Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں

MORE BYریاض توحیدی

    وہ اوندھے منہ زمین پر گر کر ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ جن بچوں کے ساتھ وہ کھیل کو د میں مشغول تھا وہ دوڑتے ہوئے اس کے گھر گئے اور اس کی ماں کو ساتھ لے آئے۔ ماں نے جب روتے روتے اپنے دوپٹے سے اس کے جھاگ بھرے منھ کو صاف کیا تو وہ تھوڑی دیر بعد پھر سے اپنے حواس میں آ گیا۔ ماں اسے گھرلے آئی اور کھانا کھلاتے ہوئے سمجھانے لگی کہ کتنی بار تجھ سے کہا کہ گھر سے باہر مت نکلاکر، ابھی تو ٹھیک نہیں ہواہے۔ جب اچھی طرح ٹھیک ہو جائےگا تو تو بچوں کے ساتھ کھیل بھی سکےگا۔ اس پر ماں کی باتوں کا کچھ اثر نہیں ہوتا تھا وہ اپنی بیماری سے بےخبر تھا۔ اسے جب بھی مِرگی کا دورہ پڑتا تھا تو اس کے منھ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتا اور وہ زمین پر گر کر ہاتھ پاؤں سے زمین کھودنے لگتا۔ وہ بیس برس کا ہونے کے باوجود بھی بچہ تھا اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا رہتا اور جب وہ کبھی دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے گھر نہیں جاتا تو اس کی ماں اسے ڈھونڈتی ہوئی کھیل کی جگہ پہنچ جاتی اور اسے بازو پکڑ کر گھر لے جاتی۔ دیہاتی ہونے کی وجہ سے اس کے والدین نے اس کی بیماری کی طرف کم ہی توجہ دی۔ وہ پیروں، فقیروں کے پاس تو جاتے تھے لیکن اس کا میڈیکل علاج نہیں کرواتے تھے لیکن وہ لوگ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے تھے کیونکہ اس دور دراز دیہات میں شاید ہی کوئی انسان جدید طریقہ علاج سے آشنا تھا۔ وہاں پر نہ تو کوئی ہیلتھ سنٹر تھا اور نہ ہی کوئی فرد جدید میڈیکل سہولیات سے واقف تھا۔ یہ لوگ روایتی اندز میں بیمار یوں کا علاج کر نے کے عادی تھے۔ ان لوگوں کے اکثر بچے پولیو اور ٹی۔ بی۔ جیسی مہلک بیماریوں کے شکار ہو جاتے تھے۔ تو ہمات اور لاعلمی کی وجہ سے یہ لوگ ان بیماریوں کی جانب کم ہی توجہ دیتے تھے۔

    تہوار کی صبح والدین نے اسے نہلایا اور نئے کپڑے پہنائے، وہ کھانا کھا کر بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے میدان کی طرف چل پڑا۔ میدان میں ڈھول بج رہے تھے۔ بچے ڈھول کی نال پر ناچ رہے تھے۔ وہ بھی ناچنے لگا اور ناچتے ناچتے اپنے کپڑے پھاڑ نے لگا۔ چند ہی لمحوں میں اس پر مرگی کا دورہ پڑا اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ کچھ لوگوں نے اسے زمین سے اٹھا یا اور اس کے گھر کی طرف لے چلے۔ گاؤں کا ایک لڑکا، جو شہر میں پڑھ رہا تھا بھی اس کے گھر چلا گیا۔ وہاں اس نے اس کے گھر والوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ شہر جاکر کسی اچھے ڈاکٹر سے اس کا علاج کرائے۔ کچھ دنوں کے بعد اس کے والدین اس لڑکے کے ساتھ شہر کے ایک بڑے ڈاکٹر کے پاس اسے لے گئے۔ ڈاکٹرنے جب اسکا مکمل چک اپ کیا تو وہ مایوس ہوکر انھیں سمجھانے لگا کہ آپ لوگ بڑی دیر سے آئے۔ اس کے سرکی نسیں کمزور پڑ گئی ہیں اور یہ نشانی پاگل پن کی نشانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نے انھیں معمولی دوائیاں لکھ کر دیں اور وہ مایوس ہوکر گھر کی طرف لوٹ پڑے۔ ماں اب اسے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتی تھی۔ اس پر اب مہینے میں تین چار بار پاگل پن کا دورہ پڑتا۔ دوا کا بھی اس پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ ماں ہرطرح سے اس کا خیال رکھتی تھی۔ لیکن جب وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے لگی تو اس نے اپنے دوسرے بیٹوں سے منت سماجت کی کہ وہ اپنے نیم پاگل بھائی کو کسی قسم کا دکھ نہیں دینگے۔

    ماں کے مرنے کے بعد اس کی چھوٹی بہن اس کا ہرطرح سے خیال رکھتی تھی۔ وہ اس کے کپڑے دھوتی، اسے صاف رکھتی اور وقت پر اسے کھانا کھلاتی رہتی۔ بہن کی شادی کے بعد وہ اکیلا پڑ گیا۔ بھائیوں نے جب شادیاں کیں تو وہ اس کی طرف کم ہی توجہ کرنے لگے۔ ایک دن گھر کا بٹوارہ ہو گیا۔ بھابیوں نے الگ الگ چولہے جلائے۔ گھر کی تمام قیمتی جائیداد کی تقسیم تو ہوگی لیکن اس بے قیمت شئے کو کسی نے بھی نہیں اپنایا۔ اس کو بکریوں کے اندھیرے جھونپڑے میں رکھا گیا اور اپنی اپنی باری پر اسے کھانا دیا جاتا۔

    تہوار کادن تھا۔ ہر طرف خوشی کا ماحول تھا۔ اس کی بھا بیاں طرح طرح کے لذیذ کھانے اپنے اپنے بچوں کو کھلاتیں رہی۔ اس کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں چلا گیا۔ وہ دن بھر بھوکا پیاسا اندھیر ے میں پڑا رہا۔ جب اسے بھوک نے زیادہ ستانا شروع کیا تو اس نے بکری کے تھن سے اپنا منہ لگایا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ اس کچے دودھ کی وجہ سے اسے بخار چڑھ گیا اور اس کا بدن جلنے لگا۔ رات کے وقت جب اس کی ایک بھابی بکری کا دودھ دوہنے آئی تو تھن خالی پاکر اس نے فرش پر دودھ کی چھینٹیں دیکھی۔ اس کے نزدیک جاکر جب اس نے سمجھا کہ دودھ کہاں غائب ہو گیا ہے تو اس نے غصے میں آکر بالٹین اس کے سرپر زور سے مارا اور بک بک کرتی ہوئی وہاں سے نکل گئی۔ اس نیم پاگل کے سر سے خون بہنے لگا۔ آدھی رات تک وہ زخمی حالت میں تڑپتا رہا اور جب سب لوگ سوئے ہوئے تھے تو اس پر پاگل پن کا دورہ پڑنے لگا۔ وہ اندھیری رات میں قبرستان کی طرف کپڑے پھاڑتے ہوئے چلا گیا۔ ماں کی قبر پر پہنچ کر وہ زور زور سے رونے لگا۔ وہ اپنی زخمی روح کو سکون دینے کے لئے ماں کی قبر سے لپٹ گیا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ بچپن کی طرح ماں کی گود میں بیٹھا ہوا ہے اور ماں اسے سلانے کے لئے لوری سنا رہی ہے۔ اس پر آہستہ آہستہ نیند کا غلبہ ہونے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے ہاتھ پیر ہلنے لگے اور دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ اس کی آنکھیں اچانک کھل گئیں اور اس کے منھ سے جھاگ کے ساتھ آخری بار نکل پڑا۔۔۔ ماں۔۔۔!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے