Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مداوا

MORE BYصبا ممتاز بانو

    موسم کی چوتھی بارش تھی۔ گل شیر نے اپنے معصوم بچوں کے ڈرے ہوئے چہرے دیکھے۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے سب سوالی ہوں۔ ’’بابا یہ چھت ہم پر تو نہیں گر جائے گی۔’‘ یہ ایک ایسی ماں کے پیٹ سے افلاطونی دماغ لے کر نکلے تھے جسے ڈھنگ سے روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ کبھی کبھی وہ ان بچوں کے سلگتے ہوئے سوالوں سے اکتا جا تا۔ اس کا دل چاہتا کہ ان کو آگ لگا دے۔ دریا میں پھینک دے۔ جان تو چھوٹے ان کم بخت ماروں سے۔

    ‘’ان کے پیٹ تو جیسے سانپوں جیسے ہیں۔ میرے حصے کا بھی رزق کھا جاتے ہیں۔ کتنی مشکل سے کماتا ہوں۔ ان کے پیٹوں میں کیچوے پلتے ہیں۔ یا الہی میں کیا کروں۔‘‘

    وہ ان بچوں کو پیدا کرنے پر راضی نہیں تھا لیکن اس کے مذہب میں لکھا تھا کہ بچے خدا کی نعمت ہیں۔ اس نے ان کے رزق کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اس نے بھی بچہ پیدا کرنے کی کوشش کے علاوہ سب کچھ رب پر چھوڑ دیا۔ پھر تمناؤں کے اس قبرستان میں وہ اکیلا اژدھا نہیں تھا۔ یہاں تو لاشوں پر کیڑوں کی حکومت تھی۔

    اب اس کی بیوی پھر امید سے تھی۔ اس کا من کرتا تھا کہ اس کے بڑھے ہوئے پیٹ پر خوب زور سے لات مارے اور کہے ’’سالی یہ بھار آئے دن اٹھاتے تجھے شرم نہیں آتی۔ ذرا سی بھوک برداشت کرلے تو یہ کیڑے تیرے پیٹ میں نہ کلبلاتے پھریں۔’‘

    وہ اس کی کیفیت کو سمجھ جاتی، مانو اس کے من کا بھید پا لیا ہو۔ ’’گل شیر میں آپریشن کرالیتی ہوں۔’‘

    وہ ہنستے ہوئے کہتا۔ ‘’ارے ان کا ٹھیکہ تو ٹھیکے دار نے لے رکھا ہے مگر اتنا لمبا ٹھیکہ اس نے نہیں لیا۔ اسے اور بڑے کام ہیں۔’‘

    وہ بھلی مانس گل شیر کی باتوں کو سن کر اپنے لب سی لیتی۔ وہ تو شوہر تھا۔ ایک مرد جس کی سوچ اس سے برتر تھی۔ ایک ہی حل تھا کہ جسم کو خواہشوں کے سمندر میں پیاسا پھینک دیا جائے۔ اس کی کوٹھری میں دو چار پائیاں تھیں۔ ایک گل شیر کی اور دوسری بھی اسی کی۔ ایک پلوسٹک کے بان سے بنی گئی تھی۔ دوسری سوتر سے۔ من میں آ گ جل رہی ہوتی تو وہ ٹھنڈے سوتر کی چارپائی پر لیٹ جاتا۔ جسم کو حرارت دینا ہوتی ہوتی تو پلاسٹک کے بان سے بنی چارپائی پر لیٹ جاتا۔ پلوشہ دری ز میں پر بچھاتی اور بچوں کو ساتھ لے کر سو جاتی۔

    رات کے کسی پہر گل شیر کی آنکھ کھلتی تو وہ آڑے ترچھے بمشکل سوئے ہوئے بچوں کو دیکھ کر چلانے لگتا۔ ’’یہاں زمین بھی جگہ نہیں دیتی اور میرے وطن میں تو پہاڑ بھی سرنگوں ہو جاتے تھے۔ جدھر دیکھو۔ پہاڑ ہی پہاڑ۔ ان پہاڑوں کے دامن میں چلتا ہوا گل شیر۔ کیا موج مستی تھی۔ ہواؤں میں محبوبیت تھی۔ یہاں کیا ہے۔ نہ زمین اپنی اور نہ لوگ اپنے۔’‘

    یہ صرف اس کا خیال نہیں تھا۔ اس کے ہم وطنوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہاں کی فضا میں سانپوں کا راج تھا اور یہ کم بخت چھپکلیاں تو ان ہی کی تلاش میں تھیں۔

    گل شیر پہاڑوں کا بیٹا تھا۔ جب غیروں نے اس کی دھرتی کو نشانے پر لے لیا تو اس کے سنگی دوست سب آہستہ آہستہ کرکے نکل گئے۔

    وہاں اپنا ایک گھر تھا جس میں اپنے بستے تھے۔ یہاں کچھ بھی اپنا نہیں تھا لیکن یہاں اور بہت کچھ تھا، یہاں رنگ وبو کی محفلیں تھیں۔ یہاں نوٹ فضا میں گردش کرتے رہتے تھے۔ جو بھی ہمت کرتا، ان کو پکڑ لیتا۔ اس کے دیکھا دیکھی کئی دوستوں نے اپنا کاروبار چلا لیا۔ اس کے پاس سرمایہ تو تھا نہیں۔ اس نے ایک ریڑھی بنا لی۔ مشکل اس وقت ہوئی جب اس کے اپنے ہی وجود نے اس کی کمائی کے حصے دار بڑھا دئیے۔ ایک بیوی اور چار بچے پالنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ اسے زندگی بھر کے لیے عورت کو ساتھ رکھنے کا ایک ہی فائدہ نظر آتا تھاکہ ایک زنانہ وجود کی تلاش میں نکلنا تو نہیں پڑتا تھا۔

    ’’ہم سب ادھر آکر کہاں کے امیر ہو گئے۔ کچھ ہی تو ہیں جو کندھوں پر امارت کی شال اوڑھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے ہیں لیکن جس کا بھی رنگ سرخ و سپید دیکھتے ہو۔ نفرت کی دھار اس پر پھینک دیتے ہو۔ ہاں اس میں تمہارا بھی کیا قصور۔ ہم بھی توخبر ملتے ہی اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور نیفے میں پستول اڑسے تمہیں سبق سکھانے کو چڑھ دوڑتے ہیں۔ کوئی بات کرکے جائے کہاں۔ لیکن ہم کوئی تمہارے وطن میں اپنی مرضی سے تھوڑی آئے ہیں۔ ارے بابا۔ ہم مجبور تھے۔ جب ز میں پر بارودی سرنگیں بچھی ہوں تو مزدوری کو کیسے نکلیں۔ جب گو لہ و بارود فضا میں گھومتا پھر رہا ہو تو فلک کے نیچے کون آئے۔ وردی نے کندھا دیا، ہم نکل آئے۔’‘

    ہ دن بھر ریڑھی پر سودا بیچتے بیچتے سوچ کی وادیوں میں چلتا پھرتا رہتا ’’مجھے جان بچا کر یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ مجھے بندوق تان کر مجاہدوں کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے تھا۔’‘

    اسے یاد آتا کہ کیسے اس کی ماں اپنی جائے نماز سمیت صحن میں پھٹنے والے بم سے شہید ہو گئی تھی۔ اس کے جسم کی دھجیوں نے جب فضا میں اڑتے ہوئے گل شیر کے چہرے کو چھوا تھا تو اسے احساس ہوا تھا کہ جان جانے کا خوف کیسا ہوتا ہے۔ اس کے وجود نے خود کو سنبھالنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ پھر وہ آنکھوں پر پٹی باندھ اور کانوں میں انگلی دے کر اپنے وطن سے نکل آیا تھا۔ اب وہ کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس نے اچھا کیا یا برا۔ ایک ماں تو مر گئی تھی۔ دوسری کو وہ خود شمنوں کے نرغے میں چھوڑ آیا تھا۔ جب سے اس نے یہ سنا تھا کہ یہاں کے شہری نہیں چاہتے کہ ان لوگوں کو شہریت دی جائے اور یہاں کا باقاعدہ شہری تسلیم کیا جائے۔ وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔

    ’’دھت تیرے کی گل شیر۔ یہ پایا تو نے مگر تمہارے پاس تو شہریت ہے۔ شاید تیری روح ابھی تک تورا بورا کی پہاڑوں میں گردش کرتی ہے لیکن یہ جان حب وطن سے بھی پیاری کیوں ہے۔’‘

    دل کی نازکی نے اسے در بدر ہونے پر آمادہ کیا تھا لیکن دماغ اپنے اسپ کے ساتھ ہمیشہ اس پر چڑھائی کیے رکھتا۔ ’’گل شیر تم نے بچے پیدا کرنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے‘‘۔

    آج پھر سر شام ہی وہ اس کی ٹھوکروں کی زد میں تھا۔ بکتا جھکتا گل شیر مجبوراً نصف شب کو اٹھا اور بچوں کے پاس گیا۔ ’’کتنے پر نور ہیں یہ چہرے۔ باپ کے چہرے پر اذیت کی جکڑ بندی ہے اور یہ مسرت کے جنگل میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں۔’‘

    اس نے بڑے بچے کو دائیں کندھے پر ڈال لیا اور منجھلے کو بائیں کندھے پر۔ سود کی دگنی رقم کے ساتھ وہ گھرسے نکل کھڑا ہوا۔ علی الصبح اس کی واپسی ہوئی۔ پلوشہ کی آنکھ کھلی تو نہ بڑا بچہ تھا اور نہ منجھلا۔

    ‘’گل شیر۔ سلمان اور ریحان نہیں ہے۔ کہاں گئے بچے۔’‘

    گل شیر نے چیختی ہوئی پلوشہ کو دیکھا تو بولا۔ ’’سب بچوں کو پالنے کے لیے پیدانہیں کیا جاتا۔ کچھ جہاد کے لیے بھی ہوتے ہیں۔’‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے