مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے
تنویر نے بٹن دبایا تو اپارٹمنٹ کے اندر دور کہیں گھنٹی بجی۔
ریلیکس۔۔۔ ابوجی ہمیشہ کہتے تھے۔ دروازے کے پیچھے نہ جانے کون ہوگا۔ اس کی پہلی نظر تم پر پڑے تو تم مطمئن اور پراعتماد نظر آؤ۔
کشادہ گیلری میں ایک گہرا سناٹا تھا۔ مہنگے اپارٹمنٹس کی روایتی خاموشی۔ تنویر کو اپنا کراچی والا اپارٹمنٹ یاد آیا۔ بچوں کا ہنگامہ اور ٹریفک کا شور اور طرح طرح کی آوازیں۔
دروازہ ایک ہلکی سی کلک کے ساتھ کھل گیا۔
تنویر نے دروازہ کھولنے والی عورت پر ایک نگاہ ڈالی۔ وہ دراز قد تھی اور ادھیڑ عمری کی دہلیز پر کھڑی ہوئی تھی لیکن اس کے انداز میں وقار تھا اور شاید تھوڑی سی تمکنت تھی جسے تنویر نے اس پہلی نظر میں خوشحال لوگوں کے قبیلے سے تعلق کی علامت سمجھا۔
’’مجھے مسز مہربانو سے ملنا ہے۔‘‘ تنویر نے کہا۔ ’’میں کراچی سے آیا ہوں۔ میرا نام تنویر ہے۔ تنویر اختر۔‘‘
عورت کی نظریں تنویر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
وہ دروازہ کھولتے ہی یوں ساکت ہو گئی تھی جیسے کسی نے اس کو پتھر کی مورتی بنادیا ہو۔ اس کے ملیح چہرے پر حیرت تھی اور چشمے کے نازک فریم سے جھانکتی آنکھوں میں بے یقینی۔
وہ بولی تو اس کی آواز ایک سرگوشی کی طرح تھی۔ ’’تم۔۔۔ تم اختر کے بیٹے ہو۔؟‘‘
تنویر نے سرہلایا۔
کچھ کہے بغیر مہربانو نے دروازہ کھول دیا۔
ڈرائنگ روم ایک چمکتا دمکتا شوروم تھا جہاں ہر چیز ان چھوئی اور قیمتی لگتی تھی۔ کرسٹل کے گلدان اور شوپیس اور دیوار پر نصب جہازی سائز کا ٹی وی۔ تنویر نے اپنا بریف کیس احتیاط سے شفاف شیشے کی چھوٹی میز پر رکھ دیا۔
مہربانو اس کے بالکل سامنے، چھوٹے صوفے پر بیٹھ گئی۔ ’’تم تو باہر گئے ہوئے تھے نا، بارایٹ لاء کرنے۔؟‘‘
تنویر نے اپنی حیرت کو چھپاکر کہا۔ ’’جی آنٹی۔ پچھلے سال آ گیا تھا میں۔‘‘
مہربانو غور سے اسے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔ ’’میں تو سمجھی تھی، رانا صاحب جلدی آ گئے۔ رانا ہاشم۔ میرے شوہر ہیں۔ دروازہ کھولا تو تم کھڑے تھے۔ ایک لمحے کے لیے تو میں۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھر رکی۔ ’’۔۔۔ تم بالکل کاربن کاپی ہو اختر کی۔ تم نے دیکھی ہوں گی پرانی تصویریں اس کی۔۔۔‘‘
’’جی۔‘‘ تنویر مسکرایا۔ ’’ابو کے پرانے دوست تو مجھے چھوٹا اختر کہتے ہیں۔‘‘
مہربانو کو جیسے اچانک کچھ یاد آیا۔ ’’ہاں، ایک بار میں نے فون کیا تھا۔ شاید تین چار سال پہلے۔ مجھے پتہ چلا تھا تمہاری امی کے انتقال کا۔ مگر اس نمبر پر کسی عورت نے کہا کہ اب یہاں اختر صاحب نہیں رہتے۔ کوئی دوسرا نمبر بھی نہیں تھا اس کے پاس۔۔۔‘‘
’’ہم شفٹ ہو گئے ہیں آنٹی۔‘‘ تنویر نے کہا۔ ’’وہ دادا جان والا مکان بیچ دیا تھا۔ اب دوسرے علاقے میں اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں۔۔۔‘‘
مہربانو اداسی سے مسکرائی۔ ’’سب جگہ یہی ہو رہا ہے۔ لوگ پرانے مکان بیچ رہے ہیں۔ پرانے علاقے چھوڑ رہے ہیں۔ خیر چھوڑو، یہ بتاؤ اختر کیسا ہے۔؟‘‘
تنویر نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے اور رک گیا۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے اس نے بہت تیاری کی تھی۔ مگر اب جیسے اچانک اس کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔ وہ سرجھکائے دبیز قالین کے نقش دیکھتا رہا۔
بہت دیر بعد مہربانو نے لرزیدہ آواز میں پوچھا۔ ’’کب۔؟‘‘
تنویر نے بمشکل سر اٹھایا اور کہا۔ ’’چھ مہینے ہو گئے ہیں۔‘‘
’’چھ مہینے۔؟‘‘ مہربانو نے کانپتی ہوئی آواز میں بے یقینی سے دہرایا۔ ’’کیسے ہو سکتا ہے۔؟‘‘
تنویر نے دیکھا، آنسو مہربانو کی آنکھوں سے نکلتے، قطار درقطار گالوں سے گزرتے، ٹھوڑی کی سرحد پار کرکے دوپٹے پر گرتے جاتے تھے۔ وہ کپکپاتے ہاتھوں سے آنسوؤں کی راہ روکنے کی، انہیں صاف کرنے کی کوشش کرتی تھی مگر کچھ بھی اس کے قابو میں نہ تھا۔ وہ کسی طوفان کی زد میں تھی اور اس کا کانپتا بدن اور خاموش گریہ اس کمرے کو یوں ہلائے ڈالتا تھا جیسے کسی آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے ساری زمین ہولے ہولے لرزنے لگتی ہے۔
پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور اس نے تنویر کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ’’میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ وہ تیز تیز قدموں سے، تقریباً بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی۔
تنویر دم بخود بیٹھا رہا۔
سب کچھ ایک خواب جیسا تھا۔ مہربانو کو پہلی بار دیکھنا۔ اس سے باتیں کرنا۔ اسے ابوجی کے رُخصت ہوجانے کی خبر سنانا اور پھر ان آنسوؤں کو دیکھنا جو ایک دل میں پوشیدہ دکھ کو آشکار کرتے تھے۔
تین ماہ پہلے اس نے مہربانو کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کسی سے مشورہ کئے بغیر۔
تین ماہ پہلے تک وہ مہربانو کے وجود سے بھی نا آشنا تھا۔ ابوجی ایک ذہین آدمی تھے۔ ایک کامیاب وکیل۔ تیس برس کی پریکٹس کا اعتماد ان کی شخصیت میں، ان کے قہقہے میں اور ان کی گفتگو میں جھلکتا تھا۔ ایک تنویر ہی کیا، شاید کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اعتماد کی اس فصیل کے پیچھے کیا ہے۔
وہ فولڈر تنویر کو چیمبر کی دیوار گیرا لماری میں ملا تھا جہاں کتابیں بھری ہوئی تھیں۔ قانون کی کتابیں، دنیا بھر کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے، آئینی کتابیں، ثالثی اور خاندانی تنازعات اور کمپنی قوانین کی کتابیں اور انہی کے درمیان شعری مجموعے۔ عزیز حامد مدنی اور مجید امجد اور فیض اور کلاسیکی شاعروں کے مجموعے۔ قانون اور شاعری، دونوں ابوجی کے شوق تھے۔
چمڑے کے اس پرانے فولڈر میں پانچ چھ خاکستری لفافے تھے اور ان لفافوں میں ایک پورا جہاں آباد تھا۔ محمد اختر صدیقی ایڈوکیٹ کی دنیا جس کی خبر کسی کو نہ تھی۔ غزلیں، جو کبھی شائع نہیں ہوئیں۔ بےنام خطوط، جو کبھی پوسٹ نہیں کیے گئے۔ چھوٹی بڑی بےشمار نظمیں، جنہیں تاریخ کے حساب سے ترتیب وار دیکھا جاتا تو ایک داستان کے خال وخد واضح ہوتے دکھائی دیتے تھے۔ تہہ کئے ہوئے پرانے کاغذات، کاپیوں اور رجسٹروں سے پھاڑے گئے صفحات۔ آرٹ پیپر پر کتابت شدہ چند غزلیں۔ کسی ماہر خوش نویس کے ہاتھوں کئی مختلف انداز سے لکھا ہوا عنوان ’’مہروماہ‘‘، جو مجموعہ کلام کا نام ہو سکتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے پرزے، جن پر متفرق اشعار اور مصرعے لکھے ہوئے تھے۔ ایک پرانا شادی کارڈ۔ عزیزی مہربانو ہاشمی کی شادی خانہ آبادی رانا محمد قاسم کے فرزند رانا محمد ہاشم کے ساتھ ہونا قرار پائی ہے۔ ایک خستہ کاغذ، جس پر سبز روشنائی سے بار بار لکھا تھا۔ مہرو ماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے۔ مہروماہ اور اختر، آسماں انہی سے ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والی بہت سی گتھیوں کو وہ بے نام خطوط سلجھاتے تھے جن میں سے کچھ بہت مختصر تھے، کچھ بےحد طویل۔ کئی برسوں پر محیط یہ خطوط ایک تنہا آدمی کے سفر کی داستاں تھے۔ ہجر کی سرزمین پر ختم نہ ہونے والے سفر کی داستاں۔
تنویر اس رات بہت دیر تک جاگتا رہا تھا۔
طرح طرح کے خیالات ہر جانب سے یلغار کرتے تھے۔ کیا ابو کے قہقہے اور محفل آرائی اور چہرے پر چھایا اطمینان، سب مصنوعی تھا۔؟ کیا کوئی آدمی اپنے اند رکی اداسی کو اس خوبی سے چھپا سکتا ہے کہ اس کے ساتھ شب وروز بسر کرنے والوں کو خبر ہی نہ ہو۔؟ پچیس، تیس برس تک خبر نہ ہو۔؟ کون تھی یہ مہربانوہاشمی جس کے بغیر انہوں نے ایک پوری، بھرپور زندگی گزار دی مگر اس کی یادوں کو چمڑے کے ایک پرانے فولڈر میں محفوظ رکھا۔؟ کارڈیو ویسکولر ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ میں اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت انہوں نے کس کس کو یاد کیا تھا۔؟ سوالات تھے جو تنویر کو سونے نہیں دیتے تھے۔ اسے پریشان کرتے تھے۔ ضدی گداگروں کی طرح اس کا دامن کھینچتے تھے۔ یہ سب انہوں نے اپنے اس لاء چیمبر میں کیوں رکھا ہوا تھا جس کا کنٹرول وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کو دے چکے تھے۔؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ اس دنیا میں کم ازکم ایک شخص یہ ان کہی داستان سن لے۔؟
تنویر خیالوں میں گم تھا کہ اچانک پردہ ہلا اور مہربانو کمرے میں داخل ہوئی۔
اس کے پیچھے پیچھے ایک ملازم چائے کی ٹرالی دھکیلتا ہوا آیا۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ مہربانو نے کہا۔‘‘ تم پریشان ہو گئے ہوگے۔ مگر میں بالکل ذہنی طور پر تیار نہیں تھی کوئی صدمہ برداشت کرنے کے لیے۔ اتنا اچانک۔۔۔‘‘ چشمے کے پیچھے وہ آنکھیں تھوڑی سی متورم نظر آتی تھیں۔ تھوڑی سی سرخ بھی۔ وہ یقیناً کسی باتھ روم میں جی بھر کر رو لینے کے بعد ہاتھ منہ دھوکر، تازہ دم ہوکر آئی تھی۔
’’معذرت تو مجھے کرنی چاہیئے۔‘‘ تنویر نے کہا۔ ’’میں اچانک آگیا آپ کو رلانے کے لیے۔۔۔‘‘
مہربانو نے چائے بناتے بناتے کہا۔ ’’اچھا، دیکھو، یہ چائے میں تمہیں یونہی پلا رہی ہوں۔ یہ جو الّم غلّم ٹرالی پر رکھا ہے، اسے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ بھوک خراب ہو جاتی ہے۔ ابھی رانا صاحب آنے والے ہوں گے۔ تم ان سے مل کر، رات کا کھانا کھا کر جاؤگے۔ از دیٹ کلیئر۔؟‘‘
تنویر نے سر ہلایا۔
مہربانو نے کہا۔ ’’دوسری بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھرکو رکی۔’’۔۔۔ میں فی الوقت رونا نہیں چاہتی۔ پتہ نہیں تم سمجھ پاؤگے یا نہیں۔ میں تم سے باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ تم پہلی بار گھر آئے ہو۔۔۔‘‘
تنویر نے کچھ کہے بغیر اپنا بریف کیس کھولا اور اس کے اندر ترتیب سے رکھی کتابوں میں سے ایک نکال کر اٹھ کھڑا ہوا۔ مہربانو کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے کر اس نے کتاب مہربانو کو تھما دی۔ ’’ابو کا مجموعہ کلام ہے آنٹی۔ پچھلے ہفتے ہی چھپ کر آیا ہے۔ ان کے سب دوستوں میں تقسیم کر رہا ہوں۔‘‘
وہ چائے پیتا رہا۔ مہربانو ورق گردانی کرتی رہی۔ کسی صفحے پر وہ ٹھٹک کر رک جاتی تھی۔ کسی پر ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتی تھی۔ کبھی اس کے چہرے پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ کے رنگ سج جاتے تھے۔ کبھی کسی گہری اداسی کے بادل چھا جاتے تھے۔ ایک دو مرتبہ اس نے سرجھٹک کر تیزی سے صفحہ پلٹ دیا۔ کتاب کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس نے کچھ صفحات کو اوپر سے نیچے تک باربار د یکھا اور ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر سایہ فگن رہی۔
کتاب ایک جانب رکھ کر اس نے تنویر پر ایک نظر ڈالی۔
وہ سرجھکائے خاموش بیٹھا رہا۔
مہربانو نے کہا۔ ’’اختر کے جیتے جی تو یہ کتاب نہیں چھپ سکتی تھی۔‘‘
تنویر نے کہا۔ ’’ان کے جیتے جی تو میں یہ غزلیں، نظمیں دیکھ بھی نہیں پایا تھا۔‘‘
’’لیکن اچھا کیا تم نے۔‘‘ مہربانو نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’وقت گزرجاتا تو یہ سب ضائع ہوجاتا۔ اختر کو خبط تھا اپنی شاعری چھپا کررکھنے کا۔‘‘
’’جی، آنٹی۔‘‘ تنویر نے کہا۔
’’بہت خوبصورت کتاب چھاپی ہے تم نے۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’ترتیب میں بھی سلیقہ نظر آتا ہے۔‘‘
’’پبلشر کا کمال ہے آنٹی۔‘‘ تنویر مسکرایا۔ ’’ایک پرانا دوست ہے۔ اسی نے کیا ہے سارا کام۔‘‘
’’اور اس کا نام کس نے رکھا ہے۔؟‘‘ مہربانو کی نظریں تنویر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
’’ابو نے۔ ‘‘ تنویر نے آہستہ سے کہا۔ ’’پرانے کاغذوں میں کچھ ادھورے ڈیزائن موجود تھے۔ کتابت شدہ۔۔۔‘‘
کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی۔
پھر تنویر نے کہا۔ ’’اپنے چیمبر میں سنبھال کر رکھے تھے ابو نے سب کاغذات۔ غزلیں، نظمیں اور نہ جانے کیا کچھ۔ بالکل نجی چیزیں تھیں۔ ایک دو دن تو میری عجیب کیفیت رہی۔ جیسے آدمی بیک وقت شرمندگی اور صدمے کے عالم میں ہو۔۔۔‘‘
’’شرمندگی۔؟‘‘ مہربانو نے تیز آواز میں کہا۔ ’’کس بات کی شرمندگی۔؟ کہ تمہارا باپ شاعری کیوں کرتا تھا۔؟ صرف وکیل کیوں نہیں تھا۔؟ یا اس بات کی شرمندگی کہ وہ عشق جیسی فضولیات میں۔۔۔‘‘
’’اس بات کی شرمندگی۔‘‘ تنویر نے کہا۔ ’’کہ مجھے کبھی پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ابو ایک تنہا آدمی ہیں۔ انہوں نے کبھی پتہ ہی نہیں چلنے دیا۔ ان کاغذات میں اور بھی بہت کچھ تھا آنٹی۔ بے نام خطوط تھے جو تواتر سے لکھے جاتے رہے۔ یوں جیسے کوئی اپنی تنہائی کا اور محرومی کا ریکارڈ مرتب کرنا چاہتا ہو۔ اپنے سینے کا بوجھ اتارنا چاہتا ہو تاکہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکے۔۔۔‘‘
مہربانو اسے غور سے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تم اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے ہو۔ آخر اختر کے بیٹے ہونا!‘‘
دروازے کی اطلاعی گھنٹی اچانک بجی اور پھر بجتی ہی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا، کوئی دروازہ توڑ کر اندر آنا چاہتا ہے۔
’’آگئے رانا صاحب۔‘‘ مہربانو اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’اتنا شور وہی مچا سکتے ہیں۔‘‘
مہربانو دروازہ کھولنے گئی تو تنویر کو وہ خط یاد آیا۔ ابو کے بے شمار خطوط میں سے ایک خط۔ انہوں نے لکھا تھا۔ ’’کبھی کبھی ایک خوف دل کو جکڑ لیتا ہے۔ اگر کبھی اس سے ملاقات ہو گئی تو کیا ہوگا۔؟ زندگی کے اتنے بہت سے برس گزر جانے کے بعد اگر قسمت نے یا کسی اتفاق نے ہمیں ایک دوسرے کے مقابل کردیا تو کیا ہوگا۔؟ خدا کرے، ایسا کبھی نہ ہو۔ خدا کرے، مجھے کبھی نارمل اور خوش وخرم نظر آنے کی اداکاری نہ کرنی پڑے۔ اس کی اداکاری نہ دیکھنی پڑے۔ مگر دُعاؤں سے کیا ہوتا ہے۔ آج تک دُعاؤں سے کیا ہو سکا ہے۔‘‘
دروازہ کھلا اور وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔
خوش قامت، باوقار مہربانو اور ایک بےحد فربہ، بے ڈول رانا ہاشم، جو صورت سے ہی باتونی اور ہنسوڑ اور اپنے عشق میں گرفتار لگتا تھا۔ کڑکڑاتے سفید کرتا شلوار اور سیاہ واسکٹ میں پھنسا ہوا رانا ہاشم۔
’’یہ اختر بھائی کا بیٹا ہے۔‘‘ مہربانو نے کہا۔
’’بھئی اپنا، بہت خوشی ہوئی۔‘‘ رانا ہاشم نے گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اتفاق کی بات ہے بالکل، کہ کبھی ملاقات نہیں ہو سکی اپنا، اختر بھائی سے۔ ‘‘ وہ ہنسا۔ ’’مصروفیت ہی اتنی رہتی ہے۔‘‘
’اپنا، یقیناًاس کا تکیہ کلام تھا۔
’’اختر بھائی کا انتقال ہو گیا ہے پچھلے سال۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’دور کے کزن تھے ہمارے۔‘‘
کزن۔؟ تنویر حیران رہ گیا۔
رانا ہاشم صوفے میں دھنس گیا۔ ’’بھئی دیکھو اپنا، نوجوان۔ میں اتنا شرمندہ رہتا ہوں اپنی بھاگ دوڑ کی وجہ سے۔ نہ اپنے خاندان والوں سے مل پاتا ہوں نہ بیوی کے گھر والوں سے۔ زندگی اپنا، گھن چکر بن کر رہ گئی ہے۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔۔۔ ارے ہاں، پہلے فاتحہ نہ پڑھ لیں اختر بھائی کے لیے۔؟‘‘
دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھائے اٹھائے تنویر نے دیکھا، رانا ہاشم کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے اور اس نے دونوں ہاتھوں کو یوں آسمان کی جانب پھیلا رکھا تھا جیسے اپنی درخواست کی فوری قبولیت کا خواہاں ہو۔ مہربانو نے دوپٹہ سے سر ڈھانپ رکھا تھا اور سرجھکا رکھا تھا۔ پورا منظر عجیب وغریب تھا۔ تنویر نے خود سے کہا۔ عجیب وغریب اور ناقابل یقین۔ جیسے کسی فیملی کورٹ سے ملحق کمرے میں ایک عورت کے دو دعویداروں کو مصالحت کا آخری موقع دیا گیا ہو۔ جیسے۔۔۔ جیسے وہ ابوجی کی نمائندگی کرنے آیا ہو۔ تنویر نے سرجھٹک کر ان خیالات سے جان چھڑائی۔
مہربانو اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’میں کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔‘‘
’’چائے تو پلوادو۔‘‘ رانا ہاشم نے کہا۔ ’’اور یہ ،ٹرالی کہاں لے جارہی ہو۔؟‘‘
’’کچن میں۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’تاکہ یہ آپ سے دور رہے۔ چائے بھجواتی ہوں ابھی۔‘‘
’’ایک گلاب جامن تو دیتی جاؤ۔‘‘
مہربانو نے رک کر ٹرالی میں سے ایک بسکٹ اٹھایا اور رانا ہاشم کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’یہ کیا ہے۔؟‘‘ رانا ہاشم نے کہا۔ ’’میں گلاب جامن مانگ رہا ہوں اور تم۔۔۔‘‘
مہربانو ٹرالی سمیت باہر نکل گئی۔
’’دیکھ رہے ہو تم۔؟‘‘ رانا ہاشم نے کہا۔ ’’اسی لیے سیانے کہتے ہیں اپنا، کہ حق مانگنے سے نہیں ملتا۔ چھیننا پڑتا ہے۔‘‘
تنویر مسکرایا۔ ’’شوگر کا مسئلہ ہوگا آپ کو۔‘‘
رانا ہاشم نے کہا۔ ’’اویار، شوگر کا مسئلہ بالکل کنٹرول میں ہے۔ دوپہر میں انسولین لے چکا ہوں۔ مگر اپنا، تنویر بیٹا، شادی کو بیس پچیس سال گزر جائیں نا، تو یہی ہوتا ہے۔ بیوی گلاب جامن کے بجائے بسکٹ پکڑا دیتی ہے اور اپنا، آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے قہقہہ مارا۔ تنویر بھی اخلاقاً ہنسا۔
اگلا ایک گھنٹہ یونہی گزرا۔ رانا ہاشم کی گفتگو اور قہقہوں کے درمیان اور کیونکہ وہ ایک نہایت باتونی اور اپنے آپ سے عشق کرنے والا اور اپنی کامیابیوں کے نشے میں چور رہنے والا آدمی تھا، لہٰذا اس ایک گھنٹے میں تنویر کو سب کچھ پتا چل گیا۔ ان کے دو ہی بچے تھے۔ بیٹی کی شادی گجرات کے ایک فوجی گھرانے میں ہو چکی تھی۔ بیٹا چار سال سے لندن میں تھا اور تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ رانا ہاشم تعمیراتی ٹھیکیداری کرتا تھا۔ اس کے پاس کروڑوں کی تعمیراتی مشینری تھی جس کی بدولت وہ رہائشی منصوبوں کے اندرونی ترقیاتی کاموں کے اور سڑکوں کے اور پلوں کے بڑے بڑے ٹھیکے حاصل کرتا تھا۔ اس کے بلند قہقہوں کے دوران ہی تنویر کو پتا چلا کہ وہ ہائی بلڈپریشر اور انجائنا کے مسائل سے بھی دوچار ہے اور اسے دنیا کی تمام سبزیوں سے نفرت ہے اور بیشتر ماہر ڈاکٹر نہایت احمق ہیں۔
مہربانو نے جب کھانا لگنے کا اعلان کیا، اس وقت رانا ہاشم اسے بتارہا تھا کہ کتنے وفاقی سیکرٹری اور صحافی اور ارکان اسمبلی اس کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔
کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہی رانا ہاشم نے کہا۔ ’’واہ جی واہ۔ آج تو اپنا، بڑا خاص اہتمام کیا ہے بھئی۔‘‘
’’پہلی دفعہ آیا ہے تنویر۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’کیوں نہ کرتی اہتمام۔؟‘‘
تنویر نے میز پر سجے کھانوں کو دیکھا۔ پلاؤ، شامی کباب، ماش کی دال، بھنا ہوا گوشت۔ حیرت کی کوئی لہر تھی جو اس کے اندرون سے اٹھتی تھی اور سارے بدن میں سفر کرتی جاتی تھی۔ مہربانو نے یہ سارا اہتمام کسی اور کے لیے کیا تھا۔ کسی ایسے شخص کے لیے، جس کی پسند ناپسند کو وہ یوں جانتی تھی جیسے آدمی اپنے ہاتھ کی لکیروں کو جانتا ہے۔
تنویر کی پلیٹ میں پلاؤ ڈالتے ہوئے مہربانو نے کہا۔ ’’پتا نہیں، تمہیں پسند آئےگا یا نہیں۔ اختر کو تو۔۔۔ اختر بھائی کو تو بہت پسند تھا پلاؤ۔‘‘
’’جی۔‘‘ تنویر نے کہا۔ ’’انہیں ماش کی دال اور کباب بھی بہت پسند تھے۔ اور۔۔۔‘‘
رانا ہاشم نے کہا۔ ’’تنویر بیٹا، یہ اپنا، کباب تو دینا ذرا۔ ‘‘
’’بالکل مت دینا۔‘‘ مہربانو نے سختی سے کہا۔ ’’اور یہ گوشت بھی ان سے دور رکھنا۔‘‘
رانا ہاشم نے بے بسی سے کہا۔ ’’او بھائی، کبابوں میں کیا خرابی ہے۔؟‘‘
’’خرابی کبابوں میں نہیں، آپ میں ہے۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’تنویر کی وجہ سے آج آپ کو رعایت مل گئی ہے پلاؤ کھانے کی۔ ورنہ۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ رانا ہاشم نے پلاؤ پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ایک دن آئےگا جب تم اپنا، پچھتاؤگی۔ یہ ساری پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔‘‘
مہربانو کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ ’’اچھاجی۔؟‘‘
’’جس دن رانا مقبول آئےگا۔‘‘ رانا ہاشم ہنسا۔ ’’ہمارا ولی عہد۔ اور اپنے ابا جی کو ان پابندیوں سے آزاد کرائےگا۔ تم اپنا، دیکھتی رہ جاؤگی۔‘‘
تنویر نے دیکھا، مسکراہٹ مہربانو کے چہرے سے یوں رُخصت ہوئی جیسے پیاسی زمین پر چھایا بادل کا مہربان سایہ اچانک ہٹ جاتا ہے اور تیز، تکلیف دہ دھوپ راج کرنے لگتی ہے۔
مہربانو نے سر جھکائے جھکائے کھانا کھاتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’وہ نہیں آئےگا رانا صاحب۔ ‘‘
ذرا دیر کو ایک گہری خاموشی چھاگئی۔ چمچوں کانٹوں کے پلیٹ سے ٹکرانے کی آوازیں اور خاموشی۔
اس خاموشی کو رانا ہاشم نے ایک پھیکے سے قہقہے کے ذریعے توڑا۔ ’’بس چار پانچ مہینے کی بات ہے۔ پرسوں ہی اپنا، اس سے بڑی لمبی بات ہوئی تھی۔ چار پانچ مہینے میں۔۔۔‘‘
مہربانو نے سرد، ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’یہ چار پانچ مہینے کب سے چل رہے ہیں۔‘‘
رانا ہاشم نے چمچے کے ذریعے پلاؤ کی ایک بڑی بوٹی سے لڑتے ہوئے کہا۔ ’’او بابا، انگلینڈ کی پڑھائی ہے۔ اپنا، مذاق نہیں ہے۔ ٹائم تو لگتا ہے۔ یار تنویر بیٹا، تم ہی سمجھاؤ۔‘‘
’’یہ کیسے سمجھائےگا۔ ‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’یہ خود وہیں سے بارایٹ لأ کرکے آیا ہے۔ ‘‘
رانا ہاشم لمحہ بھر کو ساکت بیٹھا رہ گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا۔ ’’اچھا، اچھا، ویری گڈ بھئی۔ یار اپنا، اتنی دیر سے بتایا ہی نہیں۔ کون سی یونیورسٹی تھی بھئی۔۔۔؟‘‘
تنویر نے کہا۔ ’’کنگز کالج ہے جی۔ لندن میں۔۔۔‘‘
’’چوتھا سال ختم ہو رہا ہے۔‘‘ مہربانو کی نظریں اپنی پلیٹ پر مرکوز تھیں۔ ’’اصولاً تو دو ڈھائی سال میں اسے ماسٹرز کی ڈگری مل جانی چاہئے تھی۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اس نے پڑھائی کا جھگڑا پالا ہی نہیں ہے۔ ‘‘
رانا ہاشم نے کمزور آواز میں کہا۔ ’’اب خیر ایسا بھی اندھیر نہیں ہے کہ۔۔۔‘‘
مہربانو نے ایک نظر رانا ہاشم پر ڈالی اور کہا۔ ’’جسے اپنے باپ کی طرف سے ہر مہینے ہزار ڈیڑھ ہزار پونڈ باقاعدگی سے ملتے رہتے ہوں اور جس کے پاس اپنی کار ہو اور جسے معلوم ہو کہ وہ ایک بہت بڑے کاروبار کا وارث ہے، وہ پڑھائی کیوں کرےگا۔۔۔؟‘‘
یاد کے نہاں خانوں سے ایک خیال ابھرا۔ تنویر کو پرانے فولڈر میں محفوظ ایک خط یاد آیا۔ ابو جی نے لکھا تھا۔ ’’دیکھنے میں وہ اتنی نازک سی ہے جیسے کانچ کی بنی ہوئی ہو۔ مگر اندر سے بےحد مضبوط۔ آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ خود میں نے اس نازک سی لڑکی سے ارادوں کو مضبوط رکھنے کے اور غلط بات کو بہ بانگِ دہل غلط کہنے کے کتنے ہی سبق سیکھے ہیں۔ مگر میں اندرہی اندر خوفزدہ رہتا ہوں۔ نہ جانے اس عادت نے اسے کتنا نقصان پہنچایا ہوگا۔ نہ جانے زندگی نے اسے کتنی سزا دی ہوگی۔ کیا خبر، وہ سارا کانچ اب کرچیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہو۔ مگر یہ سب بھی تو ایک مفروضہ ہی ہے۔ محض ایک اندیشہ۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ جیت گئی ہو۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی ذہانت اور اپنی قوتِ ارادی کے ذریعے زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہو۔‘‘
کمرے میں ایک تکلیف دہ سناٹا چھایا ہوا تھا۔
مہربانو نے کہا۔ ’’وہ اس دن واپس آئےگا، جس دن آپ چاہیں گے۔‘‘
رانا ہاشم نے زخمی نظروں سے تنویر کو دیکھا۔ ’’او بھائی، میں تو خود اسے جلد از جلد بلانا چاہتا ہوں۔ لیکن اب اپنا، اس کا کان پکڑ کر تو نہیں لا سکتا۔ جوان بچہ ہے۔۔۔‘‘
’’جوان بچے کیا واپس نہیں آتے۔۔۔؟‘‘ مہربانو کی آواز نرم تھی مگر اس میں تلخی نمایاں تھی۔ ’’تم بتاؤ تنویر بیٹا۔ تم کیوں واپس آ گئے۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔؟‘‘ تنویر نے گھبراکر کہا۔ ’’میں تو بس۔۔۔ پڑھائی ختم ہو گئی تھی اس لیے۔۔۔ پھر ابو یہاں اکیلے تھے۔۔۔‘‘
’’ایک وجہ تو یہ تھی۔ ٹھیک ہے۔‘‘ مہربانو نے کہا۔ ’’دوسری وجہ۔۔۔؟‘‘
تنویر نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ مہربانو اور رانا ہاشم کی نظریں اسی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ رانا ہاشم کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ یوں جیسے کوئی اہم سودا اس کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہو۔ اور مہربانو مطمئن نظر آتی تھی۔ کسی شفیق ٹیچر کی طرح، جو کلاس کو ایک اہم نکتہ ذہن نشین کرانا چاہتی ہو۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا لیکن اس کی آنکھیں جیسے کچھ کہتی دکھائی دیتی تھیں۔ ان آنکھوں میں ایک امید تھی جو لو دیتی تھی اور ایک پیغام تھا جو کسی سرگوشی کی طرح سنائی دیتا تھا۔
تنویر نے اس ایک لمحے میں بہت کچھ جان لیا۔ اس پوری داستان کو سمجھ لیا جو گزر جانے والے وقت کی راہ گزر پر جگہ جگہ بکھری پڑی تھی۔ اس تعلق کی بے پناہ قوت کو دیکھ لیا جس نے برسوں پر پھیلے سارے فاصلے اور ساری دوری کے باوجود ابوجی اور مہربانو کو ایک ریشمی ڈور سے باندھے رکھا تھا۔ چشمے کے نازک فریم سے جھانکتی اس نظر کو پہچان لیا جو تنویر کے چہرے پر مرکوز تھی لیکن دراصل اس چہرے میں کوئی اور چہرہ ڈھونڈتی تھی اور اتفاقات کی بھول بھلیوں میں کسی شرارتی بچے کی طرح بھاگتے اس بھید کو جان لیا جو کسی خاص وقت، کسی خاص لمحے، کوئی خاص ڈیوٹی انجام دینے کے لیے انسان سے اچانک آ ٹکراتا ہے۔
’’دوسری وجہ یہ تھی۔‘‘ تنویر نے آہستہ سے کہا۔ ’’کہ وہاں زندگی بہت سخت تھی۔ اتنی سخت کہ یہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لرزا دینے والی زندگی۔‘‘
کمرے میں ایک سناٹا سا چھا گیا تھا۔
’’پانچ، چھ پاؤنڈ فی گھنٹہ کی چھوٹی چھوٹی ملازمتیں اور ہڈیوں میں اترجانے والی سردی اور ایک نظر نہ آنے والا تعصب اور۔۔۔ اور گھر سے دور ہونے کا اور محروم ہونے کا اور بے سہارا ہونے کا احساس جو آدمی کو ایک مسلسل، کبھی ختم نہ ہونے والے دُکھ سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔‘‘
رانا ہاشم ساکت بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ یوں جیسے کسی لاعلم شخص کے سامنے کوئی تکلیف دہ حقیقت پہلی بار کھلتی جا رہی ہو۔
تنویر نے کہا۔ ’’گیارہ قریبی دوست تھے میرے۔ ان میں سے آٹھ تعلیم مکمل کرتے ہی واپس آ گئے۔ تین وہیں رُک گئے۔ ان تینوں میں سے ایک وزیر اعظم کا بھتیجا تھا۔۔۔‘‘
’’وزیراعظم کا۔۔۔؟‘‘ رانا ہاشم نے تڑپ کر پوچھا۔
’’یس۔ سگا بھتیجا۔ باقی دو بھی بہت دولت مند گھرانوں کے تھے۔ وہاں وہی رک سکتا ہے جسے مین اسٹریم کی اچھی ملازمت مل جائے، اچھی تنخواہ والی ملازمت۔ یا وہ، جسے گھر والوں کی طرف سے خرچا ملتا ہو۔ تیسری کوئی صورت نہیں ہے وہاں رہنے کی۔‘‘
چند لمحے خاموشی چھائی رہی۔
پھر مہربانو نے اچانک کہا۔ ’’کن باتوں میں الجھا دیا ہم نے تمہیں۔ چھوڑو اس قصے کو۔‘‘ اس نے ایک ڈش تنویر کی جانب بڑھائی۔ ’’کئی مہینے بعد میں نے بنایا ہے یہ بھنا ہوا گوشت۔ رانا صاحب کے پرہیز کے چکر میں ایسی چیزیں پکتی ہی نہیں ہیں۔‘‘ وہ آہستہ سے ہنسی۔ یوں جیسے وہ تناؤ بھری فضا اردگرد موجود ہی نہ ہو۔
تنویر کو ایک اور پرانا مکتوب یاد آیا۔ ابوجی نے لکھا تھا۔ ’’وہ روٹھتی بھی ہے تو بس ایک خاص حد تک، ایک خاص وقت تک۔ ایک بےحد سمجھ دار استانی کی طرح۔ کہاں مسکرانا ہے، کہاں آنکھوں کے دریچے میں بےمہری کو سجانا ہے، کہاں خاموش رہ کر نچلے ہونٹ کو دانتوں سے دبانا ہے، کہاں بحث کے دوران اچانک کسی دوسرے کام میں مشغول ہو جانا ہے۔ استانی جانتی ہے کہ کہے بغیر اپنی بات کیسے کہی جائے اور یہ بھی کہ سزا کو جرم سے بڑا نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
تنویر کو کچھ یاد نہ رہا کہ باقی وقت کیسے گزرا۔ وہ کسی اور نگر میں تھا۔ کسی اور دنیا میں۔ بظاہر وہ اسی کمرے میں موجود تھا۔ باتیں کرتا، سوالوں کے جواب دیتا، مہربانو اور رانا ہاشم کی گفتگو غور سے سنتا، اپنی باتوں سے انہیں چونکاتا اور ہنساتا اور حیران کرتا۔ مگر دراصل وہ کہیں اور تھا۔ بیت جانے والی زندگی کی دُھندلی راہداریوں میں ابوجی کی انگلی تھامے، وہ ایک ننھے بچے کی طرح آگے بڑھتا جاتا تھا اور اس نئی دنیا کو حیرت سے اور خوشی سے دیکھتا جاتا تھا جہاں ہر دریچے سے، ہر نیم وا دروازے سے مہربانو جھانکتی تھی اور مسکراتی تھی۔
رات گئے اس نے اجازت طلب کی تو رانا ہاشم نے کہا۔ ’’بھئی اپنا، دیر بہت ہوگئی ہے۔ میں چھوڑ آتا ہوں تمہیں۔‘‘
تنویر نے کہا۔ ’’آپ بالکل تکلف نہ کیجئے۔ سامنے مرکز میں درجنوں ٹیکسیاں۔۔۔‘‘
’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘‘ رانا ہاشم نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر کہا۔ ’’ڈرائیور جا چکا ہے۔ لیکن میں اپنا، خود زبردست ڈرائیونگ کرتا ہوں۔‘‘
وہ گاڑ ی کی چابی لینے اندر چلا گیا۔
مہربانو نے دروازے کے پاس پہنچ کر کہا۔ ’’آتے رہنا بیٹا۔‘‘
’’جی۔ بالکل آتا رہوں گا۔‘‘ تنویر نے کہا۔
مہربانو اسے غور سے دیکھتی رہی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’تم سے بات کرنا، کمیونیکیٹ کرنا اتنا آسان لگتا ہے۔ بالکل اختر کی طرح۔ کہے بغیر میری بات سمجھ لیتا تھا وہ۔‘‘
تنویر خاموش کھڑا رہا۔
مہربانو کے ہونٹ کپکپائے۔ یوں جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو۔ پھر اس نے آہستہ سے، ایک سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’تم۔۔۔ تم میرے بیٹے ہو سکتے تھے۔۔۔ جانتے ہونا۔؟‘‘
تنویر نے ان آنکھوں کو دیکھا جن کی چلمن سے نمی جھانکتی تھی اور کہا۔ ’’میں آپ ہی کا بیٹا ہوں!‘‘
رانا ہاشم اسی وقت چابی لہراتا کمرے میں داخل ہوا۔ ’’چلو بھئی۔‘‘
مہربانو نے تنویر کا ماتھا چوما اور رُندھی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’وعدہ کرو، جب بھی اسلام آباد آؤگے تو یہاں۔۔۔‘‘
’’اوبابا، ضرور آئےگا۔‘‘ رانا ہاشم ہنسا۔ ’’کیوں نہیں آئےگا۔ ایک تو تم عورتوں کو بات بات پر رونا بہت آتا ہے۔ چلو اپنا، بیٹا تنویر، تمہیں بلٹ پروف گاڑی کی سیر کرائیں۔‘‘
تنویر اس کے پیچھے پیچھے باہر نکل آیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.