Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں

MORE BYویکوم محمد بشیر

    ایک دور دراز شہر کی زندگی کے مصائب جھیلتے ہوئے بیٹے کو ماں خط لکھتی ہے۔ اس کی تحریر میں اس کے دل کا درد ہے، ’’بیٹے، میں بس تجھے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

    صرف اتنا ہی لکھ کر وہ رکتی نہیں ہے۔ گرامر کے ہر قاعدے اور ہر اصول سے عاری، گھسیٹ میں لکھے ہوئے خط میں بہت سے اور بھی الفاظ جملوں کی لڑیوں میں پروئے ہوئے ہیں۔ جملوں کی بےربطی اور تحریر کی بدخطی کے باوجود اس کے دل کا درد بالکل واضح ہے۔ ایک زمانہ ہو گیا تھا ایک دوسرے کو دیکھے ہوئے۔

    بیٹا جانتا ہے کہ ماں ہر روز اس کی راہ دیکھتی ہے، اس کے آنے کی توقع اسے ہر لمحہ رہتی ہے۔ مگر وہ کرہی کیا سکتا تھا؟ سفر کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ شہر میں ایک ایک دن گذارنا اس کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ مجھے کل روانہ ہو جانا چاہیے، مجھے ماں سے ملنے اب جانا ہی چاہیے۔ یہی سوچ سو چ کر وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے۔ مگر دن، ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدلتے جاتے ہیں۔ ماں ہر روز بیٹے کا انتظار کرتی ہے۔ یہ سب میں اپنی ماں کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ اس کے بعد جو کچھ کہنے کا میرا ارادہ ہے وہ بھی اپنی ماں کے بارے میں ہی ہوگا۔

    یہاں ہندوستان میں جہاں میں رہتا ہوں، ہر بیٹا اپنی ماں کے بارے میں یہی کچھ کہےگا۔ میں جدوجہد آزادی کے بارے میں بات کرنے والا ہوں۔ میری ماں سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا بیٹا ہوں۔ سارے ہندوستان میں مائیں ہیں جنہوں نے مجھ جیسے بچوں کو جنم دیا ہے۔ اپنی مادر وطن کی آزادی کی لڑائی میں جب ان کے بچوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا تو ان ماؤں نے کیا کیا؟ ہندوستان کے نوجوان مرد اور نوجوان عورتوں کو سزائیں ملیں، انہیں مارا پیٹا گیا، بدیسی حکومت کے چمچوں نے ان کی ہڈیاں پسلیاں توڑ دیں، انہیں کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ جیل سے باہر ہزاروں ماؤں نے کیا کیا؟ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ مگریہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میری ماں نے کیا کیا۔

    میں وہ سب لکھنے جا رہا ہوں جو پیش آیا۔ ایسا کرنے میں میرے سامنے کوئی مقصد نہیں ہے۔ میں جب ماں کا خط پڑھتا ہوں تو کئی پرانی یادیں میرے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ویکوم سے کالی کٹ جانے اور نمک ستیہ گرہ میں حصہ لینے کی کہانی۔

    اس واقعے کو بیان کرنے سے پہلے مجھے کچھ کہنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں کسی راز کو منکشف نہیں کر رہا ہوں کہ میں یہ ۱۹۳۷ء میں لکھ رہا ہوں اوریہ کہ ہندوستان ابھی آزاد نہیں ہوا ہے۔ یہ بھید بہرحال میں کھول ہی دوں کہ مجھے گھونسے لگے، میں نے لاتیں کھائیں اور مجھے سزا ہوئی گاندھی جی کی وجہ سے۔ پھر بھی یہ سب کچھ میرے ساتھ نہ ہوا ہوتا اگر میری ماں نے مجھے جنم نہ دیا ہوتا۔ میری ماں نے بھی میری وجہ سے ہونے والی ذہنی اذیت نہ جھیلی ہوتی۔ میری ماں نے غلامی، افلاس اور ناقابل بیان مصائب کی اس سرزمین میں مجھے آخر جنم ہی کیوں دیا؟ ہندوستان میں یہ سوال تو تمام ماؤں سے ان کے بیٹے اور بیٹیاں کرتے ہیں۔

    یا پھر یہ سوال عورتوں اور مردوں کے ذہن میں اب بھی بن پوچھا رہ رہا ہوگا۔ ہندوستان اتنا غریب کیوں ہے؟ میں اپنا سر اٹھاکر یہ نہیں کہہ سکتا کہ’’میں ایک ہندوستانی ہوں۔‘‘ میں تو بس ایک غلام ہوں۔ مجھے ایک غلام ملک سے، جو ہندوستان ہے، نفرت ہے۔ مگر پھر ہندوستان کیا میری ماں نہیں ہے؟ اپنی کوکھ سے مجھے جنم دینے والی ماں جس طرح مجھ سے کچھ توقعات رکھتی ہے، اسی طرح کیا ہندوستان کو مجھ سے کچھ توقعات نہیں ہیں؟ ہندوستان کی زمین میرے مردہ جسم کو اسی طرح اپنی آغوش میں لینے کی توقع رکھتی ہے جس طرح میری ماں مجھے زندہ دیکھنا چاہتی ہے۔

    توقعات!

    مجھے یاد ہے کہ مجھے میری ماں نے جنم دیا۔ اپنا دودھ پلا پلاکرمجھے بڑا کیا۔ پال پوس کر مجھے جوان، ایک پکاپورا مرد بنایا۔ ماں کہتی ہے کہ میں اس کی دعاؤں اور منتوں کاپھل تھا۔ ’’تو بڑی مرادوں اور منتوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔‘‘ ہرماں اپنے بچے سے یہی کہتی ہے۔ میں اپنے احساسات اور اپنے دل کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ میرے ہاتھوں کو باندھنے والی ہتھکڑیوں کی طرح بالکل صاف ہیں حوالات کے کمرے، جیل اور پھانسی کے تختوں کو اور ان کے سامنے کھڑے ہوئے پولس والوں، سپاہیوں اور جیلروں کو دیکھتا ہوں۔

    ہندوستان اونچی اونچی دیواروں والا سب سے بڑا جیل ہے، جو ذہن وجسم کو مقید رکھتا ہے۔ یہ بات گاندھی جی نے کہی تھی، مگر مجھے یہ یادنہیں کہ کب۔ گاندھی جی کی وجہ سے میری جوپٹائی ہوئی تھی وہ مجھ اچھی طرح یادہے۔ مجھے ایک برہمن نے مارا تھا، جس کا نام تھا وینکٹیشورایر۔ وہ ویکوم انگلش ہائی اسکول کا ہیڈماسٹر تھا۔ پورے سات بید! یہ قصہ نمک ستیہ گرہ کے زمانے کاہے۔

    قصبے میں بڑا جوش وخروش تھا۔ گاندھی جی آ رہے تھے۔ دریا کے دونوں کناروں پر لوگوں کی زبردست بھیڑ تھی۔ بھیڑ کو چیرتا پھاڑتا میں اپنے کچھ دوسرے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ مجمعے کی اگلی صفوں تک پہنچ گیا۔ ذرا فاصلے پر ہم نے ایک کشتی میں گاندھی جی کو دیکھا۔ سمندر کی ایک اونچی لہر کی طرح، وہاں پر جمع ہزاروں لوگوں کی آواز آئی، ’’مہاتما گاندھی کی جے!‘‘ بدیسی راج کو للکارتی ہوئی۔

    ان کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ سامنے کے دودانت غائب تھے۔ دونوں ہاتھ جوڑکر انہوں نے لوگوں کوسلام کیا اور مسکراتے ہوئے کنارے پر اتر گئے۔ ہرطرف غضب کا شور تھا۔ وہ کنارے پر کھڑی ہوئی ایک کار میں بیٹھ گئے۔ کار نے مجمعے کے بیچ آہستہ آہستہ حرکت شروع کی۔ اس کی منزل ستیہ گرہ آشرم تھی۔ بہت سے طالب علم کار پر لٹک گئے۔ میں بھی ان طالب علموں میں تھا۔ اس ساری افراتفری میں میری بس ایک خواہش تھی۔۔۔ مہاتما کو چھونے کی، دنیا بھر کے چہیتے مہاتما کو۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر میں نے مہاتما کو چھوا نہیں تو میں زندہ نہیں رہوں گا۔ فرض کرو ہزاروں لاکھوں کی اس بھیڑ میں سے کسی نے مجھے دیکھ لیا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ میں نے بہرحال ہر خوف او رہر ڈر کو اپنے دماغ سے نکالا اور بہت دھیرے سے گاندھی کے بائیں کاندھے کو چھو لیا۔

    میری اس حرکت کو کسی نے نہیں دیکھا۔

    شام کو گھر واپس آنے پر میں نے بڑے فخر کے ساتھ اپنی ماں کو بتایا، ’’اماں، آج میں نے گاندھی جی کو چھولیا۔‘‘

    ماں جسے کچھ نہیں معلوم تھا کہ یہ گاندھی کیا چیز ہے، حیرانی اور سراسیمگی سے کانپ اٹھی۔ ’’ارے۔۔۔ میرے بیٹے!‘‘ ماں نے کہا۔ اس کا منھ کھلا ہوا تھا اور وہ مجھے حیرت سے تک رہی تھی۔

    مجھے یاد ہے۔ ہمارے ہیڈماسٹر ستیہ گرہ کے مخالف تھے۔ وہ گاندھی جی کے بھی خلاف تھے۔ اس لیے انہوں نے طالب علموں کو گھر میں بنائی کھردری کھادی پہننے کو منع کر دیا تھا۔ انہوں نے طالب علموں کے آشرم جانے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ میں ان دنوں کھادی پہنتا تھا۔ میں آشرم بھی جاتا تھا۔ ایک دن جب میں کلاس روم میں داخل ہوا، ہیڈماسٹر صاحب نے مجھے اپنے پاس بلایا اور زہر خند کے ساتھ کہا، ’’لڑکو، ذرا اس کے کپڑوں کی طرف دیکھو!‘‘ میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’بدمعاش، تمہارے باپ نے بھی کبھی یہ کپڑے پہنے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ایک دن میں کلاس میں گھنٹا بجنے کے تین منٹ بعد پہنچا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب برآمدے میں بیدلیے ہوئے کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھ سے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے بتا دیا کہ میں آشرم چلا گیا تھا۔

    ’’تم وہاں کیوں گئے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے میری ہتھیلی پر بید مارے۔ ’’اب دوبارہ وہاں مت جانا، سمجھ گیا؟ بدمعاش کہیں کا!‘‘ پیٹھ پر ایک بید اور پڑا۔

    مگر میں آشرم پھر گیا۔

    مجھے یادہے۔ ان دنوں میرے پاس کھادی کی ایک قمیص اور کھادی ہی کی ایک دھوتی تھی۔ بس ایک قمیص اور ایک دھوتی۔ کھادی اس زمانے میں احتجاج کی علامت تھی۔ میں نے قسم کھائی تھی کہ باہر کے کپڑے نہیں پہنوں گا۔ میں کہتا تھا کہ مرنے کے بعد میرا کفن کھادی ہی کا ہونا چاہیے۔ میری ماں پوچھتی تھی، ’’یہ موٹا اور کھردرا کپڑا کہاں سے ملا ہے؟ اس سے تو کھال چھل جاتی ہوگی۔‘‘ ان کا خیال تھا کہ کھادی کی رگڑسے کھال زخمی ہو جاتی ہے۔

    میں جواب میں انہیں بتاتا کہ ’’یہ کپڑ ا ہندوستان میں بنا ہے۔‘‘ گاندھی جی، علی برادران، سیلف گورنمنٹ، انگریزی راج، برطانوی تسلط۔۔۔ اس زمانے میں ہماری گفتگو کے یہی موضوع تھے۔ ہمارے قصبے میں اس وقت صرف دو نوجوان ایسے تھے جن سے وہاں کے بزرگ بات کرکے انگلستان اور چین کے بارے میں اپنے شکوک وشبہات کو دور کر سکتے تھے۔ ان میں ایک تھے مسٹر کے۔ آر۔ نارائنن۔ کبھی نہ تھکنے والے مسٹر کے آر نارائنن بہت سے اخباروں کے نامہ نگار خصوصی تھے۔ دوسرا میں تھا اور میرا جہاں تک تعلق تھا میں نے کسی کے کسی سوال کے جواب میں شاید ہی کبھی کہاہو کہ میں نہیں جانتا۔ مگرایک سوال کے آگے میں لاجواب ہو گیا۔ ماں نے پوچھا، ’’اچھا یہ بتاؤ کہ یہ تمہارا کانتھی (گاندھی) ہمارے پیٹ کی بھوک کو ختم کر دے گا؟‘‘ بھوک ایک بہت بڑا مسئلہ تھی۔ سارے ملک پر اس کا اثر تھا۔ مجھے اس کے بارے میں معلوم بھی کچھ نہیں تھا، مگر میں نے کہا، ’’جب ہمارا ہندوستان آزاد ہو جائےگا تو ہماری بھوک اور ہمارا افلاس سب ختم ہو جائےگا۔‘‘

    یہ ۱۹۳۰ کا سال تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہی سال تھا جب گاندھی جی نے سابرمتی آشرم سے اپنا مشہور گیارہ نکاتی خط وائسرے لارڈ ارون کو بھیجا تھا اور مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ رینالڈنام کا ایک نوجوان انگریز تھا جویہ خط لے کر گیا تھا۔ مگر خط کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ خط میں لکھنے کے مطابق گاندھی جی نے اپنا ستیہ گرہ کا پروگرام شروع کر دیا۔ نمک پر عائد قوانین کوتوڑنے کے لیے گاندھی جی اپنے ستر ساتھیوں کے ساتھ ڈانڈی کے قریب سمندر کے کنارے کی طرف چل پڑے۔ انگریز حکومت نے نمک جیسی چیز پر، جو کروڑوں غریب لوگوں کے استعمال کی چیز تھی، ٹیکس لگا دیا تھا۔ سارے ملک کو ہلاکر رکھ دینے وا لی اس ڈانڈی مارچ کو شروع کرنے سے پہلے گاندھی جی نے اعلان کیا، ’’یاتو میں اپنے مطالبات کو منواکر آشرم آؤں گا یا پھر لوگوں کو میری لاش بحرہند میں تیرتی ہوئی ملےگی۔‘‘

    ’’گاندھی جی اپنی جان دے دیں گے؟‘‘ یہ سوال تھا جو ہمالیہ سے کنیاکماری تک فضا میں چھایا ہوا تھا اور سارے ملک میں زبردست ہلچل مچی ہوئی تھی۔ برطانوی حکومت نے نہتے ہندوستانیوں کی مخالفت میں اپنی ساری قوت کو استعمال کیا۔ فوج، پولیس اور جیل خانے۔۔۔ حکومت تھی بھی یہی۔ گاندھی جی اوران کے ساتھ ڈانڈی کے قریب ساحل پر گرفتار کر لیے گئے۔

    ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کیرالا میں بھی غم وغصہ تھا۔ کالی کٹ میں سمندر کے کنارے جن لوگوں نے نمک قانون کو توڑا تھا، ا نہیں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے حکم سے بڑی بےرحمانہ اذیتیں دی گئیں۔ انہیں جوتوں سے ٹھوکریں ماری گئیں اور لاٹھیوں سے زدوکوب کیا گیا اوریہ سب کارروائی ہندوستانی فوجیوں اور ہندوستانی پولیس کے ہاتھوں ہوئی۔

    کیلپن، محمد عبدالرحیم اور دوسرے لیڈر گرفتار کر لیے گئے۔ مزیدبہت سے لوگوں نے قانون توڑا اور مزید گرفتاریاں ہوئیں اور پولیس کی طرف سے مزید تشدد ہوا۔ سب سے زیادہ روح فرسا وہ سلوک تھا جو کالی کٹ کے ساحل پر کیرالا کے مستقبل کے شہریوں یعنی کم سن طالب علموں کے ساتھ ہوا۔ انہیں مار مارکر زمین پر لٹا دیا گیا۔ سیکڑوں طالب علم پھٹے سروں اور ٹوٹے ہاتھ پیروں کے ساتھ لہولہان کالی لٹ کے ساحل پر پڑے ہوئے تھے۔ یہ بیان ہے ایک لیڈر کا جو اخبار’’ماتربھومی‘‘ میں شائع ہوا تھا۔

    اپنی مادروطن کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کالی کٹ کے ساحل پر جمع ہونے والے بیچارے طالب علموں کے ساتھ پولیس کو اس بےدردی کا سلوک کرنا چاہیے؟ یہ بچے ہی تو تھے، نہتے اور معصوم۔ ان کے ہاتھ پاؤس ان پولیس والوں نے توڑے جو ملیالی ماؤں کی کوکھ سے پیدا ہونے کادعویٰ کرتے ہیں۔ جب یہ دیکھتا ہوں کہ شہر کے نام نہاد دولت مند اور نام نہاد حیثیت والے لوگ ان واقعات کے بارے میں مہربلب ہیں تو پھر سیدھے سادے پولیس والوں کو دوش کیوں دوں جو آنکھ بند کرکے اپنے افسروں کے احکامات بجا لاتے ہیں؟

    وہ زمانہ تھا جب صاحب حیثیت لوگوں نے خاموشی اختیار کی مگر عام آدمی خاموش نہیں تھا۔ مردوں اور عورتوں نے اعلانیہ نافرمانی کے گیت گائے اور احتجاجی جلوس نکالے۔

    میں بھی گیا، اگرچہ میں نے کسی سے کچھ کہا نہیں تھا۔ میں نے اپنی تعلیم کو خیرباد کہا اور اپنے ایک ساتھی باؤو کے ساتھ کالی کٹ گیا۔ باؤو نے اپنے گھر سے سونے کا ایک زیور لے لیا تھا۔ ہم نے اسے ویکوم میں فروخت کیا۔ اس شام میری ماں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی تھی۔ ماں کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے رخصت ہونے کی ایک علامت کے طورپر ماں سے ایک گلاس پانی مانگا۔ گلاس اس کے ہاتھ سے لے کر میں نے پانی پی لیا، ایک نظر ماں پر ڈالی اور گھر سے باہر نکل گیا۔

    ہمیں اندیشہ تھا کہ کوئی نہ کوئی ہمارا پیچھا کر سکتا ہے۔ ہم ارناکولم پر اتر کر ایداپلی ریلوے اسٹیشن تک پیدل گئے۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ سورج ڈوبے کافی دیر ہو چکی تھی۔ ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں ابھی دیر تھی۔ اسی وقت پولیس والے آ گئے۔ ہم خوف سے کانپ رہے تھے۔ پولیس والوں نے ایک ایک آدمی کو بلایا اور اس سے سوال کرنا شروع کیا۔ ہم نے ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ہم سو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک پولیس والے نے اپنی لاٹھی میرے پیٹ میں کونچی اور مجھے آوازدی۔ پھر اپنی ٹارچ کی روشنی میرے منھ پر ڈالتے ہوئے اس نے سوال کیا، ’’بدمعاش، تو کہاں جا رہا ہے؟‘‘

    میں کیا جواب دوں؟ یہ بتاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کانگریس میں شریک ہونے کے لیے کالی کٹ جا رہا ہوں۔ میں نے جھوٹ بولا، ’’میں شور انور جا رہا ہوں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ایک اور جھوٹ۔ ’’میرے چاچا کی وہاں چائے کی دکان ہے۔‘‘

    شکر ہے کہ اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ یہ پولیس والے کسی چور کو تلاش کر رہے تھے۔ ہم نے شور انور کے ٹکٹ خریدے، وہاں اسٹیشن پر اتر کر پٹاجی تک پیدل گئے۔ پٹاجی سے ہم نے کالی کٹ کے لیے پھر ٹرین پکڑی۔ ہم نے ’’الامین لاج‘‘ میں قیام کیا۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ ایک شخص کو جو میرے گاؤں کے قریب ہی کارہنے والا تھا، خط لکھا۔ اس کا نام سید محمد تھا جواس وقت بلاری جیل میں تھا۔ میں نے اسے لکھا کہ میں نے اپنے آپ کو اپنی مادرطن وطن کی خدمت کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں غلامی کی ان زنجیروں کو کاٹنے میں اپنی ساری توانائی لگا دوں گا جنہوں نے اسے جکڑ رکھا ہے۔ میں گرفتاری کے لیے جلد ہی اپنے آپ کو پیش کر دوں گا۔

    سید محمد نے فوراً جواب دیا، ’’میری حراست کے کے اب چند دن ہی رہ گئے ہیں۔ اس مدت کے بعد مجھے رہائی مل جائےگی۔ تم مجھ سے ملنے اور بات کرنے کے بعد ہی کانگریس میں شریک ہونا۔‘‘ سید اس وقت اخبار ’’الامین‘‘ کا جوائنٹ ایڈیٹر اور ایک ہم لیڈر تھا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ امور کے ہاتھوں سید محمد اور بعض دوسرے لوگوں کی بڑی پٹائی ہوئی تھی۔ اس کی رہائی تک انتظار کرنے کا مجھے یار انہیں تھا۔ ہندوستان دوسرے دن آزاد ہونے والا تھا، آزاد ہونے کی اس کی لڑائی میں میرا حصہ بھی ہونا چاہیے۔ بہت سے ان لوگوں نے جن کا تعلق میرے مذہب سے تھا، آزادی کی جدوجہد میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس عدم توازن اور اس کمی کومجھے دور کرنا تھا، پورا کرنا تھا۔

    مگر میرا ساتھی کانگریس میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے بھی اس کام سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ اس کاباپ ہم لوگوں سے ملنے آیا تھا۔ اس کے لڑکے کو گھر سے بھاگنے پر اکسانے کے لیے مجھے بہت برا بھلا کہا۔ مجھے پتا چلا کہ ہمارے آنے کے بعد گھر پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ یہ میں تھا جو اس کے لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگا تھامگر میری بات کون مانےگا۔ عمر میں بڑا تو میں تھا۔ میری کیفیت بڑی قابل رحم تھی۔ ان ہی دنوں میرے والد بھی آ گئے۔ میں نے ایک بار پھر جھوٹ بولا، ’’میں کانگریس میں شامل نہیں ہو رہا ہوں اور نہ ہی اسکول واپس جا رہا ہوں۔ میں اب نوکری کی تلاش میں ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ نوکری مجھے جلد ہی مل جائےگی۔‘‘

    میں نے کسی نہ کسی طرح ان کو اطمینان دلاکر واپس بھیج دیا۔ ان کے رخصت ہوتے ہی میں سیدھا کانگریس کے دفتر پہنچا۔ یہاں بھی مجھے ایک بار مایوسی کا منہ دیکھنا تھا۔ وہاں لوگوں نے مجھے سی آئی ڈی کا زر خرید سمجھا۔ ان کے شکوک کو میری ڈائری سے مزید تقویت ملی۔ میں نے اس میں سے بہت سی مختلف زبانوں میں بہت سی باتیں لکھ رکھی تھیں۔ انگریزی و ملیالم، تامل، ہندی اور عربی-باتھ روم جاتے وقت میں نے اسے وہیں ایک بنچ پر چھوڑ دیا تھا۔ باتھ روم سے واپسی پر میں نے دیکھا کہ سکریٹری صاحب میری ڈائری ہاتھ میں لیے ہوئے پڑھ رہے ہیں۔ و ہ اس میں لکھی ہوئی تحریروں کو بہت سمجھ نہیں سکے مگر انہیں مجھ پر شبہ کرنے کی کوئی وجہ ضرور مل گئی۔

    میں نے انہیں سید محمد کا خط دکھایا مگر اس کے بعد بھی ان کے شبہات دور نہیں ہوئے۔ انہوں نے میری ظاہری وضع قطع اور طور طریقوں سے مجھے بھانپنے کی کوشش کی۔ دفتر کی دیواروں پر قومی لیڈروں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے باریک مونچھوں اور خاموش وقار رکھنے والے ایک شخص کی تصویر دیکھی۔ اس کے سر پر ترچھی فلیٹ ہیٹ تھی اور اس نے چوڑے کالروں کی سفید قمیص پہن رکھی تھی۔ بدیسی کپڑے میں ملبوس شخص کے لیے میرے دل میں کچھ نفرت کے جذبات پیدا ہوئے اور میں نے پوچھ ہی لیا کہ ’’یہ کون ہے؟‘‘

    سکریٹری نے جواب دیا، ’’بھگت سنگھ۔۔۔‘‘

    یہ سن کر جیسے میرے دل کی حرکت رک گئی۔ عظیم مہم جو، منچلا بھگت سنگھ! پنجاب سازش کیس میں ملوث تین انقلابیوں کے بارے میں میں نے اخباروں میں پڑھ رکھاتھا۔۔۔ بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو۔ میں نے اسمبلی پر بم پھینکنے اور وائسرے کی ٹرین کو اڑانے کی ان کی کوششوں کے بارے میں بھی سن رکھا تھا۔ سکریٹری نے کہا، ’’تمہارے چہرہ مہرہ بھگت سنگھ سے ملتا جلتا ہے۔ تمہاری مونچھیں اس جیسی ہیں اور تمہاری قمیص کا کالر بھی ویساہی ہے۔ صرف ایک فلیٹ ہیٹ کی کمی ہے۔‘‘

    میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ویسے میں بھگت سنگھ اور اپنے خدوخال کی مماثلت کے بارے میں سوچ ضرور رہا تھا۔ سکریٹری نے مجھ سے دوبارہ پوچھا، ’’کیا تم واقعی مسلمان ہو؟‘‘

    ’’آپ کوشبہ کیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ پھر میں نے اپنی زندگی کے حالات انہیں بتائے۔ بالآخر انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا تم کل سمندر کے کنارے جانے اور نمک بنانے کے لیے تیارہو؟‘‘

    ’’تیار ہوں۔‘‘ میں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔

    دوسرے دن ہم لوگ علی الصباح اٹھ گئے۔ ہم لوگ مٹی کی ہنڈیوں، جھنڈوں اور دوسری ضروری چیزوں کو جمع ہی کر رہے تھے کہ ہمیں زینے پر بھاری بھر کم جوتوں کی دھپ دھپ کی آواز سنائی دی۔ ایک انسپکٹر کو چھ سات سپاہیوں کے ساتھ آتے ہوئے دیکھ کر ہمیں حیرت ہوئی۔ ہم لوگ گیارہ تھے، ہم سب گرفتار کر لیے گئے۔

    وہ اتوار کا دن تھا اورصبح کا وقت۔ ہم میں سے کسی نے بھی کچھ کھایا نہیں تھا۔ نہ سونے کی وجہ سے مجھے نقاہت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ ہمارے پیچھے پیچھے لوگوں کی ایک بھیڑ چل رہی تھی۔ پولیس اسٹیشن پہنچنے پر میری ساری ہمت جیسے ہوا ہو گئی۔ کسی ایسی جگہ آنے کایہ میرا پہلا موقع تھا۔ دیوار پر تلواریں، سنگینیں اور ہتھکڑیاں لٹکی ہوئی گویا مجھے تک رہی تھیں۔ چمکتے ہتھیاروں اور سپاہیوں کے بھیانک چہروں نے مجھے سہما دیاتھا۔ اس جگہ کو دیکھ کر مجھے اپنی تخیلی دوزخ کا خیال آتا تھا۔

    ہمیں برآمدے میں ایک لائن میں کھڑا کر دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی بھوری آنکھوں والا انسپکٹر اندر چلا گیا۔ ایک تگڑا سا سپاہی ہمارے سامنے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گشت لگاتا رہا۔ اس کی خونخوار سرخ سرخ آنکھیں باری باری ہم میں سے ہر ایک کو گھورتی رہیں۔ اس پولیس والے کا نمبر ۷۲۰ تھا۔ اس نے ہمارے رضاکار کپتان کو گردن سے دبوچا اور اسے ایک کمرے کے اندر دھکیل دیا۔ ہم نے گھونسوں اور لاتوں کی آوازیں سنیں، ساتھ ہی ہمیں چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔ میں کانپ گیا۔ میں لائن میں چوتھے نمبر پر تھا۔ دس منٹ بعد دوسرے رضاکار کی باری آئی اور اسے لے جایا گیا۔

    میں اس کی دل خراش چیخیں سن کر لرز گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں معافی کی درخواست کروں گا۔ مگر میرا یہ فیصلہ لمحاتی تھا، کیونکہ فوراً ہی میں نے اپنے آپ سے پوچھا، معافی کیوں؟ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ کتنے ہی مردوں اور کتنی عورتوں نے اپنے ملک کی آزادی کی خاطر موت کا سامنا کیا ہے۔ مجھے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا خیال آیا۔ مجھے اپنی جان دینی چاہیے۔ یہ میرا فرض ہے۔

    سپاہی نمبر۷۲۰ ہم میں سے ہر ایک سے پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے، کہاں سے آیا ہے؟ دوسروں نے جواب دیا، کنور، تیلی چری، پونانی۔ اس نے مجھ سے بھی یہی سوال کیا، ’’اور تم؟‘‘

    ’’ویکوم۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’ویکوم؟‘‘ اس نے مجھے حیرت سے دیکھا، ’’نام؟‘‘

    میں نے اپنا نام بتایا۔ ۷۲۰نے اپنا سر اٹھایا اور پھر پوچھا، ’’کیا ٹراونکور میں سیلف گورنمنٹ ہے؟‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’نہیں۔ گاندھی جی نے کہاہے کہ ہندوستانی ریاستوں میں کسی تحریک، کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    ’’ہوں!‘‘ وہ خوفناک انداز میں غرایا۔ سڑسڑ۔۔۔ دو زوردار لپڑ میری گدی پر پڑے۔ پھر اس نے مجھے کندھوں سے پکڑا اور میرے سر کو زمین کی طرف جھکا دیا۔ اس نے مجھے مارنا شروع کیا۔ آوازیں ایسی آ رہی تھیں جیسے تانبے کے کسی برتن کو ٹھونکا پیٹا جا رہا ہو۔ میں نے سترہ تک یا ستائیس تک تو گنا، اس کے بعد بعد گننا چھوڑ دیا۔ گنتی کیوں کی جائے؟

    مجھے بڑی بری طرح مارا گیا۔ بعد کو دو پولیس والوں کی مدد سے مجھے اندر لے جایا گیا۔ میری حالت کو دیکھ کر انسپکٹر نے پوچھا، ’’ہاں؟‘‘

    ایک سپاہی بولا’’نمبیار نے وہاں نہیں مارا۔‘‘ انسپکٹر کچھ جھنجھلا اٹھا، ’’ہوں۔‘‘

    ایک دوسرے سپاہی نے میری قمیص اور دوسرے کپڑے اتارے، میری لمبائی چوڑائی اور میرے شناختی نشانات کا اعلان کیا۔

    آخر میں ہم گیارہ کے گیارہ لوگ حوالات میں بندکر دیے گئے۔

    یہ پختہ بنا ہوا چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ایک کونے میں پیشاب سے بھرا ایک برتن رکھا ہوا تھا۔ سارے کمرے میں پیشاب کی تیز بو بھری ہوئی تھی۔ اس دن ہمیں کھانے کوکچھ نہیں ملا۔ رات بہت سرد تھی۔ لیٹنے کے لیے کوئی دری یا کوئی چٹائی بھی نہیں تھی۔ اگلے دن صبح کو ہم سب کے چہرے سوجے ہوئے تھے۔ دو قدم چلنا بھی ہمارے لیے مشکل تھا۔

    ہمارے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور ہمیں سنگین لیے ہوئے سپاہیوں کی حفاظت میں اسی حالت میں بازاروں سے گذار کر کورٹ لے جایا گیا۔ ہمیں چودہ دن کے لیے حراست میں رکھے جانے کے لیے کالی کٹ سب جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں بعد کو میرے ساتھیوں نے بتایا کہ ۷۲۰ جب مجھے گھونسے مارتے مارتے تھک گیا تو اس نے اپنی کہنیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک رضاکار نے تیل سے میرے جسم کی مالش کی۔ اس نے مجھے بتایا کہ میرے سارے جسم پر نو جگہوں پر روپے کے سکے کے برابر دائرے میں خون جم گیا ہے اور ان جگہوں پر تیل کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

    مجھے نو مہینے کی قید بامشقت کی سزا ملی۔ مجھے کنور سنٹر ل جیل لے جایا گیا۔ وہاں چھ سو سپاہی قیدی تھے، جن میں ٹی پرکاشم اور باٹلی والا بھی تھے۔ جیل میں کھانا بہت خراب تھا۔ چاول کی لپسی میں تیرتے ہوئے کیڑے نظر آتے تھے۔ ہم کھانے سے پہلے انہیں چن چن کر نکالتے تھے۔ باہری کی خبریں ہمیں صرف اس وقت ملتی تھیں جب کوئی نیا قیدی آتا تھا۔ جب ہم نے یہ سنا کہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی ہے تو ہم نے تین دن تک بھوک ہڑتال کی۔

    جیل میں ہندستان کے ہر حصے سے آئے ہوئے قیدی تھے۔ ان میں مختلف نظریات رکھنے والے لوگ تھے۔ انقلابی تھے، نراجی تھے، سوشلسٹ اور کمیونسٹ تھے۔ مگر ان سب کے سامنے ایک مشترک مقصد تھا۔۔۔ ہندوستان کی آزادی۔ گاندھی ارون معاہدے کے نتیجے میں ہم لوگ چند ماہ بعد رہا کر دیے گئے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اب کہاں جاؤں۔ میری طرح کے اور بھی والنٹیئر تھے۔ ہم میں سے اکثر کے پاس ریلوے کے پاس بھی نہیں تھے۔

    میری دو خواہشیں تھیں۔ ایک تو ایک شال کی۔ مسٹر اچوتھا مینن نے مجھے انگوری بارڈر والی کھادی کی ایک شال خرید کر دے دی۔ مگر میری پہلی خواہش تو ۷۲۰ کو جان سے مارنے کی تھی۔ مگر میرے پاس کوئی ہتھیار تو تھا نہیں۔ کاش مجھے ایک ریوالور مل جاتا۔ ریوالور حاصل کرنے کی خواہش میرے دل ہی میں رہی۔ میں نے اسے پلا بم کے چوراہے پر ٹریفک ڈیوٹی پر دیکھا۔ چھ فٹ لمبا ایک بھوت۔ اگرمیں اسے اپنے ننگے ہاتھوں سے ماروں تو اسے تو محسوس بھی نہ ہوگا۔ مجھے اس کے سینے میں چاقو بھونک دینا چاہیے۔ میں نے الامین لاج سے ایک چھوٹا سا چاقو چرایا۔ میں اسے لے کر چلاہی تھا کہ میری نظر مسٹر اچوتھا مینن پر پڑی۔ مجھے دیکھ کرا نہیں حیرت ہوئی۔

    ’’تم ابھی تک گئے نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

    ’’تم گھر جاکر اپنے ماں باپ سے ملنا نہیں چاہتے ہو؟‘‘

    ’’مجھے گھر جانے سے پہلے کچھ کام ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ میں نے انہیں ساری بات بتا دی۔ وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے منچیرا تالاب پر لے گئے اور بڑی نرمی سے مجھ سے پوچھا، ’’کیا تم ستیہ گر ہی ہو؟‘‘ انہوں نے مجھے گاندھی جی کا قصہ سنایا کہ کس طرح گاندھی جی نے اپنے سامنے والے دو دانت کھوئے تھے۔ ’’اور پھر اگر تم مارنا چاہتے ہو تو یہ نہ بھولو کہ ایک بھی پولیس والا ایسا نہیں ہے جو زندہ رہنے کے لائق ہو۔ پولیس میں حکومت کا ایک ایسا حصہ ہے جسے اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بےچارے تو محض آلہ کار ہیں۔ ان کو الزام دینے سے کیا حاصل؟ صبر کرو اور جاکر اپنی ماں اور اپنے والد سے ملو۔‘‘

    مسٹر اچوتھا مینن نے مجھے ٹرین پر بٹھا دیا۔ ارناکلم میں ایک مہینے تک مسلم ہوسٹل میں رہا۔ مایوسی، تاسف اور بےدلی نے مجھے گھیر رکھا تھا۔ آخرکار ایک رات میں ویکوم پہنچ گیا۔ وہاں سے میں پیدل تھلا یولا پرامبو گیا۔ یہ نصف شب کے بعد تقریباً تین بجے صبح کا وقت تھا۔ گھر پر جب احاطے میں داخل ہوا تو ماں نے کہا، ’’کون ہے؟‘‘ میں برآمدے میں داخل ہو گیا۔ ماں نے لالٹین جلائی اور یوں سوال کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، ’’بیٹے تم نے کچھ کھایا ہے؟‘‘

    میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں بےانتہا تھکا ہوا تھا اور بالکل پست ہو چکا تھا۔ سانس لینا بھی دشوار معلوم ہوتا تھا۔ ساری دنیا محو خواب تھی، صرف میری ماں جاگ رہی تھی۔ ماں جلدی سے جاکر میرے لیے ایک لوٹے میں پانی لائی اور بولی، ’’بیٹے تم ہاتھ پیر دھو لو۔‘‘ اس کے بعد اس نے میرے سامنے ایک پلیٹ میں چاول رکھ دیے۔

    اس نے مجھ سے کچھ کہا نہیں۔

    مجھے حیرانی تھی۔ ’’ماں تمہیں کیسے معلوم تھا کہ میں آج آ رہا ہوں؟‘‘

    ماں نے جواب دیا، ’’ارے۔۔۔ میں روز چاول پکاتی ہوں اور ہر رات تیرا انتظار کرتی ہوں۔‘‘

    یہ ایک سیدھا سادا معصوم سا بیان تھا۔ ہر رات میں نہیں آیا مگر ماں میرے انتظار میں جاگتی رہی۔

    تیس سال گذر چکے ہیں۔ بہت کچھ ہوا ہے۔

    مگر مائیں ابھی تک اپنے بیٹوں کا انتظار کرتی ہیں۔

    ’’بیٹے میں تمہیں بس دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے