رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ میں بستر پر اوندھی پڑی تھی۔ میوزک سسٹم اَن تھا۔ ہلکی ہلکی موسیقی کی لے پر میرے پیر تھرک رہے تھے، پر دل میں ٹیس اب بھی باقی تھی! حالانکہ ہفتے بھر کا وقفہ گزر چکا تھا۔ اس درمیان وہ کئی فون کر چکا تھا۔ اپنی غلطی کا اعتراف کر چکا تھا۔ ایک بار تو میرے دل نے چاہا بھی تھا کہ اسے معاف کر دوں، لیکن دوسرے ہی پل میں نے جذبات پر قابو پا لیا۔ بات ہی ایسی تھی۔
ویسے سچ کہوں تو اب بھی میں شش و پنج میں تھی! اسے معاف کر دوں یا ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لوں! میں انہی خیالوں میں الجھی ہوئی تھی کہ ایک بار پھر فون کی گھنٹی بج اٹھی! فون اٹھانے کو میراجی نہیں چا رہا تھا۔ لیکن جب شور حد سے زیادہ ہونے لگا تو قہراً و جبراً میں نے فون اٹھا لیا اور جھڑک کر کہا، ”کہا نا! میں تم سے بات کرنا نہیں چاہتی! پھر کیوں بار بار تنگ کر رہے ہو؟“
لیکن دوسری طرف سے جواب آیا۔ جواب نہیں بلکہ وہ تو ایک سوال تھا،
”از اٹ مس گل ناز؟“
اور تب میرے لہجے میں نرمی آ گئی، ”سوری طلال، میں نے سمجھا کہ۔ ۔۔“
”میں بھی سنوں، تو نے کیا سمجھا؟“
”چھوڑو، جانے دو! بتاؤ کیسے فون کیا؟ اور آنٹی انکل کیسے ہیں؟“
”سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ کل مل سکتی ہو؟“
کل؟ کہاں؟“
اسی ملینیم پارک میں۔“
”کب؟“
”شام کو۔“
اور دوسرے دن شام کو ہم دونوں ملینیم پارک کے گیٹ پر ملے۔ ملتے ہی میں اس کے بائیں بازو سے لپٹ گئی۔ طلال نے مجھے جھٹکا نہیں، نہ جواباً میرے کندھے پر اس نے اپنا ہاتھ رکھا، بلکہ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے آپ میں سمٹتا جا رہا ہے۔ ہم پارک میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دور چلتے رہے۔ میں اب بھی اس کے بازو سے لپٹی ہوئی تھی۔ دیکھنے والے شاید یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم دونوں عاشق معشوق ہیں۔ لیکن ہمارے بیچ ایسی کوئی بات پیدا نہیں ہوئی تھی اور اس کی گنجائش بھی بھلا کیسے ہو سکتی تھی۔ ہم ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔ کوئی بنچ خالی نظر نہیں آئی۔ کسی پر بوڑھے، کسی پر ادھیڑ عمر والے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن زیادہ تر بنچوں پر نوجوان جوڑوں کا قبضہ تھا۔ مجبوراً ہمیں گھاس کے فرش پر بیٹھنا پڑا۔ بیٹھتے وقت طلال مجھ سے اپنا بازو چھڑا نے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اس کے چہرے پر راحت کے آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ میں اسے بغور دیکھ رہی تھی اور وہ تھا کہ نیلے آسمان پر اڑتے ہوئے سفید سفید اون کے گولے جیسے بادلوں کو تک رہا تھا۔ جب کچھ وقت گزر گیا تو اس نے اسی طرح آسمان پر نظریں ٹکائے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں کہا، ”کی رے، آج کال، کونو آڈہ ٹاڈہ جم چھے نا؟ (کیا رے، آ ج کل کوئی گپ شپ کی محفل نہیں جم رہی ہے؟)“
”نا، آڈہ ٹاڈہ آر بھالو لاگے نا! (نہیں، اب اڈہ وڈہ اچھا نہیں لگتا۔)“
ہم لوگ بےتکلفی میں اپنے دوستوں سے گاہے گاہے بنگلہ بولتے رہتے ہیں۔
”کینو، کینو؟ (کیوں، کیوں) تو تو اڈہ مارنے کی شوقین ہے۔ اچھا، بتا تو اشہاد کے ساتھ تیرا کوئی جھگڑا وگڑا ہوا ہے کیا، تو کل فون پر۔۔۔؟“ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
”نہیں، بس یوں ہی۔۔۔“ میں نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”دے موبائل ٹا دے تو اور ساتھے کتھا بولی۔ (دے موبائل دے تو، اس سے باتیں کروں۔) اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔“
”نہیں، میرے پاس اس کا نمبر نہیں ہے۔ چھوڑو، بولو کی کھابے، چا، نا کوفی؟ (کہو، کیا پیوگے، چائے یا کافی؟)“ میں ٹی اسٹال کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
”کچھ نہیں، گھر سے چلتے وقت ماں نے زبردستی چائے پینے کو کہا تھا، اس لیے چائے پی کر آنا پڑا۔ تو بتا، کیا پیئےگی؟“
”نہیں، ابھی نہیں بعد میں! آنٹی تمہیں بہت پیار کرتی ہے نا؟“ میرا مقصد بات کا رخ موڑنا تھا۔
”ارے، ماں ہے! وہ نہیں کرےگی تو، کے کور بے؟ (کون کرےگا؟)“ اس نے اپنے انداز میں سر اور ہاتھوں کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔
”کی نو، انکل، انکل تمائے بھالو باسین نا؟ (کیوں، انکل؟ انکل تمہیں پیار نہیں کرتے؟)“
”کرتے ہیں، وہ بھی کرتے ہیں! لیکن؟“ اس کی گفتگو میں اس کا مخصوص انداز اب کچھ زیادہ ہی شامل ہو نے لگا تھا جو مجھے بڑا دلکش لگتا تھا۔
”لیکن کیا؟“ میں اسے اکسانا چاہتی تھی اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی۔
”ارے، باپ پہلے مرد ہوتا ہے، پھر باپ، ابو یا پاپا!“
جب وہ کسی موضوع پر باتیں کرتا تھا تو کسی فلسفی سے کم نہیں لگتا تھا۔ اس کی باتوں میں گہرائی، گیرائی، منطق، جواز سبھی سمٹ آتے تھے اور سچ کہوں تو اس کی اکثر باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتی تھیں۔ پھر بھی مجھے کبھی کوئی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ اچھا لگتا تھا۔ اسی لیے میں اکثر اسے گفتگو کرنے پر اکساتی رہتی تھی۔ سو اس بار بھی اکسایا، ”توپھر عورت کو بھی پہلے عورت، پھر ماں، امّی یا ممّی ہونا چاہئے! کیوں؟“
طلال مزید سنجیدہ ہو گیا۔ دو تین بار شہادت کی انگلی سے کنپٹی پر ٹہوکا دیا اور بولا، ”ہوں ں ں۔۔۔ تیری بات میں دم ہے!“
میں نے طلال کی نقل اتارتے ہوئے نون غنہ کو ضرورت سے کچھ زیادہ کھینچتے ہوئے کہا، ”ہوں ں ں، پہلے نہیں تھا۔ اب ہو گیا ہے۔ تم سے ملنے کے بعد!“
اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔
طلال نے موضوع بدلا، ”لیکن تو نے بتایا نہیں، اشہاد سے۔۔۔؟“
”کیا بتاؤں؟“ میرا پارہ چڑھنے لگا، ”یہی کہ وہ مجھے انسان نہیں، چیز سمجھتا ہے۔ میں اسے دل و جان سے چاہتی ہوں اور وہ سبھوں سے کہتا پھرتا ہے کہ دیکھ، میں نے کیا چیز پھانسی ہے! کیا اس کی نظر میں میری یہی وقعت ہے! ایک چیز، ایک شے! چھی، وہ ایسا اوچھا خیال رکھتا ہے میرے بارے میں!“
طلال خاموش رہا۔ نظریں نیچی کیے پیر کے انگوٹھے سے مٹی کریدنے لگا۔ کچھ دیر بعد دبے لہجے میں گویا ہوا، ”دیکھ اس میں اشہاد کا قصور نہیں! مرد توعورت کو محض ایک شے ہی سمجھتا ہے۔ مرد کے معنی ہے Sense of Possession ہر شے پر مالکانہ حق! اور مردانگی اس مالکانہ حق کو بحال رکھنے کا ہتھیار ہے Mere an instrument of domination۔ A pliable tool of exploitation اور جب مرد کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس کا یہ ہتھیار اس کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے تو وہ بوکھلا اٹھتا ہے۔“ طلال نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں اپنے چہرے پر بکھیرتے ہوئے کہا، ” اور اس بوکھلاہٹ میں وہ اپنا مکھوٹا نوچ پھینکتا ہے اور تب اس کا اصلی چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔“
”اور میں نے اشہاد کا وہ اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے!“ میں نے حقارت سے کہا۔
”لیکن میرے خیال میں صرف مردوں کو قصوروار ٹھہرانا ٹھیک نہیں۔ اس میں عورتیں بھی برابر کی حصہ دار ہیں۔“
”عورتیں! برابر کی حصہ دارہیں!“ میں نے پیشانی پر شکن ڈال کر پوچھا، ”وہ کیسے؟“
”وہ ایسے کہ عورتوں میں بڑا تضاد ہوتا ہے!“ طلال نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
”تضاد! کیسا تضاد؟“ میں نے اپنی ٹانگیں آگے اور ہاتھ پیچھے کی جانب پھیلاکر ہتھیلوں پر ٹیک دیتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
اور پھر اس نے اپنا فلسفہ بگھارنا شروع کیا، ”عورتیں ایک طرف فیمنزم، وِمنس رائٹس، ومنس اکوالیٹی کا نعرہ لگاتی ہیں تودوسری طرف باپ، شوہر اور بیٹے سے تحفظ کی طلب گار بھی بن جاتی ہیں۔ They are totally confused ہر وقت کنفیوژن میں رہتی ہیں اور مرد ان کے اس کنفیوژن سے فائدہ لوٹتے ہیں۔“
”وہ کیسے؟“ میں نے طلال کی آنکھوں میں جھانکا۔ اب دھیرے دھیرے میرا غصہ اترنے لگا تھا۔ میں غور سے اس کی باتیں سننے لگی۔
”میاں بیوی دن بھر ایک ہی دفتر میںشانہ بشانہ کام کرتے ہیں اور ساتھ گھر لوٹتے ہیں۔ گھرآکرمیاں صوفے پر پھیل جاتا ہے اور بیوی رسوئی میں گھس جاتی ہے۔ دفتر کے رفیق ِ کار گھر آتے ہی حاکم محکوم بن جاتے ہیں۔ لیکن جب وہی عورت باہر آتی ہے تو چیختی ہے، چلاتی ہے، نسائی آزادی اور حقوق نسواں کی دہائی دیتی ہے۔ یہ تضاد نہیں تو اور کیا ہے؟ گھر میں ماں کے مقابلے باپ کا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ بیٹی کے مقابلے بیٹے کا مستقبل اسے زیادہ ستاتا ہے۔ گھر میں رکشا بندھن، بھائی پھوٹا بڑے چاؤ سے مناتی ہے اور باہر آکر مردوں کے جبر وتشدد کے خلاف گلا پھاڑنے لگتی ہے۔ بتا، یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟“
”تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ مردوں میں تضاد نہیں ہوتا! باپ بھی تو بیٹی کو زیادہ چاہتا ہے۔ یہ تضاد نہیں ہے؟“
”ارے دیکھ گل ناز، میں کوئی ماہر نفسیات نہیں اور نہ اس وقت فرائڈ کی کسی تھیوری پربحث کرنے کا میرا من ہے۔ میں تو بس حقیقت بیان کر رہا ہوں۔“
”میں بھی فرائڈ کی تھیوری نہیں بگھا رہی ہوں، میں تو صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ مردوں میں تضاد ہوتا ہے یا نہیں؟“ یہ کہہ کر میں نے اپنی ٹانگیں اوپر کی جانب موڑئیں اور ہتھیلیاں مقفل کر کے گھٹنوں کو جکڑ لیا۔ طلال کی نگاہیں میری نیم عریاں ٹانگوں پر آ ٹکیں، مگر میں نے اس کی پروا نہیں کی۔
وہ نگاہیں ہٹائے بغیر ہی گویا ہوا، ”ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس تضاد میں بھی اپنا فائدہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ مرد ظالم اور جابر ہیں، لیکن ہوشیار اور عیار بھی کم نہیں! فوراً نسائی آزادی، حقوق نسواں اور تانیثیت کے علم بردار بن جاتے ہیں۔ نسائی آزادی کا جھانسا دے کر عورتوں کو رئمپ پر عریاں کیٹ واک کراتے ہیں اور مسرور ہوکر تالیاں پیٹتے ہیں، تانیثیت کا شور مچا کر انھیں بےراہ روی پر ورغلاتے ہیں اور اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔ حقوقِ نسواں کے نام پر کارخانوں اور دفتروں میں اپنا ہم نشیں بنا تے ہیں تاکہ ان کا معاشی اور جنسی استحصال کر سکیں اور عورتیں یہ بھول جاتی ہیں کہ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، کٹتا تو خربوزہ ہی ہے۔ مگر مرد یہ بات کبھی نہیں بھولتے۔ انھیں تو پتہ ہے، چت بھی ان کی اور پٹ بھی ان کی۔۔۔“
”ارے طلال، تم کیا فیمنسٹ ہو؟ وہ کیا کہتے ہیں ناری وادی!“ میری رگ شرارت پھڑکنے لگی تھی۔ لیکن طلال ہنوز سنجیدہ تھا۔ رخسار بکف گھڑی بھر مجھے تکتا رہا۔ پھر سر ہلاکر بولا، ”نہیں رے گل ناز، میں ناری وادی ہوں، نہ پرش وادی! میں تو ناری واد اور پرش واد کے درمیان پسا جانے والا ایک وواد ہوں! عورتیں تحفظ کے نام پر خود سپردگی کرتی ہیں اور مرد انھیں استعمال کرتے ہیں، انھیں تفریح کا سامان بنا لیتے ہیں اور چوں کہ ہم جیسے لوگ ان کے استعمال کے لائق نہیں، اس لیے وہ ہمیں محض تفریح کا سامان سمجھ کر ہم پر ہنستے ہیں، ہمیں لعن طعن کرتے ہیں۔“
اور پھر طلال نے چپی سادھ لی۔ بانہیں پیچھے کیں اور سر اٹھائے آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ سفید اون کے گولے آہستہ آہستہ دور بہت دور جا چکے تھے۔ اب آسمان صاف اور پوری طرح نیلا ہو چکا تھا۔ ہمارے درمیان کافی دیر تک خاموشی حائل رہی۔ آخر کار مجھے ہی خاموشی توڑنی پڑی۔ میں نے سنجیدگی سے پوچھا، ”ایک بات کہوں، طلال، برا تو نہیں مانوگے؟“
”نہیں رے، ہم کسی بات کا برا نہیں مانتے۔ اگر برا مانتے تو گھر سے باہر ہی نہ نکلتے، چار دیواری کے اندر بیٹھے ہر وقت اپنے ہونے کو کوستے رہتے۔ لیکن ہم ایسا کیوں کریں؟ بےوقوفوں کی طرح بھلے برے کے چکر میں پڑ کر کیوں اپنا خون پانی کریں؟ ہم تو بس جینا چاہتے ہیں اور جئیں گے، اپنے طور پر جئیں گے!“
”ہاں میں نے تمہارے اندر زندگی کی رمق دیکھی ہے۔ وہ رمق جو عام آدمیوں کو میسر نہیں۔ سچ پوچھو تو، تمہاری اسی رمق نے مجھے بھی جینے کی ایک نئی راہ دکھائی ہے اور شاید اسی لیے میں بھی اپنے چہرے سے جھوٹ کا نقاب نوچ کر پھینک دینا چاہتی ہوں۔“
طلال نے مسکراتے ہوئے کہا، ”ارے بابا، صرف ڈائلاگ مارتی رہےگی، یا کچھ بتائےگی بھی۔ بتا تو کیا کہنا چاہتی تھی۔“ اسی دوران میں کئی جوڑے ہمارے آس پاس آکر بیٹھ گئے۔ طلال نے ادھر ادھر دیکھا اور کہا، ” چل، کشتی میں بیٹھتے ہیں۔“
ہگلی ندی کا یہ کنارا کبھی یوں ہی بے کار پڑا تھا۔ کیچڑ اور گندگی سے اٹا رہتا تھا۔ اب اسے صاف کرکے پارک کی شکل دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے ایسے پارک کی لمبائی چوڑائی کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے۔ دو ٹکڑوں پر مشتمل اس پارک کے درمیانی حصے میں اب بھی دریا کی سیر کے لیے کشتیاں حاضر رہتی ہیں۔ ہم دونوں اس جانب چل دیئے۔ ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ سوار ہوتے وقت کشتی ڈولنے لگی تھی۔ میں نے پاؤں پیچھے کھینچ لیے۔ تب طلال نے اپنا مضبوط ہاتھ بڑھایا اور ایک ہی جھٹکے میں مجھے کشتی پر لے آیا۔ ندی چڑھی ہوئی تھی۔ پانی کا بہاؤ جنوب سے شمال کی جانب تھا۔ پولی تھین کی تھیلیاں، پھول کی مالائیں، پوال کی گانٹھیں، بانس کی ٹھٹریاں، آبی پودے تیزی سے بہے جا رہے تھے۔ مسافروں اور اسباب سے لدے لانچ اور، اسٹیمر اپنی اپنی منزل کو رواں دواں تھے۔ سیر سپاٹا کرانے والی کشتیاں بیچ ندی میں ڈول رہی تھیں۔ موجیں کناروں پر تھپیڑے لگا رہی تھیں اور جب کوئی اسٹیمر یا لانچ تیزروی سے گزرتا تھا تو تھپیڑوں کا زور مزید بڑھ جاتا تھا۔ ہماری کشتی دھیرے دھیرے کنارے سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے ہمارے بدن کو گدگدانے لگے تھے۔ میں ندی کے گدلے پانی میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ طلال کے جسم پر دو چار چھینٹے بھی ڈالے۔ طلال نے دونوں ہتھیلوں کوڈھال بنا کر روکتے ہوئے اپنا سوال دہرایا، ”اچھا بتا، تو اس وقت کیا بک رہی تھی؟“
میں نے پرشوخ لہجے میں کہا، ”طلال، امار بھوئے کورچھے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کہیں تم ناراض نہ ہو جاؤ۔ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگو۔“
”تار مانے بی پارٹی خوب ای سیریس؟ (اس کا مطلب ہے کہ معاملہ بہت سریس ہے؟)“
”پہلے سریس نہیں تھا، اب ہو گیا ہے۔“ الفاظ میرے حلق میں پھنسنے لگے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، کہتی گئی، ”پہلے تویہ ایک کھیل تھا۔ حماقت آمیز کھیل! ایک احمقانہ چیلنج! مگر اب یہ چیلنج میرے لیے وبال جاں بن چکا ہے۔ ایک زہریلا ناگ بن کر اندر ہی اندر مجھے ڈس رہا ہے۔ میری روح کو مجروح کر رہا ہے اور سہا نہیں جاتا۔ طلال، اب تم ہی مجھے اس سے نجات دلا سکتے ہو۔ مجھے نجات دلاؤ، پلیز۔ میری مدد کرو، طلال، پلیز۔“ اتنا کہہ کر میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیا۔
”گل ناز، تو کیا بک رہی ہے، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ تواس قدر جذباتی کیوں ہو رہی ہے۔ میں نے کہا نا، ہم کسی بات کا برا نہیں مانتے! تو بےفکر ہو کر کہہ، تجھے جو کہنا ہے۔“
”نہیں پہلے وعدہ کرو، تم مجھ سے ناراض نہیں ہوگے؟“ میں نے اس کا ہاتھ جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا بابا، چل۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ اب بتا۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے سر سے میرے سر پر ہلکی سی ایک ٹکر ماری۔
”چھ مہینے پہلے کی بات ہے۔۔۔ طلال، میں نے اپنے دوستوں سے شرط لگائی تھی۔
I took it as a challenge، میرے لہجے میں فخر و انکسار کی آمیزش تھی۔
”کیسا چیلنج؟“ اس نے گردن جھکا کر پلکیں جھپکاتے ہوئے پوچھا۔
”تمہیں مرد بنانے کا!“ میں نے اپنا مدعا ایک ہی سانس میں بیان کر ڈالا۔
”مجھے مرد بنانے کا!“ طلال ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگا۔ اس کے لحیم شحیم جسم میں جیسے بھونچال آ گیا تھا۔ ملاح بھی چونک کر دیکھنے لگا۔ طلال نے ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”ارے باپ رے، یہ تو واقعی بہت بڑا چیلنج ہے، گل ناز، تو نے اتنا بڑا چیلنج قبول کیسے کر لیا؟“
میں نے یقین دلانے کی کوشش کی، ”طلال، اس وقت میں بھی تمہارے ظاہر ہی کو تمہارا سب کچھ سمجھتی تھی۔ تمہیں دیکھتے ہی ٹھٹھولیاں کرنے کو میرا بھی جی چاہتا تھا۔ لیکن جب تمہیں قریب سے دیکھا، تو رفتہ رفتہ میرا نظریہ بدلتا گیا۔ تمہاری خوبیاں مجھ پر ظاہر ہوتی گئیں۔ شیشے کی طرح شفاف دل، نہ کینہ نہ میل! صاف ستھرے خیالات، کوئی الجھاؤ نہیں۔ صاف گوئی، بےضرر، بے غرض! دنیا تمہاری جنس کولے کر الجھن میں ہے اور میں تمہاری خوبیاں کولے کر کشمکش میں ہوں۔ عورت نما مرد کو چاہوں یا مرد نما عورت سے پیار کروں۔ یا اس مرد سے جو تحفظ کے نام پر میرے وجود کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔“
”نہیں، پاگل مت بن، گل ناز۔ تو اشہاد سے پیار کرتی ہے، وہ بھی تجھ سے پیار کرتا ہے۔ دے مجھے موبائل دے، میں اس سے بات کرتا ہوں۔“
”اس کا نمبر میں نے ڈلیٹ کر دیا ہے! میں اس سے ملنا نہیں چاہتی۔ مطلبی ہے وہ۔“ میرا پارہ پھر سے چڑھنے لگا۔
”لیکن وہ مرد ہے، ہینڈ سم ہے۔ سینس آف ہیومر بھی اچھا ہے۔ تجھے چاہتا بھی ہے۔ پیار کرنے کے لیے ایک عورت کو اور بھلا کیا چاہئے؟ اور پھر تجھے بھی تو اس کی یہی خوبیاں بھاتی ہیں۔“
”پہلے بھاتی تھیں، طلال، بہت بھاتی تھیں، اب نہیں بھاتیں۔ تم نے میرا نظریہ بدل دیا ہے۔ اب مجھے اشہاد اچھا نہیں لگتا۔ اس کی مردانگی، اس کا ہینڈسملی لُک، اس کا سینس آف ہیومر، سب میرے لیے بےمعنی ہو چکا ہے۔“
”تو پھر تیرے اس چیلنج کا کیا ہوگا؟ کیا تو ہار مان جائےگی؟“
”نہیں اب کوئی چیلنج نہیں، کوئی جیت نہیں، کوئی ہار نہیں! صرف پیار!“ مجھ پر جیسے جنون سوار ہونے لگا تھا۔
”پیار! کیسا پیار؟ میرا مطلب ہے وہ پیار جو عورت عورت سے کرتی ہے یا وہ پیار جو عورت مرد سے۔۔۔؟“ وہ مجھے نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
”میں کچھ نہیں جانتی اور جاننا بھی نہیں چاہتی ہوں۔ میں توصرف اتنا جانتی ہوں کہ میں تم سے پیارکرنے لگی ہوں۔ بولو، کیا تم مجھ سے پیار نہیں کرتے؟“ میرا جنون بڑھتا گیا۔
”ہاں کرتا ہوں۔ مگر صرف وہ پیار جو انسان انسان سے کرتا ہے یا اسے کرنا چاہئے۔“ طلال نے مجھے جھنجوڑ تے ہوئے کہا۔
”طلال، میں تم سے پیار کی تشریح نہیں، پیار مانگ رہی ہوں۔ مجھے پیار کرو۔ طلال، آمائے بھالو باسو۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے طلال کے گرد اپنی بانہوں کی گرفت مضبوط کر لی۔ خود سپردگی پر بھی آمادہ ہو گئی تھی۔
لیکن اچانک میں نے محسوس کیا کہ طلال کے لہجے میں ترشی آ گئی ہے، ”پیار کروں! مرد بن کر!“
”ہاں طلال، مرد بن کر! طلال تم مرد بن جاؤ۔۔۔“ میں اصرار کرتی گئی۔
ملاح نے گردن موڑ کر ترچھی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ ہونٹوں میں دبی ہوئی بیڑی کا ایک لمبا کش لیا اور بچے ہو ٹکڑے کو ندی میں تھوک کر، مسکراتا ہوا ہولے ہولے پتوار کھینچنے لگا۔
طلال خود کو میری گرفت سے آزاد کراتے ہوئے بولا، ”میری ماں بھی یہی چاہتی ہے اور جب بھی وہ اپنی اس چاہت کا اظہار کرتی ہے، تو میں اس سے پوچھ بیٹھتا ہوں۔ ماں، مجھے مرد بناکر تو اپنی کس خواہش کی تکمیل چاہتی ہے؟ اور میرے جواب سے وہ اداس ہو جاتی ہے۔ آنکھوں میں آنسو بھرکر کہتی ہے، بیٹا، میری تمنا ہے کہ جیسے دوسرے لوگ سماج میں سر اٹھاکر زندگی گزارتے ہیں، تو بھی ویسے ہی سر اٹھا کر زندگی گزارے اور میں اسے سمجھاتا ہوں، نہیں ماں، زندہ رہنے کا مقصد دوسروں کی تقلید نہیں، بلکہ اپنے طور پر جینا ہے۔ میں بھی سر اٹھا کر جینا چاہتا ہوں، اپنے طریقے سے۔“
”طلال، تمہاری یہ فلسفیانہ باتیں میرے پلے نہیں پڑنے والی۔ میں تو صرف یہ سمجھتی ہوں کہ تمہاری ماں ٹھیک کہتی ہے۔ تمہیں مرد بن جانا چاہئے۔“ میں نے بانہیں اس کی گردن میں ڈالتے ہوئے کہا، ”ہاں طلال، تمی پرش ہوئے داں ڑاؤ، مرد بن جاؤ۔ اپنی ماں کی خاطر، اس سماج کی خاطر، میری خاطر۔“
”تاکہ تو اپنا چیلنج۔۔۔“ طلال کہتے کہتے رک گیا۔
”نہیں اب کوئی چیلنج نہیں، کوئی جیت نہیں، کوئی ہار نہیں، صرف پیار! اور کچھ نہیں! طلال، مجھے پیار کرو۔“ میں اسے بانہوں میں بھر کر بھینچنا چاہتی تھی۔
طلال نے میرا ارادہ بھانپ لیا۔ مجھے نصیحت کرتے ہوئے بولا، ”نہیں، گل ناز تیرا یہ پیار فریب ہے! ہوس ہے! جنسی بھوک ہے۔“
میں نے اعتراضاً بانہیں اس کی گردن سے ہٹا لیں اور کہا، ”طلال، خداکے واسطے میری محبت کو گالی نہ دو۔ میں سچ مچ تم سے پیار کرنے لگی ہوں۔“
طلال کچھ دیر خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ وہ کبھی اس کنارے کو تکتا تھا، کبھی اِس کنارے کو۔ اس کے بعد دائیں ہاتھ کی انگلیاں ہتھیلی کی جانب موڑ کر ناخنوں پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا، ”تو مجھ سے سچ مچ پیار کرتی ہے؟“
میں نے فوراً سر ہلا کر ہامی بھری۔
اس نے گمبھیر لہجے میں کہا، ”تو پھر وعدہ کر کہ مجھے کبھی مرد بنانے کی کوشش نہیں کرےگی! وعدہ کر کہ مجھے ویسے ہی قبول کرےگی جیسا میں ہوں۔“
اور تبھی ایک ہچکولا اٹھا۔ کشتی ڈگمگا گئی۔
میں نے دیکھا، پولی تھین کی تھیلیاں، پھول کی مالائیں، پوال کی گانٹھیں، بانس کی ٹھٹریاں، آبی پودے جو کچھ دیر پہلے شمال کی جانب بہہ رہے تھے، اب جنوب کی جانب بہنے لگے ہیں۔
پانی کے بہاؤ کا رخ بدل چکا تھا! ندی اترنے لگی تھی!
(ایوانِ اردو، دہلی، اگست ٢٠١٠ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.