محبوس
دن کے پونے دو بجے تھے، آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ آدھ گھنٹے سے ٹریفک رکا ہوا تھا، لوگ ہارن پر ہارن دیے جا رہے تھے مگر گاڑیاں تھیں کہ آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ بالآخر بہتوں نے انجن بند کرکے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کر دیا۔ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں خوش باش نوجوان اور خوش حال لوگ سارے ماحول سے بے نیاز اونچی موسیقی اور خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ پبلک بس میں رنگ برنگ کپڑوں میں ٹھسا ٹھس بیٹھے ہوئے لوگوں میں چند بار بار کھڑکی سے منھ نکال کر حکومت، ٹریفک پولیس، جلسہ جلوس نکالنے والوں اور ’’وی آئی پیز‘‘ کو زور زور سے گالیاں دے کر اپنا غصہ اتار رہے تھے۔
شاہراہ فیصل پر ایک طرف کچھ قطاروں اور کچھ بے ہنگم طریقوں سے لگی ہوئی گاڑیاں تھیں اور دوسری طرف ایئر پورٹ سے آنے والی سڑک پرمکمل سکون اور سناٹا، وقفے وقفے سے بجنے والی سیٹی اور ہوٹر کی آواز یں فضا میں مزید زہر گھو ل دیتیں۔ لوگ مشتعل ہو کر مزیدگالیوں پر اتر آئے۔
یکایک گرم ہوا کے جھونکوں کے ساتھ پرندوں کی عجیب سی بونے میری توجہ سامنے رکی ہوئی سوزوکی وین کی طرف مبذول کرالی جس میں بھانت بھانت کے پرندے چھوٹے بڑے پنجروں میں مقید تھے۔پنجروں میں گنجائش سے زیادہ پرندے بھر دیے گئے تھے، اتنے کہ انھیں پر پھڑپھڑانے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ اس سوزوکی سے ذرا پیچھے بائیں جانب اسکول وین میں بھی سیٹ کے لحاظ سے زیادہ بچے تھے۔ اس اذیت ناک گرمی میں اگر یہ دو گاڑیاں نہ ہوتیں تو آس پاس کی گاڑیوں کے لیے وقت کاٹنا عذاب بن جاتا۔ بچے بار بار گاڑی آگے بڑھانے کی فرمائش کرتے۔
ایک چھوٹی سی بچی سارے ماحول سے بے نیاز رنگ برنگے پرندوں کو دیکھنے میں محو تھی۔ اس کی پیشانی سے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے مگر آنکھوں میں ان چڑیوں کے لیے محبت بھر اپیغام تھا۔ پرندوں کی حالت قابلِ دید تھی۔ بڑے پرندے پنجروں کی سلاخوں سے جا لگے تھے۔ ننھی منی چڑیاں پھدک پھدک کر کبھی کسی مینا پر جا بیٹھتیں تو کبھی اڑکر کسی دوسری چڑیا کو زخمی کر آتیں۔ بڑی چڑیوں کے لیے پر پھیلانے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ سامنے والی اسکول وین سے ایک بچی نے اپنی کسی دوست کو مخاطب کیا:
’’آ ہا ہا ہا، دیکھو تو کتنا مزا آ رہا ہے۔ چھوٹی چڑیاں بڑی چڑیوں کے اوپر سے اڑ کر جاتی ہیں اور انھیں اڑنے کی جگہ بھی نہیں دیتیں۔‘‘
دوست نے وین کی کھڑکی سے منھ نکال کر جھانکا اور ایک بڑی چڑیا کے نچے ہوئے پر اور زخمی گردن دیکھ کر افسردہ ہوئی۔ پھر کسی سوچ میں ڈوب کر کہنے لگی۔ ’’پنجرے کتنے چھوٹے ہیں، بےچاری چڑیاں پیاس سے بار بار چونچ کھولتی ہیں، میں ہاتھ بڑھا کر اپنے تھرماس کے کپ سے انھیں پانی پلانے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘
’’ایمی سر اندر کرو، گاڑی چل پڑی تو چوٹ آ جائےگی۔‘‘ ایک بڑی بچی نے چھوٹی بہن کو سرزنش کی، چھوٹی مسکرائی۔ ’’اچھا باجی، ہم سے اچھی تو وہ چھوٹی چڑیا ہے، بڑی مار کھا کر تیلیوں سے چپک جاتی ہے اور چھوٹی خوشی خوشی اڑتی پھرتی ہے۔ کاش میں بھی چھوٹی چڑیا ہوتی۔۔۔‘‘
’’میں بھی اس کمزور مینا کی طرح تیلیوں سے چپک کر نہیں بیٹھتی، خون نکال دیتی اس چڑیا کا۔‘‘ بڑی بہن نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
بس کنڈکٹر بچوں کی باتیں سن کر بہت ہنسا اور پائے دان پر پاؤں رکھ کر ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’استاد ہمارا بھی بس چلے تو سارے سپاہی کو اڑ اڑ کر زخمی کر دے۔‘‘ ڈرائیور نے بھی بلند آواز سے کہا۔ ’’اور میرا دل کرتا ہے سارے وی آئی پی کو ختم کر دوں، ٹریفک تو چلتا رہے۔‘‘
’’مس اگلی وین میں تمام پرندے پیاسے ہیں۔ یہ سارے مرجائیں گے نا پانی کے بغیر۔۔۔‘‘ کسی بچی نے وین میں آنے جانے والی کسی معلمہ سے پوچھا۔
’’مس‘‘ نے پریشان ہو کر ایک بار پھر ڈرائیور سے کچھ کہنا چاہا مگر دور دور تک رکی ہوئی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو انجن بند کرکے سڑک پر نکلتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
’’بھائی یہ راستہ کب تک بند رہےگا؟‘‘ ایک دوسری معلمہ نے سڑک پر کھڑے ایک ڈرائیور سے پوچھا۔
’’جب تک وی آئی پی کی گاڑیاں نہیں نکل جاتیں راستہ بند رہےگا۔‘‘ اس نے خون آلود نظروں سے سپاہیوں کو دیکھتے ہوئے سڑک پر نفرت سے تھوک کر جواب دیا۔ بند سڑک پر گرمی سے نڈھال پسینے میں شرابور ایک نوعمر لڑکا ہاتھوں میں پرندوں سے بھرے دو دو پنجروں کو تھامے رکی ہوئی گاڑیوں کی کھڑکیوں پر صدائیں لگانے آ گیا۔
’’پرندے آزاد کرا لو، ثواب کما لو۔‘‘
جب وہ اسکول وین کے قریب آیا تو نسبتاً بڑے بچوں نے کہا۔ ’’ذرا اس سوزوکی وین کے پنجروں کو بھی کھول دو، بیچارے پرندے اڑ کر آزاد ہو جائیں گے۔‘‘
’’ارے کہاں آزاد ہوں گے۔ یہی لوگ پھر پکڑ لےگا نہیں تو گرمی سے خود ہی آزاد ہو جائےگا۔۔۔‘‘ کم عمر کنڈکٹر بچوں کے دکھ سکھ میں مکمل طور پر شریک تھا۔
’’ہم میں اور ان پرندو ں میں کوئی فرق نہیں ہے، زبردستی گاڑی آگے نکالیں تو سپاہی پکڑ لیں گے اور تھوڑی دیر ٹریفک بند رہا تو ہم بھی آزاد ہو جائیں گے۔ جاؤ بچہ سپاہی سے کہو بندے آزاد کرا لو، ثواب کما لو۔‘‘اس بات پر ڈرائیور نے اس لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو معمول کے مطابق صدائیں لگا رہا تھا۔
بچوں کی سمجھ میں شاید اس کی بات نہیں آئی مگر وین میں موجود اساتذہ میں سے ایک نے تشویش ناک لہجے میں کہا، ’’بچوں کے سامنے ایسی باتیں نہ کرو، اب تو گھنٹے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، معلوم نہیں ہم میں سے کتنے سلامت گھر پہنچیں گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد سب کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ بچوں کے خشک لبوں پر پپڑیاں جم گئی تھیں۔ تھرماس خالی ہوچکے تھے۔ ہنستے بولتے بچے بلبلا رہے تھے۔ دونوں اساتذہ نے پریشانی اور بےچارگی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ اتنے میں سیدھے ہاتھ پر معلوم نہیں کیسے سیکیورٹی کی پرواہ کئے بغیر راستہ کاٹ کر کچے پکے راستے پر لڑھکتی ہوئی ایک گاڑی اگلی سڑک پر تیزی سے مڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کی گاڑی سے جناح ہسپتال اور کارڈیو ویسکولر ہسپتال جانے میں بس ایک سڑک حائل تھی۔ ایک ساتھ بہت ساری سیٹیاں بجیں اور بہت سارا گشتی عملہ سامنے آ گیا۔
’’پاگل ہو کیا؟ دیکھتے نہیں سڑک بند ہے۔ ساری دہشت گردی نکال دوں گا۔‘‘ کسی ایک نے دبنگ آواز میں کہا۔
’’ہاں میں دہشت گرد ہوں، گرفتار کرلو مجھ کو، اس وقت میرے لیے میرا باپ .V.V.I.P ہے، ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں، وہ دیکھو، وہ سامنے ہسپتال نظر آ رہا ہے، دو منٹ بھی نہیں لگیں گے، خد اکے لیے جانے دو مجھے۔۔۔‘‘ وہ گڑگڑایا۔
ایک سپاہی نے گھڑی کی طرف دیکھا، واکی ٹاکی پر کسی سے بات کرنا چاہی۔ دوسرے نے غالباً اس کا ارادہ بھانپ لیا اور سختی سے منع کرتے ہوئے بولا:
’’بےوقوف نہ بنو، نوکری سے نکالے جاؤگے۔۔۔‘‘
’’نہیں کرنی مجھے ایسی نوکری۔۔۔ ہم اللہ کے بندوں کو ناخوش کرکے ذرا سے فائدے کے لیے لوگوں کی بددعائیں لیتے ہیں۔ بس دو منٹ سے بھی کم میں یہ نکل لےگا، اس طرف سڑک صاف ہے، کارڈیو ہی تو جانا ہے۔۔۔‘‘
’’دیکھو بیٹا بات مانو۔ پولیس والوں کو جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی بڑا افسر آئےگا اور ایسی کی تیسی کردےگا، تیری بھی اور میری بھی۔۔۔‘‘
’’اور اس کا باپ مر گیا تو۔۔۔؟‘‘
’’اور ہماری نوکری چلی گئی تو ہمارے گھر والے بھوکے مر جائیں گے، اس کی موت اسی طرح لکھی ہوگی۔ چپ چاپ کھسک لو اور اپنے کان بند رکھو۔۔۔‘‘
پہلے سپاہی نے اتنی زور سے سیٹی بجائی کہ اس کا سارا وجود لرز اٹھا۔
تھوڑی دیر میں چڑیوں سے کھچا کھچ بھری وین میں رکھے پنجروں میں بہت سی چڑیاں دم توڑ بیٹھیں۔ اسکول وین کے بچے مزید نڈھال ہو گئے۔ دور دور تک قطار میں لگی کاروں، بسوں اور رکشوں میں بیٹھے لوگوں میں سے بہت سے جاں بہ لب ہو گئے۔
اتنے میں مخالف سمت سے آنے والی بہت ساری گاڑیاں برق رفتاری سے سیٹیوں اور سائرن کی تیز آوازوں کے ساتھ گزرتی چلی گئیں۔ بہت سارے چہروں پر سکون اور اطمینان کے اثرات نمایاں ہوئے۔ جب ایک ایک کرکے ساری گاڑیاں گزر گئیں، سڑک کھول دی گئی، کارڈیو ویسکولر ہسپتال کی طرف مڑنے والی گاڑی خوف اور غصے سے چیختی چنگھاڑتی آواز کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھی۔
شام کے اخبارات چیخ رہے تھے:
’’شاہراہ فیصل پر ٹریفک کا بدترین تعطل، بہت سے مریض وقت پر ہسپتال نہ پہنچنے کی بناء پر جاں بحق، سینکڑوں بچے پانی کی قلت کا شکار۔۔۔‘‘
ان معصوم پرندوں کا کہیں ذکر نہیں تھا جو پر پھڑپھڑاکر زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے تھے۔
اگلے روز اسی سڑک پر سگنل کے پاس دو نوجوان ہاتھوں میں پرندوں کا پنجرہ لیے معمول کے مطابق صدائیں لگا رہے تھے:
’’پرندے آزاد کرا لو، ثواب کما لو۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.