میگی
اواخر اپریل کی چمکدار دوپہر تھی۔
امین تھوڑی دیر کے لیے دفتر سے اٹھ آیا تھا۔ کھانے کا وقت ہونے کے باعث بازار میں چہل پہل کم تھی، سڑک پر لوگ نہیں تھے۔ شور تھا۔ جتنے ہوٹل اور ریستوران تھے سب کے ریڈیو سیٹ مختلف سٹیشنوں کے پروگرام سنا رہے تھے۔ پھر دھوپ کی ہر لحظہ بڑھتی تمازت۔ وہ بازار کے اس سرے سے اس سرے تک بغیر کسی مقصد کے، چلتا رہا۔
یوں ہی بےکار۔۔۔ ایک ہوٹل میں گھس گیا۔ کھانے پر لوگ اس طرح ٹوٹے پڑے تھے گویا دنیا میں اس سے اہم کام کوئی نہیں۔ مگر وہ ویٹر کو اپنے پیچھے چلاتا چھو ڑ کر فوراً باہر آ گیا۔
پنواڑی کی دکان کے بڑے آئینے میں اس نے اپنی صورت کو غور سے دیکھا۔۔۔ پٹ سن جیسی پیلی چمک دار مونچھیں اور آنکھوں کی چھدری پلکیں چہرے پر بیزاری۔۔۔ امین مڑنے کو ہی تھا کہ پنواڑی نے آواز دی۔
’’صاحب! گلوری۔‘‘
اچھا خاصا، لگا ہوا گاہک مڑا جاتا تھا، امین رک گیا۔
’’چلو۔ دے دو۔‘‘
وہ حسب معمول مسکرا نہیں رہا تھا۔ اس نے منہ کھول دیا جیسے کوئی کڑوی کسیلی دوا کھانے پر مجبور ہو۔ بوڑھے پنواڑی نے مسکراتے ہوئے ہاتھ روک لیا۔
’’دیکھئے صاب! یوں نہیں۔ مسکرا کے کھائیے۔‘‘
یگانگت اور لہجے کے الھڑ پن کو سن کر امین ہنسی نہ روک سکا۔
’’ہاں۔۔۔ یوں۔‘‘
پنواڑی نے نفاست سے گلوری امین کے منہ میں رکھ دی اور اس کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔
’’کیا بات ہے صاحب! جی تو اچھا ہے۔‘‘
پنواڑی کے رویے میں ہمدردی تھی۔ امین کو اداس دیکھ کر اس کا دل ہو ل گیا تھا۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں بڑے میاں۔ شکریہ۔۔۔ تم مجھے ہمیشہ بڑے فنکار نظر آتے ہو نہ معلوم کیوں!‘‘
امین نے ادھر کی بات ادھر جوڑی۔ وہ موضوع بدلنا چاہتا تھا۔
’’تم ہمیشہ زیادہ پیسے لیتے ہو۔ پان کے دام لیتے ہو یا فن کے؟‘‘ امین بڑے میاں کو پیسے دیتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ اسے پنواڑی کے پان کھلانے کی یہ ادا ہمیشہ عجیب لگی اور اچھی بھی اس ادا کی اصل کہا ں ہے؟ وہ ہمیشہ سوچتا۔
’’ارے واہ بابو! فن کی قیمت کون دے سکتا ہے؟ یہ اصلی مال ہوتا ہے۔ اس کے بھاؤ اس زمانے میں نہیں لگتے۔‘‘
بڑے میاں صافی سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اترا رہے تھے۔ امین نے جیب سے سگریٹ نکالی۔ سلگتے ہوئے رسے کے سرے سے سلگائی اور چل دیا۔
رولدد پنواڑی شہر کا سب سے عجیب پان سگریٹ والا تھا۔ وہ پان کے پتے کے ساتھ اپنا مخصوص مشرقی فلسفہ بگھارتا۔ پرانے گاہک کے ساتھ کھل کر باتیں کرتا۔ نئی روشنی کے بابو لوگ دل لگی کے لیے اس کے پاس رکنا اور باتیں سننا پسند کرتے تھے۔ وہ پان میں تازہ مکھن کی انگلی لگاکر گلوری بناتا تھا اور اس کی گفتگو مکھن سے کہیں زیادہ نرم اور طراوت بخش ہوتی۔۔۔ ’’میاں! مکھن خشکی دور کرتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ سب کچھ رخصت ہو جائےگا۔ سارے لوگ ہر شے میں ملاوٹ کرنے لگے ہیں۔۔۔ اور پھر پان۔۔۔ کھانے والے کتنے رہ گئے ہیں۔‘‘
رولدد کو بدلتے ہوئے حالات سے گلہ تھا۔ امین نے ایک روز اسے سمجھایا بھی تھا کہ یہ تجرباتی دورہے۔ ملاوٹ اور امتزاج کے نتیجے کے طور پر جو کچھ ہمیں حاصل ہوتا ہے اس سے ہماری تخلیق کی جس کو تسکین ملتی ہے اور ہم علم اور جدیدیت سے ہمکنار ہو کر اپنی ذات سے قطعی مطمئن ہوں نہ ہوں ہمیں گونہ تسلی ضرور ہو جاتی ہے کہ ہم نے کچھ تو کیا جو اس سے پہلے نہیں تھا اور رولدد بھی تو پان میں مکھن لگاتا ہے۔ یہ اور اس قسم کی معقول وجوہات سن کر رولدد لاجواب ہو گیا تھا اور امین کی قدر کرنے لگا تھا۔ اب وہ اکثر فارغ وقت میں تبادلہ خیالات کرتے۔
آج امین کا دل کام میں نہ لگا اور پنواڑی سے دو باتیں کرنے کو بھی نہ چاہا۔ وہ اداس تھا۔ بس اس کے حواس پر چھوٹے بڑے گلابی ہاتھ چھائے ہوئے تھے جو یکایک چھوٹے جاتے تھے، اندراج کے رجسٹرکے صفحوں پر چاندی کا نازک لاکٹ تڑپتا رہا اور کام ادھورا چھوڑ کر چلا آیا۔۔۔ اس کا ذہن بری طرح گڈمڈ ہو رہا تھا وہ جا رہی تھی۔
میگی جا رہی تھی۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مہینے کی آخری تاریخیں۔۔۔ جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔۔۔ اور وہ تھا اور کئی مہینوں کا ساتھ دفعتہ چھوٹ رہا تھا۔
میگ! میگ! محبت کرنا گناہ تو نہیں۔ کسی بھی شریعت میں کسی قانون میں۔ پھر تم کیوں جا رہی ہو۔۔۔؟ اچانک۔۔۔ یوں۔۔۔ اس طرح۔۔۔ امین پان چباتا، سوچتا رہا تھا۔۔۔ پھر وہ واپس ہوا اور بنک سے سو روپے ایڈوانس لے کر سونا بازار کی طرف چلا گیا۔
اسے میگی کو کوئی نہ کوئی تحفہ تو دینا تھا۔۔۔ اس سے پہلے دئیے گئے تمام تحفوں سے بڑھیا۔
ستمبر کی کسی تاریخ کو بڑے بازار میں گزرتے ہوئے اس سے میگی کی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ ایسے ہی اچانک جیسے وہ اب جا رہی تھی۔۔۔ اپنا بوریا بستر کمر پر لا دے چھوٹے سے قد کی اجنبی لڑکی۔۔۔ سرمہ بیچنے والے کو سمجھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اکیلی۔
سرمے والا، میم صاحب میم صاحب کی رٹ لگائے جاتا تھا۔ امین اپنی ٹیبل کا کام بھگتا کر ذرا ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے بازار میں چلا آیا۔ شام کو نوجوان کلرک طبقے کی طرح تھکی ہوئی آنکھوں کو سینکتے۔ وہ اکثر بڑے بازار میں اس سرے سے اس سرے تک گھوما کرتا۔ لیکن اس وقت دوپہر تھی۔ میگی کو ان پڑھ دکاندار کے ساتھ الجھتے دیکھ کر امین کی رگ حمیت بھڑکی۔ اسے انگریزی آتی تھی۔ اگرچہ وہ بی اے تک کم گواور شرمیلا طالب علم رہا تھا۔ بہر کیف وہ کوشش تو کر سکتا تھا۔ امین ادھر ادھر نظر دوڑاکر جھینپتا ہوا آگے بڑھا۔ میگی دھات کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی چمکدار سرمے دانیاں ہاتھوں میں پکڑے کھڑی تھی اور سرمے والے کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ سلائیاں تم رکھ لو اور نچلے حصے مجھے دو۔ میں گلدان بناؤں گی۔ اتنی لمبی بات میگی کو کہنی آتی تھی نہ سرمے والے کے پلے پڑتی تھی۔ ہاں وہ آٹھ گنا دام لینے کی فکر میں تھا اور کہہ رہا تھا۔
’’میم صاحب، مال بہت گڈ، بہت اچھا۔۔۔ آپ کو ولا یت میں نہ ملےگا۔‘‘ پردیسی گاہک چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے میں مصروف تھا کہ امین نے اپنی خدمات پیش کیں اور سودا سستے داموں طے ہو گیا۔ میگی نے تشکر آمیز انداز سے امین کو دیکھا۔ وہ مسکرایا اور سر کی جنبش سے اپنے کارنامے کی داد وصول کی۔۔۔ اجنبیت کی دیوار سے پہلی اینٹ کھسک گئی۔
میگی نے اسے بتایا کہ وہ سیاح ہے اور اس بڑے شہر میں نووارد تو امین اس کو اس کی قیام گاہ تک پہنچانے پر بھی آمادہ ہو گیا۔ میگی سے تھیلا اور کھانے کا ڈبہ پکڑ کر وہ اس کے ساتھ باتیں کرتا ہوا فخر محسوس کر رہا تھا۔۔۔ اسے خیال گزرا کہ انگریزی بولنے سے کترانا اس کا Complex تھا۔ جو میگی سے گفتگو کے دوران کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
منزل تک پہنچتے وہ ایک دوسرے کو اس حد تک جان چکے تھے جتنا دو باتونی ہم سفر اجنبی طویل سفر کے بعد جان جاتے ہیں اور کسی ایسی انجانی ضرورت کو ذہن میں رکھ کر پتے بھی بدل لیتے ہیں۔
میگی، شوقیہ سیاحت کرنے والی پارٹی کی رکن تھی۔ امین کو یہ معلوم کرکے بہت مسرت ہوئی۔ راستے میں ایک آدھ بار امین تانگہ وغیرہ لینے کے لیے رکا۔ مگر میگی نے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ جگہیں دیکھنے آئی ہے روندنے نہیں۔
اور امین کے لیے یہی غنیمت تھا کہ وہ ایک گوری نسل کی اجنبی لڑکی کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے بولے جاتا تھا۔۔۔ اور کم مائیگی کا احساس قطعاً نہ تھا۔
امین دو چار روز کے بعد میگی سے ملاقات کرنے گیا۔ وہ خندہ پیشانی سے ملی۔ شام کے وقت سڑک پر ٹہلتے ہوئے میگی نے اس کی غلط فہمی دور کر دی کہ وہ انگریز ہرگز نہیں بلکہ ویلش ہے اور ویلش اپنے آپ کو انگریز کہلوانے میں دکھ محسوس کرتے ہیں اور وہ انگریزوں سے ایسے ہی نفرت کرتے ہیں جیسے کوئی محکوم قوم اپنے حاکم سے۔۔۔ وہ زخم جو انگریزوں نے سینکڑوں سال پہلے ویلش قوم کی آزادی سلب کرکے ان کی قوم کے دل پر لگایا تھا آج بھی ہرا ہے۔
میگی کو اگر کوئی انگریز کہتا تو وہ ناک سکوڑ کر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کرتی۔
پاکستان میں درود کے بعد امین پہلا شخص تھا جس پر وہ پورا اعتماد کر سکی۔۔۔ یہ بھوری آنکھوں اور سنہری بالوں والا نوجوان دل سے اداس اور تھکا ہوا سا ہے اور یہ اپنے ملک کے ایک طبقہ کا نمائندہ ہے۔ چند ملاقاتوں کے بعد میگی اس نتیجہ پر پہنچی تھی۔۔۔ اب وہ ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی نہ تھے۔
امین کی معیت میں میگی شہر اور اس کے گردونواح کے قابل ذکر مقامات دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی خاص طور پر جدید شہر کی شان بان دیکھتے ہوئے چیخ چیخ کر اپنے آپ کو سمجھا رہی تھی کہ پاکستان دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ زیورات اور زرق برق لباس میں لپٹی ہوئی۔۔۔ یہاں کی ہر عورت رانی ہے۔۔۔ وہ جس کا ذکر کہانیوں میں سنا تھا اور تخیل نے اس کی تجسیم کی تھی اب وہ اسے چھوکر دیکھ سکتی تھی۔ باتیں کر سکتی تھی۔
میگی عجیب فطرت کی سیاح تھی۔ تصویریں لیتی نہ نوٹ۔۔۔ بس گھومے جاتی اور خوش ہوتی رہتی۔ سیاحت کے بارے میں اس کا اپنا ذاتی نظریہ تھا کہ وہ واقعات اور مقامات جو نہایت حسین اور اثر انگیز ہوتے ہیں ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتے۔۔۔ پھر وہ اپنی خوشی کے لیے دنیا دیکھنے نکلی ہے۔ کتاب دیکھنے کے لیے نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ میگی زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھی۔۔۔ سادہ سا، سچا دل۔۔۔ عام انسانوں کے سے طور اطوار۔ بس وہ انسان تھی۔
اس سیلانی لڑکی سے مل کر خود امین کو یوں لگتا جیسے اس نے ساری دنیا دیکھ لی ہے۔۔۔ انسان سب جگہ ایک سے ہوتے ہیں۔۔۔ فرق حیوانوں میں ہوتا ہوگا۔۔۔ میگی کا بھی یہی خیال تھا۔
رفتہ رفتہ امین کے لاشعور میں مبہم سا خیال جاگزیں ہو رہا تھا کہ اس لڑکی نے دیس دیس، بستی بستی جو خاک چھانی ہے تو اس سے ملنے کے لیے تو نہیں! میگی روشن دماغ قوم کی بیٹی ہے تو کیا؟ محبت کی کہانی کہیں پرانی نہیں۔
میگی کے پیار کا نشہ امین کو ہولے ہولے چڑھا تھا۔ ایسے ہی جیسے بے جان رسی پر کوئی سرسبز بیل چڑھتی چلی جائے اور رسی کا وجود برگ و گل کے نیچے دب جائے۔
اس نشے کا اندازہ امین کو اس وقت ہوا جب میگی نے موسم بدلتے ہی یکبارگی اعلان کر دیا کہ وہ جا رہی ہے۔ اس کی اگلی منزل تاج محل ہے۔ سری نگر ہے۔۔۔ وہ انڈیا جائےگی۔۔۔ امین کی محبت کا تاج محل ٹوٹ کر ڈھیر ہو گیا۔
تاج محل محض ایک مزار ہے جس میں ماضی کی ایک خوبصورت کہانی دفن ہے۔ کیا دل محبت کا مزار نہیں بن سکتا۔ کیا اس میں حسین لمحے کی لاش سنبھالے رکھنے کی گنجائش نہیں۔۔۔ میگی کے فیصلے کے کئی دن بعد وہ اتنا ہی سوچ سکا۔ کیا ہوا جو وہ یوں چھوڑ کر چلی جائےگی اور یہ بھی دکھ کی بات نہیں کہ دیس کی کسی لڑکی نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔۔۔ امین شکل و صورت اور آمدنی کے لحاظ سے معمولی تھا۔ امین کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ وہ ایک پردیسی عورت کو دل دے بیٹھا۔۔۔ کالے کوسوں سے آنے والا رنگ رنگیلا پنچھی۔۔۔ میگی۔۔۔ جس کی آنکھوں میں خلوص دیکھ کر وہ دیوانہ وار چیخ اٹھا تھا۔
میں تمہارے لیے کوئی تشبیہ نہیں تراش سکتا۔ تم اتنی زندہ ہو کہ کسی بےجان چیز کا نام لینا تمہاری توہین ہوگا۔۔۔ ہاں میں یہ کہوں کہ سمندر تمہاری آنکھوں کی مثال ہے اور پھول۔۔۔
کبھی کبھی امین جھنجھلا جاتا۔ روایت سے بغاوت کرکے وہ مطمئن بھی نہ تھا۔ وہ ساری اقدار جو مشرقی عشق کا خاصا تھیں۔۔۔ ملیا میٹ ہوئی جاتی تھیں۔
’’پردیسی پیاسنگ نین جوڑائی کے امتن میں پچھتائی۔‘‘
ایسے گانے اور دوہے یاد کر کے امین کا دل چھوٹنے لگتا۔ بھلا وہ سنجیدہ کیوں ہوگیا۔ کہیں اس ملک سے باہر گیا ہوتا اور کوئی میم پکڑ لاتا تو کوئی بات بھی تھی۔ اب یہاں گھر بٹھائے کوئی دل اڑا کے لے بھاگے! وہ اپنے آپ کو کوستا۔
توہین ہے سراسر توہیں۔ اس نے مشرقی مرد کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ امین نے میگی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ میگی نے اسے ایسے ہی تھام لیا جیسے ایک ملک دوسرے ملک کو تھام لے۔ پر اب امین کی نگاہیں بدل گئی تھیں۔۔۔ ان کا بان میگی کے مضبوط دل پر بھی لگا۔
بہت گھوم چکنے کے بعد وہ شاہی قلعہ کے سرسبز لان میں سستا رہے تھے۔ ٹھنڈی گھاس پر اوندھا لیٹے لیٹے امین کی نظریں میگی کے تھکے ہوئے چھوٹے سے گلابی چہرے پر کچھ یوں پڑیں جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔
پتلے رنگین ہونٹ کے اوپر پسینے کی شبنمی بوندیں۔۔۔ امین کا جی چاہا اس چمک کو اپنی انگلی کی پور میں اچک لے اور اس پنکھڑی کو چھیڑے جو شبنم میں نہا کر حسین تر ہو گئی ہے۔
میگی، امین کی موجودگی سے بے خبر دور دھلے ہوئے نیلے آسمان پر اڑتی ہوئی چیلوں کو تکے جاتی تھی۔ دربار خاص کی محرابوں میں جنگلی کبوتروں کے جوڑے غٹرغوں کرتے پر پھڑپھڑا رہے تھے۔ ان کے پر سیاہی مائل نیلے تھے۔ آسمان کا رنگ نیلا تھا۔ میگی کی آنکھیں نیلی تھیں۔۔۔ آغاز سرما کی بھوری نیلی شام قلعے کے کھنڈرات کی اوٹ میں اترآئی تھی۔۔۔ اداسی، تنہائی، فاصلہ، نیلگوں گہرا۔۔۔ شعلہ، شعلہ، سمندر اور آسمان۔۔۔ امین سوچ رہا تھا۔
’’یا پھر یہ ایک اصل کا پرتو ہے کہ ہر اتھاہ میں جھلکتا ہے۔‘‘
’’میگ۔۔۔‘‘
امین نے سکوت کے سمندر میں کنکری پھینکی۔ انگوٹھے کی پور کو میگی کے ہونٹوں پر نرمی سے پھیرا اور چپ رہا۔
میگی نے دنیا دیکھی تھی اس ٹھہراؤ کی تہ میں متلاطم لہروں کو جانتی تھی جواباً دھیرے سے مسکرائی اور اپنا چھوٹا سا ہاتھ امین کی طرف بڑھایا۔
’’میگ! میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ میگ!‘‘
شروع شروع میں وہ میگی کو اس کے پورے نام مارگریٹ پارسین کہہ کر پکارتا تھا دوستی ہوئی تو میگی کہنے لگا اور اب میگ میگ کہے جاتا تھا۔ سچی محبت کے اظہار کے الفاظ کبھی استعمال شدہ نہیں ہوتے۔ نئے لفظوں سے کہانی نئی بن جاتی ہے جس کی ’’تھیم‘‘ کبھی نئی نہیں ہوتی۔
اس شام وہ دیر تک بازاروں میں پھرتے رہے۔ میگی نے بہت سی چیزیں خریدیں جو خالص مشرقی تھیں وہ امین کو بتاتی رہی کہ جب وہ گھر واپس جائےگی تو ان کی ماں ان سب چیزوں کو دیواروں اور کارنس پر سجائےگی اور تمام قصبہ نمائش دیکھنے آئےگا۔ وہ ہمیشہ ملک ملک کے تحائف لے کر گھر لوٹتی ہے البتہ وہ جرمنی سے کچھ نہ لا سکی تھی۔ یہ جرمنی میں اقتصادی اور سیاسی بحران کے دن تھے۔۔۔ اور ٹرکی میں کسٹم ڈیوٹی پرکھڑے نوجوان آفیسر نے اسے آنکھ ماری تھی اور گذرتے ہوئے کندھے پر چٹکی کاٹ کر گیا تھا اور یروشلم میں اسے اور اس کے ساتھیوں کو جاسوسی کے شبہ میں دھر لیا گیا تھا اوار وہ رات بھر سردی میں ٹھٹھرا کیے تھے۔ کیونکہ ان کے بستر تلاشی کی غرض سے چھین لیے گئے تھے۔۔۔ یہ اور اس کے قسم کے بہت سے واقعات سنا کر وہ امین کو خواب میں جھنجھوڑتی رہی۔
میگی کی اقامت گاہ تک پہنچتے پہنچتے پورنماشی کا چاند افق سے کئی سیڑھیاں اونچا چڑھ آیا تھا۔
چودھویں کا چاند ہو۔
امین نے بے خیالی میں ٹیون گنگنائی۔
رخصت ہونے سے پہلے میگی نے اصرار کرکے پورا گانا سنا۔ وہ امین کے خلوص کا تجزیہ نہ کر پائی تھی۔ مشرقی مرد کے اظہار محبت کی دھیمی دھیمی سوختہ جاں آنچ جو راکھ نہیں کرتی، لگاتی ہے۔۔۔ اس نے اس آنچ میں اپنے آپ کو پگھلتا ہوا محسوس کیا۔
رات کو اپنے بستر پر لیٹی ہوئی وہ اپنے ہاں کے مردوں کا مقابلہ امین سے کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہاں آغوش محبت یوں ہولے ہولے کھلتی ہے جیسے کوئی غنچہ کھلتا ہو۔
’’غنچہ۔‘‘
اچھی تشبیہ ہے۔ وہ آپ ہی آپ مسکرائی۔ امین کی یاد اور بدن کی باس اس کے حواس پر مسلط تھی۔
تھوڑی دیر پہلے امین سے سنے ہوئے گانے کے بول کا ایک لفظ بھی اس کے حافظے میں نہیں تھا۔ ہاں لے اچھی تھی اور پورے چاند کا ذکر تھا اور جوش جنوں میں امین نے اس کا منہ اونچا کرکے کہا تھام۔۔۔ تم بھی پورے چاند جتنی حسین ہو۔۔۔ یہ سن کر میگی اترانے کی بجائے زوردار قہقہہ لگا کر ہنسی۔
God Forbid How Rediculous پورے چاند جتنا گول اور چپٹا چہرہ۔۔۔
امین کو غصہ آ گیا اور اس نے میگی کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔
’’الو کی پھٹی۔۔۔‘‘
پھر ترجمہ کیا۔ میگی کھل اٹھی۔
’’ہاں یہ اچھی تشبیہ ہے۔‘‘
اب کے امین کو اس کی بےوقوفی پرہنسی آئی۔ میگی اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر چیخی۔
’’ہاں ہاں۔ ہم اہل مغرب الو کودانائی اور دور اندیشی کی علامت سمجھتے ہیں۔‘‘
پھر وہ دونوں بغلگیر ہو کر قہقہے لگاتے رہے اور یوں ایک فاصلہ اور بعد جو باتوں سے اچانک پیدا ہو چلا تھا۔ کم سے کم ہو گیا۔
تاریخی مقامات کی سیر کے بعد میگی امین کو بار بار کہتی تھی کہ تمہاری قوم بلاشبہ عظیم۔۔۔ چھوٹی اینٹوں سے لے کر بلند میناروں تک۔ سب تمہاری عظمت رفتہ کی گواہی دیتے ہیں اور یہ سب کچھ پختہ ہیں۔
امین کے ذہن پر میگی تمام گفتگو میں سے صرف ایک بات چسپاں ہو کر رہ گئی۔
’’عظیم قوم تھی۔‘‘
پل بھر کی ساری رواداری اور محبت جو وہ سات سمندر پار کی حوا سے رکھتا تھا۔ دب کر رہ گئے اور وہ چلاکر بولا۔
’’ہم اب بھی ہیٹے نہیں۔۔۔ تاریخ کو نئے رنگ سے دہراتے ہیں۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے اس حقیقت کو اب محسوس کیا کہ یہ دنیا فانی اور آنی جانی ہے۔۔۔ پکی عمارتیں بنانا فضول ہے۔۔۔ خالص ذاتی گھروں کی بات دوسری ہے۔ ان میں بیوی بچوں کو دن رات رہنا ہوتا ہے۔۔۔ ان کی آسائش کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
وہ بولتا چلا گیا۔ میگی نے ایک جھرجھری لی اور امین کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوئی۔ مگر اب وہ خاموش تھا۔ گویا اس کے پاس باتیں ختم ہو گئیں۔ سارے دلائل ہاتھ سے جاتے رہے۔ میگی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ امین نے اس پر آنکھیں رکھ دیں۔۔۔
پیپل کے پتوں کے پیچھے پہلی تاریخوں کا پہلا چاند پٹ پٹ تکے جاتا تھا۔۔۔ وہ کالی جینز میں پھنسی ہوئی ٹانگیں پسارے ہاتھوں کے سہارے لان پر بیٹھی تھی۔ اس کے گلے میں لٹکتے ہوئے چاندی کی چین کو چاند کی چور کرنیں چمکا رہی تھیں۔
تمہارے دیس میں حسن ہے۔ ہر طرف بکھرا ہوا۔ پریشان۔ یہ بکھراؤ دیکھنے والے کو مدہوش کر دیتا ہے۔ نہ معلوم مجھے ایسا کیوں لگتا ہے، کہ تم سب مدہوش ہو۔۔۔ امین!‘‘
امین پھیکی طنزیہ ہنسی ہنسا۔
یہ لاکٹ اس کے پہلے یار کی نشانی ہوگا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔
امین تم نے ٹینی سن کی Lotus Eaters پڑھی ہے۔ پس تم ’’لوٹس ایٹر‘‘ہو۔۔۔‘‘
امین کے اعصاب کھینچ گئے۔ اسے تاؤ آ رہا تھا۔۔۔ وہ اس کے جذبات مجروح کرنے کے موڈ میں کیوں تھی۔۔۔ خلوص معیشت اور سیاست سے کہیں بلند تر چیز ہے۔۔۔ یہ اپنی اور اس کی ذات کے بارے میں کیوں نہیں سوچتی اس کے متعلق کیوں نہیں کہتی۔ عورت باہمی رشتے اور ذات سے الگ ہو کر سوچنے لگے تو وبال بن جاتی ہے۔
امین چڑکر میگی کی باتوں کا جواب دیتا تھا۔۔۔ میگی نے آخری چٹکی لی۔
’’محبت کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی۔ مگر اس کی بقا ذہنی پختگی چاہتی ہے۔‘‘
امین بےنیازی سے بیٹھا درختوں کے پیچھے چاند کو ہولے ہولے اترتے دیکھ رہا تھا۔ فضا خاموش تھی۔ شہرکے بڑے گھڑیال نے دس بجائے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
امین، میگی سے ناراض ہرگز نہ تھا۔ بس اسے شکایت تھی تو اتنی کہ وہ اس کی ذات سے آگے بڑھ کر کیوں سوچتی ہے۔ امین نے اپنے یہاں کی عورتوں کا صرف ایک مرکز خیال دیکھا تھا۔۔۔ مرد۔۔۔ خواہ شوہر ہو یا محبوب۔۔۔ بہت کیا تو تصوف میں پناہیں لینے لگیں۔ وہ اپنے آپ کو بہرطور پھنسائے رکھتی ہیں۔ آب وہوا کا اثر ہے یا مٹی کا؟ وہ اس چکر سے نکلنا پسند نہیں کرتیں۔
ڈوبتے چاند کی دھندلی چاندنی میں وہ میگی کی آنکھوں میں نہ جھانک سکا اور بظاہر ترش لہجے میں بولا۔
’’میگ! ہم دوستی سے سواہیں۔۔۔ جانتی ہو!‘‘
وہ میگی پر جھکا اور میگی نے اپنی پیشانی اس کے ہونٹوں کے قریب کر دی۔۔۔ کسی گنجان درخت میں پرندوں کے پر پھڑپھڑانے کی آواز آئی۔۔۔ امین چل دیا۔
قیام گاہ کے باغ کی چوڑی سڑک پر اسے خوشبو نے گھیر لیا جو میگی کے بالوں کی نہیں تھی۔۔۔ چاند کی کرنوں کے ساتھ کھلنے والے مردا کے سپید پھولوں کی تھی۔۔۔ قیام گاہ سے ملحق گرجا گھرکے قبرستان میں الو بول رہا تھا۔ امین کو چڑیلوں، بھوتوں اور آوارہ روحوں کے خیال کے ساتھ میگی کی بات یاد آئی۔ اس نے لاحول پڑھتے ہوئے ایک بار پھر وہی گالی دی۔۔۔
’’الو کی پٹھی۔۔۔‘‘
دوسرے روز میگی بینک میں آئی تو امین کا چہرہ روٹھے ہوئے بچے کی طرح سوجا ہوا تھا۔ میگی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا اور منہ دوسری طرف پھیر کر لوگوں کے ساتھ انہماک سے گفتگو کرنے لگا۔۔۔ میگی نے آہستہ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پکارا۔۔۔
دفتر آتے ہی میگی کو ٹیلی فون کرنا امین کامعمول تھا۔ صبح نہ ہو سکا تو دوپہر کو۔ بینک کے اوقات کار ختم ہونے تک تین چار بار ضرور ٹیلی فون پر بات کرتا۔۔۔ مگر آج۔۔۔ میگی یہی معلوم کرنے آئی تھی۔
امین نے مڑکر اپنے پیچھے کھڑی میگی کو دیکھا اور کوشش کے باوجود مسکراہٹ کو نہ دبا سکا۔ کھسیانی ہنسی، چہرے پر پھیلی آنکھوں میں ندامت اور اعتراف جرم بن کر تیری۔۔۔ پھر ایک ادھورے قہقہے کے ساتھ اڑ گئی۔
چند ثانیے کے بعد وہ بڑے بازار میں گھوم رہے تھے۔ میگی نے امین کے کندھے کو پھپتھپایا اور کہا۔
’’تمہیں دوستی رکھنے کا سلیقہ آتا ہے۔۔۔ اور ہاں آج مجھے وہی چاند والا گانا۔ رومن رسم الخط میں لکھ دو نا! میں اسے رٹنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ وہ نہایت سنجیدہ نظر آتی تھی۔
میرے جذبات کی سنجیدگی کوکب سمجھوگی میگ! وہ بڑبڑایا۔
میگی چلتے چلتے لڑکھڑا گئی اور اس نے اپنا سارا بوجھ امین پر ڈال دیا۔
کافی ہاؤ س میں بیٹھی وہ دلچسپی سے ہر طرف دیکھ رہی تھی اور چپ تھی۔ پاکستانی گڑیاں اور ماڈل پیکٹوں میں بند میز کے ایک کونے پر رکھے تھے۔
’’امین! یہ خوشی کی بات نہیں کہ دنیا کے تمام انسان ایک کنبے کی صورت اختیار کیے جاتے ہیں۔۔۔؟ تہذیبی اور تمدنی انفرادیت غیر پختہ ذہن کی باتیں ہیں۔۔۔ بچوں کی سی۔‘‘
میگی اپنے طور پر اپنی سوچ سے مسرور اور مسحور امین کی آنکھوں میں تصدیق اور تسلیم و رضا تلاش کر رہی تھی۔۔۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولا کہ اس نے اس قسم کی باتوں کے متعلق کبھی غور نہیں کیا۔
بینک کاری نے سوچنے کی صلاحیت سلب کرلی تھی۔ امین اب صرف اس قدر جانتا تھا کہ اس رقم پر اتنا سود لگےگا اور اس آسامی کو اس حد تک قرضہ دیا جا سکتا ہے۔۔۔ اور معیار زندگی بلند کرنے کے لیے صرف روپیہ چاہیے۔ بوند جتنے وقت میں دولت کی روپہلی نہر نکلے تو زندگی۔ ورنہ کتے کا سا جینا مقدر۔۔۔ تجربے نے اسے یہ سب کچھ سکھا دیا تھا۔ مگر وہ ٹیکٹس نہیں جانتا تھا جو کاروباری زندگی میں نہایت ضروری ہوتے ہیں۔
سامنے کی میز پر ادیب اور شاعر نما وہ شخص کسی زبردست سیاسی، سماجی الجھن میں تھے اور زور زور سے بول رہے تھے۔ وہ بار بار خالی پیالوں کو بجاتے اور بیرے کو بلاتے۔ کبھی ماچس کے لیے کبھی دو عدد سگریٹ اور گلاس بھر پانی کے لیے۔۔۔ پر ان کی بحث کسی نتیجے پر پہنچتی تو کوئی بات بھی تھی۔۔۔ اچانک ان میں ایک گھونسا ہوا میں اچھال کر چیخا۔
میں برٹرینڈرسل کے خیالات کی پرزور حمایت کرتا ہوں۔ خدا کی قسم! اگر خدا نہ ہوتا تو وہ خدا ہوتا۔‘‘ (نعوذ بااللہ)
’’لعنت ہو تم پر۔۔۔‘‘
دوسرے نے بھی اتنی بلند آواز سے جواب دیا۔
قریب تھا کہ وہ برتن اٹھا کر ایک دوسرے کے سر میں دے مارتے لیکن ریسٹوران کے ماحول سے مرعوب پیچ وتاب کھاتے بیٹھے رہے۔ میگی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ امین نے اسے تسلی دی اور سمجھایا کہ وہ لڑ ہرگز نہیں رہے۔ ادب پیدا کر رہے ہیں۔۔۔ نیا ادب مشاہدے مطالعے اور ذہنی اپچ سے زیادہ بحث و تمحیص کا مرہون ہے۔
میگی ہلکے ہلکے قہقہے لگاتی، مخصوص ٹھہرے ہوئے انداز میں دیکھا کی۔ یہ بہت تیزی سے سوچنے والی عورت تھی۔ اتنا تیز کے امین اکثر پیچھے رہ جاتا اور وہ ایسی باتیں کہہ جاتی جن کے متعلق وہ کئی دن بعد سوچتا اور جھنجھلاتا۔
کافی ہاؤس سے نکل کر سڑک پر چلتے ہوئے وہ امین کو بتانے لگی کہ پوری دنیا Teen Agrer Problem سے دوچار ہے۔ کوئی ذہنی طورپر، کوئی مادی طور پر۔
امین نے میگی کو پنواڑی کی دکان سے پان کھلوایا۔ پتے کو چبا کر میگی کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ جیسے اس نے کچھ دریافت کر لیا ہو۔۔۔ نیا اور انوکھا۔۔۔ اس تجربے کے ادراک سے اس کی روح مسرور تھی۔۔۔ امین کا ہاتھ بھینچتے ہوئے وہ زور سے چلائی۔
’’یہ مشرقی ہے۔ خالص مشرقی۔۔۔ اور وہ خوشبو۔‘‘
گوپان کا ذائقہ اس کے لیے کڑوا تھا۔
اس کے بعد وہ جب بھی اس طرف سے گزرتے میگی، رولدد کے ہاتھ سے پان ضرور کھاتی۔۔۔ رولدد دونوں کو اپنی طرف آتا دیکھتا تو گلوری پہلے ہی سے تیار کر لیتا۔ میم
صاحب کے منہ میں گلوری رکھنے کے بعد وہ سرخرو ہو کر اعتماد بھرے انداز سے دیکھتا اور نہایت سلیقے سے بڑ ہانکتا جیسے کسی ملک کا سفیر اپنے قومی کلچرل شو کے لیے تماشائیوں کے سامنے اطلاعات سے بھرپور تقریر کرے میگی کے پلے کچھ بھی نہ پڑتا اور وہ رولدد کو خوش کرنے کے لیے ہوں ہاں کرتی رہتی۔۔۔ رولدد کے من میں کئی بار یہ سکیم آئی کہ وہ میگی سے سرٹیفکیٹ لے کر دکان میں لگائے جس میں لکھا ہو۔
’’وہ میم صاحب ہوتے ہوئے بھی بڑے میاں سے متاثر ہوئی ہے اور خاص طور پر ان کے پان سے۔ قوام کی تو بات ہی کیا؟ اور ان کا پان کھلانے کا انداز۔۔۔ واللہ! دنیا دیکھی، کہیں نہیں دیکھا۔‘‘ رولدد نے امین کے سامنے اپنی تجویزپیش کی مگر امین نے اتنا کہا۔
’’اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔‘‘
اور چل دیا۔ اسے کیا معلوم اس سرٹیفکیٹ سے کاروبار کتنا چمک اٹھے گا۔ یہ سرٹیفکیٹ ذرا شیسے میں جڑوا کر دیوار پر ٹانگ دیا جائے تو دیکھو ساری ماڈرن سوسائٹی ادھر کھنچی چلی آئے اور ایک بار پھر وہ زمانہ لوٹ آئے کہ عطر بیزشاموں میں پان کی خوشبویوں مہکتی پھرے جیسے دلی کے چاندنی چوک کی کنواریاں۔ جن کی موجودگی اور چڑھتے جوبن کے احساس سے اہل دل سرشار رہتے تھے۔ اک باس چڑھی رہتی تھی اک آس بندھی رہتی تھی۔
کام کہنے کہانے اور بیچ بچاؤ کرنے سے چلتا ہے۔ نہیں تو پیسے چڑھا دو۔ چٹکیوں میں چھوڑ پلک جھپکنے تک میں کا چلا لو۔ پر امین یار تو بات ہی موڑ گئے۔۔۔ اس سے کیا ہوتا ہے؟ یہ کوئی جواب تھا۔ رولدد کو انگریزی آتی ہوتی تو وہ خود ہی میگی سے بات کر لیتا۔
ایک روز رولدد اشاروں کنایوں میں مافی الضمیر بیان کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ میگی نے امین سے تفصیل سنی تو وہ بڑے زور سے ہنسی اور ٹوٹی ہوئی اردو میں کہا،
’’پان والا! ٹم بچہ۔۔۔ ٹین ایجر بچہ ہائے۔‘‘
بڑے میاں بڑی معصومیت کے ساتھ مسکراتے ہوئے میگی کی طرف تکے جاتے تھے۔۔۔ میگی نے سوچا اور خوشی کی لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔
اور تم کتنے پیارے بوڑھے ہو۔ تمام دنیا کے بوڑھے اور بچے ایک سے ہوتے ہیں۔ جوانی کو جانے کیا ہو جاتا ہے؟ اس کے بے شمار رنگ ہیں اور اس کے آہنگ کو بقاء نہیں۔۔۔‘‘
میگی نے اپنا ہاتھ امین کے ہاتھ میں تھما دیا۔ بڑے میاں کو شب بخیر کہتے ہوئے وہ چل دئیے۔ امین اس کے ساتھ گھسٹتا ہوا جا رہا تھا۔۔۔ میگی کا ہاتھ خنک تھا اور لرزاں۔ اس کی شفاف آنکھوں میں موٹروں کی روشنیاں جھلملاتی تھیں اور لبوں پرپانکی لالی تھی۔
’’ہمارے ملک کاسنجیدہ تجربہ کار طبقہ چھوکرے چھوکریوں کے مسائل سے پریشان ہے اور تم سب ابھی اس عمر میں ہو۔ اس عمر میں جی ایک ایک خواہش کے احیا کے لیے تڑپتا ہے۔۔۔ اجتماعی شعور سے نابلد انفرادی مسرتوں کا متلاشی ذہن۔۔۔‘‘
وہ بولتی گئی امین نے اس کاہاتھ چھوڑ دیا۔ اب وہ الگ الگ چل رہے تھے۔۔۔
’’امین! میں لنڈن میں سال بھر تک Probation Officer کے طور پرکام کر تی رہی ہوں۔۔۔ اس مسئلے کا مطالعہ میں نے خوب کیا ہے۔۔۔ امین۔۔۔ امین۔۔۔ تم بھی کچھ بولو۔‘‘
اس نے امین کو جھنجھوڑا۔
میں کیا بولوں! میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ میں تمہارے ساتھ صرف تمہاری باتیں کر سکتا ہوں۔۔۔ وہ تم سننا پسند نہیں کرتیں۔ خالص اورینٹل اور اوریجنل باتیں میں کہاں سے لاؤں! ادھر کچھ عرصہ سے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہا اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
امین کو مایوسی اور کم مائیگی کے احساس نے دبا لیا۔ میگی نے پیار سے اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔ اب و ہ دونوں خاموش تھے۔
امین باتیں کرتے کرتے یاس اور نامیدی کے اندھیرے میں غرق ہو جاتا ہے ایسے موقعے پر میگی کے دل میں ایک خاص قسم کا جذبہ ابھرتا کہ وہ اس تھکے ہوئے بھاری سر کو اپنے سینے پر رکھ لے۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو دکھ میں دیکھ کر کرب اور الجھن محسوس کرے۔ وہ الجھ سی جاتی۔ امین کی بھوری آنکھوں میں جھانکتی۔۔۔ خلوص، محبت اور یگانگی کی رو سی چلتی وقت انکے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ اور سینکڑوں صدیوں کا تہذیبی بعد سمٹ کر سانسوں کی رو سے بھی کم رہ جاتا۔
میں بستی بستی گھومتی چلی آئی ہوں۔ امین! شاید تمہارے لیے۔‘‘
میگی رک رک کر کہتی۔
’’تم کبھی نہ جانا۔۔۔‘‘
امین کہتا،
’’اچھا۔۔۔‘‘
میگی لفظ اچھا بخوبی ادا کر لیتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی ادائیگی میں ایک ذائقہ محسوس کرتی ہے جو ناقابل بیان ہے۔ اس کا ارادہ تھا کہ پاکستان میں رہنے کی صورت میں وہ یہاں کی زبان پر کچھ ریسرچ کرےگی۔ اس مقصدکے لیے میگی نے پڑھے لکھے لوگوں سے مشورے بھی کئے لوگ مدد کے لیے فوراً آمادہ ہو گئے!۔۔۔ بالآخر تان ٹوٹی تو یہاں کہ ہماری لسانیات کا مکمل علم حاصل کرنے کے لیے ولایت جانا پڑےگا۔۔۔ تو میگی ایک ہی بار اکھڑ گئی۔
سردیوں کا موسم بھی بیت گیا۔ سردممالک سے آئے ہوئے سیاح موسمی پنچھیوں کی طرح گھروں کو لوٹ رہے تھے یا پھر ان علاقوں کا رخ کر رہے تھے جہاں کی آب و ہوا سازگار ہو۔ میگی کو امین کے خلوص اور محبت نے باندھ رکھا تھا۔ امین کا خیال تھا کہ میگی اگریہ موسم جھیل گئی تووہ اسے شادی کا پیغام دے دےگا۔ یوں جلد بازی کرنا ویسے بھی اوچھاپن ہے۔
میگی کی وجہ سے امین سب کی نظروں میں آ گیا تھا اب بینک کے منیجر صاحب اس کے ساتھ بےتکلفی سے ملتے۔ دو ایک بار تو انہوں نے امین کو میگی کے ساتھ ہوٹل میں مدعو بھی کیا۔ اس کے شریک کار اس سے حسد کرتے۔ کبھی میگی دفترکے اوقات میں امین سے ملنے آتی تو دفتر کے مصروف کار عملے میں جو مخصوص بھنبھنا ہٹ ہوتی ہے، دم توڑ دیتی پھر کوئی فقرہ جڑتا۔ میگی کہاں سمجھ سکتی تھی۔ ہاں وہ نگاہوں کی زبان سمجھتی تھی۔
جب کوئی آنکھ جھوٹ بولتی تو میگی کو نہایت غصہ آتا۔ وہ اس جھوٹ کو تربیت اور ماحول پر محمول کرتی۔ امین بھی کبھی کبھی دل کی بات چھپا جاتا۔ لیکن جھوٹ اس کے چہرے پرصبح کاذب کی طرح ابھرتا۔ عارضی اور دھندلا ایسی کیفیت اس وقت طاری ہوتی جب وہ میگی کی طرف پورے خلوص سے مائل ہوتا۔۔۔ ایک سوال آنکھوں میں ابھرتا۔۔۔ وہ چپ رہتا اور میگی تڑپ کر رہ جاتی۔
’’تم کچھ پوچھنے والے تھے۔‘‘ ایک روز میگی نے پوچھ ہی لیا۔
’’ہاں میں ہر روز پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس نے میگی کے سینے پر لٹکتے ہوئے دل کی شکل کے لاکٹ کو چھیڑا۔ رقابت کی آنچ اس وقت تیز تھی اور میگی کی طرف سے بدظنی کا گمان پختہ تر۔ میگی کتنی بری تھی کہ پہلے محبوب کی نشانی کو سینے سے لٹکائے ایک اور رومان لڑا رہی تھی۔۔۔ جوانی کے موسم میں مذہب اور خدا سے کہیں زیادہ محبوب کی لو لگی رہتی ہے۔ میگی کے بتانے کے باوجود کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ کو چھوڑ چکی ہے اگرچہ اس کے دیس میں وہ اب بھی اس کی راہ دیکھ رہا ہوگا۔ کیونکہ اس نے قول دے رکھا تھا کہ جب تک میگی شادی نہیں کر لیتی وہ اس کی طرف سے مایوس نہیں ہو سکتا۔ امین کا یقین اکثر ڈانواں ڈول ہوتا رہتا۔
کل ہی جب اس نے اپنی واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو امین چپ چاپ لوٹ آیا۔ میگی اپنی طرف سے بڑا فلسفیانہ فقرہ کہہ کر سبکدوش ہو رہی تھی۔
’’میں مشرق میں روشنی کی تلاش میں آئی تھی کہ سورج ادھر سے نکلتا ہے مگر تم سب روشنی کے لیے مغرب کو منہ اٹھائے ہوئے ہو۔‘‘ امین نے اس کے نظرئیے اور فلسفے پر کڑھنے کے بعد ایک ہی رقیبانہ فیصلہ کیا کہ پہلے عاشق نے تو اسے چاندی کا ذلیل ساتحفہ دیا لیکن وہ اسے سونے کا دےگا۔۔۔ پاکستانی دوست کا ہاتھ کسی صورت میں تو بالا رہے۔۔۔ اسی مقصد کے لیے وہ تیز چلتا، سونا بازار کو جا رہا تھا۔۔۔ رولدد پنواڑی کی باتوں اور آئینے نے دل میں خواہ مخواہ مزید ہل چل پیدا کر دی تھی۔ امین کاجی شام کے دھندلکے میں پہلے تارے کی مانند تنہا اور لرزاں تھا۔
بعد میں میگی نے انڈیا جانے کی بجائے اپنے وطن واپس جانے کا پروگرام بنا لیا۔۔۔ روانگی سے چند روز قبل وہ بےحد مصروف رہی۔ ملنا ملانا۔ الوداعی پارٹیاں۔۔۔ پاکستان میں قیام کی آخری شام امین نے اپنے لیے وقف کر نا چاہی۔
’’کل ملوگی؟‘‘ امین نے پوچھا۔
’’نہیں۔۔۔ کل سنڈے ہے اور میں پاکستان میں آخری نماز پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’اور شام کو۔۔۔‘‘
’’شام کو آرام کروں گی۔‘‘
میگی کے لہجے میں عزم کی جھلک تھی۔ جدا ہوتے وقت امین اسے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ میں تمہیں تحفہ دینا چاہتا ہوں۔۔۔ ایک خاص تقریب کے ساتھ۔۔۔ اسے غصہ تھا۔ ناکامی۔ ندامت، رقابت اور دل کا خلا۔ راستہ بھر وہ سوچا کیا۔
گرجا جانا بہت ضروری تھا۔۔۔ مذہب کیا ہے، ایک تربیت کا نام اور محبت۔ فطری جذبہ۔۔۔ ہاں فطرت کو تربیت کے تابع رہنا چاہیے۔۔۔ لیکن میگ کو مجھ سے محبت کیا تھی۔۔۔؟ جانے کیا تھا۔۔۔ فطرت۔۔۔ فطری جذبہ کچھ بھی نہیں اور میگی کبھی بھی نہیں۔۔۔ اور میگی کبھی کچھ فیصلہ کرتی ہے۔ کبھی کچھ۔۔۔ کمینی ہے۔
اوائل جون کی صبح نہایت چمکیلی تھی۔ اونچی دیواروں اور درختوں پر پیلی دھوپ پھیلی تھی۔ گرم ہوا کے جھکڑ سویرے ہی سے چل رہے تھے۔ امین دفتر جانے کے بجائے نہا دھوکر میگی سے ملنے گیا تو پتہ چلا کہ وہ کسی کے ہاں صبح کے ناشتے پر مدعو ہے اور وہاں سے آتے ہی ہوائی اڈے پر چلی جائےگی۔ وہ نوکر کے پاس ایک نوٹ چھوڑ گئی تھی کہ امین ہوائی اڈے پر ذرا جلدی پہنچ جائے۔ بہت سی باتیں کرنا ہیں۔ وہ جل کر رہ گیا۔۔۔ یہ صبح وہ اس کے ساتھ بھی تو گذار سکتی تھی۔ اس قماش کی عورتیں دولت مندوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ بات تھی تو میگی اس مرد کا اتنی نفرت سے کیوں ذکر کر رہی تھی جو ایک شام کو اس کے پیچھے پیچھے ہاسٹل میں پہنچ گیا تھا۔ چوکیدار نے سوچا تھا کہ میم صاحب کا کوئی ملنے والا ہوگا۔ اس لیے روکا نہیں۔۔۔ روشنی میں اجنبی کا چہرہ بغور دیکھ کر وہ ٹھٹکی تو مرد سینکڑوں روپوں کے نوٹ اس کے سامنے گنتے ہوئے شستہ انگریزی میں کہنے لگا۔
تمہیں پاکستان کی چیزیں پسند ہیں۔ تمہیں پاکستانی لوگ پسند ہیں۔۔۔ میں تمہیں نئے نئے لباس اور زیورات سے لاد دوں گا۔ میرے ساتھ چلو۔ بھوکے کلرکوں کے ساتھ کیوں پھرتی ہو۔‘‘
میگی غصے اور نفرت سے چیخی۔۔۔ چوکیدار کے چوکنا ہونے سے پہلے اجنبی اپنی راہ لے چکا تھا۔
اور نئے سال کی بےتکلف پارٹی میں ڈھلتی عمر کے مرد نے میگی کے ساتھ ناچتے ہوئے ایک ثانیے میں پروپوزل دے ڈالا۔
’’میں تمہیں مہارانی بناکر رکھوں گا۔‘‘
میگی تھک کر بیٹھ گئی۔ وہ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے ناچ رہی تھی اور لوگ اسے نئی زندگی کا پیغام دے رہے تھے۔ ایسی اونچی سطح کی پارٹیاں میگ نے اپنے ملک میں کہاں دیکھی ہوں گی۔ اس لیے ہر بات آکر امین کو اور اپنی ہمجولیوں کو سناتی اور کہتی اگر میرا باپ یہاں آکر دیکھے تو وہ مجھے پہچان نہ سکے۔ اسے کیا معلوم کہ اس کی بیٹی یہاں آکر اونچی سوسائٹی کی خاتون بن گئی ہے۔
اصل میں وہ یہاں کی گلیوں اور عوام دیکھنے آئی تھی۔ مگر پلکوں پر بٹھا لی گئی۔ وہ انسان تھی آنسو تو نہ تھی کہ پلکوں کی بالکونیوں سے اتر کر نیچے چلی جاتی۔ جہاں زندگی اندھی اور لولی لنگڑی ہے۔ امین نے بھی اندرون شہر دکھانے کی جسارت نہ کی۔ مبادا وہ دل برداشتہ نہ ہو جائے۔ مگر اب وہ جارہی تھی۔۔۔ وہ چاہتا تھا اس کے بارے میں کم سے کم سوچے۔
سہ پہر کو ہوائی جہاز کی روانگی تھی اور ابھی دن کا ایک بجا تھا۔ ٹیلی فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ ریزیڈنس پر واپس آ چکی ہے۔ امین بجلی کی سی تیزی کے ساتھ پہنچا۔ میگی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
’’میگ تم سچ مچ جا رہی ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’تم تو سری نگر جا رہی تھیں۔‘‘
’’پھر سہی۔۔۔‘‘
’’میگ۔۔۔!‘‘
میگی نظریں نہ ملاتی تھی اور لوگوں سے ملے ہوئے چھوٹے چھوٹے تحائف بن کھولے بن دیکھے پرس میں بھر رہی تھی۔۔۔ امین نے جیب میں پڑی ہوئی ڈبیا کو انگلیوں سے کئی بار چھوا۔
’’میگ میں تمہیں یاد آؤں گا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘
وہ تھکن کا بہانہ کرکے بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور رنگت سرخ ہو رہی تھی۔ میگی کا چھوٹا سا گلابی ہاتھ امین کے بالوں میں چھپ گیا۔ امین نے اسے قریب تر کر لیا۔
باہر کھڑکی کے پاس کھڑا چپڑاسی کہہ رہا تھا۔
’’دیر ہو چلی مس صاحب! ٹیکسی آ گئی۔۔۔‘‘
میگی نے عجلت سے اپنی تصویر امین کی طرف بڑھائی۔ اس پر پتے اور دستخطوں کے علاوہ لکھا تھا۔
’’امین کے لیے۔۔۔ محبت کے ساتھ۔‘‘
امین ایک بار پھر مسکرا دیا۔
ہوائی اڈے پر میگی کے ملنے والوں میں سے کوئی بھی نہ پہنچا تھا۔ وہ کونے میں پڑے ایک صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہ رہے تھے۔ زندگی میں بعض ایسے مقام بھی آتے ہیں جب بھرے ہوئے پیمانے سے کچھ نہیں چھلکتا۔۔۔ کوئی شکوہ کوئی شکایت۔
ضبط ایک مہر۔
ایک بوجھ۔۔۔ کہ جس کے نیچے دب کر سب کچھ دم توڑ دیتا ہے۔
ویٹنگ روم میں بڑی رونق تھی۔۔۔ اناؤنسر کی آواز پر کوئی توجہ نہ دیتا تھا۔ کراچی جانے والے مسافر جہاز تک پہنچ جائیں۔‘‘
میگی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب وہ پریشان نہ تھی۔ امین نے عجلت سے ڈبیا کھول کر سونے کا سادہ چھلا نکالا جو عیسائی دولہا نکاح کے بعد اپنی دلہن کو پہناتا ہے۔ وہ میگی کے ہاتھ بڑھانے کا منتظر تھا۔ میگی کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔۔۔ امین نے بڑھ کر اس کا بایاں ہاتھ پکڑ لیا اور چھنگلیا کے ساتھ والی انگلی میں پہنانے لگا تو میگی نے ہاتھ کھینچ لیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘
’’اس سے زیادہ کی خواہش نہ کروں گا۔‘‘
’’میں اس انگلی میں نہیں پہنوں گی۔۔۔‘‘
امین کے دل پر ایک قیامت گزر گئی۔ وہ پاگلوں کی طرح بکنے لگا۔
’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔ میں پہلے ہی جانتا تھا۔۔۔ یہ لاکٹ۔۔۔ میگی تم۔۔۔‘‘ قریب تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ میگی نے لاکٹ کی ڈبیا کھولی اور امین کی ہتھیلی پر الٹ دی۔۔۔ اس میں مٹی کی ایک ڈلی تھی اور گھاس کی چند پتیاں۔
’’میں جا رہی ہوں۔۔۔ وہاں جا کر بھر لوں گی۔ یہ تم لے لو۔۔۔ یہ میرے دیس کی مٹی ہے اور میرے دیس کی گھاس۔ میرے محبوب۔‘‘
امین نے دیکھا کہ وہ تیزی سے مسافروں کے گزرنے کے خاص راستے کی طرف لپک رہی ہے۔۔۔ اچانک وہ مڑی اور امین کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا۔۔۔ مگر امین شش و پنج میں تھا کہ وہ اس لڑکی کو الوداع کہے یا گالی دے۔۔۔!
پھر اس کا سر اپنے آپ جھک گیا۔ جیسے وہ سجدہ کر رہا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.