Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں

مشرف عالم ذوقی

مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    فیروز اور مادام ایلیا کے درمیان ایک بے ربط مکالمہ 
    ’’دو نالی بندوق اور ڈریسنگ گاؤن۔۔۔‘‘  اس نے حامی بھری۔ سرکو ایک ذرا سی جنبش دی۔ گو ایسا کرتے ہوئے اس کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی تن گئی تھیں اور گول گول چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی سرخیاں کچھ ایسے پھیل گئی تھیں، جیسے گرمی کے دنوں میں انڈے کی زردیاں پھیل جاتی ہیں۔ 

    ’’ہاں، اتنا کافی ہے۔ زندہ رہنے کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔۔۔‘‘ اس نے ہونٹ ہلائے اور سوکھے ہونٹوں پر جمی پپڑیوں کے درمیان شگاف بنتے چلے گئے۔ 

    ’’مگر میرے پیارے بوڑھے فوجی تمہیں کچھ اور بھی چاہئے۔۔۔ بوڑھی مادام ایلیا کے لہجے میں دردمندی تھی۔۔۔ بہت زیادہ کچھ۔ میرے پیارے بوڑھے فوجی، اس عمر میں تو چاہنے کی طلب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ سمجھ رہے ہو نا تم۔۔۔؟‘‘ 

    فیروز راہب، وہ معمر مرد جو اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ دھیرے دھیرے بندوق گھماتا رہا۔ جیسے، ایسا کرتے ہوئے مادام ایلیا کے چبھتے الفاظ کی ناپ تول کر رہا ہو۔ 

    ’’آہ تم نے محبت بھی نہیں کی۔ جب کہ موقع تھا تمہارے پاس۔۔۔ مادام ایلیا کے لہجے میں ناراضگی تھی۔۔۔ اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ بیٹھے رہو میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ چپ چاپ۔ سمجھ رہے ہو نا تم۔ جبکہ محبت کے مواقع تھے تمہارے پاس۔۔۔ مگر تم نے وقت گنوا دیا۔ تمہیں محبت کرنی چاہئے تھی۔۔۔ اس عمر میں پرانی محبت کا خیال۔۔۔؟ تم نہیں جانتے۔ اس سے عمدہ تو وہ مشروب بھی نہیں ہوتی، جسے تم اب اپنی زندگی سے زیادہ پیار کرتے ہو۔ نہیں پیارے فوجی، ایسے مت دیکھو۔۔۔ ایک سینڈوچ اور مل سکتا ہے؟‘‘ 

    ’’نہیں اب سینڈوچ نہیں ہے۔‘‘ 

    معمر عورت ٹھہاکا لگا کر ہنسی۔ ’’میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ مجھے پتہ ہے۔ سینڈوچ اور نہیں مل سکتا۔ ذرا ٹھہرو۔ ایک بار چیک تو کر لوں۔۔۔‘‘ 

    وہ بمشکل اپنی جگہ سے اٹھی۔ اٹھ کر، کیکرون، کی بنی المیرا تک گئی۔ المیرا کی خالی ریک میں کچھ دیر تک اپنی آنکھیں گھما گھما کر کچھ دیکھتی رہی۔ پھر بلا وجہ ہنسی۔ 

    ’’افسوس۔ نہیں ہے۔ مگر کیا ہوا۔ سینڈوچ تو دو بارہ آ سکتے ہیں۔ مگر میرے پیارے فیروز۔۔۔‘‘ اس بار اس نے بوڑھے کو اس کے نام سے پکارا تھا۔۔۔ ’’مگر۔۔۔ تم تو نہیں آ سکتے اور سنو۔ مات کھانا تو مرنے سے بدتر ہے۔ کیا تم مر گئے ہو۔۔۔؟ سینڈوچ کی طرح زندگی دو بارہ تو نہیں مل سکتی۔۔۔!‘‘ 

    بوڑھے فیروز نے دو نالی کا رخ اپنی طرف کیا۔ پھر نال اپنی پیشانی سے سٹالی۔ ’’بزدلی۔ آہ! حال سے بیزاری اور مستقبل کا نشہ ختم ہو جائے تو۔۔۔ آہ تم سمجھ رہے ہو نا، زندہ رہنے کے لئے۔۔۔‘‘ 

    وہ اپنا مکالمہ ادھورا چھوڑ کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ 

    بچپن کے واقعات اور تذکرہ پہلی گولی کا

    ان دنوں فیروز بہت چھوٹا تھا اور سچ پوچھئے تو بچپن میں ایسے خیالات پیدا نہیں ہوتے ہیں، جیسا کہ اس کے دل میں پیدا ہوتے تھے۔۔۔ ان دنوں زیادہ تر وہ ایک چرمی واسکٹ پہنتا تھا، جو اس کے باپ نے اسے امتحان پاس ہونے کی خوشی میں تحفے میں دیا تھا۔۔۔ اور وہ اسے پہن کر خوش ہوتا تھا کہ اس سے زیادہ خوبصورت شئے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ جاڑا ہو، گرمی یا برسات، وہ اسے اتارنے کا نام نہیں لیتا۔ ہاں پہلی بار چرمی واسکٹ اس نے اپنے بدن سے تب الگ کیا جب اس نے سنا کہ۔۔۔ 

    وہ جاڑے کے دنوں کی ایک رات تھی۔ روشنی کئی دنوں سے نہیں تھی۔ کمرے میں بھبھکتا ہوا ایک لالٹین جل رہا تھا۔ باہر کتے بھونک رہے تھے اور اس نے دیکھا، لالٹین کی دھیمی روشنی میں اس کے باپ کا چہرہ سیاہ پڑا ہوا تھا۔ باپ سہما سا ماں کے چہرے پر جھکا ہوا تھا۔ 

    ’’تم سن رہی ہونا۔۔۔ جنگ ہونے والی ہے۔ آہ! جنگ، جو ہمارے لئے تباہی لائےگی۔‘‘ 

    ’’شی۔۔۔‘‘ اس نے ماں کی آواز سنی۔ دھیرے بولو۔ ماں کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔۔۔ ’’یہ جنگیں ختم نہیں ہو سکتیں؟‘‘ 

    ’’اس نے باپ کے خوفزدہ چہرے کا عکس دیکھا، جو گہرے سناٹے کی طرح شانت تھا۔۔۔ نہیں۔ جنگیں ایک بار شروع ہو گئیں تو۔۔۔ پھر نہیں رکتیں۔ ہاں بیچ بیچ میں سیز فائر۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ 

    ’’سیز فائر۔۔۔‘‘ ماں چونک گئی تھی۔ 

    ’’جنگیں ایک خاص مدت کے لئے بند کر دی جاتی ہیں۔‘‘ باپ ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہا تھا۔۔۔ تم سمجھ رہی ہونا۔۔۔ یہ ایک طرح کا معاہدہ ہوتا ہے۔۔۔ مگر جنگیں جاری رہتی ہیں۔۔۔ سیز فائر اس لئے ہوتے ہیں کہ۔۔۔ جنگ میں لذت پیدا کی جا سکے۔‘‘ 

    ایلیا اس سے دو برس بڑی تھی۔ صبح کھانے کی میز پر اس نے دیکھا، اس کا باپ کچھ زیادہ ہی رنجیدہ تھا۔ اس نے ایلیا کو قریب بیٹھنے کے لئے کہا۔ پھر باری باری سے سب کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کا انداز ایسا تھا، جیسے وہ ’’لام‘‘ پر جا رہا ہو۔ سب کو چھوڑ کر۔۔۔ 

    پھر باپ نے نظر نیچی کرلی۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’آہ! ایلیا۔۔۔ تم جانتی ہو نا، بلیاں کتے اپنی دیکھ بھال کرنا اچھی طرح جانتے ہیں مگر۔۔۔ ہم انسان۔۔۔ وہ اٹک رہا تھا۔۔۔ مان لو۔۔۔ کل سے اس میز پر ایک آدمی کم ہو جائے تو۔۔۔؟ وہ ٹھہرا اور اتنی دیر میں باپ نے اپنے حواس بحال کر لئے۔۔۔ یعنی میں۔۔۔‘‘ وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔ ’’گھر کی چھت سے سیاہ بادل لٹک رہے ہیں میرے جان۔ یہ بادل کسی بھی وقت کمرے میں آ سکتے ہیں۔‘‘ 

    فیروز نے ماں کو دیکھا۔۔۔ ماں کی آنکھوں میں نہ تعجب کا اظہار تھا نہ ہمدردی کا۔ اس کے برخلاف ماں نے چندھی آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر۔۔۔ بولی۔ ’’شی۔۔۔ دیواروں نے سن لیا تو۔۔۔‘‘ 

    ’’بلیاں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہیں۔ کتے اور دوسرے جانور بھی۔۔۔‘‘ 

    فیروز نے اپنے چمڑے کی واسکٹ پر اپنا ہاتھ پھیرا۔۔۔ اس نے ایلیا کو دیکھا جو اچانک باپ سے لپٹ گئی۔۔۔ 

    ’’تو کیا یہ سیز فائر ہے؟‘‘ 

    ’’ہو سکتا ہے۔ جنگ ابھی رکی ہوئی ہے میری جان۔ اس کے بعد۔۔۔ کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘ 

    پھر سب خاموش ہو گئے۔ 

    دوسرے دن جب باپ جانے کو ہوا تو سب نے مخالفت کی۔ مگر باپ اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔۔۔ ’’جب بلیاں اپنی دیکھ بھال کرنا جانتی ہیں تو۔۔۔‘‘ 

    اس پورے دن باپ نہیں آیا۔ ماں خاموشی کے ساتھ حجرے میں رہی۔ ایلیا بار بار دروازہ کمرہ ایک کرتی رہی۔ رات کے پچھلے پہر دروازے پر دستک گونجی۔ اس نے دیکھا۔ دو چار لوگ اس کے باپ کے مردہ جسم کو لئے کھڑے ہیں۔ 

    ’’یہ باہر ملا ہمیں۔ باہر راستے میں۔ کسی نے اسے گولیوں سے۔۔۔‘‘ 

    اس نے دیکھا، ماں سوگوار لباس پہن کر باپ کی لاش کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ایلیا نے روتے چیختے سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔۔۔ اس کے کانوں میں باپ کی آواز آتی رہی۔۔۔ یہ سیز فائر ہے۔۔۔ آہ، بلیاں، کتے اپنی دیکھ بھال کرنا۔۔۔‘‘ 

    وہ باپ پر جھک گیا۔ باپ کے سینے کو گولیوں سے چھید ڈالا گیا تھا۔ جہاں جہاں گولیاں لگی تھیں، وہاں خون کے فوارے جم گئے تھے۔۔۔ سارا جسم خون سے سنا تھا اور جسم سے عجیب سی بدبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے اچانک اپنی انگلیوں میں حرکت محسوس کی اور اس کی متحرک انگلیاں باپ کے جسم میں ان جگہوں پر پیوست ہونے لگیں جہاں گولیاں داغی گئی تھیں۔ 

    ایلیا روتے ہوئے چیخی۔۔۔ ’’فیروز! یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ ’’

    وہ سرد لہجے میں بولا۔۔۔ دیکھتی نہیں۔ گولیاں نکال رہا ہوں۔ 

    ’’خدارا بس کرو۔ بس کرو فیروز۔‘‘ 

    ماں دھیرے سے بولی۔۔۔ ’’باپ پر بیٹے کا حق ہوتا ہے۔‘‘ 

    ایلیا پھر چیخی۔۔۔ مگر۔۔۔ ’’تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ 

    ’’میں اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ سمجھی تم ایلیا۔ زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ حلق پھاڑ کر چیخا۔۔۔ صرف باپ کی موت مجھے یاد نہیں رہ سکتی۔۔۔ صرف یہ، کہ ایک رات یہ گولیوں سے چھلنی ہوا تھا۔ میں اس کے جسم سے ساری گولیاں نکالتے ہوئے اس واقعہ سے جڑنا چاہتا ہوں۔۔۔ ڈراؤنے خواب کی طرح۔‘‘ 

    ’’نہیں ایسا مت کرو۔ ایسا مت کرو فیروز۔۔۔‘‘ 

    ایلیا زور زور سے چلانے لگی۔ ماں اسی طرح باپ کی لاش کے پاس بیٹھی تھی۔ جیسے کچھ بھی اس کے لئے عجوبہ نہ ہو۔ 

    سیزفائر
    (کسی کہانی کے لئے یہ تعین کرنا ضروری نہیں ہے کہ وہ واقعہ کب ظہور میں آیا۔۔۔ یا وہ حادثہ کب سرزد ہوا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ دن تاریخ، مہینے حقیقت سے پوری طرح واقف کرانے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ معزز قارئین! یہ سب کچھ ان دنوں ہوا۔ یا یہ مان لیا جائے کہ ان ہی دنوں ہوا ہو گا یا انہی دنوں ہو سکتا ہے۔۔۔ ماننے اور فرض کر لینے سے سچ زیادہ شفاف ہو کر ہمارے سامنے آتا ہے۔۔۔ 

    (ہاں تو مان لیتے ہیں، یہ سب کچھ ان ہی دنوں ہوا ہو گا جب ایک انسانی نسل پرانی ہو رہی تھی اور دوسری نسل جوان ہو رہی تھی۔ ایک صدی وقت کے سردوگرم کی کہانیاں سمیٹے رخصت ہو رہی تھی اور۔۔۔ ایک صدی آ رہی تھی)

    اور سچ یہ ہے کہ ہمارے ہیرو، یعنی فیروز راہب نے اس واقعہ کے بعد چرمی واسکٹ اتار پھینکا۔ اسے بہت ساری باتوں کا جواب نہیں ملا۔۔۔ مثلاً اس کے باپ کو کیوں مارا گیا۔ مثلاً اس قتل سے کسی کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ مثلاً۔۔۔ اس کی ماں روئی کیوں نہیں۔ جس دن اس نے چرمی واسکٹ اتارا، اس دن ایک واقعہ اور ہوا۔ اس دن ایلیا اسے بدلی بدلی سی نظر آئی۔۔۔ اس نے ایلیا کو غور سے دیکھا۔۔۔ ایلیا کی آنکھوں میں ایک نئی دنیا آباد ہو رہی تھی۔۔۔ 

    پھر کافی عرصہ گزر گیا۔ 

    باپ، حادثہ اور گولی۔۔۔ گو، بہت زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی یہ حادثہ اسے کل کا لگتا تھا۔ جبکہ اس درمیان یعنی باپ کی موت کے ٹھیک دو سال بعد ماں بھی باپ کے پاس چلی گئی۔ مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ ماں کو بھول بھی گیا۔ مگر باپ کا حادثہ اس کے ذہن میں ابھی بھی جیوں کا تیوں محفوظ تھا۔ یعنی وہ خوفناک رات۔۔۔ نصف شب ہونے والی دستک اور باپ کے مردہ جسم سے گولیاں نکالنے کا عمل۔۔۔ اسے یقین تھا، باپ اس کے اندر زندہ ہے اور باپ اس کے اندر زندہ رہا تھا۔۔۔ 

    اس بیچ، جیسا کہ باپ نے کہا تھا۔۔۔ جنگیں لگاتار ہوتی رہیں۔ یا جیسا کہ آگے باپ نے سیز فائر کے بارے میں بتایا تھا۔۔۔ جنگیں رک رک کر پھر شروع ہو جاتیں۔ 

    اس بیچ صرف ایک بات ہوئی۔۔۔ نہ چاہنے کے باوجود وہ فوج میں چلا گیا۔ 

    ایک دن۔ کافی دنوں بعد اس نے ایلیا کو چہچہاتے ہوئے دیکھا تو چونک پڑا۔ ایلیا کی آنکھوں میں چمکتے رنگوں والی چڑیا کی شوخی اتر آئی تھی۔ 

    ’’کیا بات ہے ایلیا۔۔۔‘‘ 

    ’’سیز فائر۔۔۔ ایلیا ہنسی۔۔۔ میرے پیارے فوجی۔۔۔ میں محبت کر رہی ہوں۔۔۔ وہ ذرا سا ہنسی۔۔۔ ’’کیوں محبت میں ہنسنا جرم تو نہیں ہے اور میرے پیارے فوجی۔ یہ بات تمہارے لئے بھی ہے۔ تم بھی محبت کرنا شروع کر دو۔‘‘ 

    وہ اس کے قریب آ گئی۔ ’’جنگ میں ہم ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں۔۔۔ نہیں؟‘‘ 

    ’’تمہیں باپ کے جسم سے نکلنے والی گولیاں یاد ہیں؟‘‘ 

    ’’آہ۔۔۔ تم بالکل نہیں بدلے۔ سنو، باپ نہیں ہے۔ میرے پیارے فوجی۔ باپ بہت دور چلا گیا ہے۔ وہ کھلکھلائی۔۔۔ محبت جنگ کو بھلا دیتی ہے۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا میرے پیارے۔۔۔‘‘ 

    ان دنوں آسمان پر گدّھوں کی طرح جنگی طیاروں نے منڈرانا شروع کر دیا تھا۔ اس کے پاس بھی جنگ میں شامل ہونے کا پروانہ آ گیا۔۔۔ اس رات دونوں نے جشن منایا۔۔۔ ایلیا نے اپنا وائلن نکالا جو اس کے باپ نے اس کی بارہویں سالگرہ پر دیا تھا۔ فیروز نے اپنا ڈریسنگ گاوَن نکالا، جو چرمی واسکٹ کی طرح اسے پسند تھا۔ 

    کمرے میں مدھم اندھیرا تھا۔ ایلیا دیر تک وائلن بجاتی رہی۔ وہ تا دیر اپنی خوشی کا اظہار کرتا رہا۔ شاید لام پر جانے سے قبل وہ ہر طرح کے احساس سے بے خبر ہو جانا چاہتا تھا۔ 

    ’’محبت۔۔۔‘‘ ایلیا نے وائلن سے ہاتھ روک کر کہا۔۔۔ ’’جنگ میں کوئی عورت مل جائے تو اس سے محبت ضرور کر لینا۔‘‘ 

    ایلیا اور محبت
    جنگ بند ہو چکی تھی۔ وہ جنگ سے واپس لوٹ آیا۔ پھر وہ جنگ میں شامل نہیں ہوا۔۔۔ پھر بہت کچھ نہیں ہوا۔ پھر جیسے وقت کا پرندہ ایک لمبی چھلانگ لگا گیا۔ صدی۔۔۔ ایک صدی، دوسری صدی میں گم ہونے والی تھی اور نئی صدی گم ہونے والی صدی کے بطن سے جنم لینے والی تھی۔۔۔ اچانک اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ ایلیا ایک معمر عورت میں تبدیل ہو کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں وہی وائلن تھا۔ 

    ’’آہ‘‘ سب ختم ہو گیا۔ وہ دھیرے سے بڑبڑایا۔۔۔ ڈریسنگ گاوَن کافی پرانا پڑ چکا تھا۔ بٹن ٹوٹ گئے تھے۔ کپڑا بوسیدہ ہو چکا تھا اور وہ دو نالی بندوق۔۔۔ زندہ رہنے کے لئے۔۔۔‘‘ 

    ’’آہ‘‘ اس نے لمبا سانس کھینچا۔ 

    ’’بالآخر وہ آدمی بھی۔۔۔ کیوں ایلیا۔ وہ آدمی بھی فریبی نکلا نا۔۔۔ کیا ملا، اس پر ایک عمر لٹا کر۔۔۔؟‘‘ 

    ایلیا کے لہجے میں ہنسی تھی۔۔۔ ’’تم نہیں سمجھو گے میرے پیارے بوڑھے فوجی۔ اس کی آواز میں کہیں بھی تھکن نہیں تھی۔۔۔ وہ وائلن تب بھی بجتا تھا۔۔۔ وہ اس لمحے کا سچ تھا۔ وہ سچ آج بھی ہے۔ یہ میرا سچ ہے۔۔۔ محبت، محبت ہوتی ہے میرے پیارے فوجی۔‘‘ 

    آنکھیں موند کر وہ وائلن بجانے میں مصروف تھی۔۔۔ 

    ’’کیا تمہیں اس کی یاد آتی ہے ایلیا؟‘‘ 

    ایلیا بے ساختہ مسکرائی۔۔۔ ’’تمہیں باپ یاد ہے۔۔۔؟ بلیوں کو اپنے راستوں کا پتہ ہوتا ہے۔۔۔‘‘ 

    وہ دیر تک کمرے میں چپ چاپ ٹہلتا رہا اور اس درمیان ایلیا برابر وائلن بجاتی رہی۔ 

    محبت اور مادام ایلیا کا نظریہ

    جنگ کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔۔۔ جیسے۔۔۔ ایک رات، اس کے شراب کے گلاس میں ایک کاکروچ گر گیا تھا۔۔۔ جیسے کاکروچ کی موت کا جشن منایا گیا تھا۔۔۔ مگر وہ آدمی۔۔۔ نہیں، اسے کاکروچ کو یاد رکھنا ہے اور اس آدمی کو بھول جانا ہے۔‘‘ 

    ’’وہ آدمی۔۔۔ اس کی انگلیوں کے پور پور میں جیسے ایک مدت تک باپ کے جسم میں لگی گولیوں کا درد موجود تھا۔۔۔ ویسے ہی وہ آدمی۔۔۔‘‘ 

    فیروز دھیرے سے کھانسا۔۔۔ وہ آدمی اس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ بس ایک گولی چلی تھی۔ دشمن کے دفاع میں چلنے والی محض ایک گولی۔۔۔ اپنی حفاظت کے لئے۔۔۔ باپ کے الفاظ جیسے مدھم پڑ گئے تھے۔۔۔ 

    اس نے گولی چلا دی۔ سرحد کے اس پار، اس نے کسی کو گرتے، چھٹپٹاتے اور دم توڑتے ہوئے دیکھا۔۔۔ بہت ساری چیخوں کے بیچ وہ چیخ واحد تھی، جو اس کی جنم دی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے دیکھا، اس کی بندوق کی نال سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا اور وہاں۔۔۔ سرحد کے اس طرف۔ 

    وہ دھیرے دھیرے پیچھے ہٹ رہا تھا۔۔۔ خوفزدہ ہو کر۔ یہ۔۔۔ یہ آدمی۔۔۔ فوج میں شامل ہونے سے قبل بھی اسے معلوم تھا کہ۔۔۔ وہ کسی پیس مشن میں نہیں جا رہا ہے۔۔۔ وہاں گولے برسیں گے۔۔۔ بارود پھٹیں گے۔۔۔ آگ کے آسمان چھوتے شعلے ہوں گے۔۔۔ اور۔۔۔ آدمیوں کی چیخ ہو گی۔۔۔ اسے سب کچھ پہلے سے پتہ تھا۔ پھر بھی اسے یقین نہیں تھا کہ اس کی بندوق سے۔۔۔ وہ آدمی۔۔۔ ایک آدمی۔ بس ایک آدمی۔ بس ایک آدمی۔۔۔ اس براعظم سے کم ہونے والا وہ ایک آدمی اس کی گولی کا نشانہ بنے گا۔۔۔ اس کی گولی کا۔ ایک اذیت ناک حقیقت۔ 

    ’’آہ۔۔۔ تم نے وقت گنوا دیا۔۔۔، ایلیا اس کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔ زندہ رہنے کے لئے۔۔۔‘‘ 

    اس نے بندوق کو جنبش دی جیسے گہرے سناٹے سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہا ہو۔ 

    اس کے بعد جو ہوا وہ بہت عجیب تھا۔۔۔ اپنے لہجے میں سختی پیدا کرتے ہوئے ایلیا نے اس کے ہاتھوں سے بندوق چھین لی۔ 

    ’’یہ وہی بندوق ہے نا جس کی گولی سے۔۔۔‘‘ 

    ’’ہاں۔۔۔ اس نے گہرا سانس کھینچا۔ تاہم یہ اعتراف کرنے میں اسے ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی۔ 

    ایلیا نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ ’’مجھے پتہ ہے۔ تم کیا چاہتے ہو۔ ٹھیک اپنے باپ کی طرح۔۔۔ اس بندوق کو بھی اپنی زندگی سے لگا کر رکھنا چاہتے ہو۔۔۔‘‘ 

    اس کا لہجہ تیکھا تھا۔۔۔ ’’یادوں کو اپنے دل سے نکال کیوں نہیں دیتے۔‘‘ 

    وہ ایک دم ایسے چونک پڑا، جیسے شراب کے گلاس میں کاکروچ کو دیکھ لیا ہو۔۔۔ ’’تم۔ ایلیا تم۔۔۔ بھی تو۔۔۔ یہ وائلن۔۔۔‘‘ 

    ایلیا نے اس کے ڈریسنگ گاوَن پر ایک نظر ڈالی اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ 

    ’’میرے پیارے۔۔۔‘‘ برسوں بعد وہی چمکتے رنگوں والی چڑیا کی شوخی اس کی آنکھوں سے جھانک رہی تھی۔۔۔ 

    ’’زندہ رہنے کے لئے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک محبت بھی کافی ہوتی ہے میرے پیارے فوجی۔‘‘

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے