معزول نسل
جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ سب سے چھپ کر گاؤں میں داخل ہو گی، چپکے سے صحن میں قدم رکھے گی۔ پنجوں کے بل چلتی ہوئی اپنی ماں جائی صفو کے عقب میں جا کھڑی ہوگی اور ہولے سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھے گی:
’’بوجھو تو میں کون ہوں؟‘‘
بالکل ویسے ہی جیسے کئی برس پہلے کے اس سارے عرصے میں اس کی بہن کو جب بھی موقع ملتا رہا تھا۔ دبے پاؤں پیچھے سے آتی تھی اور اپنی نرم نرم ہتھیلیوں کو اس کی آنکھوں پر دھر دیا کرتی تھی۔
عجب خیال تھا کہ جس کی لذّت اور سرشاری سے اس کا سارا بدن بھیگ رہا تھا۔ اگر گزرتے وقت کا تعین یہی ہے کہ اس دورانیے میں کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے کا امکان پایا جاتا ہے تو اس پر یہ عجب لمحہ ٹھہر سا گیا تھا۔ مدّت پہلے ہو چکی ایک اٹکھیلی اپنی ہئیت بدل کر اس پر پھوار کی صورت برس رہی تھی۔ وقت کا پہیہ جس دھرے پر گھوم رہا تھا، اس کی دو طرفہ چال کے ہلکوروں میں عجب طرح کا کیف اور بے پناہ مستی تھی۔
گاڑی آگے ہی آگے جس سمت بھا گ رہی تھی ادھر راہ میں ملکوٹ کا چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ وہیں سے اسے امن پور جانا تھا۔ کیسے جانا تھا؟ یہ ابھی اس نے نہیں سوچا تھا کہ اسے ماضی کے ایک لمحے کو حال میں یا پھر حال کے لمحات کو ماضی میں بلو ڈالنے سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی تھی کہ وہ اگلی مسافت کی بابت سوچتی۔
اسٹیشن اور امن پور کے بیچ دو کوس کی مسافت پڑتی تھی۔ جن دنوں وہ اس گاؤں میں تھی تب اسٹیشن پر اترنے والے لوگ پیدل ہی چل دیا کرتے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں اور شہر سے خریدے گئے سامان کو اپنی اپنی کھاریوں میں ڈال کر سروں پر رکھ لیتیں۔ مرد اپنے صافے کندھوں پر ڈالے وارث شاہ کی ہیر یا پھر بلھے شاہ کی کافیاں گاتے آگے آگے ہو لیتے۔ کچھ شوقیں مزاج ماہیے ٗ ڈھولے یا ٹپے کی لے میں قدم بڑھاتے جاتے اور سفر کٹ جاتا۔ تاہم کسی کا کوئی خاص مہمان یا کوئی حکومتی کارندہ آ رہا ہوتا تو شکورا منذاتی اپنا اونٹ لے آتا جس پر کجاوا کس دیا جاتا۔ اونٹ جھٹکے دے دے کر قسطوں میں اٹھتا تو سوار کی چیخیں نکل جاتیں۔ شکورا منذاتی سوار کو تسلیاں دیتا۔ اپنے اونٹ کے اصیل ہونے کے گن گاتا ٗ اس کے نتھنوں کو چیر کر ڈالی گئی لکڑی کی منّی سی رنگین نکیل سے بندھی لمبی مہار کو دھیرے دھیرے تنکا دیتا اور اٹھ اٹھ شابا اٹھ، حکم اور لاڈ کے ملے جلے انداز میں یوں کہتا کہ اونٹ اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر دو کوس کی ریتلی مسافت پرمستی سے رواں ہو جاتا تھا۔
مشہور تھا کہ دو کوس کی یہ پٹی کبھی دریائے نیلان کے پانیوں کی گزرگاہ تھی۔ ایک ہی وقت میں نہیں ٗ وقفے وقفے سے۔ جیسے گہری نیند میں کوئی پہلو بدلتا ہے، بالکل ایسے ہی نیلان پہلو بدلتا رہا تھا۔ کچھ اس انداز سے کہ پہلے بہاؤ کی گزرگاہ پر ریت چھوڑتا چلا جاتا اور خود اپنے قدم چکنی اور دلدلی مٹی میں دھنسا لیتا۔ سرخ مٹی ٹھنڈ ے میٹھے پانیوں کی ننگی پنڈلیوں سے لپٹ جانے کی چاہ میں اپنی جڑوں سے اکھڑ جاتی اور سنگلاخ پہاڑوں سے ذرّہ ذرّہ ٹوٹ کر اترتی ریت وہاں بچھ بچھ جاتی۔ حتّٰی کہ دو کوس کا یہ ٹکڑا پوری طرح ریت سے اٹ گیا اور نیلان اپنا راستہ بدل کر امن پور کی دوسری سمت یوں بہنے لگا تھا ٗ جیسے گاؤں سے بہت دور۔ عاشی کے دل کے بیچ ٗ ماضی کے گزرے لمحے اپنی جڑوں سے اکھڑ کر محبت کے پرجوش پانیوں کے سنگ بہتے ہوے اس پاٹ سے اپنی گزرگاہ بدل رہے تھے جو حال کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ پھسلتی خالی پن کی ریت سے اٹ گیا تھا۔
عین اس لمحے کہ جب گاڑی دو متوازی پٹڑیوں پر پوری رفتار سے آگے ہی آگے بڑھ رہی تھی، وہ اس خالی پن سے نکل آئی تھی۔ اب وہ اس لمحے کی لذّت میں اسیر تھی جس میں اس کی بہن صفو کے ہاتھ اس کی آنکھوں پر تھے اور اس کی ہتھیلیوں کی نرم نرم تپش اس کے پورے بدن میں اتر رہی تھی۔
’’میں کون ہوں؟ ‘‘
صفو کہتی تھی۔ حالاں کہ اس کے ہاتھ اس کی چغلی کھا جایا کرتے تھے اور یہ وہ خود بھی جانتی تھی مگر عاشی گاؤں بھر کی لڑکیوں کے نام ایک ایک کر کے گنوانا شروع کر دیتی کہ اسے ان لمحات کو طول دینے میں لطف آتا تھا۔ صفو ’’نہیں نہیں‘‘ کہتی جاتی اور وہ نام گنوائے چلی جاتی ٗ حتّٰی کہ وہ ہاتھ سمیٹ کر خود ہی سامنے کھڑی ہو جاتی اور پوچھنے لگتی:
’’تم جھوٹ موٹ کیوں نام گنوائے چلی جاتی ہو؟‘‘
تب عاشی، کچھ کہے بغیر، اس کی نیل گوں آنکھوں میں دیکھتی جنہیں دیکھنے سے اسے یوں لگتا تھا جیسے نیلان کا سارا پانی ان میں اتر آیا ہو۔ پھر وہ اپنی بہن کے بھرے بھرے بدن سے لپٹ جاتی اور بےسبب ہنستی چلی جاتی۔
نمبردار فقیر محمد کی یہ دو بیٹیاں تھیں۔ دونوں اپنے باپ کی بہت لاڈلیاں۔ ان تین مشکل ترین برسوں میں کہ جب لوگ کڑوا باجرہ کھانے پرمجبور تھے۔ یہ دونوں میٹھے باجرے کی ڈھوڈیاں اور وصلنیاں کھاتی تھیں۔ یہ باجرہ شوما کر اڑ پنڈی سے ملحق ایک گاؤں سے اپنی گدھی پر بطور خاص لاتا تو اسے دو دن کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ سیاہ رنگ کی اون سے بنی ہوئی دوہری چھٹ کے دونوں پلڑے گدھی کے ادھر ادھر جھول رہے ہوتے اور شوما کراڑ تھکاوٹ سے چورپاؤں گھسیٹتا گاؤں میں داخل ہوتا تو لوگ اسے حسرت سے دیکھتے اور نمبردار فقیر محمد کی اس محبت پر حیرت کا اظہار کرتے جو اسے اپنی بیٹیوں سے تھی۔
اتنی شدید محبت کا روگ تو ان دنوں بیٹوں کے لیے پالنا بھی ممکن نہ تھا۔
مسلسل تین برس کی بے وقت بارشوں نے ہر بار کھلیان میں پڑے باجرے کے سٹوں کو یوں بھگو ڈالا تھا کہ وہ گمہرا گئے تھے۔ یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے، جب گندم کی کاشت عام نہ تھی کہ بیج بہت مہنگا تھا۔ سب جوار یا باجرے پر گزر بسر کرتے تھے۔ مگر گمہر نے باجرے کے آٹے میں بھی کڑواہٹ بھر دی تھی۔
یہ کڑواہٹ ایک مرتبہ صفو کے حلق میں ناگوار ی بن کر اتری تھی اور اس نے پہلے لقمہ لینے کے بعد ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ عاشی باقاعدہ احتجاج کرتے ہوے اٹھ گئی تھی۔
ماں نے یہ دیکھا تھا تو کہا تھا:
’’بیٹا خدا کا شکر ادا کرو جس نے یہ بھی عطا کیا ہے اور ان کا سوچو جو بھوک سے بلک بلک کر مر جاتے ہیں۔‘‘
صفو نے جھینپ کر دوسرا لقمہ توڑ لیا تھا مگر عاشی کے ذہن میں گمہرائی ہوئی کڑواہٹ نے تلخی کی شدّت بھر دی تھی، کہنے لگی:
’’تمبے مارے اس اناج کو کھانے سے کہیں بہتر ہے آدمی مر ہی جائے۔‘‘
نمبردار فقیر محمد جو اپنی بچیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا یہ سن کر تڑپ اٹھا۔ دونوں کو چھاتی سے لپٹا لیا اور کہا :
’’تمہیں میری زندگی بھی لگ جائے۔ ایسا بھول کر بھی نہیں کہتے۔‘‘
یہ کہتے ہوے اس کی آواز کپکپا گئی تھی۔ صفو اور عاشی کو یوں لگا جیسے ان کے ابا کے اندر ہی اندر کوئی چھاتی پیٹ رہا ہو۔ دونوں نے ابا کے چہرے کی طرف دیکھا۔ ہونٹ سختی سے بھنچے ہوے تھے ٗ نتھنے تیز تیز سانسوں سے پھڑ پھڑا رہے تھے اور آنکھیں کناروں تک بھر گئی تھیں۔
ماں اس روز بہت ناراض ہوئی تھی۔ انہیں اپنے روّیے پر پشیمانی بھی تھی۔ شام کو ابا کہیں چلے گئے تھے اور انہیں ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ماں سے اس بابت پوچھتیں۔ رات بھر وہ سو نہ سکی تھیں تاہم اگلے روز جب ابا پلٹے تو چہرے پر پہلی جیسی محبت کی گرمجوشی کے رنگ دیکھ کر دونوں مطمئن ہو گئی تھیں۔ ابا نے بتایا ‘میٹھے باجرے کا بندوبست ہو گیا تھا۔
چاند کی چڑھتل کی ساتویں تھیں جب شوماکر اڑ آخری بار باجرے کی اونی چھٹ گدھی پر لادے گاؤں میں داخل ہوا تھا اور چاند گھاٹویں کے ساتویں پر تھا کہ سانپ نے نمبردار فقیر محمد کو ڈس لیا۔ وہ اپنی بیوی سے بس اتنا وعدہ لے سکا تھا کہ وہ بیٹیوں کا دھیان رکھے گی اور نیلاگھمٹ ہو کر مر گیا۔
رضیہ پہلے تو سدھ بدھ کھو بیٹھی۔ ہوش آیا تو اس وعدے کے ایفا میں جت گئی جو نمبردار فقیر محمد نے اس سے لیا تھا۔ وہ پہلے ہی بچیوں کا بہت خیال رکھتی تھی۔ یتیم ہوئیں تو اس نے اپنے کامل دھیان کی بکّل میں دونوں کواچھی طرح سمیٹ لیا۔
نمبردار فقیر محمد کے مرنے کے بعد بہت کچھ بدل گیا تھا۔ جب تک وہ زندہ تھا، لوگ اس کے مرحوم باپ کو خوش بخت کہتے تھے کہ اسے نمبرداری اور بیٹا دونوں ملے تھے۔ اس پر وہ بجا طور پر ناز بھی کیا کرتا کہ دونوں طاقت کی علامت تھے۔ ایک طاقت کا وجود دوسرا طاقت کی توسیع اور تسلسل۔ مگر فقیر محمد نے وراثت میں ملنے والی نمبرداری کو آمنے سامنے آ کر رکتی ان دیوارچوں کے باہر کھڑا کر کے بھلا دیا تھا، جہاں اس وقت دروازہ لگا دیا گیا، جب رضیہ اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔
رضیہ کیا تھی؟ سدا کی راضی بہ رضا۔ نمبردار فقیر محمد بھولے سے بھی کہ دیتا، ذرا ٹھہرو‘ وہ وہیں ٹھہر جاتی اور شاید عمر بھر ٹھہری رہتی اگر نمبردار فقیر محمد کو اس کا دھیان نہ آ جاتا۔ وراثت میں ملی نمبرداری کی کچھ تلچھٹ اس کے بدن کے پیندے میں کہیں اگر رہ بھی گئی تھی تو اسے رضیہ کے دھیان کی چھاننی نے چھان کر اس کے وجود کو نتھار دیا تھا۔
جب نمبردار فقیر محمد سانپ کے کاٹے سے مرا تھا تووہ تقسیم کا زمانہ تھا۔ امن پور فسادات سے محفوظ رہا تھا۔ تاہم ایک دو خاندان جو مکان خالی کر کے ادھر سرحد پار سٹک گئے تھے، ادھر سے آنے والے اس میں بسنے کو آ پہنچے تھے۔
دائیں سمت دو گھر چھوڑ کر جو مکان تھا اس میں سفیر احمد اپنی بیوی بیٹی اور بیٹے پر مشتمل مختصر سے خاندان کے ساتھ قابض ہو گیا تھا۔ پہلے پہل یہ لوگ بہت اجنبی اجنبی سے لگے مگر گاؤں والوں نے بہت جلد انہیں قبول کر لیا۔ سفیر احمد کی بیٹی عظمٰی صفواور عاشی کی سہیلی بن گئی۔ میل جول بڑھا تو عظمٰی کی ماں بھی آنے جانے لگی۔ وہ پہروں رضیہ کے پاس بیٹھے باتیں کرتی جس کا غالب حصہ اس تشویش پر مشتمل ہوتا جو اسے اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے لاحق تھی۔ اس کا خیال تھا، گاؤں میں رہ کر بچوں کے آگے بڑھنے کے ا مکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔
شہر منتقل ہونے کے فیصلے تک پہنچتے پہنچتے سفیر احمد اور اس کی بیگم، دونوں اس پر متفق ہو چکے تھے کہ انہیں اپنے بیٹے علیم کے لیے عاشی کا رشتہ طلب کرنا چاہیے۔ یوں تو انہیں صفو بہت اچھی لگتی تھی مگر نمبردار فقیر محمد نے اپنی زندگی ہی میں اس کا رشتہ رضیہ کے اکلوتے بھانجے سلطان سے طے کر دیا تھا۔
اگلے چند برسوں میں بس اتنا موافق رہا کہ رضیہ اپنی دونوں بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہو گئی۔ اس کے بعد حادثے پر حادثہ ہوتا چلا گیا۔ رضیہ اپنی ذمہ داری نباہنے کے بعد نمبردار فقیر محمد سے یوں جا ملی جیسے وہ اسی انتظار میں تھی۔ سفیر احمد نے زرعی زمینوں کے لیے حکومت کو کلیم داخل کیا ہوا تھا جو منظورہو گیا تھا۔ زمین ملی تو اس نے بیچ ڈالی۔ بہو کو باپ کی طرف سے معقول وراثت پہلے ہی مل چکی تھی۔ ماں کے مرنے کے بعد وہ مزید جائیداد کی حقدار ٹھہری۔ علیم نے اصرار کیا کہ موروثی مکان کے بدلے کچھ اور زمین کا مطالبہ کیا جائے۔ صفو کے شوہر سلطان کو یہ سب کچھ اچھا نہ لگا تھا مگر صفو نے فراخ دلی سے وہ سب کچھ دے دیا جو عاشی کے سسرال والوں نے طلب کیا تھا۔ شہر منتقل ہونے کے لیے اس سب کا بکنا ضروری تھا۔ لہذا اس کا بھی سودا طے ہو گیا۔
اس کے بعد تو وقت نے جیسے پر لگا لیے تھے حتّٰی کہ وہ اتنی تیزی سے اڑا تھا کہ پیچھے کرب کی ایک تیز دھار لکیر چھوڑتا چلاگیا۔ اتنی تیزدھار لکیر جو عاشی کے وجود کو چیرتی اور اس کے پارچے بناتی چلی جاتی تھی۔ تاہم اب جب کہ وہ تیزی سے ملکوٹ کی سمت بھاگتی گاڑی میں بیٹھی وقت کے پہیے کی عجب چال کے ہلکورے لے رہی تھی تو اس درد اور کسک کو اسی وجود میں چھوڑ آئی تھی جسے پارچوں میں بٹ کر وہ بھولے بیٹھی تھی۔
ملکوٹ کے اسٹیشن پر کچھ زیادہ گہما گہمی تھی۔ اس نے سرسری ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کوئی شناسا چہرہ نظر آ جائے۔ بیچ میں اتنا زیادہ وقت گزر چکا تھا کہ یوں سرسری دیکھنا ٗ کسی کو پہچان لینے کے لیے بہت ناکافی تھا۔ وہ اسٹیشن کی عمارت سے باہر نکلی۔ یہاں بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔ یہاں وہاں کچھ دکانیں بن گئی تھیں۔ سوزوکیوں ریہڑوں اور تانگوں والے بھی موجود تھے۔ یہ سب کچھ پہلے نہ تھا۔ ایک طرف ایک شخص اپنے اونٹ کے پاس اکڑوں بیٹھا بےزاری سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ عاشی کے قدم خود بخود ادھر اٹھنے لگے۔ اونٹ والا ایک اجنبی سلجھی ہوئی بزرگ خاتون کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ عاشی کوپہلے تو شکورے منذاتی کا شائبہ پڑا۔ مگر وہ تب بھی اتنا ہی تھا جتنا یہ اونٹ والا اب لگ رہا تھا۔ وہ خود ہی اپنے خیال پر مسکرا دی۔ یہ یقیناًاس کا بیٹا ہوگا‘ اس نے تخمینہ لگایا۔ شکل و صورت اور ڈیل ڈول سے ایسا ہی لگتا تھا۔ پھر اونٹ کی موجودگی بھی اس کی تصدیق کیے دیتی تھی۔ عاشی نے قصداً اپنے چہرے کو دوپٹے کی اوٹ میں دیے رکھا کہ پہچانی نہ جائے۔
عاشی کجاوے میں بیٹھ گئی۔ دوسری طرف اس کا سامان اور ایک بھاری بھرکم پتھر رکھ کر وزن برابر کیا گیا۔ شتر بان راستے میں اسے بتا رہا تھا کہ ادھر دوسری جانب سے گاؤں تک سڑک جاتی ہے لہذا زیادہ تر لوگ موٹروں اور تانگوں پر گاؤں جانے لگے ہیں۔ وہ گزرے وقت کو اچھا کہ رہا تھا ٗ جب اونٹوں کے طفیل اس کے گھر میں خوشحالی کی ریل پیل تھی۔ وہ جنگل سے لکڑیاں شہر پہنچاتا تھا اور شہر سے اسباب گاؤں لاتا۔ جب کہ گاؤں کے مہمانوں کو بلا اجرت اسٹیشن لے جاتا اور لے آتا تھا، مگر اب تو صرف یہی اسٹیشن کی سواریاں رزق کا وسیلہ تھیں۔ جب وہ اپنے سارے دکھ کہ چکا تو اس نے پوچھا:
’’بی بی جی آپ کو کہاں جانا ہے‘‘
عاشی چپ رہی ۔ اس نے اپنا سوال دہرایا تو عاشی نے الٹا سوال کر دیا :
’’ہم امن پورہی جا رہے ہیں نا ‘‘
’’جی جی ‘‘
اس نے ترت جواب دیا تھا۔ امن پور کے نام پر شتربان نے پلٹ کر دیکھنے کی کوشش میں اوپر کا آدھا جسم موڑ لیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔
جب وہ امن پور میں داخل ہوے تو عاشی کو لگا جیسے واقعی سب کچھ بدل گیا تھا ۔ پھر جب اس نے نمبردار فقیر محمد کی حویلی کی سمت چلنے کو کہا تھا تو شتر بان نے ایک بار پھرچونک کر، اپنا بدن موڑا اور حیرت سے اس کی سمت دیکھا۔ بزرگ خاتون نے چہرے کو دوپٹے کی اوٹ میں کیا ہوا تھا۔ شتر بان شاید کسی نتیجے پر پہنچ کر خود ہی خود مسکرائے جا رہا تھا۔
عاشی بھی خوش تھی۔ سب کچھ اس کی منشا کے مطابق ہو رہا ہے۔
اونٹ جونہی اس گھر کے پاس پہنچا جو کبھی اس کا اپنا گھر بھی تھا تو عاشی کو اسے پہچاننے میں ذرا دیر نہ لگی ۔ اونٹ جب اچھی طرح بیٹھ گیا تو وہ کجاوے سے اتری۔ اس نے کچھ رقم شتر بان کی طرف بڑھائی مگر وہ کہنے لگا:
’’میں جانتا ہوں آپ اللہ بخشے چاچا نمبردار فقیر محمد کی وہ بیٹی ہیں جو پناہ گیر بیاہ کر لے گئے تھے۔۔۔ وہی ہیں نا آپ؟‘‘
پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کہنے لگا:
’’آپ تو ہماری مہمان ہیں جی ٗ میں یہ نہیں لوں گا۔‘‘
اس نے اصرار سے مٹھی بڑھائے رکھی مگر شتر بان نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور اس کا سامان اتارنے میں مصروف ہو گیا۔
عاشی گھر کی سمت بڑھی۔ اس کا دل مدّت ہوئی ایک ہی رفتار سے دھڑکنے کی عادت میں مبتلا ہو چکا تھا مگر اب کے اس زور سے دھڑکا کہ اچھل کر حلق تک آ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھی اور دروازے پر دھیرے دھیرے اپنی ہتھیلی کا بوجھ بڑھا گیا۔ دروازہ چرچڑاہٹ پیدا کرتا کھل گیا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ شتر بان نے بھی ہاتھ بڑھا کر سامان اندر صحن میں رکھ دیا تھا۔ اس نے گھوم کا چاروں طرف دیکھا؛ یوں لگتا تھا، جیسے یہاں وقت کی نبضیں بہت ٹھہر ٹھہر کر چل رہی تھیں۔ وہ اپنے قدموں پر جھکی اور جوتیاں اتارنے لگی کہ اگلا فاصلہ اسے پنجوں کے بل طے کرنا تھا۔ مگرجب اس نے کمر سیدھی کی تو حیرت اور دکھ کی ایک نئی لہر سے اس کی آنکھیں چوپٹ ہو گئی تھیں۔ ایک انتہائی بوڑھی عورت پسار کی دیوار کے ساتھ پڑی لاٹھی ٹٹول ٹٹول کر تلاش کر رہی تھی۔ اسے جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ یہ اس کی اپنی بہن صفو تھی۔
ملنے رونے اور رو رو کر ملنے کا طوفان تھما تو صفو کریدکرید کر پوچھنے لگی۔ اس کے بارے میں۔ اس کے بچوں کے بارے میں۔ علیم کے بار ے میں۔ اور جب عاشی نے بتایا کہ علیم ایک مدّت سے ملک سے باہر ہے خوب پیسہ بھیجتا رہا ہے، دونوں بیٹے کارخانوں کے مالک ہیں ٗ اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں تو صفو نے خدا کا شکر ادا کیا تھا اور اس کی خوش بختی پر ناز کیا تھا۔
تاہم عاشی نے جان بوجھ کر نہ بتایا تھا کہ علیم نے شہریت کے حصول کے لیے وہاں ایک اور شادی کر لی تھی اور مستقل طور پر وہیں سیٹل ہو گیا تھا۔ بیٹے جب بھی اسے ملنا چاہتے تھے جا کر مل آتے تھے۔ اور یہ کہ بچے اپنی اپنی زندگی سے اس قدر مطمئن ہو گئے تھے کہ اس اطمینان کے بیچ ماں کو اپنا وجود بے مصرف لگنے لگا تھا اور یہ بھی کہ بیٹوں کی یہی وہ بے اعتنائی کی ریت تھی جس نے اس کے اندر کے بہتے پانیوں کا رخ موڑ دیا تھا اب وہ گاؤں میں تھی۔ اپنی بہن صفو کے پاس۔
مگر صفو کہاں تھی۔ اس نے دکھ سے سوچا اور اس کی آنکھیں ایک بار پھر آنسوؤں سے بھر گئیں۔
وہ دونوں پسار ہی میں بیٹھ گئی تھیں۔ اندر سے لرزتی آواز آئی:
’’صفو کس سے باتیں کر رہی ہو۔‘‘
صفو چونک کراٹھی۔ لاٹھی کا سہارا لیا پھر اس کا ہاتھ تھام کر لاٹھی ٹیکتی اندر داخل ہو گئی۔ یوں کہ عاشی اس کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ اندر قدرے تاریکی تھی اسے دیکھنے کے لیے آنکھوں کو پورا کھولنا پڑا۔ چارپائی پر ہڈیوں کا ایک ڈھانچ پڑا تھا جس سے صفو مخاطب تھی۔
’’یہ بہن ہے میری عاشی۔ ابھی ابھی آئی ہے۔ دیکھو تو کیسی لگ رہی ہے؟
میری آنکھیں تو اس کی راہ دیکھتے دیکھتے پھوٹ گئیں ۔ تم ہی بتاؤ نا کیسی ہے؟‘‘
ہڈیوں کے ڈھانچ میں حرکت ہوئی۔ چہرے کے دانت اور آنکھیں چمکنے لگیں۔ کچھ ہمت کر کے وہ بیٹھنے میں کام یاب ہو گیا دو چار سانسوں کو اوپر نیچے کر کے ہاتھ عاشی کی سمت بڑھایا اور کہنے لگا:
’’مجھے مل تولینے دے بھلیئے۔ بتاتا ہوں ‘ابھی بتاتا ہوں ‘کیسی لگ رہی ہے ہماری بہن۔
جی آیاں نوں۔ بیٹھو جی۔ کتنی بڑی ہو گئی ۔۔۔ہیں۔۔۔ آپ۔‘‘
اس کا لہجہ بات کرتے کرتے بیچ ہی میں موْدب ہو گیا تھا ۔ وہ پائنتا نے بیٹھ گئی۔ صفو اپنے شوہر کی پشت پر ہاتھ پھیرتے وہیں ٹک گئی اور اصرار کر کے پوچھنے لگی۔
’’بتاؤ نا !کیسی لگ رہی ہے میری بہن۔‘‘
وہ ہنسا یوں کہ ہنسی کھانسی کی کھائی میں پھسل گئی۔ سنبھلا اور کہنے لگا:
’’جھلیے، کیسے بتاؤں؟ کیا بتاؤں؟ بالکل تمہارے جیسی ہیں یہ بھی۔ بس اتنا فرق ہے کہ جو روشن چراغ تمہارے اندر ہیں، وہی ان کے چہرے پر سجے ہوے ہیں۔‘‘
صفو نے اس کی پشت پر سر رکھ دیا۔ کہا:
’’کتنے اچھے ہیں آپ۔‘‘
اور اطمینان کی ایک لہر اس کے پورے وجود میں سرایت کر گئی۔ سر اٹھا کر چہرہ ا س کے قریب لائی اور کہا:
’’آپ کی ان ہی باتوں نے تو مجھ بے اولاد ان کو عمر بھر نہال کیے رکھا ہے۔‘‘
صفو کی بات سن کر وہ زور سے ہنسا۔ اتنی زور سے کہ اس کی کھانسی ایک دفعہ پھر اچٹ کر باہر گرنے لگی۔
کتنی تکلیف سے ہنسا تھا وہ، مگر کتنی خالص اور بےریا ہنسی تھی۔ عاشی نے سوچا تھا۔
پھر وہ جھوٹ موٹ ڈانٹنے لگا۔
’’بکواس نہ کر ہاں بکواس نہ کر۔‘‘
عاشی کو لگا، اس ڈانٹ میں بھی بے پناہ اپنائیت تھی۔ اب صفو کے ہنسنے کی باری تھی۔ وہ ہنسی کے فوارے کو روک کر کہنے لگی:
’’میں بکواس نہیں کر رہی، اولاد ہوتی تو تمہارا سہارا بنتی۔‘‘
بات مکمل کرنے سے پہلے ہی ہنسی کا فوارہ رک چکا تھا۔ سلطان کا چہرہ تن گیا۔ کہنے لگا
’’خدا، اور تمہارے سہارے کے بعد مجھے کسی اور سہارے کی تمنا کبھی نہیں ہوئی۔ اس کا شکر ادا کرو کہ ایک دوسرے کے لیے ہم ہیں۔ اگر اولاد ہوتی اور ہمیں نہ پوچھتی یا پھر ہم دونوں کے بیچ دیوار بن جاتی تو کیا یہ حیاتی موت سے بھی بدتر نہ ہو جاتی۔‘‘
صفو کی بےنور آنکھیں چھلک کر بہنے لگیں۔ عاشی کو اپنی زندگی کے گمہر کی کڑواہٹ اور تلخی اپنے حلق میں محسوس ہوئی۔ اسے یوں لگنے لگاتھا جیسے محبت سے چھلکتے ان دو وجودوں کے بیچ وہ خود بھی لگ بھگ اتنی ہی اضافی ہو گئی تھی جتنی کہ وہ اپنے بیٹوں کی مصروفیتوں کے بیچ اضافی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.