ماخوذ تاثر کی کہانی
وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے‘نئی نئی کہانیاں۔
مگر میں اس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔
اسے گلہ ہے‘ سب لوگ اس کی کہانیوں کو نیا تجربہ قراردیتے ہیں‘ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر میں‘ اس کی بیوی ہوتے ہوے بھی اس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔
یہ درست نہیں کہ میں نے اس کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔
شروع شروع میں وہ جو بھی کہانی لکھتا ‘میں پڑھتی تھی۔
مگر جب اس نے یہ بتایا کہ اس نے جانوروں کی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیاہے تو میں خوفزدہ ہو گئی۔
میں نے فیصلہ کیا‘ میں اس کی کہانیاں نہیں پڑھوں گی۔
دراصل بچپن میں ‘میں نے ایک شکاری کی ڈائری پڑھی تھی جس میں ایک پرندہ ہر شب ایک انسان کو نگل جاتا تھا۔
اگرچہ شکاری نے آخرمیں اس درندے کو مار دیا تھا مگر تب جو خوف میرے اندر اترا تھا اب تک میرے اندر ہی اندر دندناتا پھرتا ہے۔
اور میں جانوروں کی کہانیاں نہیں پڑھ سکتی۔
وہ مجھے قائل کرنے کوشش کرتا ہے۔ جب بھی نئی کہانی لکھتا ہے‘ میرے سامنے لا رکھتا ہے۔ میں خوفزدہ ہو کر اسے پرے دھکیل دیتی ہوں اور وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔
جب میں اس کی بات نہیں مانتی یا پھر اس کی بات کاٹ دیتی ہوں تو وہ مشتعل ہو جایا کرتا ہے۔
میں مزید خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
ایسے میں جھوٹ بول دیتی ہوں کہ میں نے اس کی کہانی پڑھ لی ہے۔
وہ خوش ہو کے پوچھتا ہے۔
’’بتاؤ کیسی لگی؟‘‘
میں جھوٹ موٹ تعریف کرتی ہوں اور روایتی جملے بول دیتی ہوں۔
وہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے اور اپنی کہانی کے ایک ایک نکتے کو کھول کھول کر بیان کرنے لگتا ہے۔
جب وہ ایسا کر رہا ہوتا ہے تو اس کے نتھنے گرم سانسوں سے بھر جاتے ہیں اور جبڑے اس قدر سرعت سے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ میں خوفزدہ ہو جاتی ہوں اور وہاں سے اٹھ جاتی ہوں۔
جب وہ اپنی بات نامکمل چھوٹتا دیکھتا ہے‘ تو طیش میں آ جاتا ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر دروغ گوئی کا سہارا لیتی ہوں اور کہتی ہوں:
’’میں وہ ساری باتیں سمجھ گئی ہوں جو تم نے کہانی میں بیان کی ہیں۔‘‘
’’ساری باتیں‘ جو علامت اور استعارے کی زبان میں ہوئی ہیں وہ بھی؟‘‘
وہ سوال کرتاہے۔
’’ہاں‘ وہ سب بھی اور وہ بھی جو تم نے بیان نہیں کیں مگر کہانی میں موجود ہیں۔‘‘
میرا یہ جواب سن کروہ تحسین بھری نظروں سے مجھے دیکھتا ہے۔
اس خوف سے کہ مبادا وہ میرا جھوٹ پکڑ نہ لے میں اسے مزید کہتی ہوں:
’’دیکھو کہانی اپنے قاری پر ایک الگ مفہوم کھولتی ہے۔ کہانی لکھتے وقت جو خیال محرک بنا‘ اسے بیان کر کے تم کہانی محدود کیوں کرتے ہو؟‘‘
یہ ویسے ہی جملے ہیں جیسے کبھی میں نے اس سے سنے تھے۔
وہ ان جملوں کو سن کر مطمئن ہو جاتا ہے۔
حالاں کہ جب سے اس نے جانوروں کی کہانیاں لکھنا شروع کی ہیں میں نے ا س کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے دھری چنگیر روٹیوں سے خالی رہنے لگتی ہے۔
اور منّے کی بوتل میں دودھ کی بہ جائے پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
حتیٰ کہ اس کی ماں کی پرانی کھانسی دوانہ ملنے سے تازہ ہو جاتی ہے۔
میں اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوں جب کہ اس طرح دیکھنے کی مجھے بالکل اجازت نہیں ہے۔
وہ مشتعل ہو جاتا ہے اور کہتا ہے۔
’’میں ساری عمر تمہارے شکموں کا ایندھن بنتا رہا ہوں۔ میری ساری صلاحیتیں ‘قوتیں‘ سار ا وقت‘ سارا سرمایہ لقمہ لقمہ تمہارے بدنوں کا حصہ بنتا رہا مگر اب مجھے اپنے وجود کا یقین بھی چاہیے۔ ہاں اپنے وجود کا یقین۔ سمجھیں!‘‘
مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔ ڈر جاتی ہوں اور چپ ہو جاتی ہوں۔
وہ چپ ماحول میں آخری جملہ پھینکتا ہے۔
’’میں نے اپنی ہستی کو اپنی کہانیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں اب کتابی صور ت میں لا رہا ہوں۔‘‘
میں اسے ایک مرتبہ پھر حیرت سے دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ وہ تو جانوروں کی کہانیاں لکھ رہا تھا۔
پھر میں اس کی بات بھول جاتی ہوں۔
دراصل اب کہیں جا کر میں اس قابل ہوئی ہوں کہ کچھ بھول سکوں حالاں کہ وہ بہت پہلے سے یہ چاہتا تھا۔ خصوصاً جب وہ میری تحقیر کر چکتا اور اشتعال کی کیفیت سے نکل آتا تو یہی چاہتا کہ میں وہ سب بھول جاؤں جو اس نے کہا ہوتا تھا۔
مجھے اس کی ہر بات پر عمل کرنا ہوتا ہے کہ میری تربیت اسی نہج پر ہوئی ہے۔
شروع شروع میں مجھے اس کی بات گوارا تک نہیں ہوتی تھی۔
اور جب بھی گوارا ہی نہ ہو تو بھولتی کب ہے؟
مگر رفتہ رفتہ میں نے کوشش سے خود کو اس کا عادی بنا لیا ہے۔
اب تو وہ باتیں بھی بھولنے لگی ہوں جنہیں بھولنے کی وہ ہدایت نہیں کرتا۔
اور غالباً میرا‘ انہیں یاد رکھنا ہی اس کا منشا ہوتا ہوگا۔
ہاں تو میں کہ رہی تھی کہ میں وہ باتیں بھول جاتی ہوں جنہیں بھول جانے کی وہ ہدایت کرتا ہے۔
مگر اچانک یوں ہوتا ہے کہ مجھے اس کی ساری باتیں شدّت سے یاد آنے لگتی ہیں۔
اور یہ تب ہونے لگا ہے جب سے اس کی نئی کتاب آنے کی خبر اخبار میں چھپی ہے۔
اور اس کا یہ جملہ بھی کہ اس نے اپنی ذات اور اپنے عہد کو ان کہانیوں کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں اخبار ایک طرف رکھ کر کتاب اٹھا لیتی ہوں۔
وہی کتاب جو گزشتہ ہفتے اس نے لاکر میری گود میں ڈالی تھی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ اب اسے صحیح طور پر جانا جانے لگےگا۔
مگر اس نے جو کہا تھا وہ میں بھول جاتی ہوں۔
اور اس کی کتاب بھی پڑھنا بھول جاتی ہوں حالاں کہ اس نے اپنی کتاب‘ گھر میں ہر کہیں بکھیر دی ہے۔ یہاں‘ وہاں۔ ڈرائنگ‘ ڈائنگ‘ بیڈ۔ شیلفوں میں‘ سرہانے تلے‘سائیڈ ٹیبل پر۔ کتاب ہر کہیں ہے مگر میں پڑھنا بھولے رہنا چاہتی ہوں۔
میں نے کہا ہے نا! جانوروں کی کہانیاں میں نہیں پڑھ سکتی۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں ‘جو ہر بات بھول جاتی ہوں‘ یہ کیوں نہ بھول پائی کہ اس میں جانوروں کی کہانیاں ہیں۔
وہ کہا کرتا تھا:
’’کہانیاں تو کہانیاں‘ ہوتی ہیں‘ چاہے انسان کی ہوں یا جانوروں کی یاپھر دونوں کی۔‘‘
مجھے اس کی تیسری صورت مضحکہ خیز لگتی ہے۔
کیوں کہ میرا خیال ہے کہانی یاتو انسانوں سے متعلق ہوتی ہے یا پھر جانوروں سے۔ مگر اس کا دعویٰ ہے کہ دونوں کے بارے میں کہانیاں لکھنا ہی دراصل وہ منطقہ ہے جو اس نے دریافت کیا ہے۔
اس کی یہ دلیل بھی مجھے اس کی کہانیاں پڑھنے پر آمادہ نہیں کر پاتی۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ میں اخبار میں خبر پڑھتی ہوں۔
بل کہ یوں کہوں تو مناسب ہوگا کہ خبر میں اس سے منسوب جملہ پڑھا تو بےاختیار کتاب پڑھنے بیٹھ گئی۔
دراصل مجھے اس خواہش نے کتاب پڑھنے پر مجبور کیا کہ میں بھی اسے دریافت کر سکوں۔
میں اسے شروع سے جاننا چاہتی تھی۔ پہلے پہل کوشش بھی کی مگر جان نہ پائی۔ میں اسے جان بھی کیسے پاتی کہ وہ اپنی ذات کے گنبد بےدر میں محصور تھا۔
کسی کو جانے بغیر صدیوں پر محیط زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنے سے بہتر ہے کہ محض معرفت کی ایک ساعت میسر ہو جائے۔
زندگی کے بارے میں میرا یہی نقطہ نظر ہے۔
مگر وہ مجھ پر نہ کھل سکا۔
اس نے میرے اندر جھانکنے کی کوشش بھی نہ کی اور وقت گزرتا رہا۔
حتیٰ کہ وقت گزرنے کا احساس میرے اندر سے معدوم ہوتا چلا گیا۔
معدوم ہوتے احساس نے میرا اندر سے انہدام شروع کر دیا۔
ممکن تھا میں مکمل طور پر منہدم ہو جاتی کہ میں اخبار میں اس سے منسوب جملہ پڑھتی ہوں۔
یہ جملہ پڑھتے ہی فوراً کتاب اٹھاتی ہوں اور خود کو کوستی ہوں کہ میں نے پہلے یہ کہانیاں کیوں نہ پڑھ ڈالیں۔ ناحق وقت برباد کیا۔
میں جم کر بیٹھ جاتی ہوں اور ایک ایک لفظ پڑھ ڈالتی ہوں۔
کتاب پڑھ کر بند کرتی ہوں تو نظر اس کی تصویر پر ٹھہر جاتی ہے۔
اس کے ہونٹ تھوتھنی بننے لگتے ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔
میرے اندر خوف کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔
میں کتاب کوپرے اچھال دیتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ جو پڑھا ہے وہ سب بھول جاؤں یا پھر تصویر کی بابت جو محسوس ہو اہے‘ وہ احساس جاتا رہے۔
مگر مجھے دکھ ہوتا کہ میں بھول جانا بھول چکی ہوں۔
میں اس لمحے کو کوستی ہوں جب میں نے اخبار میں اس سے منسوب جملہ پڑھا تھا اور خود کو اس کی کتاب پڑھنے پر مجبور پایا تھا۔
میری نظر بےاختیار اس کی دوسری تصویر پر پڑتی ہے جو سائیڈ ٹیبل پر دھری ہے۔
یہ تصویر ‘جب سے میں اس گھر میں آئی ہوں‘ یہیں ہے۔
اس تصویر کو میں نے جتنا دیکھا ہے 'جتنی نزدیک سے اور جتنی بار‘ اتنا تو میں خود اسے بھی نہیں دیکھ پائی ہوں۔
مگر اب جو دیکھتی ہوں تو کتاب کی کہانیاں تصویر کے چہرے میں اترنا شروع ہو جاتی ہیں۔
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔
مگر تصویر‘ تصور میں جا اترتی ہے۔
اور وہ کہانیاں بھی‘ جو جانوروں سے متعلق نہیں ہیں۔
نہیں‘ جو محض جانوروں سے متعلق نہیں ہیں۔
یا پھر آدمیوں سے متعلق ہیں۔ نہیں‘ وہ کہانیاں محض آدمیوں سے متعلق بھی نہیں ہیں۔
میرے چہرے کا رخ تصویر کی سمت ہی رہتا ہے۔
اور لمحہ لمحہ اس کے بدلتے خال و خد دیکھتی ہوں تو مزید خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
میں اپنے سارے وسوسے (اگر یہ سوسے ہیں تو) جھٹک دینا چاہتی ہوں اور خود کو یقین دلاتی ہوں کہ یہ اس کی ہی تصویر ہے۔
نہیں‘ یہ اس کی تصویر نہیں ہے۔
تو پھر یہ اس کے اندر کی تصویر ہے۔
نہیں‘ یہ محض اس کے باطن کی تصویر بھی نہیں ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر آنکھیں میچ لیتی ہوں۔
مگر اس کے پل پل بگڑتے خا ل وخد میرے اندر اترنے لگتے ہیں۔
میں آنکھیں پوری طرح کھولتی ہوں کہ یہ تو اس سے بھی زیادہ بھیانک صورتحال ہے۔ اب تصویر پر نظریں گاڑ ے اس کی صورت کو ویسا ہی دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں جیسی وہ کتاب پڑھنے سے پہلے نظر آتی تھی۔
میں چاہتی ہوں کتاب کا ایک لفظ بھی مجھے یاد نہ رہے۔
مگر شاید میں بھول جا نا بھول چکی ہوں۔
اف خدایا ‘یہ ہونٹ‘ یہ تھوتھنی
اوپر سے عجیب طرح کی مونچھیں
اور بالوں کا فرسودہ سٹائل
کندھے گراکر چلنا
آنکھوں کی سرخی
اور دیکھنے کا بےہودہ انداز
ادھر ادھر سے خوف امڈ پڑتا ہے۔ میں خوف میں ڈوب جاتی ہوں اور تیرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی ہوں۔ ہاتھ اس کی تصویر پر جا پڑتا ہے۔
میں اسے اٹھا کرپرے پھینک دیتی ہوں۔
فریم کا شیشہ کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔
مگر تصویر سے ابلتے ہوے خال وخد سے اسی طرح خوف ابلتا رہتا ہے۔
میں تصویر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہوں۔
نظر کتاب پر پڑتی ہے‘ الٹ دیتی ہوں؛ تصویر وہاں بھی ہے۔
سرہانے سے کتاب اٹھا کر پرے پھینکتی ہوں۔
کتاب پائینتی پر یوں جا پڑتی ہے کہ تصویر کا رخ اوپر کی جانب ہوتا ہے۔
وہی سرخ سرخ آنکھیں ‘وہی تھوتھنی‘ وہی مونچھیں کھردری اور بےڈھنگی‘ وہی۔۔۔
میں پاؤں سے چھو کر اسے فرش طرف کھسکانا چاہتی ہوں۔
یکایک خیال گزرتا ہے۔
اگر اس نے مجھے ڈس لیا تو؟
عجب مضحکہ خیر خدشہ ہے۔
مجھے اپنے خیال پر حیرت ہوتی ہے اور خیال کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سوچتی ہوں۔
ایسا کیوں ہوا؟
ایسا خیال کیوں آیا؟؟
آخر کیوں؟؟؟
مجھے اس کتاب میں کتوں اور کتیوں ‘سانپوں اور سپنیوں حتیٰ کہ مچھروں کے بارے میں ایک سے زائد کہانیاں یاد آتی ہیں۔
مگر یہ تو کتاب ہے‘ کیسے کاٹ ڈس سکتی ہے؟
کیسے ‘کیسے؟؟
تو کیا میں اسے وہیں پڑا رہنے دوں۔
کتاب میں موجود کہانی کی اس کتیا کی طرح‘ جو اپنے پلوں کے ساتھ گھر کی دہلیز پر پڑی رہتی ہے اور جب بھی گھر کا مالک باہر نکلتا ہے اسے درزدیدہ نظروں سے دیکھتی ہے۔
مالک اسے دھتکارتا ہے‘گالیاں بکتا ہے‘ ٹھوکریں مارتا ہے‘ اور کہتا ہے:
’’تم اسی لائق ہو۔ تم اور تم جیسی سب لائق ہیں ‘بچے جنیں‘ دروازوں پر پڑی رہیں اور دھتکاری جاتی رہیں۔‘‘
کہانی آگے چلتی ہے اورآخر میں اپنا بھید کھولتی ہے۔
گھر کے مالک کی بابت انکشاف کرتی ہے کہ وہ خود بھی اسی قبیل سے تھا۔
اور چوں کہ اسی بستی میں سب ہی ایک قبیل کے تھے لہٰذا خدا کا کرنا یوں ہوا کہ ایک مجذوب کا گزر اس بستی سے ہوا۔
اس بستی کا کوئی فرد مجذوب کے مقابل نہ آیا‘ سوائے اس کے جو بعد میں اپنے پلوں کے ساتھ دہلیز پر جا بیٹھی تھی۔
مجذوب بھوکا تھا۔ اس نے کھانا دیا۔
مجذوب نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے وہاں منڈلاتی گدھوں کو کھلا دیا۔ کہا:
’’جانتی ہو گدھ کہاں زیادہ منڈلاتے ہیں؟‘‘
اس نے ادب سے جواب دیا:
’’آپ بہتر جانتے ہیں سرکار۔‘‘
مجذوب کا جواب تھا:
’’جہاں مردار ہو۔’’
’’مردار؟‘‘
اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو وہ مجذوب کے کہے کی تہہ تک پہنچ گئی۔
’’سرکار‘ مجھے ان گدھوں سے بچائیے۔ مجھے ان سے مختلف کیجئے۔‘‘
مجذوب نے نگاہ اوپر کی اور جب نگاہ پلٹ کر نیچے آئی تو وہ آئینہ بن چکی تھی۔
لہٰذا اس کا مقام اسی کی دہلیز قرار پائی۔
وہ دہلیز پر بیٹھی اسے دزدیدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور تاسف سے ان لمحوں کی بابت سوچتی ہے کہ جب پھر مجذوب آئےگا اور سب کا ظاہر باطن کی جون پر بدل دیا جائےگا۔
کہانی کایہ حصہ یاد کر کے ‘میں خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
پھر کتاب کی پشت والی تصویر کو دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے مجذوب آکے گزر گیا ہے کہ تصویر والے کا چہرہ بدلتا جارہا ہے۔ ہونٹ‘ ہونٹوں سے تھوتھنی‘ اور۔۔۔
میں خوف سے کانپنے لگتی ہوں اور باہر نکل کھڑی ہوتی ہوں۔
دالان عبور کرتی ہوں۔
دالان سے گزرتے ہوے مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے صدیوں کی مسافت پر محیط صحرا عبور کیا ہے۔
جب چوکھٹ آ جاتی ہے تو خود بخود میں دوزانو بیٹھ جاتی ہوں۔
دہلیز آنسوؤں سے سیلن زدہ ہے۔
میں دہلیز چھوتی ہوں اور آنسوؤں کے ساتھ ساتھ سسکیاں اور آہیں بھی میری پوروں میں سما جاتی ہیں۔ میں ہمت کر کے اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی ہوں۔ خوشی سے سوچتی ہوں کہ میں بھی اپنے قدموں پر کھڑی ہوں۔ تب میں گلیوں میں بھاگتی ہوئی اس روشنی تک جانا چاہتی ہوں جو گلی کی نکڑ پر ایک کھمبے کے نیچے سمٹی ہوئی ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہانی والی’’وہ‘‘ میرے ساتھ بھاگ رہی ہے جس کا تعاقب بھونکا ر اور غراہٹیں کرتی ہیں۔
میں اسے دیکھتی ہوں۔ وہ میری طرح خوفزدہ ہے۔
میں نہیں چاہتی کہانی کا اگلا حصہ مجھے یاد آئے۔
مگر یاد توو ہ چیز آتی ہے جو بھولی ہوئی ہو۔
جب کہ میں بھولنا بھول چکی ہوں۔
اور’’وہ‘‘ میرے ساتھ ساتھ ہے مگر خوف سے تھر تھر کانپے جا رہی ہے۔
میں جھک کر پتھر اٹھا نا چاہتی ہوں ۔۔۔ مگر پتھر زمین میں دھنسے ہوے ہیں۔
میں خالی ہاتھ ہی ان کی طرف اچھال دیتی ہوں۔
بھونکار اور غراہٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ میں نکڑ تک جا پہنچتی ہوں۔
کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں ایک چوہیا ہے۔
کہانی مجھے ایک مرتبہ پھر یاد آتی ہے؛ وہی جس میں چوہیا سدھائی جاتی ہے۔
میں خود کو سوچتی ہوں اور مری ہوئی چوہیا کو دیکھتی ہوں۔ ایک بار پھر خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
اس سے پہلے کہ مٹھی بھر روشنی تلے ایک اور چوہیا مری پڑی ہو‘ میں واپس گھر کی جانب بھاگ کھڑی ہوتی ہوں۔
جونہی دہلیز پار کرتی ہوں ‘وہ سامنے آجا تا ہے؛ اور مجھے دیکھتا ہے۔
میں اسے نہیں دیکھنا چاہتی؛ مگر نظر پڑ جاتی ہے۔
عین اس لمحے کہ جب اس کی نظر پڑتی ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں نے چوہیا نہیں ایک چوہا دیکھا تھا۔
لمبی تھوتھنی اور۔۔۔
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے‘ چوہا میرے اندر اتر گیا ہے اور اس نے مجھے اندر سے کترنا شروع کر دیا ہے۔
آنکھیں کھولتی ہوں‘ تو وہ گھورتا ہے۔
آنکھیں بند کرتی ہوں‘ تو وہ اندر سے کترتا ہے۔
تب یکایک میرے اندر سے کراہت کا غبار اٹھتا ہے۔ مرا ہوا چوہا۔
سامنے چھت سے لیمپ لٹک رہا ہے اور عین اس کے نیچے وہ بیٹھا ہوا ہے۔
نکڑ پر عین روشنی تلے؛ مرا ہوا چوہا۔
مجھے ابکائی آتی ہے۔ میں بھاگ کر واش بیسن تک پہنچتی ہوں اور استفراغ کے عمل سے گزر جاتی ہوں۔
ساس مجھے دیکھتی ہے اور خوشی خوشی اسے کہتی ہے:
’’مبارک ہو۔‘‘
وہ جو پہلے مجھے گھور رہا تھا‘ اب اوپر نہیں دیکھتا۔
میں انتظار کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ وہ مجھے دیکھے‘ مگر نہیں دیکھتا اور رات بیت جاتی ہے۔
تب میں پاؤں پٹختی ہوں۔
میرے پاؤں پٹخنے کی صدا فقط میری ہی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔
جب اس کی خامشی اور بے اعتنائی میرا بدن نوچنے لگتی ہے تو میں دوسری بار دہلیز پار کر جاتی ہوں اور بھاگنے لگتی ہوں۔ مسلسل بھاگتی رہتی ہوں۔
حتیٰ کہ وہ پارک آجاتا ہے جہاں رنگ ہی رنگ ہیں۔ قہقہے ہی قہقہے ہیں۔
میں مسرت بھری آوازوں کو سنتی ہوں‘تتلیوں کو دیکھتی ہوں‘ خوشبوؤں سے مشام جاں معطر کرتی ہوں اور ان ساری کہانیوں کو بھولنا چاہتی ہوں جو میں نے پڑھی ہیں۔
مگر رفتہ رفتہ جب شام کے سائے اترنے لگتے ہیں تو کہانیوں کے دھندلکے بھی میرے اندر اتر جاتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے وہ پارک نہیں ایک جنگل ہے ‘گھنا جنگل۔ دور ادھر آسمان سے سایا اترتا ہے اور بدنوں کی کھال بنتا جاتا ہے۔
اس کی ایک کہانی میں بھی یہی ہوتا ہے۔
کہ اندر کی تاریکی باہر کی کھال بن جاتی ہے۔
یا پھر باہر کی سیاہ کھال اندر کی تاریکی بن کر گھس بیٹھتی ہے۔
پھر لمبی تھوتھنیوں والے اپنی جون بدل کر انسانی بستیوں میں جا پہنچے ہیں۔
روز کسی نہ کسی پر شب خون مارتے ہیں حتیٰ کہ وہاں فقط وہی رہ جاتے ہیں جو اپنی جون میں نہیں ہیں۔
بس یہیں تک کہانی یاد کر پاتی ہوں کہ خوف میرے چاروں جانب دھمال ڈالنے لگتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے میرے اردگرد سب وہ ہیں جو اپنی جون میں نہیں ہیں۔
میں الٹے قدموں بھاگ کھڑی ہوتی ہوں۔
مگر ٹھوکر کھاکر گھر کی دہلیز سے اندر جا پڑتی ہوں۔
وہ چیختا ہے اور پوچھتا ہے کہ میں کہاں رہی؟
میں چپ کے دھاگے سے ہونٹ سیئے رکھتی ہوں۔
میں چاہے چپ رہوں یا بولوں؛ اسے ہر صورت میں طیش آتا ہے۔
لیکن جب میں چپ رہنے پر بولنے کو ترجیح دوں تو وہ آپے میں نہیں رہتا۔
اگرچہ اب کے میں چپ رہنے کو مناسب خیال کرتی ہوں مگر میری چپ اسے اس سے زیادہ طیش دلا دیتی ہے جتنا اسے میرے بولنے پر آیا کرتا ہے۔
میں اسے دیکھتی ہوں۔
اس کی ساری کہانیاں اس کے چہرے پر اگ آئی ہیں۔
تھوتھنی‘ دانت‘ کھردری مونچھیں‘ آنکھوں کی سرخی۔۔۔
وہ آگے بڑھتا ہے اور مجھے بھنبھوڑ ڈالتا ہے۔
اس قدرکہ میرا جسم زخموں سے چور ہو جاتا ہے۔
جب سارے جسم کے زخم رسنے لگتے ہیں تو وہ میری روح پر چرکے لگاتا ہے۔
اور جب اسے یقین ہو چکتا ہے کہ مجھ میں سنبھلنے کی ذرا بھی سکت نہیں رہی تو وہ مجھے یوں ہی کھلے صحن میں چھوڑ کر اندر چلا جاتا ہے۔
اور جب سب کچھ بھول جاتا ہے تو وہ باہر آتا ہے۔
مجھے بہلا پھسلا کر ہمیشہ کی طرح سب کچھ بھول جانے کا مشورہ دیتا ہے۔
مگر میں اب بھول جانا‘ بھول چکی ہوں۔
میں اٹھتی ہوں اور پہلی مرتبہ اسے نظرانداز کرتی ہوں جو دوزانو بیٹھا ہوتا ہے۔ میں اسے یوں ہی بیٹھا چھوڑ کر اندر چل دیتی ہوں۔
اس کی ساری کتابیں اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر باہر نکلتی ہوں اور عین اس کے سامنے ڈھیر لگا دیتی ہوں۔
پھر بھری ہوئی تیل کی بوتل ڈھیر پر انڈیل دیتی ہوں۔
وہ اٹھتا ہے اور مجھے دھکا دے کر پرے گرا دیتاہے مگر میں حوصلہ نہیں ہارتی اور ماچس کی تیلی کتابوں کے ڈھیر کو دکھا دیتی ہوں۔
شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور وہ آگ کی تپش سے موم کی طرح پگھلتا چلا جاتا ہے۔
جب وہ سارے کا سارا پگل چکتا ہے‘ تو میں اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتی ہوں اور وہاں بوسہ دیتی ہوں جہاں سے توتھنی برآمد ہوا کرتی تھی۔
وہ میرے بھیگے بوسے سے کھل اٹھتا ہے۔
اس کی نظر شعلوں پر پڑتی ہے تو وہ بڑبڑاتا ہے:
’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
میں اسے دیکھتی ہوں اور موم کی طرح پگھلتے اس کے وجود کومحبت کی پوروں سے اصلی خال وخد میں لاتی ہوں اور کہتی ہوں:
’’اب تم صرف انسانوں کی کہانیاں لکھو گے۔‘‘
وہ میری طرف دیکھتا ہے۔
اس کی آنکھوں کی ساری سرخی غائب ہو چکی ہے۔
وہ دہراتا ہے:
’’انسانوں کی کہانیاں؟۔۔۔م۔۔۔م ۔۔۔مگر کیسے؟‘‘
میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے ایک مرتبہ پھر بانہوں میں سمیٹتی ہوں۔
’’ہاں انسانوں میں رہ کر انسانوں کی کہانیاں اور محبتوں میں بس کر محبت کی کہانیاں‘‘
اپنے ہونٹ دوبارہ وہاں جا رکھتی ہوں جہاں کچھ دیر پہلے پھول کھل اٹے تھے۔
عین اسی لمحے سارے میں مہک بھر جاتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.