ایک مدت کے بعد طرح طرح کے اچھے برے خواب دیکھ کر مادھو کی آنکھیں کھلیں تو اس کا ارتفاع ہوچکا تھا۔ اس نے حیرت سے اطراف کا جائزہ لیا۔ اس کی آنکھوں میں رات کے ٹھرے کا خمار اب بھی باقی تھا۔ جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔
چاندنی رات کے آخری پہر میں اس نے دیکھا، شراب خانے کے باہری دالان میں ادھر ادھر متعدد جوٹھے دونے بکھرے پڑے تھے۔ بیشتر مٹی کے پیالے اوندھی حالت میں جگہ جگہ سے ٹوٹ کر رونی صورت اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے پہلو میں اس کا باپ گھیسو اب بھی پاؤں پیٹ میں ڈالے گٹھری بنا ہوا گہری نیند میں سویا تھا۔ اس نے باپ کواٹھانا چاہا،
’’اٹھ جاؤ باپو صبح ہوگئی۔۔۔!‘‘
باپ نے نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور کروٹ بدل کر گہرے خراٹے لینے لگا۔ اسے بڑی کوفت ہوئی۔
’’اسے تو سوتے رہنا ہے۔۔۔ اور اسے کم سے کم اب تو جاگ جانا تھا!‘‘ وہ بڑبڑایا۔
بہت دیر ہوگئی۔۔۔ اس نے سوچا۔
لیکن ابھی بھی ا مکانات کے افق پر ستارے ٹمٹمارہے تھے۔
صبح ہونے میں سچ مچ ابھی دیر تھی۔ اس نے کروٹ بدلنی چاہی۔ کھڑ کھڑ اور چرمراہٹ کی آواز فضا میں گونجی۔ اسے لگا کہ جس پتل پر اس نے گزک کے طور پر پوریاں کھائی تھیں، وہ موسم کے کئی سرد و گرم جھیلنے کے بعد سوکھ گئی تھی اور اس کے جسم کے بوجھ کے خلاف بطور احتجاج کراہتے ہوئے ٹوٹ رہی تھی۔
مادھو نے یاد کرنا چاہا۔ پتا نہیں اس کی بیوی بدھیا کی ارتھی اور کفن کا کیا ہوا۔ لوگوں نے اس کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک ہار کر آخر کار انتم سنسکار کر ہی دیا ہوگا۔
اس نے سوچا، وہ کتنا بدنصیب ہے۔ اپنی اچھی بھلی بیوی کے داہ سنسکار کا پیسہ نہ صرف شراب میں اڑا گیا بلکہ اس کے آخری سفر میں اس کا ساتھ دینے سے بھی محروم رہا۔
’’بدھیا۔۔۔!‘‘
ہوا کا ایک خوشگوار خوشبو دار جھونکا اسے چھوتا ہوا گزر گیا۔
اس کی رگوں میں دوڑتے ہوئے لہو کی رفتار تیز ہوگئی۔
بدھیا پر جوانی کے گل بوٹوں نے کچھ اس طرح اپنے نقوش ابھارے تھے کہ جب کبھی پانی بھرنے مٹکالے کر وہ پنگھٹ کی طر ف جاتی ہوتی، راہ گیر اسے دیکھ کر دل تھام کر رہ جاتے۔ سب کی زبان پر بیک وقت ایک ہی بات ہوتی۔
’’مادھو رے مادھو۔۔۔ ترے نصیب کا کمال ہے۔۔۔!‘‘
روکھی سوکھی کھاتے ہوئے بھی بدھیا کے جسم کے کس بل میں کئی برس تک کوئی کمی نہ ہوئی۔ اپنے گداز اور پتھر پتھر سے نرم بدن سے وہ مادھو کو بھرپور لذت بہم پہنچانے کی پوری کوشش کرتی تھی۔
شادی سے پہلے اپنی ہم عمر دور کے رشتے کی شادی شدہ موسی سے، جس کی شادی کئی سال قبل ایک عمر رسیدہ آدمی کے ساتھ ہوئی تھی، اس نے مردوں کو سکھ پہنچانے کے بہت سارے ہنر سیکھ لیے تھے۔ عیش و عشرت کے لمحوں سے وہ مادھو کو اس طرح ہمکنار کرتی کہ خود رفتگی کے عالم میں وہ اسے اپنے بازوؤں میں جکڑے ہوئے آسمانوں کی سیر کرتا۔ مادھو جب کبھی ٹھرا پیے ہوئے ہوتا، بھوکے کتے کی طرح بدھیا پر ٹوٹ پڑتا اور اسے ایسی ایسی اذیتیں پہنچاتا کہ وہ بلبلااٹھتی۔۔۔ اس کے آنسو نکل آتے۔۔۔ کچھ دیر تک گہری گہری سانسیں لینے کے بعد وہ خود کو سنبھالتی اور پھر زیر لب مسکرانے لگتی۔۔۔ اسے ٹکر ٹکر تکے جاتی۔۔۔
وہ کمال کی عورت تھی۔ آدھیا پیٹ کھاکر بھی اکثر اس طرح کھل کھیلتی جیسے اس کا معدہ مرغ وماہی اور شراب سے بھرا ہوا ہو۔۔۔ ہائے رے نامراد بدھیا۔۔۔ میں نے تجھے کھو کر سورگ کی دیوی کھودی۔۔۔ تری جیسی عورت اب مجھے اس جنم میں ملنے سے رہی۔۔۔
اناڑی پن اور مردانہ تونگری کے جوش میں کئی بار اس کے پیٹ کا بچہ اسقاط ہوچکا تھا۔۔۔ اور پچھلی بار تو حد ہوگئی۔۔۔ اندر کوٹھری میں دردزہ سے وہ تڑپتی رہی۔۔۔ اور دونوں باپ بیٹے باہری دالان میں ا لاؤ کے سامنے بیٹھے آلو بھون کر کھاتے رہے۔ بغیر ٹھنڈا کیے۔۔۔ گرم گرم آلو چھیل کر کھاتے ہوئے آلو کے اندرونی گرم حصے سے ان کی زبان، تالو اور حلق جل رہے ہوتے اور وہ انہیں جلدی جلدی گویا نگل رہے تھے۔۔۔ کسی طرح پیٹ کی آگ شانت ہوجائے۔ اس کوشش میں بار بار ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے لیکن پیٹ کا جہنم ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے عمل سے وہ باز نہ آرہے تھے۔
بدھیا دردِزہ سے پچھاڑیں کھاتی رہی۔۔۔ چیختی چلاتی رہی۔۔۔ اس کے منھ سے دل خراش صدا نکلتی رہی اور وہ اس ڈر سے کہ اس کا باپ اس کے پیچھے میں بھنے ہوئے آلوؤں کا بڑا حصہ صاف کردے گا، تیمارداری کے فرائض ادا کرنا تو دور، بدھیا کو اندر دیکھنے تک نہ گیا۔ گاؤں کی دائی کو پیسے دینے کے اندیشے سے اس نے اس کی خدمت حاصل نہیں کی۔ بدھیا کے خوبصورت بدن میں زہر پھیل گیا اور وہ اور پیٹ میں اس کا بچہ دونوں مرگئے۔
’’چھی!‘‘ اسے اپنے آپ سے گھن آئی۔
’’کتنا گراہوا تھا وہ۔۔۔!‘‘
’’کمینگی کی انتہا تھی۔۔۔!‘‘
اس کے منھ پر مکھیاں بھنبھنانے لگیں۔
اسے اپنے باپ گھیسو پر بھی غصہ آتا رہا۔ اگر وہ نوجوانی، ناتجربہ کاری اور قلاشی کے سبب بدعقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھول کر رہا تھا تو کم سے کم اسے تو اپنے تجربے اور عقل کی بنیاد پر ہوش سے کام لیتے ہوئے دائی کا انتظام کردینا تھا۔ گاؤں کی دائی سکھیا موسی کو وہ خود جاکر کہہ آتا تو مجال ہے وہ نہ آتی۔ اسے پیسے بعد میں دیے جاتے۔
ہائے نامراد بدھیا۔۔۔ تو مفت میں بھری جوانی کی موت ہوگئی۔
اسے اپنے باپ پر متواتر غصہ آتا رہا۔ کیسے پاؤں پیٹ میں ڈالے گہری نیند میں سورہا تھا۔ خبیث کہیں کا۔۔۔ اس رنڈوے کی تو خود اس کی بیوی پر نیت خراب تھی۔ اگر موقع ملتا تو وہ اسے نگلنے سے باز نہ آتا۔ اپنی بیوی کو تو وہ کب کا اپنی لاپروائی میں مارچکاتھا اور چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بھی ازدواجی زندگی کے سکھ سے محروم ہوجائے۔
اکثر اس نے اپنے باپ کو بدھیا کے جسمانی ابھاروں کو للچائی ہوئی ہوسناک نظروں سے گھورتے ہوئے دیکھا تھا۔ رات میں باہری کوٹھری میں سوتے ہوئے وہ جان بوجھ کر زور زور سے کھانسا کرتا تھا کہ ملحق اندرونی کوٹھری میں اس کی اور بدھیا کی بدمست محویت میں مخل اندازی ہو۔ جانے اس سے اس کی تشنگی کو کیسی تسکین ملتی تھی۔ واقعی کئی بار ایسا ہوا بھی تھا کہ بڈھے کی کھانسی سے تنگ آکر وہ بے حس و حرکت ہوجایا کرتا اور بدھیا بے بس نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے تڑپ تڑپ کر رات بھر کروٹیں بدلتی رہ جاتی۔
تدارک کے طور پراسے دوسری رات ٹھرا پی کر آنا پڑتا تھا کہ ٹھرے سے پیدا شدہ اس کے خون کا تیز ابال بوڑھے کی کھانسی پر غلبہ حاصل کرلے اور اس کی بدھیا کی سیرابی ہوسکے۔ بدھیا کو یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ سونے سے قبل ہاتھوں کی چوڑیاں اتارلیا کرتی۔ یوں بھی اکثر مادھو کے اتاولے پن کے آگے وہ ساری احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بھول جایا کرتی۔
اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ بوڑھے گھیسو کو اپنی بیوی چھمیا کی یاد دلاتی اور اس کا سونا محال ہوجاتا۔ تانبے کی طرح ٹن ٹن کرتی ہوئی گٹھیلی چھمیا کی اسے یاد آتی تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔ اس کے خیال میں بدھیا کے جسم میں مور دار چھمیا والی بات نہ تھی لیکن۔۔۔ بدھیا بھی کچھ کم نہ تھی۔ اس کے سڈول جسم اور سانولی سلونی رنگت والی جلد سے شہد ٹپکتا تھا۔ مادھو کی کھس پھس بوڑھے گھیسو کو بہت ناگوار گزرتی۔ اس کی ڈھیلی رگوں میں بھونچال آجاتا اور اسے کھانستے ہوئے ریگزاروں کے سفر پر روانہ ہونا پڑتا۔ اسے کہیں کوئی چشمہ سیرابی میسر نہ آتا۔ تشنگی اور محرومی ایک عرصے سے اس کا مقدر بنی ہوئی تھی۔ ہراساں و لرزاں کبھی کبھی وہ روٹھتا۔
چھمیا۔۔۔ تو مجھے چھوڑکر کیوں چلی گئی! اس کے دل سے آہ نکلتی اور وہ نیم تاریکی میں مادھو کی کوٹھری کی طرف بے بسی سے دیکھتا ہوا مسلسل کھانستا رہتا۔
وہی بدنصیب تھا جو اس کی قدر نہ کرسکا۔ اس کی لاپروائی کے چلتے مادھو کو پیدا کرتے ہوئے وہ اس دنیا سے سدھر گئی۔ بعد میں نکھٹو کہتے ہوئے پوری برادری میں اس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ لوگوں نے چھمیا کی موت کو ہتیا گردانا اور بہت چاہنے کے باوجود کوئی اسے اپنی لڑکی دینے کے لیے آمادہ نہ ہوا۔
چھوٹی سی جھونپڑی میں اور کوئی گنجائش بھی تو نہ تھی کہ مادھو اپنے اور باپ کے سونے کا انتظام دوسری طرح کرسکتا۔ لے دے کر دوسٹی ہوئی کوٹھریاں تھیں اور کھانا پکانے کی تھوڑی سی جگہ۔ حوائج ضروری کے لیے ان کی عورتوں تک کو کھیتوں کی راہ اختیار کرنی پڑتی تھی۔ صبح کی کرن پھوٹنے سے پہلے ان کی عورتیں بول براز سے فراغت حاصل کرلیا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ کئی بار دلچسپ اور ناخوشگوار حادثے پیش آچکے تھے۔
کبھی کبھی مادھو اور بدھیا کو ڈسٹرب کرنے کے ارادے سے وہ زور زور سے ’دھادھا‘ کرتا ہوا چلانے لگتا جیسے دروازے پر آئے کسی کتے کو ہنکار رہا ہو۔ مادھو تڑپ کر رہ جاتا۔
دردِزہ کے عالم میں گھیسو کے ذریعے مادھو کواسے دیکھ آنے کی ہدایت تو محض اس کا دکھاوا تھی۔ تجربہ کار بوڑھا جانتا تھا کہ آلوکھانے کے چکر میں وہ بدھیا کو نظرانداز کرے گا اور دائی کی عدم موجودگی میں وہ اس دنیا سے سدھار جائے گی۔ اسے رات میں سوتے ہوئے بدھیا کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ، گدگدی، کھلکھلاہٹ اور دبی دبی سسکاریوں سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح کی موت کے بعد مادھو کی بدنامی ہوگی تو کوئی اسے لڑکی نہ دے گا اور اسے ہمیشہ کے لیے ان جھنجھٹوں سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا۔
جب تک مادھو کنوارا تھا، گھیسو نے اسے بیک وقت ماں باپ دونوں کا پیار دیا۔۔۔ اس کی پرورش و پرداخت کی۔۔۔ لیکن شادی ہوتے ہی وہ باپ کے بجائے صرف ایک مرد میں تبدیل ہوگیا اور رقابت اور رشک و حسد میں مبتلا رہنے لگا۔۔۔ یہاں تک کہ۔۔۔
’’لعنت ہے اس زندگی پر۔۔۔!‘‘
اس کے حلق میں بلغم جمع ہوگیا جسے گلا کھنکھارتے ہوئے اس نے پوری قوت سے پرے پھینک دیا۔ اسے کچھ راحت ملی، جیسے ایک لخطے کے لیے گندگی سے اسے نجات مل گئی ہو۔
اچانک دور سے السیشین کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دی۔ وہ کمبخت رات بھر جاگتا اور زمیندار کے اثاثے کی حفاظت کرتا۔ زمیندار کے خاندان کے افراد کے علاوہ جس کسی کی بھی ارتھی یاجنازہ اس راستے سے جارہا ہوتا، بے تحاشا بھونکنا اس کی خباثت میں شامل تھا۔ جب کہ زمیندار کے خاندان کے افراد کے جنازے میں وہ ہجوم کے پیچھے خاموشی کے ساتھ سرجھکائے ہوئے چلتا۔
یہی نہیں۔۔۔ شادی بیاہ، درگاپوجا، عیدبقرعید، محرم اور دیگر تیوہاروں کے موقعوں پر بھی اس کاامتیازی برتاؤ کانٹوں کی طرح چبھتا۔ زمیندار کے گھر کے افراد، اس کے رشتہ دار، اس کے احباب اور بڑے لوگ اگر ایسی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہوئے ادھر سے گزر رہے ہوتے تو یہ خون خوار کتا ان کی کارگزاریوں میں پوری دلجمعی سے شامل رہتا۔ دم ہلاتاہوا ان کا ایک حصہ بن جاتا۔ ان کے ساتھ اچھلتا، کودتا اور اٹکھیلیاں کرتا۔ اس کے برعکس اگر گاؤں کے دیگر لوگ خاص طور سے سیدھے سادے عام اور غریب غربا قسم کے لوگ، خواہ وہ کسی مذہب، مسلک اور ذات برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ایسے موقعوں پر زمیندار کی حویلی کی طرف سے تیوہار کے موڈ میں جشن مناتے ہوئے گزرنے کی کوشش کرتے تو انہیں وہ رگیددیتا۔
حتی کہ ہلڑوں اور ٹھٹھوں کے موقعوں پر بھی اس کا اختصاصی رویہ جگ ظاہر تھا۔ ایک طرح سے زمیندار کی حویلی والا علاقہ گاؤں کے عام لوگوں کے لیے اس کتے کی وجہ سے ممنوعہ علاقے کی صورت اختیار کرچکا تھا۔
مادھو نے طے کرلیا تھا کہ وہ اسے چھوڑے گا نہیں۔ زمیندار، رئیس، وزرا اور تمام بڑے لوگوں کی ہیکڑی اسی کتے پر ٹکی تھی۔ ان کے لیے وہ سائرن کا کام کرتا، جیسے لال، پیلی بتیوں والی وزراء اور افسران کی گاڑیوں کے سائرن پلک جھپکتے میں سڑک کے بیچ والے حصے کو ویران اور ساکت کردیتے تھے، ویسے ہی یہ کتا ان بڑے لوگوں کی مدافعت میں سارے ماحول کو ہموار کردیا کرتا تھا۔
عجیب کتا ہے حرام زادہ۔۔۔
وفاداری کے بجائے غلامانہ ذہنیت کا حامل۔۔۔
مادھو کو کتے پر بے حد غصہ آیا۔
ذلیل و خوار۔۔۔
اگر اسے موقع ملا تو وہ کتے کی ضرور خبر لے گا۔۔۔
اسے چھوڑے گا نہیں۔۔۔!
اس نے مصمم ارادہ کیا۔
اس نے چاہا کہ باپ کواٹھائے لیکن ایسا کرنا اس نے مناسب نہ سمجھا۔ شاید اس کا سوتے رہنا ہی اس کی زندگی اورمقاصد کا ماحصل ہے۔ اور خود اسے۔۔۔ اسے تو بہت پہلے جاگ جانا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی۔۔۔ اس کے اندر سے کوئی سرگوشیاں کر رہا تھا۔
(۲)
نزدیک کے کھیت میں حوائج ضروری سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اسے اپنے دوست جلیل نداف کی یاد آئی۔ وہ ناشتہ کیے بغیر اپنے باپ کو اسی طرح سوتاچھوڑ کر گاؤں کے کچے راستے کی طرف بڑھ گیا۔
لیکن یہ کیا؟
کچا راستہ پختہ ہوگیا تھا۔ اسے حیرت ہوئی۔
وہ کتنی دیر تک سویا رہا؟
اس نے آنکھیں ملتے ہوئے غور کیا۔ سڑک کی دونوں جانب کچے مکانوں کی تعداد کم ہوگئی تھی۔ پختہ مکانوں نے ان کی جگہ لے لی تھی۔ اس نے ایک آدمی سے پوچھا، ’’بھائی جلیل نداف کا مکان کس طرف ہے۔۔۔؟‘‘
’’مکان تو اسی سمت میں ہے جدھر آپ جارہے ہیں لیکن اب جلیل جی گاؤں میں نہیں رہتے۔‘‘
اسے مزید حیرت ہوئی۔
اس نے قدم آگے بڑھائے۔ گاؤں کے کنویں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے بغل میں ایک چانپا کل گڑا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف وسیع وعریض چبوترا بنا ہوا تھا۔
کتنی تبدیلی آگئی۔۔۔ اور وہ اب تک نیند میں مبتلا تھا۔
جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہاتھا، پختہ مکانوں کاسلسلہ دراز ہوتا جارہا تھا۔
(۳)
دوپہر ہوگئی۔
کسی نے اسے بتایا کہ آج زمیندار کے السیشین کتے کا مقابلہ اس آدمی ہوگا جو اسے قابو میں کرتے ہوئے زمیندار کے دس ہزار روپے جیت لے۔ ندی کنارے پیپل کے درخت کے نیچے بنے چبوترے کے ارد گرد لوگوں کاہجوم اکٹھا ہورہا تھا۔
ٹھیک چار بجے مقابلہ تھا۔ صلائے عام تھی اس مقابلے میں شرکت کی۔
زمینداری کے خاتمے کے بعد بھی زمیندار صاحب کی شان شوکت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ان کاکتا دیکھنے میں شیر کی طرح لگتا تھا۔ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کوئی کہتا کہ زمیندار صاحب نے اسے دس ہزار روپے میں خریدا ہے۔ کوئی کہتا کہ کسی انگریز نے جاتے وقت بطور تحفہ انہیں مرحمت فرمایا ہے۔
سب لوگ اس کتے سے خوف کھاتے تھے۔ ان کے کتے کو دیکھ کر خوف و دہشت میں مبتلا ہوتے تو زمیندار صاحب کو عجیب سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ کتا بھونکتا اور لوگ بھاگ کھڑے ہوتے تو کتے کی لپلپاتی زبان اور بھاگتے قدموں کو دیکھتے ہوئے انہیں یک گونہ راحت ملتی تھی۔
اس نے سوچا، ابھی تک یہ کتا زندہ ہے۔
پھر اسے خیال آیا کہ کتے کی عمر اتنی لمبی کہاں ہوتی ہے، ضرور اس کا بیٹا یا پوتا ہوگا۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کتے کا مقابلہ کرے گا۔
ایک راہ گیر نے اسے بتایا کہ اعلان کے مطابق مقابلے میں شامل ہونے کے لیے زمیندار کے دربان کے ہاں دوپہر سے پہلے تک اطلاع دینی ہوگی۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوازمیندار کی حویلی تک پہنچا۔ دربان نے اسے متنبہ کیا کہ وہ خواہ مخواہ خطرہ مول لینا چاہتا ہے۔ کتا بہت خونخوار ہے اور اس کی بوٹی بوٹی کرسکتا ہے۔
’’میں ہر حال میں لڑوں گا۔۔۔ اور اس کا۔۔۔ یا وہ نہیں یا میں نہیں۔۔۔!‘‘ مادھو نے سخت لہجے میں کہا۔ دربان حیرت و استعجاب میں مبتلا تھا۔ بھلا ایسا پھٹا حال دبلا پتلاآدمی کس طرح اس خطرناک کتے سے لڑنے کی جسارت کر رہاہے۔ اس نے اپنانام دربان کے رجسٹر میں درج کروایا۔
دفعتاً اس کے ذہن میں بجلی سی کوندگئی اور وہ جلیل نداف کے گھر کی طرف تیز قدموں سے روانہ ہوا۔
(۴)
ندی کنارے پیپل کے پیڑ کے پاس لوگوں کا مجمع اکٹھا تھا۔ آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اس دلچسپ مقابلے کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ چبوترے کو منچ کی طرح استعمال کیا گیا تھا۔ متعدد کرسیاں اس پر سجی تھیں۔ اس علاقے کے سربرآوردہ لوگ مختلف کرسیوں پر براجمان تھے۔ درمیانی کرسی پر زمیندار صاحب تن کر بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی کڑی مونچھوں کو تاؤدے رہے تھے۔ ان کے رعبیلے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ ان کی بغل میں ان کا السیشین کتا ان کے قدموں میں بیٹھا تھا اور بڑی بے اعتنائی کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھ رہا تھا۔
دربان نے رجسٹر کھولتے ہوئے پاٹ دار آوازمیں کہا، ’’حجور! بار بار کے اعلان کے باوجود حجور کے کتے سے مکابلے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوا۔۔۔!‘‘
زمیندار صاحب نے بڑی حقارت، شان استغنائی اور زیرلب مسکراہٹ کے ساتھ مجمع کی طرف نگاہ دوڑائی اور اپنے کتے کے سرپر ہاتھ پھیرا۔
’’لیکن حجور ایک آدمی۔۔۔‘‘
دربان کی زبان میں ا رتعاش پیدا ہوا۔
زمیندار کی پیشانی پر بل پڑگئے۔
’’حجور! مادھو نام کاایک آدمی مکابلہ کرنا چاہتا ہے۔۔۔!‘‘
’’مادھو۔۔۔!‘‘
زمیندار نے تمسخرانہ انداز میں اس نام کو دہرایا۔
’’ہاں حجور۔۔۔!‘‘
’’کون مادھوا۔۔۔؟‘‘
’’گھیسوا چمار کا بیٹا حجور۔۔۔!‘‘
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ وہی جس نے اپنی پتنی کی ہتیا کردی تھی۔۔۔؟‘‘
زمیندار نے مزید استفسار کیا۔
’’ہاں حجور! وہی مادھوا جس نے اپنی پتنی بدھیا کے کپھن کے لیے چندے کے پیسے سراب اور ٹھرے میں اڑادیے۔۔۔ اور جس نے۔۔۔ جس نے!‘‘
دربان کی زبان لڑکھڑانے لگی۔
’’پوری بات کہہ!‘‘زمیندار نے حکم دیا۔
’’جس نے کپھن کے بچے ہوئے چندے کے پیسے بھکاریوں کو دان کرتے ہوئے کہا تھا، میں بھی جمیندار سے کم ہوں کیا۔۔۔ لے جا۔۔۔ کھوب کھا اور پی اور اسیر باد دے۔۔۔ جس کی کمائی ہے وہ تو مرگئی۔ مگر ترا اسیر باد جرور پہنچ جائے گا۔۔۔ روئیں روئیں سے اسیرباد دے۔ بڑی گاڑھی کمائی کے پیسے ہیں۔۔۔ میں بھی جمیندار سے کم ہوں کیا۔۔۔!‘‘
’’اچھا۔۔۔! ایسا کہا تھا اس حرام زادے نے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں حجور۔۔۔!‘‘
’’تونے اسے سب سمجھادیا ہے۔۔۔!‘‘
’’ہاں حجور۔۔۔!‘‘
’’اسے بتادیا ہے کہ اس کے سارے کس بل نکل جائیں گے۔۔۔ مفت میں اس کی جان چلی جائے گی۔۔۔!‘‘
’’جی حجور۔۔۔!‘‘
’’تو دیکھتا کیا ہے۔۔۔ لا اس کتے کو میرے کتے کے۔۔۔!‘‘ زمیندار صاحب کی آواز میں غصہ اور کڑواہٹ تھی۔
دربان نے کتے کی زنجیر پکڑلی اور زور دار آواز میں مجمع سے مخاطب ہوا، ’’مادھو حاجر ہو۔۔۔‘‘
’’حاضرہوں جناب۔۔۔!‘‘ بھیڑ کو چیرتا ہوا کسی بندھے ہوئے گٹھر کے ساتھ ایک دبلاپتلا آدمی سامنے آیا۔ زمیندار صاحب نے کہا، ’’تجھے انگوٹھا لگانا ہوگا ڈیکلریشن پر۔۔۔!‘‘
’’میں دستخط کروں گا جناب۔۔۔ لیکن کیسا کاغذ ہے، پڑھنا چاہوں گا۔۔۔!‘‘
زمیندار صاحب نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ پھر کڑکتے ہوئے بولے، ’’تمہیں اعلان کرنا ہوگا کہ تم اپنی مرضی سے مقابلے میں شامل ہو رہے ہو اور اپنی موت کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔۔۔!‘‘
’’لیکن آپ کو بھی ایک بات لکھنی ہوگی۔۔۔!‘‘
زمیندار صاحب چونکے۔
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’اگر کتامرا تو میرا کوئی قصور نہیں ہوگا اور میرا جیتا ہوا دس ہزار روپیہ سوخت نہیں کیا جائے گا۔۔۔!‘‘
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔!‘‘
زمیندار صاحب نے اس کی طرف حقارت سے دیکھتے ہوئے زیر لب کہا۔ ان کی تمکنت میں کوئی کمی نہ آئی۔ وہ مسلسل اپنی رعب دار مونچھوں کو تاؤ دیتے رہے۔
کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد مقابلے کا آغاز ہوا۔ نقارچی نے ڈنکا بجانا شروع کیا۔ شروع میں ہلکی تھاپ دی۔ پھر بڑھتے ہوئے جوش کے ساتھ تھاپ کی ضرب میں شدت آتی گئی۔ اچھل اچھل کر تھاپ دیتے ہوئے وہ مادھو کی طرف دیکھتا جاتا تھا اور اس کے حق میں بھگوان سے پرارتھنا کرتا جاتا تھا۔ اس کی انگلیوں میں رعشہ تھا جس پر بہت کوشش کرکے عبور حاصل کر رہا تھا۔
مادھو نے ایک جست لگایا اور گٹھر میں بندھی ہوئی رضائی کو کھول کر ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے آگے بڑھا۔
اس کی اور کتے کی آنکھیں آمنے سامنے تھیں۔ کتے نے ایک چھلانگ لگائی اور قریب تھا کہ وہ مادھو کو دبوچتا اور تکابوٹی کرتا ہوا لہولہان کردیتا، مادھو نے پلک جھپکتے میں اسے رضائی کے پہاڑ سے ڈھانپ دیا۔ کتا اس اچانک غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہ تھا۔ رضائی کے اندر اندھیرے میں گرفتار ہوتے ہی گھبراگیا۔ دوسرے ہی پل مادھو رضائی کے اوپر سے کتے کی پیٹھ پر سوار تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کو آہنی شکنجے کے مانند جکڑے ہوئے تھے۔
آہنی شکنجے کا دائرہ دھیرے دھیرے تنگ ہوتا جارہا تھا۔
مادھو اس وقت تک اس کے اوپر سے نہ اترا جب تک کتے نے دم نہ توڑدیا۔
مجمع مادھو کی جے کے نعرے لگا رہا تھا۔
زمیندار صاحب پسینے میں شرابور چہرے کو بار بار رومال سے پونچھ رہے تھے۔
(۵)
لوگوں نے اسے کندھے پر اٹھالیا اور مادھو زندہ باد کے نعروں سے فضا گونجنے لگی۔
دفعتاً اسے بہت سارے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں دور سے آتی سنائی دیں۔
اس کے چہرے سے کڑواہٹ مترشح ہونے لگی۔ کندھوں سے ایک جھٹکے سے کود گیا۔
جنگل کے اس پار سے نگاڑوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ دور کسی مسجد سے مغرب کی اذان کی آواز فضا میں گونجی۔ ہجوم کی طرف دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثر ابھرے۔ معنی خیز نظروں سے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے وہ جنگل کی طرف کوچ کرگیا۔
اس کے ہونٹوں پر رینگتی ہوئی پراسرار مسکراہٹ دھیرے دھیرے پھیلتی جارہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.