دروازے کے ادھر ادھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا... کوئی آواز نہیں... پھر دوبارہ اور زور سے... اور زور سے...؟
’’کون ہے‘‘؟... چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔
میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔
ذرا نیچے تشریف لائیے... سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلاتے ہوئے جواب دیا۔ لیکن میرا چلانا بیکار ہی گیا۔
’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔
’’جی میں... دروازہ کھولئے ذرا... سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے...‘‘
’’کاہے کے لیے‘‘...؟
مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔
اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آ جاؤں؟‘‘
بغیر کوئی جواب دئیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔ اپنا چہرہ اوپر کئے کئے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کرکے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔ دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔
کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟
’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجئے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘
’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔
’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجئے نا۔
’’کون ہیں وہ؟‘‘
’’امی۔‘‘
’’تو پھر انہیں بھیجئے بیٹا۔‘‘
’’وہ کام کر رہی ہیں۔‘‘
’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھئے میں اوپر آ جاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘
’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا... پلیز۔ دیر ہو رہی ہے۔‘‘
وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘
’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘
’’مردم شماری... سینسس... گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جن گڑنا ہے جن گڑنا۔‘‘
’’اچھا تو کرئیے۔‘‘
’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔
چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کر دی تھی۔
’’باجی امی بلا رہی ہیں‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔
موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کر دیں۔
’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘
’’امام الدین۔‘‘
’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘
وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ’’امی— نیچے آؤ—‘‘ اس نے چلاتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔
’’کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘ میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔
’’گیارہ.....‘‘
’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘
’’بھائی‘‘
’’شادی؟‘‘
’’ہو گئی۔‘‘
’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘
’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘
’’دو—‘‘
میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔
’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘
’’جی لکھ دیجئے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔
’’تعلیم والد کی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘
’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘
’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’ویلڈنگ۔‘‘
’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘
’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘
’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘
’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘
’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘
’’گاندھی نگر۔‘‘
یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلائی۔
’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کر رہی ہے۔‘‘
’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔
’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘
’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔
’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تونے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دئیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔
’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔
’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔
’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘
’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘
’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔
’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘
’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘
’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘
’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’دیکھئے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘
آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔
’’کیوں بولیں...یں...یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔
میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھ سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہو چکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔
’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘
’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔
لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔
’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘
اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔
’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالےگا ہمیں۔‘‘
’’ارے نہیں۔ خدا نہ کر۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔
’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘
’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘
’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھئے۔‘‘
’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔
’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘
بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہو گئی۔
آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجئے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘
’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟
چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجئے نہیں ہے تو بھی بتا دیجئے۔‘‘
’’نہیں ہے تو کیا کروگی؟‘‘
’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائےگا۔‘‘
تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔
’’راشن کارڈ تو دکھا دیجئے۔‘‘
’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘
برائے مہربانی تلاش کر لیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔
’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھوگی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘
’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجئے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘
’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دوگی ہمارے بچوں کو؟ بولو... گھر دلوا دوگی؟ زمین دلوادوگی؟ فائدہ فائدہ.....‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔
دیکھئے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کئے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی.....‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔ ’’اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھئے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالوگی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا... اے لو... ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا بس— جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کر لو—‘‘
’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجئےگا۔‘‘
’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔
’’چل ری چل اوپر..... یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے—‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔
’’سنئے تو— میری بات تو سنئے..... اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کر دئیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر ادھر پھیل گئے۔ کچھ اڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصہ کے میرا سر بھنانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر... لیکن میں ایسا کچھ نہیں کر سکی کیونکہ معاملہ مادری زبان کا تھا!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.