دھاردار لمبے دانتوں، تیز نکیلے سینگوں، زہر آلود گرم سانسوں اور کئی کئی ہاتھ والے دو پائے گنڈاسے اور کمانیں سنبھالے بگولوں کی طرح دھرتی پر ڈولنے لگے۔
دانت گردنوں میں پیوست ہو گئے۔ خون کے فوارے ابلنے لگے۔ سینگوں میں جسم گتھ گئے۔ دست وپا چھٹپٹانے لگے۔ پھونکوں سے دور دور تک پیڑ پودے جھلس کر راکھ ہو گئے۔ گنڈاسوں کے وار سے سروں کا انبار لگ گیا۔ کمانوں سے نکلتے تیر آگ برسانے لگے۔ طوفان اٹھانے لگے۔
اس بربریت اور غارت گری کو دویہ استر بھی نہ روک سکے ۔شکست خوردہ اور خوف زدہ دیوتا تھکے ہارے گرتے پڑتے بھگوان برہما کی شرن میں پہنچے اور ہانپتے ہوئے بولے۔
’’اسروں نے ہمیں پراجت کر دیا مہاراج! ہم ان کے اتپات اور اتیاچار سے دھرتی کو نہ بچا سکے۔ سرشٹی کے وناش کو نہ روک پائے۔ پراڑیوں کے پران کی رکشا نہ کر سکے۔ ان کا آتنک بڑھتا جا رہا ہے مہاراج۔ یدی انھیں روکا نہیں گیا تو دھرتی نشٹ ہو جائےگی سرشٹی مٹ جائےگی‘‘۔
بھگوان برہما کی صاف ستھری پیشانی لکیروں سے اٹ گئی۔ چندن کے چاند نما ٹیکے میں دراڑیں پڑ گئیں۔
برہما نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ من چنتن میں ڈوب گیا۔ بندآنکھوں میں پورب، پچھم، اتر، دکھن ایک ایک کر کے ساری دشائیں ابھریں۔ دشاؤں کے گربھ سے کچھ عکس ابھرے۔ عکس تھوڑی دیر ٹھہرے پھر مٹ گئے۔ آخر میں ایک ایسا عکس ابھرا جو دیر تک رکا رہا۔ اس عکس سے شعائیں پھوٹیں۔ بند آنکھیں روشنی سے بھر گئیں۔ اس روشنی کی جھلک برہما کے ماتھے پر بھی سمٹ آئی۔ چندن کا تڑخا ہوا چاند پھر سے ہموار ہو گیا۔
برہما نے اپنی پلکیں کھول دیں۔ آنکھوں کی کرنوں سے دیوتا ؤں کے بجھے ہوئے چہرے بھی جگمگا اٹھے۔
دیر سے چپی سادھے ہوئے بھگوان برہما کے لب بھی وا ہو گئے۔
’’آپ لوگ مہا رشی ددھیچی کے پاس جائیے۔ وہی اس سنکٹ کا ندان کر سکتے ہیں‘‘۔
بھگوان برہما کی صلاح پر دیوتا مہارشی ددھیچی کے پاس پہنچے۔ مہارشی ددھیچی اپنی کٹیا میں دھیان لگائے بیٹھے تھے۔
دیوتاؤں نے ان سے اسروں کے ظلم و جبر ،دھرتی کی تباہی و بربادی ،سرشٹی کی تہس نہس اور اپنی لاچاری و بےبسی کی روداد سنائی تو مہا رشی ددھیچی کا سراپا کپکپا اٹھا ۔ان کا دھیان ٹوٹ گیا۔ وہ چنتن منن سے باہر آئے۔
ان کی فکر مند آنکھوں نے دیوتاؤں کے دیدوں میں راکشسوں کے اتپات سرشٹی کے وناش اور چہروں پر خوف و ہراس اور اضطراب کو دیکھا تو ان کی پلکیں کپکپا اٹھا۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ چہرہ اداسیوں سے بھر گیا۔ انھوں نے اپنے پران تیاگ دیے۔
ان کی ہڈیوں سے تین شستر نکلے:
اجگو، گانڈیو اور سارنگ۔
شنکر نے اجگو، اندر نے گانڈیو اور وشنو نے سارنگ اٹھا لیے۔
پھر سے یدھ شروع ہوا۔
راکشسوں کے سردار برتر اسر اور اس کے ساتھی مہارشی ددھیچی کی ہڈیوں سے نکلے شستروں کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ان کے وار سے دانوؤں کا بدھ ہو گیا۔
سنکٹ ٹل گیا۔ دھرتی ظلم و استبداد سے نجات پا گئی۔ سرشٹی غارت گری سے محفوظ ہو گئی۔ مخلوقات کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہو گیا۔ دیوتاؤں کی چنتا بھی دور ہو گئی۔
سنسار چین کا سانس لینے لگا۔
مگر سمے کے کال چکر نے پھر سے اپنا چکر چلا دیا۔
دانو پھر سے دھرتی پر ڈولنے لگے۔
قتل و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ ہری بھری وادیاں ملیامیٹ ہونے لگیں۔ جان و مال تباہ وبرباد ہونے لگے۔ راکشسوں کی نوچ کھسوٹ، بربریت، دہشت گردی اور غارت گری سے ماحول پھر سے انتشارو اضطراب کا شکار ہو گیا۔ چاروں طرف ہاہاکار مچ گئی۔ چیخ و پکار اور درد و کراہ سے زمین و آسمان دہلنے لگے۔
دیوتاؤں نے ظلم و جبر کو روکنا چاہا مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مدد کے لیے بھگوان برہما کے پاس پہنچے۔
روداد سن کر بھگوان برہما کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
لکیریں گہری ہوئیں
چندن کا ٹیکا تڑخا
آنکھیں بند ہوئیں
بند آنکھوں میں بہت سارے عکس ابھرے
مٹے
آخرکار ایک عکس ٹھہر گیا
اس عکس کے ٹھہرتے ہی بھگوان برہما کے ہونٹ کھل گئے:
’’مہارشی ددھیچی کے پاس جائیے۔ وہی اس سنکٹ سے مکتی دلاسکتے ہیں‘‘۔
’’پرنتو مہارشی ددھیچی تو کب کے پران تیاگ چکے ہیں مہاراج!‘‘
دیوتاؤں نے برہما کو یاد دلایا۔
بھگوان برہما سر ہلاتے ہوئے نہایت پر اعتماد لہجے میں بولے۔
’’یہ ستیہ ہے کہ مہا رشی ددھیچی نے اپنے پران تیاگ دیے تھے پرنتو کیا یہ سمبھونہیں ہے کہ جس پرکار اسروں نے پنر جنم لیا ہے مہارشی ددھیچی نے بھی پنر جنم پراپت کیا ہو ؟‘‘
’’اوشیہ سمبھوہے مہاراج !‘‘دیوتاؤں نے ایک آواز ہو کر بھگوان برہما کی بات کی تائید کی۔
’’تو پھر جائیے، مہارشی ددھیچی کو ڈھونڈیے، ولمب مت کیجیے انیتھا ۔۔۔
’’مہاراج ہم انھیں پہچانیں گے کیسے ؟‘‘ ایک کم عمر دیوتا نے سوال کیا۔
’’آپ کا پرشن اچت ہے۔ برہما نے اس کم عمر دیوتا کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دھنیہ واد مہاراج!‘‘
’’مہارشی ددھیچی دھیان میں لین ہوں گے۔ مکھ پر تیج اور آکر شن ہوگا۔ آس پاس کا واتاورن پرکاش مے ہوگا۔ وہاں ادبھت درشیہ دیکھنے کو ملیں گے۔ آپ کی بات سن کر وہ ویاکل ہو اٹھیں گے۔ ان کا ماتھا چنتا کی ریکھاؤں سے بھر جائےگا، انتتہ وہ اپنے پران تیاگ دیں گے‘‘۔
بھگوان برہما سے پہچان کی تفصیل سن کر دیوتامہار شی ددھیچی کی تلاش میں نکل پڑے ۔اِدھرادھر بھٹکتے ہوئے وہ ایک مٹھ پر پہنچے۔ مٹھ کا ماحول ایک عجیب طور کے نور سے معمور تھا۔ مٹھ کے صحن میں ایک دلکش چبوترہ تھا۔ اس چبوترے پر ایک رشی دھیان لگائے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ ماتھے پر چندن کا ٹیکا اس طرح چمک رہا تھا مانو چندرما ان کے للاٹ پر خود براجمان ہو۔
انھیں دیکھ کر دیوتاؤں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
دیوتاؤں نے مہارشی ددھیچی کی طرف اپنا منھ کر کے نہایت درد ناک لہجے میں راکشسوں کے ظلم و ستم کا حال سنایا۔ دھرتی پر سرشٹی کی تباہی و بربادی کی روداد بیان کی مگر رشی کی آنکھیں نہیں کھلیں۔ انھوں نے بار بار اپنی روداد دہرائی۔ پھر بھی رشی کا دھیان نہیں ٹوٹا۔ رشی اپنے چنتن منن سے باہر نہیں نکلے۔ ان کے بدن میں کپکپی نہیں پیدا ہوئی۔ان کے پران ان کے جسم سے الگ نہیں ہوئے۔
دیوتا وہاں سے نا امید اور مایوس ہو کر ایک اور رشی کے پاس پہنچے۔ اس رشی کا مٹھ بھی روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ ان کے مکھ سے بھی تیج پھوٹ رہا تھا۔ وہ بھی دھیان میں مستغرق تھے۔ ان کو بھی دیوتاؤں نے اپنا حال سنایا۔ بار بار سنایا لیکن ان کا دھیان بھی بھنگ نہیں ہوا۔ انھوں نے بھی اپنے پران نہیں تیاگے۔
دیوتا ایک اور رشی کے پاس گئے ۔وہاں بھی انھیں مایوسی ہاتھ آئی
دیوتا ایک ایک کر کے روئے زمین پر موجود ان تمام رشیوں کے پاس گئے جن کے اندر وہ نشانیاں موجود تھیں جنھیں بھگوان برہما نے بتائی تھیں مگر کسی بھی رشی کا دھیان نہیں ٹوٹا۔کسی نے پران نہیں تیاگے۔
چاروں طرف سے مایوس ہو کر دیوتا دوبارہ بھگوان برہما کے پاس پہنچے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ بھگوان برہما نے ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’مہاراج! مہارشی ددھیچی نہیں ملے‘‘۔
’’ہاں مہاراج، ہم ایسے سارے رشیوں کے پاس گئے جو دھیان میں لین تھے، جن کے مکھ پر تیج تھا۔ جن کے واتاورن میں پرکاش گھلا ہوا تھا پر نتو کسی کا بھی دھیان نہیں ٹوٹا۔ کسی کے بھی مکھ پر چنتا کی ریکھائیں نہیں ابھریں کسی نے اپنے پران نہیں تیاگے‘‘۔
بھگوان برہما کے ماتھے کاچندنی چاند تڑخ گیا۔ دھیرے دھیرے ان کی پلکیں بند ہوتی چلی گئیں۔
بند پلکوں میں مہارشی ددھیچی ابھر آئے۔
ددھیچی جو ایک منش تھے، جنھوں نے اپنی کڑی تپسیا اور گھور سادھنا سے سدھی پراپت کر لی تھی،
جو اپنے
جپ سے
تپ سے
دھیان اور گیان سے
مہارشی اور مہان بن گئے تھے
جنھوں نے اپنے
یس سے
اگنی کو
وایو کو
ورشاکو
جل کو
تھل کو
آکاش کو
پاتال کو
سب کو
اپنے بس میں کر لیا تھا
ددھیچی جن کی ہڈیوں میں وجر باس کرتے تھے
اجگو، سارنگ اور گانڈیوبستے تھے۔
’’کیا کوئی ایسا رشی نہیں دیکھا جس کے پاس اگنی، وایو، ورشا، جل آکاش، پاتال اتیادی دکھائی دیئے ہوں‘‘۔ اپنی پلکیں کھولتے ہوئے برہما نے سوال کیا۔
’’ایک رشی ایسے اوشیہ دکھائی دیئے مہاراج جن کی انگلی کے سنکیت سے چمتکار اتپن ہو رہے تھے‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’ہاں مہاراج!‘‘
’’تنک وستار سے بتائیے‘‘۔
’’ایک بہت شانت، شیتل، سندر، سکھد استھان پر انوٹھے بھیس بھوشا میں ایک رشی چمچماتے ہوئے چبوترے پر آسن لگائے بیٹھے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ ماتھے سے تیز کرنیں نکل رہی تھیں۔ ایک ہاتھ میں ہیرے کے دانوں والی مالا تھی جسے ان کی انگلیاں تیز گتی سے پھیر رہی تھیں۔ رشی دھیان میں بیٹھے بیٹھے اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلی وبھن دشاؤں میں اٹھاتے اور انگلی کے اٹھتے ہی ادبھوت درشیہ دکھائی دکھائی دینے لگتے۔
کبھی وہ اپنی انگلی کا سنکیت اس اگنی کی اور کرتے جو ایک ہون کنڈ میں دھدھک رہی تھی۔سنکیت پاتے ہی اگنی ترنت بجھ جاتی مانو ہون کنڈ میں اگنی ہو ہی نہیں اور کبھی سنکیت پاکر اس کنڈ کے بھیتر سے جوالا بھڑک اٹھتا۔ اسی پرکار انگلی اوپر اٹھتی توآکاش سے کبھی ورشا ہونے لگتی تو کبھی پتھر برسنے لگتے اور کبھی شستر اور استر گرنے لگتے۔ انگلی نیچے جھکتی تو دھرتی سے پانی کا فوارہ ابل پڑتا۔ کبھی انگلی کے سنکیت سے وایو تیبر گتی سے بہنے لگتی اور کبھی رک جاتی۔ وہاں اور بھی بہت سارے ادبھوت درشیہ اور چمتکار
دیکھنے کو ملے مہاراج !‘‘
’’تو کیا انھوں نے بھی اپنا دھیان نہیں توڑا ؟‘‘
’’نہیں مہاراج! ان کا دھیان بھی نہیں ٹوٹا‘‘۔
بھگوان برہما کی آنکھیں پھر بندہو گئیں۔
بند آنکھوں میں برہمانڈ سمٹ آیا۔
برہمانڈ کے ماتھے پر ریکھائیں ابھرنے لگیں
ریکھائیں جنھیں خود برہما نے کھینچی تھیں
مگر برہما کی آنکھیں انھیں پڑھنے سے قاصر تھیں۔
(افسانوی مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 47)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.