Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

معدوم

MORE BYشاہد جمیل احمد

    ایک پورے چاند کی رات جب سارا گاؤں سویا ہوا تھا، ہر جانب ہوکا عالم طاری تھا مگر ایک پل کو بھی اس کی آنکھ نہ لگی تھی۔ شب کی خاموشی میں بھینسوں کی جگالی اور پھنکار کی آوازیں اس کی سماعت کے ذریعے اس کے دماغ کے ڈھول کی جھلی پر اس طرح برس رہی تھی گویا جنگل میں شیر ڈکار رہے ہوں۔ پہلے تو اسے محسوس ہوا کہ شاید پوری بستی خالی ہے اور انگریزی فوج کے قبضے کے وقت بدھا کے ماننے والے قطار بنا کر اسے ہمیشہ کیلئے ویران کر گئے ہیں لیکن جلد ہی اُسے خیال آیا کہ آج سہ پہر ہی تو سب لوگوں نے شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مردوں میں گھی شکر کے تھال کھانے کا مقابلہ برپا ہوا اور عورتوں میں گوٹے، لپے اور کناری کی طویل گفتگو چلی۔ اس نے سوچا کہ اگر گاؤں والے بےفکری سے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے تو ٹھیک ہی لے رہے تھے کہ ان کے پلے سے تو کچھ بھی نہ کھلا، جانے والی چلی گئی، پورے گاؤں میں وہ ایک ہی تھی جس سے اسے محبت تھی۔ آج وہ نہیں تھی تو اُس کیلئے بھری پری آبادی ویرانے کا نقشہ پیش کرتی تھی۔ یہ محبت بھی عجیب ہی تھی، مان نہ مان میں تیرا مہمان کی طرح کی۔ نہ اس سے اس کی دوستی ہوئی تھی، نہ گفتگو اور نہ ملاقات۔ اس محبت کی بنیاد بس یہی تھی کہ وہ گاؤں کی دیگر تمام لڑکیوں سے خوبصورت تھی۔ نہ عمر ایک، نہ ذات برادری ایک اور نہ کوئی رسم و راہ تو پھر کوئی کیوں اور کیسے اس کی شادی سے پہلے اس سے مشورہ کرتا۔ یوں بھی شادی بیاہ کے معاملات تو خاندانوں میں اندر ہی اندر لاوے کی طرف پکتے رہتے ہیں اور پھر اک دم آتشں فشاں کی طرح پھٹ کر دور تک دلوں کی فصلیں جلاتے ہیں۔ مگر ان سب باتوں کا تو اسے پہلے سے ہی پوری طرح ادراک تھا لیکن اس کا دل تھا کہ کسی طور قابو میں نہ آیا۔ جب چاند سر سے گذر گیا اور کروٹیں بدل بدل کر اس کے مونڈھے شل ہو گئے تو وہ دفعتاً اپنی بان کی چار پائی سے اُٹھا، ربڑ کے سلیپر پہنے اور باڑے کی کم اونچی عقبی دیوار پھلانگتا ہوا گاؤں سے مغرب کی طرف اپنے کھیتوں کو چل پڑا۔ جیسے جیسے وہ گاؤں سے دور ہو تاجا رہا تھا ویسے ویسے گوری کے گاؤں سے چلے جانے کا رنج سوایا ہوتا جاتا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ مسلسل دکھ اور کرب کی کیفیت نے آنسوؤں کی راہ پائی ورنہ اس کا دل بڑے ویل والے پانی کے کالے ڈیزل انجن کی طرح کسی بھی وقت بیٹھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھوں اورچہرے پر اتنا پانی جمع ہو چکا تھا کہ اگر وضو کے انداز میں دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لیتا تو منہ کو دھونے کی ضرورت نہ رہتی۔ چاندنی رات کے باوجود اسے پگڈنڈی ٹھیک سے نظر نہ آ رہی تھی مگر مجال ہے جو مردود نے اشکوں کے ایک قطرے کو بھی صاف کیا ہو، اس کی دانست میں شاید انہیں آنسوؤں کی وجہ سے اسے قیامت کے دن گوری کے ساتھ اٹھایا جانا تھا۔

    رستے میں قبرستان پڑتا تھا جہاں کلر اور تھور زدہ مٹی سے بنی قبریں چاند کی روشنی میں چھوٹی بڑی دودھ کی ڈھیریوں کا منظر پیش کرتی تھیں۔ کریر اور کروندے کی جھاڑیوں میں جلتے بجھتے جگنوؤں اور جھینگروں کی مسلسل آواز نے آسے متوجہ نہیں کیا۔ قبرستان اُس کیلئے پہلے سے کھیت کھلیان کی طرح تھا اور اس کی وجہ شاید اس کے ارد گرد پائی جانیوالی فکاہی و خانقاہی نظام کی خرابیاں اور بدعملیاں تھیں کہ جن کے رد عمل کے طور پر زمانہ طالب علمی میں ہی اس نے خواہ مخواہ کے ڈر خوف اور وہم پرستی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ چلتے چلتے وہ کھیتوں کے وسط میں بہتے کھال پر پہنچ گیا اور اپنے پاؤں پانی میں لٹکا کر اور اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر کھال کی جنوب والی وٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑی شدت سے اس کا جی چاہا کہ اس وقت کوئی ہو جو اس کے پاس ہو۔ اس سے باتیں کرے، اسے دلاسہ دے۔ یہی وہ لمحے تھے جب اسے اپنی ہر جگہ موجود ہونے کی خاصیت یعنی حاضریت (Ubiquity) کا پتہ چلا۔ وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا، بالکل اس ہی کی طرح کا ایک اور جو کھال کے شمال والی وٹ پر بیٹھا تھا۔ وہ اپنے تئیں دیکھ کر پہنے ہنسا اور پھر رویا۔ پہلے ہنسنے اور پھر رونے سے اسے بچپن میں سنی ہوئی نیک دل شہزادی کی کہانی یاد آ گئی جو دیو کی قید میں تھی اور شہزادے کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر پہلے ہنسی اور پھر روئی۔ شہزادے نے پوچھا کہ تم ہنسی کیوں اور روئی کیوں، شہزادی نے جواب دیا کہ میں ہنسی تو اس لئے کہ میں نے بعد از مدت آج کسی ہمزاد کو دیکھا اور روئی اس لئے کہ ابھی دیو آئےگا اور تمہیں کھا جائےگا۔ اس نے اس سے کچھ نہیں کہا، وہ اس سے کہتا بھی تو کیا کہتا کہ وہ تو دراصل اس کا اپنا آپ ہی تھا، بالکل ایک جیسا، ہو بہو (Identical) پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے آنکھوں اور گالوں سے آنسو پونچھے بغیر دیر تک روتے رہے۔ رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی جب آس پاس کے دیہات، الدتہ اور بھرائیاں کی مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے تہجد کی اذانیں سنائی دیں۔ تب اُس نے نادانستہ، ایک دم اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو صاف کیا اور خود کو یکجا کرتے ہوئے گاؤں کی طرف چل پڑا۔

    اس دن، بلکہ رات کے بعد اس نے دوبارہ کبھی خود کو تقسیم نہیں کیا۔ اس کی شاید کبھی نوبت ہی نہ آئی، نہ اسے کوئی گوری جیسا ملا اور نہ ہی اس کے جذبوں میں کبھی ویسی شدت آئی۔ مگر۔۔۔ ایک بار پھر ویسی ہی ایک رات تھی لیکن فرق یہ تھا کہ وہ چاند رات تھی جبکہ یہ اماوس کی رات تھی، گاؤں کی بجائے شہر کا ماحول تھا۔ اس نے کئی دنوں سے خود کو ایک کمرے میں بند کیا ہوا تھا۔ اس کے Syphilous کے مرض میں شدت آ گئی تھی۔ مایوسی، گناہ ثواب اور حساب کی سرحدیں پھلانک چکی تھی۔ اسی حالت میں پتہ نہیں رات کو کس پہر بوکھلاہٹ میں اس سے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دب گیا اور حامد علی بیلا کی آواز میں شاہ حسین کی کافی کے ان بولوں نے کمرے کی ساری فضا کو درد سے بھر دیا

    اساں وت ناں دنیا آونا

    اساں مٹی وچ سماونا

    اس کی حالت ایسی تھی کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا تھا۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے مگر وہ اپنے جیسی مرتی ہوئی اور معدوم ہوتی جانوں سے ملنا چاہتا تھا۔ ان سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس وقت بہت کم تھا اور یہ جانیں دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر ایک دم اس کی تقسیم در تقسیم کی خصوصیت نمودار ہوئی اور اس کے پپڑی جمعے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ بالکل ویسے ہی جیسے آدمی کی آخری خواہش پوری ہونے کے سمے چند ثانیے کیلئے اس کی آنکھوں، چہرے اور ہونٹوں پر عارضی خوشی عود کر آتی ہے۔ اس نے زمین پر بچھی میلی کچیلی چٹائی سے چکٹ تکیے کو دیوار کے ساتھ لگایا اور اس پر سر رکھ کر اپنی آنکھیں موند لیں۔

    پہلی ملاقات:

    یہ میکسیکو کا ساحلی اور دلدلی علاقہ تھا۔ جیسے ہی وہ بظاہر خشک نظر آنے والی ریت پر اپنا پاؤں رکھتا تو نیچے سے پانی سم آتا۔ وہ کافی دیر سے بیچ پر چل رہا تھا۔ یوں تو ساحل سمندر سے جڑا ہوا وہ چھوٹا سا جزیرہ بالکل سامنے ہی نظر آ رہا تھا مگر اس تک پہنچتے پہنچتے اس کی پنڈلیوں کے پٹھے اکڑ گئے تھے۔ اس نے اپنے آپ سے بڑبڑانے کے انداز میں کہا کہ اب اسے ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیئے، جزیرہ تو خیر کافی دیر سے نظر آ رہا تھا مگر اب تو فاصلہ بھی چند ہیکٹرکے برابر ہی نظر آنے لگا تھا۔ خدا خدا کرکے وہ جزیرے کے قریب پہنچا اور درختوں کی جڑوں اورشاخوں کا سہارا لیتے ہوئے مٹی کے چھوٹے سے تودے پر چڑھنے لگا۔ تودے کی دوسری جانب اب وہ اس پوزیشن میں تھا کہ اس چھوٹے سے جزیرے کا پوری طرح جائزہ لے سکے۔ اس نے دریدہ پتلون کی پھٹی ہوئی جیب سے کمپاس نکالی اور جزیرے کی مغربی طرف بڑھا جہاں کنارے پر چھوٹی سی چٹان کے پاس اس کی محبوبہ کترینا اس کا انتظار کر رہی تھی، کترینا پپ فش جو اس کی طرح دنیا میں تنہا رہ گئی تھی۔ جس کے سارے ہمراز و ہم نیاز ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ اس کا ہلکا پیلا اورنج رنگ بیماری کی وجہ سے سیاہی مائل ہو رہا تھا، اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور وہ اپنے منہ اور گلپھڑوں کو تیزی سے کھول اور بند کر رہی تھی۔ اس نے جب اُسے پیار سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے سر پر پیار سے اپنا ہاتھ پھیرا تو جیسے اس کی پوری آنکھیں ایک دم کھل گئیں۔ پپ نے اپنے ادھ کھلے منہ سے اس کے ہاتھ پر پیار کیا اور مریل آواز میں بولی، تم آ گئے! اچھا کیا تم آ گئے! میرے پاس وقت بہت کم تھا، میں مرنے سے پہلے تمہیں ایک نظر دیکھنا چاہتی تھی، تمہارے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرنا چاہتی تھی۔ کتنے یگ ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ مجھے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں، نہ پانی میں زہر اگلتے جہازوں سے، نہ اوزون جلاتی ہواؤں سے اور نہ دھواں اگلتی چمنیوں سے۔ یہ دنیا ہے ہی ایسی کہ یہاں فقط وہی جئےگا جو جی سکےگا۔ ہم نہیں جی سکے اسلئے نہیں جئے۔ الوداع اے دوست الوداع! اس نے ایک دو بار زور سے سانس کھینچی اور پھر کروٹ کے بل اس کے ہاتھ میں بےسدھ بے پران لیٹ گئی۔ یہ کترینا پپ فش تھی، دنیا کی آخری کترینا پپ فش جس نے اس کے ہاتھ میں دم دیا اور اب وہ اسے سمندر کی ظالم لہروں کے حوالے کرکے اپنی آنکھوں اور چہرے سے اشک پونچھے بغیر ایک بار پھر جزیرے سے اتر کر ساحل کی تا حد نظر پھیلی ریت پر چل رہا تھا اور یہ سوچ کر اس کے دل میں بل پڑ رہے تھے کہ اب وہ کبھی کترینا کو نہ دیکھ سکےگا۔

    دوسری ملاقات:

    اگرچہ عام طور پر شاہ رخ کو کیلیفورنیا سے ہی منسوب کیا جاتا تھا لیکن بنیادی طور پر وہ شمالی ایریزونا اور جنوبی ا تا ہ کے علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ یوں تو گدھ تمام ہی بر اعظموں میں پائے جاتے تھے لیکن عام طور پر پائے جانے والے یہ گدھ سائز میں چھوٹے تھے اور ان کے پروں کا پھیلاؤ ایک میٹر تک ہو سکتا تھا اور اب پوری دنیا میں ہی ان کی آبادی خطرناک حد تک کم ہو چکی تھی ۔جہاں تک بڑے امریکی گدھ، شاہ رُخ (Condor) کاتعلق تھا تو اس کے پروں کا پھیلاؤ تین میٹر سے زیادہ تک ہو سکتا تھا۔ مردہ جانوروں اور انسانوں کی لاشیں صاف کرتے کرتے وہ خود ایک لاش کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ کتنے افسوس کا مقام تھا کہ گورکن کی لاش کود فنانے والا کوئی نہ تھا۔ وہ جس نے دنیا کے تغفن کواپنے اوپر اوڑھ کر زندگی بتائی، اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ کم اونچی پہاڑی چٹانوں پر پانچ بڑے گدھ بیٹھے تھے۔ ان میں سے چار تو اپنے بھاری پروں کا بوجھ اٹھائے کسی نہ کسی طرح اپنے پنجوں پر بیٹھے ہی تھے مگر پانچواں تو پتھروں پر لڑھکا ہوا ہی تھا، اس کے دونوں پر ڈھیلے پڑ چکے تھے اور چونچ سے رطوبت نماسیال وقفے وقفے سے نیچے گرتا تھا، اس کی ناک کے سوراخوں کی جھلیاں، سراور گردن کی جلد اور آنکھوں کے پپوٹے سرخ رنگ کے ہو گئے تھے اور اسے سانس لینے میں شدید دقّت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی سانس کی کھرڑ کھرڑ سن کر چاروں گدھ آہستہ آہستہ اس سے دور کھسک رہے تھے۔ اس نے اپنی ٹوٹتی بے ربط سانسوں کے ساتھ اپنی مطلق اندھیروں سے آشنا ہوتی آنکھوں سے دور تک دیکھنے کی کوشش کی۔ اسے دور سے اپنی جانب آنے والے کی دھندلی سی شبیہہ دکھائی دی۔ کچھ ہی دیر میں وہ اس کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے آتے ہی پتھروں میں بکھرے پڑے اس کے دونوں پروں کو درست کیا، اس کے گنجے سر اور گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا، اس کی ناک اور آنکھوں کی رطوبت کو صاف کیا اور اسے اُس کے پنجوں پر بٹھانے کی کوشش کی مگر وہ ایک طرف کو لڑھک گیا اور اس نے دو تین بڑی بڑی سانسیں کھینچ کر آنے والے کو بڑی مشکل سے الوداع کہا اور اس کی گردن ایک طرف گر گئی، اس کے ہر دو شہ پروں کے تین تین جوڑ اس طرح ڈھیلے پڑ گئے جیسے ان کے سکریو کھول دیئے گئے ہوں۔

    تیسری ملاقات:

    راکی جیپ افریقہ کے سب سے مشہور اور بڑے، صحرائے سہارا کے بیچوں بیچ فراٹے بھرتی چلی جاتی تھی اور وہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا بےتابی سے دائیں بائیں اور سامنے کی اطراف دیکھتا جاتا تھا مگر دور دور تک کہیں سبزے، جھاڑیوں یا پانی کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ جہاں سفید بارہ سنگے سے اُس کی ملاقات ہو سکے۔ اس نے چلچلاتی دھوپ میں ایک ہاتھ سے اپنے مٹیالے رنگ کے ہیٹ کو اوپر کیا اور دوسرے ہاتھ سے سر کے بالوں کو زور سے اس طرح کھجلایا کہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں کی ساری پوریں پسینے سے تر ہو گئیں۔ پھر اس نے واٹر کین کا ڈھکن کھولا اور غٹ غٹ پانی کے پانچ چھ بڑے گھونٹ گلے سے اتارے اور ڈرائیور کی طرف دیکھے بغیر پانی کا کین اس کی طرف بڑھا دیا۔ ڈرائیور نے پانی کے ہلکے دو تین گھونٹ لے کر کین اس کی طرف بڑھا دیا۔ ڈرائیور کی نظر اس پر پڑی تو وہ پہلے ہی اسے متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار مزید بڑھاتے ہوئے گھڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ابھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگےگا۔ ڈیڑھ کی بجائے کوئی دو گھنٹے کی مسلسل مسافت کے بعد ڈرائیور نے ریت اور مٹی کے بڑے بڑے تودوں کے پاس بریک لگائی اور اسے سمجھایا کہ ان تودوں کو پیدل پار کرنے کے بعد دو تین کلو میٹر لمبی اور آدھا کلو میٹر چوڑی ایک زمینی پٹی ہے جہاں صحرائی جھاڑیاں، چیدہ چیدہ درخت اور کھاس اور دب کے Patches ہیں اور اس پٹی کے مغرب کی جانب ایک قدرتی برساتی نالہ واقع ہے، اس علاقے میں سفید بارہ سنگے (Addex) پائے جاتے ہیں۔ ڈرائیور نے اسے بتایا کہ وہ اس سے آگے نہیں جائےگا یہاں تک کہ گن لے کر بھی نہیں۔ اس نے فکر انگیز آنکھوں سے ڈرائیور کو دیکھا اور اکیلا ہی ریت اور مٹی کے تودوں کو پار کرنے لگا۔ ایک گھنٹے کی جدو جہد کے بعد اسے چار سفید بارہ سنگے چھدری گھاس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پاس بیٹھے نظر آئے۔ ان کو دیکھ کر اس نے مزید تیز تیز قدموں سے ان کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ اپنے قریب آتا دیکھ کر چار میں سے تین بارہ سنگے اپنی دمیں پٹختے ریتلی زمین سے اٹھے اور تھوڑا دور چلے گئے ۔ ایک بارہ سنگا جس نے اپنا منہ سیدھا ریت پر رکھا ہوا تھا وہ نہیں اٹھا۔ اس نے اُس کی گردن اور سینگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو اسے احساس ہوا کہ سفید بارہ سنگوں کے سر پر بارہ نہیں فقط دو پیچ دار لمبے سینگ ہوتے ہیں۔ اس نے سنگے کی آنکھوں کی طرف دیکھا جن میں دہشت اور بےچارگی تھی۔ اس نے اس کو پہلے کمر اور پھر دم کی مدد سے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھا۔ سنگے نے اسے بیچارگی سے الوداع کہا اور ایک بار پھر اپنا منہ ہمیشہ کیلئے ریت میں رکھ دیا۔

    چوتھی ملاقات:

    اب اُس کے قدم ہوائی کے سفید موٹی ریت والے ساحل پر پڑے رہے تھے۔ اس کی نظریں آہستہ آہستہ ریت سے ٹکراتی لہروں پر مرکوز تھیں اور اسے ہرلہر کی ریت سے ٹکر کے ساتھ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی اس کے سامنے سمندری سگ اپنی چپٹی ناک اور بڑی مونچھوں کے ساتھ نمودار ہوگا جو ثابت مچھلی حلق سے نگلتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہوگا۔آخرکار اس نے سمندری سگ (Hawaiian Monk Seal) کو دیکھ تو لیا مگر اس طرح نہیں جس طرح وہ تصور کر رہا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے بچے کے ساتھ اپنا منہ ریت پر ٹکائے، آنکھیں بند کئے دھوپ میں لیٹا تھا۔ اس کے جسم کی گرے براؤن کھال کی چمک اور تازگی غائب تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ کچھ دنوں سے پانی میں نہیں اتر سکا ہوگا۔ اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے لیٹے لیٹے اور اپنا منہ ریت سے اٹھائے بغیر اس کی طرف دیکھا پھر دوبارہ اپنی آنکھیں موند لیں مگر اس کی ناک سے دھونکنی کی طرح چلتی سانسیں بتاتی تھیں کہ وہ اُس کی موجودگی سے آگاہ تھا۔ پھر سگ نے اسے اپنی نسل کو درپیش مسائل ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بےربط جملوں میںConvey کئے! جیسے آبی ماحولیات میں بےجا انسانی مداخلت، مچھلی پکڑنے کے جالوں میں ان کا پھنسنااور شکاریوں کا ان کو ہلاک کر دیتا، زہریلا آبی فضلا، بیماریاں اور ان کی کھال کے حصول کیلئے ان کاشکار۔ لفظ شکار کی ر کے بعد اس کی آواز ایک دم بند ہو گئی۔ اس نے اس کی ناک کے سوارخوں کے پاس ہاتھ لے جاکر اس کی سانسیں محسوس کرنے کی کوشش کی، اس نے اس کے گول مٹول جسم کو بہتیرا ہلانے کی کوشش کی مگر بےسود۔ آخر اس نے اس کے ننھے بچے کا رخ کھینچ کر سمندر کے پانی کی طرف کیا اور اسے دھکے دے کر پانی میں دھکیل دیا مگر وہ بار بار بڑے سگ کی طرف دیکھ رہا تھا اور پانی میں جانے کی بجائے واپس مڑ آتا۔ اُس نے آخری بار اس کا رخ پانی کی طرف کیا اور ان کی جانب مڑ کر دیکھے بغیر انہیں الوداع کہتا ہوا واپس مڑ گیا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ معدومیت کا یہ خطرہ ہوائی کے سمندری سگ کے ساتھ ساتھ بحیرہ روم کے سمندری سگ (Mediterranean Monk Seal) کو بھی لاحق تھا۔

    پانچویں ملاقات:

    اتفاق سے اس کی تیسری ملاقات کی طرح پانچویں ملاقات کا مرکز بھی افریقہ ہی تھا مگر صحرا کی بجائے جنگل اور پہاڑ۔ یوں تو پہاڑی بن مانس افریقہ کے بہت سے ملکوں میں پایا جاتا تھا لیکن یوگنڈا، روانڈا اور ورنگا اس کے بنیادی علاقے تھے۔ اب تک اس نے صرف ہالی وڈ کی فلموں میں بن مانس دیکھے تھے اور ان کو انسانوں کی طرح سوچتے اور محسوس کرتے دکھایا جاتا تھا یا پھر ایک طاقتور مخلوق کے طور پر۔ جنگلی بانس کے پودوں کی قریب، لمبی گھاس اور نیلے، پیلے اور جامنی پھولوں والی بیلوں کے پاس اُس کی ملاقات بڑے بن مانس سے ہوئی تھی، اس کے ساتھ اُس کی مادہ اور ایک بچہ بھی تھا۔ عادت سے مجبور مادہ بن مانس بار بار اس کے کپڑوں کو کھینچ رہی تھی جس پر نر بن مانس نے پہلے منہ سے کھر کھر کی آوازیں نکال کر اور لال لال آنکھوں سے گھور کر منع کرنے کی کوشش کی مگر جب وہ باز نہ آئی تو نر بن مانس نے اپنے دیو ہیکل ہاتھ سے اُس کے سر پرہ اتنی زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ اپنے بچے کو لے کر ایک طرف ہو گئی۔ مادہ بن مانس کو دیکھ کر ملاقات کے لئے آنے والے کو اپنے پرائمری سکول کے استاد کی بیوی یاد آ گئی جو ہر کھانے کے وقت ماسٹر صاحب سے لڑائی کرتی اور کہتی جاتی کہ تم مجھے مار کر دکھاؤ اور جب تنگ آ کر ماسٹر اس کی کمر میں دو چار سونٹے چھوڑتا تو وہ اپنے دھیان خاموشی سے کام کاج میں مصروف ہو جاتی۔ کچھ لمحوں کیلئے وہ یہ تک بھول گیا کہ وہ ان سے الوداعی ملاقات کیلئے آیا تھا اور وہ دنیا کے ایسے جیو تھے جن کا نام و نشان دنیا سے مٹنے والا تھا۔ بن مانس اور وہ دونوں سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اس لئے انہیں ایک دوسرے کو کچھ بتانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ اس نے ایک دم اٹھ کر بن مانس کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کر دیں اور اس کے گلے سے لگ کر رونے لگا۔ بن مانس پہلے تو سیدھا کھڑا رہا اورآس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہتے رہے اور پھر اس نے اپنے کالے کالے بڑے بالوں والے ہاتھ سے اس کے سر کو سہلایا اور وہ روتی آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے بن مانس سے رخصت ہوا۔

    چھٹی ملاقات:

    جنگلی جانوروں کی کہانیاں بی لومڑی کے ذکر کے بغیر ادھوری لگتی تھیں اور وہ یہ سوچ کر ہی پریشان ہو گیا کہ اب لومڑیوں کا ذکر صرف محاوروں اور کہانیوں کے الفاظ تک محدود ہو جائےگا اور اب ہمیں چالاک لومڑی کی کہانی اور انگور کھٹے ہیں کی ضرب المثل والی لومڑی ڈھونڈے سے نہیں ملےگی۔ خاص کر وہ جزیرائی لومڑی (Island Fox) جو قد میں چھوٹی اور کھلتے ہوئے ہلکے گہرے بھورے رنگوں میں بہت چمکدار اور خوبصورت لگتی تھی۔ اس پیاری لومڑی کا آبائی وطن کیلی فورنیا کے جزیرے تھے اور وہ اس سے ملاقات کیلئے انہیں جزیروں کے سفر پر روانہ تھا۔ قریب کے سبھی چھ جزیروں پر اس لومڑی کی نسل کے کچھ جانور موجود تھے اور اس نے دیکھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے غول بنا کر رہتے تھے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں ،جنگلاب کے خاتمے اور خوراک کی کمی ایسے مسائل کی بنا پر ان لومڑیوں کی نسل کو اپنے بقا کی جنگ میں شکست ہو چکی تھی ۔ اور یہ شکست خوردگی ہی تھی جس کی بنا پر آج وہ ان لومڑیوں سے ملنے آیا تھا۔ ایک نظر زندہ سلامت ان کو اپنی نظروں سے دیکھنے اور آخری مرتبہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الوداع کہنے کیلئے۔ وہ لومڑیوں کے ایک چھوٹے سے غول کی طرف بڑھا، کئی لومڑیاں اسے دیکھتے ہی سرعت سے دور بھاگ گئیں۔ سوائے ایک لاغر اور کمزور لومڑی کے جو اس کی طرف سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ابھی اس کی جلد میں ٹیکے کی سوئی چبھو دےگا، یا اس کی کھال میں مائیکرو چپ داخل کر دے گایا اس کے گلے یا پنجے میں چمڑے یا لوہے کا ٹیگ لگائےگا، مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ وہ اس کی جانب فقط محبت کی نظر سے دیکھتا رہا چہ جائیکہ وہ اٹھ کر اپنی سوکھی ہوئی دم اوپر کئے آہستہ آہستہ پودوں میں چھپ گئی۔

    ساتویں ملاقات:

    صحرائے عرب ہو، سوس، چولستان یا پھر گوبی مگر کچھ عرصہ پہلے تک سواری اور سفر کا واحد ذریعہ صحرا کا جہاز ہی تھا۔ صابر ایسا کہ اگر مسلسل کئی ہفتوں تک پینے کو پانی نہ ملے تو حرف شکایت لب پرنہ لائے ۔ سواری کا جانور ہو تو ایک کی جگہ دو کوہان بھلے بیٹھنے میں بھی سہولت اور ذخیرہ پانی و خوراک کا ذریعہ بھی۔ مگر افسوس کہ ان دو کوہان والے اونٹوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی اور اب ان کی تعداد منگولیا، چین، ہندستان، پاکستان اور روسی ریاستوں سمیت چند سوسے زیادہ نہ تھی۔ اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ چولستان کے ایک غریب بلوچ کے پاس دوہری کوہان والے اونٹوں کا جوڑا ہے۔ ایک دو عربی رئیسوں نے اس سے کئی لاکھ روپے کے عوض ان کو خریدنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کر دیا۔ پھر اخبار ہی سے پتہ چلا تھا کہ اونٹنی کچھ عرصہ بیمار رہ کر مر گئی اور اب صرف اونٹ باقی رہ گیا تھا۔ اس خبر کے بعد سے اس نے دوہری کوہان والے اونٹ کے مالک کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا۔ پہلے بہاولپور اور پھر رحیم یار خان اور صادق آباد کے علاقوں سے اس کی معلومات اکٹھی کیں اور اب وہ کرائے کی فراری جیپ میں چولستان کے اندر سفر کر رہا تھا۔ لگ بھگ دو گھنٹے کے صحرائی سفر کے بعد وہ ایک جگہ رکا جہاں دو تین مرد اور تین چار بچے دکھائی دیئے۔ شاید دو ایک عورتیں بھی ہوں مگر وہ جیپ کو دور سے آتا دیکھ کر کھولی کے اندر چلی گئی تھیں۔ پڑتے ہی اس نے بوڑھے کے اونٹ کے بارے پوچھا تو وہ روہانسا ہو گیا اور کچھ سرائیکی اور سندھی ملی زبان میں کہنے لگا کہ وہ اونٹ نہیں بیچےگا، پہلے بھی کافی لوگوں نے اس سے اونٹ خریدنے کی کوشش کی ہے مگر اس نے اپنے اونٹ کو نہیں بیچا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ اس نے اونٹ کو اپنے بچوں کی طرح رکھا ہوا ہے اور وہ قربانی کے لئے تو اپنا اونٹ کسی بھی قیمت پر نہیں دےگا۔ اسے ایک دم یاد آیا کہ ہفتے عشرے کے بعد واقعی عید قربان تھی اور ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی اس سے قربانی کے لئے اس کا اونٹ خریدنے آیا ہو۔ خیر! اس نے اسے بتایا کہ نہ تو وہ اونٹ خریدنا چاہتا ہے اور نہ قربانی کا خواہاں ہے، وہ تو فقط اونٹ کو دیکھنے، اسے ملنے اور اس سے پیار کرنے آیا ہے۔ بوڑھے بلوچ نے بسم اللہ کہہ کر ایک بار پھر اسے خوش آمدید کہا اور اگلے ہی لمحے یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے کہ اونٹ کچھ دنوں سے بیمار ہے۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھ لے کر تھوڑی دور ایک چھپر میں لے گیا جہاں اونٹ بندھا تھا۔ بوڑھے نے اُچھ اُچھ کرکے اور دم کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھا۔ بوڑھا بلوچ بےچارگی کے ساتھ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے بوڑھے کو تسلی دی اور اونٹ کے سر، کوہانوں اور ماتھے پر اپنے ہاتھ سے پیار کیا۔ یہ سوچ کر ہی اس کے دل کا خون پانی ہو رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد وہ بیمار اونٹ کو تنہا چھوڑ کر واپس چلا جائےگا مگر کیا کرتاکہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

    آٹھویں ملاقات:

    موٹی اور گول شربتی آنکھوں اور لال، گالے، زرد، سفید اور پیلے پروں والا خوبصورت فلپائنی عقاب دیکھنے میں تو جنگلی مرغ ہی لگتا تھا۔ خطرناک ایسا کہ آن کی آن میں جھپٹے اور پورے کے پورے بندر کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر اڑ جائے۔ جنگلات کے خاتمے اور غیرقانونی و غیر اخلاقی شکار کی وجہ سے بظاہر طاقتور نظر آنے والا یہ جنگلی پرندہ اس وقت اپنی نسل کے بچاؤ کے راستے پر شدید مشکلات کا شکار تھا۔ فلپائن کے کچھ ساحلی علاقوں کی پہاڑی چٹانیں جن پر کثرت سے یہ عقاب بیٹھے اور اڑتے دیکھے جا سکتے تھے اب ان کی چوٹیاں ان کے مضبوط پنجوں کی دھمک کو ترس گئی تھیں۔ بسیار کوشش کے بعد ہی اس خوبصورت پرندے کو دیکھنے کی خواہش پوری ہونے کا امکان تھا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور تاحد نظر پھیلی پہاڑی چٹانوں کی قدرتی غاروں اور اوٹوں میں نظر دوڑاتا چلا گیا۔ ایک چٹان کی چھوٹی سی کم گہری کھوہ میں اسے مادہ عقاب بیٹھی نظر آئی۔ وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ ہیلی کاپٹر ایسے پروں کی شاں کی آواز کے ساتھ نر عقاب نے اس پرحملہ کر دیا جسے اس نے بڑی مشکل سے ایک چٹان کی اوٹ میں چھپ کر ناکام بنایا اور یہیں چھپ کر وہ عقاب کا جائزہ لینے لگا۔ عقاب نے غصیلی تیز نظروں کے ساتھ آس پاس کی چٹانوں کے کچھ چکر لگائے اور آخر کار اپنی مادہ کے پاس چٹان پر جا کر بیٹھ گیا۔ مادہ بےدھڑک اپنی جگہ بیٹھی رہی، اس کے بیٹھنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ شاید وہ انڈوں پر بیٹھی تھی اور اپنے عقاب کی موجودگی میں جیسے اسے کسی طرح کی فکر نہ تھی۔ ایک دم اس کے دل میں یہ پریشان کر دینے والا خیال گذارا کہ مادہ عقاب اگرچہ انڈوں پر بیٹھی تو ضرور تھی مگر موسمی تغیر، ماحولیاتی آلودگی اور شکاریوں کے خطرات کے پیش نظر شاید ہی یہ ممکن تھا کہ ان انڈوں سے بچے بھی نکلیں۔ اس نے ان چٹانوں سے اتر کر دور تک اور بہت سی پہاڑی چٹانوں پر فلپائنی عقابوں (Philippine Eagle) کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر بےسود اور اسی مایوسی کے عالم میں ہی اسے واپس لوٹنا پڑا۔

    نویں ملاقات:

    وہ سنتا آیا تھا کہ بلی شیر کی خالہ ہے۔ اس بابت ایک کہاوت بھی بہت مشہور تھی کہ بلی اپنے بھانجے کو داؤ پیچ سکھا رہی تھی کہ اس دوران کسی بات پر بھتیجے کو غصہ آ گیا اور وہ خالہ پر جھپٹا، خالہ دوڑ کر درخت پر چڑھ گئی اور بھتیجے نے کھسیانہ ہو کر کہا کہ خالہ تو نے یہ داؤ تو سکھایا ہی نہیں، خالہ نے جواب دیا کہ اگر یہ بھی سکھا دیتی تو آج جان کیسے بچاتی۔ یہ کہاوت بھی مگر کہاوت کی حد تک تھی، بہت سے شیر ایسے بھی تھے جو درختوں پر بڑی آسانی سے چڑھ جاتے تھے۔ یوں تو دنیا میں شیروں (Big Cats) کی بےشمار قسمیں تھیں مگر اسے ہنستے بستے، اٹھکیلیاں کرتے،جھپٹتے شیروں سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ وہ تو صرف ایک نظر ایمورشیر (Amur Tiger) کو دیکھنا چاہتا تھا کہ جن کی نسل دنیا سے ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والی تھی اور کچھ قابل اعتبار اندازوں کے موافق ان کی تعداد پوری دنیا میں اڑھائی سو سے کم رہ گئی تھی۔ ایمور شیر، شیروں کی تمام پانچ اقسام میں سب سے بڑے شیر تھے۔ ایمور سے ملنے کیلئے اسے چین کے بارڈر کے ساتھ جنوب مشرقی روسی علاقوں کے برفیلے جنگلات میں جانا تھا۔ اسے زیادہ دقت نہیں ہوئی کہ وہ وہیں کہیں تھا۔ کسی سکیمو کی مدد سے وہ ان تک پہنچا، پاؤں اور پیٹ سفید جبکہ باقی جسم پر گہرے بھورے رنگ کی موٹی اون پر گہرے گالے رنگ کے سپاٹ، اس نے اپنے منہ میں گردن سے چھوٹے باگ کو اٹھایا ہوا تھا جو شاید برف پر چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ اس نے اسے دیکھ لیا تھا، نہ غرایا اور نہ حملے کی کوشش کی، اس کے گلے میں بار بار کھانسنے کی غرغر سنائی دیتی تھی۔ اس نے باگ کو منہ میں اٹھائے دو ایک بار مڑ کر مچان میں اس کی طرف دیکھا اور بےاعتنائی سے دور تک پھیلے درختوں میں چھپ گیا جن کے تنے برف سے اٹے ہوئے تھے۔ جب وہ مچان سے نیچے اتر رہا تھا تو اس کے منہ سے بلند آواز میں الوداع ایمور الوداع کے لفظ ادا ہوئے جنہیں سن کر سکیمو نے حیرت کا اظہار بھی کیا مگر وہ اس سے کچھ نہیں بولا۔

    دسویں ملاقات:

    برازیلی مرغ کو انجان دیکھے تو چاہے اسے جنگلی کبوتر سمجھ لے یا پھر کالی گردن اور پروں اور گرے پیٹ والی بطخ۔ جب پانی کی سطح پر مادہ مرغ بطخ کی طرح تیر رہی ہو اور پیچھے بچوں کی فوج ظفر موج چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی طرح پیچھے تیرتی آتی ہو تو دیکھنے والا بطخ ہی سمجھےگا۔ اگرچہ ان کا بنیادی وطن تو برازیل ہی ہے مگر اس نے آخری بار اس مادہ مرغ اور اس کے بچوں کو ارجٹائن کی ایک چھوٹی سی قدرتی جھیل میں تیرتے دیکھا تھا۔ جھیل کنارے درختوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ کی اوٹ سے اس نے مادہ مرغ کو دیکھا تو وہ اس وقت قدرے ہموار خشک سطح پر پنجوں کے بل، پر پھلائے بیٹھی تھی اور کم اونچے پودوں کی چھدری شاخوں اور پتوں سے چھن کر آتی جاتی دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ پاس ہی اس کے چھ عدد بچے بیٹھے تھے جو وقفے وقفے سے اٹھ کر ادھر اُدھر گھوم پھر کر چھوٹے کیڑے مکوڑے اور چھوٹے بیچ ڈھونڈ نے لگ جاتے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آکر اپنی ماں کے پاس بیٹھ جاتے۔ بچوں کو دیکھ کر اسے تسلی ہوئی مگر اگلے ہی لمحے یہ سوچ کر اُس کا دل بیٹھ گیا کہ پچھلے ہفتے بچوں کی تعداد بارہ تھی اور اب آنے والے ہفتے عشرے میں باقی بچوں کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہونے والا تھا۔ اسی فکر مندی کے ساتھ وہ برازیلی مرغ (Brazilian Merganser) اور اس کے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا واپس مڑا۔

    گیارھویں ملاقات:

    تمام پرندوں اور خاص کر طوطوں میں کاکاپو (Kakapo) طوطے اس طرح بھی خاص اہمیت کے حامل تھے کہ وہ اڑ نہیں سکتے تھے۔ یوں تو طوطوں کی بےشمار قسمیں اور بےشمار رنگ ہو سکتے تھے مگر کاکاپو اس طرح بھی منفرد تھے کہ وہ صرف ایک رنگ یعنی پیلے اور ہرے رنگ کے ہوتے۔ جہاں ان کی نسل کے خاتمے کی وجوہات جنگلات کا زیاں، غیرقانونی شکار اور ماحولیاتی آلودگی تھی وہاں اُس کے اڑ نہ سکنے کی ایک وجہ بھی شامل تھی۔ اسے ان سے آخری ملاقات کیلئے نیوزی لینڈ کے جنگلات میں جانا پڑا۔ اگرچہ وہ اڑنے کی صلاحیت سے محروم تھے مگر بھاگنے اور چھپنے میں بہت تیز تھے لیکن اب ان کی یہ صلاحیت بھی کم یا کمزور پڑ گئی تھی، اس کی وجہ شاید ان کے پروں اور جلد کی موجودہ بیماری تھی۔ ایک کم اونچی شاخ پر ایک بڑا اور دو چھوٹے طوطے پاس پاس بیٹھے تھے۔ ان کے پنجوں اور پروں اور جسم کی جلد سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی جلدی بیماری کی وجہ سے شدید بیمار تھے۔ ان کی اسی حالت کے پیش نظر وہ ان کے بہت قریب پہنچ پایا تھا، اس نے اُن کے پروں اور سروں اور پنجوں پر پیار کیا اور ان سے بچھوڑے کا درد دل میں چھپائے ان سے رخصت ہوا۔

    پھر بارہویں، تیرھویں۔۔۔ اور پچیسویں ملاقات اور پھر ملاقاتوں کا وقت بھی ختم! زمین پر بچھی میلی کچیلی چٹائی، دیوار کے ساتھ لگا چکٹ تکیہ اور اس پر ٹکا سر، ٹیپ ریکارڈ میں بجتی حامد علی بیلا کی آواز میں شاہ حسین کی کافی کے بول، سب خاموش تھے! اور پھر کئی دن بعد کمرے کا دروازہ توڑ کر اس کی لاش نکالی گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے