سلائی پھیر دینے سے انکھوں میں بسے سارے خواب بجھ جاتے ہیں یا عشق اپنی جون بدل لیتا ہے۔اور پھر وہ عشق ہی کیا جو ایک سلائی کی ضرب بھی نہ سہ سکے۔ چھوٹے نواب صلاح الدین مرزا نے ایک بار پھر اپنی سوچوں سے جان چھڑانے کی سعیِ ناکام سی کی۔

    پچھلے تین دنوں میں صلاح الدین مرزا کی دنیا ہی پلٹ کر رہ گئی تھی۔ انھیں معلوم تھا نور محل کے مالکان لکھنؤ میں ان کے لیے کسی ایسی نواب زادی کا انتخاب کرنے گئے ہیں جن کے خاندان کا اثر و رسوخ حکمرانوں تک ہو۔ نور محل بقعہ نور بنا ہوا تھا جہاں مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔بیگم مہر بانو اور نواب شجاع مرزا لکھنؤ سے خاص الخاص مہمانوں اور کچھ فرنگی دوستوں کے ساتھ واپس آرہے تھے اور آج کی شب کی اس خصوصی دعوت کے بعد دوسرے دن صبح چھوٹے نواب صلاالدین مرزا کی ولایت روانگی تھی۔ مگر اس رات۔۔۔ اس خاص رات کچھ اور ہی ہونا لکھا تھا۔ ہاں اس رات عقل ودانش کے سارے مجاور دہائی دیتے رہ گئے، سوچ وفکر کی بہشت کے رضواں اپنے اپنے عصا اٹھائے لکیر پیٹتے رہ گئے، مگر سرکش طوفان نے کسی کی نہ سنی، وقت کی تنگ سرنگ کے رستے نور محل کے زنداں سے نکل جانے کا جنون دیوار میں چن دئے جانے کے خوف پر حاوی آگیا۔ اسی سجی سجائی رات میں چھوٹے نواب صلاح الدین مرزا خاص مہمانوں کی آمد سے پہلے ہی نور محل چھوڑ کر جا چکے تھے۔ اس رات منطق کو محبت نے پچھاڑ دیا۔

    کیا بلندی کا مطلب واقعی حقیقی اخلاقی عظمت ہے۔اگر ایسا ہے تو سر ااٹھائے بلند و بالا پہاڑ اپنے قد وقامت تک پہنچنے والوں کی راہ میں کبھی نوکیلی اور کبھی عمودی چٹانوں کے روڑے کیوں اٹکاتے ہیں۔ یہی پہاڑاپنی اونچی چوٹیوں کی راہ میں سنگلاخ چٹانوں اور پھسلتے، چکنے پتھروں کا جان لیوا جال کیوں بچھاتے ہیں، گہری کھاہئیوں کا حصار کیوں کھینچتے ہیں۔ خود کو ناقابلِ تسخیر بنانے کیجنون میں کبھی آگ اگل کر دہشت پھیلاتے ہیں اوجب کچھ بس نہیں چلتا تو برف کی پوشاک پہن کر بے حس اور سخت جان ہونے کا برملا اعلان کرتے ہیں۔ یہ تمام کمالِِاہتمام کیا صرف اس لئے نہیں کہ کوئی کبھی ان کے قدوقامت تک نہ پہنچ سکے اور کوشش بھی کرے تو بلند وبالا پہاڑوں کے نیچے منہ کھولے گہری کھائیاں ان کو نگل جائیں۔‘‘

    زیب النسا ء کی آنکھیں آرزو کی فلسفیانہ باتوں کے بجائے اپنے قصبے کے گھر کے چھوٹے سے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں جہاں چھوٹے نواب بصلاح الدین مرز اپنے اجداد کی جاہ و حشمت اور نوابیت کو بالائے طاق رکھ کر اسے لینے آئے تھے۔۔۔ اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کہ مالی بابا، آرزو اور زیب النسا ء سب حیرت زدہ ہی رہ گئے تھے۔

    ’’زیب النسا ء موٹر باہر گلی میں کھڑا ہے۔ تمھیں فورا فیصلہ کرنا ہو گا۔‘‘

    چھوٹے نواب صلاح الدین چکن کے کرتے پر ولایتی چیسٹرپہنے تھے جو کرتے کی شکنوں کے جال کو پوری طرح چھپا نہیں پا رہا تھا۔

    ’’کیا تم میرا ساتھ دو گی، میرے ساتھ ایک نئی دنیا بساؤ گی؟ میں یقین دلاتا ہوں خوف و ہراس، رعب و دبدبے اور نام نہاد غیرت کے اس قلعے سے باہر نکل کر ہم ایسی دنیا بسائیں گے جو باہمی احترام، محبت، عزت اور ہم آہنگی سے سجی ہو گی۔ بولو۔۔۔ چلو گی میرے ساتھ؟ابھی، اسی وقت۔‘‘

    ’’مگر کس رشتے کس ناطے سے؟‘‘

    ’’مالی بابا محلّے کے حافظ جی کو بلا لائیے اور ہمیں ایک پاکیزہ رشتے میں باندھ دیجیے۔ ہم دونوں کی جان کو خطرہ ہے۔ بڑے نواب صاحب اپنی عزت و غیرت کے آگے اپنے بیٹے کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘

    ان دونوں کا نکاح ہو گیا اور زیب النسا ء نے گومگو کی حالت میں آرزو اور مالی بابا کی طرف دیکھ رہی تھی۔

    ’’ہاں ہاں بیٹا نکل جا یہاں سے‘‘ مالی بابا نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔زیب النسا ء نے ڈبڈباتی آنکھوں سے پلٹ کر آرزو کی طرف دیکھا اور پھر تیزی سے پلٹ کر اس کے گلے لگ گئی۔ دونوں کی سسکیوں نے سرد رات کو اور افسردہ کر دیا تھا۔

    ’’جاؤ بیٹا آج کل فسادی اور شرپسند بلوائی بھی بے قابو ہو گئے ہیں احتیاط سے جانا۔ اللّٰہ نگہبان!‘‘

    *

    ’’اب تو ملک کے بٹوارے کو بھی نصف صدی سے زیادہ ہو گیا۔ بانو محل بھی اجڑ گیا اور ہم سب بھی۔‘‘

    ’’مگر نانی!تمھاری زیب النسا ء اور صلاح الدین کا کیا بنا؟‘‘ آرزو کی نواسی نے پھر اس کے زخموں کو کریدا۔

    ’’تم ہر بار اس کہانی کو ادھورا ہی چھوڑ دیتی ہو۔ بس یہی کہہ کر چپ ہو جاتی ہو کہ، لاکھ کا گھر خاک ہو گیا۔ لاکھ کا گھر خاک ہو گیا۔ کبھی اس کے آگے بھی تو سناؤ۔بانو محل کیسے اجڑ؟ لاکھ کا گھر خاک کیسے ہوا؟ زیب النسا ء اور صلاح الدین کا کیا بنا؟‘‘

    ارے بتا تو دیا کہ ’’وہ دونوں ولایت چلے گئے۔ اور پھر ملک کا بٹوارہ ہو گیا۔‘‘

    ’’لاکھوں گھر اجڑ گئے۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘

    آرزو نے اپنے جھریوں سے بھرے ہاتھوں سے توے سے چپاتی پلٹتے ہوئے کہا، ’’دو تین سال تک ہنگامے، بلوے، فسادات کی خبریں آتی رہتی تھیں مگر آہستہ آہستہ ان کے تسلسل اور شدت میں کمی آ رہی تھی۔ سرحد کے دونوں طرف لوگ گزری قیامت سے سنبھلنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’مگر زیب النسا ء۔۔۔؟‘‘ آرزو کی نواسی نے پھر اس کی بات کاٹی۔

    ’’ہاں ہاں پوری بات تو سُن لے۔ بٹوارے کے کچھ سال بعد زیب النسا ء اور صلاح الدین اپنے کم سن بیٹے کے ساتھ ہندوستان واپس آئے۔ اپنے قصبے اور بانو محل پہنچنے سے پہلے وہ دلّی کے ایک سرائے خانے میں ٹھہرے۔ مگر اس رات چند بلوائیوں نے سرائے پر ہلّہ بول دیا۔ فرقہ وارانہ فسادات ابھی پوری طرح ٹھنڈے نہیں پڑے تھے۔ ذرا سی چنگاری فسادات بھڑکا دیتی تھی۔ اس حملے میں دو مسلمان مارے گئے تھے۔ چنانچہ دوسرے ہی روز کئی محلّوں میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ کچھ اور لوگ مارے گئے۔‘‘

    ’’سرائے پر حملہ ہوا تو سرائے کے باقی مسافر کیسے بچ گئے اور وہ دونوں مسلمان کون تھے؟‘‘ نواسی نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’وہ دونوں۔۔۔ وہ دونوں ہمارے اپنے ہی تھے۔‘‘ آرزو کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔

    ’’ہاں، بلوائیوں کے حملے میں زیب النسا ء اور صلاح الدین دونوں مارے گئے۔ مسلم نواب خاندان کے فرزند کی ہلاکت کا اثر تو ہونا ہی تھا۔ اسی لیے دنگے شروع ہو گئے۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں مسلمانوں نے گن گن کر بدلے لیے اور ہندوؤں کے محلوں میں مسلمانوں پر قیامتیں گزریں۔ مگر سرائے پر ہوئے حملے میں زیب النساء اور نواب صلاح الدین کا ننھا بچہ معجزانہ طور پر بچ گیا۔‘‘

    ’’بچہ بچ گیا؟ اور نواب شجاع مرزا نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو ڈھونڈنے کے لیے کچھ نہیں کیا؟‘‘

    ’’بس چپ ہو جا۔ بہت بولتی ہے تُو۔۔۔ جھّکی کہیں کی۔ ‘‘ آرزو نے نواسی کو برہمی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آرزو اپنی اونچی نیچی سانسیں درست کر کے پھر بولی،’’بس اتنا جان لے کہ اس زمانے میں ہنگامے، دنگے، فساداور بلوؤں کا کوئی ملزم مجرم پکڑا نہیں جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ہوتا بلوائیوں کے سر ڈال دیا جاتا۔ نہ کوئی رپٹ لکھی جاتی نہ تحقیقات ہوتی۔ کوئی ایک قاتل تھوڑی ہوتا تھا۔ بے قابو بلوائیوں کا ہجوم ہوتا تھا ہجوم۔‘‘

    ’’مگر وہ بچہ۔۔۔ وہ بچہ پھر کہاں گیا؟‘‘ نواسی نے پھر سوال کیا۔

    ’’اس بچے کو کسی نہ کسی طرح نواب شجاع مرزا تک پہنچا دیا گیا۔ میری جانی پھوپھو اس وقت بھی وہاں کام کرتی تھیں۔ بانو محل اجڑ رہا تھا۔ نواب شجاع مرزا کے انتقال کے بعد جانی بیگم اس بچے کو لے کر پاکستان چلی گئیں۔‘‘

    ’’تو کیا واقعی زیب النسا ء اور صلاح الدین کو بلوائیوں نے مارا تھا؟‘‘

    ’’تو چپ نہیں رہ سکتی۔۔۔ مجھے اور کچھ نہیں معلوم۔۔۔ بس جو لوگوں سے سنا وہی تجھے بتا دیا۔ وہ دونوں فسادات میں مارے گئے بس۔ ان کی قضا انھیں واپس لے کر آئی تھی۔ اب میرا دماغ نہ کھا۔۔۔‘‘

    آرزو کی آواز میں وحشت تھی۔ اس میں اپنی نواسی کے کسی سوال کا جواب دینے کا حوصلہ نہیں تھا۔۔۔

    آرزو تھوڑی دیر تک خلاؤں میں گھورتی رہی۔

    ’’کیاہوا نانی پوری بات بتاؤ نا، جہاں آگے کی بات پوچھتی ہوں، غصّے میں آگ بگولا ہو جاتی ہو۔‘‘

    آرزو نے ایک لمبی سانس بھری اور اپنے حواس یکجا کرتے ہوئے سہمے سے لہجے میں بولی،

    ’’بس اتنا معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد زیب النسا ء اور صلاح الدین کی کلائیوں پر نوابی مہر لگی ہوئی تھی۔ بالکل ویسی ہی مہر جیسی بانو محل کے تہ خانے میں کسی بھی بے غیرت شخص یا نواب خاندان کی ناک نیچی کرنے والوں کے لگائی جاتی تھی بے غیرتی کی مہر۔‘‘

    *

    دروازے کی دستک شہریار کو نصف صدی پہلے کی بانو محل کی کہانی سے گھسیٹ کر واپس لاہور کے اپنے فلیٹ میں کھینچ لائی۔

    باؤ جی ٹھیک تو ہو ناں۔۔۔ کوئی نئی کہانی، نئی کتاب نہیں لکھ رہے ہو؟‘‘

    دودھ والے نے پتیلی میں اپنا پوّا انڈیلتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں ابھی تو پڑھ رہا ہوں۔۔۔ لکھنے کا موڈ نہیں بن رہا۔۔۔‘‘ میں نے روکھائی سے جواب دیا۔

    ’’ویسے تینوں پتہ ہے وہ جو سجے ہاتھ والی گلی میں منور رہتا تھا؟‘‘

    ’’کون۔۔۔ منور؟‘‘

    ’’وہی جو اپنی پسند کی وہٹی (بیوی) لے کر گاؤں سے لاہور آ گیا تھا۔۔۔‘‘

    ہاں ہاں۔۔۔ اس کی چھوٹی سی بچّی بھی تھی۔۔۔

    ’’بڑی پیاری سی۔۔۔ شام کو اکثر اسے سائیکل پر پارک لے جا رہا ہوتا تھا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں جی وہی۔۔۔ اس کا اور اس کی ووہٹی (بیوی) کا کسی نے قتل کر دیا۔۔۔‘‘

    ’’قتل۔۔۔ مگر۔۔۔ کیوں کیسے؟‘‘

    ’’جی بس وہ کئی سال پہلے اپنی مرضی کی شادی کر کے گاؤں سے بھاگ آیا تھا۔۔۔ سنا ہے تب سے اس کی ووہٹی کے بھائی اس کی تلاش میں تھے۔ گاؤں سے ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہاں تک آ پہنچے۔ تینوں کو مار ڈالا۔ جی وہ آج کل بڑا زور چل رہا ہے ناں ٹی وی اخبار میں، غیرت کے نام پر قتل۔۔۔ پولیس کہتی ہے یہ وہی والا معاملہ ہے۔۔۔ ٹی وی چینل کی وین بھی آئی ہوئی تھی۔ کافی شور مچا ہوا تھا۔۔۔‘‘

    دودھ والا اور نجانے کیا کیا کہتا رہا۔۔۔

    شہریار اس سے زیادہ کچھ اور نہیں سن سکا۔ وہ دروازہ بند کر کے واپس اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔۔۔ کمرے میں شہریار کی ماں زیب النسا ء اور باپ نواب صلاح الدین مرزا کا بلیک اینڈ وائیٹ پورٹریٹ مسکرا رہا تھا۔ کیوں میاں نئی کہانی اور پرانی کہانی میں کچھ فرق نظر آیا یا لکھنؤ سے لے کر لاہور تک کوئی نیا پلاٹ کوئی نئی کہانی ہاتھ لگی۔۔۔ قریب کی نظراور دور کی نظر میں کچھ فرق پڑا۔ جانی امّاں شہریار کوہندوستان سے لاہور لے کر آئی تھیں، ان کی سنائی کہانی کا ہر ہر لفظ مجھے ازبر تھا۔ ’’بیٹا تمہارے ماں باپ بلوائیوں کے ہاتھوں نہیں مارے گئے تھے، ان کا غیرت کے نام پر قتل ہوا تھا۔‘‘ اسے اب ساری کہانیاں پرانی لگ رہی تھیں۔ لکھنؤ سے لے کر لاہور تک گھسی پٹی کہانیوں کا ایک انبار لگا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے