Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں بیٹا

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کہانی کی کہانی

    ’’مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ایک ہندو بیٹے اور مسلمان ماں کی کہانی۔ وہ دونوں بالکل الگ تھے۔ الگ ماحول، معاشرہ اور ایک دوسرے کے مذہب سے سخت نفرت کرنے والے۔ مگر ان کے اجڑنے کی کہانی ایک جیسی تھی۔ پھر اتفاق سے جب وہ ملے اور ایک دوسرے کی کہانی سنی تو ان کی سوچ پوری طرح سے بدل گئی۔‘‘

    مومنہ آندھی اور پانی میں رات بھر بھاگتی رہی۔ بھیگتی رہی ٹھٹھرتی رہی اور بھاگتی رہی۔ اندھیرا اس غضب کا تھا کہ دو قدم آگے کا درخت تک نہیں سوجھائی دیتا تھا۔ کھیت اور مینڈھ ٹیلا اور کھائی۔ پورب اور پچھم۔ زمین اور آسمان سب ایک غیرمحدود سیاہ وسعت میں گم ہو گئے تھے۔ ہر قدم پراسے اندیشہ تھا کہ میں کسی کنوئیں پاندی پا نالے میں نہ جاگروں۔ لیکن پھر بھی وہ بھاگتی رہی۔ بلکہ یہ اندیشہ تو بھاگنے میں اس کی اور ہمت افزائی کر رہا تھا۔ موت اچانک آ کر میری اس بے اور چھور کی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ یہ تو ایک سہانا سپنا تھا۔ ایک با ر تو اس نے یہ ارادہ بھی کر لیا کہ سامنے کے کنوئیں میں جسے بجلی نے چمک کر دکھا دیا تھا۔ اپنے کوگرادوں۔ لیکن پاپی دل نے حامی بھی بھری تو رو کر۔ شاید اس کو اب بھی امید تھی کہ کبھی نہ کبھی زندگی کے افق پر کوئی نہ کوئی کرن پھوٹ آئے گی۔ مورکھ!

    وہ بھاگتی رہی اور اندھا دھند بھاگتی رہی۔ لیکن اس کی زندگی ایسی نکمی تھی کہ نہ کھائی نے پوچھا نہ خندق نے نگلا۔ نہ بھیڑیے نے پھاڑا نہ سانپ نے ڈسا۔ نہ کوئی درخت پھٹ پڑا اور نہ بجلی نے بھسم کیا۔ پاپن ایسی جلی نا کوئلا بھئی نہ راکھ۔

    مومنہ کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی دیر تک بھاگتی رہی ہے کیوں کہ کالی رات اگر دکھ درد کی وجہ سے شب ہجر تھی تو انسانی درندوں سے اسے چھپا لینے کی وجہ سے شب وصل۔ اگر جسم کا جوڑ جوڑ چلا رہا تھا کہ اے صبح خدا کے لئے اب تو آ جا۔ تو ظالم ہندوؤں سے ڈرا ہوا دل کہتا تھا کہ اے رات تو قیامت تک مجھے اپنی آغوش میں یوں ہی چھپائے رکھ۔

    مومنہ جب تھک کر ایک پرانے برگد کی بھیگی جڑ پر گری ہے تو پو پھٹ رہی تھی۔ گھٹا چھٹ رہی تھی اور کچھ دور پیڑوں، مکانوں اور اندھیرے کے تودوں کے بیچ میں ایک شوالے کی چوٹی نظر آرہی تھی شوالہ! اسی کے ماننے والوں نے تو مسلمانوں پر ظلم ڈھائے ہیں۔ کتنے بچوں کو یتیم کیا۔ کتنی عورتوں کو بیوہ کیا ہے۔ کتنی عصمتوں کو ناس کیا ہے۔ ایک دو تین نہیں، لاکھوں گھروں کو برباد کیا ہے اور ابھی تک ان کی خون کی پیاس بجھی نہیں ہے۔

    بارش سے دھلی ہوئی صبح کے آنے سے منظر میں رونق آ گئی۔ سرسبز کھیتوں نے انگڑائی لی۔ کووں نے کاؤں کاؤں کا شور مچایا۔ پیڑوں نے نسیم کی لہروں پر تالیاں بجائین اور دور پر کسی بھینس نے اپنے بچھڑے کو پکارا۔ سامنے کو شوالے کے گرداب پیڑوں سے ڈھکے ہوئے کچے گھر بھی نظر آنے لگے تھے۔

    یہ منظر ان لوگوں کے لئے جن کی زندگی دیہات میں گزری ہے غضب کی جاذبیت رکھتا ہے۔ مومنہ اسی میں کھو گئی اور اس کی تصوری نظریں ان گھروں کے اندر کی چہل پہل کو دیکھنے لگیں۔ کسان بیل کھول رہے ہیں۔ ان کی استریاں گائے کو دوھ رہی ہیں، لڑکیاں دودھ بلور ہی ہیں۔ دھوبی کپڑوں کی لادی گدھے پر رکھے گھاٹ جا رہا ہے۔ سامنے کے پکے گھر میں دبے ہوئے کنڈوں کو کرید کر آگ بنائی جا رہی ہے۔ جوان ڈنڈ پیل رہے ہیں۔ عورتیں گاگریں لئے کنوؤں پر جا رہی رہی ہیں۔ ان کے بچے سوتے سے اٹھے ہیں۔ اور بھوک سے آں غاں کر رہے ہیں۔

    تصور نے یہ بھیرویں کچھ اس طرح الاپی کہ مومنہ مست ہو گیت اور تھوڑی دیر کے لئے اپنے غم و الم کو بھول گئی اور پھر اس کے سینے میں زندگی اور امید کی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔

    گاؤں کے کنارے ایک پختہ مکان بھی تھا۔ جو مومہ کو اپنا مکان یاد دلا رہا تھا۔ اس میں بھی بڑا سا پھاٹک لگا تھا اور اس کی بغل میں بھی مردانہ کمرہ تھا اور اس کے آگے بھی دو بڑے بڑے سایہ دار درخت تھے۔ ہائے اپنے گھر کے سامنے سایہ دار درخت! جن کے نیچے اس کا بچپن گزرا تھا اور اس کے بچے مہرن شمس اور قمر بھی وہاں کھیلتے تھے۔ اسی داہنی طرف کے نیچے تو میں نے اور ہاجرہ نے تالاب سے مٹی لا کر گھروندہ بنایا تھا۔ بنانے میں ہجے کی انگلی میں شیشے کا ایک ٹکڑا لگ گیا اور خون نکل آیا۔ ہم دونوں خون دیکھ کر کتنا ڈر گئے تھے کہ اب گھر میں ڈانٹ پڑے گی لیکن چچی جان نے دونوں کو بچا لیا۔ پھر اسی گھروندے میں ہاجرہ کے گڈے اور میری گڑیا میں شادی ہوئی۔ بور، شبراتن، بہارو، سنڈی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں اکٹھا ہوئیں اور گھروندا جو میرا گھر تھا وہاں برات آئی۔ برات بیٹھی تھی کہ درخت سے ایک املی گری اور میں نے دوڑ کر اٹھا لی۔ ہجے بولی واہ یہ املی تو براتیوں کا حق ہے۔ میں نے کہا کہ براتی آئے ہیں وہ کھانا کھائیں گے۔ جہیز لیں گے اور گڑیا کو بیاہ لے جائیں گے۔ یا سارا گھر لے لیں گے۔ پھر تو ہجے بگڑی گئی۔ میں نے اس پر کہا کہ چلو میں بیاہ نہیں کرتی۔ پھر کیا تھا سب براتی بگڑ گئے اور سخت جنگ چھڑ گئی۔ اتنے میں ادھر سے آ نکلے دادا میاں۔ انہوں نے مجھے اور ہجے کو پکارا اور پوچھا کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا کہ املی میں نے اٹھائی تھی اس لئے میری ہوئی۔ ہجے بولی کہ نہیں میری ہوئی دادا میاں نے سب لڑکیوں کو نام لے کر پکارا۔ ہم سب ڈر رہے تھے کہ اب سب ڈانٹے جائیں گے۔ لیکن دادا میاں پورا مقدمہ سن کر ہجے سے کہنے لگے،

    ’’بتاؤ بیٹا تم املی لوگی یا آم؟‘‘

    املی سے آم کی باتیں۔ یہ پلٹا بہت مزے کا تھا۔ ہم سب کے چہرے پر بحا لی آ گئی۔ ہجے لہک کر بولی،

    ’’آم‘‘

    ’’کیوں لڑکیوں، کے کے آم کھاؤگی؟‘‘

    ’’ہجے، ’’دو، دو!‘‘

    دادا میاں نے ہر لڑکی سے پوچھا۔ ہر ایک نے یہی جواب دیا، ’’دو، دو‘‘ لیکن فتو ہمت کر کے بولی ’’تین تین‘‘ پھر کیا تھا سب لڑکیاں چلا اٹھیں،

    ’’تین تین‘‘ ہاں دادا میاں ’’تین تین‘‘ میں نے دل کو مضبوط کر کے کہا،

    ’’چار چار‘‘ پھر تو ہر طرف سے شور ہونے لگا، ’’چار چار‘‘، اسی طرح بولی بڑھتی گئی اور دس پر آکر ٹھہری۔ اس سے آگے بڑھتے لڑکیاں ڈر رہی تھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دادا میاں ناراض ہو جائیں اور پھر جتنے آم مل رہے ہیں وہ بھی نہ ملیں۔

    دادا میاں خاموشی سے سن رہے تھے۔ جب نیلامی بولی آگے نہیں بڑھی تو وہ کہنے لگے،

    ’’اچھا اگر تم کو گیارہ گیارہ ملیں؟‘‘

    ’’اب تو لڑکیوں میں جیسے خوشی کی مرچیں لگ گئیں۔‘‘ وہ بے تابی سے چیخنے لگیں،

    ’’ہاں دادا میاں۔ گیارہ گیارہ‘‘

    ’’اور اگر بارہ بارہ ملیں؟‘‘

    لڑکیاں ٹھٹھے مارنے لگیں۔ دو چار دادا میاں سے چمٹ بھی گئیں سب شور کر رہی تھیں۔

    ’’ہاں دادا میاں بارہ بارہ‘‘

    ’’اور اگر پیٹ بھر کے ملیں؟‘‘

    اب تو لڑکیاں ناچنے لگیں اور غل شور سے انہوں نے سارا گاؤں سر پر اٹھا لیا۔ اتنا شور ہوا کہ اور بچے بھی آنے لگے اور بھیڑ بڑھنے لگی۔

    دادا میاں نے آواز دی، ’’میکو آموں کا ٹوکرا اور بالٹیوں میں پانی لے آؤ۔‘‘

    بالٹیوں میں پانی آ گیا۔ اس میں آم ڈال دیئے گئے اور سب لڑکیاں اور لڑکے چوسنے لگے۔ آم کھلانے کے بعد دادا میاں نے دودھ منگوایا۔ اسے دیکھ کر ہندو لڑکے لڑکیاں کھسکنے لگے تو دادا میاں نے کہا،

    ’’کہاں چلیں؟ تمہارے لئے بھی دودھ آ رہا ہے۔‘‘

    ہندو بچوں کے لئے الگ دودھ آ گیا۔ ساتھ ساتھ آنجورے بھی، دوپہر تک یہی ہنگامہ رہا۔

    میری شادی بھی ان ہی درختوں کے نیچے ہوئی تھی۔ بڑا سا شامیانہ لگایا گیا تھا۔ نیچے دریاں۔ چاندنیاں اور قالین بچھے تھے۔ رنڈیاں ’’مبارک باشد‘‘ گا رہی تھیں۔ کتنا شور تھا۔ پلاؤ کی دیگ دے جاؤ۔ بفاتی کہاں اڑ گیا؟ ارے دودھ کا گھڑا کس نے لنڈھا دیا۔ اے میکو، اے کلو، اے رمضانی۔ اے مدار بکس، اے منگل داس، اے باباجی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ اس پر روشن چوکی کا شور، برتنوں کی کھنا کھن۔ دیگوں کی ٹھن ٹھن، بچوں کا رونا۔ گھوڑوں کا ہنہنانا، سب کیسا عجیب سا اور بھلا سا معلوم ہوتا تھا۔

    میں دلہن بنی پسینے میں شرابور ایک کوٹھڑی میں منہ ڈھکے لیٹی تھی۔ رہ رہ کر ان کا خیال آتا تھا۔ دادا میاں کی یہی خواہش تھی کہ ان کے پوتی پوتا میں رشتہ ہو جائے۔ اس لئے ان کے انتقال کے بعد ابا اور چچا نے رشتہ طے کر لیا۔ منگنی ہوتے ہی مجھے تو ان کے نام سے شرم آنے لگی اور پردہ کرنے لگی۔ لیکن وہ مجھے موقع نکال نکال کرتا کنے لگے۔ ان کی وہ شرارت کہ اس درخت میں جھولا ڈالا اور کھڑے ہو کر اتنے بڑے بڑے پینگ لینے لگے کہ میں کوٹھے پر تھی اس پر بھی ان سے نظریں مل گئی۔ پھر تو تانیں مارنے لگے۔

    کاکل کی طرح آج جو بل کھائے ہوئے ہو

    معلوم ہوا غیر کے بھڑکائے ہوئے ہو

    میں اپنے دل میں کہنے لگی کہ یہ غیر یا تو اماں کو کہہ رہے ہیں یا ابا کو لیکن ان میں سے کسی پریہ تمہت دھرنا کہ انہوں نے مجھے بھڑکایا ہے۔ کیسی بری بات ہے۔

    مومنہ اپنا یہ بھولاپن یاد کر کے مسکرادی۔ آج اسے جھولے کا قصہ برسوں بعد یاد آیا۔ ورنہ وہ اسے کب کی بھول چکی تھی۔

    مومنہ کی جب آنکھ کھلی ہے تو سورج چوتھائی آسمان طے کر چکا تھا۔ اور وہ دھوپ میں پڑی جل رہی تھی۔ کھیت، باغ مندر او رمکان سب دھوپ سے مالا مال تھے۔ مومنہ نے انگڑائی لے کر رنگین اور سنہرے زمین و آسمان کی طرف دیکھا اور اٹھی۔ اٹھتے ہی اسے خیال آیا کہ کہیں کسی نے مجھے دیکھ نہ لیا ہو اور کہیں یہ گاؤں ہندوؤں کا نہ ہو۔ اس خیال کا آنا تھا کہ وہ کانپ گئی اور اپنے کو اس طرح بے خبر ہو جانے پر برا بھلا کہنے لگی لیکن اسے کسی طرف آدمی کا نام و نشان بھی نظر نہیں آیا۔ کھیت خالی۔ باغ خالی۔ کچا راستہ خالی۔ گاؤں کے اندر بھی نہ کوئی آدمی چلتا پھرتا نظر آ رہا تھا۔ اور نہ کسی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے یہ دیکھ کر اطمینان بھی ہوا اور حیرت بھی۔ گاؤں خالی کیوں ہے؟

    کہیں ایسی بات تو نہیں کہ یہاں کے سب بسنے والے مسلمان ہوں اور وہ ڈر کر پاکستان بھاگ گئے ہوں۔ ممکن تو ہے ایسا؟ پر ابھی ذرا اور دیکھ لینا چاہیئے کہ وہاں کوئی ہندو یا سکھ تو نہیں ہے۔

    مومنہ کو بھوک بہت سخت لگی تھی۔ ایک برساتی گڈھے سے پانی پی کر اس نے پیٹ پھلا لیا۔ اس وقت اسے یہ خوش خبری ملی کہ اس کی قمیص اور ڈوپٹہ سوکھ چکے ہیں۔ صرف شلوار کمر کے پاس بھیگی رہ گئی ہے۔ مومنہ نے اطمینان کر کے کہ آس پاس واقعی کوئی آدمی نہیں ہے ڈوپٹہ کی تہمد باندھ لی اور شلوار سوکھنے پھیلا دی۔

    جب مومنہ کی نظر اپنی برہنہ پنڈلیوں پر پڑی تو دل پر ایک سخت گھونسا لگا کہ ہائے اس جسم پر ان چار پانچ دنوں میں کیا کیا بیت گئی۔ ہائے کیسی بے حیائی کے دن رات کاٹنا پڑے ہیں۔ دو روز تک تو میرے اور میرے گاؤں کی پندرہ بیس عورتوں کے جسم پر کپڑے کی ایک دھجی تک نہ تھی۔ اس حال میں سو دو سو مردوں کے بیچ میں رہنا پڑا۔ وہ ان کا شراب پی پی کر ننگے ناچنا اور مظلوم عورتوں پر جفائیں ڈھانا۔

    اف اس کلوٹے موئے بودار گالی بکنے والے کے بازوؤں میں۔ کم بخت مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے مجھے استعمال کرتا تھا۔ ہائے میں کیوں نظارہ دیکھ رہی۔ کیوں نہ میں ہجے کی طرح دوڑ کر کنوئیں میں پھاند پڑی۔ میں بے حیا یہ شرمناک زندگی لے کر اب کہاں جاؤں۔ شرمناک سی شرمناک۔۔۔ اف۔

    مومنہ کو اپنی دودھ پیتی بچی لاڈلی کا آنکھوں کے سامنے مارا جانا یاد آ گیا اور پھر ایک ہائے کے ساتھ پورا منظر آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔

    یہی کوئی دن کے نو بجے ہوں گے۔ ابا باہر کی کوٹھڑی میں بھوسا بھروا رہے تھے تاکہ بارش میں خراب نہ ہو جائے۔ چچا نے باہر پیڑ کے نیچے حقہ منگوایا تھا۔ بچے مدرسے جانے کے لئے روٹی مانگ رہے تھے اور مہرن جلدی جلدی ان کے کھانے کا بندو بست کر رہی تھی کہ ابا، چچا اور وہ بھاگتے ہوئے گھر میں آئے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آتے ہی چلائے، ’’پردے میں جاؤ۔ پردے میں جاؤ۔‘‘ میں چھپی رقیہ اور لڑکیاں ابھی کمرے میں گھنے آ بھی نہ پائے تھے کہ ابا نے پکارا۔ اندر آ جاؤ۔‘‘ آواز کے ساتھ ہی خیراتی۔ مولا، گنی جمعراتی سب لاٹھیاں لئے اندر آ گئے۔ پھاٹک بند کر لیا گیا۔ ابا نے حکم دیا کہ ’’خرکاتی تم اوپر چھت پر چڑھ جاؤ۔ چچا سے کہا تم گنی اور مولا کو لے کر پچھواڑ سے کے دروازے پر جاؤ۔ خود ابا ان کو ساتھ لے کر پھاٹک کی طرف گئے۔

    ان لوگوں کے آنے سے پہلے میں لاڈلی کو دودھ پلا رہی تھی۔ اس وقت کچھ شور کان میں آیا۔ میں سوچنے لگی کہ ایک تو آج بازار کا دن نہیں ہے اور دوسرے یہ دہلی والی سڑک کی طرف سے آ رہا ہے۔ یہ شور کیسا ہے؟ اب جو یہ ہنگامہ ہوا تو میں سمجھی کوئی بہت خوفناک بات ہے۔

    ابھی ابا اور چچا وغیر اپنی جگہوں پر بھی نہیں پہنچے ہوں گے کہ شور ہمارے گھر کے قریب آ گیا اور یہ نعرے سنائی دینے لگے۔

    ’’بجرنگ بلی کی جے۔‘‘

    ’’مسلمانوں کا ناس ہو۔‘‘

    ’’خون کا بدلہ خون ہے۔ مسلمانوں کو بھارت سے نکال دو۔‘‘

    ’’مہاتما گاندھی کی جے۔‘‘

    بندوقیں دغیں۔ مرنے والوں کی چیخیں سنائی دیں اور ذرا دیر میں ہمارے پھاٹک پر دھڑ دھڑ ہونے لگا۔ پھر اتنا شور ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ کئی بندوقیں ایک ساتھ چھوٹیں۔ ابا کی چیخ سنائی دی اور ساتھ بجرنگ بلی کی جے اور پھر ہمارا صحن حملہ آوروں سے پٹ گیا۔ ان لوگوں میں کھدر کی ٹوپیاں بھی تھیں، فوجی وردیاں بھی تھین، سادھو اور سنااسی بھی اور ہمارے گاؤں کے بہت سے ہندو بھی تھے۔ ذرا دیر میں یہ لوگ ایک بلی لائے اور اسے دس بارہ آدمی پکڑ کر جھونک دے کر جس کمرہ میں ہم تھے اس کے ایک کنواڑے پر مارنے لگے۔ وہ چر چر کرنے لگا۔ ہم سب کو اپنی موت کا یقین ہو گیا۔ جو جو آیتیں یاد آئیں پڑھنے لگے بچوں کو سمجھایا کہ روؤ نہیں، خدا کو یاد کرو۔ اتنے میں چچا اور مولا کسی طرف سے دوڑتے ہوئے کمرے کی طرف آئے اور لاٹھیاں تان کر دروازے کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ لیکن وہ ابھی قدم جما بھی نہیں پائے تھے کہ چھ سات بندوقیں ایک ساتھ چھوٹیں اور وہ دونوں جس جگہ تھے وہیں ڈھیر ہو گئے۔ میری آنکھوں میں دینا اندھیر ہو گئی اور منہ سے چیخ نکل گئی۔ چچی نے کان میں کہا، ’’بی بی۔ خدا کو یاد کرو۔‘‘

    ان دونوں کے مرتے ہی دروازہ ٹوٹ گیا۔ حملہ آور اندر آ گئے اور ہم سب کو پکڑ پکڑ کر بات کی بات میں گھر کے باہر پہنچا دیا۔ ایک جو ان پستول ہاتھ میں لئے کھڑا احکام دے رہا تھا۔ اس نے میری اور مہرن کی صورت دیکھ کر کہا،

    ’’یہ لڑکی تو کام کی ہے اور یہ عورت بھی کچھ بری نہیں۔ لیکن اس کی گود میں کیا جھنجھٹ ہے۔ پھینکوا سے۔‘‘

    میں لاڈلی کو چمٹا کر بیٹھ گئی۔ لیکن تین چار جوانوں نے مجھے پچھاڑ کر لاڈلی کو چھین لیا اور ایک ٹانگ پکر کر زمین پردے مارا۔ اس کا بھیجا بہہ نکلا۔ ہائے اس کی بجھتی ہوئی وہ نظریں! ماں مر جائے اس کے عوض۔ ظالموں نے اس پر ایک قہقہہ لگایا۔

    لاڈلی کا دم نکلا ہی تھا کہ چند حملہ آور ان کو مع شمس و قمر کے کھینچتے ہوئے لائے اور سردار سے کہا،

    ’’یہ اپنے بچوں کو لے کر بھاگ رہا تھا۔‘‘

    وہ زخمی تھے۔ ہو سکتا ہے کہ بچوں کو بچانے کے لئے انہوں نے کچھ مقابلہ بھی کیا ہو۔ سردار نے حکم دیا کہ ان کو اسی طرح کنوئیں میں ڈال دو۔ سامنے ایک کنوئیں میں لاشیں پھینکی جا رہی تھیں۔ اسی میں وہ جھونک دیئے گئے۔ ہائے وہ اندر سے رہ رہ کر پکارتے تھے، ’’ظالمو! خدا کے لئے مجھے ایک گولی ماردو۔‘‘ ان کی طرف سے میں، بھی ایک ایک کی خوشامد کرتی رہی۔ پر کسی نے گولی نہ ماری۔

    شمس اور قمر کو ٹھائیں ٹھائیں گولیاں مار دی گئیں اور وہ ہائے اماں کہہ کر ختم ہو گئے، پھر مردہ بیٹوں کو زندہ باپ کے اوپر جھونک دیا گیا۔ آنکھوں کے سامنے میرا سارا خاندان مارا گیا اور کنوئیں میں چھونک دیا گیا۔ مجھے اور مہرن کو ننگا کر کے ننگی عورتوں کے غول میں شامل کر دیا گیا۔ اسی غول میں ہجے بھی تھی اور سرجھکائے مہرن کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔

    اسی رات ظالموں نے خوب شرابیں پی اور ہم لوگوں کو بے دردی سے استعمال کیا۔ ہمارے آنسوؤں اور چیخوں سے ان لوگوں کو مزہ آتا تھا اور جوش میں اضافہ ہوتا تھا، ’’ہجے موقع پاکر ان لوگوں کے بیچ سے نکل بھاگی اور تیر کی طرح جاکر ایک کنوئیں میں جو سامنے کچھ دور پر تھا۔ کود پڑی۔ کیسی بہادر اور خوش نصیب تھی وہ۔ ان لوگوں کو ایک مال کے ضائع ہو جانے کا افسوس تو بہت ہوا لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ نکالنے کی کوشش کرتا۔

    صبح عورتوں کی تقسیم ہوئی، مہرن نامراد کو خدا جانے کون لے گیا۔ میں کلوٹے خبیث کے حصے میں آئی۔ وہ لے کر اپنے گھر آیا۔ ہائے وہاں کی شرمناک زندگی۔ باتوں سے مجھے پتہ چل گیا کہ وہاں سے پاکستان کی سرحد قریب ہے۔ گزشتہ رات اندھیرے اور کالی گھٹا کو غمگسار پاکر گھر سے نکل بھاگی اور اپنے حساب سے پاکستان کی طرف چل دی۔ اب پتہ نہیں کہ کہاں ہوں۔ ہائے مجھ بے حیا میں اتنی ہمت کیوں نہیں ہے کہ ہجے کی طرح اپنی ناپاک زندگی کا خاتمہ کر لوں۔

    ان خیالات کے ساتھ مومنہ کے دل میں ایک ہوک اٹھی جو دل و دماغ کو اس طرح پتانے لگی جیسے دہکتی بھٹی میں لوہا۔ آہ! چاروں طرف نالے۔ تال۔ تلیاں۔ حد یہ ہے کہ ذرا ذرا سے گڈھے تک پانی سے لبریز تھے، لیکن مومنہ کی آنکھیں تھیں کہ دو بوند پانی کے لئے اس طرح تڑپ رہی تھیں۔ جیسے تپتے صحرا میں ریت کے ذرے۔

    کئی روز کی بارش کے بعد جو دھوپ نکلی تو چیونٹیاں انڈے سکھانے اور غذا جمع کرنے کے لئے باہر نکل پڑیں۔ ان کی ایک فوج نے ایک جیتی جاگتی بڑیکو پکڑ لیا اور درجنوں کی تعداد میں اس کے پیروں، بازوؤں۔ پیٹ اور سر میں چمٹ گئیں اور اسے گھسیٹ کر لے چلیں۔ پھڑ پھڑاتی تھی۔ لیکن اس کے بازو اور پاؤں سب اس بےپناہ فوج کے سامنے بیکار تھے۔ اگر وہ تڑپ کر اپنے جسم کا کوئی حصہ چھڑا بھی لیتی تھی تو پھر اس جگہ ایک کے بجائے چار چیونٹیاں چمٹ جاتیں۔ چیونٹیاں بھڑکو کشاں کشاں لئے جا رہی تھیں۔ کھینچے لئے جا رہی تھیں۔

    مومنہ جب اپنی کہانی کو اپنے من میں دہرا رہی تھی۔ اس کی نظریں بھڑ اور چیونٹیوں پر جمی ہوئی تھیں۔ اپنی داستان کے خاتمہ پر پہنچنے ہی اسے خیال آہا کہ ایک چیونٹی کاٹ لے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے پھر اس بیچاری بھڑکا کیا حال ہوگا؟ بےرحم چیونٹیو! کس بے دردی سے ایک زندہ جسم کو کھا رہی ہو۔ کیا اناج کے دانے تم کو میسر نہیں آتے۔ اس بچاری نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ ایک جان پر ہزاروں ٹوٹ پڑی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس بھڑ کے بچے ہوں اور اس کے نہ ہونے سے بھوکے پیاسے مر جائیں۔

    مومنہ نے ایک تنکا اٹھا کر اس سے چیونٹیوں کو بھگا دیا۔ لیکن بھڑ اتنی زخمی ہو چکی تھی کہ وہ آزاد تو ہو گئی۔ پر اڑنہ سکی۔

    افسوس اپاہج کر دیا اس بچاری کو۔ اب جئے گی بھی تو سسک سسک کر۔ اس سے تو اچھا ہوتا اگر چیونٹیاں اسے ایک ہی دفعہ میں نگل جاتیں۔

    مومنہ نے ایک پتے سے بھڑکو اٹھا کر درخت پر بٹھادیا۔ کہ وہ وہاں حفاظت سے رہے۔ جب اچھی ہو جائے اپنے چھتے چلی جائے ورنہ سکون سے مر جائے۔

    شلوار سوکھ چکی تھی۔ دکھیا بھڑکو بچانے کی خوشی کے علاوہ مومنہ کو ایک خوشی اور بھی میسر آ گئی۔ وہ یہ کہ رات بارش میں بھیگنے کی وجہ سے اس کے گندے کپڑے، گندہ جسم اور گندہ سر یہ سب صاف ہو گئے تھے۔ بس کنگھی کی کسر تھی۔

    مومنہ کا دھیان گاؤں کی طرف لگا ہوا تھا۔ اتنی دیر ہو چکی تھی آبادی کی کوئی علامت نظر آتی تھی۔ نہ کوئی آدمی آتا جانا دکھائی دیتا تھا۔ نہ بچے کھیلنے نکلے تھے اور نہ کھیتوں سے کسی نے کسی کو پکارا تھا۔ گاؤں یقیناً بےروح تھا۔

    مومنہ پگ ڈنڈی پگ ڈنڈی پر جا رہی تھی، لیکن بہت چوکنا۔ ہوا پرکان لگائے ہوئے اور پتے پتے کی حرکت بھانپتی ہوئی۔ پگ ڈنڈی نے ذرا سا چکر دے کر دوسرے رخ سے گاؤں میں پہنچا دیا۔ گاؤں واقعی خالی تھا۔ ہر طرف آگ کی کارستانیاں اور تباہ کاریاں نظر آ رہی تھیں۔ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ بارش نے آکر کوئلے کو راکھ ہونے سے بچالیا ہے۔ چھتیں ڈھیر تھیں، کواڑے کوئلہ بن کر مکان کے سامنے آ رہے تھے اور گھروں کے اندر نہ کوئی کھٹیا تھی، نہ برتن اور نہ کسی قسم کا سامان۔ یا تو کوئلہ تھا یا پھر مٹی کے برتنوں کے ٹھیکرے جوہر گھر کے اندر اور باہر کثرت سے نظر آتے تھے۔

    مومنہ آگے بڑھی تو حلوائی کی دوکان نظرآئی۔ اس کا خوانچہ سجانے والا چبوترہ باقی رہ گیا تھا۔ یہاں مومنہ کی نظر ایک ایسی چیز پر پڑی کہ وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔ غور سے دیکھنے لگی، یہ واقعہ تھا کہ چبوترے کی دیوار پر کوئلے سے اللہ اکبر لکھا ہوا تھا۔ جو بارش سے آڑ میں ہونے کی وجہ سے دھندلا سا باقی رہ گیا تھا۔ اس کے آگے بھڑ بھونجے کا بھاڑ ملا۔ یہاں بھی دیوار پر اللہ اکبر لکھا ہوا نظر آیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ یہ گاؤں مسلمانوں کا تھا اور آگ نے ان کو بھگا دیا؟ لیکن ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے؟ دیکھو ان کھیتوں کو جو کھڑے لہلہا رہے ہیں۔ بھلا ان کو چھوڑ کر وہ لوگ کہیں دور جا سکتے ہیں لیکن اگر آس پاس ہوتے تو کھیتوں میں تو نظر آتے۔ پھر کیا ہوا؟

    مومنہ کو اللہ اکبر دیکھ کر گاؤں سے ایک قربت سی محسوس ہونے لگی۔ گویا وطن سے بہت دور، ویرانے میں اسے ایک اپنا مل گیا۔ یہ گاؤں ویران ہونے پر بھی آباد محسوس ہو رہا تھا اور جی تڑپ تڑپ کر کہہ رہ اتھا کہ مومنہ اس کے در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر اپنی وہ رام کہانی ساردے جس کا سننے والا میسر نہیں آرہا ہے اور یہ پہاڑ سا بوجھ اس سے بٹا لے۔

    گاؤں! مومنہ کو بےاختیار اپنا گاؤں یاد آ گیا۔ جس دن میں حسرت کے ساتھ اس سے رخصت ہو رہی تھی۔ کتنی ویرانی تھی اس کی آبادی میں۔ ہر چہرا اجنبی، ہر آنکھ نفرت سے بھری، ہر مکان اپنے مکینوں کی یاد میں سوگوار۔ رحیم درزی کی دوکان پر نہ وہ تھا نہ اس کا لڑکا۔ نہ مشین نہ کپڑے۔ ایک اجنبی بیٹھا ہوا موٹے ڈنڈے سے بھنگ گھونٹ رہا تھا۔ ڈنڈے میں بندھے گھونگرو چھن چھن بول رہے تھے اور وہ اس کی گت پر جھوم جھوم کر تانیں اڑا رہا تھا۔ مرادی کے دروازے پر جو میدان تھا جہاں کل تک وہ اور اس کے بیٹے دوڑ دوڑ تاگے کے لچھے سلجھاتے تھے اور تانا تانتے تھے اور پھر تھان بنتے تھے جس میں ایسے ایسے پھول ڈالتے تھے کہ بس بیٹھے دیکھا کرو، وہاں اب میلی گندی عورتیں سر جھاڑ منہ پہاڑ بیٹھی جو میں دیکھ رہی تھیں۔ سرد ہو رہی تھیں اور سب کے سامنے نہا رہی تھیں اور بچوں کو دودھ پلا رہی تھیں۔

    ڈیوڑھی میں، عورتوں سے ذرا آڑ میں ایک جوان مگدر کی جوڑی ہلا رہا تھا۔

    مرادی کے مٹھو میاں درخت سے لٹکے ہوئے اپنے کھانے کی کٹوری بجا رہے تھے اور بی بی جی، بی بی جی، کی رٹ لگا رکھی تھی۔ ایک لڑکی کچھ دینے آئی تو مٹھو میاں نے خوش ہوکر صدا لگائی، ’’منی جی بھیجو۔‘‘

    اسے سنتے ہی لڑکی نے ہاتھ روک لیا اور ایک ستر، اسی برس کی بڑھیانے دور سے چلا کر کہا،

    ’’اری چھوکری تو کس کا پیٹ پال رہی ہے۔ دیکھتی نہیں ہے کہ وہ حرامزادہ مسلمان ہے۔ مار ڈال اسے۔‘‘

    لڑکی نے پنجرا اٹھا کر ٹپک دیا۔ لیکن مٹھو مرا نہیں۔ ٹیں ٹیں کرنے لگا۔ اس میں فریاد تھی کہ آج تک کسی نے سوائے مٹھومیاں مٹھومیاں کہنے کے میرے ساتھ برا تاؤ نہیں کیا۔ تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو۔

    جہاں پنجرا لٹکا تھا وہ جگہ مگدر ہلانے والے جوان کے سامنے تھی اور وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے باہر آکر لڑکی سے کہا،

    ’’واہ ری چھوکری۔ مٹھی بھر کا مسلمان تجھ سے نہیں مرتا۔‘‘

    پہلوان نے رومال ہاتھ پر لپیٹ کر پنجرے میں ہاتھ ڈالا اور مٹھو میاں کی گردن مروڑ کر پنجرے کے باہر پھینک دیا اور خود جا کر بدستور مگدر ہلانے لگا۔

    پنجرے کے پٹ کھلے تھے اور وہ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ اس سے ذرا ہی دور پر طوطا پڑا تھا۔ جس کی سرخ چونچ گردن ٹوٹ جانے کی وجہ سے سبز پروں کے بیچ میں آ گئی تھی۔ مٹھو میاں مٹھومیاں۔ نبی جی بھیجو۔ نبی جی بھیجو کی رٹ لگانے والی زبان ہمیشہ کے لئے خاموش ہو چکی تھی۔

    شاہی زمانے کی خوبصورت مسجد جسے دور دور سے لوگ دیکھنے آتے تھے۔ اس کے کٹاؤ دار محراب کو بیلچوں سے زخمی کر کے وہاں گیرو سے ایک مورت بنا دی گئی تھی اور گھنٹہ لٹکا دیا گیا تھا۔ اب وہ مندر تھا۔ جہاں ایک پجاری بھی بیٹھا ہوا تھا، اپنے گھر کی حالت! اف یاد کر کے کلیجہ پھٹتا ہے۔

    مومنہ ان خیالوں میں ڈوبی ہوئی شوالے تک آ گئی۔ یہاں ایک چیز بالکل خلاف توقع نظر آئی۔ اس کے کلس سے ایک جانور کا سر لٹک رہا تھا۔ جس کی آنکھیں اور گوشت کوے نکال کر کھا گئے تھے اور کھال بگڑ چکی تھی۔ لیکن پھر بھی سینگ اور چہرہ بتا رہے تھے کہ میں گائے کا سر ہوں۔ شوالے کے اندرشیو کا استھان توڑ پھوڑ ڈالا گیا تھا اور کوئلے سے محراب بنا کر اللہ اکبر لکھ دیا گیا تھا۔

    مومنہ نے ادھر اس مسجد کو دیکھا اور ادھر اس کی ناک میں اتنی سخت تعفن آئی کہ جی متلانے لگا۔ لیکن یہ دیکھ کر اس کے دل میں کچھ سکون ہوا کہ دنیا میں ایک جگہ تو ایسی نکلی جہاں مسجد نے مندر کو فتح کر لیا ہے ہو نہ ہو، یہ جگہ پاکستان ہے۔ خدا چاہے گا تو یہاں ایسے ایسے پرسکون نظارے بہت دیکھتے میں آئیں گے۔

    مومنہ دونوں درختوں کے نیچے کھڑی اس مکان کو دیکھ رہی تھی جو دور سے اسے اپنے گھر سے ملتا جلتا نظر آیا تھا۔ اس کے گھر ہی کی طرح اس میں بھی باہر بیٹھکا اور بغل میں حاطہ تھا۔ جس میں برابر برابر بہت سی ناندیں لگی ہوئی ان سروں کو یاد کر رہی تھیں جوان سے گھنٹوں کانا پھوسی کرتے رہتے تھے۔ یہاں بھی حاطے کے اندر اور باہر مٹی کے برتنوں کے ٹھیکرے بکھرے پڑے تھے۔ بیٹھکے کے سامنے تینوں دروازے اور ایک وہ دروازہ جو بیٹھکے کے اندر سے گھر میں کھلتا تھا یہ سب پاٹو پاٹ کھلے تھے اور گھر کے اندر کا بہت سا حصہ نظر آ رہا تھا۔ بیٹھکے کے بعد دالان تھا پھر بہت بڑا صحن پھر کھپریل جو جل کر نیچے ڈھیر ہو چکی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور دالان اور وہ بھی آگ کا شکار ہو چکا تھا۔

    یہ بیٹھکا دیکھ کر مومنہ کو اپنا بیٹھکا یاد آ گیا۔ وہ بھی اسی طرح پھاٹک کے بغل میں تھا۔ وہاں جاڑوں میں رات گئے تک تاش اور شطرنج ہوتی رہتی تھی۔ اور قہقہے گونجا کرتے تھے کبھی کبھی کوئی شخص تانیں بھی مارنے لگتا تھا۔ گرامو فون کا چسکا لگ جاتا تھا تو روز وہی بجا کرتا تھا۔ وہی گنتی کے چند ریکارڈ تھے سننے والے روز سنتے تھے دن میں دو دو تین تین بار اور کبھی کبھی تو دن دن بھر سنتے تھے۔ مومنہ سوچنے لگی کیا اس بیٹھکے میں بھی یہی ہوا کرتا ہوگا؟ اس سوال میں اور اس یاد میں کچھ اتنا زور تھا کہ وہ مومنہ کو ڈھکیل کر بیٹھکے کے اندر لے گیا۔ یہاں پہنچتے ہی اس کی نگاہ ایک ایسی چیز پر پڑ گئی جس کے لئے صبح سے اس کا جوڑ جوڑ بلک رہا تھا۔ بیٹھکے کے اندر کچھ چنے اس طرح بکھرے ہوئے پڑے تھے جیسے پھوہڑ پن سے رکھنے اٹھانے سے اناج بکھر جاتا ہے۔ لیکن بارش کی بوچھار اور نمی سے ان میں اکھوے پھوٹ آئے تھے۔ مومنہ ان چنوں پر اس طرح ٹوٹ پڑی جیسے بھوکی مرغیاں دانے پر گرتی ہیں اور ان کو چن چن کر کھانے لگی۔ کھاتی جاتی تھی اور سوچتی جاتی تھی کہ اکھوا پھوٹے چنے بھی مزے کے ہوتے ہیں۔ نہ نمک، نہ مرچ۔ مگر کیسے سوندھے معلوم ہو رہے ہیں۔ سچ ہے کہ بھوک میں ہر چیز مزا دیتی ہے۔

    چنے کھاتے کھاتے مومنہ کی نظر بیٹھکے اور گھر کے درمیانی دروازے پر پڑی اور کچھ دیکھ کر وہ اچھل پڑی۔ ایک کتیا کھڑی بہت غور سے مومنہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مومنہ پہلے تو ڈری کہ کہیں یہ مجھ پر حملہ نہ کردے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں خونخواری نہ پاکر چمکارا۔ کتیا دم ہلانے لگی۔ اس نے پھر چمکارا۔ پھر تو کتیا کوں کوں کرتی ہوئی دوڑی اور مومنہ کے پاؤں پر لوٹنے لگی اور اس کے گرد تصدق ہونے لگی۔ اس کی بے تاب محبت دیکھ کر مومنہ کو سرور سا آنے لگا۔ افوہ کتنے دنوں کے بعد محبت ملی ہے۔ اس نے کتیا کو چمٹا لیا۔ گویا بہت دنوں کے بچھڑے ہوئے اچانک مل گئے ہیں۔ چمٹانے کے بعد مومنہ کو خیال آیا کہ کتا نجس ہوتا ہے۔

    جب پیار ہو چکا تو کتیا اندر بھاگ گئی۔ دم بھر میں واپس آکر مومنہ کے قدموں پر لوٹنے لگی اور پھر اندر بھاگ گئی۔ اور پھر باہر آکر قدموں پرلوٹنے لگی۔ مومنہ سمجھ گئی کہ یہ مجھے اندر لے جانا چاہتی ہے۔ وہ اسی مکان میں رات بسر کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے اس کا کچھ ارادہ ہو رہا تھا کہ اندر کا ایک جائزہ لے لوں۔ کتیا کے بلاوا دینے سے وہ نڈر ہو گئی اور اس کے پیچھے پیچھے اندر چلی۔ مکان سادہ سا بنا ہوا تھا۔ بیٹھکے کے پیچھے دالان تھا اور بغل میں ایک چھوٹا سا کمرہ، مکان کا سامنے کا حصہ تو جل گیا تھا، پر آگ صحن پار کرکے اس طرف نہیں آئی تھی۔ یہ ہوا کی مہربانی ہو یا بارش کی۔

    کتیا کمرے کی طرف مڑی۔ مومنہ نے جیسے ہی ادھر دیکھا اس کا دل دھک سے ہو گیا اور منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ لیکن اس نے فوراً ہی اپنے کو سنبھال لیا۔ ڈر کی کوئی بات نہیں تھی اس کے سامنے صرف ایک چھوٹا سا دبلا پتلا حقیر سا ننگا مادر زاد لڑکا تھا۔

    لڑکے کا ایک پہلو، ایک بازو۔ سینہ اور سر اور شاید دونوں آنکھیں آگ نے چاٹ لی تھیں ان زخموں سے پانی بہہ رہا تھا اور ان پرمکھیوں کے جھنڈ بھنک رہے تھے جن کو لڑکا کراہ کراہ کر نحیف ہاتھوں سے اڑا رہا تھا۔

    لڑکا پر نالے کے نیچے کے گڈھے کو ٹٹول رہا تھا۔ شاید پانی کی تلاش میں تھا۔ جب وہ نہیں ملا تو اس کے منہ سے ہائے ماں نکل گیا اور پھر وہ ہاتھوں اور کولھوں کے بل گھسٹتا ہوا کمرے کے اندر گیا اور زمین پر کروٹ سے لیٹ گیا۔ اس لڑکے کے علاوہ گھر مین کوئی انسان نہ تھا اور نہ کسی قسم کا ساز و سامان یہاں تک کہ پینے کے پانی کے لئے ایک برتن بھی نہ تھا۔

    کتیا جوش میں لڑکے کے پاؤں چاٹنے لگی۔ لڑکا کراہ کر بولا،

    ’’کیا بات ہے آشا تو بھی بھوکی پیاسی ہوگی۔‘‘

    مومنہ کے خوف کی جگہ ترس نے لے لی اور پھر ترس ’’ہائے ماں‘‘

    سن کر مامتا بن گیا۔ ہائے یہ ننھا سا اپاہج اس اندھیر نگری میں بالکل ہی اکیلا ہے بچارا! سوائے آشا بے زبان کے کوئی پوچھنے والا تک نہیں۔ کوئی دو بوند پانی دینے والا تک نہیں۔ بچارا پر نالے کے نیچے کے گڈھے میں پانی ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک بوند بھی نہ ملا۔

    مومنہ کی آنکھیں مامتا سے نم ہو گئیں اور وہ دبے پاؤں ذرا اور قریب چلی گئی، آشا خوشی سے اچھلنے لگی۔

    لڑکے نے کراہ کر کہا، ’’ہے رام۔‘‘

    ہے رام سنتے ہی مامتا پر بجلی گر پڑی اور اس نے شعلۂ جوالہ بن کر مومنہ کے تن بدن کو پھونک دیا۔

    یہ تو ہندو ہے ہندو، پھر تو یقیناً اس پر خدا ئی قہر ٹوٹا ہے۔ ان کم بختوں نے کس بےدردی سے میری ہنستی کھیلتی لاڈلی کو اٹھا کر پٹکا ہے اور اس پر قہقہہ لگایا ہے۔ ہائے ان بچاروں کا زندہ کنوئیں میں اپنے بیٹوں کی لاشوں سے دبا دیا جانا! اف! نہ جانے کتنے دنوں میں جان نکلی ہوگی۔ میرے پیارے سمش و قمر، ان کا چیخ مار کر اماں پکارنا بدنصیب مہرن۔ خدا جانے زندہ بھی ہے اور اگر زندہ ہے تو اس کی کیسی کٹ رہی ہے؟ ہائے کیسے کیسے داغ ہیں میرے دل پر۔ یہ ظالم پاپی ہندو تو اس قابل ہیں کہ ان کا ایک ایک بچہ اسی طرح سسکا سسکا کر مارا جائے اور مرتے وقت بھی ایک بوند پانی نہ دیا جائے۔

    مومنہ نے تھوڑی دیر لڑکے کے کراہنے اور تڑپنے کا سکوں بخش نظارا دیکھا اور پھر وہ جس طرح دبے پاؤں آئی تھی اسی طرح دبے پاؤں باہر چلی۔ اس کے منہ موڑتے ہی پھر سخت تعفن کا جھونکا آیا جس سے اس کی روح تلملا گئی۔

    بچے کی تنہا آس آسا مومنہ کی طرف حسرت سے دیکھنے لگی۔ اور اس کے قدموں پر لوٹنے لگی۔ لیکن مومنہ کے لوٹتے ہوئے قدموں پر برک نہ لگا سکی۔

    بیٹھکے میں آ کر مومنہ چنے سمیٹ کر آنچل میں بھرنے لگی۔ اس وقت اس کی نظر ایک اونچے طاق پر پڑی جس میں سونڈ والے دیوتا کی مورتی رکھی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گھر ہی ہندو کا ہے ایک ہندو کے گھر میں پنا ہ لینے سے اس درخت کے نیچے زندگی کاٹنا لاکھ درجے بہتر ہے جہاں میری بھڑ رہتی ہے۔

    دھوپ کی تیزی جا چکی تھی۔ آسمان پر بادلوں کے بڑے بڑے سفید ٹکڑے سکون سے ایک طرف سے دوسری طرف جا رہے تھے۔ خوش گوار ہوا کے دھیمے دھیمے جھونکے تھکے ہوئے بدن کو سہلا رہے تھے۔ درخت کے نیچے غوغائیاں شور مچا رہی تھیں اور آپس میں آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں، مومنہ اپنے درخت سے کچھ دور ایک تلیا کے پاس بیٹھی اکھوا پھوٹے چنوں کو دھو دھو کر کھا رہی تھی اور غوغائیوں کے بچکانے شور سے لطف اٹھا رہی تھی۔ اس کے دل میں آج کتنے دنوں کے بعد مسرت کی موجیں اٹھ رہی تھیں، مومنہ دل میں کہہ رہی تھی دیکھ شک بھرے دل دیکھ۔ خدا کے یہاں دیر ہے۔ اندھیر نہیں۔ دیکھ سامنے کا گاؤں کس طرح جل کر کھنڈر بن گیا ہے اور اس کے بسنے والوں کو جبری دیس نکالا ملا ہے۔ ایک بچہ جو سب کے پاپوں کو بھوگنے کے لئے رہ گیا ہے کس طرح سسک سسک کر مر رہا ہے۔ یہ خدا کا قہر نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کی لاٹھی میں آواز نں ج۔ کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں۔ او ارحم الراحمین۔

    تو نے مجھ دکھیاری کے شوہر اور بچوں کی آہوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔

    مومنہ چنے کھا رہی تھی اور اپنے تصور کی آنکھوں سے سسکتے ہوئے بچے کا تڑپنا، ایڑیاں رگڑنا اور سکرات میں مبتلا ہو کر آنکھوں آنکھوں میں در و دیوار سے پانی مانگنا، دیکھ رہی تھی کیوں رے ہندو، اب محسوس کیا تو نے کہ میری لاڈلی کی جان کس طرح نکلی ہو گی۔ اب جانا کہ قتل کرنا اور وہ بھی بچوں کو ماں کے سامنے اور شوہر کو بیوی کے سامنے۔ عصمت دری کرنا اور وہ بھی بیٹی کے سامنے، یہ کیسے پاپ ہیں اور اس دنیا کا پالن ہار اس کی سزا کیسی بھیانک دیتا ہے۔

    اس منظر سے مومنہ کو کچھ ایسی لذت مل رہی تھی کہ درجنوں بار تکرار کے باوجود جی نہیں بھرا تھا بلکہ جی میں تو یہ موجیں اٹھ رہی تھیں کہ کاش اسی تصور کی تانوں اور کٹگری میں ساری زندگی بیت جائے۔

    ظالم آسمان تو ذرا اوپر بھی کسی کو ہنستے کھیلتے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ مومنہ ان خیالوں سے لطف لے رہی تھی کہ وہ چاروں طرف سے گھر آیا اور کڑک اور گرج سے اس نے دنیا کو بھر دیا۔ مومنہ کے خیالات کی پرواز رک گئی۔ اور وہ سوچنے لگی کہ میں کہاں جاؤں کہ رات بلا بھیگے کٹ جائے۔ ایک رات بھیگ چکنے کے بعد اب اس میں پھر اس مصیبت کے جھیلنے کی بالکل ہمت نہ تھی۔ دوسری طرف اسے مہرن یاد آنے لگی تھی۔ خدا جانے کس حال میں ہو اور کیسے ظالموں سے سابقہ پڑا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بیمار ہو گئی ہو اور اس کے خوشہ چینوں نے بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا ہو جو کنیزن کے ساتھ بےرحموں نے کیا تھا کہ جب بہت بیمار ہو گئی تو اسے کہیں پھکوا دیا۔ ہو سکتا ہے کہ مہرن اس حالت میں ہو اور میں اس کی مدد کر سکوں۔ مومنہ ان خیالات کو ڈرامے کی شکل میں دیکھنے لگی کہ مہرن بیمار ہے۔ بے گھر ہے کہ ایکا ایکی میں پہنچ جاتی ہوں اور اس کی مدد کرتی ہوں اور سوچنے لگی کہ میری جان مہرن کے لئے بہت قیمتی ہے اس لئے اس کی حفاظت ضروری ہے۔

    ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی تھی وہ یہ کہ وہ ڈر رہی تھی۔ تھی تو وہ بہادر اور بہادر دادا اور بہادر باپ کی اولاد۔ ایک بارچوروں کو بھی بھگا چکی تھی لیکن دل مضبوط ہونے پر ملائم کنارے رکھتا تھا۔ اور اس وقت چھوٹے چھوٹے بہت سے خوفوں نے اسے گھیر لیا تھا۔ رات کا خوف، جنگل کا خوف۔ درندوں کا خوف، سانپ بچھوکا خوف، چوروں، ڈاکوؤں کا خوف، شرنار تھی کا خوف، بھیگ کر بیمار ہونے اور پھر تنہا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کا خوف۔ یہ سب خوف مہرن کے لئے زندہ رہنے کی تمنا میں گڈمڈ ہو کر ایک گھبراہٹ میں تبدیل ہو گئے تھے کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں۔

    مومنہ نے فیصلہ کر لیا کیا کرنا چاہئے۔ یہ فیصلہ اس نے کسی منطق سے نہیں کیا، بلکہ اسی طرح کیا جس طرح اس نے کلوٹے کے گھر سے نکل بھاگنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یعنی دوسمتوں میں سے جو سمت جذبات کے لئے زیادہ پرکشش ہوتی وہ مومنہ کو کھینچ لے گئی۔

    مومنہ پگ ڈنڈی چھوڑ کر کھیتوں کھیتوں ہوتی ہوئی آشنا کے گھر کی طرف چلی وہاں چھت تھی جو بارش کو روکے گی۔ دروازے تھے جو بند ہو جائیں گے اور آشا تھی جو وقت پڑنے پر ضرور کام آئےگی۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جب ہندوؤں نے میرے باپ دادا کے گھر پر قبضہ کر لیا ہے تو میں کیوں نہ ان کے گھر پر قبضہ کر لوں؟ ضرور کروں گی۔ آشا کا گھر میرا گھر ہے، ہاں میرا گھر۔

    مومنہ اپنے گھر پہنچ گئی اور بیٹھکے میں جا کر اس نے جلدی جلدی سب دروازے بند کر لئے۔ اب وہ شب کے حملہ آوروں سے بھی محفوظ تھی اور آشا کی نظروں سے بھی، وہ آشا سے اور آشا اس سے محبت کرتی تھی۔ لیکن پھر بھی مومنہ آشا کی نظروں سے ڈرتی تھی، وہ ان کی التجا نہیں برداشت کر سکتی تھی۔

    مومنہ خیریت سے اپنے گھر پہنچ گئی۔ اپنا گھر، ہاں، اب یہ اپنا گھر تو ہے ہی۔ میں یہاں کی گھر والی ہوں۔ مہرن آئے گی تو اسے بھی یہیں رکھوں گی۔ بیٹھکے، دالان اور کمرے کو میں صاف کروں گی۔ پھر دیکھا جائےگا۔ ضروریات زندگی کا کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جائےگا۔ اگر مجھے کوئی شخص یہاں سے نکالےگا بھی تو بھی میں نہیں نکلوں گی، کہوں گی کہ پہلے تم میرا مکان مجھے دلا دو۔ تب اسے مانگنا۔ کسی کو کیا حق تھا میرے باپ دادا کے گرھ کو مجھ سے چھین لینے کا۔

    رات آ گئی، سیارے ہوا ہوا پکارنے لگے۔ ذرا رات گزری تھی کہ ان کے ساتھ دوسرے جانوروں کی چیخیں بھی شامل ہو گئیں۔ مومنہ کے دماغ پر سینما کے پردے کی طرح ہیبت ناک مناظر گزر رہے تھے۔ کبھی وہ یہ دیکھتی کہ میں اپنے مکان میں ہوں اور ابامیاں گھبرائے ہوئے اندر آ رہے ہیں اور حملہ ہو رہا ہے اور میری لاڈلی ماری جا رہی ہے اور کبھی یہ کہ میں اپنے نئے مکان میں ہوں اور مجاہدین اسلام کا حملہ ہو رہا ہے۔ ہندوسے لڑکے دادا نے گھر کو چاروں طرف سے بند کرکے مقابلہ کرنا چاہا، لیکن اسلامی جوش اور اللہ اکبر کے نعروں کے سامنے وہ شکست کھا گئے اور مجاہدین اندر گھس آئے اور دروازے پر انہوں نے لڑکے دادا کو مارا۔ پھر مومنہ کو ایسا محسوس ہوا کہ میں خود بھی حملہ آوروں کے ساتھ ہوں، مجاہدوں نے عورتوں کو کھینچ کھینچ کر گھر سے باہر نکالا، لڑکے کی دودھ پیتی بہن کو ماں کی گود سے چھین کر ٹپک دیا۔ پھر اس کی بہن اور اس کی ماں کی عصمت۔۔۔

    مومنہ خواب میں بھی یہی سب کچھ دیکھتی رہی۔ ایک بار اس نے دیکھا کہ لاڈلی ٹپک دینے سے مری نہیں ہے بلکہ ایک تنہا کمرے میں پڑی سسک رہی ہے اور کوئی اسے دو بوند پانی تک نہیں دیتا ہے۔ ایک بار خواب میں اس کی آنکھیں آشا کی پلکوں کے بیچ میں شمس کی آنکھیں ہیں۔ افوہ وہ کس حسرت سے میری طرف تاک رہا ہے! ہائے میں اسے ظالموں سے کیسے چھڑاؤں، وہ دیکھو شمس کی آنکھیں پیاسی ہیں اور دو بوند پانی کے لئے تڑپ رہی ہیں۔

    پھر مومنہ کو ایسا نظر آیا کہ مہرن بھاگی چلی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے بہت سے لوگ پکڑنے کے لئے دوڑ رہے ہیں۔ مہرن چلا رہی ہے بچاؤ بچاؤ لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ بھاگتے بھاگتے مہرن بیٹھکے کے دروازے پر آ گئی اور التجائیں کرنے لگی،

    ’’اماں دروازہ کھول دو۔ اماں، اماں، میری اماں، مجھے اندر لے لو، اماں جلدی کر دور نہ وہ لوگ آ جائیں گے۔ اماں میری اماں خدا کے لئے۔۔۔‘‘

    مومنہ کے ہاتھ اور پاؤں اور زبان سے جیسے کسی نے جان نکال لی ہے۔ ان میں کسی قسم کی سکت نہیں۔ نہ وہ ہل سکتی ہے، نہ بول سکتی ہے سخت بے بسی کے عالم میں مہرن کی آواز سنتی رہی۔

    ذرا دیر میں جب مومنہ کے حواس بجا ہوئے تو اسے پتہ چلا کہ باہر کے دروازے پر مہرن نہیں آشا ہے جو چوکھٹ سے اپنا سر رگڑ رہی ہے اور التجائیں کر رہی ہے کہ مرتے ہوئے بچے کے حلق میں دو بوند پانی ٹپکا دو۔ ساتھ ساتھ مکان کے اندر سے کراہنے کی نحیف آواز آ رہی ہے،

    ’’ماں۔ ہے ماں۔ ماں۔ پانی۔ ایک بوند پانی۔ ہے رام۔ ماں۔ ماں۔ ماں۔ میں چلا۔ ماں۔ ایک بوند۔ ہائے ماں۔ تم کہاں ہو ماں۔‘‘

    کواڑوں کی درازوں سے چاند کی میٹھی کرنیں آ رہی تھیں اور ہوا کے خوش گوار جھونکے بھی۔ یعنی گھٹا چھٹ چکی تھی اور اب آسمان صاف تھا۔ مومنہ نے کواڑ کھولا اور اس کے کھلتے ہی آشا اندر آ کر مومنہ کے پاؤں پر لوٹنے لگی اور التجائیں کرنے لگی۔ اس کے لوٹنے میں التجا تھی اس کے لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو اس کی طرف پھیلانے میں التجا تھی۔ اس کی بھک منگی نظروں میں التجا تھی۔

    مومنہ نے چمکا کر آشا کو اپنے ساتھ لیا اور مٹی کے برتن کا ایک بڑا سا ٹکڑا لےکر تلیا تک گئی۔ اس کے پانی میں اس وقت چاند ستاروں کا عکس پڑ رہا تھا۔ جب مومنہ جھک کر پانی بھرنے گلی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس قتل و غارت کی دنیا سے نکل کر ایسی دنیا میں آ گئی ہوں جہاں اوپر بھی چاند ستارے ہیں اور نیچے بھی چاند ستارے۔

    مومنہ پانی لے کر ایسی احتیاط سے واپس چلی کہ اس نے جو کچھ ٹوٹے برتن میں چاند ستاروں کی چھاؤں میں بھر لیا ہے وہ چھلک نہ جائے اس کے آگے التجاؤں بھری آشا تھی۔ گھر آتے ہی وہ مومنہ سے پہلے لڑکے کے پاس پہنچ کر خوشی سے بھونکنے اور اچھلنے لگی اور لڑکے کے پاؤں چاٹنے لگی،

    ’’کیا بات ہے آشا؟ کیوں اتنی خوش ہے؟‘‘، ’’ہائے ماں‘‘ مومنہ نے قریب جا کر پکارا۔

    ’’بیٹا۔‘‘

    لڑکا اچھل پڑا اور اپنی خالی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ مومنہ نے ڈھارس دینے والی آواز سے پکارا۔

    ’’بیٹا۔‘‘

    ’’کون!‘‘

    اس کی آواز میں ڈر بھی تھا اور حیرت بھی۔ مومنہ نے اور پاس جاکر کہا۔

    ’’بیٹا۔‘‘

    بچہ پھر اچھل پڑا۔ کانپتی ہوئی آواز سے بولا۔

    ’’کون؟ ماں؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    ’’ماں!‘‘

    ’’ہاں۔ ہاں بیٹا۔ میں ہوں۔‘‘

    ’’ماں! تم!‘‘

    ’’ہاں ہاں بیٹا میں ہوں۔‘‘

    ’’ماں!‘‘

    مومنہ نے لڑکے کا سر اٹھا کر اپنے زانو پر رکھ لیا۔

    ’’بیٹا!‘‘

    ’’ماں۔ کیا تم مسلمان سے بچ کر آ گئیں؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا میں بھاگ آئی۔‘‘

    ’’ماں۔ ماں۔ ماں۔ ماں۔ ماں۔‘‘

    بچہ مومنہ کے گلے میں باہیں ڈال کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مومنہ کی آنکھوں سے جو شوہر اور بچوں کی موت کے دن سے لے کر آج تک آنسو کی ایک بوند کو ترستی رہی تھیں، آبشار پھوٹ نکلا۔ وہ آنچل سے بچے کا زخم بچا کر اس کے آنسو پوچھتی اور پھر اپنے۔ جب ذرا دل ہلکا ہو گیا تو مومنہ بچے کو ڈھارس دینے لگی،

    ’’بیٹا اب نہ رو۔ اب تو میں آ گئی ہوں۔‘‘

    لڑکا ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگا۔

    ’’ماں پانی۔‘‘

    مومنہ، ’’لو بیٹا۔‘‘

    مومنہ لڑکے کو گود میں بٹھا کر پانی پلانے لگی اور وہ بدحواسی سے اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس وقت مومنہ نے محسوس کیا کہ لڑکے کو خاصا تیز بخار ہے جب پانی پی چکا تو کہنے لگا،

    ’’ماں‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    اندھا ہو گیا ہوں اور شاید بہر ابھی۔ کسی بات کی خبر نہیں ہوتی ماں میرا اب کیا ہو گا؟‘‘

    بچہ پھر رونے لگا۔ مومنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ وہ سمجھا کر کہنے لگی،

    ’’بیٹا گھبراؤ نہیں اچھے ہو جاؤگے۔‘‘

    مومنہ نے بچے کی پیشانی پر پیار کیا۔ بچہ کھٹک کر بولا،

    ’’ماں تم مجھے رامو کیوں نہیں کہتیں؟‘‘

    ’’کہتی تو ہوں۔ رامو۔ رامو بیٹا۔ میرا پیارا رامو۔‘‘

    ’’تمہاری آواز اور تمہاری باتیں کچھ بدلی بدلی معلوم ہوتی ہیں۔ میں جل گیا ہوں اس وجہ سے شاید ایسا معلوم ہوتا ہوگا۔ کیوں ماں۔‘‘

    آخری جملے میں بچے نے جو سوال کیا تھا اس کی مخاطب مومنہ اتنی نہ تھی جتنا اس کا اپنا دل،

    ’’بیٹا میں نے بہت تکلیفیں جھیلی ہیں۔‘‘

    ’’ہائے ماں۔ تم کو مسلمانوں نے بہت دکھ پہنچایا؟ کیا مارا؟ جلایا تو نہیں؟‘‘

    ’’بیٹا اب ان باتوں کو۔۔۔ نہ یادو لاؤ۔ جب تم اچھے ہو جاؤگے تب میں خود بتا دوں گی۔‘‘

    ’’اچھا ماں۔ تم کو ان باتوں کو یاد کر کے بہت دکھ ہوتا ہوگا۔ ہائے ماں تم نے ابھی یہاں جلے پر ہاتھ رکھ دیا تھا تو جان نکل گئی۔‘‘

    چچ چچ۔ میرا پیارا رامو۔ اب میں خیال رکھوں گی۔ گھبراؤ نہیں میں آ گئی ہوں اب تو اچھا ہو جائےگا۔‘‘

    آشا برابر ان دونوں کے گرد خوشی سے ناچ رہی تھی۔ رامو کے کان میں اس کی آواز کی بھنک پہنچی تو بولا۔

    ماں۔ آشا کو بھی پیار کر لو۔ اس نے میری بڑی خبر لی ہے۔ مجھے لاش کھانے والے جنگلی جانوروں سے جو رات کو گاؤں میں گھومتے رہتے ہیں۔ بچایا ہے۔‘‘

    مومنہ نے آشا کو چمٹا لیا اور کہنے لگی،

    ’’آشا تو نے میرے بچے کی حفاظت کی ہے۔ تو میری بیٹی کے برابر ہے۔‘‘

    آشا اپنی تعریف سن کر اترانے لگی۔

    رامو، ’’مسلمانوں سے تو یہ کتیا اچھی۔ اس کے دل میں دیا تو ہے۔‘‘

    مومنہ کے دل پر ایک برچھی لگی۔ لیکن وہ ضبط کر کے بولی۔

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    رامو ماں کی گود میں کھسک کر لیٹ گیا۔ ذرا دیر چپ رہ کر بولا،

    ’’ماں۔‘‘

    ’’ہاں رامو۔‘‘

    ’’میری آنکھیں اچھی ہو جائیں گی؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا ضرور اچھی ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’اور کان۔‘‘

    ’’وہ بھی۔‘‘

    رامو خوش ہو کر ماں کے گلے میں باہیں ڈال کر بولا،

    ’’ماں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اچھا ہو جاؤں گا۔‘‘

    ’’ہاں میرے چاند! اللہ نے چاہا تو جلدہی اچھا ہو جائے گا۔‘‘

    رامو اس طرح چونک پڑا جیسے اس کے گولی لگ گئی۔ اس نے اپنی باہیں کھینچ لیں اور مومنہ کے زانو سے سر اٹھا کر بولا،

    ’’ماں!‘‘

    مومنہ، (گھبرا کر) ’’کیا بات ہے رامو؟ کیا ہوا؟‘‘

    ’’تم؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔ کہو نا۔‘‘

    ’’تم اللہ کہتی ہو!‘‘

    بچہ بہت سہما ہوا تھا اور اپنی خالی آنکھوں سے مومنہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ گویا ڈر رہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ میری ماں نہ ہو۔ بلکہ کوئی مسلمان ہو۔ مومنہ کے دل پر دوسری برچھی لگی لیکن اس نے پھر ضبط کر کے رامو کا سر اپنی گود میں کھینچ لیا۔ اس کے ہاتھ اپنے گلے میں حمائل کر لئے اور بولی۔

    ’’بیٹا مجھے اتنے دنوں مسلمانوں میں جو رہنا پڑا ہے۔‘‘

    رامو نے کچھ سوچا اور پھر کہنے لگا۔

    ’’وہ لوگ تم سے زبردستی اللہ اللہ کہلواتے ہوں گے۔ اس کے لئے مارتے ہوں گے۔‘‘

    یہ بات رامو نے سوال کے طور پر نہیں، اپنے کو اطمینان دلانے کے لئے کہی تھی اور وہ مطمئن بھی ہو گیا تھا۔ اس کے نزدیک مسلمانوں کے مظالم ہر تبدیلی کو ممکن بنا سکتے تھے۔

    مومنہ، ’’ہاں بیٹا۔ لیکن اب ان باتوں کو نہ پوچھو۔‘‘

    رامو، ’’اماں جب میں اللہ اکبر کی پکاروں کو یاد کرتا ہوں تو۔‘‘

    بچہ سہمنے لگا اور اس کے گلے میں پھانسی سی لگنے لگی۔ مومنہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا،

    ’’تم بھی ان باتوں کو بھول جاؤ۔‘‘

    رامو ذرا دیر کچھ سوچتا رہا۔ پھر ہچکچاتے ہوئے بولا۔

    ’’ماں‘‘

    ’’رامو۔‘‘

    ’’سچ بتاؤ تم میری ماں ہو؟‘‘

    ’’اور کون تجھے اس طرح پیار کر سکتا ہے بیٹا۔‘‘

    ’’سچ ہے۔ جانے کیا بات ہے مجھے شک ہوتا ہے۔‘‘

    شک نہ کرو بیٹا۔

    رامو پھر ذرا دیر کے بعد پوچھنے لگا۔

    ’’کہیں یہ سپنا تو نہیں؟‘‘

    ’’نہیں بیٹا۔‘‘

    ’’ایسا تو نہیں کہ جب صبح ہو تو تم نہ ملو۔‘‘

    بچے کے دل میں واقعی ڈر پیدا ہو چلا تھا اور اس نے مومنہ کو اس طرح ٹٹولا کہ کہیں وہ وہم تو نہیں ہے۔

    ’’نہیں نہیں بیٹا ایسا نہیں ہوگا۔ دیکھ تیری آشنا بھی تو مجھے دیکھ رہی ہے۔‘‘

    رامو کی باہیں زیادہ مضبوطی سے مومنہ کے گرد چمٹ گئیں۔

    ’’ماں میرا من بھی اندر سے یہی کہہ رہا ہے کہ تم میری ماں ہو اور اب سچ مچ آ گئی ہو، مجھے رامورا مو کہو۔‘‘

    ’’میرا رامو، میرا اچھا رامو، میرا پیارا رامو۔۔۔‘‘

    رامو زخموں کو سنبھال کر ماں کی گود میں سمٹ آیا اور فوراً غافل سو گیا۔ مومنہ کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس بچے کو گود لے کر میرے زخم ہرے ہو گئے ہیں، دل ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے اور بچے کو کلیجے سے لگا کر دھاڑیں مار مار کر رونے کو جی چاہ رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بے سہارے کو سہارا دینے سے اپنی زندگی بے سہارے نہ رہی۔

    دراصل مومنہ اپنے جذبات سمجھنے سے بالکل قاصر تھی۔ اس وقت سے قاصر تھی جب سے وہ سو کر اٹھی ہے اور سیدھی بچے کے پاس چلی آئی ہے۔ میرے اندر آخر کیا الٹ پلٹ ہو گیا جو میں نے اس ہندو بچے کو نفرت کرتے کرتے کلیجے سے لگا لیا۔ ایک ہندو سے اتنی محبت کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں؟ لیکن اس کو اندر سے اس بات کا یقین ضرور تھا کہ میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔

    پوپھٹی اور صبح کی روشنی ہر طرف پھیلنے لگی، مومنہ نے دلارے رامو کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ کتنا بھولا اور کتنا مظلوم ہے۔ ذرا خنکی ہو رہی تھی اس لئے مومنہ نے رامو کو اپنا دوپٹہ دہرا کر کے اڑھا دیا اور ہلکے سے اس کے ماتھے پر پیار کر کے دل میں یہ عہد کر لیا کہ یہ میرا شمس اور میرا قمر ہے اور میں اس کو اسی طرح پالوں گی۔

    دن چرھے جب رامو کی آنکھ کھلی تو مومنہ نے اپنا دوپٹہ تر کر کے اس کا منہ اور بدن جو جھوٹے برتنوں کی طرح گھنونے ہو رہے تھے صاف کئے۔ پھر جتنا اس سے ہو سکا اور رامو برداشت کر سکا زخموں کو صاف کیا اور پھر اسے ضروریات سے فراغت کرائی۔ ان کاموں میں اس نے کسی قسم کی گھن نہیں محسوس کی۔ اپنی اولاد کا گو موت کرنے میں گھن کیسی۔

    ان باتوں سے فارغ ہو کر رامو کہنے لگا،

    ’’جس دن گاؤں لٹا ہے میں اس دن کا کھایا ہوا ہوں۔ تب سے سوائے اس برساتی پانی کے جو پرنا لے کے نیچے گڈھے میں جمع ہو جاتا تھا، میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا ہے۔ شاید چھ روز ہوئے مجھے کھانا کھائے۔‘‘

    مومنہ نے ذرا خوش ہو کر پوچھا،

    ’’تم نے کیسے پہچانا کہ چھ دن ہوئے؟ کیا اتنا نظر آ جاتا ہے؟‘‘

    ’’رات کو لاشوں کو کھانے کے لئے جو جانور آتے ہیں وہ آپس میں لڑتے ہیں، چیختے ہیں اور شور مچاتے ہیں، ان کے آنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ رات ہو گئی اور جانے سے یہ کہ دن ہو گیا۔‘‘

    مومنہ اس خوفناک گھڑیال کا حال سن کر لرز گئی۔

    رامو اتنا بھوکا تھا لیکن اس پر بھی اسے گوارانہ تھا کہ ماں پاس سے چلی جائے۔ مومنہ اسے بہت سمجھا بجھا کر اور ڈھارس دے کر غذا کی تلاش میں نکلی۔ بخار میں بھنتے ہوئے چھ دن کے فاقہ زدہ بچے کو چنے دنیا تو اسے موت کے منہ میں جھونک دینا ہے پھر اور کیا دیا جائے؟ آگ تک تو میسر نہیں جو چنوں کو ٹھیکروں میں ابال ہی لیا جائے۔ مومنہ کو جو کچھ۔ امید تھی ایک آواز سے تھی جسے وہ کل کئی بار سن چکی تھی اور آج صبح پھر سنی تھی اور اس وقت کچھ اندازہ بھی کر لیا تھا کہ وہ کس طرف سے آ رہی ہے۔ اس وقت کچھ اندازہ بھی کر لیا تھا کہ وہ کس طرف سے آ رہی ہے۔ اس وقت دراصل اسی آواز کی تلاش میں نکلی تھی۔ وہ مل جائے تو رامو کی غذا کا بلکہ خود اس کی غذا کا بھی انتظام ہو جائے شاید۔

    مومنہ اپنے مکان کے بچھواڑے کی طرف چلی۔ چند جلے ہوئے گھر ملے اور ان سے نکل کر گاؤں کی حد آ گئی۔ گاؤں چھوٹا سا تھا۔ سرحد پر پہنچ کر اس نے وہ بھیانک منظر دیکھا ہے اور ناک میں ایسی سخت تعفن آئی ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئی اور اپنی جگہ پر بت بن کر رہ گئی۔ چند کچے گھروں سے متصل ایک چھوٹا ہوا میدان تھا۔ جس میں جلے ہوئے کندے اور جلے ہوئے انسانی ہاتھ پاؤں سر او رسینے کے ڈھانچے ڈھیر تھے۔ ان میں کچھ تو مردہ خو جانوروں کی مہربانی سے بالکل صاف ہو چکے تھے اور کچھ پر بھنے ہوئے گوشت کے ریشے لگے رہ گئے تھے۔ جن کو اس وقت کوے، گد اور آوارہ کتے ذوق اور شوق سے صاف کر رہے تھے۔ تیس چالیس کھوپڑیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی اپنی آنکھوں کے حلقوں سے مومنہ کی طرف تک رہی تھیں، اف ان میں جینے کی کتنی حسرت تھی۔

    میدان دو طرف سے گھروں سے گھرا ہوا تھا اور ان کی دیواروں پر کو ئلا رگڑ رگڑ کر بہت جلی لکھا ہوا تھا۔ اللہ اکبر۔ ظاہر تھا کہ مجاہدین اسلام نے اللہ کی شان اونچی کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا۔ مومنہ کی ناک میں رہ رہ کر جو سخت تعفن آتی رہی تھی اس کا سوتا یہی تھا۔

    مومنہ نے ادھر چند دنوں کے اندر قتل و خون اور آتش زنی کے اتنے مناظر دیکھے اور سنے تھے اور اپنے پیاروں کو آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا تھا کہ وہ تجربے کار فوجی کی طرح لاشوں کی عادی سی ہو گئی تھی۔ لیکن اتنا عادی ہونے پر بھی اس منظر نے اس کو دہلا دیا۔

    مومنہ کو ایک کنواں بھی یاد آ گیا۔ جس میں اس کے شوہر، بچوں اور سارے خاندان کی لاشیں تھیں۔

    مومنہ ابھی اس منظر کی دہشت سے پوری طرح نہیں نکل پائی تھی کہ اس نے دیکھا آشا جو اس کے پیچھے پیچھے آئی تھی ایک ران کو سونگھ رہی ہے۔ ساتھ ساتھ زبان چاٹ رہی ہے اور بھونک بھونک کر مومنہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ کیا آشا انسانی کباب کھانے کی اجازت مانگ رہی ہے؟

    آشا کیوں نہ کھائے جب ان کو سینکڑوں جانوروں اور گدوں نے کھایا ہے تو آشا کیوں نہ کھائے؟

    جب پیٹ بھروں نے کھایا ہے تو چھ دن کی بھوکی آشا کیوں نہ کھائے؟

    جب ایشور کے پجاری اور اسلامی مجاہد انسانی جسم کا احترام نہں ے کرتے تو آشا کیوں کرے کیا آشا ان سے برتر ہے؟

    آشا لاش کو سونگھتی رہی اور مومنہ سے اجازت مانگتی رہی۔ لیکن جب ادھر سے کوئی شنوائی نہ ہوئی تو بادل ناخواسہ مومنہ کے پاس آکر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ گویا فریاد کر ہی تھی کہ جس کام کو سب کر رہے ہیں اس کے کرنے سے تم مجھے کیوں روکتی ہو؟ یہ کیسا ظلم ہے؟

    مومنہ میں آگے جانے کی ہمت نہ تھی لیکن اس نے لاشوں کے پاس کے ایک گرن کے اندر سے وہی آواز سنی جس کی تلاش میں وہ آئی تھی۔ جو ماں اپنی تین اولادوں کو آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھ چکی ہو وہ چوتھی کے لئے جواب پھوٹی آنکھ کا دیدہ ہے۔ کیا نہ کر گزرےگی وہ ہمت کر کے چتا کے کنارے کنارے انسانی ہڈیوں کو بچاتی ہوئی آواز والے گھر تک پہنچ گئی۔

    اس گھر کی چھتیں جل چکی تھیں صرف دیواریں کھڑی رہ گئی تھیں اور ان ہی کے اندر سے وہ آواز آئی تھی۔ دروازہ کے سامنے ملبہ کا ڈھیر تھا۔ اس لئے اندر جانا ناممکن تھا۔ مومنہ نے ملبے پر ہو کر اوپر چڑھنے کی کوشش کی۔ آشا آگے آگے چڑھنے لگی۔ اس کا سہارا مل گیا اورمومنہ اوپر پہنچ گئی۔ وہاں سے اس نے نیچے جھانکا۔

    چار دیواری کے اندر تھوڑی سی جگہ تھی جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں بھینس کا مردہ بچہ پھولا ہوا تیز رہا تھا۔ اس کے برابر زندہ بھینس پڑی ہوئی تھی جس کی کمر کو ایک بڑے شہتیر اور بہت سے ملبے نے ایسا دبا رکھا تھا کہ وہ ہل بھی نہ سکتی تھی۔ وہ کراہ رہی تھی اور اپنے بچے کو چاٹ رہی تھی۔ بھینس تو وہ مامتا بھری ماں ہوتی ہے جو اپنے بچے کی مہینوں کی سوکھی کھال تک کو چاٹتی ہے اور اس کے لئے بھی تھنوں میں دودھ ابل آتا ہے بھینس نے مومنہ کو جو دیکھا تو بڑی فریادی آواز نکالی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ خدا کے لئے مجھے جلدی اس قید سے رہائی دو تاکہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤں۔ غریب چھ روز سے بھوکا ہے۔

    مومنہ حسرت سے بھینس کو دیکھتی رہی کہ چھ ہاتھ نیچے دودھ کی نہر موجود ہے لیکن بیکار۔ میری ایسی چار عورتیں بھی اس مظلوم کو آزاد نہیں کرا سکتی ہیں۔ ہائے میرے چھ دن کے بھوکے بچے کو اس کے دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں میسر آ سکتا ہے۔

    مومنہ شکستہ دل بھینس کے پھانسی گھر سے واپس ہوئی۔ درجنوں انسانی کھوپڑیاں بتیسی نکالے اس کی کوشش پر ہنس رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں،

    ’’مورکھ، ہم نے اپنے پیارے پیارے بچوں کو بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ خوشا مدیں کیں گڑگڑائے، ناک رگڑی۔ لیکن کیا حاصل ہوا۔ جاؤ اور اپنے بچے کو بھی اسی چتا میں لاکر کھ رکھ دو۔‘‘

    جب مومنہ مسجد نما شوالے کے سامنے سے گزری تو وہ بےاختیار سجدے میں گر پڑی اور گڑ گڑاگڑا کر دعا مانگنے لگی،

    ’’اے سب کے پیدا کرنے والے اس دنیا میں جو کچھ میرے پاس تھا سب جاتا رہا، گھر بار، دھن دولت۔ عزیز و اقارب، شوہر، بچے، عزت ناموس۔ اب تو نے ایک اپاہج بیمار بچہ مجھے بخشا ہے۔ جس نے میرے ویران دل کو باغ و بہار بنا دیا ہے۔ اس کے لئے کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں میں اسے محنت مزدوری کر کے پالوں گی اور جب تک جیوں گی اس کی آنکھوں کا کام کروں گی اور اگر مرتے دم بھی مہرن مل گئی تو اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے کر کہہ جاؤں گی کہ یہ میری امانت ہے۔ دیکھ چاہے تو تکلیف اٹھائے لیکن اسے تکلیف نہ ہو۔‘‘

    ’’اے میرے مالک تو اب رامو کو مجھ سے نہ چھین۔ اگر میری جان کے بدلے بھی اس کی جان بچ سکتی ہو تو میں بابر کی طرح اسے شوق سے قربان کر دوں گی۔‘‘

    مومنہ کی آنکھوں سے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اس نے اٹھ کر گود پھیلاکر کہا، ’’اسے مالک تو بچے کے لئے کھانا اور دوادے۔‘‘

    مومنہ کے جسم کی ایک ایک رگ، گوشت کا ایک ایک ریشہ جذبات کا ایک ایک سرمامتا بن گیا۔ وہ دیر تک یوں ہی دعا مانگتی رہی۔ اس سے دل کو ڈھارس ہوئی اور خود اعتمادی واپس آ گئی۔

    مومنہ کے آتے ہی رامو نے پوچھا،

    ’’ماں۔ کچھ ملا؟‘‘

    مومنہ نے کچھ جواب نہیں دیا۔

    رامو، ’’کچھ نہیں ملا۔ کہاں سے ملتا سب کچھ تو مسلمان لے گئے۔

    رامو نے شکستہ دلی اور مایوسی میں دوبار ’’ہے رام ہے رام‘‘ پکارا۔ مومنہ نے خاموشی سے رامو کا سر زخموں کو بچا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔

    رامو، ’’اچھا ماں پانی ہی پلادے۔‘‘

    مومنہ نے دل میں بسم اللہ کہہ کر اپنی ایک چھاتی رامو کے منہ میں دے دی۔ رامو بےحد متحیر ہو کر بولا،

    ’’ماں!‘‘

    ’’بیٹا تو اسی پر پلا ہے۔ پی۔‘‘

    ’’ماں۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ تیری جان مجھے بچانا ہے۔ پی۔ شاید چند قطرے تیرے نصیب سے اتر آئیں۔‘‘

    مومنہ کی مامتا ایسے جوش پر تھی کہ ایک دفعہ سوکھنے کے بعد پھر گنگا دنیا میں اتر آئی اور رامو کے پیٹ میں چند قطرے پہنچ گئے۔

    مومنہ کو رامو کی کٹی کٹی باتوں سے گاؤں کے اجڑنے کا جو حال معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ رامو اپنے بھائیوں۔ بہنوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اس کا باپ چلاتا ہوا گھر میں گھسا کہ گاؤں پر مسلمان حملہ کر رہے ہیں اس لئے سب جلدی سے بھاگ چلو۔ عورتیں چیخنے لگیں اور دوڑ دوڑ کر اپنے زیور اور کپڑے باندھنے لگیں۔ بچے رونے لگے اور کام میں حارج ہونے لگے۔ مرد عورتوں کو پکڑ پکڑ کر کھینچنے لگے کہ سامان کی پروانہ کرو۔ جلدی نکل بھاگو۔ رامو کی دادی چلانے لگی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنی سات پیڑھیوں کی کمائی چھوڑا کر بھاگ چلوں۔ یہ سب کچھ ہو ہی رہا تھا کہ حملہ آور بندوقیں لے کر آ گئے۔ بندوقیں دغیں۔ لاٹھیاں چلیں۔ دروازے توڑنے گئے اور بہت سے مسلمان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے گھر میں گھس آئے۔

    صدر دالان کی چھت کو کوئی زینہ نہیں جاتا تھا۔ لیکن رامو دیوار پر ہو کر کھپریل پر اور اس سے چھت پر چڑھا جاتا تھا اور وہاں سے تلنگ اڑاتا تھا۔ جیسے ہی اس کے گھرمیں حملہ آور گھسنے لگے وہ جلدی سے چھت پر چڑھ گیا اور کھپریل کا جو حصہ چھت پرٹکنے کے لئے اوپر اٹھا ہوا تھا اس کی آڑ میں چھپ کر لیٹ گیا۔ چھت اور کھپریل کے درمیان چوڑی سی دراز تھی اس سے کھپریل کے اندر کا اور کچھ باہر کا حال نظر آتا تھا۔ اس جگہ سے رامو نے دیکھا کہ کس طرح حملہ آوروں نے عورتوں کے زیور اور کپڑے اتار کر ان کو مادر زاد ننگا کیا۔ ان کی عصمت دری کی اور پھر پکڑ لے گئے۔ گھر کے مردوں اور بچوں میں سے بعض کو مارے جاتے ہوئے رامو نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور بعض کی چیخیں سنیں۔

    جب حملہ آور گھر کو لوٹ کر چلے گئے تو رامو نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ اس کے پچھواڑے چند گھروں کے پار زبردست آگ جل رہی تھی اور ادھر سے حملہ آوروں کے قہقہے اور مرنے والوں کی چیخیں آ رہی تھیں۔ ایک چھت پر نظر پڑی تو دیکھا کہ چار چھ آدمی ایک آدمی کے چاروں ہاتھ پاؤں پکرے اس کو جھونک دے رہے ہیں اور وہ بےکسی سے چیخ رہا ہے۔ انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر اسے الاؤ میں جھونک دیا۔ جب وہ شعلوں کی لپیٹ میں آ رہا تھا تب رامو نے پہچانا کہ وہ میرے پتاجی ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ بیہوش ہو گیا۔

    رامو کو جب ہوش آیا تو دیکھا کہ میں چاروں طرف سے شعلوں سے گھرا ہوا ہوں۔ کھپریل دھڑ دھڑ جل رہی ہے اور چھت دو جگہ سے جل کر نیچے گر چکی ہے۔ رامو منڈ یر منڈیر بھاگا لیکن ایک جہف سے چھت گری تو اس کے ساتھ یہ بھی نیچے آگ میں جا گرا۔ لیکن ہمت کر کے اٹھا اور اٹھ کر اپنے کپڑوں کو جنہوں نے آگ پکڑ لی تھی پھینک کر بھاگا اب اسے یاد نہیں کہ کس طرح اور کس طرف سے وہ صحن میں آ کر بیہوش ہو گیا۔

    جب ہوش آیا ہے تو اسے پتہ چلا کہ میری دونوں آنکھیں جا چکی ہیں اور سارا بدن پھنکا جا رہا ہے۔ یہ چیخنے لگا۔ چند آدمی اس کے ارد گرد کھڑے باتیں کر رہے تھے،

    ’’سسک سسک کر مرنے دو سالے کو۔ ایک گولی کیوں ضائع کرتے ہو؟‘‘

    ’’بہت ٹھیک۔ گھر کے دروازے کھلے چھوڑ جائیں تاکہ جنگلی جانوروں کو آنے میں زحمت نہ ہو۔‘‘

    دو تین قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ پھر کوئی ذرا متفکر لہجے میں بولا،

    ’’لیکن ہم کو معلوم کیسے ہو گا کہ یہ مر گیا۔‘‘

    ’’میں بتادوں گا۔ بھلا یہ جی سکتا ہے۔‘‘

    کسی نے رامو کو ایک لات مار دی اور کہا۔

    ’’بیٹا آرام سے موت کا انتظار کرو۔‘‘

    پھر سب چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی بارش ہونے لگی اور رامو آشا کے سہارے کمرے میں آ گیا۔

    رامو کو یہ واقعات بہت کٹے کٹے یاد تھے اور بعض باتیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئی تھیں۔ مثلاً ماں کی بے آبروئی کے ساتھ وہ اپنے شیر خوار بھتیجے کا تذکرہ جوڑ دیتا۔ جس کے سر کو ایک حملہ آور نے ٹھوکر سے پاش پاش کر دیا تھا۔ جب بھتیجے کا تذکرہ کرتا تو کرتے کرتے مومنہ سے کہنے لگتا کہ ماں تم کو بہت دکھ اٹھانا پڑا اور پرو رو دیتا۔

    رامو جب اپنے گھر کی چہل پہل کی یا اس کی تباہی کی باتیں کرتا تو مومنہ کو ایسا محسوس ہونے لگتا گویا میں یہ سب کچھ دیکھ چکی ہوں۔ میرے سامنے رامو کی ماں منہ اندھیرے اٹھ کر گھر صاف کرتی اور سامنے کے دالان میں چوکا لیپتی اور جب سب بچے سو کر اٹھتے تو ان کو لسی بنا کر دیتی۔ پھر دوپہر کو سب کو اسی دالان میں بٹھا کر ان کے آگے تھالیاں رکھ ان میں دال اور ترکاریاں پروستی اور پھر گرما گرم روٹیاں دیتی جاتی اور لوگ کھاتے جاتے۔ بچے اچار کے لئے ضد کرتے تو بغل کی کوٹھری میں جاکر ہانڈی اٹھا لاتی اور اس میں سے اچار کی پھانکیں نکال نکال کر ایک ایک سب کو دیتی۔ چھوٹا چندر کہتا کہ میری پھانک چھوٹی ہے اور جب تک وہ رامو سے زیادہ نہ لے لیتا نہ مانتا۔

    رامو نے جب پچھلی دیوالی کی باتیں کیں تب بھی مومنہ کو ایسا لگنے لگا گویا سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا۔ رامو کی ماں نے دیے جلا کر سب کو دیے تھے اور جب چندر اپنے مٹھائی کے سب کھلونے چٹ کر گیا اور پھر رامو کا شیر چھیننے لگا اور اس کے لئے ضد کرنے لگا تو ماں نے رامو کو سمجھا بجھا کر اس کا شیر چندر کو دلا دیا تھا۔ رامونے شیر تو دے دیا لیکن حسرت سے اس کی طرف تکتا رہا۔

    صرف اتنا ہی نہیں، آباد گھر کا پورا نقشہ مومنہ کی آنکھوں کے سامنے پھر جاتا، دالان، کمرے اور بیٹھکا سب بھرے پرے نظر آنے لگتے۔ بچے، مرد اور عورتیں ادھر سے ادھر آ جا رہے ہیں۔ رامو کی ماں انتظام میں لگی ہوئی ہے ایک دالان سے دوسرے دالان میں اور اس دالان سے کمرے میں اور کمرے سے کوٹھری میں اور پھر رسوائی میں آ جا رہی ہے۔ ہر بات کی فکر ہے بھینس دو ہی گئی۔ جو دودھ آیا تھا وہ آگ پر کیوں نہیں رکھا گیا؟ دہی جما دیا یا نہیں؟ نوکروں کو کھانا بھجوادو۔ چندر اتنا نہ شور کرو۔ رامو کمرے میں جاؤ اور سبق یاد کرو۔‘‘ باہر کہار کسی بات کے لئے چلا رہا ہے۔ حاطے میں بیلوں کو سانی دی جا رہی ہے۔

    گھر کی تباہی کا حال مومنہ یوں دیکھتی کہ احاطے کی طرف کے پھاٹک پر حملہ ہوتا ہے۔ رامو کی ماں رامو اور چندر کو لے کر بھاگنے کی فکر میں ہے۔ کہ حملہ آور اندر گھس آئے ہیں۔ رامو کی ماں شیرنی کی طرح اپنے بچوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ چندر اور رامو مظلومی سے ماں ماں پکارتے ہیں۔ ساتھ ہی مومنہ کو شمس و قمر کا مارا جانا اور لاڈلی کا پٹک دیا جانا یاد آ جاتا۔

    مومنہ کو ایسا محسوس ہوتا کہ رامو کی ماں اور میں۔ چندر و رامو، شمس و قمر دونوں گھرانوں کی آبادیاں اور بربادیاں ہیں۔ وہی تاش کے باون پتے، صرف پھینٹ دینے سے بازیاں بدل گئی ہیں۔ اپنے نئے احساسات پر اسے حیرت ہوتی تھی کہ کہاں میں مسلمان اور کہاں وہ ہندو؟ ہم دونوں کیوں کھچڑی کے دال چاول کی طرح مل گئے ہیں۔ کہیں مجھے کچھ ہو تو نہیں گیا ہے۔ لیکن اس کی و ہ مامتا جس نے رامو کو کلیجے سے لگا لیا تھا یقین دلا دیتی تھی کہ نہیں بھولی۔ تو پہلے سے بہتر ہو گئی ہے۔

    اگر کہیں مومنہ اپنی اس تبدیلی کو سمجھ لیتی تو پھر وہ یہ بھی سمجھ لیتی کہ وہ ایکا ایکی رامو پر جان چھڑکنے لگی۔

    ایک چلتی ہوئی گھڑی تھی جو کائنات کی حرکت و عمل میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ لیکن نفرت کی بھٹی نے اسے پگھلا کر مٹی میں ملا دیا۔ ایک پرزہ جو بچ گیا تھا۔ غموں سے چھلنی دل کو لئے خزاں مارے پتے کی طرح ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر مارا مارا پھر رہا ہے۔ نہ کوئی ایسا ہے جو اس سے رشتہ جوڑے اور نہ ایسا جس سے وہ رشتہ توڑے۔ نہ کوئی ٹھونہ ٹھکانا۔ نہ اور چھوڑ۔ نہ مصرف نہ عمل۔ اس کے لئے آبادیاں بھی ایسا چٹیل میدان ہیں جس میں گھاس کا ایک تنکا تک نہیں۔ کیا اس پرزے کے دل میں یہ حسرت نہیں ہوگی کہ میں پھر کسی مشین میں لگ جاتا۔ ایسی مشین جو مجھے سمو لیتی اور جس میں کھپ جاتا۔ کیا یہی حسرت اب اس کی کل زندگی نہ ہوگی؟ کل زندگی یہ حسرت نہ ہوگی تو پھر کیا ہوگی؟

    مومنہ ایک ایسا ہی پرزہ تھی اور وہ خزاں مارے پتے کی طرح ماری ماری پھر رہی تھی۔ نہ اس کوئی محبت کرنے والا تھا اور نہ ایسا جس سے وہ محبت کرے۔ کوئی ایسا بھی نہ تھا جو اس کا دکھڑا ہی سن لیتا۔ لے دے کر ایک مہرن کی یاد تھی لیکن وہ بھی شکوک کے درجنوں غلافوں سے ڈھکی ہوئی تھی کہ پتہ نہں ا مہرن زندہ بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر زندہ ہے تو کیا معلوم اس سے کبھی ملنا ہوتا ہے یا نہیں۔ بھلا ایسی یاد زندگی کی ناؤ کھے سکتی ہے؟

    رامو کا مکان مومنہ کے مکان سے ملتا جلتا تھا۔ پھر اس فضا میں آئی آشنا اپنی محبت لے کر ان دونوں چیزوں نے مومنہ کی مامتا کو شدت سے کھینچ لیا اور پھر ان دونوں کن ڈک ٹروں کو پاتے ہی وہ خود بخود رامو تک پہنچ گئی، اگر زندگی کہیں اتنی تنگ دامن ہو جاتی کہ مومنہ کو ایک کتیا اور ایک چھوکرا تک محبت کے لئے نہ ملتا تو یہ بات امکان سے بعید نہ تھی کہ وہ بھڑکو بیٹی بنا لیتی۔ زندگی کے یہ فارمولے حساب کے فارمولوں سے کم حیری نہیں۔

    ایک مرتبہ رامو اپنے گھر کی تباہی کا حال بیان کر رہا تھا اور ایسا سہما ہوا تھا گویا اس وقت بھی وہ کھپریل کی آڑ میں کوٹھے پر چھپا ہوا ہے اور ڈر رہا ہے کہ کہیں مجھ پر بھی کوئی حملہ نہ کر دے۔ مومنہ نے ڈھارس دینے کے لئے اسے پیار کیا اور سمجھایا کہ جو کچھ ہوا ہے اسے بھول جاؤ۔ اس ڈھارس پر وہ اپنے پتا جی، دادی، چندر، چھوٹی بہن اور ننھے بھتیجے، ایک ایک کو یاد کر کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دیر تک روتا رہا۔ جب ذرا سکون ہوا تو کچھ سوچ کر کہنے لگا،

    ’’ماں‘‘

    ’’ہاں رامو‘‘

    ’’سب مسلمان حملہ آور یہیں پاکستان میں ہوں گے۔‘‘

    ’’پاکستان؟‘‘

    ہاں وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ اب یہ جگہ پاکستان میں شامل ہے۔

    ’’پھر ضرور یہاں ہوں گے۔‘‘

    ’’ماں‘‘

    ’’کہو رامو‘‘

    میں جب اچھا ہو جاؤں گا تو دو کام کروں گا۔ ایک تو ہوائی جہاز اڑانا سیکھوں گا اور دوسرے بم بنانا۔

    مومنہ اس خوفناک خیال کو کچھ بھانپ گئی۔

    ’’پھر کیا کروگے بیٹا؟‘‘

    ’’میں بہت سے بم ہوائی جہاز پر رکھ کر اڑ جاؤں گا اور جہاں دیکھوں گا کہ کسی مسجد میں بہت سے مسلمان جمع ہیں ان پر بم گرا دوں گا اور اڑ جاؤں گا بم گرےگا دھم۔ کسی کا کان اڑ جائےگا۔ کسی کی ناک اڑ جائے گی کسی کا سر اڑ جائےگا۔ کسی کا توند چیتھڑے چیتھڑے ہو جائےگا۔ کوئی روئے گا کوئی ہائے ہائے کرےگا۔ کوئی اللہ کو پکارےگا۔‘‘

    رامو اس تصور سے مست ہو گیا اور کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ رامو پر زندگی کی تلخ حقیقتیں، نفرت، انتقام، قتل، موت، لاوارثی کی زندگی، یہ سب اپنے پورے بوجھ کے ساتھ پھٹ پڑی تھیں اور اس کا معصوم بچپن ان کے نیچے کچل کر پاش پاش ہو گیا تھا۔ وہ دوسروں کو ایذا پہنچانے اور قتل کرنے کی باتیں اس طرح کرتا گویا میچ میں وہ دوسری ٹیم کو ہرانے کے منصوبے باندھ رہا ہو۔ اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ تھی کہ اس کی تہ میں پورا غرم ہوتا تھا۔

    مومنہ یہ دیکھ کر کہ رامو کے اندر انتقامی بارود بھری ہوئی ہے سہم گئی۔ پھر پیار سے کہنے لگی،

    ’’نہیں رامو ایسا نہ کہو۔ مسلمانوں میں برے بھی ہوتے ہیں اور بھلے بھی۔‘‘

    جس وقت رامو انتقام کی باتیں کر رہا تھا تو اس پر خوف اور دہشت کی بجائے مسرت اور عزم کے جذبات آ گئے تھے لیکن ’’ماں کی زبان سے ایسی باتیں سنتے ہی بے حد سہم گیا اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔

    ’’ماں۔‘‘

    مومنہ اس کا سہمنا دیکھ گھبرا گئی۔ پھر اپنے کو سنبھال کر پیار سے بولی،

    کیا بات ہے رامو۔‘‘

    ’’ماں‘‘

    ’’ہاں رامو کہو نا۔‘‘

    ’’ماں۔۔۔ تم مسلمانوں کی طرفداری کرتی ہو۔‘‘

    مومنہ کو محسوس ہوا کہ اگر میں نے کہیں طرف داری پر اصرار کیا تو بچہ مجھے بھی غیر سمجھتے لگےگا اور پھر مصیبتوں کے بوجھ اور تنہائی سے اس کا دل ٹوٹ جائےگا۔ کچھ مومنہ کو یہ بھی اندیشہ ہوا کہ کہیں رامو بھانپ نہ لے کہ میں اس کی ماں نہیں ہوں۔

    ’’تم مجھ سے کیوں ہٹ گئے رامو۔‘‘

    ’’تم مسلمانوں کی طرفداری جو کرتی ہو۔‘‘

    ’’کہاں طرفداری کرتی ہوں۔‘‘

    ’’طرفداری نہیں کرتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان میں سے کچھ اپنے کو بھائی سمجھتے ہیں۔ لیکن ہوتے سب ایسے ہی ہیں۔‘‘

    مومنہ نے بات بنا دی اور رامو کو سمجھاتی رہی۔ پھر بھی رامو دیر تک ماں سے الگ الگ رہا۔

    رامو کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی یہی ایک صورت نہیں تھی۔ ایسی ایسی درجنوں صورتیں تھیں۔ جن سے وہ مزے لیا کرتا تھا کبھی سوچتا کہ میں بہت سے ہندو لڑکوں کو جمع کر کے ڈاکو بن جاؤں گا اور مسلمانوں کو لوٹ لوٹ کر ان کا پیسہ ہندؤوں کو دیا کروں گا۔ اور کبھی یہ سوچتا کہ میں زہر لے کر راتوں کو مسلمانوں کے گاؤں میں چلا جایا کروں گا اور کنوؤں میں ڈال دیا کروں گا۔ بس وہ پانی پئیں گے اور سب کے سب ایک ساتھ تڑپنے لگیں گے۔

    کوئی پانی تک دینے والا نہ ہوگا۔

    رامو کے منہ سے ایسی باتیں سن کر مومنہ کو اس سے نفرت ہو جانا چاہیئے تھی۔ لیکن مامتا نے اسے ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا کہ وہ یہ باتیں سن کر ترس کھاتی تھی کہ ہائے حملہ کرنے والوں نے میرے رامو کے جسم ہی کو نہیں دماغ کو بھی پھونک دیا ہے۔ وہ رامو کو لپٹا لیتی اور اپنے دو ایک آنسو اس کی انتقامی آگ پر چھڑک دیتی۔

    حملہ آوروں نے اناج اٹھانے میں بہت لا پروائی سے کام لیا تھا اس وجہ سے گھر میں بیٹھکے کے علاوہ جگہ جگہ پر چنے اور گیہوں بکھرے ہوئے تھے جن میں اکھوے پھوٹ آئے تھے۔ چڑیاں ان کو بارش کی اور آشنا کی وجہ سے ختم نہ کر کسی تھیں اور چوہے یا تو سب آگ میں جل گئے تھے یا بھاگ گئے تھے۔ مومنہ نے اناج کو بٹورا تو ڈھائی سیر کے قریب نکلا۔ اس اناج کو مومنہ خود کھاتی تھی اور اپنی چھاتی کا دودھ رامو کو پلاتی تھی۔

    مومنہ نے اپنی شلوار کے دونوں پائچے پھاڑ کر الگ کر لئے۔ ایک کو الٹ کر لہنگے یا پیٹی کوٹ کی طرح خود پہن لیا اور دوسرے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے اور ان کا رامو کا بچھونا بنا دیا۔ اور دو پٹے کو دو کرکے اوڑھنے کی دوچادر بنادیں تاکہ مکھیاں اسے تنگ نہ کریں۔ جب اس اوڑھنے بچھونے کا ایک جوڑا رامو کے جسم سے بہنے والے پانی سے تر ہو جاتا تھا تو مومنہ اسے دھوکر سوکھنے کو پھیلا دیتی اور دوسرا جوڑا بچھا، اڑھا دیتی تھی۔ جب رات کو خنکی ہوتی تھی تو سب کچھ رامو کو اڑھا دیتی تھی اور خود بھی اسے لپٹا لیتی تھی۔

    رامو جب بھی اپنی ماں کا دودھ پیتا تو پہلے سے زیادہ اس کا گرویدہ ہو جاتا۔ اس سے بن نہیں پڑتا تھا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کیسے کرے۔ بس وہ مومنہ کے گلے میں باہیں ڈال کر ماں ماں کرتا اور اپنی خالی آنکھوں سے اس کے چہرے پر محبت اور شکر گزاری کی بارش کرتا۔

    مومنہ رامو کے علاج کے لئے بہت متفکر تھی لیکن علاج کہاں سے میسر آئے۔ اس کو جلنے کی جو جو دوائیاں معلوم تھیں ان میں سے ایک بھی یہاں نہیں مل سکتی تھی، ایسی حالت میں بس دو صورتیں تھیں ایک تویہ کہ مومنہ رامو کو لے کر کسی پاس کے دیہات کو چلی جائے شاید کوئی بھلا مانس ترس کھا کر ان دونوں کو ٹکالے اور علاج کردے یا کرا دے۔ سو یہ صورت یوں ممکن نہ تھی کہ رامو اتنا جلا ہوا تھا کہ اسے گود میں اٹھانا مشکل تھا اور مومنہ میں اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اسے لےکر کوس دو کوس جا سکے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ اسی گاؤں میں بسنے کے لئے کچھ لوگ آ جائیں اور وہ ترس کھا کر رامو کے علاج کا انتظام کر دیں۔ بس یہی امید تھی جس پر وہ جی رہی تھی۔ لیکن پہلا دن گزرا۔ دوسرا دن گزرا، تیسرا دن گزرا، چوتھا دن گزرا۔ پر گاؤں میں بسنے کے لئے نہ تو ہندو آئے اور نہ مسلمان، وہ متحیر تھی کہ آج کل جبکہ لاکھوں انسان بےگھر ہوکر مارے مارے گھوم رہے ہیں، اس گاؤں کو جس کے کھیت کھڑے لہلہا رہے ہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ اگست 47 کا زمانہ پنجاب اور اس کے آس پاس کے مقاموں کے لئے ایسا ہنگاموں اور افرا تفری اور بد نظمی کا زمانہ تھا کہ پاکستان کے ایک گاؤں کاجو ہندوستان کی سرحد پر شاہراہ سے ہٹ کر واقع تھا، خانماں برباد لوگوں کی اس کثرت کے باوجود خالی رہ جانا کوئی عجیب بات نہ تھی۔ سکھوں یا ہندوؤں کے وہاں بسنے کا اس دور میں کوئی امکان ہی نہ تھا۔ رہے مسلمان پناہ گزیں سو وہ مخصوص راہوں سے گزرتے تھے اور جو خالی مقام مل جاتا تھا جسے خالی کرایا جا سکتا تھا وہاں بس جاتے تھے۔ لیکن کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس سے ان کو دور دراز کے خالی مقاموں کی خبر مل سکے۔ گاؤں کے آس پاس کے مسلمانوں کو خبر تو مل گئی ہوگی۔ لیکن یہ ضروری نہیں تھا کہ خبر پاتے ہی وہ اس گاؤں میں آ جانے یا اگر آ جاتے تو بس بھی جاتے۔ بسنے کے لئے بھی تو سو طرح کے انتظاموں کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ ان انتظاموں کے نہ ہونے کی وجہ سے آئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت میں یا اپنے پڑوسیوں کو لوٹنے میں ایسے منہمک ہوں کہ ادھر توجہ دینے کی نوبت ہی نہ آئی ہو، ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس کافی ہتھیار نہ ہوں، اس وجہ سے وہ ہندوستان کی سرحد کے قریب بستے ڈرتے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مومنہ کے آنے سے پہلے وہاں آئے ہوں اور گاؤں کو جلا ہوا اور بسنے کے ناقابل پاکر وہ یہاں کی بچی کھچی چیزوں کو لے کر چلے گئے ہوں۔ کھیت ضرور چھوڑنے والی چیز نہ تھے۔ سو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ان کو آپس میں تقسیم کر لیا ہو۔ لیکن قبضہ کرنے کو ہنگاموں کے سرد ہونے پر اٹھا رکھا ہو۔

    مومنہ کو کوئی شخص ادھر سے آتا جاتا بھی نظر نہ آیا۔ لیکن یہ بھی کوئی عجیب بات نہ تھی۔ اس دور میں سفر کرنے والے یا تو ہندو سکھ اور مسلمان پناہ گزیں ہوتے تھے یا ان دونوں کو لوٹنے والے مجاہدین اور سورما۔ یا ان کی حفاظت کرنے والے فوجی۔ ان کے علاوہ اور کوئی شخص سفر کرنے کی خاص کر سرحد کے علاقوں میں ہمت ہی نہیں کرتا تھا۔ ایسی صورت میں ایک گاؤں جو شاہراہوں سے دور سرحد پر واقع تھا۔ اگر آنے جانے والوں سے خالی رہا تو کوئی خلاف معمول بات نہیں ہوئی۔

    چار دن کی چاندنی راتیں گزر چکی تھیں اور اب اندھیرا پاکھ تھا جسے بار بار آنے والی گھٹائیں اور مہیب بنا دیتی تھیں جلے ہوئے دالان کے سامنے جیئ ہوئی کھپریل کا اڑم تاریکی کا پہاڑ بن گیا تھا۔ گھر کے ہر دروازے، ہر در اور ہر کھڑکی کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اتنا اندھیرا کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابلنے ہی والا ہے اور ابل کو سارے عالم کو بھر دے۔ لاشوں کو کھانے والے جانوروں کی چیخ پکار اب جو آتی تھی تو بسی ہوئی، جو دل میں طرح طرح کے ہول پیدا کرتی تھی۔ اس اندھیرے میں صرف آشا کی آنکھیں تھیں جو چمکتی تھیں اور جس سے ذرا ڈھارس بندھتی تھی کہ شاید وہ آنے والی ناگہانی کا مقابلہ کر لیں۔

    مومنہ نے رامو کو اپنے جگر کا خون جو پلایا تو اس میں توانائی کچھ ضرور آئی لیکن جب بخار بڑھا اور زخم بگڑا تو توانائی چوگنی کمزوری میں تبدیل ہو گئی۔ دو دن میں وہ بہت چڑ چڑا اور ضدی ہو گیا۔ وہ نمکین چیز مانگتا تھا اور کہتا تھا کہ گاؤں میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور ہو گی، تم ڈھونڈتی نہیں ہو۔ اس کے پاس ایک کاٹھ کا گھوڑا تھا جو بیٹھکے کے برابر والے دالان میں رہتا تھا۔ رامو کہتا تھا کہ اسے مسلمان لے نہیں گئے ہوں گے۔ انہوں نے کہیں پھینک دیا ہوگا۔ اسے ڈھونڈلاؤ۔ ساتھ ساتھ اسے یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ ماں ذرا دیر کے لئے بھی اس کے پاس سے ہٹ جائے۔ جہاں ذرا دیر کے لئے مومنہ اسے چھوڑتی وہ رونے لگتا اور پھر اسے اپنا باپ، چندر، دادی، گھر آنکھیں سب کچھ یاد آ جاتا۔

    مومنہ رامو کی تکلیف کو سمجھتی تھی۔ جس بچے کا آدھا جسم ایک آبلہ ہو اور ہر وقت ٹپکتا رہتا ہو اس کی کیا حالت ہونی چاہیئے۔ بہادر تھا رامو جو اتنا ضبط کرتا تھا۔

    آج مومنہ کو آئے پانچویں رات تھی کہ رامو کو اختلاج کا سخت دورہ پڑا اور وہ سب گزری ہوئی باتیں یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مومنہ نے منہ دھلایا۔ پانی پلایا۔ دل میں دعائیں پڑھ پڑھ کر دم کیں، بہت دیر میں جاکر اس کی حالت کچھ سنبھلی۔ تب بہلانے کو مومنہ نے اسے کل کے گھوڑے کی کہانی سنائی۔ کہانی سن کر رامو بولا،

    ’’ماں! اگر میرا کاٹھ کا گھوڑا مل جائے اور وہ اڑنے لگے تو کیا مزہ آئے۔‘‘

    ’’ہاں بیٹا پھر تم جہاں چاہو اڑ کر پہنچ جاؤ۔‘‘

    ’’ماں پھر اس پرتم کو بٹھا کر ماماجی کے یہاں پہنچ جاؤں اور ان کے دروازے پر نہیں بلکہ کوٹھے پراتروں اور ہم دونوں زینے سے اتر کر نیچے آئیں۔ ماں پھر ماما جی اور نانی جی کو کتنی حیرت ہوگی۔‘‘

    رامو کو اس خیال سے لطف آ گیا اور وہ ہنس پڑا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر بولا،

    ’’اگر ایسا گھوڑا ہوتا تو میں ایک کام اور کرتا۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’وہ یہ کہ اس پر جا کر کسی مسلمان کو اٹھا لاتا اور پھر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کسی کنوئیں میں لٹکا دیتا اور کہتا، ’’کہو بچا جی اب ملا مزا ہندوؤں کو مارنے کا۔‘‘

    رامو کے منہ سے پھر زہر کے بھپکے نکلنے لگے اور پھر وہ ہوائی جہاز اور بم والی باتوں کے رنگ میں آ گیا۔ مومنہ اب ایسے موقع پر ہاں ہاں کر دیا کرتی تھی۔ لیکن کنوئیں میں لٹکانے کی بات سن کر اپنے شوہر کا کنوئیں میں زندہ دفن کیا جانا یاد آ گیا اور وہ باوجود کوشش کے ہاں میں ہاں نہ ملا سکی۔

    رامو، ’’کیسا اچھا ہوتا ماں!‘‘

    مومنہ خاموش رہی لیکن وہ ڈرتی بھی رہی کہ کہیں اس خاموشی سے رامو خوفزدہ نہ ہو جائے۔ یا اسے اختلاج کا دورہ نہ پڑ جائے۔ لیکن ایسانہیں ہوا بلکہ رامو کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

    پچھلے پہر رامو کی حالت بگڑی گئی۔ مومنہ کے پاس دوا کے نام کو صرف گڑھے کا برسانی پانی تھا یا دعا۔ یوں تو جب تک رامو کی سانس تھی تب تک مومنہ کی آس تھی۔ لیکن اس کی زبان سے نکل گیا۔‘‘ ان تینوں کا جیسا کچھ دیکھا یہ بھی دیکھ۔ حالت کی خرابی کوئی چھ ساتھ گھنٹہ تک رہی مومنہ اس کا سر اپنے زانو پر لئے کیفیت دیکھتی رہی، دعائیں مانگتی رہی اور قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کر دم کرتی رہی۔

    ذرا دن چڑھے رامو نے خلاف توقع آنکھیں کھول دیں اور نحیف آواز سے پانی مانگا۔ مومنہ نے پانی دے کر پوچھا،

    ’’بھوکے بھی تو ہوگے؟‘‘

    ’’ہاں ماں۔‘‘

    مومنہ نے رامو کے منہ میں چھاتی دے دی۔ اس نے منہ میں لے تو لی لیکن پیا نہیں۔ وہ صرف ماں کی قربت کا بھوکا تھا۔ اس نے کوشش کر کے ماں کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور کہا،

    ماں اگر میں بچ جاؤں تو جانتی ہو کیا کروں گا۔

    ’’کیا کروگے بیٹا؟ تم بچ جاؤ گے۔‘‘

    ’’ماں میں زندگی بھر تمہاری سیوا کروں گا۔ اپنی زندگی کا ایک ایک پل اسی میں خرچ کروں گا۔ میں پڑھوں گا۔ لکھوں گا جو کچھ بھی کروں گا تمہارے لئے کروں گا۔ تم کو ہر وقت دودھ دہی کھلاؤں گا تم کو اپنی جگہ سے ہلنے نہ دوں گا۔ ہر کام خود دوڑ دوڑ کر کروں گا۔‘‘

    مومنہ کے گالوں پر آنسوؤں کا ہار گندھ گیا۔ اس نے اپنی آواز کو سنبھال کر کہا،

    ’’ہاں بیٹا تو بڑا پیارا ہے۔ تو ایسا ہی کرےگا۔‘‘

    رامو پر پھر کمزوری طاری ہو گئی۔

    ’’ماں‘‘

    ’’بیٹا‘‘

    ’’مسلمان اپنے مردوں کو دفن کر دیتے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں رامو۔‘‘

    ’’لاش زمین کے اندر سڑتی ہوگی اور اسے کیڑے مکوڑے کھاتے ہوں گے۔ یہ بھی کتنا برا طریقہ ہے۔ ہم لوگ تو پھونک کر سب کچھ اپنے سامنے ختم کر دیتے ہیں۔‘‘

    مومنہ اب تک سمجھتی تھی کہ لاش کا پھونکنا بے حد غیر مہذب طریقہ ہے اور دفن کرنا بہت شائستہ فعل ہے۔ یہ نیا نقطۂ نظر سن کر وہ متحیر ہو گئی لیکن اس نے سوچا کہ اس طرح بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

    پھر رامو پر کمزوری طاری ہو گئی۔

    ’’ماں‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    کیا مرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے؟‘‘

    اس سوال پر مومنہ کی مامتا تڑپ اٹھی لیکن اس کی ہمت نے کہ مومنہ! اپنے بچے کو آخر یاترا کے لئے تیار کرنا ہے، وہ کلیجہ پکڑ کر بولی،

    ’’نہیں رامو، تکلیف صرف ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کے دل میں برائی ہوتی ہے۔‘‘

    ’’ماں، کیا میرے دل میں برائی ہے؟‘‘

    ’’پیارے تیرا من تو ہیرا ہے۔‘‘

    ’’سچ‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    ’’رام۔۔۔‘‘

    ’’مگر رامو مرنے کی باتیں نہ کرو۔ تم تو اچھے ہو جاؤگے۔‘‘

    ’’رامو نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘

    ’’ماں‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘

    ’’ایک بات پوچھوں۔‘‘

    ’’ضرور۔‘‘

    ’’بتا دینا۔‘‘

    ’’ہاں ضرور بتا دوں گی۔‘‘

    ’’ماں کیا تم مسلمان ہو؟‘‘

    یہ سوال بالکل خلاف توقع تھا۔ مومنہ سناٹے میں آ گئی۔ کیا رامو نے شروع ہی سے پہچان لیا تھا اور اب تک مجھے دھوکے میں رکھا؟ لیکن نہیں، اب تک تو وہ مجھے ماں ہی سمجھتا رہا ہے۔ اس کی باتوں میں کوئی کھوٹ نہ تھا۔ پھر کیا بات ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مرتے وقت جو ایک حقیقت بینی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ رامو میں پیدا ہو رہی ہے۔

    رامو خود ہی کہنے لگا،

    ’’ماں کچھ ایسا لگتا ہے کہ میں نے ادبداکر بہت سی باتوں کو نہیں سمجھا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ تم میری ماں ہوتیں، اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ تم میری ماں ہو۔ لیکن اب چھلکا اتر گیا اور بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ ماں تم نے مجھ سے جیسی محبت کی ہے سگی ماں نے بھی نہیں کی تھی۔ مجھے ایسا سکھ کبھی نہیں ملا تھا۔ پچھلے جنم میں تم ہی میری ماں ہو گی۔

    مومنہ، ’’ہاں بیٹا میں مسلمان ہوں۔‘‘

    ’’ماں مجھ سے کچھ نہیں چھپاؤ۔ اب میں ڈروں گا نہیں۔ تمہارا گھر کہاں ہے اور تم یہاں کیسے آئیں؟‘‘

    ’’میرا گھر دہلی کے پاس تھا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ عزیز مار ڈالے گئے اور مجھے لوگ پکڑ لے گئے۔ پھر موقع پاکر میں بھاگ آئی اور یہاں پہنچ گئی۔‘‘

    ’’لوٹنے والے کون تھے۔ ہندو۔‘‘

    ’’ہاں بیٹا ہندو تھے۔‘‘

    رامو کی آواز سے معلوم ہوا کہ اس کے دل پر سخت چوٹ لگی،

    ’’میرے بھائی بہن بھی ہیں؟‘‘

    ’’دو بھائی ایک چھوٹی بہن مار ڈالے گئے، ایک جوان بہن مہرن باقی ہے۔‘‘

    ’’کہاں ہے؟‘‘

    ’’پتہ نہیں۔‘‘

    ’’ہندو اٹھا لے گئے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    رامو کے دل پر سخت گھونسا لگا اور منہ سے آہ نکل گئی،

    ’’ماں اگر تم بدلہ لے سکیں تو ہندوؤں سے بدلہ لوگی؟‘‘

    ’’دیکھا نہیں ہے مورکھ میں تجھے کتنا پیار کرتی ہوں۔‘‘

    رامو کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگا، ’’شماکروں، ماں مجھ سے بھول ہوئی۔ تم بدلہ لینا چاہتیں تو مجھ سے نہ لے لیتیں۔ تمہارے دل میں تو دیا ہی دیا ہے۔‘‘

    رامو ذرا کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا، ’’اگر میں بچ گیا تو میں بھی اب بدلہ نہ لوں گا۔ اپنی بہن مہرن کو ڈھوند کر لاؤں گا۔‘‘

    ’’بیٹا تو ضرور ایسا کرےگا۔ تو بڑا اچھا ہے۔ میرا رامو تو ہیرا ہے۔‘‘

    ’’میری ایک کامنا اور پوری کر دو ماں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’تم میرے مرنے کا غم نہ کرنا میری آتما اسی وقت شانت ہوگی۔ جب تم سکھی ہوگی۔ ماں تم نہیں سمجھ سکتیں کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔‘‘

    مومنہ نے پتھر کا دل کر کے جواب دیا،

    ’’میں صبر کروں گی۔ لیکن تو اچھا ہو جائےگا۔‘‘

    ’’ہمارے گاؤں میں سب سے مضبوط چیز وہ پتھر ہے جس پر شوالہ بنا ہے تم مجھے ویسی ہی مضبوط معلوم ہوتی ہو ماتا جی، تم جو چاہو وہ کر سکتی ہو۔ میری ماں کا نام پریما ہے۔ باپ کا نام سورج پرشاد۔ اسے برے مسلمان پکڑلے گئے ہیں۔ ہو سکے تو اسے بھی میری بہن مہرن کے ساتھ ڈھونڈنا۔‘‘

    ’’میں بےبس عورت ہوں۔ نہ پیسہ ہے اور نہ کوئی مددگار۔ لیکن جو کچھ کر سکتی ہوں۔ ان دونوں کو چھڑانے کے لئے کروں گی۔ جو محبت میں تجھ سے کرتی ہوں وہی پریما سے کروں گی۔ تم شانت رہو بیٹا۔‘‘

    ’’ایک بات اور ہے ماں۔ تمہارا جی چاہے تو مجھے دفن کر دنیا میں تمہارا ہی بیٹا ہوں۔ ایشور کرے دوسرے جنم میں تم ہی سے پیدا ہوں اور تم ہی مجھے پالو پوسو۔‘‘

    بجھتا ہوا چراغ لمحہ بھر کے لئے اس طرح بھڑک کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔

    مومنہ واقعی شوالے کا پتھر بن گئی۔ وہ یٰسین پرھتی رہی اور جب رامو چلا گیا تو اس نے اپنی شلوار کی بنائی ہوئی چادروں کو دھو کر اسے کفن دیا۔ وہ اکیلی نہ اس لاش کو دفن کر سکتی تھی اور نہ پھونک سکتی تھی۔ لیکن اسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ اس بچے کو مرنے کے بعد جنگلی جانور اپنا لقمہ بنائیں۔ اس لئے اس نے لاش اٹھا کر بیٹھکے میں رکھ دی اور اس کی دیوار پر کوئلے سے لکھ دیا،

    ’’یہ لاش رامو کی ہے، وہ ہندو تھا۔ لیکن اس کی ماں مومنہ مسلمان تھی۔ اگر یہاں مسلمان آئیں تو اسے دفن کر دیں۔ ہندو آئیں تو پھونک دیں۔ مومنہ اگر زندہ بچی تو یہ احسان کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے یہاں ایک بار ضرور آئےگی۔‘‘

    مومنہ نے بیٹھکے کے سب دروازے بند کر دیئے اور دہلیز پر چند جنگلی پھول لا کر چڑھا دیئے۔

    اس اجڑے گاؤں میں مومنہ کی ایک سہیلی اور تھی اور گاؤں چھوڑنے سے پہلے وہ اس کی بھی عیادت کر لینا چاہتی تھی۔ یعنی بھینس۔

    مومنہ وہاں گئی اور کھنڈر پر چڑھ کر اس نے جھانکا۔ پانی سوکھ چکا تھا اور ماں اور بچھڑے کی لاشیں ایک دوسرے سے اس طرح گتھی ہوئی پڑی تھیں گویا وہ دو جسم نہیں ایک ہی جسم تھے۔

    مومنہ وہاں سے رخصت ہو کر جب گاؤں سے نکلنے لگی تو آشا اس کے ارادے کو بھانپ کر رک گئی اور التجا بھری نظروں سے مومنہ کو دیکھنے لگی۔ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ میں رامو کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی مجھے معاف کرو۔ میں تو اس کی سمادھی پر جوگن بن کر رہوں گی۔

    آشا اب پہلے والی آشا نہ تھی وہ نراشا ہو گئی تھی۔ مومنہ نے اس کو چمکارا اور پیار سے سمجھایا۔

    ’’بھولی بھالی آشا کیا تو سمجھتی ہے کہ رامو وہ تھا جسے میں بیٹھکے میں چھوڑ آئی ہوں وہ تو ایک بیکار سی چیز تھا۔ اصلی رامو تو اب میرے من میں ہے اور کہتا ہے کہ تم مہرن اور پریما کی کھوج میں نکلو جب تک تم ان کی کھوج میں لگی رہوگی میں تمہارے من میں رہوں گا اور جہاں تم اس سے غافل ہو ئیں میں چلا جاؤں گا۔ چل آشا تو اگر رامو سے پریم کرتی ہے تو میرے ساتھ آ۔‘‘

    آشا سمجھی یا نہیں، لیکن مومنہ کے ساتھ چل کھڑی ہوئی۔ گاؤں کو طے کر کے مومنہ شوالے کے سامنے آ گئی اور وہ پتھر دیکھنے لگی جس سے رامو نے اس کو تشبیہہ دی تھی۔ واقعی وہ ایک زبردست لمبی چوڑی چٹان بھی جو اپنے سینے پر شوالے یا مسجد کو اٹھائے ہوئے تھی جانے کب سے اٹھائے ہوئے تھی اور جانے کب تک اٹھائے رہے گی۔ فسادوں اور آگ و خون کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

    مومنہ نے اوپر نیچے دیکھا۔ پاؤں تلے وہی زمین تھی اور سر پر وہی آکاش جن کے درمیان اس کے سکھ کے دن بیتے تھے اور دکھ کے بھی، ان دونوں کے بیچ میں بدستور ہوا کے جھونکے ہندوستان سے پاکستان اور پاکستان سے ہندوستان آتے جاتے تھے۔

    پتھر وہیں رہ گیا اور مومنہ اسی دھرتی اور اسی آکاش کے بیچ میں اپنی مشن پر چل کھڑی ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے